تحصیل عیسیٰ خیل کو خیبرپختونخوا میں شامل کیا جائے
خیبرپختونخوہ کا پرانا نام نارتھ ویسٹ فرنٹیئر صوبہ تھا اور اس میں آباد پٹھان پشتون قبائل کی اکثریت ہے۔ خیبرپختونخواہ میں بسنے والے تقریباً تمام قبائل افغانستان سے آمدہ ہیں۔ ماضی میں ضلع میانوالی بھی انتظامی طور پر اسی صوبہ کا حصہ رہا ہے کیونکہ میانوالی میں رہائش پذیر لوگوں کی اکثریت بھی افغانستان سے ہجرت کر کے یہاں پہنچی ہے۔ میانوالی کا نام دراصل یہاں پر آباد ایک قدیم میانہ قوم کے بزرگ حضرت میاں علی سرکار کے نام سے موسوم میاں آلی سے موسوم ہے۔ اس علاقہ میں شمال مشرق سے اعوان، جنوب سے جٹ اور بلوچ جبکہ شمال مغرب سے پختون قبائل یہاں آ کر آباد ہوئے۔ پختون قبائل میں شامل نیازی قبیلہ سب سے بڑا تھا جو یہاں آباد ہوا اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نیازی ابراہیم لودھی کے ساتھ یہاں آئے اور پھر آباد ہو گئے اس کے بعد کوہاٹ، لکی مروت، بنوں، پشاور، عیسیٰ خیل، میانوالی، ٹانک اور کلاچی سمیت ان علاقہ جات میں افغانی حملہ آورں کے ہمراہ مختلف افغانی قبائل پھیلتے چلے گئے۔
نیازیوں کی آمد کے کچھ ہی عرصہ بعد لوہانی قبائل نے ٹانک کا رخ کیا لوہانی قبائل میں مروت ، میاں خیل، دولت خیل اور تتور شامل تھے۔ کچھہ عرصہ بعد دولت خیلوں نے اپنے ساتھ بسنے والے مروتوں اور میاں خیلوں کو ٹانک سے نکال دیا، مروتوں نے ٹانک سے بیدخل ہوتے ہی لکی مروت میں نیازیوں کو دریائے سندھ کے کنارے دھکیل دیا۔ اس طرح مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے 1520 میں میانوالی کے ایک قصبہ کا نام عیسیٰ خیل رکھا اور اسکا تذکرہ تزکِ بابری میں بھی کیا۔
مغلوں کے بعد یہ نادر شاہ درانی اور پھر ابدالیوں کے تسلط میں چلا گیا۔ سکھوں نے اسے افغانیوں سے آزاد کروا کر دوبارہ پنجاب کا حصہ بنایا۔سکھوں کے بعد علاقہ برطانوی راج کی نگرانی میں چلا گیا۔برطانوی حکومت نے جب ہندوستان کو انتظامی بنیادوں پر کئی صوبوں ڈویژنوں اور ضلعوں میں تقسیم کیا تو میانوالی اور عیسیٰ خیل کو بھی تحصیل کا درجہ دیکر اسے بنوں کے تحت کر دیا گیا. 1901 میں جب لارڈ کرزن نے صوبہ سرحد کے نام سے نیا صوبہ بنایا تو میانوالی کو بنوں سے ہٹا کر اسے ضلع بنا دیا اور ملتان ڈویژن کے ساتھ منسلک کر دیا گیا جو بعد میں پھر سرگودھا ڈویژن کے حصہ میں آ گیا۔
ضلع میانوالی اور بالخصوص تحصیل عیسیٰ خیل میں نیازی قبائل کے ساتھ خٹک قوم کے افراد بہت بڑی تعداد میں رہائش پذیر ہیں جن کی زیادہ تر آبادی ٹولہ بھنگی خیل، تبی سر، ونجاری، سلطان خیل اور مکڑوال میں موجود ہے۔ خٹک بنیادی طور پر پشتون ہیں۔ تحصیل عیسیٰ خیل کے لوگوں کا رہن سہن، ثقافت اور تہذیب و تمدن سب خیبرپختونخواہ کے پٹھانوں کے ساتھ جُڑا ہوا ہے ایک سو بائیس سال گزرنے کے باوجود بھی تحصیل عیسیٰ خیل کے لوگوں نے اپنا پٹھان کلچر نہیں چھوڑا جو ان کی رگوں میں دوڑتا ہے۔ لیکن افسوس کہ 1901 میں ان کی رائے معلوم کئے بغیر انہیں پنجاب کے حوالہ کر دیا گیا۔
اب جبکہ صوبہ خیبر پختونخوہ میں پاکستان تحریک انصاف کی اکثریتی حکومت ہے اور وہاں پر علی امین خان گنڈہ پور جیسے نوجوان نے وزیراعلی کے طور پر صوبہ کا انتظام سنبھال لیا ہے تو میری حلقہ این اے 89 میانوالی سے جمال احسن خان اور حلقہ پی پی 85 عیسیٰ خیل سے منتخب ہونے والے ممبر صوبائی اسمبلی اقبال خان خٹک، جماعت اسلامی کے امیدوار عمر کانجو، مرید عباس خان ، سوشل ورکر احسان اللہ خان ترگ سمیت علاقہ کے تمام سفید پوش حضرات سے درخواست ہے کہ وہ فی الفور تحصیل عیسیٰ خیل کو صوبہ خیبر پختونخوہ کے ساتھ الحاق کیلئے اپنی کوشش کریں۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ صرف میرا مطالبہ نہیں بلکہ یہ پوری تحصیل کی عوام کا متفقہ مطالبہ ہے۔ اور اگر حکومت چاہے تو اس سلسلہ میں یہاں پر رائے شماری کرا لے کہ تحصیل عیسیٰ خیل کی عوام کس صوبہ کے ساتھ رہنا چاہتی ہے کیونکہ یہ عوام کی درینہ اور دلی خواہش ہے اور جمہوری نظام میں عوام کی مرضی کا خیال رکھنا حکومت وقت کا فرض ہوتا ہے