COLLECTION OF AFZAL AAJIZ POSTS ON FACE BOOK FOR THE MONTH OF MAY 2016
اے میرے صاحب-
پرانی غزل کا ایک شعر یکم مئ کے حوالے سے
ماں دی گنگی لولی توں شک پوندا ھے
بالاں دا پیو خالی ھت گھر آیا ھے—1مئیی2016
اے میرے صاحب
آ میانوالی ونجاں
شٹل گڈی دا ٹیم
تے جندرے ماری ونجاں——-2مئیی2016
پارٹ 1
اے میرے عصمت گل خٹک جواب حاظر ھے
ھم جانتے ھیں اور اچھی طرح جانتے ھیں
اپ محبوب جہھاں، خان بابا، کے ھم نیش ھی نھیں ھم سفرو سفیر بھی ھیں
ھم یہ بھی جانتے ھیں کہ اپ ان کے دربار محبت کے نو رتنوں میں سے ایک رتن بھی ھیں
ھم یہ بھی جانتے ھیں کے اپ کے اور ان کے خاندانی مراسم ھیں
اپ ھماری طرح ان کے ملازم یا چاکر نھیں ھیں
ھمیں معلوم ھے کے اپ ھمارے بھت دورررررررررررررررررررررررررررررر
کے دوست ھیں
زمانہ جانتا ھے اور بھت خوب جانتا ھے
کہ اپ ایک دانشور ھیں کالم نویس ھیں اور اپ کے کالم محبت کے بھاو بکتے ھیں
ھمیں معلوم ھے اپ کے لکھے ھوے کالم بڑے سورماؤں کو گھاہل کر دیتے ھیں
مگر ھم یہ بھی جانتے ھیں کے اپ کی شوخ تحریروں نے کئی حسیناؤں کے دل بھی خرید رکھے ھیں اور اپ چھپ چھپ کے ان کے ساتھ
آجا تے بہ جا سئکل تے بھی گنگنائے ھیں
ھم سمجھتے ھیں کہ اگر اپ ان کے بارے .میں کتاب لکھیں تو انھیں پسند بھی اے گی اور وہ خوش بھی ھو گنے
مگر ھم سمجھتے ھیں ک ھمارا معاملہ مختلف ھے
نہ ھم ان کے محبوب ھیں اور نہ وہ ھمارے محب
ھم ان کے برابر کے آدمی نھیں ھیں
لفظی کی حد تک وہ بھت غریب ھیں مگر عملی طور پر ھم اصلی غریب ھیں
انھیں تو اپ بھی بقول ان کے نوازشریف صاحب ایک ترانے کے عوض ستر لاکھ روپے ادا کرنے کو تیار تھے
مگر ھمیں تو ایک گیت کے عوض کوی چاے پلانے کو تیار نھیں ھے
اے میرے عصمت گل اور نجف بلوچ
ھمیں مت چھییرئے
اگر ھم چھڑ گئے
تو پھر چھڑ ھی جائیں گے
اور یاد رکھیے
ھم سر منزل وائلن اور بانسری کی طرح نھیں
بلکہ بینڈ باجے کی طرح چھڑ جائں گےاور پھر کان پڑی آواز بھی سنای نھیں دے گی محبت کے مندر کی گھنٹیاں چیخنے لگیں گی داسیاں
رونے لگیں گیں
اور ھم جانتے ھیں اور خوب جانتے ھیں
ھماری کنپٹی پہ پھیلا پتھر بھی اپ ھی ماریں گے
مگر سنئے
بخار ھمارے سر پہ چھڑنے لگا ھے
بخار اور عشق اگر سر پہ چڑھنے لگے تو بھٹ خرابی پیدا کرتا ھے
ے میرے دانشور قلم کار
باقی گلاں فیر کراں گے -6مئی2016
اے میرے صاحب
ھم خود کو بھت لاوارث قسم کا آدمی سمجھتے تھے
مگر مسلک محبت سے جڑے قطار در قطار کرم فرماؤں نے ھمین لاوارث سے پارس بنا دیا ھے
ھمیں ذرا سا بخار کیا ھوا
احباب محبت نے اپنی دعاوں کے حصار میں لے لیا
ھم بتانا چاھتے ھیں ک ھمین بخار ھوا مگر اس میں بخار کا کوی قصور نھیں ھے
ھم نے خود
،آبیل مجھے مار،
کارویہ اپنایا ھم مینوالی ایک شادی پر گئے ھمارے بھت عزیز علی عمران اعوان ھمارے ساتھ تھے راستے میں ھم نےے ضد کی ھم دیسی ،ککڑی. ،کھایں گے انھوں نے ھمیں بھت سمجھایا بلکہ بار بار سمجھایا مگر ھم باز نہ اے اور ،ککڑی، کھای
ککڑی کے اندر جانے کی دیر تھی
ھماری طبیعت گرم سرد ھونے لگی
مگر ھم خاموشی سے بیھٹے رھے
علی عمران سے ھم نےبات چھاپے رکھی
کیونکہ ھم جانتے تھے وہ بگڑ جائیں گے
اس کشمکش میں ھم میانوالی پہنچ گئے
و ھاں علی عمران اعوان کے ایک چاھنے والے ایک بار پھر ککڑی کا تھال بھر لاے
تھال دیکھتے ھی ھم ادھر ادھر کھسکنا چاھتے تھے مگر یہ مسلک محبت کے خلاف تھا سو ھم ایک بار پھر ککڑی سے دو دو ھاتھھ کرنے لگے اس موقع پر ھمارے نجی خان نے ککڑی کا نجانے کیا کیا ھمارے منہ میں تھونسنا شروع کر دیا یہ تفصیل دل پذیر بھت دلچسب ھے
مگر علی عمران ھمارے کمرے کی طرف ارھے ھیں اور انہھوں نے ھم پر فیس بک دیکھنے کی پابندی لگا رکھی ھے
قسط 2 میں مزید تفصیل عرض کریں گے
مگر ھم بتانا چاھتے ھیں اللہ کے فضل سے ھم بلکل خیریت سے ھیں-10مئیی2016
اے میرے عصمت گل خٹک
طبیعت پہ تاحال بوجھ موجود ھے دیسی ،ککڑی.
کے اثرات ابھی پوری طرح زائل نھیں ھوے باوجود اس کے کہ کچی لسی کے لاتعداد جگ شربت صندل کے کئ گلاس بھی اپنے اندر اندیل چکے ھیں اور تو اور سرکاری نلکے کے نیچے بھی سر جھکاے رکھا مگر
ککڑی نجانے کن کھیتوں میں ،جگتی،رھی تھی کم بخت ابھی تک پیٹ میں، ککڑوں کنروں. کرتی پھرتی ھےاس حوالےسے سے اگر اپ کے پاس کوی نسخہ شفا موجود ھو تو براہ کرم آگاہ کر دیجئے
ھم جآنتے ھیں کہ خوش خوراک تو اپ بلا کے ھیں تین سے چار ،کٹوے.،کھانے کے باوجود آنت سیدھی کرنے کیلئے بکرے کی دو ڈھای کلو کی چانپ توبہحرحال اپ کے بایں ھاتھ کا کام ھے ھم یہ بھی جانتے ھیں کہ کھانے کھاتے ھوے اپ کو پسینہ بھت آتا ھے اور ھم یہ بھی جانتے ھیں کہ یہ عادت خوشبو دار اپ کو خان باباکی صحبت سے حاصل ھوی ھے کیونکہ موصوف خود بھی پسینے پسینے ھو جاتے ھیں
عرض یہ کرنا چاھتے ھیں کہ ابھی ھم ٹھیک نھیں ھیں
اور ھم بخار یا کسی قسم کی خمار میں اپ کے ساتھ مکالم نھین کرنا چاھتے
طبعیت ذرا سنبھل جاے اپ کی طبیعت کے مطابق جواب دیں گے12مئی2016
اے میرے صاحب
طبیعت سے بوجھ اتر چکا ھے
اپ کی دعاوں نے کام دکھایا اب ھم اپنے پاوں پر ھی نھین سر کے بل بھی کھڑے جاسکتے ھیں
شکر گزر ھیں ھم اپنے ان دوستوں کے جنہھوں نے دعاوں کے ساتھ ساتھ
دیسی ٹوٹکوں کی بوچھار کئیے رکھی
کچھ دوستوں نے تو وہ ،توتکے، بھی بتادئیے جو یہھاں نھیں لکھے جا سکتے
ھم سوچ رھے ھین کہ ایک کتاب افضل عاجز کے توتکے کے نام سے لکھیں امید ھے کہ آپا زبیدہ کے بعد ھم بھی کس چینل پر ماھر توتکہ باز کے طور پر مصروف نظر ایں گےبہحرحال طبیعت ٹھیک ھو گئی ھے
رات بھت اچھی گزری
ھمارے محبوب شاعر منصور آفاق ھمارے پاس تشریف لائے ملک معروف شاعرہ راشدہ ماھین ملک ان کے ھمراہ تھیں
ان کی فرمائش پر علی عمران نغمہ سرا ھوے تو پھر اذان فجر تک سلسہ جاری رھاھو.12مئی2016.
اے میرے صاحب
یہ ھماری رانی بیٹی ھے
یہ جب ھمارے سینے پہ چڑھ کے اپنے پاوں مارتی ھے تو محبت کازمزم بہھنے لگتا ھے
مگر اچانک ایک سوچ ھمین اداس کر دیتی ھے
کہ دھیاں تے دھن پرایا وے بابلا توں پیار کیوں ایناں پایا وے بابلا
دعا کیجیے گا-15مئیی2016
پارٹ 3
اے میرے صاحب
ھم ازکار خاص میں مصروف تھےکہ اچانک ازکار عام میں الجھ گیئے اور پھر کم بخت ککڑی نے ایسا گھمایا کہ گھوم کے رہ گیئے
منصور ملنگی صاحب کا قصہ ادھورا رہ گیا ان کے چاھنے والوں کی ناراضگی بھی سر آنکھوں پہ اٹھانی پڑی
ریکادنگ والے دن سب سے پہلے طالب حسین درد تشریف لاے کیا انداز تھا ان کی تشریف آوری کا
پانچ کے قریب ان کے شاگرد ان کے ھمراہ تھے
طالب صاحب نے بوزکی کا کرتہ نیچے لٹھے کی چادر باندھی ھوی تھی سانولا رنگ ساون کی طرح برس رھا تھا پاوں میں پیلے تلے کا کھسہ جگ مگ کر رھا تھا
انہھوں نے آفس میں داخل ھونے کیلئے کھسہ اتارنے کے نیٹ باندھی تو ھم نےگزارش کی
،کھسہ باھر مت اتاریئے چوری ھو جاے گا،
وہ دھیرے سے مسکرائیے اور کہھا
کیا اب لاھور والے بھی جوتیان چرانے لگے ھیں؟
ھم نے کہھا نھیں لاھور والے جوتیاں نھیں چراتے چرانے پہ آئیں تو پورا بندہ چرا لیتے ھیں
ایک قہقہ بلند ھوا اور ھم بغل غیر ھو گیئے
وہ صوفے پر تشریف رکھ چکے تو ان ایک شاگرد نے انھیں حقہ پیش کردیا
انھوں نےایک کش لگایا اور پھر حقے کی،نری،ھمارے ھاتھ میں تھا دی ھم نے ان کے احترام میں ایک کش لگایا
تو کھانسی کے ساتھ ساتھ اور بھی بھت کچھ نکل گیا انہھوں مسکراتے ھوے کہھا
مبارک ھو
ھم نے پوچھا کس بات کی مبارک
فرمایا
پہلی بار حقہ پیتے ھوے اگر کھانسی آجاے تو اس کا مطلب یہ ھوتا ھے کہ حقہ راس آگیا ھے
ھم نے کہھا اگر راس نہ اے تو
انہھوں نے فرمایا
یہ کم بخت دوسرا سانس نھیں لینے دیتااس ابتداء گفتگو کے بعد ھم نے ریکاڈنگ کے لئیے انھیں آمادہ کرنے کی کوشش کی تو وہ تیار ھو گیئے
ھم نے باجہ سنمبھالا
اسٹای گنگای تو انھوں محبت بھرے لہجے میں کہھا
اپ تو خود اچھا گاتے ھو
ھم نے کہھا مگر اپ بھت اچھا گاتے ھو
وہ مسکرانے اور استھای گنگناے لگے
،رون کوں وی لوھندے تھے ھاسیاں کوں وی سکدے رھے
سونے جئی شئے تھی کے وی مٹی دے بھا وکدے رھے
ھم انھیں ریکادنگ روم لے گئیے انھوں نے ھیڈ فون لگایا اور ٹریک پکڑنے کی کوشش کرنے لگے دراصل وہ پہلی بار ٹریک پر گا رھے تھے تھوڑے نروس ھوے
تو فرمایا
،میں ایسے واسطے ایس کم دے خلاف آں،
ھم نے کہھا پریشان نہ ھوں ھوجاےگا
انہھوں نے فرمایا
،ھوسی نیں تاں ویسی کدے،
اب انھوں نے ٹریک کو پکڑنے کی کوشش شروع کردی
مگر
اچانک ایک گوراچتہ گلاب کا سا نوجوان اندر داخل ھوا
اور طالب صاحب کے ھاتھوں سے
ٹریک پھسل گیا خوبصورت نوجوان کی آمد نے ھماری محنت ضائع کر دی
اب طالب صاحب کی پوری توجہ نوجوان کی طرف تھی؟
.لوھندے رھے،17مئی2016
پارٹ 4
اے میرے صاحب
نوجوان کی اچانک آمد نے ھمیں بھت غصہ دلایا بھت مشکل سے طالب صاحب نے ٹریک پکڑا تھا ھم غصے کے عالم میں چیختے ھوے کہھا
کون ھے یہ الو،،،،،،،،،،،،،،………… …..
کا،،،،،،،،،،،، پ ابھی ھوںتون سے نھیں نکلی تھی کہ طالب صاحب نے جوگ بھرے انداز میں کہھا
،کج نہ آکھو اے میرا پتر اے،
ھم نے سوالیہ انداز میں طالب صاحب کی طرف دیکھا نوجوان نے آگے بڑھ کے طالب صاحب کے گھٹنے چھونے کی کوشش کی مگر طالب صاحب نے اسے سینے سے لگاتے ھو ے کہھا
،شالا جوانیاں مانرین مولا دی نگاہ ھووی،
اب نوجوان نے یہی مشق ھمارے ساتھ بھی دھرانے کی کوشش کی
ھم نے بھی محبت سے اس کے گال تھپتپھاےاس نے مسکراتے ھوے کہھا
اپ ناراض ھو گیے غلطی میری نھیں ھے
ریکاڈنگ کا اصول ھے کہ لال بتی جلانا چاھئے
ھم نے کہھا جل رھی ھے
اس نے کہھا جل کیا رھی ھے سرے سے بلب ھی موجود نھیں ھے
اس کی بات درست تھی دراصل رات کو کوی بلب اتار کے لے گیا تھا
اپ ھم نے نوجوان سے پوچھا مگر اپ ھو کون ؟
نوجوان مسکرایا
اور ادارے خاص سے کہھا
،ندیم عباس سن اف اللہ دتہ لونے والا-18مئی2016
اے میرے صاحب
یہ جو مسلک محبت سے جڑے لوگ ھیں.نا.
بس اپنی ھی منواتے ھیں
سو ان کی مانتے ھوے عرض ھے
کبھی آو کہ تم سے اک ضروری بات کرنی ھے
ادھورا ھوں مجھے اپنی مکمل زات
کرنی ھے
اب خوش ؟-18مئیی2016
اے میرے صاحب
آنکھوں کی منڈیروں پہ رکھا ھے چراغ دل
خواھش ھے کہ راہ چلتے کسی روز اچانک مل
کیا اب بھی اندھیرے میں تم چاند سی لگتی ھو؟
کیا اب بھی بناتی ھو رخسار پہ کالا تل؟
کیا اب بھی محبت کے تم ماھیئے گاتی ھو.؟
کیا اب بھی چھنکتی ھے پاوں میں
ترے پائل؟
وہ جھوٹ پہ اڑ جانااورسچ کو دبا لینا
کیا اب بھی مخاطب کو کر لیتی ھو تم قائل؟
یہ عشق کے منتظر جو ھمین پڑھنے آگئیے ھیں
کیا اب بھی کہھو گی تم جا جا ارے جا جاھل
کیا اب بھی تکبر سے ھر قدم اٹھاتی ھو
کیا اب بھی لرزتا ھے پاوں کے تلے ساحل
کیا وقت کی آندھی نے ،سرخاب، لگاے ھیں
کیا اج بھی اکثر کی ھوتی ھے نظر مائل؟-19مئی2016
اے میرے صاحب
بھت پرفیوم ھم نے آزما کے جسم پر دیکھے
مگر کچے گھروں کو لیپنے کے بعد جو خوشبو بکھرتی ھے
اسی خوشبو کی مٹی تو کہھیں جانے نھیں دیتی
کبھی تم گاوں آونا
تو پھر ،گارا، بنایں گے
بڑی اماں کے کمرے کو دوبارہ لیپ کے خوشبو بکھیریں گے
مگر تم کیسے آو گے؟
تمھیں تو گاوں کا اب راستہ بھی یاد کب ھوگا؟ 21مئی2016
اے میرے صاحب
میں سمجھا کیا مگر آگے سے کیا سرکار نکلے
زمانے کی طرح تم بھی تو اک عیار نکلے
چلو میانوالی چلتے ھیں پھر آگے پپلاں جانا ھے
منصور آفاق کی بارگاہ میں حاظری دینی ھے
دعا کی درخواست ھے-22مئی2016
اے میرے صاحب
اپ کی دعاوں سے اور اللہ کے کرم سے ھم واپس اسلام آباد پہنچ چکے ھیں
واپسی پہ معروف شاعر ندیم بھابہ کے سآتھ سیلفی کا ایک انداز پیش خدمت ھےپیپلاں کے مشاعرے کی روداد پھر سنایں گے
جو بھت دلچسپ ھے واپسی پہ منصور آفاق بھی ھمارے ساتھ تھے
مگر سیلفی سے باھر تھے-23مئیی2016
اے میرے صاحب
پیپلاں جانے کا ارارہ نھیں تھا ایک تو کام نپٹا نے تھے اور پھر راستے مین ،ککڑی، بھی پڑتی تھی برادر عزیز مفتی عمران خان بھی وعدے کی فضیلت وقفے وقفے سے بیان فرما تھے تھے اور اشاروں سے سمجھا رھے تھے کہ جو وعدہ وفا نھیں کرتے وہ جنت اور دوزخ کے درمیان کہھیں رکھے جاین گے ان کی اس بات کا مطلب کوی اور بھی ھوسکتا ھے مگر ھم یہھی سمجھا جو بیان کر دیا ھے
ھمارے لیے یہھی کافی تھا کہ اوپر سے ھمارے محبوب شاعر منصور آفاق نے فرما دیا کہ اگر تم مشاعرے میں نہ آے تو پھر ھماری طرف سے طلاق سمجھو
ابھی ھم طلاق کے معاملے میں الجھے ھوے تھے کہ بتایا گیا کہ یہ تقریب دراصل نوجوان صوفی شاعر ھمارے دوست ندیم بھابہ کے سآتھ ایک شام ھے ندیم بھابہ کے سآتھ ھم نےدن تو بھٹ مناے ھیں ھم نے سوچا اس صوفی شاعر کے ساتھ ایک شام بھی گزاری جاے
سلیم شھزار ھمین اپنے ساتھ لے جانا چاھتے تھے مگر ان کی کار کا کوی اعتبار نھیں ھے وہ کہھں بھی کسی وقت خراب ھوسکتی ھے سو ھم نے بس میں جانے کا ارادہ کیا اڈے پر پہنچے تو ایک بس مل گئی ڈرائیور بظاہر بھت ھشاش بشاش تھا مگر ھم نے غور کیا تو وہ آدھے سے زیادہ نیند میں تھا اور پھر صرف دس منٹ کے اندر اندر ھمین اندازہ ھوگیا کہ اب تسبیح پڑھ لینی چاھیے ابھی ھم تسبیح شروع کرنا چاھتے تھے کہ ھمین ایسا لگا جیسے ھماری سیٹ کے نیچے کسی نے اگ لگا دی ادھر ادھر دیکھا تو تو ھر سواری اگ میں جلتی ھوی محسوس ھوی یہ ایک عجیب معمالہ تھا
ایک نوجوان نے ڈرائیور سے پوچھنے کوشش کی
تو اس نے کہھا آرام سے بھیٹے رھو
بصورت دیگر اپ سب میانوالی براستہ کسی ایمبولینس بھی جاسکتے ھو
نوجوان الجھنا چاھتا تھا مگر ھم نے اسے سمجھایا
کہ خاموش ھو جاو ڈرائیور اپنے قول کا سچا لگتا ھے وہ خاموش ھوگیا مگر اچانک 24مئی2016
پارٹ 2
اے میرے صاحب
تمام مسافروں نے چیخ پکار شروع کردی اے سی چلاو اے سی چلاو
ڈرائیور کچھ کچھ سیاسی مزاج کا تھا اس نے گاڑی ایک سائیڈ پر روکتے ھوے کہھا
عمران خان بننے کی ضرورت نھین ھے
ایک مسافر نے ترکی بہ ترکی جواب دیا تم بھی نواز شریف نہ بنو اے سی چلاو
اب ڈرائیور نے سمجھوتے کے انداز میں کہھا
اے سی چل رھا ھے لیکن موٹر وے پر چھڑنے تک گرم ھوا برداشت کرنی پڑے گی
اور پھر ایسا ھی ھواگاری کے اندر کا ماحول بدلنے لگا ھمارے ساتھ ایک بھت خوبصورت دلربا سا نوجوان بیٹھا ھواتھا اس نے میٹھے لہجے میں پو چھا اپ کہھآں جا رھے ھیں
ھم نے کہھا میانوالی مگر اپ کہھاں جا رھے ھیں اس بھت شاندار لہھجے میں کہھا عیسا خیل اور پھر امید بھری نظروں سے ھماری طرف دیکھا اس کا خیال تھا کہ عیسا خیل کے نام پر ھم اچھل پڑیں گے مگر ھم نے ،اچھا، کہھ کے بات ختم کر دی
اب اس نے سوال کیا اپ نے عیسا خیل کا نام سنا ھو ھے ؟
ھم نے نفی میں سر جلایا تو اس نے کہھا اپ عیسا خیلوی کو تو جانتے ھوں گے وہ میرے انکل ھیں
ھم شرارت کے موڈ میں تھے بھت سنجیدگی کے ساتھ کہھا نہھین
نوجوان نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور کہھا اپ کس جہھاں میں رھتی ھو کہ عیسا خیلوی کو نہھین جانتے؟
ھم مسکراتے ھوے کہھا کیا جہھاں میں آنے کے لیے انہھیں سننا ضروری ھے
اب نوجوان تھوڑا سا نروس ھو گیا
اب ھم نے اس سے پوچھا ان کے بارے کہچھ بتاو
اب نوجوان نے ھمین عیسا خیلوی کی داستان عشق سننانی شروع کردی کم بخت نے ایسے ایسے مصالحے لگاے کہ
ایک دو بار ھمارے آنسو نکلتے نکلتے بچے
اب نوجوان سے ھم نے پوچھا
کیاعیسا خیلوی کی شادی ان کی محبوبہ کے ساتھ ھو گئی
نوجوان نے بھت دکھی دل کے ساتھ کہھا نھیں
ھم نے پوچھا
تو کیا انہھوں نے شادی کی
کم بخت نے پورا منہ کھول کے کہھا
نہھی-25مئی2016
پارٹ 3
نوجوآن کی نہھین نے ھماری لمبی سی ھووووووووں.؟ نکال دی
حیران ھو کے اس کی طرف دیکھا مگر وہ بحت سنجیدہ تھآ لیکن اچانک اس نے بھت ادا کے ساتھ ھمین اپنی کہھنی ماری اور کہھا اپ بڑے ،وہ، ھیں ھیں
ھم نے کہھا
ھم بڑے تو ھیں مگر،وہ،نھیں ھیں
اور پھر ھم دونوں کی ھنسی ھی نھین پورا،ھاسہ،نکل گیا
نوجواں نے اب اپنا وزن ھم پہ ڈالتے ھوے کہھا
میں نے اپ کو پہھچان لیا ھے
ھم تھوڑے نروس تو ھوے مگر پوچھ ھی لیا
ھم کون ھیں
اس نے کہھا
اپ میرے فیورٹ شاعر
گریٹ افضل عاجز ھیں
ھم نے کہھا باقی بات تو چلو ٹھیک ھے مگر گریٹ والی بات ذرا نھین ھے
وہ مسکرایا
اور کہھا چلو گریٹ نکال لیتے ھی ھم اپ کی طرح ضدی تو نھیں ھیں نا
کہ اپنی بات پہ اڑ جایین ،جان من،
جان من پر ھم نے ،اف اللہ. ،کہھا
تو
کم بخت نے مسکراتے ھوے کہھا
اس عمر صرف اللہ ھی کہھنا مناسب ھے اف تو اپ کی کب کی نکل چکی ھے
ھم نے خود کو سنمبھالا
اور پوچھآ
اپ نے ھمین پہچانا کیسے؟
اس نے کہھا
اپ نے فون پر بات کرتے ھوے کسی کو اپنا نام بتایا تھا
اور ھم ویسےبھی شاعروں کو دور سے پہچان لیتے ھیں اپ تو ھمارے پہلو میں چپکے بیھٹے ھیں اب باقعدہ گفتگو کا آغاز ھوا چاھتا تھا کہ ڈرائیور نے اعلان کیا
،پندرہ منٹ دا سٹاپ اے
لمبےچورے نہ پئے تھیواے،
نوجواں بضد تھا کھانا اس کی طرف سے ھوگا
وہ ککڑی کا آڈر دینا چاھتا تھا
مگر ھم نے سبزی کی فرمائش کردی
اس نے ککڑی کی فضیلت پر چند جملے کہھے جواب میں ھم نے ککڑی کےعیب گنوانے تو خاموش ھو گیا
کھانا کھا چکے اور جب بل آیا اس نے بل دیکھا
اور اچانک گاڑی کی طرف بھاگ نکلا
ھم نے اس بھاگتے ھو دیکھا
بیڑے نے خاصے غصے سے کہھا
ساب بل-26مئی2016
پارت4
اے میرے صاحب
اپ کی واہ واہ واہ واہ نے ھمیں اچھا خاصا بگاڑ دیا ھے بلکہ بگاڑ ھی دیا ھے
قصہ خان بابا کو انجام تک پہنچانا تھا
مگر اٹک گیا
ھمارے بھت پیارے شاعر پرنم وٹو بھرے بیھٹے ھیں کہ پہھلے خان بابا کا قصہ تمام کرو
منصور علی ملنگی کے ایک مداح بگرے بیھٹے ھیں کہ ندیم عباس پر ھی اٹک گئیے ھو آگے بڑ ھو
ادھر ایک نوخیز سے نوجوان
کا اصرار ھے کہ اپنے ھمسفر نوجوان کی داستان پہھلے سناو
اوپر سے عزیزجان ڈاکڑ اسد مصطفی
کتاب مرتب کرنے پر تلے بھیٹے ھیں
ایسے ھی کسی موقعہ پر کہھا گیا ھو گاکہ
کلی کلی جان دکھ لکھ تے کروڑ وے
سو
بل کا رونا روتے ھو عرض ھے کہ ھم بل ادا کرنے لگے تو آواز ای
ساب کا بل ھوگیا ھے
بتایاگیا وہ جو صاحب جا رھے ھیں انہھون نے دیا ھم نے ادھر دیکھا تو آواز ای جان من اپ نے بل دیے کے اچھا نھیں کیا ھم تو اپنا بٹوہ لینے گئے تھے
ھم نے کہھا
بل اپ کا کوی رقیب دے گیا ھے
ھم گاڑی میں اے تو ان صاحب نے کہھا افضل عاجز صاحب ناراضگی معاف
اب انہھوں نے
با آواز بلند فرمایا
پیار نال نہ سہھی غصے نال ویکھ لیا کر
اب نوجوان نے ھماری طرف دیکھا اور کہھا
اپ خاصے مشہور آدمی ھو
ھم نے کہھا اگر اپ اسی طرح چپک کے بیٹھے رھے تو ھم بدنام بھی ھو سکتے ھیں
وہ مسکرایا اور کہھا
ھم ھیں نا
گاڑی میانوالی پہنچی تو ھم نے ایک دوسرے کے ساتھ دوبارہ ملنے کاوعدہ کیا
مگر نہ اس نے ربطہ نمبر دیا اور نہ ھم نے
پیلان پہنچے تو رات کے نو بج چکے تھے
پنڈال کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا
شعرا حضرات کے ساتھ ساتھ سامعین بھی پہنچ رھے تھے
اچانک بادل چھانے لگے تیز ھوا چلنے لگی
نذیر یاد صاحب نے علم اعداد کی روشنی میں پیشین گوی کی کے ایک بجے کے قریب بارش ھوسکتی ھے
اور اس وقت گیارہ بجے تھےھم نے ان کی پیشین گوی سنی اور عرض کی
ھم علم رمل کی روشنی میں بتاتے ھیں کہ
بارش ھو یا نہ ھو نذیر یاد اج کلام نھین سنا سکیں گے
ابھی ھم نے اتنا ھی کہھا تھا کہ؟28مئی2016