میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے زبان مہمان۔۔۔۔۔۔
پرسوں صبح بچی نے کہا باباجی یہ دیکھیں۔۔
کچن کی کھڑکی سے باہر ناشتے سے بچے ہوئے بریڈ (ڈبل روٹی) کے چند ٹکڑے پڑے تھے، اور ایک کوا، ایک لالڑی (لالی) اور بلبل مزے سے ناشتہ کر رہے تھے۔ آپس میں کوئی رولا رپا کیئے بغیر تینوں اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔ تینوں بہت خوش نظر آتے تھے۔ ان سے زیادہ خوشی ہمیں محسوس ہوئی یہ دیکھ کر کہ رب کریم نے ہمیں ان بے زبان مہمانوں کے رزق کا وسیلہ بنا دیا۔ میں نے کہا ان معزز مہمانوں کے لیئے ناشتے کا بندوبست روزانہ ہونا چاھیئے۔
میانوالی اور داودخیل والے گھروں میں بھی ہم پرندوں کے لیئے کھانے پینے کا باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں۔ مٹی کی پلیٹوں میں باجرے کے دانے ، روٹی کے بچے کھچے ٹکڑے اور پانی کا ایک برتن چھت پر رکھ دیتے ہیں۔ دن بھر رونق لگی رہتی ہے۔ چڑیاں ، فاختائیں اور لالیاں آتی جاتی رہتی ہیں۔
مشکل کام نہیں، آپ بھی اپنے گھر میں یہ کار خیر کر دیا کریں۔ پرندوں کو کھاتے پیتے دیکھ کر آپ کو جو خوشی محسوس ہوگی، اس سے کہیں زیادہ خوشی آپ کے رب کو ہوگی، کیونکہ وہ اپنے ہاتھ سے تو رزق نہیں دیتا، وسیلے بنا دیتا ھے۔ اور اللہ کا مقرر کیا ہوا وسیلہ ہونا بہت بڑا اعزاز ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔١ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماسٹر ملک عبدالعزیز صاحب بھی ایسی ہی شخصیت تھے۔ شرافت ، شائستگی، زندہ دلی ان کے کردار کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ میرا ان سے تعارف اس وقت ہوا جب وہ سینیئر ورنیکلر ٹیچر کی حیثیت میں گورنمنٹ ہائی سکول داودخیل میں متعین ہوئے۔ میں اس وقت گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں لیکچرر تھا۔ ملک عبدالعزیز صاحب اپنی قابلیت اور اعلی کردار کے باعث ہیڈماسٹر صاحب، میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی، کے دست راست بن گئے۔ وہ اکثر بھائی جان کے ساتھ ہمارے ہاں آیا کرتے تھے۔ وہیں ان سے بہت سی یادگار ملاقاتیں ہوئیں ۔
کسے معلوم تھا کہ ان سے تعلق ایک دن ایک مستقل رشتے میں تبدیل ہو جائے گا۔ ان کی اکلوتی صاحبزادی پروفیسر طاھرہ عزیز میرے بیٹے پروفیسر محمد اکرم علی ملک کی مسز ہیں۔
ملک عبدالعزیز صاحب سٹوڈنٹس اور ٹیچرز میں یکساں مقبول تھے۔ کلاس ڈسپلن کے معاملے میں سخت گیر ، مگر سٹوڈنٹس سے عام برتاو میں بہت شفیق تھے۔ نادار سٹوڈنٹس کو مالی امداد بھی دیتے تھے ۔
قدرت کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ 6 اگست 1998 کو 42 سال کی عمر میں دنیائے علم کا یہ تابندہ ستارہ ایک حادثے میں تہ خاک غروب ہوگیا۔
خوش درخشید ولے شعلہء مستعجل بود
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
-
اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ھے مجھ پر کہ میں ماسٹر عبد العزیز کی بیٹی اور پروفیسر منور علی ملک کی بہو ھوں _ ابو جی نے حسب معمول اپنے نہایت ہی عمدہ انداز میں میرے والد کی شخصیت کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ۔ میرے والد ایک سخت گیر استاد ضرور تھے لیکن ایک نہایت ہی نرم دل ، نفیس اور محنتی انسان تھے ۔ میانوالی شہر کے کامیاب ترین اساتذہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ لوگ سفارش لے کر ہمارے گھر آتے تھے کہ انکے بچوں کو تھوڈا سا وقت دے دیں ۔ میں نے انکو کبھی چھٹی کرتے نہیں دیکھا تھا ۔ فرشتہ اجل نے انکو مہلت نہ دی اور وہ آہوں اور سسکیوں میں ہمیں چھوڑ کر اس دنیاے فانی سے رخصت ہو گئے ۔ لوگوں پر بن بتاے احسان کرنے والے نے خود ایک گولی tablet تک کا احسان نہیں لیا۔زندگی تیرے تسلسل میں ہم نےوہ لوگ بھی کھوئے جو سانس کی مانند تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔ ٢ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افواہ سازی اور افواہوں پر اندھا دھند یقین ہمارے معاشرے کا دلچسپ مشغلہ ہے۔
قیام پاکستان کے وقت پاک بھارت سرحد کے دونوں جانب جو فسادات ہوئے ان کے حوالے سے نت نئی افواہیں سننے میں آتی تھیں۔ دیہات میں نہ ریڈیو تھا نہ فون کی سہولت۔ اخبار کچھ لوگ ڈاک سے منگواتے تھے، مگر وہ بھی دوتین دن بعد پہنچتا تھا۔ تازہ ترین مصدقہ خبروں کا کوئی وسیلہ میسر نہ تھا۔
انہی دنوں ہمارے داودخیل میں اچانک یہ افواہ پھیل گئی کہ سکھ حملہ آور مار دھاڑ کرتے ہوئے داودخیل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ شام کا وقت تھا۔ شہر کے بزرگوں نے رات کے دوران شہر میں پہرہ دینے کے لیئے بندوق بردار جوانوں کی ڈیوٹیاں لگا دیں۔
آدھی رات کے قریب کسی نے شرارتا ہوائی فائر کردیا۔ لوگوں نے سمجھا سکھ حملہ آور پہنچ گئے۔ بس پھر شہر کے ہر کونے سے دھواں دھار فائرنگ شروع ہوگئ، جو صبح تک جاری رہی۔
صبح بزرگ ہماری چونک پر جمع ہوئے تو ہمارے دادا جی نے کہا یارو ، عقل کو ہاتھ مارو، مٹھی بھر سکھ بارہ بور بندوقوں کے ساتھ لاہور، سرگودہا، خوشاب، میانوالی فتح کر کے داودخیل کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ ؟ اور پھر ان کم بختوں نے داودخیل آکر لینا کیا ہے ؟
بات سو فیصد درست تھی۔ رات بھر فائرنگ، دہشت کا وہ سماں، وہ جذبہء جہاد ،نعرہ تکبیر کی صدائیں سب کچھ ایویں ای ہوتا رہا۔ یہ پتہ نہ چل سکا تیلی کس نے لگائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔٣ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم خیال بزرگوں کی اپنی اپنی بیٹھکیں ہوتی تھیں۔ بٹیر باز حضرات چاچا گھیبہ سنار کی دکان پر بیٹھتے تھے۔ غلام مصطفی خان خانے خیل، ماسٹر دراز خان اور بھائی محمد عظیم ہاشمی صاحب اس بیٹھک کے مستقل رکن تھے۔ خان چاچا نامی ایک بزرگ موچھ سے بھی یہاں آیا کرتے تھے۔ اس محفل میں اپنے اپنے بٹیروں کے کمالات بیان کیئے جاتے تھے۔ ہفتے میں ایک دن نہر کے کنارے بٹیروں کی لڑائی کی بازی ہوتی تھی جسے پڑی کہتے تھے۔ علاقے بھر کے بٹیر باز اس میں شریک ہوتے تھے۔
خرگوش کے شکاریوں کی محفل چاچا نور محمد موچی کی دکان پہ منعقد ہوتی تھی، چاچا شیر خان المعروف چاچا شیرا لمے خیل، غلام محمد خان المعروف غلاموں زبرو خیل، چاچا حاجی غلام رسول اور چند دوسرے بزرگ اس محفل کی زینت بنتے تھے۔ یہ سب بزرگ اپنے اپنے تازی کتے بھی ساتھ لایا کرتے تھے۔ ہفتے میں ایک دن یہ سب لوگ کچے کے علاقے میں خرگوش کے شکار کو جایا کرتے تھے اور پھر پورا ہفتہ اس شکار کی داستانیں چاچا نور محمد موچی کی بیٹھک پہ بیٹھ کر دہرایا کرتے تھے۔
ایک دفعہ شکار کے دوران عصر کی نماز کا وقت ہوگیا، چاچا غلام رسول نے نماز بھی ادا کرنی تھی، ادھر یہ ڈر بھی تھا کہ کتا کہیں بھاگ نہ جائے۔ مسئلے کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ کتے کو اپنی ٹانگ سے باندھ کر نماز ادا کر لی۔
اللہ بخشے بہت سادہ اور کھرے لوگ تھے سب کے سب ۔ اب اس دنیا میں ان میں سے کوئی بھی موجود نہیں۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
-
سر جی ہمارے علاقے ملا خیل (مکڑوال )میں بھی ایک شکاری ہے وہ خرگوش بٹیر اور شہد کی مکھیوں کا بہت مشہور شکاری ہے “وڈا چاچا” نام ہے وہ بٹیر اور خرگوش کو پاؤں کے نشانات سے جب کہ شہد کی مکھی کو اڑان سے دیکھ کر انکا شکار کرنا جانتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔٤ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضرورت کے وقت تعاون کی روایت ورتیوا کہلاتی تھی۔ پیسے کے علاوہ چیزوں کا ورتیوا بھی ہوتا تھا۔
خوشی اور غم کے مواقع پر ورتیوا فرض سمجھا جاتا تھا۔
کسی گھر میں بچے یا بچی کی شادی ہوتی تو بارات کے بیٹھنے کے لیئے آس پاس کے گھروں سے چارپائیاں مانگے بغیر مل جاتی تھیں۔ رات رہنے والے مہمانوں کے لیئے بستر بھی ہمسائے فراہم کر دیتے تھے۔ شادی کے دنوں میں ارد گرد کے گھروں والے اپنی گائے بھینسوں کا دودھ بھی مفت مہیا کر دیتے تھے۔ گھر میں زیادہ مہمانوں کو رکھنے کی گنجائش نہ ہوتی تو ہمسائے اور رشتہ دار ان مہمانوں کے لیئے اپنے ہاں قیام و طعام کا بندوبست کر دیتے تھے۔
کسی گھر کا کوئی فرد فوت ہو جاتا تو سوگ کے دو تین دنوں میں اس گھر کے لوگوں کو چولہا نہیں جلانا پڑتا تھا۔ ان کا کھانا ہمسائے مہیا کیا کرتے تھے۔
ورتیوے کی روایت مشکلیں آسان کر دیتی تھی۔ اسی روایت کے باعث بھائی چارے کا خوشگوار پر امن ماحول برقرار رہا۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
-
یہ رواج اب بھی کافی جگہوں پر ہے۔اور ہمارے ہاں اب بھی یہی رواج ہے۔ کہ کسی شادی یا غمی والے گھر پڑوسیوں سے چارپائیاں اور بستر پہنچائے جاتے ہیں۔اور غمی والے گھر تین دن چولہا نہیں جلتا۔تین دن کا خرچہ گاؤں میں کوئی بھی اپنے ذمے لے لیتا ہے۔اور تین دن بعد غمی والے گھر کی جتنی برادری ہوگی ان تین دن کا خرچہ اس برادری پر تقسیم کیا جائے گا۔فی گھر پر جتنا خرچہ آئے وہ اکٹھا کرکے اس کو دیا جائے گا جس نے تین دن کا خرچہ اپنے ذمے لیا تھا۔یہ موجودہ دور کی بات ہے۔اور آپ جس دور کی بات کررہے ہیں اُس وقت واقعی لوگوں میں بے مثال محبت ہوا کرتی تھی۔سچے اور کھرے لوگ ہوا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔٥ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلہن کے میکے کی طرف سے بارات کا کھانا بھی کٹوے کے سالن اور بھٹی کی دھراڑیوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ رواج یہ تھا کہ بارات کے کھانے کا خرچ یا سامان دولہا کے والدین مہیا کرتےتھے۔
کٹوا یا کٹوہ دراصل مٹی کی بنی ہوئی بڑے سائیز کی کٹوی (ہانڈی) کا نام تھا جس میں سالن بنتا تھا۔ عموما ہر شادی پر دس پندرہ کٹووں کا سالن بنتا تھا۔
عام طور پر کٹوے کا سالن گوشت فراہم کرنے والے قصاب ہی بناتے تھے۔ بڑے زبردست کاریگر لوگ تھے۔
کٹوے کا سالن آج بعض ہوٹلوں پر بھی بنتا ہے، لیکن جینوئین کٹوا اور چیز تھا۔ اس میں گوشت ہمیشہ گائے ، بیل یا بچھڑے کا ہوتا تھا، گھی بالکل نہیں ڈالا جاتا تھا۔ گھی کی بجائے سالن گوشت کی اپنی چکنائی سے بنتا تھا۔ ثابت دیسی مصالحہ اس سالن کو ایک مخصوص نہایت لذیذ ذائقہ دیتا تھا۔ مختصر یہ کہ کٹوے کے سالن کا ایک اپنا لُطف تھا جو وقت کی گرد تلے دب کر گم ہو گیا، کیونکہ بنانے والے ہاتھ ہی دنیا سے اٹھ گئے۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
-
اس خوبصورت تحریر اور دیگر وہ تحریریں جنہوں نے گزشتہ ادوار کی مسحور کن یاد دلائی۔ایک ہی بات ہے جس کو عمل میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔اوروہ یہ کہدنیا کے جدید ترین علوم حاصل کریں ۔ دنیا کا ہر میدان میں مقابلہ کریں اور آگے بڑھیں۔مگراپنی محبتوں بھری ثقافت میں زندہ رہیں۔ کھیل اپنے، کھانے اپنے، کہانیاں، داستانیں اور قصے اپنے، لباس اور تراش خراش اپنی ۔ جینے کا مزہ آجائے گا۔کوئی پہلا قدم تو اٹھائے۔ محبت ہمیشہ نفرت کے مقابلے میں جیتی ہے۔ کوئی کر کے تو دکھائے۔استادالاساتذہ پروفیسر منور علی ملک صاحب کی تحریروں کو صرف ذہنی لذت کے لیے ہی نہ پڑھا جائے۔بلکہان تحریروں کو سماج میں دوبارہ سے شروع کیا جائے۔ سماج محبتوں کے لیے تشنہ ہے۔ صرف اس تحریک کو تنظیم و عمل کا رنگ دینا ہوگا۔میانوالی جہاں پہ شکایت ہے کہ انسان قتل ہوتے ہیں وہیں پہ انتہائی محبت کرنے والی دھرتی بھی ہے۔ضلع بھر سے لوگوں کو دعوت فکر دیں ان کو منظم کریں۔ اور اپنی خوبصورت معاشرت اور سماج کو آگے بڑھانے کے لیے مختلف مقامات پر سیمینار کریں اور آئندہ اپنی دعوتیں اپنے لذیذ کھانوں سے کریں۔ہاںالبتہ ہمیں بلانا نہ بھولیں۔میانوالی شاد رہے آباد رہے۔ جُگ جُگ اور یُگ یُگ جیئے۔کٹوے کی بات ہی کچھ اور ھے جس کے پکانے کیلئے کسی خاص کاریگری کی ضرورت نہ ھے بس! ہر لوازمات پورے کرکے اسے آگ پہ چڑھا دیا جائے پاوڑوں ( پائے) کیطرح خود بخود ایسا مزیدار تیار ہو جاتا ھے کہ مزہ آ جائے گوشت کی مقدار، نمک مرچ پیاز و دیگر مصالحہ جات ایک ہی دفعہ ڈال کر گلنے کا انتظار کرنا پڑتا ھے جو صبر آزما کام ھے
-
واااہ واااہ سرجی واااہکیا کہنے ۔کٹوہ کا سالن نہایت لذیذ ھوتا تھا ۔مٹی کے کٹوے میں پکے سالن کی اپنی لذت ھوتی تھی ۔پھر یہ کہ مصالحہ جات بھی خالص دیسی ھوتے تھے ۔اور پکانے والے کاریگر بھی مہارت رکھتے تھے ۔اب بھی کئی علاقوں میں شاید یہی رواج ھو —۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔٦ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
-
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بٹیروں کا گوشت بڑے شوق سے کھایا جاتا تھا۔ آج کل تو برائلر چکن کی طرح فارمی بٹیر بھی آگئے ہیں، ہمارے ہاں صحتمند جنگلی بٹیروں کا تازہ لذیذ گوشت چلتا تھا۔ چاچا صالح محمد درکھان داودخیل میں بٹیروں کے نامور شکاری تھے۔ بٹیروں کو پھانسنے کے لیئے ایک خاص نسل کے بٹیروں کی ٹیم ہوتی تھی جسے لاوہ کہتے تھے۔ فجر کے وقت لاوے کی آواز پر جنگلی بٹیر آکر جال میں پھنس جاتےتھے۔ چاچا صالح محمد روزانہ تیس چالیس بٹیر پکڑ لاتے تھے۔ بٹیری ایک روپے کی آٹھ اور بٹیر ایک روپے کے چار ملتے تھے۔ بٹیر تو لڑکے لڑانے کے لیئے خریدتے تھے، کھانے کے لییے بٹیریاں لی جاتی تھیں۔ ویسے بھی وہ بٹیروں سے زیادہ صحتمند اور وزنی ہوتی تھیں۔
ایک دفعہ ایک لمبے قد کی خوبصورت بٹیری ہمارے ہاتھ لگی۔ کیا آفت تھی ۔ ! سلطان راہی کی ہیروئین انجمن کی طرح لڑائی جھگڑے کی ماہر۔ اس نے تو مار مار کر اچھے خاصے لڑاکا بٹیروں کے سر گنجے کر دیئے۔ یہ بٹیری ممتاز بھائی اور میں نے دو دو آنے ڈال کر چار آنے میں خرید لی۔ پورے محلے میں اس لڑاکا بٹیری کی دھاک بیٹھ گئی۔ اس نے اچھے خاصے جنگجو بٹیروں کو مار مار کر بھگا دیا۔ پھر ایک دن اچانک ایک معمولی سے بٹیرے کے ساتھ لڑتے ہوئے میدان سے بھاگ نکلی۔ پھر اس کا بھی وہی حشر ہوا جو بھاگنے والے بٹیروں کا ہوتا ہے۔ اسے فورا ذبح کردیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٧ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹی
ایک صاحب کہتے ہیں میں اپنے تین چار سال عمر کے بیٹے کے ساتھ گھر میں کرکٹ کھیل رہا تھا ، اور بچے کو خوش کرنے کے لیئے بار بار ہار رہا تھا۔ بچہ جیت کی خوشی میں بڑھکیں اور نعرے لگا رہا تھا۔ میری چار پانچ سال کی بیٹی باپ کی ہار برداشت نہ کر سکی۔ بھاگتی ہوئی آکر مجھ سے لپٹ گئی اور روتے ہوئے کہنے لگی ” ابو، آپ میرے ساتھ کرکٹ کھیلیں ۔ میں آپ کو ہارنے نہیں دوں گی”۔
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ماں کے بعد انسان کو سچا، بے لوث پیار بیٹی یا بہن ہی دے سکتی ہے۔
بیٹی کو باپ پر مان ہوتا ہے۔ بھکاری کی بیٹی بادشاہ کی ملکہ بھی بن جائے، ہمیشہ یہی کہے گی، میرے ابو جیسا تو دنیا میں کوئی ہے ہی نہیں۔
بیٹیوں کی قدر کریں، بیٹی سے زیادہ آپ کا خیر خواہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا—–٨ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بزرگ بتایا کرتے تھے کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ڈی سی ( ڈپٹی کمشنر ) کی ماہوار تنخواہ 150 روپے ہوتی تھی ۔ پرائمری سکول کے ٹیچر کی تنخواہ 16 روپے تھی۔ اتنی کم تنخواہوں میں بھی لوگ اچھی خاصی با عزت زندگی گذار لیتے تھے۔
ہمارے ہاں پیسوں کے پیمانے پائی، پیسہ، ٹکہ، آنہ، دوانی، چوانی، اٹھنی ، اور ایک روپیہ کے سکے ہوتے تھے۔ ایک روپے میں 16 آنے ہوتے تھے۔ اسی حوالے سے لوگ کہتے تھے یہ بات پورے 16 آنے یعنی 100 فی صد درست ہے۔
سکے تانبا پیتل اور ایلومینیم کے بنے ہوئے ہوتے تھے۔
صدر ایوب کے دور میں ہمارے ہاں اعشاری نظام decimal system رائج ہوا ، جس کے تحت ایک روپیہ 100 پیسے کا ہوگیا، پائی ، پیسہ، ٹکہ ، آنہ وغیرہ کی جگہ دس پیسے، 25 پیسے اور 50 پیسے کے سکے آگئے۔ اب تو وہ بھی غائب ہوگئے۔ ان کی مالیت اتنی کم ہو گئی کہ ان سے کچھ خریدا ہی نہیں جا سکتا۔ بلکہ اب تو ایک روپیہ ، دو روپے اور پانچ روپے کے نوٹ یا سکے بھی کہیں نظر نہیں آتے۔ ایک روپے کا یتیم مسکین ننھا سا سکہ دیکھ کر رونے کو جی چاہتا ہے۔ کہاں وہ دور کہ ایک روپیہ روزانہ ایک اوسط درجے کے گھر کا مکمل خرچ ہوتا تھا۔ دس روپے کا بد رنگ ، بدشکل نوٹ چل رہا ہے، جو صرف مانگنے والوں کو دیا جا سکتا ھے۔
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
1948 کا چاندی والا روپیہ آجکل کے ڈالر سے ذیادہ قیمتی تھا۔
یہ چاندی کا روپیہ میری پیدائش کے سال 1948 میں جاری ہوا۔ اسکو ہم چاندی کا روپیہ بولتے تھے۔ اور اس میں خالص چاندی بھی شامل تھی۔ یہ روپیہ 1955 میں عید پر مل جائے تو عید کی خوشی دوبالا ہوتی تھی۔ اس روپے میں اس وقت کے لیاقت باغ راولپنڈی میں ہونے والے میلے میں عید مناتے تھے۔ سرکس میں موت کا کنواں دیکھنے کے لیے ایک ٹکے میں ٹکٹ لیتے تھے۔ اس روپے کا چینج بہت آسانی سے مل جاتا تھا۔
اس روپے کے چینج میں ایک پیسہ۔ ایک ٹکہ۔ ایک آنا۔ دوانی ۔ چوانی۔ اور آٹھنی۔ ہوتی تھی۔
موت کے کنویں میں موٹر سائیکل کے کرتب دیکھ کر جو خوشی ملتی تھی اجکل وہ خوشی نا پید ہے۔ کچھ جھولے بھی ہوتے تھے جو آدمی چلاتے تھے۔ مشینی دور نہیں تھا۔
آجکل مشینی جھولے ہیں۔ لیکن وہ جھولا جس کو ہم پنگھوڑا کہتے تھے اس کا اپنا ہی مزہ تھا۔
سرکس میں چھوٹا سا چڑیا گھر بھی ہوتا تھا جس میں شیر ۔ریچھ ۔ بندر اور کبھی کبھی ہاتھی بھی دیکھنے کو مل جاتا تھا۔
ایک عورت جس کا سر عورت کا اور دھڑ شیر کا ہوتا تھا۔ یہ سب ٹرک تھی۔ مداری بھی ہوتے تھے۔ سانپ اور نیولے کی لڑائی بھی دیکھتے تھے۔ ریچھ اور بندر کے کرتب ہمیں بہت اچھے لگتے تھے۔
اس روپے میں ایک ٹکے کے چنا چاٹ اور اور ایک ٹکے کی قلفی بھی کھا لیتے تھے۔ ۔
اس روپے میں بہت برکت تھی۔ اس کا چینج بھی مل جاتا تھا۔ عید کا دن بہت خوشی سے گزرتا تھا۔ ایک موری والا پیسہ بھی بڑا قیمتی ہوتا تھا۔ ایک 1955 کا پیسہ جس میں دوست کہتے تھے اس میں سونا ہے۔ اس کو ہم ریت مل کر خوب چمکاتے تھے۔
اچھے دن تھے اور ہم بچوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں تھیں۔
اب یہ روپیہ ناپید ہو چکا ہے۔
اگر کسی کے پاس 1948 والا چاندی کا روپیہ ہو تو میں سو روپے میں خرید لوں گا۔ اگر کوئی دس چاندی کے سکے لائے گا تو ایک ہزار دوں گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ چاندی کا روپیہ 1948 کا ہونا چاہیے۔ ۔
عید کا بے مثال تحفہ تھا۔
اب اگر پوتوں کو ہزار روپیہ فی پوتا دیں تو پھر بھی اتنا خوش نہیں ہوتے جتنا ہم اس چاندی کے ایک روپے میں خوش ہوتے تھے۔
ہمارا زمانہ چلا گیا اور ہم رہ گئے۔ –۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔٩ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احتساب کی درخواست کے جواب میں شکوہ شکایت کی بجائے ڈھیر ساری دعائیں موصول ہوئیں۔ اللہ کریم آپ سب کو بے حساب جزائے خیر عطا فرمائے۔
کچھ دوستوں نے فرمائشیں بھی کیں۔ زیادہ تر فرمائشیں مقامی شعرائے کرام (یونس خان، مجبورعیسی خیلوی، عتیل عیسی خیلوی، فاروق روکھڑی، ملک آڈھا خان، ملک سونا خان بے وس، محمد محمود ہاشمی اور لالا عیسی خیلوی کے چند دوسرے گیت نگاروں) کے بارے میں لکھنے کی تھیں۔
عرض یہ ہے کہ ان تمام شخصیات کے بارے میں گذشتہ چند سال میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں ۔ دوبارہ لکھنے کے لییے موقع محل دیکھنا پڑے گا۔ ان شعراء کی سالگرہ یا جو حضرات اس دنیا میں موجود نہیں ان کی برسی کے موقع پر لکھنا مناسب ہوگا۔ سالگرہوں اور برسیوں کا ریکارڈ فی الحال تو میری دسترس میں نہیں۔ کوشش کروں گا۔
سب سے اہم فرمائش کمر مشانی سے محمد ساجد خان کی ہے۔ ساجد خان حلقہ ادب کمر مشانی کے بانی ہیں۔ نوجوان نسل کو ادب کے مطالعہ کی ترغیب دینے کے لیئے ساجدخان اور ان کے نوجوان ساتھی بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ان کی فرمائش یہ ہے کہ اردو اور انگریزی ادب کے اہم مصنفین اور کتابوں کے بارے میں لکھ کر نوجوان نسل میں ادب کے مطالعہ کا ذوق پیدا کیا جائے۔
بہت اچھی فرمائش ھے۔ ادب کا مطالعہ دل کو نرم کرتا ہے، اچھی روایات کو زندہ رکھنے کی ترغیب دیتا ہے، اعلی کردار کی صفات سے روشناس کراتا ہے اور بہتر زندگی بسر کرنا سکھاتا ہے۔
اللہ کے فضل سے میرے لیئے اردو اور انگریزی ادب کے بارے میں لکھنا مشکل بھی نہیں کیونکہ میں نے تو ساری زندگی ادب پڑھنے پڑھانے میں صرف کی ہے۔
پوسٹس لکھنے کا میرا بنیادی مقصد بھی آپ کے علم میں اضافہ کرنا اور ذہنی تربیت کرنا ہے۔ اس لیئے ان شآءاللہ کل سے ساجد بیٹے کی فرمائش کی تکمیل کا آغاز کروں گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔١١ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس دور میں ہم نے ہوش سنبھالا وہ ترقی پسند ادب کے عروج کا دور تھا۔ شاعری میں فیض احمد فیض، ظہیر کاشمیری، ساحر لدھیانوی اور احمد ندیم قاسمی منظر نامے پر چھائے ہوئے تھے، افسانہ نگاری میں پریم چند ، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، ترقی پسند ادب کے نمایاں قلم کار تھے۔
ان کے علاوہ کئی نوجوان شاعر اور ادیب بھی اسی دور میں ادب کے میدان میں وارد ہوئے۔
ترقی پسند تحریک روس میں شروع ہوئی، یہ ایک نیم سیاسی تحریک تھی۔ اس تحریک سے متاثر ہوکر 1935 میں بر صغیر میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی گئی ۔۔۔ادب میں حقیقت نگاری ، مظلوم اور استحصال زدہ مزدوروں کی حمایت، جاگیرداری اور سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد اس تحریک کے بنیادی نظریات تھے۔ اس حوالے سے نظم و نثر کی شاندار تخلیقات اس دور میں منظر عام پر آئیں۔ ان تحریروں نے لوگوں کو استحصالی نظام سے بغاوت کی ترغیب دی۔
ترقی پسند تحریک کے بعض نظریات سے اختلاف کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس تحریک نے لوگوں کو آزادی کی راہ دکھائی۔
ترقی پسند مصنفین نے قیام پاکستان کے وقت سرحد کے دونوں جانب ہونے والی قتل و غارت پر بھی بہت کچھ لکھا۔ اس دور کی بہت سی رلا دینے والی شاعری اور افسانے آج بھی بہت مقبول ہیں۔
ارتقاء کا عمل مسلسل چلتا رہتا ہے، تبدیلی قانون فطرت ہے، اسی قانون کے تحت ترقی پسند تحریک بھی 1960 تک رفتہ رفتہ ختم ہو گئی۔
20 ویں صدی کے اردو ادب کی نمایاں شخصیات اور تحریروں کا تذکرہ ابھی کچھ دن چلے گا۔ کل فیض احمد فیض کا تعارف ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔١٢ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غالب اور اقبال کے بعد فیض احمد فیض کو اردو کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔
فیض 13 فروری 1911 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ خوش نصیب تھے کہ عربی اور فارسی کی تعلیم علامہ اقبال کے مشہور و معروف استاد سید میر حسن سے حاصل کرنے کا موقع ملا۔
گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کرنے کے بعد ایم اے انگلش کے لییے پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہا تو کچھ پیسے کم پڑگئے۔ جتنے پیسے پاس تھے ان سے ایم اے عربی میں داخلہ مل سکتا تھا۔ فارغ بیٹھنے کی بجائے ایم اے عربی میں داخلہ لے لیا۔ ایم اے عربی کرنے کے بعد ایم اے انگلش بھی کر لیا۔
کچھ عرصہ ہیلی کالج آف کامرس اور ایم اے او کالج امرتسر میں انگلش کے لیکچرر رہے، پھر فوج میں لیفٹننٹ کی حیثیت میں بھرتی ہوگئے۔ ترقی کرتے ہوئے کرنل کے منصب تک پہنچے تو راولپنڈی سازش کیس میں قید کی سزا ہوئی۔ ان کی شاعری کا مجموعہ “زنداں نامہ” اسی دور کی تخلیق ہے۔
قید کا 4 سال کا دور فیض کی زندگی کا سخت مشکل دور تھا۔ عید کے موقع پر اہلیہ کے نام خط میں لکھا کہ عید پر تمہیں اور تو کچھ نہیں دے سکتا، اپنی ایک غزل بھیج رہا ہوں۔ کسی رسالے کو دے دینا، اس کے جو پیسے ملیں گے امید ہے ان سے تمہاری قمیض کا کپڑا بن جائے گا۔ اس دور کی فیض کی ایک نظم کے چند شعر ملاحظہ کیجیئے۔
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں،
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے،
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے،
نظر جھکا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے،
اسی نظم میں آگے چل کر کہا ۔۔۔۔۔
بجھا جو روزن زنداں تو دل نے یہ سمجھا،
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
فیض شاعر انقلاب تھے ۔ ان کی ایک انقلابی نظم کے یہ الفاظ دیکھئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ھے،
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے،
کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت ،
چلتے ہی چلو کہ اب ڈیرے منزل پہ ہی ڈالے جائیں گے
فیض غم دوراں کے علاوہ غم جاناں کے بھی باکمال شاعر تھے۔ ان کی ایک غزل کے یہ دو اشعار دیکھیں۔۔۔۔
تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے
عمر جاوید کی دعا کرتے
فیض اتنے وہ کب ہمارے تھے
انسان دوستی اور حقیقت نگاری فیض کی شاعری کی سب سے اہم خصوصیات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔١٣ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے ساحر کا فین ممتاز بھائی ( میرے کزن ممتاز حسین ملک ) نے بنا دیا۔ انہیں ساحر کے بے شمار شعر یاد تھے۔ ہر شعر چاقو کی طرح دل میں اتر جاتا تھا۔ ممتاز بھائی ہی نے مجھے ساحر کی شاعری کا پہلا مجموعہ “تلخیاں” لا کر دیا۔ “پرچھائیاں” اور گاتا جائے بنجارا” میں بعد میں کہیں اور سے لے آیا۔
ساحر کا اصل نام عبدالحئی تھا، قلمی نام ساحر لدھیانوی۔۔۔۔ وہ 1921 میں بھارت کے شہر لدھیانہ کے ایک رئیس کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کے عیاش والد کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ساحر کی والدہ ننھے ساحر کو لے کر میکے گھر چلی گئی۔ ساحر کی پرورش ننھیال کے ہاں بہت تنگدستی میں ہوئی۔
ایک صحافی سے انٹرویو میں ساحر نے کہا مجھے دنیا میں صرف ایک انسان سے سچا پیار اور ایک انسان سے شدید نفرت ہے۔ پیار اپنی ماں سے ہے اور نفرت اپنے باپ سے۔
ساحر ترقی پسند شاعر تھا۔ اس نے معاشرے میں ہر قسم کے ظلم اور استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ تاج محل کے عنوان سے نظم میں کہتے ہیں۔
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے،
بزم شاہی میں غریبوں کا گذر کیا معنی،
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ،
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
لاہور میں نور جہاں کے مزار پر گئے تو اپنی ساتھی سے کہا۔۔۔۔۔۔
تو مری جان مجھے حیرت و حسرت سے نہ دیکھ،
ہم میں کوئی بھی جہاں نور و جہانگیر نہیں،
تو مجھے چھوڑ کے ٹھکرا کے بھی جا سکتی ہے،
تیرے ہاتھوں میں مرے ہاتھ ہیں زنجیر نہیں
یاد رہے کہ شہنشاہ جہانگیر نے نورجہاں کے پہلے شوہر کو قتل کرا کے نور جہاں سے شادی کی تھی۔
1943 میں ساحر لاھور آگئے۔ صرف 22 سال کی عمر میں ساحر ادب میں ایسا بلند مقام حاصل کر چکے تھے کہ “ادب لطیف” اور “سویرا” جیسے بلند پایہ ادبی رسالوں کے ایڈیٹر مقرر ہوئے ۔ چند سال بعد سیاسی اختلافات کی وجہ سے لاہور چھوڑ کے ممبئی جا بسے۔
ممبئی میں ساحر نے فلمی گیت نگار کی حیثیت میں بہت جلد اپنا لوہا منوا لیا۔ ان کے لکھے ہوئے گیت آج بھی معروف و مقبول ہیں، مثلا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیئے
۔۔۔۔۔۔۔ میں پل دو پل کا شاعر ہوں
۔۔۔۔۔۔۔ جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
۔۔۔۔۔۔۔۔ مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں
ساحر کے ایسے ہی بے شمار گیت لوگ آج بھی بڑے شوق سے سنتے ہیں۔
ساحر زندگی میں بھی دنیا سے روٹھا ہی رہا اور بالآخر 1980 میں ہمیشہ کے لیئے دنیا سے منہ موڑ کر 59 برس کی عمر میں سرحد حیات کے پار جابسا۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
أپ کی تحریر میں جو تاثیر ھے وہ سماعتوں میں ھوا کی نغمگی بھر دیتی ھے————–
ساحر کی زندگی پر لکھے کئ کالم مضامین اور کتابیں پڑھیں مگر أپ کے تخیلات ساحر روح میں اتر گئے ——-
میری حسرت ھے کہ جب دنیا سے میرا خمیر اٹھ جائے مجھ پر بھی ایک مضمون لکھیے گا تاکہ میں زندہ و جاوید رھوں
مرشدی ۔۔۔زندگی ۔۔۔ھمیشہ ھوں أپ —
أپ کی تحریر میں جو تاثیر ھے وہ سماعتوں میں ھوا کی نغمگی بھر دیتی ھے————–
ساحر کی زندگی پر لکھے کئ کالم مضامین اور کتابیں پڑھیں مگر أپ کے تخیلات ساحر روح میں اتر گئے ——-
میری حسرت ھے کہ جب دنیا سے میرا خمیر اٹھ جائے مجھ پر بھی ایک مضمون لکھیے گا تاکہ میں زندہ و جاوید رھوں
مرشدی ۔۔۔زندگی ۔۔۔ھمیشہ ھوں أپ —
Najaf Ali Shah شاہ جی
اللہ کریم آپ کو سلامت رکھیں۔
پروفیسر صاحب کی تحریر الفاظ کا رعب و دبدبہ نہیں۔ گفتگو کو تحریر کا رنگ دیا گیا ہے۔ اسی لیے دل کو بھا جاتی ہے۔
عیسیٰ خیلوی کی گائیکی کی طرح جو روایتی سا رے گا ما پا کی بندھنوں سے آزاد۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی بہت ہی اداس اور غمگین انسان صحرا سے گزر رہا ہو اور اپنے دکھوں اور غموں کو دل کی گہرائیوں سے گا دے۔
یہی وجہ ہے کہ ستر اور اسی کی دہائیوں کی دکھی اور غمزدہ عورت نے عیسیٰ خیلوی کو سب سے زیادہ سنا۔ کمروں کے دروازے بند کر کے رو رو کے سنا۔ یہ کہنا بھی ہرگز مبالغہ نہیں ہوگا کہ نماز اور قرآن کی تلاوت کرنے والی نیک بخت عورتوں نے سنا۔
اور وہ وقت بھی آیا کہ عیسیٰ خیلوی سارے نامور سا رے گا ما پا والوں پہ چھا گیا۔
ایک بات بڑی مزے کی ہے۔ پروفیسر صاحب سے تصدیق کر لیں۔ عیسیٰ خیل کی فضاء بھی شاعر، گائیک ، افسانہ نگار بنا دیتی ہے۔ اور عقل وخرد اور انسان اور انسانیت سے محبتوں کے در کھول دیتی ہے۔
ایک سوال
علم الاعداد کی الف ب کیا ہے؟
ضرور محبت کیجیے گا۔
السلام علیکم
Sir. I am not in close contact wit you for the last few days due to sad demise of my mother in law at Dkl.
اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن
I remained at sweet Daud khel for a few days.
Now I am back to Rawalpindi.
Talking about your post for Sahir Ludhianvi, he was, no doubt a great poet. His songs will remain alive for next maney decades.
The way you wrote about him is highly impressive. I am feeling as if I have physically met Sahir (late). What a style of writing brief biograohy of this great poet….
Whenever I get time, I read all your posts including those I missed. I am honestly telling you that I feel as if I am watching a movie while reading the script. This is your GOD gifted quality and I have similar feelings about all your posts.
In 1962/63 you were my english teacher. If I am not miscalculating, you were in early twenties (may be 21/22). At that time, I was about 12/13. Being very young, I could not imagine that my young, slim and smart english teacher is going to be recongnised like a shining star at International level. Pround of you sir.
As I once said, I would like to repeat today that I still feel at the age of 74, that I am always sitting in your class in that corner room, (demolished maney years ago).
May you live long Sir. You are undoubtedly embassador of Pakistan at Global level.
Please also check my message on whatsap.
Deep regsrdsMuhammad Waseem Sabtain
وااااہ۔۔۔۔۔۔سرجی ۔۔۔وااااہ
کیا کہنے
خوبصورت تحریر ۔
ساحر لدھیانوی کے تعارف کے ساتھ ھی ان کا یہ شعر ۔۔۔
ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لیکر
ہم۔غریبوں کی محبت کا اڑایا بے مذاق
اور
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزم شاہی میں غریبوں کا گذر کیا معنی !!!
یہ دونوں اشعار لالہ جی نے تسلیم فاضلی کی غزل “” ان کا ہی تصور ھے محفل ھو یا تنہائی ” میں پڑھے ہیں ۔
آج آپ کی تحریر سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ اشعار ساحر کے لکھے ہیں ۔
ساحر واقعی اپنے اسلوب میں منفرد شاعر تھے ۔
لالہ جی نے ساحر لدھیانوی کی 3 غزلیں گائی ہیں ۔
جیسے ۔۔
1. عہدِ گُم گشتہ کی تصویر دکھاتی کیوں ہو ۔
2.جب کبھی اُن کی توجہ میں کمی پائی گئی ۔
3.اُسے ڈھونڈنے میں ہم۔نے ھے جہاں کی خاک چھانی”
ساحر بلاشبہ اردو ادب کا بڑ نام ھے ۔اللہ۔پاک غریقِ رحمت کرے ۔آمین
ساحر لدھیانوی جتنا انقلابی اس سے کہیں زیادہ رومانوی شاعر تھا رومانویت میں زمانے سے ناراضگی کا عنصر ھی اسے شہرت کی بلندیوں تک لے گیا
شعر
چند کلیاں نشاط کی چن کر
مدتوں محو یاس رہتا ھوں
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی
تجھ سے مل کر اداس رہتا ھوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔١٤ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد ندیم قاسمی 1916 میں وادی سون (ضلع خوشاب) کے گاوں انگہ کی ایک معزز اعوان فیملی میں پیدا ہوئے۔ ان کے بزرگ علاقے میں پیر مانے جاتے تھے ۔ اس لییے احمد ندیم قاسمی بھی پیرزادہ احمد شاہ کہلاتے تھے ۔ بعد میں احمد شاہ نے پیرزادہ کا لقب ترک کرکے اپنا قلمی نام احمد ندیم قاسمی رکھ لیا۔
ندیم صاحب نے میٹرک اور ایف اے اٹک سے کیا اور بی اے بہاولپور سے پاس کرنے کے بعد اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لییے لاہور کو اپنا مسکن بنا لیا۔
نقوش، ادب لطیف اور سویرا جیسے بلند پایہ ادبی رسائل کے ایڈیٹر رہے۔ بہت عرصہ امروز نامی اخبار کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ندیم صاحب صرف شاعر اور ادیب ہی نہیں ایک کامیاب صحافی اور نقاد بھی تھے۔ 50 سے زائد کتابیں اور اپنا جاری کردہ سہ ماہی ادبی جریدہ “فنون” ادب کی تاریخ کی جھولی میں ڈال کر 10 جولائی 2006 کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے۔
ندیم صاحب نے بہت عرصہ مجلس ترقی ادب کے سربراہ کی حیثیت میں بھی قابل قدر خدمات سرانجام دیں ۔ امجد اسلام امجد اور عطا الحق قاسمی جیسے نامور اہل قلم کو بھی ندیم صاحب نے قلم پکڑنا سکھایا۔
خاندانی پیری مریدی سے تو ندیم صاحب نے جان چھڑا لی تھی، مگر ان کے ادبی شاگردوں اور عقیدت مندوں نے ان کے در کو آستانہ عالیہ بنا لیا۔ ان عقیدت مندوں نے پہلے ندیم کو فیض سے بڑا شاعر کہہ کر فیض اور ندیم کے درمیان رنجش پیدا کی۔ پھر سرگودھا کے ڈاکٹر وزیر آغا گروپ سے پنگا لے کر ندیم صاحب کو متنازعہ بنا دیا۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کا اپنا تو کچھ نہیں جاتا شاہ کی منجی ٹھوک دیتے ہیں۔
دیہاتی معاشرت کی خوبصورت منظر کشی اور واقعہ نگاری ندیم کے افسانوں کا طرہ امتیاز ھے۔
شاعری میں بھی ندیم صاحب کا اپنا الگ رنگ ہے۔ غزل کا یہ شعر دیکھیئے
میں کھل کے رو نہ سکا جب تو یہ غزل کہہ لی،
بچھڑ کے مجھ سے مگر تو نے کیا کیا ہو گا
اپنی انسان دوستی کو ندیم صاحب وسیلہ نجات سمجھتے تھے۔ ان کا یہ قطعہ دیکھیں۔۔۔۔۔
داور حشر مجھے تیری قسم
عمر بھر میں نے عبادت کی ہے
تو مرا نامہ اعمال تو دیکھ
میں نے انساں سے محبت کی ہے
۔۔۔۔۔ نعت کا یہ بے مثال انداز ملاحظہ کیجیئے۔۔۔۔۔
کچھ نہیں مانگتا لوگوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقش کف پا تیرا،
پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ہے تیرا کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
لوگ کہتے ہیں کہ سایا ترے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایا تیرا
ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصی تیرا
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
-
بہت خوب صورت تحریر سرجی !!کون کہتا جے کہ موت آئی تو مرجاؤنگا ۔میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤنگا ۔بلاشبہ احمد ندیم قاسمی اردو ادب کا بڑا نام ھے ۔شاعری اور افسانہ نگاری میں ان کا اپنا,الگ انداز ھے۔80 اور 90 کی دہائی میں اکثر پی ٹی وی ڈرامے اور ان کے ٹائٹل گیت بھی احمد ندیم قاسمی کے لکھے ھوۓ تھے ۔قاسمی صاحب کے بارے میں سنا ھے کہ وہ صحافی بھی تھے اور انہوں نے اخبارات میں مختلف موضوعات پہ آرٹیکلزز بھی تحریر کیےتھے ۔وطن کی محبت میں قاسمی صاحب کا یہ ملی نغمہ بہت مقبول و معروف ھوا ۔خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اُترےوہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہویہاں جو پُھول کھلےوہ کھلا رہےصدیوںیہاں خزاں کو گزرنےکی بھی مجال نہ ہوخدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لئےحیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو..لالہ عیسیٰ خیلوی نے بھی قاسمی صاحب کا ایک ملی نغمہ پی ٹی وی پہ گایا ھا ۔یارب میرے وطن کو اک ایسی بہار دےجو سارے ایشیاء کی فضاء کو نکھار دے ۔لالہ جی کے فینز کے نام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔١٥ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
ادب کے مطالعہ کا شوق میرے بابا جی کی عطا ہے۔ بابا جی ایجوکیشن آفیسر تھے۔ جب میں تیسری کلاس میں پہنچا تو انہوں نے بچوں کے دو ماہانہ رسالے “تعلیم و تربیت ” اور “ھدایت” میرے لیئے جاری کروا دیئے۔ ان رسالوں میں ہر ماہ بچوں کے لیئے خوبصورت کہانیاں، نظمیں، لطیفے، کارٹون اور پکچرز شائع ہوتی تھیں۔ میرزا ادیب اور صوفی تبسم جیسے نام ور اہل قلم بھی ان رسالوں کے لییے کہانیاں اور نظمیں لکھا کرتے تھے۔ یوں ان رسالوں نے مجھے ادب کے مطالعے کی راہ پر ڈال دیا۔
میرے بڑے بھائی ملک محمد انور علی کو کالج میں تعلیم کے دوران ادب کے مطالعہ کا شوق بلکہ جنون لاحق ہوا۔ وہ اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ کتابوں اور رسالوں پر خرچ کیا کرتے تھے۔ اردو کےبہترین ناول اور افسانوں کے مجموعے ان کی ذاتی لائبریری کی زینت بنے۔ اس کے علاوہ اس دور کے تمام ادبی رسالوں ، نقوش، ادب لطیف، سویرا، فنون، اوراق، انڈیا سے شائع ہونے والا مشہور و معروف ادبی جریدہ بیسویں صدی، اور ہفت روزہ رسالے لیل و نہار ، شورش کاشمیری کا رسالہ چٹان ، میاں محمد شفیع المعروف م، ش کا رسالہ اقدام وغیرہ کے بھی بھائی جان باقاعدہ خریدار تھے۔ میں نے ان سے زیادہ مطالعہ کا شوقین کوئی نہیں دیکھا ۔
بھائی جان کا اپنا شوق اپنی جگہ، مجھے ان کتابوں رسالوں کو ہاتھ لگانے کی بھی اجازت نہ تھی۔ بھائی جان کہتے تھے ، اور ٹھیک ہی کہتے تھے کہ تم ابھی بچے ہو صرف اپنے کورس کی کتابیں پڑھا کرو۔ مگر مجھے چونکہ مطالعے کی ٹھرک سمجھیں لاحق ہو چکی تھی اس لیئے میں چوری چھپے بھائی جان کی کتابوں والی الماری سے کتابیں اور رسالے نکال کر پڑھتا رہا ۔ کئی دفعہ چوری پکڑی بھی گئی، مار بھی پڑی، مگر میں پھر بھی باز نہ آیا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے افسانوں کا جو پہلا مجموعہ پڑھا وہ احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کا مجموعہ آنچل تھا ۔ اس وقت میں چھٹی کلاس… Class Six میں پڑھتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔١٦ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ساتویں کلاس میں پہنچا تو بابا جی مجھے اپنے ساتھ عیسی خیل لے گئے ۔ بابا جی اس وقت گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خیل کے ہیڈماسٹر تھے۔
سکول کی ہر کلاس میں ایک الماری پر مشتمل کلاس روم لائبریری ہوا کرتی تھی جس میں کلاس کے لیول کے مطابق کہانیوں کی کتابیں دستیاب تھیں۔ اردو کی کتابوں کے علاوہ انگلش کی کچھ کتابیں بھی تھیں۔ کلاس کے ٹیچر انچارج پڑھنے کا شوق رکھنے والے ہر سٹوڈنٹ کو ایک کتاب ایک ہفتے کے لییے دیا کرتے تھے۔ ہفتہ بعد وہ کتاب واپس کر کے دوسری کتاب لی جا سکتی تھی۔ یہ سہولت انگریزوں کے دور حکومت میں ہر گورنمنٹ ہائی سکول میں دستیاب تھی۔
میں نے اس سہولت سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
ایک دفعہ بابا جی نے کہا بیٹا لائبریری سے اردو کے علاوہ انگلش کی کتابیں بھی لے کر پڑھا کرو۔ اس کا بھی بہت فائدہ ہو گا۔
بابا جی کے حکم کی تعمیل میں میں انگلش کی کتابیں بھی پڑھنے لگا۔۔
بابا جی بھی کیا عظیم انسان تھے۔ تیسری کلاس میں مجھے اردو ادب کے مطالعے کی راہ پر ڈال دیا، ساتویں کلاس میں انگریزی ادب سے روشناس کرا دیا۔ اور پھر آنے والے دنوں میں اردو اور انگریزی ادب ہی میرے لیئے عزت اور شہرت کا وسیلہ بن گئے۔ انگریزی ادب کی تدریس تو میرا ذریعہ معاش بھی بن گئی۔
اللہ کا خاص فضل شامل حال رہا۔ میں میانوالی میں بیٹھ کر 13 سال انگریزی اخبارات میں کالم نگاری کرتا رہا۔ ایم اے انگلش کے کورس سے متعلقہ درجن بھر کتابیں بھی لکھ دیں۔ اردو کی پانچ کتابیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ سات سال سے فیس بک پر اردو انداز تحریر کی داد بھی مل رہی ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ تمام تر عزت و شہرت میرے بابا جی کی رہنمائی کا ثمر ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔17 جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں کا دن، باپ کا دن، استاد کا دن ، ویسے تو مغربی معاشرے کی رسم ہے، لیکن ضروری نہیں مغربی معاشرے کی ہر رسم بری ہو، اگر اس رسم پر عمل کرتے ہوئے ہم سال میں ایک دن اپنے والدین یا اساتذہ کو خراج عقیدت پیش کریں، اگر وہ اللہ کے فضل سے زندہ و سلامت ہیں تو انہیں سلام کریں، ان کے پاوں دبائیں، ان کی پسند کی کوئی چیز انہیں گفٹ کے طور پہ پیش کریں، اور اگر وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو انہیں مناسب طریقے سے ایصال ثواب کریں، ان کی طرف سے صدقہ خیرات کردیں تو اس میں غیر شرعی بات کون سی ہے ؟ ۔۔۔۔ یہ رسم تو ایک یاد دہانی ہے۔
اس رسم کے مطابق آج باپ کا دن ہے۔
فیس بک پر اکثر لوگ برسی کے موقع پر بہت محبت اور عقیدت سے اپنے اپنے والد کو یاد کرتے رہتے ہیں۔
کاش یہ محبت اور عقیدت تب یاد آتی جب والد اس دنیا میں موجود تھے۔۔۔یہی محبت اور عقیدت اگر والد کو زندگی میں مل جاتی تو وہ اس دنیا میں کچھ دن اور رہ لیتے۔
باپ وہ شجر سایہ دار ہے جو خود دھوپ میں جلتے ہوئے اپنی اولاد کو سایہ فراہم کرتا ہے۔ خود بھوکا رہ کر اولاد کو کھانا مہیا کرتا ہے۔ وہ اپنی قربانیاں اولاد کو بتاتا بھی نہیں۔
باپ کا مقام تو اتنا بلند ہے کہ رب کریم نے اپنا کام (رزق اور تحفظ فراہم کرنا) باپ کے ذمے کردیا۔ دوسرے لفظوں میں باپ زمین پر خدا کا نمائندہ ھے۔
سید الانبیا صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ باپ کی دعا بیٹے کے حق میں خالی نہیں جاتی۔
کوئی بھی مشکل درپیش ہو والد سے شیئر کیجییئے۔ ان کی دعا سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ضروری نہیں کہ والد ولی اللہ ہو، اولاد کے لیئے والد کی دعا ولی اللہ کی دعا سے کم نہیں ہوتی ۔
ایک شخص نے ایک ولی اللہ سے کہا حضور میں بہت پریشان ہوں۔ میرے لییے دعا کر دیں۔ بزرگ نے پوچھا کیا تمہارا باپ زندہ ہے؟ اس نے کہا جی ہاں۔ بزرگ نے فرمایا پھر میرے پاس کیا لینے آئے ہو ؟ تمہارا ولی تو گھر میں بیٹھا ہے، جاو اس سے دعا کراو۔
یہ بھی سنا کہ اگر والد اس دنیا میں موجود نہیں تو ان کی قبر پہ جاکر اپنا مسئلہ شیئر کریں اور ان سے دعا کی درخواست کریں۔ یہ عمل خالی نہیں جائے گا۔
بہت کچھ لکھنا چاھتا تھا، مگر اس وقت جذباتی کیفیت کچھ ایسی ہے کہ مزید نہیں لکھ سکتا ۔ جو کچھ لکھ دیا اسی کو کافی سمجھ لیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔
١٨ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانوی میڈیا کی خبر یہ ہے کہ کشتی میں 400 سے زائد پاکستانی تھے۔ ان میں سے صرف12 زندہ بچے۔
جو پاکستانی مسافر اس سانحے میں جاں بحق ہوئے رب کریم ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
کل تک اطلاعات یہ تھیں کہ 750 مسافروں میں سے صرف 104 زندہ و سلامت بچے، اور 79 لاشیں برآمد ہوئیں جو ناقابل شناخت ہیں۔
کشتی جہاں ڈوبی وہاں سمندر کی گہرائی 5 کلو میٹر ہے۔ اللہ جانے ڈوبنے والوں کا کیا حشر ہوا ہوگا۔
ایک افسوسناک اطلاع یہ بھی ہے کہ پاکستانیوں کو کشتی کے سب سے نچلے حصے میں جبرا رکھا گیا جہاں ڈوبنے سے بچ جانے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ ان بدنصیب مسافروں کو کشتی کے اوپر والے حصے میں آنے کی اجازت نہ تھی۔
بچ جانے والے مسافروں نے بتایا کہ حادثے سے پہلے ہی 6 آدمی پینے کا پانی نہ مل سکنے کی وجہ سے مرگئے تھے۔ 3 دن پہلے کشتی کا انجن بھی فیل ہو گیا تھا۔
ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ درست اعداد و شمار منظر عام پر آنے میں کچھ وقت لگے گا۔
اس المناک سانحہ کے بہت سے اسباب ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں کو انسانی سمگلرز نے 23 سے 25 لاکھ روپے فی کس لے کر غیر قانونی طور پر لیبیا بھیجا تھا، جہاں سے وہ رزق کی تلاش میں اٹلی جا رہے تھے۔ ان سمگلرز کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔
ملک کی معیشت ہمیشہ اشرافیہ کے ہاتھوں میں یرغمال رہی ہے۔ متوسط اور غریب طبقے کے لوگ بے روزگاری سے تنگ آکر کسی نہ کسی طرح بیرون ملک جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ایک روزہ سوگ منانے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایسے واقعات کا مکمل سد باب کیا جائے۔ لوگوں کو اپنے گھر ہی میں روزگار فراہم کیا جائے تاکہ لوگ بیرون ملک جانے پر مجبور نہ ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔١٩ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا زمانہ تھا۔ 1950-1960 کے دور کی بات ہے۔ میانوالی میں شرر صہبائی ، انجم جعفری، سالار نیازی ، سلیمان اختر، تاج محمد تاج ، میاں نعیم اور چند نوجوان شعراء اردو ادب کے فروغ کے لیئے شب و روز کوشاں تھے۔ مہینے میں دوبار جناب انجم جعفری کے ہاں سٹی سٹریٹ میں شعری نشست منعقد ہوتی تھی۔ موسی خیل کے جواں فکر شاعر ظفراقبال خان نیازی اور گلزار بخاری صاحب بھی اس محفل کے رکن تھے۔۔۔بزرگ شاعر جناب سوز زیدی اور جناب نظام ہاشمی ویسے تو گوشہ نشین تھے، مگر شررصاحب اور انجم بھائی کے اصرار پر وہ بھی کبھی کبھار ان محفلوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔
اہل قلم کا یہ گروپ روایت کا نمائندہ تھا۔ زیادہ تر شعرا نظم کے شاعر تھے۔۔۔ میں، گلزار بخاری اور ظفر نیازی خالص غزل کے شاعر تھے۔
دوسری طرف بزرگ شاعر اور افسانہ نگار سید نصیر شاہ اپنی ذات میں ایک الگ انجمن تھے۔ انہوں نے کوئی تنظیم تو نہ بنائی لیکن ان کے ہونہار شاگردوں، محمد فیروز شاہ ، فاروق روکھڑی اور منصور آفاق نے قومی سطح پر ادب میں نمایاں مقام حاصل کیا۔
اسی دور میں سید انوار ظہوری صاحب لاہور سے میانوالی منتقل ہوئے تو روایت کے علمبرداروں نے اپنے گروپ کی قیادت ان کے سپرد کردی۔ بہت گھن گرج والے بلند آہنگ شعر کہتے تھے۔ تمام شعراء نے انہیں اپنا استاد محترم مان لیا۔ نوجوان شعراء نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔
شرر صاحب اور انجم بھائی نے میانوالی میں قومی سطح کے کئی مشاعرے بھی منعقد کیئے جن میں جناب احسان دانش، امجد اسلام امجد اور عطاءالحق قاسمی بھی زینت محفل ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منورعلی ملک۔۔۔۔۔۔پکچر۔۔۔۔۔ سید انجم جعفری
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
-
بہت عنایت استاد محترم !آپ نے بڑی محبت کے ساتھ اپنے دیرینہ رفیق اور ھمارے والد مرحوم کا تذکرہ کیا۔یہ احترام دوطرفہ بلکہ سہ طرفہ ھے۔ابوجی کے سامنے بہت جب بھی آپ کا تذکرہ آتا،وہ بھی محبت کے ساتھ آپ کا ذکر کرتے۔سہ طرفہ میں نے اس لئے لکھا کہ مجھے آپ کے ساتھ براہ راست شرف تلمذ حاصل ھے۔سچی بات تو یہ ھے کہ زندگی کے اگلے مراحل میں انگریزی زبان وادب کا جو بھی ذوق مجھے حاصل رھا ،وہ آپ اور سرورنیازی صاحب کی تدریس،شفقت اور رہنمائی ہی کا مرھون منت ھے۔اللہ تعالی آپ کا سایہ ھم سب پر سلامت رکھے۔ھم جہاں کہیں بھی ھوں،میانوالی اور میانوالی کے خوبصورت لوگوں کو کبھی فراموش نہ کر پائیں گے۔
-
پیارے استاد محترم ۔ کیا سنہرا دور یاد کرادیا، میں اس وقت ماڑی انڈس کے اسکول میں تیسری چوتھی کلاس کا طالبعلم تھا، انجم جعفری صاحب کو میں اس وقت شاید اسکول کا ہیڈ ماسٹر سمجھتا تھا، جو کبھی کبھار آتے، سمارٹ اور خوبصورت شخص ، بہت ایکٹیو، اسکول میں جلسہ ہوتا، تو ہم تین دوست ان کی نظمیں پڑھا کرتے، ظفراللہ ،شہاب الدین اور میں جو اسی اسکول میں دعا اور قومی ترانہ بھی روزانہ اسمبلی میں پڑھتے، ہمیں استاد صفدر صاحب مرحوم جعفری صاحب کی نظموں کے سر بتاتے، ’’حسین ابن علی گلگوں قبا کے پھول کھلتے ہیں‘‘ کچھ اس طرح کی نظم یادداشت میں محفوظ ہے۔مجھے یاد ہے ایک بار اسکول میں جلسہ تھا، اور شرر صہبائی صاحب مہمان خصوصی تھے، ہمارے بچپن کے دوست موسی جو اب برگیڈئیر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں، انہوں نے تقریر کی، تو صاحب صدر کو مخاطب کرکے کہا، محترم صدر جناب ’’شریر صہبائی‘‘ صاحب، تو اساتذہ کے دبے دبے قہقہے بلند ہوگئے۔ صہبائی کو لفظ بھی انہوں نے بدلا تھا، جو میں یہاں لکھ نہیں سکتا۔ بہر حال بہت شاندار اور معصوم دور تھا، نہ صرف طالبعلم بلکہ اساتذہ بھی معصوم تھے۔ماشاءاللہ ماشاءاللہ ۔ انجم جعفری صاحب 1983 میں مرکز کالا باغ کے اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر تھے تب داؤد خیل مرکز نہیں بنا تھا اور گورنمنٹ مڈل سکول گلن خیل بھی مرکز کالا باغ میں شامل تھا میں نے فسٹ جائیننگ جعفری صاحب کو پیش کی اور 84 مڈل امتحانات میں بھی ان کے ساتھ رہا
-
انجم جعفری صاحب ماڑی انڈس کے سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے نوجوان شعراء کی حوصلہ افزائی کرتے ایک دفعہ میانوالی سے بس میں سوار ہؤا جعفری صاحب بھی موجود تھے جنہیں میں نہیں جانتا تھا کسی کا شعر پڑھا تو انہوں نے داد دیتے ہوئے پوچھا کہ کس کا ھے میں اپنا کہہ دیا جبکہ انہیں معلوم تھا کہ کس کا ھے لیکن نہیں جتوایا اور داد دے دی بعد میں جب معلوم ہوا کہ جعفری صاحب ہیں تو بڑی شرمندگی ہوئی جب بھی سامنا ہوتا میں زچ ہو جاتا مگر انہوں نے کبھی میری ڈھٹائی کا تذکرہ نہیں کیا بہت بردبار شخصیت تھی اللّٰہ تعالٰی مغفرت فرمائے آمین
-
ماشاءاللہمیانوالی ہمیشہ سے مردم خیز خطہ رہا ہے۔شعر وسخن کے حوالے سے میانوالی کی تاریخ کئی رنگینیوں سے بھرپور ہے۔1950 اور 1960 کی دہائی سے قبل اور بعد میں بھی شعری روایت برقرار نظر آتی ہے۔تاریخ کی کتابوں 1910 کے لگ بھگ کے ہمارےشعرا کے میانی لہجے کے مرثیوں کے نمونے بھی ملتے ہیں۔ میانوالی کے میانی لہجے کا لوک ادب بھی کافی قدیم اور خوبصورت ہے۔پھر کالج دور میں ان کے بیٹے وقاص انجم جعفری کا دور دیکھا، منحنی سا لڑکا، ذرا سا شرمیلا، لیکن ایکٹو اور تنظیمی لحاظ سے جابکدست، ایک بار میانوالی اسٹیشن پر اسی تنظیم کے کچھ اکابرین آرہے تھے، جب وہ ٹرین سے اترے، تو اس منحنی لڑکے نے جس زور سے نعرہ بازی کرائی ، میں آج تک حیران ہوں کہ وہ آواز کہاں سے لے کر آیا تھا، بعد میں کالج میں ان کی تقاریر اور گفتگو کا قرینہ و سلیقہ دیکھ کر رشک محسوس ہوتا، ہر کالج فیلو سے ایسے ملتے جیسے صرف اسی کے واقف ہیں، اب ماشاء اللہ بڑا سفر طے کررہے ہیں۔۔ اپنے والد کے درست جانشین ثابت ہورہے ہیں۔٢٠ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
-
-
-
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی فتح خان سالار میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی کے قریب ترین دوست تھے۔ بھائی انور انہیں اپنا پانچواں بھائی شمار کرتے تھے۔ ان کی دوستی کا آغاز اس وقت ہوا جب یہ دونوں گورنمنٹ ہائی سکول بھاگٹانوالہ ضلع سرگودہا میں میٹرک کے سٹوڈنٹ تھے۔ بھاگٹانوالہ میں میرے ماموں ملک منظور حسین منظور ہیڈ ماسٹر تھے۔ داودخیل میں ابھی ہائی سکول نہیں بنا تھا اس لیئے میٹرک کے سٹوڈنٹس کو داودخیل سے باہر جانا پڑتا تھا۔
بھائی فتح خان قبیلہ سالار کے نیکوخیل خاندان کے منفرد فرد تھے۔ محکمہ نہر میں اکاؤنٹنٹ رہے۔ لمبی لمبی رشتوں کے لئے مشہور محکمہ نہر میں اہم منصب پر فائز رہ کر بھی بھائی فتح خان نے کبھی ایک پیسہ بھی رشوت نہ لی۔ ایسے صاف ستھرے بےداغ کردار والے انسان اب بہت کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ مستحکم کردار کی وجہ سے افسر اور خاندان کے بزرگ بھی بھائی فتح خان کا احترام کرتے تھے۔ بہت بارعب شخصیت تھے۔
داودخیل کے بہت سے لوگوں کو بھائی فتح خان نے محکمہ نہر میں ملازمت دلوا کر برسرروزگار بنا دیا۔
گرمی کی چھٹیوں میں ہمارے خاندان کے نوجوان جناح بیراج پر پکنک منایا کرتے تھے۔ اس موقع پر بھائی فتح خان دریا کے کنارے کینال ریسٹ ہاؤس میں ہمارے کھانے پینے کا بندوبست کیا کرتے تھے۔
جب تک بھائی انور اس دنیا میں موجود رہے بھائی فتح خان اتوار کا دن بلاناغہ ہماری چونک پر گذارتے رہے۔
بھائی جان کے رخصت ہونے کے بعد بھائی فتح خان کا دل بھی بجھ سا گیا۔ کچھ عرصہ بعد شدید بیمار پڑگئے۔ میں عیادت کے لیے گیا تو بہت دیر تک بھائی انور کو یاد کر کے روتے رہے۔ میں نے کہا بھائی صاحب اللہ کریم آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائے۔ آہ بھر کر کہنے لگے ” بس اب واپسی کا سفر ہے منور، میری اگلی منزلوں کے لیئے دعا کرتے رہنا”
یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔ خدا حافظ کہتے ہوئے ہم دونوں کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
-
سر جی ! اخوت یا بھاری چارہ یا ھماری ثقافت میں پگ وٹی ‘ کسی دوسرے قبیلے کے ادمی کو بھائی بنانا۔۔۔۔۔۔۔یہ سب سیرت مصطفیٰ صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کے اسوہ کاملہ کی سنت ہے لیکن اج کل تو سکےبھائیوں کو بھی کوئی بھائی نہیں سمجھتا !خوش رہیں سر سلامت رہیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔٢١ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھلے وقتوں میں ماوں کا میزائیل ، جو کبھی نشانے پر نہیں لگتا تھا کیونکہ نشانہ بھاگ کر میزائیل کی زد سے باہر نکل جاتا تھا۔
٢٢ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکی کوسٹ گارڈ نے اعلان کیا ہے کہ اتوار کو لاپتہ ہونے والی آبدوز کشتی میں سوار پانچوں افرادہلاک ہو گئے۔ ان پانچ افراد میں ایک ارب پتی پاکستانی تاجر اور ان کا جواں سال بیٹا بھی شامل تھے۔ 15 کروڑ روپیہ کرایہ دے کر یہ بدنصیب باپ بیٹا 111 سال پہلے غرق ہونے والے بحری جہاز ٹائی ٹینک کا ملبہ سمندر میں 12000 فٹ کی گہرائی پر پڑا ہوا دیکھنے کے لیئے گئے تھے۔ صرف ایک غرق شدہ جہاز کا 111 سال پرانا ملبہ دیکھنے کا شوق بہت عجیب لگتا ہے۔ مگر پیسے کی بات ہے۔ ایسے فضول شوق پر بھی انسان 15 کروڑ روپیہ خرچ کر دیتا ہے۔
ڈوبے ہوئے جہاز کا ملبہ تو ان لوگوں کو ملا یا نہیں، موت مل گئی۔ اب تو پتہ نہیں ان کی لاشیں بھی سمندر سے نکالی جا سکتی ہیں یا نہیں۔۔۔۔۔
15 کروڑ روپے سے کم ازکم 15 بے روزگار نوجوانوں کو باعزت روزگار فراہم کیا جا سکتا ہے ، مگر اللہ معاف کرے ہماری ترجیح زندہ انسانوں کو دیکھنے کی بجائے 111 سال پہلے ڈوبے ہوئے لوگوں کی بوسیدہ ہڈیاں دیکھنا ہے۔
بہر حال دعا ہے کہ ان باپ بیٹے نے جو فلاحی کام کیئے ان کی بنا پر رب کریم ان کی مغفرت فرما کر ان کی اگلی منزلیں آسان فرمادے۔
ایسے مہنگے شوق پالنے والوں کے لییے اس واقعے میں بہت گہرا سبق ہے۔۔۔۔ واللہ اعلم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔٢٣ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما کی یہ چھوٹی سی دکان چائے کی دکان تھی، جس میں ماما کے سامنے چولہے کی دوسری طرف رکھی ہوئی دو پیڑھیوں پر بیٹھ کر صرف دو گاہک چائے پی سکتے تھے۔ کوئلوں کی آگ پر چینک ( چائے دانی) میں بنی ہوئی ماما کی چائے کا ایک اپنا ہی مزا تھا۔ دکان میں بیٹھ کر چائے پینے والے گاہک تو صرف اکا دکا جان پہچان والے لوگ ہوتے تھے ، ماما کی اصل آمدنی ادھر ادھر کے دکانداروں کے لییے بھیجی ہوئی چائے سے ہوتی تھی۔ ارد گرد کے سب دکان دار صرف ماما کی بنائی ہوئی چائے منگواتے تھے۔بازار میں ہوٹل بھی تھے، مگر ماما جیسی چائے پورے بازار میں کوئی نہیں بنا سکتا تھا۔
ماما مظفر سے میرا تعارف میرے مہربان دوست راجہ کرم اللہ پراچہ نے کرایا تھا۔ پراچہ صاحب گورنمنٹ ہائی سکول کالاباغ کے ہیڈماسٹر تھے۔ میں جب بھی کالاباغ جاتا وہ ماما مظفر کی دکان کی چائے اور محمد امین کی دکان کے مشہور و معروف حلوے سے میری خاطر تواضع کیا کرتے تھے۔ یہ سب کھانا پینا ماما مظفر کی دکان میں پیڑھیوں پر بیٹھ کر ہوتا تھا۔
کرم اللہ صاحب بتاتے تھے کہ ماما مظفر صبح سویرے بستر سے اٹھتے ہی دریا میں چھلانگ لگا کر نہانے کا شوق پورا کرتے ہیں ۔ ان کا یہ معمول بچپن سے چل رہاتھا۔ دسمبر جنوری کی شدید سردی اور بارش میں بھی وہ دریا میں نہانے کا ناغہ نہیں کرتے تھے۔
اب نہ ماما مکھی اس دنیا میں ہیں نہ کرم اللہ پراچہ۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
کالاباغ کی گلیوں میں، بازاروں میں پہاڑوں میں لوگوں میں پکوانوں میں عجب سا رومان جُڑا ہے۔ ان سے متعلق کوئی بھی بات چھڑتی ہے دیو مالائی کہانیوں سی کشش ظاہر ہوتی ہے۔
اللہ تعالی سر اکرم پراچہ اور ماما مظفر خان کی مغفرت فرمائے اور آپ کو صحت بھری ایمان بھری سلامتی بھری توانائی بھری لمبی زندگی عطاء فرمائے آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔٢٤ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجابی میں لفظ “ماما” گالی سمجھا جاتا ہے، لیکن ہماری زبان میں یہ لفظ ماموں کا متبادل ہے ۔ بزرگ بتایا کرتے تھے کہ بہت پرانے دور میں ماموں کو ماما کے علاوہ ماولا بھی کہتے تھے۔۔۔۔ آج کل شہروں میں پرورش پانے والے بچے ماں کو ماما کہتے ہیں۔
نانکے رشتوں میں نانا، نانی کے علاوہ ماما، ماسی (خالہ) مسیر یا مسات(خالہ زاد) ملویر یا مولیر (ماموں زاد) شامل ہیں۔
ہمارے ہاں کہتے ہیں نانے حال یا نانکے رشتہ دار دادےحال رشتہ داروں سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔
اب تو خیر رشتوں کو پہلے جیسی اہمیت نہیں دی جاتی ہمارے بچپن کے دور میں سب سے بڑا خوشی کا موقع رشتہ داروں کا آپس میں مل بیٹھنا ہوا کرتا تھا۔
آج کل ہمارے علاقے میں لفظ مسیری نوجوان لوگ آپس میں بات چیت کے لیئے عام استعمال کرتے ہیں۔ صرف خالہ زاد ہی نہیں، دوستوں کو بھی مسیری کہا جاتا ہے۔ بے پناہ پیار سمایا ہوا ہے اس سادہ سے لفظ میں۔
اپنا ایک پرانا شعر یاد آرہا ہے۔۔۔۔۔
رشتوں کو ٹوٹنے سے بچانے کی فکر میں،
اندر سے ٹوٹ پھوٹ کے ہم خود بکھر گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔٢٥ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنوں پرایوں کی بے لوث خدمت کرنے والے لوگ ہر زمانے میں ہوتے ہیں۔۔۔ ہوتے بہت کم مگر ہوتے ضرور ہیں۔
ہمارے ایک بزرگ غلام فرید ہاشمی بھی ایسے ہی خادم خلق تھے۔ رشتے میں ہمارے ماموں تھے ، مگر محلے کے چھوٹے بڑے سب لوگ انہیں ماما فرید ہی کہتے تھے۔
عیدالاضحٰی پر ہمارے گھر کے 3 دنبے بکرے ماموں فرید ہی ذبح کرتے تھے۔ صرف ذبح ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا گوشت بھی بنا کر دیتے تھے۔ ہمارا کام مکمل کرنے کے بعد گھر جا کر اپنا دنبہ بکرا ذبح کرتے تھے۔
رمضان المبارک میں سیمیاں (سیویاں) بنانے کی گھوڑی (مشین) کا ہینڈل گھمانا خاصا مشقت طلب کام ہوتا تھا۔ صبح سویرے ہی محلے کی کوئی نہ کوئی خاتون ماما فرید کے ہاں آکر کہتی ماما اج اساں سیمیاں بنڑساں۔ ذرا مہربانی کرائے۔۔ ماموں جی نے اس بلامعاوضہ مشقت سے کبھی انکار نہ کیا۔
ماموں فرید ریلوے میں انجن مکینک تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد فارغ بیٹھنے کی بجائے قبرستان والی مسجد میں نمازوں کی امامت شروع کردی ۔ یہ خدمات وہ آخر دم تک بلامعاوضہ سرانجام دیتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔
٢٦ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گراموفون کو ہم لوگ واجا کہتے تھے۔ اس پر ہم لوگ فلمی اور غیر فلمی گیت سنا کرتے تھے۔ گیت کاربن کی پلیٹ میں ریکارڈ ہوئے ہوتے تھے جسے ہمارے علاقے میں رکاٹ اور بعض لوگ توا کہتے تھے۔ رکاٹ کو گراموفون کی پلیٹ پر رکھ کر گراموفون کو آن کرنے کے بعد سون بکس (ساونڈ بکسں) کو رکاٹ پر رکھ دیتے ۔ تیزی سے گھومتے ہوئے رکاٹ پر سون بکس کی سوئی رکھتے ہی گیت کے بول فضا میں گونج اٹھتے تھے۔ رکاٹ کی دونوں سائیڈوں پر تین تین منٹ کا ایک ایک گیت ریکارڈ ہوا ہوتا تھا۔
کیا گیت تھے اس دور کے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ آواز دے کہاں ہے
۔۔۔۔۔۔یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے
۔۔۔۔۔۔ہوا میں اڑتا جائے مورا لال دوپٹہ ململ کا
شمشاد بیگم کی مدھر آواز میں نعت
۔۔۔۔۔۔ پیغام صبا لائی ہے گلزار نبی سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبی سے
کلن خان قوال کی مست قوالی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ جب دل میں مکیں ہے تو میرے صنم پھر تجھ کو ڈھونڈا کون کرے
طلعت محمود کا خوبصورت گیت۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ تصویر تیری دل مرا بہلا نہ سکے گی
اور بھی بہت سے مقبول و معروف گیت ہم گراموفون پر سنا کرتے تھے۔
میں تیسری کلاس میں پڑھتا تھا تو میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی کو ہمارے چچا نے گراموفون لا کر دیا۔ میں نے رونا پیٹنا شروع کردیا کہ مجھے بھی گراموفون دلوا دیں۔ امی کی منہ بولی بہن محترمہ عالم خاتون نے اپنے بھائی گلستان خان کا گراموفون لا کر مجھے دے دیا۔ اس کے ساتھ آٹھ دس رکاٹ بھی تھے۔ میں سکول سے واپس آکر دن بھر وہی گیت بار بار سنتا رہتا تھا۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
-
میرے نانا جان مرحوم کے پاس گرامو فون تھا۔ ہم بھی ماموں کے پاس جاتے تو چابی گھما کر گرامو فون کے مزے لیتے۔ ڈسک کو ریکارڈ، گرامو فون کو واجہ جبکہ چابی گھمانے کو چابی دینا کہتے تھے۔ریکارڈ سننے سے تو ہماری کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن بجلی سیل بیٹری کے بغیر چلنا بہت عجب لگتا تھا۔ماموں کے انتقال کے بعد میرے مسیر کے پاس ماجود ہے۔
ابھی آپ کی پوسٹ پڑھ کر امی سے پوچھ رہا تھا کہ کزن سے پوچھے کہ اب کس حالت میں ہے۔
-
بچپن کی ایک سنہری یاد ،،، جس کا ایک پہلو یہ بھی یاد آیا کہ جب دیہی علاقوں میں بارات سایہ دار درختوں کے نیچے چارپائیوں پر براجمان ہوتی تو اس سے تار کو منسلک کرکے سپیکر کو ایک درخت پر لٹکا دیا جاتا تھا اور پھر فرمائشی گیت سننے والوں کو انعام بھی دینا پڑتا تھا اس دور کا ایک گیت جو اس وقت یاد آ رہا ہے ،،، گندلاں توڑ دیئے مٹیارے نی ،،، ذرا مکھ نوں ایدر موڑ
-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔٢٧ جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھڑے کا پانی ایک قدرتی عمل سے خودبخود مسلسل ٹھنڈا ہوتا رہتا تھا۔ پانی ٹھنڈا کرنے کی خاصیت کے حساب سے کچھ علاقوں کے گھڑے خاص طور پر مشہور تھے۔ ان علاقوں کی مٹی میں کچھ ایسی تاثیر تھی کہ اس مٹی کے برتن میں رکھا ہوا پانی مسلسل ٹھنڈا ہوتا رہتا تھا۔ اس حوالے سے ہمارے ہاں عیسی خیل کے گھڑے بہت مشہور تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ لالا عیسی خیلوی کے علاوہ عیسی خیل کی دوسری مشہور چیز وہاں کے گھڑے ہوا کرتے تھے۔
گھڑے کا ٹھنڈا پانی سینے میں ٹھنڈ ڈال کر پیاس بجھا دیتا ھے۔ یہ خاصیت فریج اور برف والے پانی میں نہیں ہوتی۔ وہ تو پیاس کو الٹا بھڑکاتے ہیں۔
پانی ذخیرہ کرنے کے علاوہ گھڑے کے کچھ اور استعمال بھی ہوا کرتے تھے۔ شادی بیاہ کے موقع پر خواتین گھڑا تھالی بجا کر ماھیئے اور ٹپے گایا کرتی تھی۔ دائیں ہاتھ سے پیتل کی پرات (تھال) اور بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں چاندی کے چھلے پہن کر گھڑا بجاتی تھیں۔ بہت دلکش local rhythm ہوا کرتا تھا۔
لالا عیسی خیلوی کے ہاں محفلوں میں ماسٹر وزیر صاحب لکڑی کی دوچھڑیوں سے گھڑا بجایا کرتے تھے۔ وہ اس فن کے ماہر تھے۔ بہت زبردست گھڑا بجاتے تھے۔
دریا میں تیرنے کے لیے گھڑا لائف بیلٹ کا کام دیتا تھا۔ یہ نہ خود پانی میں ڈوبتا تھا نہ تیرنے والے کو ڈوبنے دیتا تھا۔ مشہور لوک داستان سوہنی مہینوال کی ہیروئین صبح سویرے منہ اندھیرے گھڑے پر تیر کر دریائے چناب کے پار اپنے محبوب مہینوال سے ملنے جایا کرتی تھی۔ ایک دن اس کی حاسد نند نے سوہنی کے گھڑے کی جگہ کچا گھڑا رکھ دیا۔ سوہنی گھڑا لے کر دریا میں اتری تو کچا گھڑا پانی میں گھل کر ڈوب گیا، اور سوہنی کو بھی اپنے ساتھ لے گیا۔ اسی حوالے سے اپنا بہت پرانا شعر یاد آ رہا ہے۔۔۔۔
ہے اس کے کچے گھڑے کی بھی فکر مجھ کو لیکن،
مجھے شکایت بھی ہے وہ دریا کے پار کیوں ہے؟
دادو استاد کا ایک گایا گیا گیت
جوڑی بٹ ناں چائی کر گھڑیاں دیاں
۔۔۔۔۔۔۔
جو بعد میں لالا عیسی خیلوی نے بھی گایا تھا
پرانے زمانے کی خوب عکاسی کرتا ھے۔۔ جب دیہات کی عورتیں کھوہ پہ دو دو تین گھڑے بھر کے لاتی تھیں دو سر پہ اور ایک لک پہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔۔۔28 جون 2023 –منورعلی ملک۔۔۔