Hazrat Allama Maulana Khawaja Ahmad Khan

حضرت علامہ مولاناخواجہ احمد خان ثانی میروی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ (میرا شریف ضلع اٹک)

 اگرچہ آپ کا مدفن میرا شریف میں ہے لیکن میں نے ضروری سمجھاکہ اس بزرگ ہستی کا تذکرہ بھی اولیائے میانوالی کے ساتھ کیا جائے کیونکہ آپ اسی ضلع کے رہنے والے تھے۔دوسری وجہ ایک بہت خوبصورت کتاب فیضانِ میروی کا دستیاب ہونا تھا ۔جو کہ اصل تصنیف فخر الاولیا خواجہ محمد فخر الدین چشتی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی ہے اور پروفیسر محمد نصر اللہ معینی صاحب نے ترجمہ کی ہے اور پروفیسر صاحبزادہ محبوب حسین زیب آستانہ بیر بل شریف ضلع سرگودھا نے شائع کرائی ہے۔جس میں اعلیٰ حضرت میروی خواجہ احمد رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے حالات کے ساتھ ساتھ ثانی خواجہ احمد خان میروی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے حالات زندگی بیان کئے گئے ہیں۔ یہ مضمون اسی کتاب سے اخذ کیا گیا ہے۔

ابتدائی حالات: خواجہ احمد خان ثانی میروی 1287 ھ میں چکڑالہ (ضلع میانوالی) کی مردم خیز سرزمین میں ایک مرد صالح محمد پناہ کے ہاں پیدا ہوئے آپ نے قرآن پاک کی تعلیم مولانا عبداللہ سے حاصل کی جوکہ حضرت میروی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مرید تھے اور ان کے اوصاف حمیدہ کی باتیں سن کر میرا شریف جا پہنچے اور بیعت کرلی۔ حضرت صاحب کے حکم پر قرآن پاک کی تعلیم مکمل کی اور دوبارہ آپ کی خدمت میں جا پہنچے۔ اعلیٰ حضرت میروی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ کو مزید تعلیم کے لئے نصیحت کی اور راہبری فرمائی ۔آپ نے مکھڈ شریف ، بلکسر کے علاوہ کئی جگہوں سے علم حاصل کیا اس کے ساتھ ساتھ علم طب بھی سیکھا۔آخرکار حضرت میروی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے دست مبارک سے 1308 ھ میں آپ کی دستاربندی فرمائی۔ کچھ عرصہ چکڑالہ میں حکمت کرتے رہے پھر سب کچھ چھوڑ کر میرا شریف جا پہنچے اور راہ طریقت کے مسافر بن گئے۔اب اپنے مرشد سے اتنا قرب بڑھا کہ کسی لمحے کی جدائی منظور نہ تھی آپ کی صلاحیتوں اور خدمت کے انداز کو دیکھتے ہوئے آپ کو لنگر اور امورخانہ کا نگران بنا دیا گیا۔

انگریز دشمنی: آپ نے لوگوں کو انگریزوں کی حکومت میں نوکریاں کرنے سے منع فرمایا اور ان کی فوج میں بھرتی نہ ہونے پر اصرار کیا۔ حکومتی ارکان نے باہمی سازش کرکے قاصد بھیجا کہ حکومت کو بیگار کے لئے اونٹوں کی ضرورت ہے لہذا خانقاہ کے لنگر کے اونٹ دیئے جائیں ۔ آپ اس دن لنگر خانے میں موجود نہ تھے دوسرے منتظم نے قاصد کو اونٹوں کے محافظ کی طرف رقعہ لکھ کر دے دیا راستے میں حضرت صاحب سے ملاقات ہو گئی اس نے رقعہ دکھایا تو آپ نے غصے میں آکر پھاڑ دیا کہ لنگر کے اونٹ حضرت اعلیٰ کے خادم ہیں انگریز کے خادم نہیں۔ قاصد نے درشتگی کے ساتھ کہا میں ڈپٹی کمشنر کو شکایت کروں گا او ر دیکھنا تمہارے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ وہ دھمکیاں دیتا ہواچلا گیا۔ اس نے راستے میں دریائے سوان سے گزرنا تھا ۔اس میں سے گزر رہا تھا کہ اچانک ایک سیلابی ریلا اس کو بہا کر لے گیا اوروہ غیرت فقیر کا شکار ہو گیا۔

سادگی: آپ انتہائی سادگی سے رہنا پسند کرتے تھے ۔ آپ کا لباس سفید کرتا ، تہبند اور کپڑے کی ٹوپی ہوتی تھی۔آپ کے پاس ایک ہی کُرتا تھا ۔ فتح شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اگر کُرتا میلا ہو جاتا تو آپ چادر لپیٹ لیتے میں کرتا دھو دیتا اور پھر سکھا کر اسی کو استعمال کرتے۔ میں نے عرض کیا دوسرا کرتا بنوا لیتے ہیں فرمایاکہ وقت گزر جائے گا کیوں اسراف کرتے ہو۔

خانقاہ کی تعمیرات: آپ کے دور میں خانقاہ نے بے حد ترقی کی مہمان خانے، کنویں ، تالاب تعمیرکرائے گئے اور حضرت اعلیٰ کا عالی شان روضہ آپ ہی نے بنوایا۔ آپ 20 سال تک حضرت اعلیٰ کے مشن کو آگے بڑھاتے رہے۔

حضرت میاں محمد کھڑی شریف سے ملاقات: دوران حصول تعلیم آپ ایک مرتبہ کھڑی شریف جا پہنچے ان دنوں حضرت میاں محمد رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کا کا شہرہ تھا ۔ آپ کے دل میں ان سے ملاقات کا شوق پید اہوا ۔ اتفاقاً ایک بزرگ وہیں مل گئے جنہوں نے بتایا کہ میں ان کااستاد ہوں اور میاں محمد صاحب نے مجھ سے کریما اور گلستان پڑھی ہے ۔ خواجہ احمد خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ علم کے بغیر کیا درویشی ہو گی۔ بہرحال ان سے ملنے کے لئے حاضر ہوا مجھے گلے لگایا اور پوچھا مولوی صاحب! بغل میں کیا ہے؟ میں نے عرض کی ‘‘شرح ملا’’فرمایا کہ ذرہ سبق تو سناؤ میں نے دل میں سوچا کہ گلستان پوری پڑھی نہیں اور پوچھتے ہیں کہ ملا شرح کا سبق سناؤ۔ خیر میں نے سبق سنانا شروع کر دیا تو آپ نے کسی زبردست عالم کی طرح نحوی اعتراضات کئے۔میں نے دل میں سوچا کہ آپ تو زبردست عالم ہیں ۔ اس بابا جی نے جھوٹ بولا ہے ۔ آپ فوراً میرے دل کے خیال سے آگاہ ہوئے اور بولے باباجی نے سچ کہا ہے لیکن مولوی صاحب جب اللہ تعالیٰ کسی بندے پر تجلی فرماتے ہیں تو علم الاولین ولآخرین اس پر منکشف فرما دیتے ہیں پھر…………………!

دِسن اندر بھولے بھالے وچوں آب حیاتی ہو

کے مصداق بن جاتے ہیں پھر مجھے کھانا کھلایا اور فرمایا تم یہاں ٹھہر جاؤ میں تمہیں اپنی انگوٹھی کا نگینہ بنا کر رکھوں گا ۔ میں نے عرض کیا کہ بندہ میرا شریف والی سرکار کی انگوٹھی میں لگ چکا ہے اور پھر ان کے احوال آپ کو سنائے اور اجازت کا طلب گار ہو کر وہاں سے آگے کی طرف گیا۔

استاد کی خدمت کا صلہ: حضرت اعلیٰ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے حکم کے مطابق آپ ایک دور دراز جگہ پر ایک استاد محترم کی خدمت میں حاضر ہوئے وہاں استاد صاحب کے مکان کے علاوہ ایک دومکان تھے آپ سبق پڑھنے کے بعد قریب کی بستی میں جاکر رہائش رکھتے تھے۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ بارشیں شروع ہو گئیں اور استاد صاحب کا مکان گر گیا آپ پڑھنے کے لئے حاضر ہوئے تو استاد صاحب کو انتہائی غمگین حالت میں پایا کیونکہ بارشوں سے ان کا مکان گرگیا تھا اور استاد صاحب غربت کی وجہ سے مکان بنانے کی طاقت نہ رکھتے تھے اس لئے انتہائی پریشان بیٹھے تھے آپ نے استاد صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کو تسلی دی کہ آپ اطمینان رکھیں بندہ یہ کام کرنا جانتا ہے آپ کا مکان از سر نو بنا دیا جائے گا۔آپ فوراً مکان کے کام میں جُت گئے ۔ پہلے دن سارا ملبہ صاف کیا اور اگلے دن دیواریں بنا کر مکان کی چھت ڈال دی۔ تین چارروز کی شدید محنت کے بعد مکان تیار کرکے استاد کا سامان اندر رکھا پھر اپنی قیام گاہ پر واپس ہوئے ۔ رات کو خواب میں دیکھا کہ حضورمیروی کی بارگاہ میں حاضر ہوں جو آپ کو کہہ رہے ہیں کہ آپ میرا شریف کی جنوبی سرحد پر پہنچیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی سواری آرہی ہے آپ فوراً اس طرف چلے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ آگے آگے سرکارمدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا گھوڑا تھا اور پیچھے چار اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سوار آرہے ہیں ۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے طلائی لباس پہنا ہوا ہے۔ آ پ فوراً قدم بوس ہو گئے ۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے دست شفقت آپ کے شانے پر رکھا اور اسی حالت میں میرا شریف کی طرف چلے۔ حضور میروی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ بھی استقبال کے لئے باہر تشریف لے آئے اور کچھ دیر کے لئے حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم دربار میں رونق افروز ہوئے پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم واپس ہونے کے لئے سوار ہوئے تو حضور میروی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ شمالی سرحد تک حاضری دو ۔آپ اس جگہ پر پہنچے تو حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے بکمال شفقت آپ کو رخصت کیا۔آپ واپس حضرت میروی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ آپ کی خدمتِ استاد صاحب مقبول ہوئی صبح اجازت لے کر فلاں مقام پر پہنچو۔ فرماتے ہیں کہ میں صبح استاد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اجازت کا طالب ہوا تو استاد محترم رونے لگے کہ مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ لیکن میں نے اپنی معذوری کا واقعہ سنایا تو بادل نخواستہ اجازت فرمائی اور میرے لئے دعا بھی فرمائی۔

﴿٭﴾یہ فارسی نظم حضرت علامہ محمد فخرالدین چشتی میروی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی کتاب فیضانِ میروی سے لی گئی ہے جو آپ نے حضرت احمد خان ثانی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت گزاری اور جانثاری کی تعریف میں مثنوی سفر معرفت میں لکھی ہے۔

شیرِ یزداں صاحبِ سجادۂِ                   در محبت خواجہ بس دلداۂ

﴿ترجمہ﴾اللہ تعالیٰ کے شیر حضرت سجادہ نشین صاحب (میرے) خواجہ رحمتہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں از خود رفتہ ہیں۔

فاضلے متبحرے علامہ                             در فنون علم طب فہامہ

﴿ترجمہ﴾آپ ایک فاضل اور متبحر عالم ہیں اور علم طب میں بھی بڑے ماہر ہیں۔

سبق عشق از پیشوائے عاشقاں             خواند چوں بگذاشت اول خانماں

﴿ترجمہ﴾ آپ نے اہل عشق کے پیشوا حضرت خواجہ احمد میروی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ سے عشق کا سبق پڑھا جب پہلے اپنے گھر بار سے دست بردار ہو گئے۔

پاک شست از سینہ قانون رئیس             پس شفائے جست زان خاکِ نفیس

﴿ترجمہ﴾ انہوں نے طب کی کتاب ‘‘قانونِ رئیس’’ اپنے قلب سے دھو ڈالی ۔ پھر اس خاک پاک سے شفا ڈھونڈی

در محبت شیخِ خود گردید چست            خواند تکبیرے بہر چیزے کہ ھست

﴿ترجمہ﴾ وہ شیخ کی محبت میں بڑے سرگرم ہو گئے اور انہوں نے اپنی ہر موجود چیز پر تکبیر پڑھ دی (یعنی اس سے دست بردار ہوگئے)

خدمتے نگذاشت کو آنرا نکرد              بارِ محنت مثلِ عشاقاں بہ برد

﴿ترجمہ﴾ کوئی خدمت ایسی نہ ہو گی جو انہوں نے نہ کی ہو ۔ انہوں نے عشاق کی طرح ہر مشقت برداشت کی۔

در طریق عشق رسوائی گزید                       پیشِ اسپ خواجۂ خود می دوید

﴿ترجمہ﴾ راہِ محبت میں انہوں نے رسوائی برداشت کی۔ وہ اپنے خواجہ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے گھوڑے کے آگے آگے دوڑتے رہے۔

آفتابہ داشت اندر دستِ خویش                       در جنابش بیخود آمد عشق کیش

﴿ترجمہ﴾ وہ اپنے ہاتھ میں کوزہ (لوٹا) لئے حضور کی خدمت گزاری میں لگے رہتے اور بیخودی کے عالم میں سراپا عشق بن کر حاضر ہوتے تھے۔

بود درویش و ز خدمت شہ شد                      پر تو از خورشید برد و ماہ شد

﴿ترجمہ﴾وہ ایک درویش انسان تھے مگر خدمت کی وجہ سے بادشاہ بن گئے ۔ سورج کے عکس سے وہ چاند بن گئے۔

بردلم مثل نقش مرقوم شد                    ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد

﴿ترجمہ﴾میرے دل پر یہ بات نقش ہو گئی ہے کہ جس نے خدمت کی وہ مخدوم بن گیا۔

نکتہ گفتہ پر زمعنیٰ معنوی                 صاحب اسرار حقیقت مولوی

﴿ترجمہ﴾ یہ معنیٰ سے لبریزنکتہ (مثنوی کے مصنف) صاحب اسرار حقیقت حضرت مولانا روم رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے یوں بیان فرمایا ہے۔

ہیچ کس از خود بخود چیزے نشد                  ہیچ آہن خنجرے تیزے نشد

﴿ترجمہ﴾کوئی بھی خودبخود کچھ نہیں بن جاتا ۔ کوئی لوہا(خودبخود) تیز دھار خنجر نہیں بن سکتا۔

ہیچ حلوائی نہ شد استاد کار                 تاکہ شاگردے شکر ریزے نشد

﴿ترجمہ﴾ کوئی حلوائی ماہر فن نہیں بن سکتا جب تک کسی شکر ریز (حلوائی) کا شاگر د نہ بنے۔

مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم                    تا غلامِ شمس تبریزے نہ شد

﴿ترجمہ﴾مولانا روم اس وقت تک مولوی (خداوالے) نہ بن سکے جب تک وہ (حضرت) شمس تبریزی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے غلام نہ بنے۔

کوائف وصال: حضرت احمد خان ثانی علیہ الرحمہ کا جسم وظیفہ انفاس کی وجہ سے کمزور ہو گیا تھا کیونکہ وظیفہ انفاس آخر دم تک آپ کا معمول رہا۔ آپ نے عمر کاآخری ایک مہینہ مکمل حالت استغراق میں گزارا لیکن اس حال میں بھی آپ کو چارپائی پر ڈال کر مسجد میں نماز با جماعت کے لئے لایا جاتا۔ آپ نماز ادا فرماتے اور پھر استغراق میں چلے جاتے ۔ آخر کار 21 صفر 1350 ھ بمطابق1931 ء دارفنا سے داربقا ء کی جانب کوچ فرماگئے ۔ آپ کا مزار حضرت خواجہ احمد میروی علیہ الرحمہ کے پہلو میں موجود ہے۔

حوالہ جات:

فیضان میروی

جمال فقر

 

تحریر-سید طارق مسعود کاظمی-مصنف   کتاب سرزمین اولیا میانوالی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top