منورعلی ملک کے ستمبر 23کے فیس بک پرخطوط
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمیٹی چوک کے مشرق میں چک لالہ تک وسیع و عریض چٹیل میدان تھا۔ ناز سینما، اخبار جنگ کے دفاتر اور ملحقہ آبادی یہ سب کچھ اس زمانے میں موجود ہی نہ تھا۔
مری روڈ عام سی سڑک تھی جس پرصرف دو گاڑیاں ایک دوسری کو کراس کر سکتی تھیں۔
اسلام آباد کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اسلام آباد کی جگہ مری روڈ کے دائیں بائیں دوچار چھوٹے موٹے گاوں ہوا کرتے تھے۔۔ اب ان کا نشان بھی باقی نہیں رہا۔ اس دور کی یادگار صرف بری امام صاحب کا دربار باقی ہے۔
پنڈی شہر کا سب سے بڑا بازار راجہ بازار تھا۔ اس بازار کے شمال مشرقی سرے پر بازار کلاں المعروف ٹوپیوں والا بازار ، صرافہ بازار ، کتابوں کی دس پندرہ دکانوں کا ننھا سا اردو بازار ، اردو بازار چوک سے مشرق میں بوہڑ بازار جس کے جنوب مغرب میں چھوٹا سا تنگ سا موتی بازار خواتین کے ملبوسات اور آرائش کے سامان کا مرکز ہوا کرتا تھا۔
فوارہ چوک سے مغرب میں چھوٹا سا بازار کشمیری بازار کہلاتا تھا ، جامع مسجد روڈ کے متوازی بھابھڑا بازار مری روڈ سے جا ملتا تھا ۔
صدر کے علاقے میں صدر بازار کے علاوہ فوجیوں کا لالکڑتی بازار بھی تھا۔ یہ بازار انگریزوں نے فوجیوں کی ضروریات کی فراہمی کے لییے چھاونی میں قائم کیا تھا ۔
یہ تمام بازار اور مقامات آج بھی موجود ہیں مگر بہت کچھ بدل بھی گیا ہے ۔ سب سے اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔١ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیہات میں جہاں بجلی دستیاب نہ تھی بیٹری سے چلنے والا ریڈیو استعمال ہوتا تھا، وہ بھی صرف چند خوشحال گھروں کو میسر تھا ۔ فلپس کمپنی کا بنا ہوا بڑے سائیز کا خوبصورت ریڈیو ہمارے گھر میں بھی تھا۔ یہ ریڈیو میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی لائے تھے۔
اس زمانے میں ریڈیو کا سب سے مقبول پروگرام ” آپ کی فرمائش” تھا۔ منتخب فلمی نغموں پر مشتمل یہ پروگرام اتوار کے دن بارہ سے ایک بجے تک نشر ہوتا تھا۔ ہر گیت نشر ہونے سے پہلے اس گیت کے گلوکار اور فلم کے نام کے علاوہ گیت کی فرمائش کرنے والوں اور ان کے شہروں کے نام بھی بتائے جاتے تھے۔ لوگ خط کے ذریعے اپنی فرمائشیں پروگرام کے انچارج کو بھیجا کرتے تھے ۔
1965 تک اس پروگرام میں انڈیا کے فلمی گیت بھی سنوائے جاتے تھے۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ زیادہ تر فرمائش ہوتی ہی انڈین نغموں کی تھی۔
کیا خوبصورت گیت ہوا کرتے تھے محمد رفیع ، طلعت محمود، مکیش، لتا ، آشا، شمشاد بیگم ، نورجہاں اور زبیدہ خانم کی آواز میں۔ یہ گیت دلوں کی دھڑکنوں کے ہمراز ہوا کرتے تھے۔۔
اتوار کے دن “آپ کی فرمائش” پروگرام سننے کے لیئے ہماری چونک پر میلہ لگ جاتا تھا۔ نوجوانوں کے علاوہ بزرگ بھی یہ پروگرام بڑے شوق سے سن کر اپنی جوانی کے دور کی یادوں اور دکھوں کو تازہ کر لیتے تھے۔ کئی بزرگوں کو تو دکھی گیتوں پر باقاعدہ آنسو بہاتے بھی دیکھا۔ محمد رفیع اور نورجہاں کی آواز میں گیت
یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے
سن کر کئی بزرگوں کو روتے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اچھا زمانہ تھا ، کتنے پیارے لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔٢ ستمبر 23 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریڈیو کا ایک اور بہت مقبول پروگرام “میانوالی کے گیت” ہر پندرہ دن بعد شام 5 بجے ریڈیو پاکستان پشاور سے نشر ہوتا تھا۔ یہ پروگرام 1950-1960 کے دوران ریڈیو پاکستان پشاور کے سٹیشن ڈائریکٹر سجاد سرور خان نیازی نے شروع کیا تھا۔ بعد میں یہ پروگرام ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے بھی نشر ہوتا رہا۔ 15 منٹ کے اس پروگرام میں میانوالی کے گلوکار ۔۔۔۔ عیسی خیل کے استاد امتیاز خالق، داودخیل کے گلستان خان اور موسی خیل کے گل جہان خان میانوالی کے گیت پیش کرتے تھے۔ تینوں بہت سریلے گلوکار تھے۔
امتیاز خالق لالا عیسی خیلوی کے استاد بھی تھے۔
کالا شاہ بدلا،
کر کر منتاں یار دیاں،
شالا رج رج مانڑیں سجن میڈا،
اور کئی دوسرے مقبول ترین گیت لالا کو استاد امتیاز خالق نے ہی سکھائے تھے۔
استاد امتیاز خالق کا اصل نام خالق داد خان تھا ۔ مقامی لوگ پیار سے انہیں استاد دادو یا استاد امتیاز بھی کہتے تھے۔ ریڈیو کی دنیا میں جاکر انہوں نے اپنا نام امتیاز خالق رکھ لیا۔ امتیاز خالق بہت بڑے فن کار تھے۔ انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم و تربیت مندہ خیل کے ایک ہندو موسیقار سے حاصل کی ۔ بعد میں ریڈیو کی ملازمت کے دوران ملک کے بڑے بڑے موسیقاروں کی صحبت میں رہ کر اور بھی بہت کچھ سیکھ لیا۔ بہت سریلے گلوکار تھے ۔ لالا عیسی خیلوی کے علاوہ کمر مشانی کے عطامحمد زرگر بھی استاد امتیاز خالق کے خاص شاگرد تھے۔ عطا محمد زرگر کی گلوکاری میں استاد امتیاز کا رنگ بہت نمایاں تھا۔ ان کی آواز بھی استاد امتیاز کی آواز سے بہت مشابہہ تھی۔
قصہ کچھ زیادہ لمبا ہو گیا۔ گلستان خان اور گل جہان خان کا ذکر ان شآءاللہ کل ہوگا۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
جناب استاد من! عطا محمد زرگر کمرمشانوی اور 38 چک والے ذاکر خادم حسین مرحومین دونوں استاد غلام قادر خان کچوخیل کمرمشانی کے باضابطہ شاگرد تھے۔ غلام قادر خان تین پیٹیے استاد تھے اور ان کے استاد امتیاز خالق تھے۔ امتیاز خالق کے استاد مندہ خیل کے استاد عبد الرحمن المعروف غلام بشیر خاں تکیہ بھیڈی پوترہ ملتان میں استاد الاساتذہ باب امیر خان کے شاگرد تھے۔ بابا امیر خان کو پاکستان و ہندوستان استاد مانتا تھا۔ مندہ خیل کے استاد حکیم طبلہ نواز استاد معشوقے خان کے شاگرد ہیں، میرے استاد ہیں اور باقید حیات ہیں۔ استاد عبدالرحمن جیسا سریلا میراثی اور فن موسیقی پہ قدرت تامہ رکھنے والا ضلع میانوالی میں ہوا ہے اور نہ ہو پائے گا۔ دادو استاد کی انگلیوں کے نیچے پیٹی کی سندریاں رقص کرتی تھیں۔ وہ یاد ہے: جوڑی بٹ نہ چائی کر گھڑیاں نی
لک پتلا ای نازک وکھیاں نی
استاد غلام قادر خان قوالی کی طرف چلے گئے اور کمال کے نعت خوان بھی تھے۔ جب کہ عطا محمد زرگر مرحوم جوانی میں ہی داغ مفارقت دے گئے
سب کو اللہ تعالی جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے!
سر اللہ تعالی آپ کو صحت و سکون و سکھی رکھے!!!
آمین ثم آمین ۔
بہت اچھا معلوماتی کمنٹ
-
سر جی! استاد دادو مرحوم زیادہ تر موسیقی کی دنیاء کے میٹھے ترین راگ ” راگ جوگ” میں گایا کرتے تھے! اور دوہڑا دیتے وقت ایسی لوری دیتے تھےجو دلوں کو چھو لیتی تھی اور سننے والا سر تال کی لہروں میں ہی بہہ جاتا تھا ۔میں نے “استاد دادو” کی گیت ریکارڈنگ سنی تو بار بار سننے کو دل کرتا تھا!اس ناچیز نے “چاچا گلستان خان آف داؤدخیل کو تو دو تین بار ‘لائیو” سنا ھوا ھے۔اللّٰہ سبحان اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے بہتہی عمدہ گلوکاری کرتے تھے(سر! کیا میں نے غلط تو نہیں کہا؟)ناچیز سر منور صاحب کی اجازت سے لب کھول رہا ہے۔ سنیے! کمرمشانی میں قبل از تقسیم ہندو پاورفل اور امیر تھے۔ ان کی بیٹے کی شادی پہ ملتان و بھکر و ڈیرہ اسمعیل خاں سے گویے مع رقاصائیں بلوائی گئی تھیں۔ رات کو مشعلیں روشن کرکے محافل برپا ہوتی تھیں۔ نہ واپڈا نہ بجلی اور نہ یہ بجلی کے آج کل کی طرح معمولی معمولی سے بل تھے، تو میں کدھر لڑھک گیا، استاد عبدالرحمن مندہ خیلوی عرف مانا ان گویوں کے استاد تھے اور ان کا خاص شاگرد دادو بھی جواب نہیں رکھتا تھا۔ وہ رقاصہ و گائیکہ استاد مانا کی گائیکی پہ فریفتہ ہوئی اور شادی کا پیغام دے ڈالا۔ استاد صاحب اولاد تھا اور شریف خاندان سے تھا اس نے دادو سے کہا کہ ایمن سے کچھ سناو! رات کا پہر اور پن ڈراپ سائیلنس میں دادو کی دردناک آواز نے رقاصہ/گائیکہ کے اوسان اڑا کر رکھ دیے۔ محفل ختم ہوئی گویے و سازندے مال لے کر اپنے اپنے وطنوں کو سدھارے جب کہ موصوفہ رات کے پچھلے پہر دادو کے قدموں پہ چلتی، ریل گاڑی کی پٹڑی کے کنارے کنارے ترنا (یہ عیسی خیل کا پرانا نام ہے) جا پہنچی اور نکاح کے بندھن میں بندھ گئی۔ اس کے بعد سے با شرع زندگی بسر کی۔ بیٹا طارق ہوا، بہت اعلی سرائیکی شاعری کرتا تھا مگر جواں سال رخصت ہوا، اس سے بیٹا عارف خان فوج میں ہے اور اس کا اکلوتا بیٹا علی حسن جو ابھی بارہ سال کا ہی تھا کہ دنیا سے منہ موڑ گیا۔استاد امتیاز خالق خان انتہائی نماز روزے کے پابند، پرخلوص، لالچ سے کوسوں دور ایک نفیس و خوبصورت گلوکار انسان تھے۔ اللہ تعالی تمام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔٣ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلستان خان کی آواز طلعت محمود کی آواز سے بہت مشابہہ تھی۔ تلفظ اور لب و لہجہ بھی طلعت کی طرح صاف ستھرا اور شائستہ تھا۔ اس لیئے سرائیکی گیتوں علاوہ اردو غزل کے بھی بہت مقبول سنگر تھے۔ تلفظ اور لب و لہجہ کی انہی خوبیوں کی بنا پر شاہ ایران کے دورہ پاکستان کے موقع پر ان کے اعزاز میں ایک تقریب میں حافظ شیرازی کی فارسی غزل سنانے کا اعزاز بھی گلستان خان کے حصے میں آیا۔ پورے پاکستان کے سنگرز میں سے گلستان خان کا انتخاب بلا شبہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔
ریڈیو پر “میانوالی کے گیت” پروگرام میں گلستان خان ماہیا اور ونجارا عنوان کے گیت کی بنا پر بہت مشہور و مقبول تھے۔
جب میں دو تین سال کا تھا تو ایک دن ان کے گھر میں ہارمونیم پڑا دیکھ کر میں نے اس سے کھیلنا شروع کردیا۔ تین سال کا بچہ ہارمونیم تو کیا بجاتا ویسے ہی ہارمونیم کی ٹاں ٹاں سن کر دل بہلا رہا تھا کہ ماموں گلستان خان آگئے ۔ مجھے ہارمونیم بجاتے دیکھ کر مسکرائے اور ہارمونیم اپنی گود میں رکھتے ہوئے کہا کون سا گیت سننا چاہوگے؟
میں نے کہا ” آواز دے کہاں ہے ” والا گیت۔
محمد رفیع اور نورجہاں کی آواز میں یہ گیت اس زمانے میں بہت مقبول تھا۔ لوگ گراموفون پر یہ گیت سنا کرتے تھے۔ میں نے بھی وہیں سے سنا تھا۔
ماموں نے ہارمونیم پر اس گیت کی دھن چھیڑ کر گیت سنایا تو مزا آگیا۔
ماموں گلستان خان کے سب سے بڑے بیٹے جاوید کی اچانک موت نے ان کا دل توڑ دیا۔ انہوں نے گلوکاری ترک کر دی۔ داڑھی رکھ لی۔ زیادہ وقت مسجد میں گذارنے لگے۔ گلوکاری نعت خوانی تک محدود ہو گئی۔ کچھ عرصہ پہلے داودخیل سے ماڑی انڈس منتقل ہو چکے تھے۔ موت بھی وہیں مقدر تھی۔ بہت پیارے انسان تھے ۔ بہت یاد آتے ہیں۔
Mian Muhammad He shifted to Mari Indus in early 1960s.
واہ میانوالی میں ایسے نابغہ روزگار مغنی پیدا ہوئے جن کے ناموں سے ہمیں آشنائی تک نہیں اور نہ ہی کسی نے ایسے لوگوں کی زندگی کو ضبط تحریر میں لایا جب ہم نے ہوش سنبھالا تو موسی خیل میں محمد رمضان خان المعروف مانی خان جو محکمہ پولیس میں حوالدار تھے اور غلام اکبر خان خلاص خیل کو گلوری کرتے پایا غلام اکبر لتا منگیشکتر کا گانا ۔۔۔۔۔ رسک بلما۔۔۔۔۔۔گا کر سحر میں مبتلا کر دیتے ۔۔۔۔ ان یادوں کو کتابی شکل دی جائے اور ساتھ دیگر ثقافتی ورثہ کو بھی اجاگر کیا جائے تو نئی نسل کو آگاہی ہو گی۔۔۔۔۔ بھکر کے ایک دوست اپنے اکابرین اور ثقافتی ورثہ پہ لکھ کر یہ کام بخوبی سرانجام دے رہے ہیں
The Bhakkar……
میں نے گلستان کو دیکھا ہوا ہے وہ شکاری بھی تھے
ماشاءاللہ سر
میرے خاندان اور میرے بزرگوں کی تاریخ
جاوید کی وفات کے بعد وہ ہماری دادوخیل کچہ میں واقع زمین پر کچھ عرصہ منتقل ہوئے کھیتی باڑی کی اور فطرت اور قدرتی مناظر کو بہت پسند کرتے
گلستان خان اور امتیاز المعروف دادو استاد عیسی خیل والے لوک موسیقی میں بہت اچھے تھے اور ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں ان کی خدمات قابل ستائش ہیں اور موسیقی سے لگاؤ اورفوک کے ساتھ ساتھ کلاسیکی موسیقی بھی ان کا شغف رہی اور اس کے لئے انھوں نے باقاعدہ استاد عبد الرحمن مندہ خیل والےکی شاگردی اختیار کی اور یہ سلسلہ استاد کی رحلت تک برقرار رہا اور ان کی کامیابی کا راز بھی یہی تھا کہ باقاعدہ سیکھے ہوۓ تھے ورنہ جو حالات اج کل کے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
سر سے گزارش ہے کہ استاد عبد الرحمن کے متعلق بھی لکھیں کیونکہ ان کی خدماتِ کلاسیکی موسیقی میں کسی ڈھکی چھپی نہیں بلکہ اس میانوالی میں رائج موسیقی کی تمام اصناف میں وہ یکتا تھے اور کلاسیکی موسیقی کی جدید صنف خیال گائیکی کو پاکستان بننے سے قبل میانوالی میں متعارف کرایا اور انکے قد کاٹھ کا اگر موازنہ کریں تو وہ بڑے غلام علی خان کے کلاس فیلو تھے اور ان دونوں حضرات کے استاد برصغیر پاک وہند کے نامور اساتذہ کے استاد تھے جن کا نام امیر خان ملتان والے اور عاشق علی خان پٹیالے والے تھے
مواد کافی ہے ضرورت پڑنے پر فراہم کر سکتا ہوں اس سے میانوالی میں میں موجود مخفی کرداروں کو سامنے لانے میں مدد ملے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔٤ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسین یادیں۔۔۔۔۔۔ ۔مدینہ منورہ —— دسمبر 2019
اللہ اکبر— !
کیا جوش ، جذبہ ، ولولہ تھا۔۔۔
جو لوگ 1965 کی جنگ کے دوران اس دنیا میں موجود تھے، گواہی دیں گے کہ وہ کیسا ایمان افروز ماحول تھا۔ اس جنگ کے دوران اس قوم کا نیا روپ دیکھنے میں آیا۔ پوری قوم سرحد پہ کھڑے ایک فوجی جوان کی طرح سینہ تان کر دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ مکمل اتحاد کا ایسا روح پرور منظر پھر کبھی دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ تمام تر مذہبی ، سیاسی، ذاتی اختلافات بھلا کر سب لوگ ایک ہی مقصد کے لییے متحد ہو گئے۔ مقصد تھا اپنے سے چارپانچ گنا بڑے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا۔
اس جنگ میں صرف مسلح افواج ہی نہیں ، پوری قوم نے حصہ لیا۔ جنگ کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیئے بیرون ملک سے قرض کی بھیک مانگنے کی بجائے صدر ایوب خان نے قوم سے امداد کی اپیل کی تو امیر غریب سب لوگوں نے فراخ دلی سے امداد فراہم کردی۔ بچوں نے اپنا جیب خرچ اور خواتین نے اپنا زیور تک بیچ کر رقم جنگ کے فنڈ میں جمع کروادی۔
محاذ جنگ پر سینہ سپر بھائیوں اور بیٹوں کے لیئے خواتین قسم قسم کے کھانے بنا کر بھیجتی رہیں۔ لوگ بستر ، ضرورت کی دوسری چیزیں حتی کہ سگریٹ بھی محاذ جنگ پر بھیجتے رہے۔
اس جنگ میں ہمارےسرفروش مجاہدوں نے ہمت و شجاعت کے جو حیران کن کارنامے سرانجام دیئے ان پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔
اسی جنگ میں پاکستان ائیرفورس کے ایم ایم عالم نے چار پانچ سیکنڈ میں دشمن کے پانچ طیارے گرا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا۔
جنگ کے دوران قوم کا جوش و جذبہ دیکھ کر علامہ اقبال کی یہ بات بار بار یاد آتی تھی۔۔۔۔۔
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔٦ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنوں بھوتوں چڑیلوں کے قصے سناسنا کر نانیاں دادیاں ہماری مت مار دیتی تھیں۔ اندھیری راتوں میں گھر سے باہر قدم رکھنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ ساری رات جنوں بھوتوں کے سائے اپنے آس پاس پھرتے محسوس ہوتے تھے۔ راتوں کے پچھلے پہر بچے باہر ذرا سی آہٹ سن کر بستر میں گھس کر سر منہ لپیٹ لیتے تھے۔
لیکن ان کہانیوں کا بھی ایک اپنا لطف تھا۔ جب تک کہانی نہ سن لیتے نیند نہیں آتی تھی ۔ اور کہانی سننے کے بعد خوف سے نیند نہیں آتی تھی۔ دیر تک بستر میں پڑے تھر تھر کانپتے رہتے تھے۔ واش روم تک بھی نانی دادی یا امی کی انگلی پکڑ کر جاتے تھے۔ اکیلے جاتے ہوئے ڈر لگتا تھا کہ اندر کوئی جن بھوت ہماری تاک میں نہ بیٹھا ہو۔
میں بچپن کے چند سال نانی اماں کے پاس رہا۔ دو کنال کے وسیع و عریض گھر میں ہم نانی اور نواسہ اکیلے رہتے تھے۔ ہر رات میں اصرار کر کے جنوں بھوتوں کی کوئی کہانی سنتا اور نانی اماں سے لپٹ کر خوف سے تھر تھر کانپتا رہتا۔ یہ یقین تھا کہ نانی اماں کی موجودگی میں کوئی جن بھوت ادھر قدم رکھنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ کہا کرتی تھیں مجھے ناد علی اور ایسی ایسی دعائیں یاد ہیں کہ پڑھوں تو ادھر آنے والا جن بھوت سڑ کر سواہ ہو جائے گا۔ بس اسی یقین کے سہارے مزے کی نیند سو جایا کرتے تھے۔
نانی اماں جنوں کے نام بھی بتایا کرتی تھیں۔ سب سے بڑے جن کا نام غلام محمد، اس کے بیٹوں کے نام شیر محمد ، نور محمد اور فتح محمد تھے ۔ پتہ نہیں وہ سب کدھر چلے گئے۔ شاید نانی اماں کے ساتھ وہ بھی یہ دنیا چھوڑ کر عدم آباد جا بسے۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
ہمیشہ کی طرح خوبصورت تحریر ،،،، جن تو خیر اب بھی جعلی پیروں کے ڈیروں پر نظر آ جاتے ہیں مگر یہ عقدہ کشائی فرمائیں کہ یہ جن برصغیر سے نکل کر یورپ میں بدروحوں کی صورت کیسے اختیار کر لیتے تھے پرانی انگلش فلموں میں بھی یہی منظر نامہ ؟
اہل مغرب کے ہاں بدروحوں ghosts پر یقین زمانہ قدیم سے اب تک موجود ہے ۔ بدروح کسی برے آدمی یا مقتول کی روح کو کہتے ہیں جو انتقام لینے کے لیئے یا فساد برپا کرنے کے لیئے دنیا میں گھومتی رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔٧ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے صبح سویرے سکول جانا مجھے زہر لگتا تھا۔ مگر مجبوری یہ تھی کہ ہمارے کچی پہلی کلاس کے ٹیچر ماسٹر نواب خان صاحب نے میرے کزن ملک ریاست علی اور میرے دوست محمد صدیق خان بہرام خیل سے کہہ رکھا تھا کہ اس مردود کو ہر حال میں روزانہ ساتھ لے کر آنا ہے۔ اس لیئے یہ دونوں صبح سویرے میرے سر پہ نازل ہو جاتے۔
ابتدا میں تو میں نے صاف کہہ دیا جاو اپنا کام کرو ، میں نہیں جاتا سکول۔ انہوں نے کہا ماسٹر صاحب کا حکم ہے کہ آپ کو ہر حال میں ساتھ لے کر سکول آنا ہے۔
“ہر حال” والی دھمکی دینے والا ایک بندہ ہوتا تو میں دیکھ لیتا، مگر یہ کم بخت دو تھے۔ صدیق خان نے کہا دیکھو منور بھائی ہماری بھی مجبوری ہے۔ تمہیں لے کر نہ گئے تو ماسٹر صاحب ہماری پٹائی کریں گے، اس لیئے ہم یہاں سے خالی ہاتھ نہیں جاسکتے ۔
بات یہ بھی معقول تھی۔ مجبورا دل ہی دل میں ان دونوں کو بے تحاشا گالیاں دیتا ہوا میں ان کے ساتھ چل پڑا۔
کچی پہلی کلاس کے ایک سال کے دوران روزانہ صبح سویرے یہ سین بنتا رہا۔ عجیب مصیبت تھی۔
راستے میں چاچا یاسین خان کو کھیت میں ہل چلاتے دیکھ کر میں سوچتا کتنے خوش نصیب ہیں یہ لوگ کہ سکول جانے کی پابندی سے آزاد ہیں۔ جہاں مرضی جائیں، جو کام چاہیں کریں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔
پرندوں کو اڑتے دیکھ کر سوچتا یہ کتنے خوش قسمت ہیں، نہ ان کا کوئی سکول ہے، نہ ماسٹر نواب خان، اپنی مرضی سے وقت گذارتے ہیں۔
اپنی سوچ یہ تھی کہ کھیل کود کی عمر میں روزانہ آدھا دن سکول میں ضائع کرنا سراسر ظلم ہے۔ سکول میں بھی میں اس ظلم پر کڑھتا رہتا۔ افسوس کہ “حقیقی آزادی” چاہنے والا صرف میں ہی تھا۔ میرے باقی ساتھی “غلامی” پر مطمئن تھے۔
اپنے گھر والوں پر بھی بہت غصہ آتا تھا کہ کوئی بھی میرا ساتھ نہیں دیتا سب کہتے ہیں تعلیم اچھی چیز ہے ، اس لیئے سکول تو جانا پڑے گا۔
اسی وجہ سے میں سکول سے واپس آتا تو غصے سے بھاء بھاء ہوتا کہ ان لوگوں کی وجہ سے میں روزانہ پانچ گھنٹے سکول کے پنجرے میں بند رہتا ہوں۔
آج کی باتیں شاید آپ کو عجیب سی لگیں، مگر ہیں 101 فی صد سچ۔۔
مجھے سکول اور نظام تعلیم سے نفرت تھی۔ میں تو پرندوں کی طرح آزاد رہنا چاہتا تھا مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔٨ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے پینے کے معاملے میں پانچ بہن بھائیوں میں سب سے نخریلا میں تھا۔ سکول سے واپس آ کر پوچھتا کیا بنایا ہے؟ جواب جو بھی ہوتا میں کہتا نہیں کھانا۔
امی میری کمزوریاں جانتی تھیں۔ انہیں پتہ تھا کہ میں میٹھی چیزیں کھانے کا شوقین ہوں۔ اس لیئے وہ فٹافٹ انڈے کا حلوہ، خالص گھی اور سرخ شکر والی چوری، میٹھا پراٹھا، میٹھی وشلی یا کوئی اور میٹھی چیز بنا دیتی تھیں۔ میرا دوپہر کا کھانا یہی ہوتا تھا۔ گھر میں دو وقت سالن بھی بنتا تھا۔ مگر میں سالن کے ساتھ روٹی صرف شام کو کھایا کرتا تھا۔ دوپہر کو صرف میٹھی چیزیں ہی کھاتا تھا۔
کیا ورائیٹی تھی میٹھی چیزوں کی اس زمانے میں۔۔۔ ! ۔ مائیں بڑی کاریگر ہوتی تھیں۔ جن چیزوں کے نام میں نے بتائے ہیں ان کے علاوہ بھی ہماری امی بہت سی دوسری میٹھی چیزیں بنا لیتی تھیں۔ چنے کے تازہ بھنے ہوئے دانوں کا چھلکا الگ کر کے دانے پیس کر بھنے ہوئے چنوں کے آٹے میں خالص دیسی گھی اور سرخ شکر ملا کر ایک میٹھا پاوڈر سا بنتا تھا۔ بے حد لذیذ چیز تھی یہ بھی ، لذت اور توانائی سے بھرپور۔ ایسی کئی اور چیزیں بھی بنتی تھیں۔
اب تو میں نے تقریبا 30 سال سے دوپہر کا کھانا کبھی نہیں کھایا۔ کچھ کھانے کو جی ہی نہیں چاھتا ۔ دوپہر کو فروٹ یا کیک بسکٹ کے ساتھ چائے لے لیتا ہوں۔ بچپن میں جو کچھ کھایا پیا، الحمدللہ اسی سے حاصل ہونے والی توانائی ابھی تک چل رہی ہے۔ چلنے پھرنے ، پڑھنے لکھنے کے لیئے یہی کافی ہے ، ہم نے کون سا ورلڈ کپ میچز کھیلنے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔٩ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذکر چھڑ ہی گیا ہے تو آج آپ کو اپنا کھانے پینے کا روٹین بھی بتا دوں، شاید اس سے بھی کسی کا بھلا ہو جائے۔
ناشتہ۔۔۔۔ آدھ کلو دہی اور ایک کپ چائے۔ انڈہ پراٹھا وغیرہ کچھ بھی نہیں۔ ناشتے کے ساتھ ایک گولی Revitale Multi یا Vidaylin -T
دوپہر کا کھانا۔۔۔۔۔ فروٹ یا کیک ، بسکٹ چائے کے ساتھ ۔
شام کا کھانا۔۔۔۔ ایک روٹی سالن کے ساتھ۔ سالن جو بھی بنا ہو کھا لیتا ہوں۔
دن میں ہر گھنٹے بعد ایک کپ چائے۔۔ چائے کا آخری کپ رات دس بجے۔
کھانے پینے کا یہی روٹین 30 سال سے چل رہا ہے۔
میری ضرورت کے لیئے بس اتنا ہی کھانا پینا کافی ہے۔ پیدل چلنے کی عادت بچپن سے ہے۔ اب بھی چلتا پھرتا رہتا ہوں۔ دن کو سونے کی عادت نہیں۔ دن بھر اپنی پسند کا پڑھنے لکھنے کاکام کرتا رہتا ہوں۔ 82 سال کی عمر میں اتنا کچھ کرلینا بھی اللہ کے خاص کرم سے ہی ممکن ہے۔ اکثر سوچتا ہوں ۔۔۔۔۔
میں اس کرم کے کہاں تھا قابل
اپنی جو خوراک میں نے بتائی ہے اس سے مجھے اپنی ضرورت کے مطابق توانائی مل جاتی ہے۔ شوگر، بلڈ پریشر، سب کچھ نارمل ۔
خواہ مخواہ پیٹ بھرنے کا فائدہ کم نقصانات زیادہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔١٠ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی غرض یا لالچ کے بغیر میری پوسٹس کے قارئین کی میری تحریروں سے محبت ، روزانہ میری تازہ پوسٹ کا انتظار، کسی وجہ سے پوسٹ نہ آ سکنے پر پریشانی ، پوسٹ سے مطمئن ہو کر دعائیں ، مجھے فیس بُک پر رواں دواں رکھتی ہیں۔ طبیعت ٹھیک نہ بھی ہو تو ان مہربانوں کا دل دکھانے کی بجائے حاضری لگوا دیتا ہوں۔
زیادہ تر قارئین گئے زمانوں اور گذرے لوگوں کی باتیں سننا پسند کرتے ہیں۔ اپنے ماضی کا ذکر کرنا مجھے بھی بہت اچھا لگتا ہے۔
گذرے وقتوں کے کھانوں کے ذکر سے بھی اکثر قارئین بہت خوش ہوتے ہیں۔
بہت سے لوگ لالہ عیسی خیلوی کے بارے میں پوسٹس کے منتظر رہتے ہیں۔ لالہ پر تو میں پوری کتاب درد کا سفیر آج سے 30 -35 سال پہلے لکھ چکا ہوں، پھر بھی فیس بک فرینڈز میں لالہ کے چاہنے والوں کے لیئے کبھی کبھار کچھ لکھ دیتا ہوں۔
علم کی باتیں پڑھنے سننے کے شوقین دوست بہت کم ہیں پھر بھی جو ہیں ان کے لیئے بھی کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا ہوں۔
اپنے دوستوں اور جانی پہچانی شخصیات کے بارے میں بھی کبھی کبھار لکھتا رہتا ہوں۔
یہ پہلے ہی کئی بار بتا چکا ہوں کہ لکھتا اپنی مرضی سے ہوں۔ اس لیئے قارئین کو میری انگلی پکڑ کر ہی چلنا ہوگا۔ جدھر میری مرضی لے جاوں۔
البتہ موضوعات وہی ہوتے ہیں جن کا ابھی ذکر کر چکا ہوں۔
الحمد للہ 8 سال سے ہمارا یہ کارواں رواں دواں ہے۔ دعا کرتے رہا کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔١١ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے بارے میں چند دن پہلے بتا چکا ہوں۔ کمنٹس دیکھ کر حوصلہ افزائی ہوئی کہ اچھے خاصے شریف اور معزز لوگ بھی بچپن میں سکول جانے سے گریزاں رہے۔
اس گریز کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ سکول میں بچوں کو نہ مناسب پیار ملتا تھا ، نہ آزادی۔ ذرا ذرا سی بات پر مار پٹائی اور اس پر کلاس کے سامنے شرمندگی ۔ حساس بچے اس ذلت کے ڈر سے سکول جانے سے ڈرتے تھے۔
مجھے تو قدرت نے تخلیق کار ( شاعر ، ادیب ) بنایا تھا۔ تخلیق کار کبھی بنی بنائی راہ پر چلنا پسند نہیں کرتا ۔ اپنی راہ خود بناتا ہے۔ میں سکول کے بنے بنائے نصاب کو رٹا نہیں لگا سکتا تھا۔ طبیعت پر جبر کر کے امتحان پاس کرنے کے لیئے تھوڑی بہت محنت کر لیتا تھا ، مگر سکول کے ڈسپلن اور نظام تعلیم سے مجھے نفرت سی تھی۔
مار پٹائی کے معاملے میں اساتذہء کرام مجھ پر خاصا ہلکا ہاتھ رکھتے تھے کیونکہ بیشتر اساتذہء کرام میرے دادا جی کے سٹوڈنٹ رہ چکے تھے۔ اور میرے بابا جی بھی محکمہ تعلیم کے افسر تھے۔ ورنہ تو بھگوڑے سٹوڈنٹس کو زبردستی سکول لانے کے لییے چار ہٹے کٹے لڑکوں پر مشتمل ایک “ٹنگا ٹوڑی گروپ” ہوتا تھا جو مفرور لڑکے کا پیچھا کرکے اسے بازووں اور ٹانگوں سے پکڑ کر ، اٹھا کر، بلکہ گھسیٹ کر سکول پہنچا دیتا تھا۔ یہ گروپ ہماری کلاس میں بھی تھا، مگر مجھے اس سے کبھی واسطہ نہ پڑا۔ میرے خلاف “قانونی کارروائی” کی ایف آئی آر میرے چچا ملک محمد صفدر علی کی خدمت میں پیش کی جاتی تھی۔ مار تو ٹھیک ٹھاک پڑتی تھی، لیکن گھر ہی میں پڑتی تھی ، کلاس کے سامنے جگ ہنسائی تو نہیں ہوتی تھی۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
آپ بطور باپ بہترین بطور بیٹا بہترین بطور بھائ بہترین لیکن بطور استاد بہت سخت ہیں (معزرت) چھٹی کلاس میں آپ کی ایک مار نے مجھے انگریزی سے نفرت کرا دی اللہ کریم میرے دادا ابو کی مفعرت فرمائے باقی انگریزی انہیں سے یا اپنے تایا ابو ملک محمد انور علی سے پڑھی اور کالج میں پروفیسر سرور خان صاحب سے
سر جی
غالبن 1970 کی بات ھے گورنمنٹ مڈل اسکول ٹھٹھی میں آپ ھماری آٹھویں جماعت کو ریاضی(Mathe) پڑھا رھے تھے ھم آپ کی ٹیبل کے گرد کھڑے تھے ھمارے ایک کلاس فیلو محمد حیات نامی المعروف حیاتا (ساکن ٹھٹھی )سے آپ نے”کلیہ فیثا غورث” کے متعلق سوال کیا لیکن وہ کافی دیر جواب دینے سے قاصر رہا۔
آپ نے خلاف معمول (خلاف توقع ) اس پر سختی نہیں کی بلکہ
اسے دوسری جماعت کے لیول کا سوال دیا
بطور نمونہ اصل فگر یاد نہیں رھے
2387
+1546
+9527
+3081
________
تقریبا آدھا گھنٹہ وہ لگا رھا لیکن اس سے سوال حل نہ ھوا
پوری کلاس ڈر کے مارے سہمی ھوئی تھی گو کہ اندر سے طلبا
نے ہنسی بڑی مشکل سے کنٹرول کر رکھی تھی ۔بالآخر ھمارے
مانیٹر ملک سید امیر ساکن ٹھٹھی نے ھمت کر کے آپ سے اس
کی امداد کرنے کی گزارش کی
لیکن اپ نے حیاتے کو کہا کہ بیٹا والدین کا پیسا ضائع نہ کریں
حیاتے نے جواب میں اسکول چھوڑنے کا عندیہ پیش کر دیا
تو آپ مسکرائے اپنا ہاتھ حیاتے کی طرف بڑھاتے ھوئے کہا کہ اس طرح ھوتے ھیں غیرت مند نوجوان
حیاتے نے آپ کے ہاتھ پر پٹاخ کر کے ہاتھ مارا اور آپ ہنس دیئے
حیاتا اس دن کے بعد اسکول نہیں آیا تھا۔
آج سے تقریبا ایک سال قبل 25 ، 30 بعد حیاتے نے مجھے اپنی
پہچان اسی واقعہ سے کرائی۔
کمنٹ کی طوالت کے لیے معذرت چاھوں گا سر جی
خالق کائنات صحت وسلامتی قائم ودائم رکھے ۔آمین*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔١٢ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
جب ہم مڈل ( آٹھویں کلاس) کا امتحان دینے کے لیئے موچھ گئے تو میری جیب میں مختلف قسم کے 8 پین تھے۔ ان میں پاکستانی پین ایگل وغیرہ کے علاوہ اعلی کوالٹی کے برطانوی پین Blackbird , Swan اور Watermans بھی شامل تھے۔
اب تو بال پین یا لائینر liner سے کام چلا لیا جاتا ہے ، میں جس پین کی بات کر رہا ہوں اس کا پورا نام فاونٹین پین fountain pen تھا۔ اس میں دوات سے روشنائی ( سیاہی) بھری جاتی تھی۔ سیاہی بھرنے کا میکنزم کئی طرح کا ہوتا تھا۔ Parker اور Sheaffers سب سے مہنگے پین ہوتے تھے۔ یہ پین وی آئی پی لوگ اپنی حیثیت کے اظہار کے لیئے جیب میں رکھتے تھے۔
رفتہ رفتہ فاؤنٹین پین کی جگہ بال پین نے لے لی۔ بال پین سستا بھی ہوتا ہے اور اس میں بار بار سیاہی بھرنے کا درد سر بھی نہیں ہوتا۔ سیاہی ختم ہوگئی تو پھینک کر نیا پین خرید لیا۔
اب تو پنجابی میں لفظ پین صرف گالی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
پرائمری تعلیم کے دوران ہمیں قلم دوات سے لکھوایا جاتا تھا اور بدخطی کا سارا الزام قلم دوات چھوڑنے اور پین (فاؤنین پین) کے استعمال پر آتا تھا۔
بعد ازاں بد خطی کا ملزم بدل دیا گیا۔ آج کل بدخطی کی بحث میں کہا جاتا ہے جب سے پین کی بجائے بال پین آیا ہے تب سے خوش خطی چلی گئی ہے۔
میری لکھائی بھی خوبصورت نہیں تھی اور میں سستے مہنگے قلم بدل بدل کر لکھتا تھا۔
میرا خیال ہے خوش خطی میں قلم کا کردار کم اور مشق و مہارت کا کردار زیادہ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں سرکنڈے کے قلم اور نب والے پین کے زمانے کئی لوگوں کی لکھائی خراب اور ساتھ یہ بھی دیکھتے ہیں کئی لوگ بال پین سے اتنا اچھا لکھ لیتے ہیں۔
بالکل درست کہا۔
ایگل یوتھ پارکر ونگ سنگ وغیرہ استعمال کئے اور بورڈ کے امتحانات میں بلیو بلیک پلیکان کی سیاہی استعمال کرتے تھے۔
نب والے ہولڈر بھی استعمال کئے۔
اب تو وقت بدل گیا ہے
استاد تختی بھی نہیں لکھواتے۔
ھمارے دور میں ھیرو پن کی ڈیمانڈ تھی دو قسم کی پن ھوتے تھے اک کو چھوٹا ھیرو بولتے تھے جو تھوڑا سستا اور اسکی نب چھوٹی ھوتی تھی جبکہ بڑا ھیرو کی نب چوڑی اور وہ اس سے مہنگا اور خوبصورت ھوتا تھا
سر! آپ کے اس ہونہار طالب علم کو یہ اعزاز حاصل ھے کہ غالباً 1983
میں ایک عدد “امریکن پارکر پین” بالکل نیو آپ کو تحفتاً پیش کیا تھا جو کافی اصرار کے بعد ہی آپ نے قبول فرمایا تھا۔
چونکہ آپ سچی مچی کے بادشاہ بندے ہیں۔ ہوم ورک چیک کرنے کے بعد آپ ایک طالب علم کی قلم دوسرے کو دے دیتے تھے۔ اور مزے کی بات یہ کہ آپ جس طالب علم کو قلم تھما دیتے تھے باوجود اس کے، کہ وہ قلم اس کی نہ بھی ھوتی تب بھی وہ اپنی خوش بختی سمجھ کے بطور اعزازی شمشیر چپکے سے اپنے پاس رکھ لیتا تھا۔( سر! ان کارناموں میں اس ناچیز کا نام بھی شامل ھے جی!)
بعین ہی اسی طرح پارکر کا وہ پین جسے
“کر کر منتاں ترلے” اس ناچیز نے بڑی مشکل سے شرف قبولیت حاصل کی تھی غالباََ اگلے ہی روز
آپ سے آپ کے کسی طالب علم نے لے لیا۔
(سر! کہانڑی گئی گندے،”ت” ستے پہء آں منجھے “ت”!)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔١٣ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم دوسری کلاس میں پہنچے تو میں نے سکول کی قید سے فرار کی ایک نئی راہ ڈھونڈ لی۔ صبح سویرے ناشتہ کرنے کے بعد میں بستہ اٹھا کر گھر سے سکول جانے کے لیئے نکلتا اور سیدھا اپنے محلے کے بزرگ کمہار چاچا شادی بیگ کی کارگاہ میں جا بیٹھتا۔ تیزی سے گھومتی ہوئی لکڑی کی پلیٹ (چاک) پر گیلی مٹی کے لوتھڑے کو چاچا شادی بیگ کے ہاتھوں سے بادیہ(پیالہ) گھڑا ، ہانڈی یا کسی اور برتن کی شکل اختیار کرتے دیکھ کر بہت سکون ملتا۔ سوچتا تھا بڑا ہوکر میں بھی یہی کام کروں گا۔۔ مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔
شیکسپیئر کے ایک ڈرامے میں ایک کردار کہتا ہے ۔۔۔۔
There’s a Divinity that shapes our ends,
Rough-hew them how we will
(ہم اپنے آپ کو جتنا بھی بگاڑ لیں ، سنوارنے والا اوپر بیٹھا ہے)۔
مجھے سنوار کر کچھ بنانے کا پروگرام میرا خالق پہلے ہی طے کر چکا تھا، اس لیئے جو میں چاہتا تھا وہ نہ ہو سکا۔
کچھ عرصہ بعد میرے گھر والوں کو میرے فرار کی خبر مل گئی۔ خوب چھترول ہوئی ۔ اور توبہ تائب ہو کر میں باقاعدہ روزانہ سکول جانے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔١٤ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوتھی کلاس پرائمری کی آخری کلاس ہوتی تھی۔ اس کلاس میں ہمارے استاد محترم ماسٹر عبدالحکیم صاحب تھے ۔ بہت لائق ، محنتی اور سخت گیر ٹیچر تھے۔ دن کے پچھلے پہر شام تک گھر پہ بھی کلاس لگاتے تھے۔ کوئی ٹیوشن فیس وغیرہ نہیں لیتے تھے۔ پوری کلاس کی حاضری لازمی تھی۔ غیر حاضری پر سزا ملتی تھی۔
ماسٹر صاحب ہمارے ہمسائے تھے۔ ہمارے گھر کی شمالی دیوار کے پار والا گھر ان کا تھا۔ ہمارے دادا جی کے سٹوڈنٹ رہ چکے تھے ، اس لیئے مجھ پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ توجہ کا مطلب مارکٹائی میں مجھے زیادہ حصہ ملتا تھا۔ کہا کرتے تھے اور لوگوں کی تو خیر ملک مبارک علی کے پوتے نے یہ غلطی کیوں کی۔
دسمبر جنوری کی شدید سردی میں نہانا میرے لیئے عذاب تھا۔ امی نے ماسٹر صاحب کو پیغام بھیجا کہ یہ موذی نہاتا نہیں ہے۔
ماسٹر صاحب نے فوری ایکشن لیا۔ مجھے پکڑ کر نلکے (ہینڈ پمپ) کے سامنے بٹھایا ، دو لڑکوں نے میرے بازو مروڑ کر مجھے قابو کیئے رکھا اور ماسٹر صاحب ایک ہاتھ سے ہینڈ پمپ چلاتے دوسرے ہاتھ سے میرے سر منہ پر صابن رگڑتے رہے۔ صابن ملا پانی آنکھوں میں جانے پر میں نے احتجاج کیا تو اوپر سے دوچار تھپڑ بھی جڑ دیئے۔
کلاس کے سامنے اس ذلت و رسوائی سے بچنے کے لییے میں روزانہ صبح سویرے گھر پر ہی نہانے لگا۔
ماسٹر عبدالحکیم صاحب کا کچھ ذکر ان شآءاللہ کل ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔١٥ ستمبر 23 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماسٹر عبدالحکیم کے ہاتھوں لترول کے ڈر سے تمام بچے پڑھنے لکھنے میں محنت کرنے لگے۔ جلد ہی میرا شمار کلاس کے چوٹی کے دوتین سٹوڈنٹس میں ہونے لگا۔ ذہین تو میں پہلے بھی تھا بس حرامخوری کی عادت محنت نہیں کرنے دیتی تھی۔ ماسٹر صاحب نے مارپیٹ کر یہ عادت چھڑوا دی تو میں کلاس کے لائق سٹوڈنٹس میں شامل ہو گیا۔
ماسٹر صاحب نے مجھے وظیفے کے امتحان کی تیاری کرنے والے بچوں کے گروپ میں شامل کر لیا۔ ہم چار بچے تھے۔ امتحان میں ہم سب کامیاب ہوگئے۔ ہر ایک کو 4 روپے ماہوار وظیفہ تین سال تک ملتا رہا۔ تین ماہ کا وظیفہ 12 روپے ہر تیسرے ماہ ملتے تھے۔ 12 روپے اس زمانے میں اچھی خاصی رقم تھی۔
میں نے پہلی دفعہ وظیفے کے 12 روپے لا کر امی کو دیئے تو مجھے سینے سے لگا کر خوشی سے روتے ہوئے گھر کے لوگوں کو مخاطب کر کے کہنے لگیں ” یہ دیکھو ، لوگوں کے جوان بیٹے بے روزگار پھر رہے ہیں اور میرا لال 10 سال کی عمر میں اپنی کمائی لا کر مجھے دے رہا ہے” ۔
وہ 12 روپے تو امی نے فورا صدقے کے طور پر مستحق لوگوں میں تقسیم کر دیئے۔ اس کے بعد میں جب بھی وظیفے کی رقم لا کر دیتا اس رقم سے میری کوئی نہ کوئی چیز خرید لیتی تھیں۔
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔١٦ ستمبر 23 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١٦ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکول میں سر گل خان کا تقرر ایک عارضی پوسٹ پر تھا۔ کچھ عرصہ بعد ان کی پوسٹ کی میعاد ختم ہو گئی تو وہ سکندر آباد کی فرٹیلائیزر فیکٹری میں جنرل منیجر کے پرسنل سیکریٹری کے منصب پر فائز ہو گئے، مگر انگلش پڑھانا ان کا جنون تھا ، اس لیئے شام کو اپنے گھر پر انگلش کی کلاس بھی چلاتے رہے۔ چالیس پچاس سال بعد ، 90 برس سے اوپر عمر میں، آج بھی یہی کار خیر سرانجام دے رہے ہیں۔
اللہ سلامت رکھے ، میرے اساتذہ کرام میں سے صرف یہی اس وقت دنیا میں موجود ہیں۔ جب بھی ملاقات ہو بہت پیار سے ملتے ہیں۔ کہتے ہیں مجھے تم پر فخر ہے کہ میرے سٹوڈنٹس میں سے صرف تم نے ایم اے انگلش کر لیا ۔ بہت دلچسپ گفتگو ہوتی ہے ہماری آپس میں۔۔۔ کبھی کبھار سکندرآباد آنا جانا ہوتا ہے تو سرگل خان کو سلام کرنے کی سعادت نصیب ہو جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔١٧ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکول اور کالج کی تعلیم کے دوران میری دلچسپی صرف انگلش تک محدود رہی۔ امتحان پاس کرنے کے لیئے مجبورا دوسرے مضامین بھی تھوڑے بہت پڑھنے پڑے مگر توجہ کا مرکز انگلش ہی رہی۔ رب کریم نے مجھے انگلش کے اساتذہ بھی ایسے فراہم کر دیئے جو اپنے کام کو عبادت سمجھتے تھے۔ میرا شوق دیکھ کر وہ میری رہنمائی بھی کرتے رہے ، حوصلہ افزائی بھی۔
آٹھویں کلاس میں ہمارے انگلش ٹیچر سر ممتاز حسین کاظمی تھے۔ بہت روانی سے انگلش بولتے تھے۔ پڑھانے کا انداز ایسا تھا کہ بات دل میں اتر جاتی تھی۔ وہ چند دوسرے اساتذہ کے ساتھ ہمارے محلے میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ دوپہر کے بعد میں ان کی خدمت میں حاضر ہو جاتا اور شام تک ان سے کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا تھا ۔ کہا کرتے تھے کہ انگلش میں تمہاری دلچسپی آگے چل کر بہت فائدہ مند ثابت ہو گی۔ وہی ہوا ، انگلش میرا ذریعہ معاش بھی بن گئی ملک بھر میں پہچان کا وسیلہ بھی۔ انگریزی اخبارات میں کالم نگاری کے علاوہ انگریزی میں درجن بھر کتابیں بھی لکھ دیں ۔ اللہ کے فضل سے اردو بھی اچھی خاصی لکھ لیتا ہوں مگر جو مزا انگریزی لکھنے میں آتا ہے اردو میں کہاں۔ اکثر کہتا ہوں انگریزی نثر میں ویسا ہی حسن ہے جیسا اردو شاعری میں ۔ بات تیر کی طرح سیدھی دل میں اتر جاتی ہے۔ لفظ نیلی پیلی لال سبز بتیوں کی طرح جگمگاتے نظر آتے ہیں۔
سر ممتاز کاظمی کچھ عرصہ بعد محکمہ لوکل گورنمنٹ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ وہیں سے ریٹائر ہوئے۔ میانوالی کے بعض قارئین کے لییے یہ شاید ایک خوشگوار انکشاف ہو کہ وہ گورنمنٹ کالج میانوالی میں شعبہ بیالوجی کے پروفیسر عامر کاظمی کے والد محترم تھے۔ ٹیچر کی حیثیت میں مجھ پر انہوں نے جو محنت کی ان کا یہ احسان ہمیشہ یاد رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔١٨ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نویں کلاس میں ہیڈماسٹر راجہ الہی بخش پراچہ صاحب نے ہمیں انگلش پڑھائی۔ بہت باکمال ٹیچر تھے۔ انگریزی زبان میں ان کی دسترس حیرت انگیز تھی۔ طریقہ تدریس ایسا دلنشیں کہ پوری کلاس ان کے پیریئڈ میں ہمہ تن متوجہ رہتی تھی۔
انہوں نے خاص طور پر لفظ سازی Word building اور جملوں کی ساخت Sentence structure کے بارے میں جو کچھ ہمیں سکھایا آج بھی کام آ رہا ہے۔ بلیک بورڈ بہت زیادہ استعمال کرتے تھے۔ ہینڈ رائیٹنگ بھی بہت خوبصورت تھی۔
ہم دسویں کلاس میں پہنچے تو راجہ صاحب ٹرانسفر ہو کر کندیاں چلے گئے۔ مگر ایک ہی سال میں ہمیں اتنا کچھ سکھا گئے کہ کوئی اور ٹیچر چار سال میں بھی نہ سکھا سکتا۔
1984-85 میں میں نے Ali English Composition کے عنوان سے کتاب لکھی تو اس کا انتساب نذرانہءعقیدت کے طور پر راجہ الہی بخش صاحب کے نام کر دیا۔
راجہ صاحب کا آبائی گھر تو کالاباغ میں تھا مگر ملازمت کے دوران ہی مستقل طور پر کندیاں منتقل ہو گئے۔ زندگی کے بقیہ دن وہیں بسر کیئے۔ جب بھی ملاقات ہوتی بہت پیار سے ملتے تھے۔
افسوس کہ راجہ صاحب کی کوئی پکچر اس وقت میری دسترس میں نہیں۔ بہت پرکشش بزرگ شخصیت تھے۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
راجہ الہی بخش پراچہ صاحب کی جنم بھومی کالا باغ ہے مگر کبھی بطور مدرس کالاباغ میں نہیں رہے۔ کندیاں میں دوران سروس غالبا بازو بس کی کھڑکی سے باہر نکالا ہوا تھا کہ کٹ گیا لیکن اس فرض شناس استاد نے لوح و قلم کی حرمت پہ حرف تک نہ آنے دیا اور کٹے بازو سے فرات علم سے مشک لاتے تھے اور بچوں کو سیراب کرتے کرتے کندیاں ہی میں آسودہ خاک ہو گئے۔
حق مغفرت کند این استادان پاک طینت را
سر جی اگر وہ کندیاں مستقل سیٹ ہوئے تو ہمارے محلے کے شاید ان کے دو بیٹے ہیں ماسٹر ریاض پراچہ اور انوار پراچہ پراچہ کمرشل سنٹر بک ڈپو صدیقی بازار کندیاں
Nadeem Chaudhry جی میں ان کے بڑے بیٹے ڈاکٹر فاروق کو جانتا ہوں۔ ریاض اور انوار سے متعارف نہیں ہو سکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔١٩ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا کالاباغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے دریا اوپر پہاڑ ۔۔۔۔۔۔۔ کالاباغ شہر دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے پہاڑی علاقے کی کوئی خاتون بچے کو سینے سے لگائے دریا میں پاوں لٹکا کر بیٹھی ہے۔
٢١ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹا، آپ تو دسمبر 2010 میں 18 سال کی عمر میں یہ دنیا چھوڑ کر عدم آباد جا بسے مگر ہم اب بھی ہر سال 22 ستمبر کو آپ کی سالگرہ مناتے ہیں۔
اللہ کریم آپ کو اپنی رحمت کی امان میں رکھے ۔٢٢ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند دن پہلے تک اپنے انگلش کے اساتذہ کرام کا ذکر کر کے ان کی مہربانیوں کا قرض ادا کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ درمیان میں کچھ دوسری اہم باتیں آگئیں اس لیئے اساتذہ کے بارے میں پوسٹس کاسلسلہ کچھ دن معطل رہا۔ آج اسی تسلسل کو آگے بڑھاتے ہیں۔
گارڈن کالج راولپنڈی میں اپنے انگلش کے امریکی پروفیسر جان وائلڈر صاحب کا ذکر جب بھی زبان یا نوک قلم پر آتا ہے آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں۔
بابا جی کی ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے پنڈی چھوڑ کر داودخیل واپس جانا پڑا تو واپسی سے ایک دن پہلے پروفیسر جان وائلڈر کو بتایا ۔۔ پریشان ہو گئے۔ کہنے لگے دیکھو، تمہیں قدرت نے بہت اعلی صلاحیتیں عطا کی ہیں۔تمہارے مستقبل کا سوال ہے۔ واپس نہ جاو۔ یہیں میرے گھر میں رہو۔ تمہارے تمام اخراجات میں ادا کروں گا۔ دوسال بعد یہاں اپنی سروس کی میعاد مکمل کر کے امریکہ واپس جاوں گا تو تمہیں ساتھ لے جا کر وہاں سے ایم اے انگلش کرواوں گا۔ ایک شاندار مستقبل کو چھوڑ کر نہ جاو۔
بہت بڑی بات تھی ۔ کون ٹیچر ایک سٹوڈنٹ کا مستقبل سنوارنے کے لیئے اتنی بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ بخوشی قبول کر سکتا ہے۔
ادھر اپنے حالات یہ تھے کہ ایک دیہاتی نوجوان کو سات سمندر پار جاکر امریکہ میں رہنا بہت مشکل لگ رہا تھا۔ گھر سے دور نہ جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ امی بیمار رہتی تھیں۔ انہیں اس حال میں چھوڑ کر جانا کسی بھی صورت میں مناسب نہ تھا۔
پروفیسر صاحب کو صاف انکار کرنے کی بجائے میں نے کہا ” سر ، میں اپنے گھر والوں سے مشورہ کروں گا۔ اجازت مل گئی تو واپس آجاوں گا۔ واپس نہ آوں تو سمجھ لیں کہ اجازت نہیں ملی” ۔
اجازت کہاں ملنی تھی ؟ اتنی ہمت بھی نہ ہوئی کہ خط لکھ کر پروفیسر صاحب کو بتادوں کہ سر میں نہیں آ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔٢٣ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں پروفیسر محمد اقبال خان صاحب ہمیں انگلش پڑھاتے تھے۔ انگلش میں میری عمدہ کارکردگی کی وجہ سے مجھ پر بہت مہربان تھے۔
بی ایڈ کے امتحان کے لییے فارم داخلہ جمع کراتے وقت رپھڑ پڑ گیا۔ ہر مضمون میں 75 فی صد حاضریاں لازم تھیں ، مگر اصول تعلیم نامی مضمون میں اپنی حاضریاں صرف دو تین فی صد نکلیں کیونکہ اس مضمون کی کلاس صبح ساڑھے سات بجے ہوتی تھی اور اپنے شاہانہ مزاج کو اتنے سویرے کلاس میں حاضر ہونا گوارا نہ تھا۔
اس مضمون کے پروفیسر حاجی فضل احمد صاحب خاصے سخت گیر اور بااصول استاد تھے۔ میں نے 75 فی صد حاضریاں لکھوانے کی گذارش کی تو برس پڑے۔ فرمایا تمہیں میں نے بار بار کہا تھا تمہاری حاضریاں شارٹ ہو جائیں گی کلاس میں باقاعدہ حاضر ہوا کرو۔ مگر تم نے پروا ہی نہیں کی۔ اس سال تو تم امتحان میں شامل نہیں ہو سکتے۔ جاو اگلے سال حاضریاں پوری کر کے امتحان دے دینا۔
میں بہت پریشان ہوا کہ اب کیا ہوگا ۔ پورا ایک سال ضائع ہو گیا۔۔ اچانک سر اقبال خان کسی کام سے وہاں آگئے۔ پروفیسر حاجی صاحب کو گرجتے برستے اور مجھے بھیگی بلی بنے دیکھا تو حاجی صاحب سے کہا
حاجی صاحب منڈے نوں کیوں تنگ کردے پئے ہو؟
پروفیسر حاجی صاحب نے کہا دیکھیں جی صاحبزادے سارا سال غیر حاضر رہے اور اب کہتے ہیں مجھے 75 فی صد حاضریاں لکھ دیں۔
سر اقبال خان نے کہا ” کیا کہہ رہے ہیں آپ ، حاجی صاحب ؟ اس سے زیادہ regular لڑکا تو میری کلاس میں کوئی ہے ہی نہیں”۔
بات ان کی بھی ٹھیک تھی کہ انگلش کی کلاس تو میں باقاعدہ اٹینڈ کرتا تھا۔
پروفیسر حاجی صاحب نے کہا کچھ بھی ہو، میرے قلم سے اس کی حاضریاں پوری نہیں ہو سکتیں۔
سر اقبال خان نے ہنس کر کہا ” میرے قلم سے تو ہو سکتی ہیں” ۔
یہ کہہ کر جیب سے قلم نکالا اور میرے حاضری نامے پر حاجی صاحب کے مضمون میں 75 فی صد حاضریاں لکھ کر حاجی صاحب سے کہا “لیجیئے ، میرے ہی قلم سے اس کاغذ پر دستخط فرما دیجئے” ۔
سر اقبال کی بات حاجی صاحب کیسے رد کرتے۔ مسکرا کر دستخط کر دیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔٢٤ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل کی پوسٹ میں سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں اپنے انگریزی کے استاد محترم پروفیسر محمد اقبال خان صاحب کا ذکر چھڑا۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ سر اقبال خان کے حوالے سے کچھ اور خوبصورت یادیں جاگ اٹھیں۔
ایک دفعہ میں اور لالو نور خان قتالی خیل کالج گیٹ کے سامنے چائے کے ایک ڈھابے پر بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ سر اقبال خان بھی وہاں آگئے۔ وہ بھی چائے پینے آئے تھے۔ سر کو دیکھ کر ہم دونوں وہاں سے کھسکنے لگے۔ میں نے اپنی چائے کے پیسوں کے ساتھ سر اقبال خان کی چائے کے پیسے بھی بیرے کو دیتے ہوئے کہا سر سے پیسے نہیں لینے۔
سر نے یہ بات سن لی۔ بیرے سے کہا ان کے پیسے واپس دے دو۔ ان کی اور اپنی چائے کے پیسے میں دوں گا۔ پھر ہم سے کہا دیکھیں بھئی آپ لوگ سٹوڈنٹ ہیں۔ گھر والوں سے جیب خرچ لے کر گذارہ کر رہے ہیں۔ آپ کی اپنی کمائی ہوتی تو میں آپ کے پیسوں سے چائے پی لیتا۔ ہاں یہ وعدہ رہا کہ جب آپ برسر روزگار ہوں گے اور زندگی میں کبھی میرا میانوالی آنا ہوا تو آپ کو تلاش کرکے آپ کے ہاں کھانا بھی کھاوں گا چائے بھی پیوں گا۔
سنٹرل ٹریننگ کالج سے فارغ ہونے کے چند سال بعد ایک دن میں کسی کام سے اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور گیا تو سر اقبال خان کو ایک کلاس سے نکلتے دیکھا۔ آگے بڑھ کر سلام کیا اور پوچھا سر آپ آج کل ادھر ہوتے ہیں؟
سر نے کہا ہاں۔ ٹریننگ کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد ادھر آتا جاتا ہوں۔ اور کوئی کام کرنا آتا نہیں تھا ، جو کام کر سکتا ہوں وہی کر رہا ہوں کہ اس سے بھی کچھ لوگوں کا بھلا ہو جاتا ہے۔ یہاں وزیٹنگ پروفیسر Visiting Professor کے طور پہ کام کر رہا ہوں۔ جتنے دن آتا ہوں اتنے دنوں کے پیسے مل جاتے ہیں۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ پیسوں سے زیادہ خوشی مجھے پڑھانے سے ملتی ہے اس لیئے جب تک ہاتھ پاوں سلامت ہیں یہی کام کرتا رہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔٢٥ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدھی رات کے قریب اچانک لالا کی کال آئی۔ کہنے لگے یار ایک بہت ضروری کام ہے۔
میں نے کہا اس وقت ایسا کون سا ضروری کام نکل آیا۔ بہر حال بتاو ۔
لالا نے کہا وہ جو ایک گیت ہے
سنڑں جانی کتھے ونج توں وسیاایں
میکوں ڈے کے درد نشانی
اسی طرز پر ایک گیت لکھنا ہے۔
یہ طرز ہم نے ایک آدھ دن پہلے ایک سارنگی نواز سے سنی تھی۔ بہت خوبصورت طرز تھی۔
میں نے کہا یار تم سے کتنی بار کہا ہے منجی پیڑھی ٹھوکنے والا کام مجھ سے نہیں ہوتا۔ یہ کام کسی اور سے کروا لو۔
لالا نے کہا تیڈے آر کوئی ہور کر سگے ہا تاں تیکوں آکھاں ہا ؟؟؟
میں نے کہا بس بس اب زیادہ مکھن نہ لگاو۔ کچھ کرتا ہوں۔ پندرہ منٹ بعد کال کرنا۔
پندرہ منٹ بعد لالا نے دوبارہ کال کیا تو میں نے کہا کاغذ قلم لبھ تے لکھ۔
لالا نےکہا کاغذ قلم چائی بیٹھا ہاں ، ارشاد۔
میں نے گیت کے پانچ سات بول لکھوا دیئے۔۔ گیت کا ابتدائی بول یہی تھا “سنڑں جانی کتھے ونج توں وسیا ایں”
لالا بہت خوش ہوا ۔ بہت سی دعائیں دیتے ہوئے کہا وسدا راہویں یار بہوں اوکھے ویلے کم آیا ایں۔
میں نے کہا میکوں اے وی پتہ اے کیندی فرمائش اے ، جو تیڈے کنڑں زندگی موت دا مسئلہ بنڑں گئی اے ۔ بہرحال ہنڑں ہور ہاں نہ کھا میکوں سمنڑں ڈے۔ یہ کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
واہ واہ کمااااااااااااآاال اسسسسسسسسسست سئیں کیا کہاااااااااااااااااااااااانے عمدہ شاندااااااااااااااااآر جیؤووووووووووووؤ
لوک گیت اور مستقل گیت دی پہچانڑ چ شہنشاہ ہو
اللہ دی امان اللہ دی امان
ایویں تاں منور سئیں تساں ہر ہک گیت با کمال ہے
میں سئیں بہؤ سنڑدا ۔سچی کہانی ۔
بے درد ڈھولا ایویں نئی کریدا
ڈکھیاں نوں پنلا گل چا لویدا
سرائیکی زبان دا معتبر حوالہ ہو سئیں منور علی ملک صاحب آپ کی سلامتی کے نام دعائیں
مالک کائنات آپ پر ہمیشہ مہربان ھو اللہ پاک آپ کو حفظ وامان میں رکھے شریر انسان سے شریر جنات سے آمین ثم آمین
اللہ کرے یے میرا میسج آپ کو پسند آئے
اور آپ کے معیار پر پورا پورا اتر سگوں
شاعر قیصر عباس شاعر آپ اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے سلام عرض کرتا ہے وسلام
اللہ دی امان اللہ دی امان
بہت خوب سرجی ۔
یہ لوگ گیت بھی بہت مقبول ھوا تھا ۔اور اس گیت کیساتھ بھی آپ کا نام بطور شاعر نہیں لکھا گیا ۔
صرف گیت کو ” سرائیکی ٹپے ” کا ٹائٹل۔دے کر لوک گیت لکھا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔٢٦ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو،
کہیں تو بہر خدا آج ذکر یارچلے
کچھ ایسا ہی معاملہ کل کی پوسٹ کے ساتھ دیکھنے میں آیا۔ لگتا ہے بہت سے لوگ ذکر یار (لالا عیسی خیلوی کا ذکر) کے لیئے ترس رہے تھے۔ میں نے تو ذائقہ بدلنے کے لیئے لالا اور اپنی یاری کا ایک واقعہ لکھ دیا تھا۔ مگر لوگ تو شاید انہی باتوں کے منتظر تھے۔ بے شمار لائیکس اور کمنٹس کی لائینیں لگ گئیں۔
یہ تو پتہ تھا کہ میرے اکثر فیس بُک فرینڈز اور فالوورز کو لالا کی محبت کھینچ کر میرے پاس لے آئی ، کہ لالا کے بارے میں جتنا میں جانتا ہوں اتنا بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ مگر میں نے یہ بھی بتادیا تھا کہ
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
اس لیئے میں روزانہ تو لالا کے بارے میں نہیں لکھ سکتا۔ میرے ساتھ چلنا ہے تو میری انگلی پکڑ کر چلنا ہو گا۔ میری مرضی جدھر لے جاوں۔ جس موضوع پر چاہوں لکھ دوں۔ لوگوں نے یہ شرط بھی منظور کر لی اور آٹھ سال سے میرے ساتھ چل رہے ہیں ، لیکن دل میں یہ خواہش بھی لییے پھرتے ہیں کہ آج نہیں تو کل لالا کا ذکر بھی ہو گا۔ مجھے ان دوستوں کی خواہش کا احساس ہے۔ اس لیئے کبھی کبھار لالا کے بارے میں بھی لکھ دیتا ہوں۔ ہماری یہ سنگت چلتی رہی تو ان ساتھیوں کی تسکین کے لیئے بھی کچھ نہ کچھ لکھتا رہوں گا ، ان شآءاللہ۔ لیکن کب اور کتنا لکھنا ہے یہ فیصلہ میں اپنی مصروفیات کو دیکھ کر کروں گا۔ دعاوں میں یاد کرتے رہا کریں۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
اسلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ماشاءاللہ ماشاءاللہ ھسدے راؤ شہنشاہ لکھاری بہت ہی خوبصورت استحئ مطلع دے گیتاں دے شہنشاہ
ہمارے سر تاج
سرائیکی زبان دا معتبر حوالہ سرائیکی ماں دھرتی دا مانڑ
سئیں قبلہ محترم مکرم جناب شاعر محمد منور علی ملک صاحب
میری خش قسمتی ہے کہ میرا آپ سے وٹسپ رابطہ ہے لیکن آپ وٹسپ یوز نہیں کرتے اور
چلو بہر حال عطا صاحب کے بارے میں کچھ کہو تو وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں
بہت زیادہ شعراء کرام کا عطا صاحب نےکلام گایا ہے
کلام ہر شکل میں گایا ہے
جیسے کہ ۔گیت ۔آزاد گیت غزل مسدس۔ روباھی ۔دوہڑا ۔۔۔۔۔
عطا صاحب نے ھر ھک لفظ اپنی سریلی آواز کے ساتھ اس طرح گنگنا کے اے جیا سما دیا ہے ھر ھک آدمی کی پسند آیا
عطا اللہ خان اور منور سئیں آپ کو اللہ پاک تندرستی والی لمبی زندگی عطا فرمائے آمین ثم آمین آمین آمین آمین آمین آمین آمین آمین
مالک کائنات آپ پر ہمیشہ مہربان ھو جیؤووووووووووووؤ جم جم جگ تے ھر دم راہویں ماھی ہسدا کھلدا
اے خشیاں اے میلے دم دم سبھے ھم سلامت رھو
اللہ پاک آپ کو حفظ وامان میں رکھے شریر انسان سے شریر جنات سے آمین ثم آمین
اللہ کرے یے میرا میسج آپ کو پسند آئے
آور آپ کے معیار پر پورا پورا اتر سگوں
شاعر قیصر عباس شاعر آپ اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے سلام عرض کرتا ہے
وسلام-رہے نام اللہ کا-از قلم شاعر قیصر عباس شاعر
-
آج سے چالیس سال پہلے بھائ عطا کو ایک دفعہ ہارمونیم کچھ…بغل…میں لٹکائے چلتے دیکھا…ایک شادی کے ساتھ کانڈھی آئے تھے…مواحد حسین شاہ ولد ریاض شاہ…کی شادی..منجھے پ بیٹھ کے گایا…شیدے مندا خیلل……نے طبلے پ سنگت کی…ماہیا تھا………………منڑکا وے چولے نال..کملی اے… کملی اے کملی اے…تکرار…دنیا ..دنیا…ریس کریندی اے ڈھولے نال….مزہ آگیا…۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔٢٧ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صلی اللہ تعالی علی رسولہ الکریم
٢٨ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا شعر۔۔۔۔۔۔
بدنصیبی ، انہیں نہیں دیکھا،
خوش نصیبی کہ ان کی امت ہیںں
٢٩ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا شعر۔۔۔۔۔۔۔
یہ آرزو ہے مرے مہرباں رسول کریم،
بروزحشر یہ کہہ دیں کہ یہ بھی میرا ہے
٣٠ ستمبر 23 -منورعلی ملک۔۔۔