میرا میانوالی  :  منور  علی ملک کی جولائی  2016 کی فیس بک پر   پوسٹ

میرا میانوالی

رمضان المبارک کے یہی آخری دن تھے- پرنسپل ڈاکٹرغلام سرورخان نیازی نے مجھے دفتر میں بلا کر ایک بزرگ کا مجھ سے تعارف کراتے ھوئے کہا “ ملک صاحب، یہ میرے ماموں ھیں، بلوخیل کے احمد خان نیازی- انہیں آپ سے کچھ کہنا ھےَ “

میں نے ان بزرگ سے کہا “جی ، فرمائیے“

انہوں نے بڑے پیار سے کہا “ پتر، میں اپنا عید کارڈ چھپوانا چاھتا ھوں- آپ مجھے اس کے لیے چند نصیحت آموز اشعار لکھ دیں- لوگ عمل کریں گے تو ھم دونوں کو ثواب ملے گا- عمل نہ کریں تو حق کی بات پہنچانے کا ثواب تو ھمیں مل ھی جائے گا-“

بڑی خوبصورت فرمائش تھی- میں نے دوسرے دن شعر لکھ کر بھجوادینے کا وعدہ کیا تو چاچا نے کہا “نہیں‘ کسی اور کے ھاتھ نہ بھجوانا، میں خود آکر آپ سے لے لوں گا- مجھے اپنے گھر کا پتہ بتا دیں“

میں نے گھر کا پتہ دے دیا- دوسرے دن چاچا ظھر کی نمازکے بعد میرے ھاں آئے- شعر دیکھ کر بہت خوش ھوئے اور وہ شعر اپنے عید کارڈ میں میرے نام کے ساتھ چھپوادیے-

اس کے بعد یہ معمول بن گیا- ھر عید پر میں کچھ نئے اشعار لکھ دیتا اور چاچا وہ اشعار اپنے عید کارڈ میں چھپوادیتے- یہ سلسلہ ان کی آخری عید تک جاری رھا- بہت پیار سے ڈھیروں دعائیں دیتے تھے مجھے-

چاچا احمد خان نیازی بہت وضعدار بزرگ تھے- تعلق بنانا اور نبھانا کوئی ان سے سیکھے- انہوں نے مجھ سے اپنے تعلق میں اپنے صاحبزادوں کو بھی شامل کر لیا- الحمد للہ ان کے سعادت مند بیٹے آج بھی مجھے اپنا بھائی سمجھتے ھیں- ان کے بڑے صاحبزادے شیر افگن خان نیازی اس وقت کرنل تھے-وہ بھی مجھ سے ملنے کے لیے میرے ھاں تشریف لائے تھے-

چاچا کے صاحبزادے ادویات اور کچھ دوسری مصنوعات کے ڈسٹری بیوٹر تھے- چاچا ان کمپنیوں کے گفٹ ، کیلنڈر، ڈائریاں وغیرہ بھی مجھے دیا کرتے تھے- چاچا کی کچھ مزید یادیں کل آپ سے شیئر کروں گا –

آج کی دعا —-
اے اللہ، مجھے معاف کردے، میری مغفرت فرما، مجھ پر رحم فرما، میری مدد فرما، مجھے اچھیی صحت اور عزت کا رزق عطا فرما، اور میرے تمام کام آسان کر دے

میرے واں بھچراں کے محترم دوست حاجی ملک احمد نواز دیار حبیب علیہ السلام سے واپس آ ئے تو فون پر مجھ سے رابطہ کیا- میں ان دنوں لاھور میں تھا- حاجی صاحب نے کہا- “ملک صاحب ، مبارک ھو، آپ کی نعت قبول ھوگئی- میں نے کہا “الحمدللہ، وہ کیسے ؟“
حاجی احمد نواز صاحب نے کہا “ ًمیں روضہ رسول اکرم علیہ السلام پہ حاضر ھؤا تو بے ساختہ میریی زبان پر آپ کی نعت کا ایک شعر آگیا- پھر مجھے کسی اور بات کا ھوش نہ رھا- میں باربار یہی شعر پڑھتا اور روتا رھا- ایسے لگتا تھا جیسے مجھ سے یہ شعر باربار پڑھوایا جا رھا ھے-“ —— سبحان اللہ و بحمدہ-


وھی خوش نصیب شعر، آرائش، مناظر گوندل، چک سیدا، ملکوال-2جولائی 2016

چاچا احمد خان نیازی جب بھی مجھ سے ملنے کے لیے آتے تو کچھ نہ کچھ لے کر آتے- ایک دن میں نے کہا ‘چاچاجی، اول تو آپ یہ چیزیں لانے والا تکلف ہی نہ کیا کریں، اور اگر کوئی چیز دینی بھی ھو تو کسی ملازم کے ھاتھ بھجوادیا کریں- میرے لیے یہی اعزاز کیا کم ھے کہ آپ مجھ پر یہ خصوصی شفقت فرماتے ھیں – اتنی دور سے چل کر مجھ سے ملنے کے لیے آتے ھیں-
چاچانے ہنس کر کہا “بیٹا، دل کی بات ھے، مجھے تم سے مل کر خوشی ھوتی ھے- چیزیں میںں ملازموں کے ھاتھ اس لیے نہیں بھجواتا کہ میں خود تم سے ملنا چاھتا ھوں- چیزیں تو آتی جاتی رھتی ھیں، مجھے جو چیز اچھی لگتی ھے تمہارے لیے لے آتا ھوں- “
ایک دفعہ آئے تو ایک ملازم آم کی پیٹی اٹھائے ان کے ساتھ تھا- میں نے کہا “چاچاجی، یہ تکلفف کیوں؟“
چاچا نے کہا “ تکلف نہیں، میں ادھر آرھا تھا تو راستے میں ایک دکان پر یہ آم دیکھے، مجھے اچھے لگےے اس لیے تمہارے لیے لے آیا“
چاچا کے دیئے ھوئے کچھ گفٹ اب بھی میرے پاس محفوظ ھیں، اور مجھے ان کی یاد دلاتے رھتےے ھیں-
چاچا بہت خوبصورت باتیں کرتے تھے- ایک دن مجھے بتایا کہ میں جب گھر سے نکلتا ھوں تو کچھھ ٹافیاں وغیرہ جیب میں ڈال لیتا ھوں – راستے میں جہاں بھی کچھ بچے کھیلتے نظرآئیں ، میں ایک دو ٹافیاں سب کو دے دیتا ھوں- اس کے علاوہ ایک چھوٹے سے شاپر میں تھوڑی سی چینی بھی ڈال کر جیب میں رکھتا ھوں- جہاں کہیں زمین پر مکوڑے پھرتے ھوئے دیکھوں، چینی ان کے آگے ڈال دیتا ھوں ، کہ لوتم بھی عیش کرو- بہت خوش ھوتے ھیں بچارے-
پھر کہنے لگے بیٹا میں یہ کام اس لیے کرتا ھوں کہ بچےاور مکوڑے معصوم ھوتے ھیں- ان کیی دعائیں ضرور قبول ھوتی ھیں- ھماری اپنی دعائیں تو پتہ نہیں کدھر جاتی ھوں گی، کم از کم ان کی دعاؤں سے تو ھمارا بوجھ کچھ ہلکا ھوجائے گا“
چاچا کی یادیں ایک دو پوسٹس میں سمیٹنا ممکن نہیں- میں نے ان پر ایک مفصل مضمون لکھ ا تھا– کبھی وہ بھی فیس بک پہ شیئر کروں گا- انشاءاللہ—– اپنے والدین کے ساتھ ان کو بھی اکثر ایصال ثواب کرتا رھتا ھوں، کیونکہ بہت کچھ سیکھا ھے میں نے ان سے-2جولائی 2016

گورنمنٹ کالج میانوالی میں میری پہلی کلاس سیکنڈائیر پری میڈیکل گروپ کی تھی- میانوالی کے موجودہ ایم پی اے ڈاکٹرصلاح الدین خان بھی اسی کلاس کے سٹوڈنٹ تھے- امتحان میں صرف دوتین ماہ باقی تھے، اور کورس بہت سارھتا تھا- سٹوڈنٹس نے بتایا کہ جو کچھ پہلے پڑھ چکے وہ بھی اچھی طرح تیار نہیں ھؤا- میرے لیے یہ خاصی مشکل آزمائش تھی- بہر حال اللہ کے بھروسے پر میں نے یہ آزمائش قبول کر لی- کوشش یہ کی کہ کورس اتنا اور اس طرح پڑھا دوں کہ کوئی بچہ امتحان میں فیل نہ ھو-
اللہ کے فضل سے اس کلاس کا ریزلٹ ٩٠ فی صد رھا- اس کی بنا پر میرا شمار اچھے ٹیچرز میں ھونےے لگا- یہ اللہ کا خاص کرم تھا کہ طلبہ مجھ پر اعتماد کرتے تھے-
میں یہ تو نہیں جانتا کہ ٹیچرکی حیثیت میں مجھ میں کون سی خوبیاں تھیں- یہ بات آپ کو میرےے سٹوڈنٹس سے پوچھنی پڑے گی- اپنی خامیاں اچھی طرح جانتا ھوں، اور کل کی پوسٹ میں وھی بتاؤں گا-
قرآن حکیم سے ایک بہت پیاری دعا–
(رب لا تذرنی فردا و انت خیرالوارثین) : مفہوم : اے میرے رب، مجھے تنہا نہ چھوڑ ، تو ھیی بہترین وارث ھے
جو لوگ اصل آیت نہ پڑھ سکیں ، وہ اردو مفہوم ھی پڑھ لیں، کیونکہ اللہ تو ھر زبان جانتا ھے- -33 جولائی 2016

میں کلاس میں سٹوڈنٹس کی حاضری کبھی نہیں لگاتا تھا- حاضری لگانا تو کیا، میں نے کبھی رجسٹر حاضری بھی نہیں بنایا- صرف ایک دفعہ بنایا تھا، مگر دو تین دن کے بعد اس کو کبھی ھاتھ بھی نہیں لگایا-
پڑھانے کے بارے میں میرا ایک اپنا پیمانہ تھا- کلاس میں مجھے اندازہ ھو جاتا تھا کہ میرےے سٹوڈنتس کتنا سبق ھضم کر سکتے ھیں- اس سے زیادہ میں نہیں پڑھاتا تھا- پیریئڈ ختم ھونے سے چند منٹ پہلے کلاس کو فارغ کر دیتا تھا-
ھر پیریڈ کے بعد بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ٹی کلب میں جا کر چائے ضرور پیتا تھا، مسلسل پیریئڈزز کی صورت میں اس وجہ سے اگلی کلاس چند منٹ دیر سے لیتا تھا-
کلاس میں میں خاصا روکھا سا ٹیچر ھؤاکرتا تھا- کلاس روم میں ہنسی مذاق یا ادھر ادھر کی بات میں نےے کبھی نہیں کی- میرے اس روئیے کی وجہ سے سٹوڈنٹس کلاس سے باھر بھی میرے نزدیک کم ھی آتے تھے- جب ایم اے کو پڑھانا شروع کیا تو سٹوڈنٹس کو تھوڑی سی آزادی دے دی کہ وہ کلاس روم سے باھر بھی مجھ سے بات چیت کر سکتے تھے، وہ بھی زیادہ تر کورس کے بارے میں-
پرنسپل جو بھی رھے سرکاری خط وکتابت کاکام مجھ سے ھی لیتے رھے- اس وجہ سے بعضض اوقات کلاس بھی چھوڑنی پڑجاتی تھی-
ان تمام خامیوں کے باوجود اگر میرے سٹوڈنٹس مجھے اچھا ٹیچر کہتے ھیں تو ان کی مرضی- اللہہ ان کا بھلا کرے- –4 جولائی 2016

کلاس میں میری توجہ اس خاموش اکثریت پر رھتی تھی جسے آرٹس سٹوڈنس کہا جاتا ھے- یہ لوگ قابل رحم ھوتے ھیں، ایک تو اس لیے کہ یہ انگلش میں بہت کمزور ھوتے ھیں، ان کی دوسری بدنصیبی یہ ھوتی ھے کہ یہ ٹیوشن کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے- ڈاکٹر اور انجینیئر بننے کے امیدواروں کو تو زیادہ نمبر لینے کے لیے ٹیوشن رکھنا پڑتی ھے، اور وہ افورڈ بھی کر سکتے ھیں- آرٹس کے طلباء کا مسئلہ صرف امتحان پاس کرنا ھوتا ھے-
میری کوشش یہ ھوتی تھی کہ میرے کسی بچے کو محض امتحان پاس کرنے کے لیے ٹیوشن نہہ رکھنی پڑے- میں بعض اوقات کلاس میں کہہ بھی دیتا تھا کہ جو کچھ میں پڑھا رھاھوں اگر آپ یہی تیار کر لیں تو انشاءاللہ آپ فیل نہیں ھوں گے-
میں ان طلباء کی ضرورت کے مطابق نہایت آسان انداز میں پڑھاتا تھا- ( آپس کی بات ھے کہہ معیاری انگلش ھوتی بھی آسان ھے- اس موضوع پر کبھی ایک الگ پوسٹ لکھوں گا)-
میری بات پر عمل کرنے والے سٹوڈنٹ اللہ کے فضل سے امتحانات میں پاس ھو جاتے تھے– بحمداللہ ان میں سے کئی اس وقت وکیل، پروفیسر اور ٹیچر بن کر کامیاب زندگی گذار رھے ھیں-
اپنی تعریف کرنا مناسب بات نہیں، اس لیے کل سے انشاءاللہ اپنے کچھ پروفیسر دوستوں کاا ذکر شروع کروں گا-10 جولائی 2016

میانوالی کے معروف ٹیچر ، صحافی اور ریڈیو کے میزبان زبیر ھاشمی کے ایس ایم ایس نے یاد دلایا کہ یہ سال گورنمنٹ کالج میانوالی میں ایم اے کی کلاسز کا پچیسواں سال ھے- کسی ادارے یا شعبے کی زندگی کے پہلے پچیس سال مکمل ھونے کو سلور جوبلی کہا جاتاھے- اس خوشی میں خصوصٰی ٹقریبات منعقد کی جاتی ھیں- اس سلسلے میں کالج کے موجودہ ھیڈ آف انگلش ڈیپارٹمنٹ پروفیسر ناصر اقبال سے بات کروں گا- حسن اتفاق سے وہ بھی ھمارے کالج میں ایم اے انگلش کی پہلی کلاس کے طالب علم تھے-
میرےساتھ والی تصویر ھمارے کالج میں اٰیم اے English کی پہلی کلاس کے رولل نمبر 1 کی ھے- یہ رول نمبر 1 میرا بیٹا پروفیسر امجد علی ملک ھے جو اب پی اے ایف کالج میانوالی میں انگلش کا پروفیسر ھے-
امجد کے ساتھ اس پہلی کلاس میں ناصراقبال کے علاوہ سوانس کے اسد خان تھے، جو اب ضلعع میانوالی کے ماسٹر ٹرینر ھیں- طفیل خان پی اے ایف کالج میں امجد کے رفیق کار ھیں، میاں محمد دین تھے، انہیں میڈیسن کے کاروبار سے دلچسپی تھی ، سو وہ اس شعبے میں چلے گئے-
اس کلاس کی بچیوں میں ڈپٹی کمشنر رانا محمد افضل خان کی دو صاحبزادیاں اور جیل سپرنٹنڈنٹ کیی صاحبزادی بھی شامل تھیں-
اس سلسلے کی مزید تفصیلات کچھ معلومات حاصل کر کے انشاءاللہ کل کی پوسٹ میں بتاؤں گا– آئندہ ایک دو پوسٹس میں یہی موضوع چلے گا –12 جولائی 2016

میانوالی جیسی دور افتادہ جگہ پر ایم اے انگلش کی کلاسز کا آغاز کوئی معمولی کارنامہ نہ تھا- اس سلسلے میں کالج کی سٹوڈنٹس یونین کے صدر فضل الرحمان خان ، زبیر حسین شاہ ھاشمی ، عبدالوھاب خان اور ان کے ساتھیوں نے نہایت اھم کردار ادا کیا- زبیر ھاشمی بتاتے ھیں کہ 1991 میں میانوالی میں وزیراعظم کے جلسے میں یہ مطالبہ انہوں نے نعرے کی صورت میں کیا تو وزیر اعظم نے کہا “منظورھے“- اس کے بعد فضل الرحمان خان ، زبیر ھاشمی ، عبدالوھاب خان اور ان کاایک اور ساتھی(نام یاد نہیں آرھا) اسلام آباد جا کر میانوالی کے ایم این اے گل حمید خان روکھڑی سے پارلیمنٹ ھاؤس میں ملے اور ان سے درخواست کی کہ وزیراّعظم کو اپنا وعدہ یا د دلائیں- گل حمید خان کی یاددھانی پروزیراعظم نے اس وقت پنجاب کے وزیر اعلی مرحوم غلام حیدر وائیں کو فون پر حکم دیا کہ گورنمنٹ کالج میانوالی میں ایم اے انگلش اور سیاسیات کی کلاسز، اور گورنمنٹ کالج برائے خواتین میں ایم ایس سی نفسیات کی کلاسز کا فوری طور پر اجراء کیا جائے-
مجھے یہ قصہ تھوڑی دیر پہلے فون پر زبیر ھاشمی نے سنایا- میں نے جو کچھ سنا، لکھ دیا- میرا آج کا موضوعع آپ جانتے ھیں کہ میانوالی میں ایم اے کی کلاسز کا اجراء ھے، کسی سیاسی شخصیت کی تشہیر نہیں- میانوالی کی تعمیر و ترقی میں جس نے جتنا کردار ادا کیا اس کا ذکرضروری ھے- معلومات میں اگر کچھ کسر رہ گئی ھو تو آپ کمنٹ میں بتا دیں، لیکن سیاسی بحث سے گریز کریں کہ یہ ایک ٹیچر کی فیس بک ھے کسی سیاسی لیڈر کی نہیں- –
– سہانی یادوں کی واپسی –
کل کی پوسٹ کا ایک فائدہ یہ ھؤا کہ بہت سے بچوں سے ملاقات ھوگئی- یہ ملاقات اس پوسٹ پرر کمنٹس کی صورت میں ھوئی- ان میں سے کچھ بچے میرے سٹوڈنٹ رھے، کچھ میرے بیٹے امجد علی ملک کے-
سجاد شاہ، اویس کاظمی، ھدایت اللہ نیازی، ظفر نیازی محمد اسحق خان نیازی، کامران کاظمی ،، خلیل الرحمان، انعام الحق،حسن اورمحمد شفقت رحمان میرے ایم اے کے سٹوڈنٹ رھے- محمد ھمایوں علوی، رانا خالد پرویز اور شکیل حیدر دوسری کلاسز میں میرے سٹوڈنٹ تھے-
فرحان سلیم احمد ، حسنین نیازی،عرفان نیازی ، طاھرعباس نیازی اوربیٹی سبین فاطمہ امجدد بیٹے کے سٹوڈنٹ رھے-
اگر کوئی نام رہ گیا ھو تو غلطی پر معذرت- اللہ ھمارے ان تمام بچوں کو ھمیشہ شاد و آباد رکھے-133 جولائی 2016

ایم اے انگلش کی سب سے پہلی کلاس کو پہلا پیپر (کلاسیکل پوئٹری) میں نے پڑھایا- دوسرا پیپر (ڈراما) پروفیسر ملک سلطان محمود صاحب نے، تیسرا پیپر(ناول) پرفیسر سرورنیازی صاحب نے، چوتھا پیپر (ھسٹری آف انگلش لٹریچر) پروفیسرطاھر جہان خان نیازی نے اور آخری پیپر (تنقید) پروفیسر محمد حنیف شاہ صاحب نے پڑھایا- کچھ عرصہ بعد پروفیسر ملک سلطان محمود صاحب نے صحت کے مسائل کی وجہ سے پڑھانا چھوڑ دیا، تو ڈراما بھی میں پڑھانے لگا- پھر کلاسیکل پوئٹری کا پیپر مستقل طور پر پروفیسر عبدایلغفار خان خٹک کو دے دیا گیا اور ڈراما مجھے۔
ایم اے کی کلاسز شروع ھونے سے پہلے مین نے اپنے ساتھی پروفیسرصاحبان سے کہا کہ بی اےے تک توھم اردو کی مدد سے انگریزی پڑھاتے رھے، کم از کم ایم اے کے طلباء کو توخالص انگریزی کاعادی بنا دیں- خود بھی انگریزی بولیں اور سٹوڈنٹس کو بھی بولنے کی ترغیب دیں- اس کا ایک فائدہ سٹوڈنٹس کو یہ ھوگا کہ ان کی جھجک جاتی رھے گی اور وہ اعتماد سے بولنا سیکھ جائیں گے- روانی سے انگریزی بولنا مختلف انٹرویوز اور عملی زندگی میں ان کی راہیں آسان کر دے گا۔
دوسرے پروفیسر صاحبان کا تو مجھے علم نہیں، میں نے خود اپنے اس مشورے پر آخری دن تکک عمل کیا- مجھے نہیں یاد کہ ایم اے کی کلاس میں میں نے کبھی اردو کا ایک لفظ بھی بولا ھو،
اللہ کے فضل سے ھم لوگوں نے یہ ثابت کر دیا کہ میانوالی میں بھی ایم اے انگلش کی کلاسیں چلل سکتی ھیں–14 جولائی 2016

پروفیسر سید محمد حنیف شاہ شعبہ انگریزی کے وائس چیئرمین تھے- بہت وسیع المطالعہ ، درویش مزاج ٹیچر تھے- تصوف میں ان کی گہری دلچسپی نے انہیں کچھ شرمیلا اور تنہائی پسند بنا دیا تھا- بہت کم بولتے تھے- دوستوں کی محفلوں اور کالج کے مختلف شعبوں کے ٹی کلبوں میں بھی کم ھی نظر آتے تھے- مگر مردم بیزار یا زودرنج نہ تھے- ہنسی مذاق ہنس کر برداشت کر لیتے تھے، جوابی حملہ نہیں کرتے تھے- مرحوم پروفیسر حافظ محمد عبدالخالق سے تصوف کے موضوع پر ان کی نوک جھونک بہت دلچسپ ھوتی تھی- مگر سرعام نہیں، صرف میرے سامنے، کیونکہ میں ھی انہیں آپس میں لڑا کر تماشا دیکھا کرتا تھا- بہرحال یہ لڑائی کبھی سیریس نہیں ھوتی تھی- دونوں طرف سے ہنسی مذاق ھی ھوتا تھا-
شاہ جی مجھ سے چند سال قبل ریٹائر ھوئے- اب عبیدنورھسپتال روڈ پر اپنے خوبصورت گھرر میں پر سکون زندگی گذاررھے ھیں- کچھ وقت انگریزی ادب کے مطالعے میں ، اور کچھ ورد وظائف میں صرف کرتے ھیں-
پروفیسر ملک غلام حسین اعوان بھی ھمارے بہت اچھے ساتھی تھے- بہت لائق، وسیعع المطالعہ اور محنتی ٹیچر تھے- پروفیسر محمد حنیف شاہ صاحب کی طرح یہ بھی تنہائی پسند تھے- محفلوں میں کم ھی نظر آتے تھے- باوقار عالمانہ انداز میں الگ تھلگ رھنا پسند کرتے تھے- کالج اور طلباء کی بہتری کے معاملات میں ھم سے بھر پور تعاون کرتے تھے- ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ بعد اچانک دنیا سے رخصت ھوگئے- مجھے یہ المناک خبر لاھور میں ملی- بہت دکھ ھؤا ، اللہ مغفرت فرمائے، اچھے انسان تھے- ان کے بڑے صاحبزادے سے فیس بک پر کبھی کبھی رابطہ ھوتا رھتا ھے- وہ بھی ماشاءاللہ خاصے ذہین اور خوش اخلاق نوجوان ھیں – اللہ ان کی تمام مشکلات آسان فرمائے- ——– منورعلی ملک –15 جولائی 2016

الحمدللہ ، گورنمنٹ کالج میانوالی کو یہ اعزاز بھی حاصل ھے کہ اس کالج کے دو سٹوڈنٹ انگریزی زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کر چکے ھیں- ان میں ایک تو ڈاکٹر محمد سفیر اعوان ھیں ، دوسرے ڈاکٹر طاھر جہان خان نیازی- ڈاکٹر سفیر سے ابھی کچھ معلومات لینی ھیں، اس لیے ان کا کر کل ھوگا- آج ھمارا موضوع ھیں ڈاکٹر طاھر جہان خان نیازی-
ظاھر جہان خان نیازی سے میرے کچھ عجیب و غریب سے رشتے ھیں- یہ کالج میں میرےے سٹوڈنٹ بھی رھے ، colleague بھی، میرے بیٹے پروفیسر امجدعلی ملک کے ٹیچر اور ایم اے او کالج لاھور میں میرے سب سے چھوٹے بیٹے پروفیسر محمد اکرم علی ملک کے colleague بھی رھے- پھر یہ پی ایچ ڈی کے لیے بیرون ملک چلے گئے- حال ھی میں واپس آئے ھیں- ان دنوں گورنمنٹ کالج ٹاؤن شپ لاھور میں ھیں-
طاھر جہان خان بہت زندہ دل اورملنسار ھیں- دوستوں کی خدمت کرنے میں خوشیی محسوس کرتے ھیں- بہت عرصہ سے لاھور میں ھیں- لاھور کے جوھر ٹاؤن میں اپنا گھر بھی بنا لیا ھے، مگر میانوالی کے دوستوں سے محبت کے رشتے اب بھی بدستور قائم ھیں- میانوالی آتے جاتے بھی رھتے ھیں، میانوالی کے دوستوں کو لاھور میں اپنے ھاں مدعو بھی کرتے رھتے ھیں-
طاھر جہان خان کے چھوٹے بھائی خاور جہان کی اچانک موت ان کے خاندان کے لیے ایکک بہت بڑا المیہ تھی – اسی زمانے میں میں نے انٹر میڈیئیٹ کے طلباء کے لیے اپنے نوٹس شائع کرانے کا ارادہ کیا تو طاھر جہان خان نے کہا “ سر، اپنی اس کتاب کانام خاور نوٹس رکھ دیں ، اس طرح میرے مرحوم بھائی کا نام ھماری نظروں کے سامنے رھے گا“ –
مجھے اس تجویز پر کیا اعتراض ھو سکتا تھا، کہ خاورمیرا بھی بیٹا تھا- الحمدللہ خاور نوٹس سے بے شمارر طلبہ مستفید ھوتے رھے- 16 جولائی 2016

ڈاکٹر سفیر اعوان نے بی اے گورنمنٹ کالج میانوالی سے کیا- پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لیاقت آبا د (پپلاں) میں انگلش کے لیکچرر مقرر ھوئے- انہی دنوں ھمارے ھاں ایم اے انگلش کی کلاسز کا آغاز ھؤا ، تو ٹیچرز کی کمی پر ھمارا رونا دھونا سن کر سرکار نے سفیر اعوان صاحب کو گورنمنٹ کالج میانوالی بھیج دیا-
یہ دیکھ کر حیرت بھی ھوئی، فخر بھی محسوس ھؤا کہ ھمارے کالج کا یہ سابق سٹوڈنٹ ایم اے لیولل کی کلاسز کا باکمال ٹیچر ثابت ھؤا- کسی ٹیچر کی کارکردگی کا صرف ایک ھی پیمانہ ھے، اس کے سٹوڈنٹس کی رائے- سفیر صاحب سے سٹوڈنٹس سو فی صد مطمئن تھے- ان کا طریقہ تدریس جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق تھا، طلباء کی ذھنی سطح کو بلند کرنے میں سفیر صاحب نے نہایت اھم کردار ادا کیا- مگر گورنمنٹ کالج میانوالی میں ان کا قیام بہت مختصر رھا، کیونکہ اللہ کے فضل سے کچھ اور بلندیاں ان کی منتظر تھیں- پہلے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں انگلش کے لیکچرر مقرر ھوئے، پھر پی ایچ ڈی کر نے کے بعد اسسٹنٹ پروفیسرھوگئے-
پچھلے سال انہی دنوں ان کا ایک ایس یم ایس موصول ھؤا- الفاظ کچھ یوں تھے- “مجھے گجراتت یونیورسٹی میں پروفیسر کی پوسٹ آفر ھوئی ھے- یہ گریڈ 20 کی پوسٹ ھے- آپ کا مشورہ چاھیے، قبول کر لوں ؟”
(پہلے تین دفعہ ‘قبول ھے‘ کہہ کر پچھتانے والے ھم مرد بچارے بڑے محتاط ھوتے ھیںں )-
میں نے جواب میں کہا گجرات اور اسلام آباد کا فرق دیکھ لیں، ڈاکٹر سفیر نے کہا گھر والے بھی یہیی کہتے ھیں کہ گجرات کچھ بھی ھو اسلام آباد کے برابر تو نہیں ھو سکتا- کچھ عرصہ سوچ بچار کے بعد سفیر صاحب نے اسلام آباد ھی میں رھنے کا فیصلہ کر لیا-
میں نے کہا نا، کہ کچھ اور بلندیاں ان کی منتظر رھتی ھیں- اس وقت بحمداللہ، ڈاکٹر سفیر اعوانن یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز NUML اسلام آباد میں انگلش کے پروفیسر اور فیکلٹی آف انگلش کے ڈین ھیں- ڈین کا منصب ھیڈ آف ڈیپارٹمنٹ سے بڑا ھوتاھے- یہ گریڈ 21 کی پوسٹ ھے جو بمشکل ایک فیصد پروفیسروں کو نصیب ھوتی ھے- -17 جولائی 2016

غالب نے کہا تھا –
ذکر اس پری وش کا ، اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
ذکر آج میں بھی ایک پری وش کا کرنے لگا ھوں ، مگر یہ پری وش غالب کے محبوب جیسا بے وفا نہیں– اس لیے مجھے یقین ھے کہ اگر کوئی میرا رقیب بننے بھی لگا تو یہ اسے رد کردے گا-
کچھ پلے نہیں پڑرھا ؟ ——- چلیں ، سادہ الفاظ میں بتا دیتا ھوں کہ آج ذکر ھو رھا ھے ایکک معتبر عالم، شعلہ بیان خطیب، انگریزی زبان و ادب کے نامور ٹیچر، میانوالی کی ایک ایسی ھمہ جہت شخصیت کا جس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ایک آدھ پوسٹ میں ممکن نہیں،-
میانوالی کی یہ مقبول و محترم شخصیت ھیں پروفیسر غلام سرور خان نیازی – میرا ان سےے تعارف آج سے 45 سال پہلے اس زمانے میں ھؤاجب میں ٹھٹھی سکول میں ھیڈماسٹر تھا، اور یہ حلقہ موچھ کے فیملی پلاننگ آفیسر- سرکا ر نے انہیں حلقے کے دورے کے لیے ایک نئی نکور سفید جیپ بھی دے رکھی تھی ،
ایک دفعہ ٹھٹھی کے دورے پر آئے تو لوگوں نے بتایا کہ ھمارے سکول کے ھیڈماسٹر نے ایمم اے انگلش کر لیا ھے- یہ گاؤں سے سیدھے سکول آپہنچے- میں نے حسب توفیق چائے وغیرہ بنوائی- ادھر ادھر کی باتوں کے بعد سرورخان صاحب نے انگریزی ادب کی بات چھیڑی تو میں ان کے علم اور مطالعہ کی وسعت دیکھ کر حیران رہ گیا- پھرکہنے لگے “ملک صاحب سنا ھے آپ نے ایم اے انگلش کر لیا ھے؟“
میں نے کہا “ جی ھاں ، الحمدللہ “
سرورخان نے کہا “یار، دل تو میرا بھی چاھتا ھے کہ ایم اے انگلش کرلوںَ“
میں نے کہا “دل چاھتا ھے ، تو سوچنے کی کیا ضرورت ھے، کرڈالیں“
کہنے لگے فلاں فلاں کتابیں تو میں نے پڑھ لی ھیں- ان کے علاوہ اور کون کون سی کتابیںں ھیں؟“
میں نے کتابوں کے نام بتا دیئے، اور ساتھ ھی یہ بھی بتا دیا کہ بیشتر کتابیں گورنمنٹ کالج میانوالیی کی لائبریری سے مل سکتی ھیں-
اگلے سال ایک دن اسی سفید جیپ پر ٹھٹھی سکول آکر سرور خان نے کہا “لوجی، ھم نے بھی ایمم اے انگلش کرلیا“—-
یہ قصہ ابھی ایک دو دن چلتا رھے گا کہ 45 سال کی دوستی کو ایک پوسٹ میں سمیٹنے کا فن مجھے نہیںں آتا -19 جولائی 2016

اپنی کل کی پوسٹ پر پروفیسر سرور نیازی صاحب کے بارے میں ان کے سابق سٹوڈنٹس کے کمنٹس دیکھ کر دل خوش ھوگیا- محبت، عقیدت اور تشکر سے لبریز کمنٹس میں ان بچوں نے اپنے مہرباں ، لائق اور محنتی ٹیچر کو بہت خوبصورت انداز میں خراج تحسین پیش کیا ھے-
کہاں ھیں وہ لوگ جو یہ کہتے ھیں کہ جی اس معاشرے میں ٹیچر کی عزت نہیں ھوتی- افسوس کیی بات یہ ھے کہ کئی ٹیچر بھی یہی بات کہتے سنائی دیتے ھیں- مجھے ایسے لوگوں سے ھمیشہ شدید اختلاف رھا ھے- میں آج بھی ان سے یہی کہوں گا کہ ذرا سرور نیازی بن کر دکھائیں، یہی معاشرہ آپ کے پاؤں چھوئے گا، اور آپ کے ھاتھ چومے گا-
فرض شناسی میں سرور نیازی اپنی مثال آپ ھیں- جیسا کہ کل ایک بچے نے اپنے کمنٹ میں کہا،، 30 میں سے صرف دو سٹوڈنٹ ھی حاضر ھوتے ، پھر بھی سرور صاحب پورے زوروشور سے پورا پیریئڈ لیکچر دیا کرتے تھے- کبھی کلاس کو ایک منٹ فارغ نہیں بیٹھنے دیتے تھے- میری ایک بری عادت یہ بھی تھی کہ کلاس میں سٹوڈنٹس کی تعداد کم ھوتی تو میں کلاس نہیں لیا کرتا تھا-
پڑھانے میں ایسے مگن ھوتے تھے کہ پیریئڈ ختم ھونے کا انہیں پتہ ھی نہیں چلتا تھا- جب تکک اگلے پیریئڈ کا ٹیچر سامنے نہ آتا، یہ کلاس نہ چھوڑتے تھے- کبھی میرا پیریئڈ ان کے بعد ھوتا تو میں جونہی کلاس روم کے دروازے کے سامنے آتا، سرور صاحب ہنس کر کلاس سے نکل جاتے-
سرور صآحب کے علم کی وسعت کے بارے میں یہ کہوں گا کہ یہ ایک چلتا پھرتا سمندر ھیں– موضوع مرغیوں کی پرورش ھو یا امریکہ کا صدارتی انتخاب، یہ ھر موضوع پر کسی بھی وقت خطاب کر سکتے ھیں- اپنے علم کی وسعت کا راز انہوں نے ایک دن یہ کہہ کر بتایا کہ میں بہت عرصہ سے فجر کی نماز کے بعد بلاناغہ بی بی سی ریڈیو سے خبریں سنتا ھوں – ان سے مجھے ھر موضوع پرتازہ ترین معلومات ملتی رھتی ھیں- (باقی باتیں انشاءاللہ کل کی پوسٹ میں ھوں گی) -20 جولائی 2016

سرورنیازی صاحب ایم اے سال اول (پارٹ – ١) کو ناول پڑھاتے تھے- کورس میں شامل پانچ ناولوں میں ان کا سب سے پسندیدہ ناول Jane Austen کا شاھکار ناول Pride and Prejudice تھا- –ناول نگاروں میں Jane Austen کو نمبر ون قراردیتے تھے- ان کے سٹوڈنٹس بتایا کرتے تھے کہ سر کلاس میں کہتے ھیں اگر جین آسٹن زندہ ھوتی تو میں اس سے شادی کر لیتا-
افسوس کہ جین آسٹن تو آج سے ٹھیک 199 سال قبل اس دنیا سے رخصت ھوگئی، ورنہ یہہ شادی ھم ھر حال میں کرا دیتے-
لوگ میری ظاھری سادگی کی تعریف کرتے ھیں ، حالانکہ اندر باھر سے سادہ تو میرا یہ بھائیی ھے- اللہ کا بندہ پانچ سات سال سے موبائیل فون جیب میں لیئے پھر رھا ھے، مگرSMS کرنا نہیں سیکھا- پچھلے سال تک تو یہی حال تھا، اب شاید سیکھ ھی لیا ھو-
ویسے SMS نہ کرسکنے کا ایک فائدہ بھی ھے، کہ بندہ بہت سی کھپ سے بچ جاتا ھے- ًلوگگ جانتے ھیں کہ میں میسیج کا جواب دے سکتا ھوں- اس کی سزا مجھے اس قسم کے سوالات کی شکل میں ملتی رھتی ھے-
سرجی، لالا عیسی خیلوی اس وقت کہاں ھے ، اور کیا کر رھا ھے؟
سر، کیا آپ لالا سے ھماری ملاقات کروا دیں گے ؟
سر جی آپ اس وقت کیا کر رھے ھیں؟
سر، کل سے میرا ایم اے انگلش کا امتحان شروع ھو رھا ھے، کچھ اھم سوالات تو بتا دیں
(30 کتابوں کی تیاری ایک رات میں !!! استغفراللہ)
سرور نیازی صاحب جب تک میسیج کرنا نہیں سیکھ لیتے ، اس قسم کے اوٹ پٹانگ سوالات سے توو بچے رھیں گے-
( کسی تیکنیکل پرابلم کی وجہ سے آج میرا لیپ ٹاپ تصویریں اپ لوڈ نہیں کر رھا- کسی سےے پوچھوں گا- سرورنیازی صاحب کا قصہ فی الحال جاری رھے گا- بہت کچھ اور کہنا باقی ھے) –21 جولائی 2016

الحمدللہ، سرور نیازی صاحب اور میرے درمیان محبت اور احترام کا رشتہ آج بھی برقرار ھے- انہوں نے کبھی میری سفارش رد نہیں کی- کسی بات پہ ڈٹ جائیں تو پہاڑ کی طرح اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ھوتے- ایسی صورت حال میں بھی میری بات رد نہیں کرتے-
ایک دفعہ کسی سٹوڈنٹ کی مائیگریشن کا مسئلہ تھا- کالج کے پرنسپل مرحوم ملک ًمحمد انور میکن نےے بھی اس سٹوڈنٹ کی سفارش کی، مگر سرور خاں نہیں مانے- دوسرے دن میں کالج پہنچا تو پرنسپل صاحب نے کہا “ملک صاحب، آپ کا بھائی میری بات نہیں مان رھا، آپ کوشش کر کے دیکھیں، میں نے لڑکے کے والدین سے وعدہ کر رکھا ھے “-
میں انگلش ڈیپارٹمنٹ پہنچا، تو سرور خان کلاس سے فارغ ھو کر آرھے تھے- میں نے کہاا “سرور خان، فلاں سٹوڈنت کی مائیگریشن کا کیا مسئلہ ھے؟“
ابھی میں نے بات مکمل نہیں کی تھی کہ ہنس کر بولے “ اچھا ؟ ٹھیک ھے“
جب بھی میں نے کوئی سفارش کی ، سرورخان نے یہی ایک جملہ “اچھا؟ ٹھیک ھے “ کہہہ کرقبول کر لی-
سرورخان صاحب بعض اوقات عجیب و غریب قسم کے سرپرائیز دیا کرتے تھے- ایک دفعہہ تو انہوں نے میرے پاؤں تلے سے زمین ھی کھینچ لی- کالج کے شمالی ونگ کی چھت کے مشرقی سرے پر ایک ٹیریس (چوکوراحاطہ ) سا ھے- اس کے ایک کونے میں یہ کلاس پڑھا رھے تھے، دوسرے میں میں- اچانک سرور صاحب کی آواز فضا میں گونجی
“ملک صاحب، کسی کو دیوتا بنا کر پرستش کرنا کے لیئے انگلش کا ایک لفظ ھے، مجھے اس وقت یادد نہیں آ رھا – آپ کو یاد ھو تو بتادیں“
شکر ھے لفظ مجھے یاد تھا۔ میں نے بتا دیا- کلاس سے میں نے کہا “سر سرور کی اس بات میں آپ کےے لیے یہ سبق ھے کہ علم کے معاملے میں پوچھنا عیب یا شرم کی بات نہیں- میں اس عظیم ٹیچر کی عظمت کو سلام کرتا ھوں- اگر میں ان کی جگہ ھوتا تو شاید دو کلاسوں کے سامنے پوچھنے سے شرما جاتا- مگر سرور خان تو سرورخان ھیں “
میرا بیٹا پروفیسر امجد علی ملک سرورخان کا بہت چہیتا سٹوڈنٹ رھا- میری پرسوں کی پوسٹ پرر اس کا کمنٹ ضرور دیکھ لیں-
سرور صاحب کا تذکرہ ابھی کچھ دن اور چلے گا- اگر دوسری بہت سی مصروفیات نہ ھوتیں تو میںں سرورخان کے بارے میں “درد کا سفیر“ جیسی، اتنی ھی دلچسپ کتاب “علم کا سفیر“ لکھ دیتا، مگر کیا کروں –
اور بھی غم ھیں زمانے میں محبت کے سوا
اس لیے چند مختصر پوسٹس پر ھی اکتفا کروں گا- -22 جولائی 2016

سرور نیازی صاحب میانوالی کے کلچر اور کردار کا علامتی اظہار ھیں- ھمارے کلچر اور کردار کی تمام خوبیاں اس ایک شخصیت میں یکجا نظر آتی ھیں- خامیوں سے اللہ تعالے نے ان کا دامن آلودہ نہیں ھونے دیا- اپنے کلچر سے بے پناہ محبت کا خوبصورت اظہار ان کی گفتگو اور تحریروں کی صورت میں منظر عام پر آتا رھتا ھے- ان کے لکھے ھوئے دو ڈرامے “غڑوبا“ اور “بودلا“ میانوالی کی زبان اور ثقافت کے نمائندہ ڈرامے تھے- یہ دونوں ڈرامے 1980-81 میں ھمارے کالج کے ھاسٹل میں سٹیج کیے گئے- ان کا مرکزی کردار کمر مشانی کے مرحوم محمد عظیم خان نے ادا کیا تھا- زیتون نامی خاتون کا کردار ھمارے بہت پیارے بیٹے رشید احمد خان نیازی آیڈووکیٹ نے ادا کیا تھا- پچھلے دنوں یہ سن کر بہت دکھ ھؤا کہ عظیم خان اب اس دنیا میں موجود نہیں- اللہ مغفرت فرمائے اور بلند درجات عطا کرے ، بہت پیارا انسان تھا-
سرورخان کو بالخصوص میانوالی کے کچے (دریا کے کنارے کا علاقہ) کا کلچر بہت پسند ھے- اسس کلچر پر ناول بھی لکھنا چاھتے تھے، ھم آج بھی اس ناول کے منتظر ھیں-
میانوالی کی زبان کی پرانی ضرب آلامثال اور محاورات سے بھی ان کو بہت دلچسپی ھے- ایک دنن کہنے لگے میں ان ضرب الامثال اور محاورات کی ایک مکمل ڈکشنری مرتب کرنا چا ھتا ھوں- میں نے کہا ، رھنے دیں ، یہ کام آپ نہیں کر سکیں گے- سرورخان نے کہا کیوں ، میں نے کہا “لالا، ھماری تقریبا آدھی ضرب الامثال اور محاورے تو گالیوں کی زبان میں ھیں – ان پیار بھری گالیوں کا بھی ایک اپنا حسن ھے- مگریہ لکھنے قابل نہیں (unprintable) ھیں-“
میری یہ دلیل سن کر سرور خان بہت ہنسے- کہنے لگے “ھاں ، یار ان گالیوں کے بغیر ڈکشنری کا کیاا فائدہ – اس لیے ڈکشنری لکھنے کا پروگرام کینسل “
خالص مردانہ jokes کا جو ذخیرہ سرور خان کے پاس ھے، کہیں اور دیکھا نہ سنا- مگر وہ یہہ jokes صرف بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے Tea Club میں پروفیسر لالا فاروق صاحب کی فرمائش پر سنا یا کرتے تھے- (باقی باتیں انشاءاللہ کل ) —-23 جولائی 2016

سرور خان صاحب کے جواں سال صاحبزادے ڈاکٹر سجاد سرور خاں نیازی کی ناگہاں موت سرور خان کی زندگی کا سب سے المناک سانحہ تھی- یہ سانحہ اچانک رونما ھؤا- اس حوالے سے اپنے تاثرات سجاد بیٹے کی یادوں پر مشتمل کتاب “برنگ خواب سحر“ میں تفصیل سے لکھ چکا ھوں- دوبارہ لکھنے کی ھمت نہیں- یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل تھی ، حصہ اردو کے مدیر مرحوم پروفیسر محمد فیروزشاہ تھے، حصہ انگریزی کا میں- دونوں حصوں میں میری ایک نظم اور ایک مضمون تھا- سب سے دلگداز سرور صاحب کی اپنی تحریر تھی-
یہ کتاب ھمارے عزیز، اسلام آباد میں مقیم معروف شاعراور ادیب احمد خلیل جازم نے بہتت خوبصورت روپ میں شائع کی تھی-
لخت جگر ڈاکٹر سجاد سرور نیازی سے سرور خان کی محبت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ جب انہوںں نے میانوالی میں اپنا مکان بنایا تو میں نے کہا َ“سرور خان ، شہر کے اندر مکان بنالیا ھوتا- شہر کی شمالی سرحد پر مکان بنانے کا فائدہ ؟
سرور خان نے بھرائی ھوئی آواز میں کہا “ یہاں سے سجاد بیٹے کے پاس آنا جانا آسان ھے “
آج اس سے زیادہ کچھ نہیں لکھ سکتا- ایسا ھی ایک اپنا زخم بھی یاد آگیا- آنسو کچھ نہیں لکھنے دیں گے—24 جولائی 2016

سرورخان بہت زبردست مقرر بھی ھیں ، کمپیئر بھی- عام تقریبات کی کمپیئرنگ تو میں یا پروفیسر محمد فیروز شاہ صاحب کرتے تھے، کالج کے سالانہ کھیلوں اور کوئز پروگراموں کی کمپیئرنگ اپنے مخصوص انداز میں سرور صاحب کیا کرتے تھے-
کہنے کو تو میرا نام بھی کھیلوں کے کمپیئرز میں شامل ھوتا تھا، مگر سرور صاحب کی شرافت سےے ناجائز فائدہ اھاتے ھوئے میں دو چار منٹ بیٹھ کر مائیک ان کے حوالے کر دیتا ، اور خود دن بھر ٹی کلب میں بیٹھ کر چائے پیتا اور گپیں لگاتا رھتا تھا- مگر سرور صاحب نے کبھی شکوہ نہ کیا- بلکہ پروگرام کے پہلے دن ھی ھم آپس میں یہ سمجھوتہ کر لیا کرتے تھے کہ کمپیئرنگ سرور صاحب کریں گے، آوارہ گردی ھم-
سرور خان کی کمپیئرنگ کا انداز بہت دلچسپ ھوتا تھا- کھیلوں پر دلچسپ کمنٹری کے ساتھ ساتھھ بہت پرلطف لطیفے بھی سنایا کرتے تھے- سچی بات تو یہ ھے کہ بہت سے لوگ کھیل دیکھنے کی بجائے سرورخان کی کمپیئرنگ سننے کےلیے پنڈال میں موجود رھتے تھے- (کمرے کی صفائی ھونے لگی ھے، اس لیے باقی باتیں کل ھوں گی، انشاءاللہ) 25 جولائی 2016

سرورخان بہت زبردست مقرر بھی ھیں ، کمپیئر بھی- عام تقریبات کی کمپیئرنگ تو میں یا پروفیسر محمد فیروز شاہ صاحب کرتے تھے، کالج کے سالانہ کھیلوں اور کوئز پروگراموں کی کمپیئرنگ اپنے مخصوص انداز میں سرور صاحب کیا کرتے تھے-
کہنے کو تو میرا نام بھی کھیلوں کے کمپیئرز میں شامل ھوتا تھا، مگر سرور صاحب کی شرافت سےے ناجائز فائدہ اھاتے ھوئے میں دو چار منٹ بیٹھ کر مائیک ان کے حوالے کر دیتا ، اور خود دن بھر ٹی کلب میں بیٹھ کر چائے پیتا اور گپیں لگاتا رھتا تھا- مگر سرور صاحب نے کبھی شکوہ نہ کیا- بلکہ پروگرام کے پہلے دن ھی ھم آپس میں یہ سمجھوتہ کر لیا کرتے تھے کہ کمپیئرنگ سرور صاحب کریں گے، آوارہ گردی ھم-
سرور خان کی کمپیئرنگ کا انداز بہت دلچسپ ھوتا تھا- کھیلوں پر دلچسپ کمنٹری کے ساتھ ساتھھ بہت پرلطف لطیفے بھی سنایا کرتے تھے- سچی بات تو یہ ھے کہ بہت سے لوگ کھیل دیکھنے کی بجائے سرورخان کی کمپیئرنگ سننے کےلیے پنڈال میں موجود رھتے تھے- ——– (کمرے کی صفائی ھونے لگی ھے، اس لیے باقی باتیں کل ھوں گی، انشاءاللہ) -26 جولائی 2016

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top