MERA MIANWALI AUGUST  2024

 ٹیچر کے احترام کے لحاظ سے میانوالی کے سٹوڈنٹ بے مثال ہیں۔ میں پروفیسر صاحبان کی محفل میں اکثر کہا کرتا تھا کہ ان بچوں کو پڑھانا ان پر کوئی احسان نہیں کیونکہ اس کام کی ہمیں تنخواہ ملتی ہے اور یہی ہمارا ذریعہ معاش ہے۔ اس کے باوجود یہ بچے زندگی بھر ہمارا احترام کرتے ہیں اور ہماری خدمت کر کے خوش ہوتے ہیں۔

بے شمار واقعات ہیں۔۔۔۔۔۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جب میں پہلی بار پنشن لینے کے لیئے نیشنل بینک گیا تو کیشیئر کی کھڑکی کے باہر پنشنرز کی لمبی قطار دیکھ کر گھبرا گیا۔ قطار میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرنے میں پتہ نہیں کتنا وقت لگ جاتا۔

بینک کے اندر داخل ہوا تو ایک نوجوان کیشیئر مجھے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ کہنے لگا سر ، کیسے آنا ہوا ۔ میں نے بتایا کہ پنشن لینے آیا ہوں۔ مجھ سے پنشن فارم لے کر وہ فورا پنشن والے کیشیئر کے کمرے میں گیا اور میری پنشن کی رقم لا کر مجھے دے دی۔ کہنے لگا سر ، یہاں سے پنشن وصول کرنے میں بہت خواری ہوتی ہے۔ آئندہ آپ کسی کے ہاتھ پنشن فارم بھجوا دیا کریں۔ میں اس بندے کے ہاتھ آپ کی پنشن بھجوا دیا کروں گا۔

بینک ہو یا پوسٹ آفس یا کچہری میانوالی میں اللہ کے فضل سے ہر جگہ میرا کوئی نہ کوئی بیٹا میری خدمت کے لیئے موجود ہوتا ہے۔ مجھے قطار میں نہیں لگنا پڑتا۔

شاید کچھ عرصہ پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ ہمارے ایک عزیز کا ضمانت کا کیس تھا۔ جب اس نے میرا حوالہ دیا تو جج کا ریڈر اٹھ کھڑا ہوا۔ جج صاحب نے پوچھا کیا بات ہے۔ ریڈر نے کہا سر میں منورعلی ملک صاحب کا سٹوڈنٹ رہا ہوں۔ ان کا نام سن کر احتراما کھڑا ہو گیا ہوں۔

جج صاحب نے مسکرا کر کہا اچھا یہ بات پے۔ کمال ہے ۔ یہ کہہ کر انہوں نے ملزم کی ضمانت منظور کر لی۔

سٹوڈنٹس کی سعادتمندی کی ایسی مثالیں آئے دن دیکھنے میں آتی رہتی ہیں۔ اس لیئے ان بچوں کے لیئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔1  اگست 2024 1

ایک فارسی شاعر نے ملنگ ٹائیپ لوگوں کے بارے میں کہا تھا

ہر جا کہ رفت خیمہ زد و بارگاہ ساخت

(ایسا آدمی جہاں بھی جا کر بیٹھ جائے وہی جگہ اس کا دربار بن جاتی ہے۔ اس سے فیض حاصل کرنے کے لیئے لوگوں کی آمدورفت شروع ہو جاتی ہے)۔

ملنگ ہونے کا دعوٰی تو میں نہیں کر سکتا کہ ملنگ کا مقام بہت اونچا ہے۔ مگر معاملہ اپنا بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے۔

1985 میں ہمارے بابا جی ڈی ایچ کیو ہسپتال میانوالی کے پرائیویٹ وارڈ میں داخل تھے۔ میں ان کی دیکھ بھال کے لیئے ان کے ساتھ رہتا تھا۔ ایک دن ایک نرس بابا جی کو انجیکشن لگانے کے لییے آئی تو مجھ سے کہنے لگی سر ، سنا ہے آپ انگلش کے پروفیسر ہیں۔ میں نے کہا جی ہاں۔ اس نے کہا سر ہم پانچ لوگ بی ایس سی کی تیاری کر رہے ہیں۔ اگر آپ ہمیں انگلش پڑھا دیا کریں تو جتنی فیس آپ کہیں۔۔۔۔۔۔۔

میں نے کہا بیٹا فیس کو چھوڑیں، میں آپ سے کوئی فیس نہیں لوں گا۔ مجھے وقت اور جگہ بتا دیں وہیں بیٹھ کر پڑھ لیا کریں گے۔

اس نے کہا سر ، یہ جو ساتھ ہی ہیڈ نرس کا کمرہ ہے ، 5 سے 6 بجے تک وہیں بیٹھ جایا کریں گے ۔ ہیڈ نرس صاحبہ نے بھی بی ایس سی کا امتحان دینا ہے۔ وہ بھی پڑھ لیا کریں گی۔یوں روزانہ 5 سے 6 بجے تک ہسپتال میں بی ایس سی کی انگلش کی کلاس ہونے لگی۔۔۔۔ بی ایس سی کا انگلش کا کورس مختصر سا ہے۔ 100 نمبر کا ایک ہی پیپر ہوتا ہے۔ ہسپتال میں بابا جی کے پندرہ بیس دن قیام کے دوران بچیوں نے بہت کچھ سیکھ لیا۔ پانچ بچیاں تھیں۔ اس کلاس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ انہوں نے بابا جی کے علاج پر خصوصی توجہ دی۔

ہسپتال سے فارغ ہونے سے پہلے میں نے انہیں بتا دیا کہ جو کچھ میں نے پڑھا دیا ہے اس کے علاوہ یہ یہ چیزیں بھی پڑھ لیں تو امتحان میں بہت اچھے نمبر مل جائیں گے۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔2  اگست 2024 

انگلش کے ٹیچر کا سب سے اہم اور مشکل کام سٹوڈنٹس کے دل سے انگلش کا خوف اور نفرت ختم کرنا ہے۔ یہ خوف اور نفرت بھی ہم ٹیچرز ہی پیدا کرتے ہیں۔ سٹوڈنٹس سے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک مشکل زبان ہے۔ اسے بولنا لکھنا آپ کے بس کی بات نہیں۔ آپ بس لکھے لکھائے نوٹس کو رٹا لگا کر ہی امتحان میں پاس ہو سکتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بچے چھٹی کلاس سےمیڑک تک 5 سال انگلش پڑھنے کے باوجود دو جملے بھی سیدھے نہیں لکھ سکتے۔

کہا جاتا ہے کہ جی انگلش غیر زبان ہے۔ حالانکہ انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ زبان اتنی غیر بھی نہیں۔ انگلش کے سینکڑوں الفاظ ہم روزانہ بولتے ہیں۔ چند مثالیں دیکھیئے۔

۔۔۔۔۔ سکول، کالج، کلاس، ٹیچر، پروفیسر، ہیڈماسٹر ،پرنسپل، پیپر ، پاس ، فیل

۔۔۔۔۔ کار جیپ، بس، کوچ ڈرایئور، کنڈکٹر ,روٹ

۔۔۔۔ ڈاکٹر ،نرس ، ہسپتال، بیڈ، وارڈ، آپریشن، چیک اپ، انجیکشن، ڈرپ ، ٹیسٹ

۔۔۔۔۔۔۔پولیس، انسپکٹر ، آرمی ، میجر ، کرنل، جنرل

۔۔۔۔۔۔۔موبائل فون ، پیکج، بیلنس، میسیج، کال وغیرہ جیسے سینکڑوں الفاظ بولنے کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ جی یہ تو غیر زبان ہے۔

ایسی مثالیں بتا کر میں سٹوڈنٹس سے کہا کرتا تھا کہ یہ غیر زبان ہر گز نہیں۔ یہ بھی اسی طرح ہماری اپنی زبان ہے جیسے کوئی اور۔

اس حوصلہ افزا گفتگو سے سٹوڈنٹس کو احساس ہوتا تھا کہ بات تو واقعی درست ہے۔انگلش اتنی غیر بھی نہیں جتنی ہم نے سمجھ رکھی تھی ۔

یہ احساس ہونے کے بعد سٹوڈنٹس کو انگلش دلچسپ اور آسان لگتی تھی۔ وہ اسے شوق سے پڑھتے تھے۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔٣   اگست 2024

انگریزی سیکھنے کے بارے میں ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ جی گرامر پر عبور کے بغیر انگریزی سیکھنا ناممکن ہے۔

میرا موقف یہ ہے کہ جب ہم گرامر سیکھے بغیر اپنی مادری زبان اور اردو سیکھ سکتے ہیں تو انگریزی کیوں نہیں؟ حالانکہ گرامر تو ہر زبان کی ہوتی ہے۔ پنجابی سندھی پشتو بلوچی اور اردو ہر زبان میں ,Noun Pronoun ,Adjective, Verb وغیرہ ہوتے ہیں۔ اور کچھ گرامر کے اصول بھی ہوتے ہیں ۔ لیکن بولتے یا لکھتے وقت ہمیں یہ سوچنا نہیں پڑتا کہ یہاں Verb کی کون سی form یا فلاں Noun کے ساتھ کون سی Preposition آئے گی۔ ہر لفظ کسی کوشش کے بغیر اپنی اپنی جگہ سنبھال لیتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ زبانیں گرامر کی مدد کے بغیر براہ راست سیکھتے ہیں۔ اسی طرح انگریزی بھی سن کر یا پڑھ کر سیکھی جا سکتی ہے۔

گرامر کی حیثیت تو گاڑی یا موٹر سائیکل کی tool kit جیسی ہے۔ جب کوئی نقص نظر آئے تو گرامر کی ضرورت پڑتی ہے ورنہ نہیں۔ مگر نقص کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

گرامر سکولوں کے کورس میں شامل ہے۔ اس لیئے امتحان کی خاطر سیکھنی پڑتی ہے۔ مگر یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ جی گرامر کے بغیر انگلش نہیں سیکھی جا سکتی۔۔۔۔۔۔ ۔وماعلینا الا البلاغ۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔٤   اگست 2024 

انگریزوں سے نفرت اپنی جگہ ، ان کی زبان سے نفرت کیوں ؟ جو لوگ انگریزی کو کافروں کی زبان کہہ کر مکروہ سمجھتے ہیں ان کی اطلاع کے لیئے ایک واقعہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

بہت عرصہ پہلے اخبار نوائے وقت میں ایک کالم شائع ہوا تھا۔ یہ کالم کے ایل گابا نامی وکیل کی انگلش میں لکھی ہوئی سیرت نبوی پر کتاب The Prophet of the Desert کے بارے میں تھا۔

کے ایل گابا پہلے ہندو تھے۔ پورا نام کنہیا لال گابا تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے اپنا نام خالد لطیف رکھ لیا۔ ان کے قبول اسلام پر ہندووں نے ان کے خلاف ایک کیس کھڑا کر دیا۔ انگریز جج نے ضمانت کے لیئے ایک لاکھ روپیہ نقد جمع کرانے کا حکم دیا۔ اس زمانے میں ایک لاکھ روپیہ بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا تھا۔ مسلمان تو ویسے بھی غریب تھے۔

انہی دنوں سیالکوٹ کے ایک نیک دل صنعتکار سرور خان کو خواب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زیارت کا شرف نصیب ہوا۔ حضور نے فرمایا سرور ، خالد لطیف گابا نامی بندے نے مجھ پر ایک کتاب لکھی ہے جو مجھے پسند آئی ہے۔ اس کی ضمانت کے لییے رقم کا بندوبست آپ نے کرنا ہے۔

سرور خان کے لییے تو یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔ کچھ رقم پاس تھی کچھ دوستوں سے لے کر انہوں نے مقررہ تاریخ پر لاہور جاکر ایک لاکھ روپیہ عدالت میں جمع کرا دیا اور کے ایل گابا کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔

یہ کتاب میں عیسی خیل کالج کی لائبریری کے لیئے بھی لایا تھا۔ محبت اور عقیدت سے لبریز یہ تحریر واقعی لا جواب ہے۔ بعد میں پیغمبر صحرا کے عنوان سے اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی شائع ہوا۔ مگر اصل کتاب پڑھنے کا لطف ہی کچھ اور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔٥   اگست 2024

 1990 سے 2000 تک کا عرصہ گورنمنٹ کالج میانوالی میں تعمیر و ترقی کا دور تھا۔ سائنس بلاک ، ایم اے بلاک اور رحمتہ للعالمین آڈیٹوریم کی تعمیر اسی دور میں ہوئی۔ ایم اے انگلش اور سیاسیات کی کلاسز کا اجراء بھی اسی دور میں ہوا۔

ایم اے کی کلاسز کا اجراء خاصا مشکل کام تھا۔ ہمارے پاس نہ تو ایم اے کی کلاسز کے لیئے کوئی الگ بلڈنگ تھی نہ ہی مطلوبہ مقدار میں سٹاف۔ کلاسز کے اجراء کے لیئے ہماری دلیل یہ تھی کہ یہاں کے والدین بچوں کو ایم اے کی تعلیم کے لیئے لاہور یا پنڈی بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

اللہ مسبب الاسباب ہے۔۔۔۔۔ مولانا عبدالستار خان نیازی جب وفاقی وزیر بنے تو ایک دن کالج تشریف لائے۔ ہم نے ان سے درخواست کی کہ کالج میں ایم اے انگلش اور سیاسیات کی کلاسز کا اجراء کرایا جائے۔ مولانا نے دوسرے دن اسلام آباد جا کر وزیر اعظم سے بات کی۔ وزیراعظم نے فورا چیف سیکرٹری پنجاب کو فون پر حکم دیا کہ گورنمنٹ کالج میانوالی میں ایم اے انگلش اور سیاسیات کی کلاسز فی الفور شروع کی جائیں۔ اگلے ہی دن سیکریٹری ایجوکیشن نے پرنسپل صاحب کو فون پر حکم دیا کہ آپ ایم اے انگلش اور سیاسیات کی کلاسز کا داخلہ شروع کر دیں۔

اس حکم کی فورا تعمیل کی گئی۔

پرنسپل کی رہائش گاہ خالی پڑی تھی۔ وہاں انگلش کی کلاسز بٹھا دی گئیں۔ سیاسیات کی کلاسز کے لییے سائنس بلاک میں گنجائش پیدا کر لی گئی۔

کلاسز تو شروع ہو گئیں مگر ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے۔ کلاسز کا پنجاب یونیورسٹی سے الحاق خاصا مشکل کام تھا۔ اس دوران حکومت بھی تبدیل ہو چکی تھی۔ سٹوڈنٹس یونین کے صدر فضل الرحمن خان ، جنرل سیکرٹری زبیر ہاشمی اور ان کی ٹیم نے مقامی ایم این اے گل حمید خان روکھڑی سے کہہ کر یہ مرحلہ بھی طے کرا دیا۔۔۔۔ اس سلسلے میں ڈی سی میانوالی رانا محمد افضل خان نے بھی بہت مدد کی۔ ان کی دو بچیاں ہماری ایم اے انگلش کی پہلی کلاس کی سٹوڈنٹ تھیں۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔٦   اگست 2024 

کالج میں ایم اے انگلش کی کلاسز کا آغاز ہوا تو میں نے ساتھیوں سے کہا ہمارے سٹوڈنٹ بی اے تک انگریزی پڑھنے کے باوجود انگریزی بول نہیں سکتے۔ کم از کم ایم اے کے لیول پر تو اس کمزوری کا علاج ہونا چاہیئے۔ وہ اس طرح کہ ایم اے کی کلاسز کےاندر اور ایم اے کیمپس کی حدود میں انگریزی بولنا یقینی بنایا جائے۔ ہم خود بھی انگریزی بولیں اور سٹوڈنٹس کے لیئے بھی انگریزی بولنا لازم قرار دیں۔ اس طرح انگریزی بولنے میں سٹوڈنٹس کی جھجک ختم ہو جائے گی۔ ایم اے کی سطح پر کم از کم اتنی ترقی تو ہونی چاہیئے۔ ساتھیوں نے اس تجویز پر اعتراض تو نہ کیا مگر افسوس کہ اس پر عمل نہ کر سکے۔

اپنی حد تک میں نے اس پر عمل کیا۔ میں ایم اے سال اول کی کلاس کو پوئٹری اور سال دوم کی کلاس کو ناول پڑھاتا تھا۔ جب پروفیسر سلطان محمود اعوان صاحب نے صحت کے مسائل کی وجہ سے پڑھانے سے معذرت کر لی تو سال اول کی پوئٹری پروفیسر عبدالغفار خٹک صاحب کے سپرد کر کے میں سال اول کو ڈراما پڑھانے لگا۔

ایم اے کی کلاسز میں میں نے انگلش کے علاوہ کسی اور زبان کا ایک لفظ بھی نہ بولنا یقینی بنایا۔ تمام تر تشریح اور تبصرہ انگلش ہی میں کرتا تھا۔ اس سے سٹوڈنٹس کو انگلش سمجھنے بولنے میں خاصی مدد ملی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔٧   اگست 2024  

گورنمنٹ کالج میانوالی میں ایم اے کی کلاسز سے علاقے کو بہت فائدہ ہوا۔ کالج کے موجودہ ہیڈ آف انگلش ڈیپارٹمنٹ پروفیسر ناصر اقبال نے اسی کالج سے ایم اے انگلش کیا۔ پی اے ایف کالج کے ہیڈ آف انگلش ڈیپارٹمنٹ میرے بیٹے پروفیسر امجد علی ملک نے بھی اسی کالج سے ایم اے انگلش کیا۔ اور بھی بہت سے بچے اور بچیاں یہاں سے ایم اے کرنے کے بعد مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

کالج کے سابق پرنسپل عارف نیازی نے بھی اسی کالج سے ایم اے سیاسیات کیا۔

جب یہاں ایم اے کی کلاسز کا آغاز ہوا تو کچھ لوگ کہتے تھے یہ شغل ایک دو سال ہی چل سکے گا کیونکہ کالج میں مطلوبہ سہولیات ہی میسر نہیں۔ سٹاف بھی بہت کم ہے۔ لیکن ہم لوگوں نے محنت کر کے یہ ثابت کر دیا کہ خلوص دل سے محنت کی جائے تو سہولیات کی کمی آڑے نہیں آتی۔ ایم اے / بی ایس کی کلاسز آج 25 سال بعد بھی چل رہی ہیں۔۔8   اگست 2024 

ہر سفر کی کوئی نہ کوئی منزل ہوتی ہے۔ ملازمت کے سفر کی منزل ریٹائرمنٹ ہے۔ میری ملازمت کا 40 سال کا سفر یکم فروری 2000 کو ختم ہوا۔

میں نے تو سمجھا تھا آخری دن اپنی ریٹائرمنٹ کے کاغذات پر دستخط کرکے ملازمت سے فارغ ہو جاوں گا۔ ساتھیوں سے ہاتھ ملا کر اور بچوں کو ہاتھ ہلا کر الوداع کہنے کے بعد خاموشی سے گھر کی راہ لوں گا۔ لیکن آنے والے دنوں نے یہ ثابت کیا کہ میری رخصتی اتنا سادہ معاملہ نہیں۔

میرے انگلش ڈیپارٹمنٹ کے ساتھیوں اور بچوں نے میرے لیئے خصوصی پروٹوکول کا اہتمام کر رکھا تھا۔

اس سلسلے کی سب سے پہلی تقریب 20 نومبر 1999 کو انگلش ڈیپارٹمنٹ میں منعقد ہوئی۔ پروفیسر سرور خان ، پروفیسر ناصر اقبال اور ایم اے کلاسز کے بچوں کی پر خلوص محنت نے اس تقریب کو کالج کی تاریخ کی ایک یادگار تقریب بنا دیا۔۔۔۔پرنسپل ملک محمد انور میکن صاحب اور بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر محمد فاروق صاحب نے مجھ سے ایک دن پہلے ریٹائر ہونا تھا۔ اس لییے انہیں اس تقریب کے مہمان خصوصی بنا دیا گیا۔

بچوں کی مجھ سے والہانہ محبت نے ماحول کو خاصا جذباتی رنگ دے دیا۔ کئی بچے بچیاں آنسو بہاتے دیکھے گئے۔ میں نے اپنے خطاب میں بچوں سے کہا میں کہیں نہیں جا رہا۔ میں ایم کی کلاسز کو جو کورس پڑھا رہا ہوں وہ مکمل کر کے ہی جاوں گا۔ ابھی تو ریٹائرمنٹ میں بھی دو ماہ باقی ہیں۔ اس کے بعد بھی کورس ختم ہونے تک ایک دو ماہ باقاعدہ کالج آتا رہوں گا۔

سچی بات یہ ہے کہ اس سے پہلے مجھے اپنی اہمیت کا اندازہ نہ تھا۔ اس تقریب نے یہ احساس دلایا کہ لوگ مجھ سے کتنی والہانہ محبت کرتے ہیں۔

اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ یہ سب رب کریم کا خصوصی کرم ہے۔ ہمارے آقا علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالٰی جب کسی بندے کی بھلائی چاہتا ہے تو لوگوں کے دل میں اس انسان کی محبت ڈال دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔١٠   اگست 2024 

شعر کہنے کی صلاحیت بھی رب کریم کا خاص احسان ہے۔ شاعر بہت حساس لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے جذبات کا اظہار آنسووں کی بجائے الفاظ کی صورت میں ہوتا ہے۔ آنسو تو ایک آدھ منٹ میں خشک ہو جائے ہیں، مگر الفاظ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ، اور ایسے موقعوں پر دوسرے لوگوں کے بھی کام آتے ہیں ۔

اپنی الوداعی تقریب میں میں نے یہ نظم پڑھی تھی۔۔۔۔۔

اگرچہ شہر کا موسم بڑا سہانا ہے

مسافروں کو سفر پر ضرور جانا ہے

سدا بہار چمن میں قیام ختم ہوا

خزاں میں اور کہیں آشیاں بنانا ہے

یہاں سے اڑ کے کہاں جائیں گے خدا جانے

سفر نصیب پرندوں کا کیا ٹھکانا ہے

کبھی خیال نہ آیا ہمیں بچھڑنے کا

یہ جانتے تھے یہ دن ایک دن تو آنا ہے

سوال دل میں نہ رہ جائیں حسرتیں بن کر

جو پوچھنا ہے کہو تم سے کیا چھپانا ہے

میں پیار سارا یہاں پر ہی چھوڑ جاوں گا

سفر کٹھن ہے تو سامان کیا اٹھانا ہے

یہ پھول اپنی محبت کے کچھ بچا رکھنا

ہمارے بعد کسی اور نے بھی آنا ہے

۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔١١   اگست 2024

ریٹائرمنٹ تو سرکاری کاغذات کے مطابق یکم فروری 2000 کو ہو گئی۔ مگر سٹوڈنٹس سے اپنے وعدے کے مطابق میں ایم اے کی کلاسز کے بقیہ کورس کی تکمیل تک ریٹائرمنٹ کے ڈیڑھ دو ماہ بعد بھی باقاعدہ کالج آتا رہا۔

ایک دن باتوں باتوں میں میں نے بچوں کو بتایا کہ میری اصل تاریخ پیدائش تو 12 فروری تھی مگر غلطی سے میٹرک کی سند پر یکم فروری درج ہو گئی۔

یہ سن کر بچے بضد ہو گئے کہ جی ہم 12 فروری کو آپ کا برتھ ڈے منائیں گے۔ مجھ سے کہا آپ اپنی پسندیدہ شخصیت کا نام بتائیں ہم اسی کو اس تقریب کا مہمان خصوصی بنائیں ۔ میں نے کہا میری تین سال کی پوتی فائقہ مجھے بہت پیاری لگتی ہے۔

سو 12 فروری کو میرے برتھ ڈے کی تقریب منعقد ہوئی۔ فائقہ مہمان خصوصی تھی۔

میں نے بچوں کو اپنی روانگی کی تاریخ نہیں بتائی تھی کہ

الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

جب ایم اے کی کلاسز کا کورس مکمل ہو گیا تو اس کے ایک دو دن بعد میں لاہور چلا گیا ۔ بچوں کو بعد میں دوسرے ٹیچرز نے بتایا کہ ملک صاحب اب کالج نہیں آئیں گے۔

۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔١٢   اگست 2024 

یادیں۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے علاقے کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ انسان جس درخت کے سائے میں کچھ دیر بیٹھ کر آرام کر لے وہ درخت بھی کبھی نہیں بھولتا۔

میں نے تو اپنی زندگی کے پورے 20 سال گورنمنٹ کالج میانوالی میں گذارے۔ اس کالج کے ہر کلاس روم اور پلاٹ میں کلاسیں لیں۔ وسیع و عریض عمارت اور تین سو کنال کیمپس کے ہر کونے سے بہت

سی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں۔ سائیکل سٹینڈ کے نگران لالا محمد خان المعروف مولوی محمد خان سے لے کر پرنسپل تک کالج سے وابستہ ہر فرد سے میرے دوستانہ مراسم رہے۔ مولوی محمد خان ایک دن مجھ سے کہنے لگے ملک صاحب بڑے خوش قسمت ہیں آپ۔ یہاں سائیکل سٹینڈ پر آنے والے بچے آپس میں جس احترام سے آپ کا ذکر کرتے ہیں سن کر مزا آجاتا ہے۔ رب کا شکر ادا کیا کریں اس عنایت پر۔

واقعی اس عنایت پر جتنا شکر کروں کم ہے۔

صرف لالا محمد خان ہی نہیں کالج کے ہر ملازم سے میرے دوستانہ مراسم رہے۔

بچوں اور پروفیسر صاحبان سے تو براہ راست رابطہ رہتا تھا۔ محبت اور احترام کے رشتوں پر مبنی بہت پیارا ماحول تھا اس کالج کا۔۔ 20 سال میں کبھی کسی سے ان بن یا رنجش نہیں ہوئی۔

لیکن اب کالج میں جانے کو دل نہیں مانتا کیونکہ اس دور کے پروفیسر صاحبان اور بچے یہاں سے چلے گئے۔ بیالوجی ٹی کلب ، کالج آفس ، ایم اے بلاک، لائبریری ، ہاسٹل ، ہر جگہ نئے لوگ آگئے ۔ موجودہ پروفیسر صاحبان میں سے پروفیسر ناصر اقبال ، پروفیسر صفی اللہ ملک ، اور دوچار دوسرے نوجوان پروفیسر صاحبان میرے سٹوڈنٹ رہے۔ ہمارے دور کے بس یہی دوچار لوگ وہاں موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔١٣   اگست 2024 

ہر کام کے وقت اور مقام کا تعین قدرت کرتی ہے۔ میری ادبی تخلیقی صلاحیتیں میانوالی آنے کے بعد بروئے کار آئیں۔ اردو شاعری کا آغاز تو جوانی کے ساتھ داودخیل ہی میں ہو گیا تھا۔ عیسی خیل میں 5 سال قیام کے دوران لالاعیسی خیلوی سے دوستی نبھاتے ہوئے سرائیکی شاعری بھی کرتا رہا۔

اردو ، انگریزی نثر نگاری کی طرف میں میانوالی آکر متوجہ ہوا۔ ابتدا انگریزی میں کالم نگاری سے ہوئی۔ ایم اے انگلش کے کورس سے متعلق درجن بھر کتابیں بھی لکھ دیں۔

اردو نثر میں میری پہلی باقاعدہ تحریر “درد کا سفیر” کے عنوان سے عیسی خیلوی اور اپنی دوستی کی داستان تھی۔

یہ کتاب لکھنے کا میرا نہ کوئی پروگرام تھا نہ ارادہ۔۔۔۔۔ ویسے ہی ایک دن فارغ بیٹھا تھا تو اردو میں کچھ لکھنے کو جی چاہا۔ ایک پرانی ڈائری کے کچھ خالی صفحات پر کچی پنسل سے کچھ واقعات لکھ دیئے۔ دوسرے دن یہ تحریر دوبارہ دیکھی تو اچھی لگی۔ تب میں نے اس داستان کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ دس پندرہ دن میں کتاب مکمل ہو گئی۔

درد کا سفیر 1991 میں مکتبہ قوسین لاھور سے شائع ہوئی۔ یہ میری مقبول ترین کتاب ثابت ہوئی۔ کتاب میں دی گئی معلومات کے علاوہ میرا انداز تحریر بھی لوگوں نے بہت پسند کیا۔ کچھ سینیئر ادیبوں اور نقادوں نے بھی انداز تحریر کو سراہا۔

اب تک اس کتاب کے تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں لیکن اس کی طلب میں کمی نہیں آئی۔ لوگ چوتھے ایڈیشن کا تقاضا کر رہے ہیں ، مگر اب اپنے پاس اتنا فارغ وقت ہی نہیں کہ کتاب میں مزید کچھ اضافہ کر سکوں۔ اب تو یہ کتاب پی ڈی ایف میں بھی دستیاب ہے۔

کئی دوست یہ کتاب پی ڈی ایف میں ملنے کا لنک پوچھ رہے ہیں۔ جن ساتھیوں کے ہاں کتاب پی ڈی ایف میں دستیاب ہے وہ ازراہ کرم کمنٹس میں لنک بھیج دیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔١٥   اگست 2024

پس تحریر۔۔۔۔

اردو کی میری اب تک پانچ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ پہلی کتاب “درد کا سفیر” کے بعد میری دوسری کتاب “پس تحریر ” 1994 میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب 6 سینیئر ادیبوں کے تحریری انٹرویوز پر مشتمل ہے۔ میں نے 50 سوالات پر مشتمل سوالنامہ 8 نامور اہل قلم کو بھیجا تھا۔ سوالنامے میں ان لوگوں کی شخصیت اور فن کے بارے میں سوال تھے۔ 8 میں سے 6 بزرگوں نے سوالات کے جوابات بھیجے۔ سوالات اور جوابات دونوں خاصے دلچسپ ہیں۔

یہ کتاب ممتاز مفتی، میرزا ادیب، شفیق الرحمان، احمد ندیم قاسمی ، رام لال اور ڈاکٹر سلیم اختر کے جوابات پر مشتمل ہے۔ اس میں ان سینیئر اہل قلم کے بارے میں مفصل معلومات شامل ہیں۔ بعض معلومات ایسی بھی ہیں جو کسی اور کتاب میں نہیں ملتیں۔۔ ان شخصیات پر ریسرچ کرنے والوں کے لیئے یہ کتاب بہت کار آمد ہے۔

پس تحریر بک مارک ٹمپل روڈ لاہور نے شائع کی۔ بک مارک کے مالک انصاری صاحب کی وفات کے بعد بک مارک تو بند ہو گیا۔ اب یہ کتاب مکتبہ نگارشات ٹمپل روڈ لاہور سے مل سکتی ہے۔

علمی ادبی حلقوں میں یہ کتاب بہت پسند کی گئی۔

انٹرویو دینے والی 6 بزرگ شخصیات میں سے کوئی بھی اب اس دنیا میں موجود نہیں۔ اس لحاظ سے یہ کتاب ان کے چاہنے والوں کے لیئے بہت اہم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔17   اگست 2024

اردو میں میری تیسری کتاب “جان ملٹن” شہرہ آفاق انگریز شاعر جان ملٹن (1608۔۔1674) کی داستان حیات ہے۔ ملٹن اتنا بڑا شاعر تھا کہ انگریزی ادب کی تاریخ کے سب سے بڑے دو شاعروں کا انتخاب کیا جائے تو شیکسپیئر کے ساتھ ملٹن کا نام ہی آتا ہے۔ بعض نقادوں کی رائے میں ملٹن ہی سب سے بڑا شاعر ہے۔

ملٹن کی داستان حیات ناول کی طرح دلچسپ ہے۔ شاعری کے علاوہ مذہبی عقائد اور سیاسی کردار کے لحاظ سے بھی ملٹن منفرد شخصیت تھا۔ وہ عام عیسائیوں کے برعکس عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا نہیں مانتا تھا۔ وہ عیسی علیہ السلام کو صرف نبی مانتا تھا۔ اس کا عقیدہ یہ تھا کہ اگر انسان کے اعمال اچھے نہ ہوں تو کوئی سفارش کوئی شفاعت اسے جہنم سے نہیں بچا سکتی۔

سیاست میں ملٹن نے بادشاہ اور پارلیمنٹ کی لڑائی میں پارلیمنٹ کا بھر پور ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں بالآخر فتح پارلیمنٹ کو نصیب ہوئی اور بادشاہ ملک چھوڑ کر بھاگ گیا۔

چند سال پہلے ملٹن کے بارے میں دو تین مفصل پوسٹس لکھ چکا ہوں۔ وہ سب باتیں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ صرف یہ بتانا ہے کہ میری تیسری کتاب جان ملٹن تھی۔ ملٹن کی شخصیت اور کہانی درد کا سفیر سے کم دلچسپ نہیں۔ اس لیئے یہ کتاب بھی بہت مقبول ہوئی۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔18  اگست 2024 

جو تم سے کہہ نہ سکا

اردو کی میری چوتھی کتاب “جو تم سے کہہ نہ سکا” کے عنوان سے میرا شعری مجموعہ ہے جو 2002 میں شائع ہوا ۔ میں نے بہت کم شاعری کی ہے کیونکہ میں زبردستی شعر کہنا گناہ سمجھتا ہوں۔ پودے پر پھولوں کی طرح شعر کبھی خود بخود وارد ہوتے ہیں تو لکھ لیتا ہوں۔

بنیادی طور پر میں اردو غزل کا شاعر ہوں۔۔۔۔ جگر مراد آبادی، فراق گورکھپوری ، ناصر کاظمی، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی، شکیب جلالی اور محسن نقوی میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ میری شاعری کا انداز سخن انہی لوگوں جیسا ہے مگر خیالات میرے اپنے ہیں۔ اس لحاظ سے میری شاعری ان سے مختلف ہے۔ اس کا ایک اپنا رنگ اور ذائقہ ہے۔۔۔۔۔ ایک پرانی غزل کے یہ چند شعر دیکھیئے۔۔۔

غم کے بغیر بھی ہم کو اکثر رونا پڑتا ہے

اندر میلا ہو جائے تو دھونا پڑتا ہے

اس نے کہا تم کو کھو دینا مجبوری ہے یار

کچھ پانے کی خاطر کچھ تو کھونا پڑتا ہے

کوئی آس نہ کوئی وعدہ اور نہ کوئی چاپ

کچھ بھی نظر نہ آئے تو پھر سونا پڑتا ہے

ظلم تو یہ ہے وہ بھی آخر چھوڑ ہی جاتے ہیں

جن کی خاطر کئی لوگوں کا ہونا پڑتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔ 20 اگست 2024

میرے شعری مجموعہ “جو تم سے کہہ نہ سکا” میں اردو غزل کے علاوہ چند سرائیکی گیت اور دو انگریزی میں نظمیں بھی شامل ہیں۔ یہ کتاب وسیم سبطین اور ذکاء ملک کے ہاں پی ڈی ایف میں بھی دستیاب ہے۔

اپنی ایک اور غزل کے چند شعر دیکھیئے۔۔۔۔

اپنی اپنی ہے زندگی تنہا

شہر آباد ، آدمی تنہا

غیر مشروط پیار سب سے کیا

کر گئی ہے یہ سادگی تنہا

آ تو جاو مگر یہ ڈر ہے مجھے

میں نہ ہو جاوں اور بھی تنہا

کھو گئے مشوروں میں پروانے

شمع بیچاری جل بجھی تنہا

وہ محبت نہیں، ضرورت تھی

میں اکیلا تھا آپ بھی تنہا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔ 21 اگست 2024

میسنجر اور واٹس ایپ پیغامات کے ذریعے کئی دوستوں نے ” اس سے کہنا” والی غزل پوسٹ کرنے کی فرمائش کی ہے۔ یہ غزل میری سب سے زیادہ معروف و مقبول غزل ہے۔ تقریبا 30 سال قبل مرحوم ظفر خان نیازی نےمیری یہ غزل مظہر بیٹے کی آواز میں ریکارڈ کر کے ریڈیو پاکستان اسلام آباد پر چلائی تو فرمائشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ اس لییے بہت عرصہ تک یہ غزل ظفر خان نیازی کے ہفتہ وار پروگرام میں چلتی رہی۔ قارئین کی فرمائش پر غزل حاضر ہے۔۔۔۔۔

شام ہوئی پنچھی لوٹ آئے اس سے کہنا

ہم بیٹھے ہیں آس لگائے اس سے کہنا

پتوں پر شبنم کی چاپ سنی اٹھ بیٹھے

ہم نے یوں بھی دھوکے کھائے اس سے کہنا

ہم کو خبر ہے موسم گل کو جانا بھی ہے

جاکر ہم کو بھول نہ جائے اس سے کہنا

کہنا تیرے بعد وطن پردیس ہوا ہے

شہر وہی ہے لوگ پرائے اس سے کہنا

اس کے کہنے پر ہم نے تو صبر کیا ہے

اپنے دل کو بھی سمجھائے اس سے کہنا

دریا نے رخ بدلا تو اک گاوں اجڑا

مل نہ سکے پھر دو ہمسائے اس سے کہنا

۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منورعلی ملک۔۔۔22 اگست 2024

  میری پانچویں کتاب “تاریخ انگریزی ادب” جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ، انگریزی ادب کی تقریبا 9 سو سالہ تاریخ کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ کتاب پچھلے سال کتاب محل پبلشرز لاہور نے شائع کی۔ یہ کتاب میں نے کتاب محل پبلشرز کے بانی مرحوم سید سردار جاوید کی فرمائش پر لکھی۔

اس کتاب کی تکمیل میں تقریبا تین سال لگے۔ خاصا چیلنجنگ کام تھا۔ انگریزی ادب کی تاریخ کی بہت سی مستند کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑا۔

انگریزی ادب کی تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ بھی کسی زمانے میں اپنی ٹھرک ہوا کرتا تھا۔ کچھ کتابیں خود خریدی تھیں۔ کچھ کالج لائبریری کے فنڈ سے خرید لایا۔ اپنی کتاب کی تکمیل کے لیئے میں نے زیادہ تر Sir Ifor Evans ,

Cazamian and Legouis اور David Daiches کی

کتابوں سے استفادہ کیا۔ میں نے مصنفین کے بارے میں سنی سنائی باتیں کرنے کی بجائے صرف مستند معلومات ہی اپنی کتاب میں شامل کیں۔

یہ کتاب میری اہلیہ کی طویل علالت کے دوران مکمل ہوئی۔ اس کے آخری چند باب میں نے اہلیہ کے پاس بیٹھ کر لکھے۔ ادھر یہ کتاب مکمل ہوئی ادھر اہلیہ کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔۔ اس لیئے میری نظر میں یہ کتاب خاص اہمیت اختیار کر گئی اور میں نے کتاب کا انتساب اہلیہ کے نام کر دیا۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔23 اگست 2024

رب کریم نے کئی حوالوں سے عزت عطا کر رکھی ہے۔ خاندان کے حوالے سے دیکھیں تو تعلیم کے میدان میں میرے دادا جان ملک مبارک علی، بابا جی ملک محمد اکبر علی ، بڑے بھائی ملک محمد انورعلی، دونوں چھوٹے بھائی ملک محمد سرور علی اور ملک مظفر علی، ماموں ملک منظور حسین منظور، ماموں زاد ملک ممتاز حسین اور چچا ملک محمد صفدر علی کی خدمات علاقے کی تاریخ کا ایک تابناک باب ہیں۔

میرے دو بیٹے امجد علی ملک اور محمد اکرم علی ملک انگلش کے پروفیسر ہیں اور میرا بھتیجا رضوان علی ملک داودخیل سکول میں انگلش ٹیچر ہے۔

شعروسخن کے میدان میں میرے ماموں ملک منظور حسین منظور قادرالکلام شاعرتھے۔ ان کے صاحبزادے ممتاز حسین ملک بھی نظم کے بہت اچھے شاعر تھے ۔ مجھے شاعری کے حوالے سے جو عزت محبت اور شہرت ملی وہ تو آپ سب لوگ جانتے ہیں۔

انگریزی کی کتابوں کے حوالے سے بھی ایم اے کی سطح پر میرا نام اور کام ملک بھر میں معروف ہے۔

شہرت و مقبولیت کے یہ سب حوالے رب کریم کی بے پایاں عنایات ہیں۔ ان پر جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔ کمال میرا نہیں میرے رب کا ہے جس نے داودخیل جیسی دورافتادہ جگہ سے متوسط طبقے کے ایک بندے کو اتنی وسیع و عریض عزت و شہرت عطا کردی۔

الحمدللہ الکریم۔

آج کی پوسٹ کا مقصد صرف اپنے رب کریم کا شکر ادا کرنا تھا۔ ورنہ باتیں تو وہی لکھی ہیں جو سب لوگ پہلے ہی جانتے ہیں۔ دعا کریں کہ عنایات کا یہ سلسلہ جاری رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔ 24 اگست 2024

یہ موسم باجرے کا موسم کہلاتا تھا۔ اب تو باجرا پرندوں کی خوراک کے طور پر استعمال ہوتا ہے مگر ہمارے بچپن کے دور میں باجرا انسانوں کی بھی مرغوب غذا ہوتا تھا۔ باجرے کی روٹی کو پیاچہ کہتے تھے۔ یہ روٹی توے پر بنتی تھی۔ عام روٹی سے پیاچہ ذرا سا موٹا ہوتا تھا۔

پیاچہ، پتلی نمکین لسی اور گائے کا خالص دیسی گھی دوپہر کا بہترین کھانا سمجھا جاتا تھا۔

خالص گھی اور شکر والی پیاچے کی چوری بہت لذیذ چیز ہوتی تھی۔ یہ میرا پسندیدہ دوپہر کا کھانا ہوا کرتی تھی۔

ہمارے گھر کے سامنے سڑک تک ہماری دس کنال زمین میں چاچا بشیر احمد باجوہ ہر سال باجرا کاشت کرتے تھے۔ آدھی پیداوار ہمیں ملتی تھی جس پر ہم عیاشی کیا کرتے تھے۔

باجرے کے کچے سٹے توڑ کر بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر دائیں ہاتھ سے مروڑ کر باجرے کے کچے دانے کھانے کا ایک اپنا لطف تھا۔ ہماری اس حرکت پر چاچا بشیر احمد شور تو بہت مچاتے تھے مگر ہم کبھی اس حرکت سے باز نہ آئے۔

باجرے کا سٹا ہتھیلی پر مروڑ کر کچے دانے نکال کر کھانا پنجاب کا کلچر ہوا کرتا تھا۔ اس حوالے سے ایک لوک گیت بھی بہت مقبول تھا

باجرے دا سٹا اساں تلی تے مروڑیا

رٹھڑا جاندا ماہیا اساں گلی وچوں موڑیا

ماہیا بے شک جائے جہنم میں ، بچہ لوگوں کو تو باجرا کھانے سے غرض تھی ، اس لیئے ہم لوگ اس گیت کا صرف پہلا مصرعہ ہی گایا کرتے تھے۔

ہمارے گھر کے سامنے والی زمین میں اب عمارتیں بن گئی ہیں۔ وہ باجرے والی رونقیں اب کہاں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔ 25 اگست 2024

دانگی۔۔۔۔۔

دانگی وہ بھٹی ہوتی تھی جس پر لوگ چنا ، باجرا اور مکئی وغیرہ کے دانے بھنواتے تھے۔ ہمارے محلے میں چاچا مسن(غلام حسن) ماچھی کی بیوی ماسی مہراں دانگی پر دانے بھونتی تھی۔

ظہر کے بعد تازہ بھنے ہوئے گرما گرم چنے کھانا ہمارے داودخیل میں ایک مستقل رواج تھا۔ دوپہر ہی سے دانگی پر چنے بھنوانے والوں کی قطاریں لگ جاتی تھی۔ ماسی مہراں ہر گھر سے آئے ہوئے چنوں میں سے مٹھی بھر چنے معاوضہ لے کر باری باری سب کے چنے بھون دیتی تھی۔

چنے دو طرح سے بھونے جاتے تھے۔ چنے جب بھن جاتے تو مٹی کی بنی ہوئی ڈولی سے رگڑ کر ان کا چھلکا الگ کر لیا جاتا تھا۔ چھلکے کے بغیر بھونے ہوئے چنوں کو ڈالیاں کہتے تھے۔

چھلکے سمیت بھنے ہوئے چنوں کو روڑے کہتے تھے۔ ان پر ہلکا سا نمک بھی لگایا جاتا تھا۔ لوگ اپنی پسند کے مطابق روڑے یا ڈالیاں بھنوا لیتے تھے۔

یہ رواج پتہ نہیں کب اور کیسے قائم ہوا ، ہم نے تو ہوش سنبھالا تو یہ رواج برپا تھا۔۔۔ہم نے جوانی میں قدم رکھا تو یہ رواج مٹ چکا تھا۔ اس رواج کے کچھ نہ کچھ فائدے بھی ضرور ہوتے ہوں گے۔ مگر اب پوچھیں بھی تو کس سے کہ

گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ–۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔ 26 اگست 2024

پہارا۔۔۔۔۔۔۔

جب ڈیزل انجن سے چلنے والی گندم پیسنے کی مشینیں نہیں ہوتی تھیں اس دور میں ہاتھ سے چلنے والی چکیوں سے گندم پیسنے کا اجتماعی بندوبست پہارا کہلاتا تھا۔

ایک بڑے سائیز کے کمرے میں دس بارہ چکیاں لگی ہوتی تھیں۔ خواتین گھروں سے گندم لاکر ان چکیوں پر پیستی تھیں۔ پہارے کے مالکوں کے معاوضے کے طور پر ہر خاتون مٹھی بھر آٹا کمرے کے کونے میں رکھے ہوئے ٹین میں ڈال دیتی تھی۔

باہمی تعاون اور مل بیٹھنے کا یہ بندوبست بہت اچھا تھا۔ خواتین کو اپنے مسائل حل کرنے کے لیئے مشاورت کا موقع ملتا تھا۔

محلہ امیرے خیل میں چاچا صالح محمد کمہار کا پہارا اس دور کی آخری نشانی تھا۔ اس وقت تک داودخیل شہر میں دو ڈیزل انجن سے چلنے والی مشینیں بھی آ چکی تھیں، مگر اکثر خواتین پہارے پر گندم پیسنے کو ترجیح دیتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔  27 اگست 2024

یہ کالاباغ میں کیا ہو رہا ہے ؟؟

میں تو ان دنوں میانوالی سے باہر ہوں ۔ فیس بک پر اشاروں کنایوں میں کچھ دوستوں نے بتایا ہے کہ کل سے کالاباغ میں شیعہ سنی فسادات کی آگ بھڑک رہی ہے۔ فائرنگ سے ایک دو لوگ جاں بحق بھی ہو گئے۔ اس سے زیادہ تفصیلات کا مجھے علم نہیں کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا۔

کالاباغ تو پرامن علاقہ تھا۔ شیعہ سنی بھائیوں کی طرح مل جل کر رہ رہے تھے۔ پھر یہ آگ کس نے لگائی ؟

اس معاملے کی مکمل تحقیقات کر کے مجرموں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے۔

دونوں طرف کے علمائے کرام کو یہ آگ بجھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس قسم کے فرقہ وارانہ فسادات میں مرتے علماء اور ان کے بچے نہیں بلکہ لڑتے اور مرتے عوام اور ان کے بچے ہیں۔

ضلع میانوالی میں تو شیعہ سنی اتحاد صدیوں سے برقرار رہا ہے۔ عزاداری اور محافل میلاد میں دونوں فرقوں کے درمیان مثالی تعاون دیکھنے میں آتا رہا ہے۔

دونوں طرف کے علمائے کرام اور علاقے کی با اثر شخصیات مل کر اس آگ کو جلد از جلد بجھانے کی کوشش کریں۔۔۔ اللہ رحم کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 27 اگست 2024

پرسوں موسی خیل سے دو کتابیں ڈاک سے موصول ہوئیں۔ دونوں کتابوں پر الگ الگ تبصرہ کرنے سے پہلے موسی خیل کی ادبی تاریخ کا مختصر جائزہ قارئین کے لیئے دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔

ہمارے دوست مرحوم ڈاکٹر اجمل نیازی موسی خیل کو خطہء حیرت کہا کرتے تھے۔ موسی خیل کئی دوسرے حوالوں کے علاوہ ادب کے حوالے سے بھی واقعی خطہ ء حیرت ہی ہے۔

اردو ادب میں موسی خیل کی کارکردگی کی داستان مولانا کوثر نیازی سے شروع ہوتی ہے۔ مولانا کوثر نیازی موسی خیل کے ایک معزز خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کا اصل نام محمد حیات خان ، قلمی نام کوثر نیازی تھا ۔ مولانا کوثر نیازی سیاست اور ادب دونوں میدانوں کی اہم شخصیت تھے۔ سیاست میں وہ ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ بھٹو صاحب کی حکومت میں وفاقی وزیر بھی رہے۔

ان کی کتاب “اور لائین کٹ گئی” اس دور کی تاریخ کے بہت سے عبرت ناک راز منظرعام پر لاتی ہے۔

مولانا کوثر نیازی ایک بلند پایہ نثر نگار کے علاوہ بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ خاص طور پر نعت میں ان کا انداز بہت دلنشیں ہے۔ ان کی بخشش کے لیئے ان کی نعت کا یہ شعر ہی کافی ہوگا ، ان شآءاللہ۔

جتنا دیا سرکار نے مجھ کو اتنی مری اوقات نہیں

یہ تو کرم ہے ان کا وگرنہ مجھ میں تو ایسی بات نہیں

1963 /64 میں ہم سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور کے سٹوڈنٹ تھے۔ اس وقت مولانا کوثر نیازی ہفت روزہ اخبار “شہاب” کے ایڈیٹر تھے ۔ ان کا دفتر ہمارے کالج کے قریب ہی داتا دربار مارکیٹ میں واقع تھا۔ ایک دن ہم میانوالی کے چند نوجوان مولانا سے ملنے کے لیئے ان کے دفتر میں حاضر ہوئے۔ مولانا بہت تپاک سے ملے ۔ الیکشن قریب تھا جس میں مولانا سیالکوٹ سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ ہم نے کہا سر ، آپ سیالکوٹ کی بجائے اپنے آبائی حلقہ میانوالی سے الیکشن میں حصہ کیوں نہیں لیتے ؟

ہنس کر فرمایا نہیں بھائی، میانوالی میں بڑے نیازی صاحب (مولانا عبدالستار خان نیازی) الیکشن کے امیدوار ہیں۔ میں ان کے مقابلے میں آنے کی گستاخی نہیں کر سکتا۔

یہ بہت بڑی بات تھی کہ سخت نظریاتی مخالفت کے باوجود مولانا کوثر نیازی بزرگ سیاستدان مولانا عبدالستار خان نیازی کا اتنا احترام کرتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 28 اگست 2024

شاعر ،ادیب ، صحافی اور ٹی وی اینکر ڈاکٹر محمد اجمل نیازی 1982-83 تک گورنمنٹ کالج میانوالی میں ہمارے کولیگ رہے۔ روزانہ اپنے گھر موسی خیل سے بس پر میانوالی آیا کرتے تھے۔ پھر یہاں سے ان کا ٹرانسفر پہلے گورنمنٹ کالج سمندری ہوا پھر اپنے ذاتی اثر و رسوخ کی بنا پر گورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں وہ اجنبی نہ تھے کیونکہ انہوں نے بی اے اور ایم اے اردو وہیں سے کیا تھا۔ ان کے کئی اساتذہ کرام اس وقت کالج میں موجود تھے۔ بہت سے کالج فیلو اور کلاس فیلو اعلی عہدوں پر فائز تھے۔ میانوالی میں تو وہ صرف اردو کے پروفیسر تھے، لاہور پہنچ کر صحافی اور ٹی وی اینکر بھی بن گئے۔

قدرت نے انہیں بے حساب صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ جلد ہی لاہور کے ادبی حلقوں کی ایک نمایاں شخصیت بن گئے۔

ڈاکٹر اجمل نیازی بہت سادہ اور درویش مزاج انسان تھے۔ لاہور میں بھی انہوں نے میانوالی کا مخصوص لباس اور وضع قطع برقرار رکھی۔ شلوار قمیض واسکٹ اور پگڑی پہنتے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی ان کا لباس یہی رہا۔ زبان البتہ لاہور کی بولتے تھے۔

بہت زندہ دل ، مجلس باز انسان تھے۔ بڑا جان دار قہقہہ لگاتے تھے۔

گورنمنٹ کالج لاہور سے کچھ عرصہ بعد دیال سنگھ کالج لاہور ٹرانسفر ہو گیا۔ وہیں سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وحدت کالونی لاہور کے سرکاری کوارٹر میں مقیم رہے۔ وہیں داعی اجل کو لبیک کہہ کر اس دنیا سے رُخصت ہوگئے۔

بہت اچھے شاعر بھی تھے مگر نثر شاعری سے بھی خوبصورت لکھتے تھے۔ روزنامہ نوائے وقت میں ان کا کالم ” بے نیازیاں ” بہت مقبول تھا۔ ادب میں ڈاکٹر اجمل نیازی ملک بھر میں میانوالی کی پہچان تھے۔

ایک دفعہ میانوالی سے ایک دوست اپنی کتاب کا تعارف لکھوانے کے لیئے اجمل نیازی صاحب سے ملے تو ان سے کہا منور سے کہنا اگلی دفعہ لاہور آئے تو مجھ سے ضرور ملے۔ اس سے بہت سی باتیں کرنی ہیں ۔اس پیغام سے چند ہی دن بعد یہ دنیا چھوڑ کر عدم آباد جابسے۔ خدا جانے مجھ سے کون سی باتیں کرنی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منورعلی ملک۔۔۔۔۔۔

Saleem Ahsan

اجمل نیازی نے فیروز شاہ کے ساتھ مل کر۔ میانوالی کے شعرا ء کے کلام پر مشتمل جل تھل کے نام سے ایک کتاب مرتب کی تھی اور میانوالی کے شعراء کو ادبی حلقوں میں۔ متعارف۔ کرایا اور پھر اسے اضافے کے ساتھ دوبارہ مرتب کیا۔ اجمل نیازی نے میرا سرائیکی۔ شعری مجموعہ۔ چکھڑ جھولے۔ میں اپنی خوبصورت رائے کا اظہار لکھا تھا بلکہ کچھ ٹی وی سے متعلق دوستوں سے بھی لکھوایا تھا ۔۔۔ میانوالی میں اردو کے بڑے بڑے شعرا کو۔ مشاعرے کی دعوت دی گئ تھی۔ میانوالی کی ادبی تاریخ کا ایک بڑا مشاعرہ تھا جس کی صدارت اکیڈمی اف لیٹرز کے چیئرمین پریشان خٹک تھے میرے پاس پریشان خٹک کا ایک محبت بھرا خط بھی موجود ہے میں سب شرکاء کے لئے گھر میں دعوت کا اہتمام کیا تھا یہ ایک شکریہ کا خط تھا

اجمل نیازی کا میانوالی میں پکا ٹھکانہھ فیروزشاہ کا گھر تھا گھر میں ایک کمرہ بالخصوص اجمل نیازی کے لئے بنوایا تھا اجمل نیازی ۔۔وہ نام ہے جو ہمیشہ چمکا دمکتا رہے گا—

 29 اگست 2024

موسی خیل کے ظفر اقبال خان  نیازی بھی بہت اچھے شاعر تھے۔ ان کی شاعری روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے۔

ظفر اقبال خان نیازی سے میری پہلی ملاقات لالا عیسی خیلوی کے ہاں 1975-76 میں ہوئی۔ اس وقت ظفر اقبال خان گورنمنٹ ہائی سکول کمر مشانی میں ٹیچر تھے۔ کمر مشانی کے ڈاکٹر محمد امیر خان کے ساتھ کبھی کبھار لالا کے ہاں شریک محفل ہوا کرتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد کمر مشانی سے ٹرانسفر ہو کر موسی خیل چلے گئے۔ میں عیسی خیل سے میانوالی آگیا۔ میانوالی میں انجم جعفری صاحب کے ہاں مشاعروں میں ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ بہت اچھے شاعر کے علاوہ بہت پیارے انسان بھی تھے۔ میری معلومات کی حد تک ان کی زندگی میں ان کا کوئی مجموعہ کلام شائع نہ ہو سکا۔ اگر بعد میں شائع ہوا ہو تو میرے علم میں نہیں۔ موسی خیل کے لوگ بتا سکتے ہیں ۔

موسی خیل سے سعیدہ صبا نیازی صاحبہ کا مجموعہ کلام   ” وقت ملا تو سوچیں گے” کے عنوان سے آج سے چند سال پہلے شائع ہوا ۔ اس کا تعارف بھی میں نے لکھا تھا۔ بہت خوبصورت دل کو  چھو لینے والی شاعری ہے۔

نوجوان نسل میں سے اکرم زاہد نیازی جدید لہجے کے بہت اچھے شاعر ہیں۔ میانوالی کالج میں ہمارے سٹوڈنٹ رہے۔ آج کل سکندر آباد فیکٹری میں افسر ہیں۔ ان کے مجموعہ کلام کا انتظار ہے۔ امید ہے جلد شائع ہو جائے گا۔

ریٹائرڈ پولیس افسر شفقت نیازی کی نثری تحریروں کا مجموعہ ” بولتی حقیقتیں ” کے عنوان سے پچھلے سال شائع ہوا۔ اس کتاب کا تعارف بھی میں نے لکھا تھا۔ رواں دواں انداز میں لکھی ہوئی خاصی دلچسپ کتاب ہے۔

شفقت نیازی اور اکرم زاہد نیازی ، مولانا کوثر نیازی اور ڈاکٹر اجمل نیازی کے خاندان سے ہیں ، یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ

ایں خانہ ہمہ آفتاب است-۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔۔۔ منورعلی ملک ۔۔۔۔۔۔ 30 اگست 2024

Saleem Ahsan

شہید عشق ۔۔۔اردو شاعری کے مجموعہ کلام کے خالق محمد خان المتخلص۔ خار موسی’خیلوی کا آپ نے ذکر نہیں کیا یہ کتاب 1934 میں چھپی تھی میں نے فیس بک میں انکا تعارف کرایا تھا کتاب کے ٹائٹل کا عکس بھی تھا یہ میانوالی اور موسی’ خیل کے قدیم میں شامل ہی

Munawar Ali Malik

Saleem Ahsan

ظفر اقبال خان کے ذکر نے کئ خوشبوئیں بکھیر دیں بلا شبہ وہ خوبصورت شخص۔ اور خوبصورت۔ شخصیت کے مالک تھے ایک بار ہم ان کے پاس موسی’ خیل گئے تاریخ کے متلاشی پروفیسر ڈاکٹر ملک محمد اسلم میرے ساتھ تھے ظفر اقبال کے ہمراہ پہاڑی راستوں پر خوب گھومے بھرے موسی’ خیل تاریخی لحاظ سے بہت اہم علاقہ ہے کہتے ہیں لاکھوں سال دریائے سندھ کی گزر گاہ تھی پھر زمین کی گردش کے قانون غرب روی کے تحت آہستہ آہستہ پہلو بدلتا دریائے کرم ی کی گزر گاہ پر قابض ہو گیا ۔۔اس علاقہ میں غار میں رہنے والے انسان کے آثار موجود ہیں ایک بار مسٹر اور مسز کنیڈی کے نام سے ایک امریکہ جوڑا ایاتھا اور انہو۔ں نے تیز نوک والے شکار والے ہتھیار بھی ڈھونڈے تھے پہاڑی پر ایک قلعے کی روایت موجود ہے جہاں کوکلا رانی جوئے ۔ میں راجہ رسالو سے ہار گئ اور شرط پوری ہونے کے بعد اس سے شادی کرنا پڑی

یہاں سیلواں کے کھولے بھی موجود ہیں

سب سے اہم بات یہ ہے کاروانوں کی گزر گاہ تھی ککڑانوالا کے برساتی نالے کے راستے آنے والے دریا سندھ عبور کرنے کے بعد پہاڑ کے ساتھ دریائے جہلم کے کنارے جا پہنچتے

وہی کے قبرستان کے بارے بڑی اہم باتیں سڑک کے دائیں طرف حیران پکی قبریں موجود ہیں

بھلا ہو منور علی ملک کا کہ ظفر اقبال خان کے ساتھ ہوگئ اور تاریخ بھی دامن کشا ہو گئ شکریہ

Sami Bin Kreem

کیا زمانہ تھا ‘ سر ظفر صاحب میرے پاس آکر ‘ چپ چاپ ایک کونے میں خود کو سمیٹ کر بیٹھ جاتے ‘ سر کو سفید رمال سے اور آنکھوں کو کالے چشموں سے’ اور اپنے وجود کو کپڑوں سے میچ کرتی چادر سے اوڑھ کر ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھ جاتے تھے ‘ کافی دیر خاموشی سے سوچتے رہتے تھے’ پھر اچانک کہتے ‘ سمیع ! ایک سگریٹ لاؤ ‘

سگریٹ سلگاتے ‘

آدم بیزاری پر کچھ نہ کچھ کہتے پھر خاموش ہو جاتے ‘

ظفر صاحب ہر ہفتہ دوبار مجھے ضرور ملنے آتے ‘ خاموش آتے اور خاموش چلے جاتے تھے ‘ یوں لگتا تھا کہ وہ معاشرے پہ بہت سخت نالاں ہیں ‘

لیکن میرے ساتھ دل کی باتیں کرتے ‘ اور بہت خوب کرتے تھے ، وہ شاعر بھی تھے اور ادیب بھی بہت اچھے تھے ‘ پامسٹری کے بھی ماہر تھے، پتھر نگینوں کی اصلیت جاننے میں الگ صلاحیت کے مالک تھے ‘ چہرہ شناسی میں بھی کمال علم رکھتے ‘ انسانی ناک کو دیکھ کر بہت خوبصورت تجزیہ کرتے تھے ،

لیکن سر ظفر اپنی پچھلی عمر میں خاموش ایسے ہوئے کہ لوگ اس سے بات کرنے کو ترستے تھے ،

ان کی خاموشی معاشرے کے خلاف شدید احتجاج لگتی تھی ،

اب انہیں ڈھونڈ چراغ _ رخ_ زیبا لے کر

اللہ کریم سر ظفر صاحب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام دے

M Amaullah Khan Niazi

سر اج کل استاد ظفر اقبال نیازی کا مجموعہ کلام شائع ہو چکا ہے بلکہ دو دفعہ ہو چکا ہے۔اس کے علاوہ جناب ڈاکٹر محمد سخی خان نیازی کی دو خوبصورت کتابیں ا چکی ہیں ان کا تعلق بھی ڈاکٹر اجمل نیازی کے خاندان سے اور موسی خیل سے ہے۔اس کے علاوہ جناب بے چین فاروق ابادی وہ بھی موسی خیل سے ہیں ان کا بھی مجموعہ کلام ا چکا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ میری کتاب کالموں پہ مشتمل بھی ا چکی ہے

Tanveer Shahid Muhammad Zai

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی مرحوم لیہ کالج میں بھی زیر تعلیم رہے پروفیسر جعفر بلوچ مرحوم سے مختلف مباحث میں مقابلہ رہتا تھا اول دوم درجے ان دونوں مرحومین کے لئے وقف تھے کالج کے جریدہ تھل میں بھی یہی صورتحال رہی بعد ازاں لاہور میں ہونے والی ملاقاتوں میں لیہ سے متعلق یادیں شیئر کیا کرتے تھے محترمہ سعیدہ صبا نیازی کی کتاب کی تقریب رونمائی میں آپ کی دعوت پر مجھے بھی میانوالی حاضر ہونے کا موقع ملا تھا ،،،، کوثر نیازی مرحوم کے جریدہ شہاب میں کچھ عرصہ میرے استاد محترم پروفیسر محمد نواز صدیقی مرحوم بھی معاون مدیر رہے

Rasheed Ahmad

ظفر اقبال صاحب کا تعلق لقی خیل ( ل پر پیش) فیملی سے نہیں تھا۔ ان کی فیملی صوبیدار فیملی کے نام سے موسی خیل مین مشہور ھے( ان کے والد اولیا خان صاحب برٹش ارمی میں صوبیدار تھے۔ بہت وضعدار قسم کی شخصیت کے حامل تھے۔ ) یہ بھی پٹھان نیازی فیملی ھے۔

Shafqat Niazi

Rasheed Ahmad صوبیدار اولیا خان لقی خیل ہی تھے اور ہیں فوجی عہدہ یا کوئی اور عہدہ ذات نہیں ہوتی۔ ذات لقی خیل ہی ہے۔ ان کے ایک کزن سیف اللہ خان جو صوبیدار اولیا خان کے بڑے بھائی صوبیدار احمد خان کے بیٹے تھے کی شادی مولانا کوثر نیازی کی ہمشیرہ 


Rasheed Ahmad
 آپ التہ ہیں آپ بھی تو میرے بھی موسی خیل ہائی سکول1962-63 میں میرے شاگرد تھے جب میں وہاں ان ٹرینڈ انگلش ٹیچر تھا۔ بعد میں CT کی اور باقائدہ ٹیچر بنا اور 1966 میں Asiپولیس میں بھرتی ہو کر ترقی کرتے ہوئے DSP بن کر RTD ہو کر سرگودہا رہتا ہوں

Rasheed Ahmad

محترم ظفر اقبال صاحب ہائی اسکول موسی خیل مین ھمارے استاد تھے۔ وہ ھماری کلاس کو اسلامیات پڑھاتے تھے۔ ان کی ادبی محفل ھمارے استاد غلام سرور خان کے ساتھ جمتی تھی ( غلام سرور خان ‘ اجمل نیازی کے ماموں تھے اور اردو کے مایہ ناز استاد تھے )

ظفر اقبال صاحب کی غزلیں ھفت روزہ قندیل لاھور مین کبھی کبھی چھپتی تھیں۔( 1968- 69 میں)

قندیل مین شائع ھونے والی ان کی ایک نظم کے دو شعر مجھے یاد ھین:

یوں نظم کہن اڑنے کو پر تول رہا ھے

بے تاب ھو جس طرح کوئی تیر کماں میں

بڑھ جائے گی کچھ اور مری تلخ نوائی

زھراب انڈیلو گے اگر میرے دہاں میں۔

اللہم اغفرہ وارحمہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 Saleem Ahsan لالا سائیں خار موسی خیلوی کے بارے میں آپ کی پوسٹ میری نظر سے نہیں گذری ورنہ ان کا ذکر ضرور کرتا۔ اچھا ہوا آپ نے معلومات میں اضافہ کر دیا۔ سلامت رہیں

 31 اگست 2024

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top