“باکردار اور بدکردار“
ہمارا عجیب مسئلہ ہے کہ ہم اعلیٰ ترین مذہبی اقدار کے باجود باکردار اور بدکردار کی تعریف متعین نہیں کر سکے۔ ہم نے کردار کو سماجی اعمال کی بجائے مذہبی شعائر کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مذہبی شعائر جیسے کہ روزہ ، حج، نماز اور عقیدے کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہے۔ اور دوسروں کو ان مذہبی شعائر سے زیادہ فائدہ سماجی کردار سے پہنچتا ہے جس میں ایمان داری ، صاف گوئی، رحم دلی اور انصاف پسندی جیسے عناصر اور لین دین جیسے عوامل فیصلہ کن اہمیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ضروری نہیں کہ مذہبی شعائر پر سختی سے پابند رہنے والے فرد کا سماجی کردار بھی بہت اچھا ہو، ممکن ہے وہ نماز ، حج ، اور روزہ کے باوجود سمگلنگ کرتا ہوں ، لین دین کے معاملات میں ناقابل اعتبار ہو، جھوٹ بولنے کا عادی ہو، ملاوٹ کے کاروبار میں ملوث ہو، بیوی بچوں کے ساتھ بے جا سختی کرتا ہو، پڑوسیوں کیلئے جان کا عذاب بنا ہو جس طرح کے آجکل ہمارے معاشرہ میں یہ چیزیں آسانی سے دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لوگوں کی اکثریت نے کئی حج اور عمرے کر لئے ہیں لیکن انہوں نے سود پر رقم دے کر غریبوں کا جینا حرام کر دیا ہے، اکثر دوکاندار نہ صرف نماز کے وقت بھاگ بھاگ کر مسجد کو جاتے ہیں بلکہ ہر سال عید میلاد پر کئی من وزنی کیک کاٹتے ہیں لیکن اپنے کاروبار میں دو نمبری اور گراں فروشی کو جائز سمجھتے ہیں، صحافیوں کی اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو حق سچ کی بجائے اپنے مفادات یا ذاتی تشہیر کی تسکین کیلئے لکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں ایسے علماء کی اکثریت ہے جو مذہب کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ چونکہ ان لوگوں کو مذہبی شعائر سے کوئی معاشی نقصان نہیں پہنچتا تو وہ دکھاوے کیلئے حج، روزہ اور نماز جیسے اعمال بڑے اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں جبکہ سماجی اعمال میں معاشی طور پر انہیں فائدہ یا نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے لہٰذا وہ لوگ سماجی کردار کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اب کوئی ہر سال حج کرے یا سال میں دو عمرے کرے اور ہر نماز جامع مسجد میں ادا کرے اس کے ان مذہبی شعائر سے مجھے کیا فائدہ ہو گا؟ جبکہ وہ میری قوم کے معصوم بچوں کو دو نمبر ملاوٹ شدہ اشیاء خورد و نوش فروخت کرے۔ اسی طرح اگر کوئی الحاج سود خور غریبوں کا ناطقہ بند کر کے انکے خون سے رقم نچوڑے یا کوئی منشیات فروش اپنے محلہ کی مسجد میں یو پی ایس یا پنکھے لگوا دے لیکن منشیات بیچ کر میری نئی نسل کی رگوں میں زہر اتارے تو مجھے اس کے پنکھوں اور یو پی ایس سے کیا سروکار ہے۔ ایک امام مسجد جو ہر وقت دوسروں کو وعظ و نصیحت کرے لیکن اس کے اپنے ہاں ایک پاؤ خالص دودھ دستیاب نہ ہو تو پھر اس کی نصیحت کسی پر خاک اثر انداز ہو گی۔ چونکہ معاشرہ ہم سب سے ملکر بنتا ہے اور جب ہمارا کردار سماجی کی بجائے صرف مذہبی شعائر پر آ جائے تو پھر اسی طرح ہی ہوتا ہے جیسے ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ ہم صرف حج ، روزہ ، نماز کو ہی پکڑ لیتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا ہمیں بہت آسان لگتا ہے اور ان پر کچھ خرچ بھی نہیں اتا۔ لیکن آپ نے دیکھا ہے کہ مغربی اقوام نے مذہب کو اجتماعی معاملات سے بے دخل کر کے اسے فرد تک محدود کر دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں کسی کے کسی دوسرے کے مسلک یا مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کوئی جس مرضی مسلک پر عقیدہ رکھتا ہو اسے معاشرتی بہبود کیلئے بنائے گئے قوانین اور ایک دوسرے کے درمیان سماجی اعمال کو اہمیت دینی پڑتی ہے جبکہ اس کے برعکس جن معاشروں میں مذہبی اقدار سے چمٹے رہنے کا درس زور و شور سے دیا جاتا ہے ان کی سماجی صورتحال بہت شرمناک ہوتی ہے جس کی بہترین مثال پاکستان اور افغانستان کی پیش کی جا سکتی ہے