“اساتذہ کرام ،خدارا قوم کے بچوں پر رحم کریں”
پروفیسر اشفاق احمد مرحوم ایک جگہ پر لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ اٹلی اپنے بیٹے کے پاس ملنے گئے ہوئے تھے کہ ایک دن انھیں ایک چالان کے سلسلہ میں اٹلی کی ایک عدالت میں جانے کا اتفاق ہوا اور وہ عدالت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کچھ دیر بعد جج سمیت عدالت میں تمام لوگ کھڑے ہو گئے پروفیسر اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ میں ان لوگوں کو اچانک کھڑا دیکھ کر پریشان ہو گیا اور کسی سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ سب لوگ کھڑے ہو گئے ہیں تو کچھ لوگوں نے بتایا کہ ابھی پتہ چلا ہے کہ عدالت میں آپ کے روپ میں ایک استاد موجود ہے جس کے احترام میں سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ معیار ہے پڑھی لکھی قوموں میں استاد کا لیکن ذرا غور کریں کہ اُن کو یہ اخلاقیات سکھائی کس نے ہے؟ اُنہی اساتذہ نے جو انہیں تعلیمی اداروں میں پڑھاتے ہیں اور ان کی تربیت کرتے ہیں لیکن یہاں پر اساتذہ پر پولیس ڈنڈے برسا رہی ہے اور اساتذہ کرام یہ فریادیں کر رہے ہیں کہ ہمارے شاگرد ہماری پٹائی کر رہے ہیں۔
بہت معذرت کے ساتھ میرے اساتذہ کرام ذرا اپنے گریبان میں ایک نظر جھانک لیں آپ نے اس نسل کو جو اعلیٰ اخلاقیات سکھائی ہے آج اُسی کا مظاہرہ آپ دیکھ رہے ہیں ۔ یہ سب آپکی سکھائی گئی تربیت کا نتیجہ ہے۔ ایک استاد صاحب کو میں نے بچوں کی اِسی تربیت کے بارے نشاندھی کی تو محترم نے دلیل یہ گھڑی کہ ہمارا نصاب اس تربیت سے عاری ہے کیونکہ ہمیں ایسا کھوکھلا نصاب پڑھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ نصاب کو بُرا بھلا کہنے پر اساتذہ کرام سے عرض ہے کہ اگر اتنے عرصہ سے آپ بچوں کو اتنا گھٹیا نصاب پڑھا رہے ہیں تو اب آپکے پیٹ پر لات لگی ہے تو آپ احتجاج کر رہے ہیں تو اُس نصاب کے خلاف آپ نے کبھی احتجاج کیوں نہیں کیا؟
آپ کے اپنے نوے فیصد لوگوں کے بچے سرکاری سکولوں کی بجائے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھتے ہیں آپکی تنخواہ لاکھوں میں ہے اور آپ پرائمری سکول میں پڑھانے والوں کی تعلیم ایم فِل سے کم نہیں جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں اساتذہ کا تعلیمی معیار گریجویشن اور تنخواہ دس ہزار روپے سے زیادہ نہیں پھر بھی آپ ایمانداری سے پرائیویٹ سکولوں اور سرکاری سکولوں کے نتائج چیک کر لیں آپ کو اپنی کارکردگی کا اندازہ ہو جائے گا بلکہ جب آپ خود اپنے بچے اپنے سرکاری سکولوں میں نہیں پڑھاتے تو پھر اس پر کیا بات کریں۔ آپ ضلع میانوالی کے نویں اور دسویں کلاسوں کے گذشتہ پانچ سال کے نتائج اٹھا کر دیکھ لیں آپ کے چودہ طبق روشن نہ ہو جائیں تو مجھ پر الزام دینا۔ میرے محترم اساتذہ کرام اپکی اپنی اخلاقیات کا اندازہ تو اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کیلئے آپ لوگوں میں سکولوں کو پرائیویٹ کر کے ان کی فیسیں ہزاروں روپے کرنے کا جھوٹا شوشہ چھوڑ رہے ہیں حالانکہ اس میں کوئی حقیقت موجود نہیں۔
یہ حکومت کی بہترین پالیسی ہے کیونکہ محکمہ تعلیم کے لوگ بخوبی واقف ہیں کہ گذشتہ کئی سالوں سے حکومت نے پنجاب میں پہلے ہزاروں پرائیویٹ سکولوں کو پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے حوالہ کیا اور بچوں کی فیس حکومت کئی سالوں سے ان سکول مالکان کو ادا کر رہی ہے اسی طرح دو سال قبل حکومت پنجاب نے وہ سرکاری سکول بھی پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے حوالہ کر دئیے جو بہت دور دراز واقع تھے اور سرکاری اساتذہ گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کر رہے تھے جن میں چاپری کرم خیل اور چاپری وانڈھا سمیت خٹک بیلٹ کے کئی سکول شامل ہیں اور اس میں زیر تعلیم بچوں کی فیس آٹھ سو روپے فی کس پرائیویٹ سیکٹر کو ادا کی جا رہی ہے اور ہر چھ ماہ بعد ان سکولوں کا معیار تعلیم ٹیسٹ کے ذریعے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن چیک کرتا ہے جو اب کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔
اُن کی کامیابی کے بعد بلوچستان اور سندھ کے پسماندہ علاقوں میں تعلیمی ادارے کامیابی سے چلانے والی “مسلم ہینڈ” نامی ایک این جی او کو دینے کی پالیسی ہے ان تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلباء کی فیسیں پہلے کی طرح حکومت خود ادا کرے گی کیونکہ حکومتی ذرائع کے مطابق سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم ایک بچے پر تقریباً 23 سو روپے ماہانہ خرچ آتا ہے جبکہ مسلم ہینڈ کو صرف ہزار روپے فی کس فیس حکومت ادا کرے گی اس طرح اچھی تعلیم کے ساتھ حکومت کے کروڑوں روپے کی بچت بھی ہو گی۔ اسی طرح اساتذہ کرام جس دوسرے مسئلہ کو ایشو بنا رہے ہیں وہ پینشن کا ہے جو کہ صرف اساتذہ کی بجائے پنجاب حکومت کے تمام ملازمین کا ہے جس میں یہ تبدیلی کی جا رہی ہے کہ کسی بھی سرکاری ملازم کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس ملازم کو پینشن دی جائے گی اور اس کی وفات کے بعد دس سال تک اس کی بیوہ اس پینشن کی حقدار ہو گی جبکہ اس سے قبل پہلے ملازم کو خود پینشن ملتی ہے پھر اسکی وفات کے بعد سکی بیوہ کو ملتی ہے پھر اس بیوہ کی وفات کے بعد اسکی کنواری بیٹی کو ملتی ہے پھر اسکی شادی کے بعد اسکی بیوہ بیٹی کو ملتی ہے اس طرح یہ پینشن نسلوں تک چلتی ہے جس میں فراڈ کر کے کئی غیر حقدار لوگ پینشن لے رہے ہیں اگر ایک ملازم ریٹائرڈ ہو گیا تو حکومت نے سات پشتوں تک اس کا ٹھیکہ تو نہیں لے لیا کہ وت اسکی اولاد کو بھی پینشن دیتی رہے۔
اساتذہ نے ایک طرف تو گذشتہ ایک ہفتہ سے تمام سرکاری سکول بند کر رکھے ہیں جہاں غریب لوگوں کے بچے پڑھتے ہیں لیکن اُن کے اپنے بچے پرائیویٹ سکولوں میں مزے سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف وہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ وہ غریب لوگوں کی جنگ لڑ رہے ہیں کیونکہ سرکاری سکولوں کو پرائیویٹ کر کے ان میں بھاری فیسیں وصول کی جائیں گی اس طرح اساتذہ کے قول و فعل میں واضح تضاد نظر آتا ہے۔ یا تو اگر اساتذہ اتنے ہی خیر خواہ ہوتے تو بچوں کے سکول بند رکھنے کی بجائے آٹھ بجے سے بارہ بجے تک سکولوں میں پڑھائی کرواتے اور پھر چھٹی کے بعد انتظامیہ کے دفاتر کا گھیراؤ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے لیکن یہاں تو سکول بھی بند ہیں اور اساتذہ تنخواہیں بھی پوری لیں گے۔ جبکہ متاثر غریب عوام کے بچے ہو رہے ہیں لہٰذا ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ ہے کہ اس مسئلہ کا فوری حل نکالا جائے اور بچوں کا نہ صرف قیمتی وقت بچایا جائے بلکہ تعلیمی نقصان بھی پورا کیا جائے .