منورعلی ملک کےمئی 2019 کےفیس بک پرخطوط
بحمداللہ میری شاعری کا ایک اپنا انداز اور معیار ھے — اردو شاعری کی بات کر رھا ھوں – اس میں موضوعات کا تنوع بھی ھے ، اندازبیاں کا بھی – لکھتا بہت کم ھوں – اب تک کا کل سرمایہ بمشکل پچاس غزلیں ھیں- بہت کم غزلیں پانچ سے زیادہ اشعار کی ھیں –
لمبی غزل لکھنے کے لیے قافیوں کی مکھی پہ مکھی مارنے کا کام مجھ سے نہیں ھوتا – مارکیٹ کو دیکھ کر کچے پکے ، کھٹے میٹھے شعر نہیں کہتا – یہ کام تھوڑا بہت سرائیکی گیتوں میں کرنا پڑا – اردو شاعری میں ایسا نہیں کرتا – عشق میں بھی خوشامد نہیں کرتا – صاف کہہ دیتا ھوںآپ سے پہلے بھی لوگ آتے رھے جاتے رھے
دل کا دروازہ کھلا ھے آنے جانے کے لیے
یہی غیرت ھم میانوالی والوں کی پہچان ھے — افسر ھو یا محبوب ، خوشامد ھم سے نہیں ھوتی –
رب کریم کا خصوصی کرم میری نعت ھے – تقریبا دس نعتیں لکھ چکا ھوں – لکھی کیا ھیں ، مجھے عطا ھوئی ھیں – میری نعت دنیا میں میری پہچان اور انشآءاللہ آخرت میں وسیلہ ء نجات ھوگی – دل کی گہرائیوں سے نکلی ھوئی باتیں بھیگی آنکھوں کے ساتھ لکھنا ایک عجیب سا تجربہ ھوتا ھے – دل میں ٹھنڈ پڑ جاتی ھے – اپنی نعتوں کا کچھ مزید ذکر ان شآءاللہ کل کروں گا –
رھے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک–1 مئی 2019
میرا میانوالی——
بعض نعتیں ایسے وقت میں اور ایسی جگہ وارد ھوئیں کہ ان کا کوئی شعر زباں پر آئے تو وہ منظر اور ماحول سامنے آجاتا ھے –
میری معروف ترین نعت
یہ تیرا چہرہ ، یہ تیری زلفیں ، یہ صبح آقا ، یہ شام آقا
دورد آقا ، سلام آقا ، سلام خیرا الانام آقا
فجر کے وقت آنکھ کھلی تو گیٹ سے باھر دریا کے کنارے جا بیٹھا – عجیب روح پرورسماں تھا ، سامنے دریا ، خوشگوارباد صبا ، دریا پر اترتے پرندے – دل بے ساختہ سبحان اللہ پکار اٹھا – – اچانک نعت کا پہلا شعر زباں پر آگیا – اس کے ساتھ ھی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے – دس پندرہ منٹ میں نعت مکمل ھوگئی – صبح مشاعرے میں پڑھی تو سب لوگوں نے بہت پسند کی –
یہ نعت لالا عیسی خیلوی نے پہلی مرتبہ تونسہ شریف کے عرس میں پیش کی – واپس آیا تو بہت خوش تھا – کلائی پہ بندھی ھوئی اومیگا Omega کی گھڑی مجھے دکھا کر کہنے لگا – جب میں یہ نعت سنا رھا تو پیر صاحب نے ایک ایک شعر بار بار سنا، اور پھر اپنی کلائی سے یہ گھڑی اتار کر میری کلائی پہ باندھ دی –
بعد میں یہ نعت رحمت گراموفون کے کیسیٹ کے ذریعے پوری دنیا میں متعارف ھوگئی –
رھے نام اللہ کا ——– منورعلی ملک ——
(نعت کی کمپوزنگ و آرائش —- وسیم سبطین ، چکوال)
———-اپنی ایک غیر مطبوعہ نعت ——-
نعت پڑھتے سنتے وقت کم ازکم ایک بار صلی اللہ علیہ وسلم ضرور کہہ دیا کریں
کیونکہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس شخص پر لعنت کی ھے
جو حضور کا ذکرسن کر(ٰیا پڑھ کر) درود نہ پڑھے
بشکریہ-منورعلی ملک– 3 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
میری شاعری کا تاحال اکلوتا مجموعہ “ جوتم سے کہہ نہ سکا “ کے عنوان سے 2002 میں شائع ھؤا —- اس میں 5 نعتیں ، سانحہءکربلا کے حوالےسے3 نظمیں , تقریبا چالیس غزلیں ھیں – کچھ دوستوں کے اصرار پر ایک پنجابی غزل ،4 سرائیکی غزلیں اور 4 سرائکی گیت بھی اس میں شامل کردیئے ٠ انگریزی میں بھی دو نظمیں اس مجموعے کی زینت ھیں – یہ سب کچھ کرکے بھی 120 صفحے کی کتاب بنی – غزلوں میں سے
لوگ کہتے ھیں کہ گلشن میں بہار آئی ھےلالا عیسی خیلوی کی آواز میں ریکارڈ ھوکر معروف و مقبول ھوئی –
میرے بیٹے مظہرعلی ملک (علی عمران) کی آواز میں میری غزل
شام ھوئی پنچھی لوٹ آئے اس سے کہنا ،
مرحوم ظفر خان نیازی نے ریڈیو پاکستان کے لیے ریکارڈ کی ، یہ غزل بھی آج تک مقبول ھے – بلکہ ایک دفعہ میں ریڈیوپاکستان اسلام آباد ظفرخان سے ملنے گیا تو انہوں نے چکوال کے ایک صاحب کا خط مجھے دکھایا – لکھا تھا ————
“ نیازی صاحب ، میں آپ کا پروگرام “سوغات “ بہت شوق سے سنتا ھوں – آپ سے گذارش ھے کہ “ اس سے کہنا“ والی غزل ریڈیو پہ نہ لگایا کریں – میں دل کا مریض ھوں اتنا دکھ برداشت نہیں کر سکتا ، جتنا ظالم شاعر نے اس غزل میں بھر دیا ھے “-
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 4 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
اک آفتاب تھا جو تہہ خاک سو گیا
ھیڈماسٹر سیف اللہ خان بدری خیل (چھدرو) میرے بہت پیارے بھائی تھے – قابلیت اور حسن اخلاق میں اپنی مثال آپ تھے- کچھ عرصہ قبل میری ایک پوسٹ پر چھدرو کے ایک ساتھی نے کمنٹ میں بتایا کہ سیف اللہ خان بھی یہ دنیا چھوڑ گئے – اس خبر نے تڑپا دیا – بیماری کی وجہ سے وھاں جانا بھی ممکن نہ تھا – رابطے کا کوئی ذریعہ بھی نہ تھا- یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ ایصال ثواب تو کہیں بھی بیٹھ کر کیا جا سکتا ھے – جن لوگوں کو روزانہ ایصال ثواب کرتا ھوں ان میں بھائی سیف اللہ خان کو بھی شامل کرلیا -یہ حسرت بہر حال دل میں ھمیشہ رھے گی کہ کاش ان سے ایک ملاقات اور ھو جاتی — بہت پیارے انسان تھے – سراپا محبت – مجھ سے تو ان کاتعلق بالکل حقیقی بھائیوں جیسا رھا – رب کریم ان کی مغفرت فرما کر اپنی رحمت کا سایہ نصیب فرمائے-
چھدرو کے علاقے میں میرے بہت سے سٹوڈنٹ بھی رھتے ھیں ، ساتھی بھی ، اللہ سب کو سلامت رکھے – سیف اللہ خان کی معرفت بدری خیل قبیلہ سے میرا بہت دیرینہ اور قریبی تعلق ھے – ان کے والد محترم میرے بڑے بھائی ملک محمد انور علی کے ٹیچر رھے – سیف اللہ خان کے بھائی امان اللہ خان اور امان اللہ کے صاحبزادے کلیم اللہ خان میرے سٹوڈنٹ بھی رھے-
چھدرو میں جانے کا صرف ایک موقع نصیب ھؤا – ایک الیکشن میں سنگوخیل کے پولنگ سٹیشن پہ پریزائیڈنگ آفیسر کی حیثیت میں میرا تقرر ھؤا – سیف اللہ خان نے پیغام بھیجا کہ آپ رات ھمارے ھاں قیام کریں – وہ ایک یادگار رات تھی – ان کے والدمحترم کی زیارت کا شرف بھی نصیب ھؤا – سیف اللہ خان نے بہت کمال کی میزبانی کی – صبح اپنے موٹر سائیکل پہ مجھے پولنگ سٹیشن پہ بھی پہنچایا ، اور کہا واپسی پر ایک رات پھر ھمارے ھاں رہ جائیں – مگر الیکشن کی افراتفری میں یہ ممکن نہ تھا ۔ کہ الیکشن کا ریزلٹ میانوالی پہنچانا بھی تھا-
بعد میں کبھی کبھار میانوالی میں ملاقاتیں ھوتی رھیں – کیا پتہ تھا کہ بھائی صاحب یوں اچانک چلے جائیں گے – معین وقت پر وہ تو چلے گئے ، یادوں کے زخم مٹنے والے نہیں –
— رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 5 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
الحمدللہ – کل سے رمضان المبارک کا آغاز ھو رھا ھے – یوں سمجھیے رب کریم نے ھمیں ھماری خطائیں معاف کروانے اور رحمتیں سمیٹنے کا ایک اور موقع دے دیا ھے –
قدرتی بات ھے کہ بھوک پیاس کے عالم میں انسان کو غصہ بہت آتا ھے – انسان کی اصل آزمائش یہی ھے کہ وہ غصے پر قابو پالےسب سے اھم بات یہ کہ اللہ نے آپ کوجو رزق دیا ھے رمضان المبارک میں اسے لوگوں کے ساتھ شیئر کریں – خاص طور پر غریب رشتہ داروں اور ھمسایوں کا خیال رکھیں – کچھ ایسے لوگ بھی ھوتے ھیں جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے اپنی حالت کسی کو بتا نہیں سکتے ، اور سادہ پانی سے روزہ افطار کرتے ھیں ، روکھی روٹی کھا کر سحری کرتے ھیں – وہ آپ کے در تک نہیں آتے ، انہیں تلاش کرنا آپ کا کام ھے – اگر آپ کے گردونواح میں کچھ ایسے لوگ ھیں تو ان کا خیال رکھنا لازم ھے -آپ سے روزانہ ملاقات انشآءاللہ حسب معمول ھوتی رھے گی – وقت افطار کی دعاؤں میں مجھے بھی یاد کرتے رھیں – اللہ کریم اس رمضان المبارک کو ھم سب کے لیئے امن و عافیت ، خیرو برکت کا ذریعہ بنائے –
ایک اھم خبر ———
آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں دکان داروں نے رمضان المبارک کے احترام میں کھانے پینے کی چیزوں کی قیمت 50 فی صد کم کر دی – اللہ ھم مسلمانوں کو بھی یہ توفیق عطا فرمائے—–
رھے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-6 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
میری پہلی مطبوعہ اردو تحریر “ٹیم کا تعاون“ کے عنوان سے ایک طنزیہ کہانی تھی ، جو مارچ 1983 کے اردو ڈائجسٹ میں شائع ھوئی –
کہانی یوں تھی کہ ایک رات ایک گھر کے لوگ ٹی وی کے گرد بیٹھے ، پاکستان اور انڈیا کے درمیان ھونے والا کرکٹ میچ دیکھ رھے تھے ، اور کھلاڑیوں کی کارکردگی پر کمنٹ بھی دے رھے تھے, کہ اچانک ایک بچہ ساتھ والے کمرے سے ھو کر آیا اور اس نے بتایا کہ دادا جی اس دنیا سے رخصت ھوگئے – یہ سن کر سب خاموش ھو گئے – بچوں کے ماں باپ نے آنکھوں ھی آنکھوں میں ایک فیصلہ کرلیا – بچوں کے باپ نے فیصلے کا اعلان کرتے ھوئے کہا ————-بابا جی ، کی تو اس وقت ھم کوئی مدد نہیں کر سکتے- جو ھونا تھا ۔ ھو گیا —- کفن دفن کا کام ویسے بھی کل صبح ھوگا – اس لیے فی الحال میچ دیکھ لیا جائے کہ ایسا اھم میچ ھر روز تو نہیں ھوتا –
سب نے اس دانشمندانہ فیصلے کو سراھتے ھوئے اس پر عمل کیا – میچ دیکھنے کے بعد سب لوگ سو گئے —- صبح ناشتے کے دوران ایک بچے نے کہا ——-
“ دادا ابو مجھے خواب میں ملے تھے- انہوں نے ٹیم کے کپتان کی کٹ (یونیفارم) پہنی ھوئی تھی – میچ ھارنے کے بعد وہ کرکٹ گراؤنڈ میں ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ھوئے کہہ رھے تھے
“ میں ھارنے والا نہیں تھا – ھارنے کی وجہ یہ تھی کہ میری ٹیم نے مجھ سے تعاون نہیں کیا“-
ھمارے افسوسناک رویوں کے بارے میں بہت دردناک کہانی ھے — آپ نہ سمجھ سکیں تو آپ کی قسمت —- اس کہانی کا کوئی سیاسی مفہوم نہ تھا -1983 میں جس وقت یہ کہانی شائع ھوئی ، جنرل ٰضیاء کا دور تھا – یہ کہانی والدین کے بارے میں ھمارے بے رحم رویوں ، اور کرکٹ کے بارے میں ھماری دیوانگی پر بھرپور طنز ھے- وماعلینا الا البلاغ –
رھے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک–7 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
اردو میں “ٹیم کا تعاون“ ( کل کی پوسٹ والی کہانی) کے بعد میں کوئی اور کہانی نہ لکھ سکا ، کیونکہ ادھر پاکستان ٹائیمز میں میرے انگریزی کالموں کی اچھی خاصی مارکیٹ ویلیو بن گئی تھی – مسلسل لکھنا پڑتا تھا – ادھر کالج بھی جانا پڑتا تھا ، گھر پہ بھی کچھ بچے پڑھنے کے لیے آتے تھے – اتنی مصروفیات میں دونوں ھاتھوں سے (اردو۔ انگریزی) لکھنے کا وقت کہاں بچتا –
پاکستان ٹائیمز میں میرے اکثر کالم بھی کہانیوں کی شکل میں ھوتے تھے – سیاست ، تعلیم ، معیشت سب کو اسی طنزیہ ، مزاحیہ انداز میں تنقید کا نشانہ بناتا رھا – لکھنے کا یہ انداز اھل علم و ذوق لوگوں میں بہت مقبول ھؤا- بہت سے نئے دوست بن گئے -اردو میں لکھنے کی جو صلاحیت رب کریم نے عطا کی تھی ، اس نے اپنا راستہ خود بنا لیا – تفصیل ان شآءاللہ کل بتاؤں گا ——————————————–
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 8 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
میں نے تو اردو میں کوئی کتاب لکھنے کا کبھی سوچا ھی نہ تھا – پاکستان ٹائیمز میں ھر ھفتے انگریزی کالم لکھنا پچھلے 8 سال سے جاری تھا – میں اپنے اس کام سے مطمئن تھا ، خوب داد مل رھی تھی –
1991 کی بات ھے – چھٹی کا دن تھا – کرنے کو کوئی اور کام نہ تھا – اردو میں کچھ لکھنے کو جی چاھا – میز پر ایک ڈائری پڑی تھی – قلم تلاش کرنے لگا تو ایک کچی پنسل ھاتھ لگ گئی – اسی سے ڈائری پر لکھنا شروع کردیا – موضوع تھا وہ محفل جو دس پندرہ سال پہلے ھررات عیسی خیل میں لالا عیسی خیلوی کی بیٹھک پر منعقد ھوتی تھی – بیٹھک کو ھم نے میکدہ کا نام دے رکھا تھا – میں نے دوچار صفحے اس محفل کے بارے میں لکھ دیئے -دوسرے دن اس تحریر کو دوبارہ دیکھا تو اچھی لگی ، میں نے اسی داستان کو آگے بڑھاتے ھوئے دو چار صفحے اور لکھ دیئے – لکھنے میں مزا آنے لگا – واقعات اور کردار یاد آتے چلے گئے ، اور میں روزانہ پندرہ بیس منٹ بیٹھ کر لکھتا رھا – تیس چالیس صفحے بن گئے ، پھر بھی یادوں کا دریا رواں دواں رھا ، تب سوچا کیوں نہ یہ سب کچھ لکھ کر کتاب کی شکل میں چھپوا دیاجائے –
دس پندرہ دن میں کتاب مکمل ھوگئی ، تو لاھور میں اپنے ایک پبلشر دوست چوھدری ریاض صاحب سے رابطہ کیا – انہوں نے کہا مسودہ لے آئیں ، ھم کتاب چھاپ دیں گے – میں وتہ خیل کیسیٹ ھاؤس کے لیاقت خان کے ھمراہ لاھور پہنچا – پبلشر کو ھدایات دیں ۔ اور واپس آگیا – تقریبا ایک ھفتہ بعد “دردکاسفیر“ کے عنوان سے کتاب منظرعام پر آگئی مجھے کیا پتہ تھا میں یہ کتاب لکھ کر کتنی بڑی “واردات“ کر بیٹھا ھوں – لالا کی شہرت و مقبولیت کے عروج کا دور تھا – کتاب کی آمد دھماکہ ثابت ھوئی – ھر آدمی یہ کتاب پڑھنا چاھتا تھا – اگر ایک لاکھ کتاب بھی چھپوا لیتا توھاتھوں ھاتھ بک جاتی ۔ مگر میں نے یہ کتاب کاروبار کے لیے تو نہیں لکھی تھی –
رھے نام اللہ کا -بشکریہ-منورعلی ملک–9 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
کتاب “درد کا سفیر“ کی اھمیت کا احساس مجھے کتاب پڑھنے والوں کی رائے سے ھؤا – بے شمار خطوط موصول ھوئے – بیرون ملک رھنے والے پاکستانیوں نے بھی اپنے دوستوں اور اھل خانہ کی معرفت کتاب منگوائی – ھانگ کانگ اور واشنگٹن سے بھی دو خط موصول ھوئے – اندرون ملک سے آنے والے خطوط کا تو شمار ھی نہیں –
فیصل آباد جیل سے ایک قیدی کا خط بھی آیا – اس نے بہت سی دعائیں دیتے ھوئے لکھا ، یہ کتاب پڑھنے لگتا ھوں تو لالا کی آواز کانوں میں گونجنے لگتی ھے – قید کی تنہائی کا احساس باقی نہیں رھتا – -بہت سے لوگوں نے کتاب ایک ھی نشست میں پڑھ لی – کئی لوگوں نے بار بار پڑھی —
اوکاڑہ کے ایک صاحب نے لکھا کہ کتاب لاھور کی کسی دکان سے نہ ملی تو میں لاھورمیں لالا کے آفس میں گیا – لالا کے سیکریٹری نے کہا ھمارے پاس ایک ھی کتاب پڑی ھے – یہیں بیٹھ کر پڑھ سکتے ھیں ، کتاب ساتھ نہیں لے جا سکتے – میں نے وھیں بیٹھ کر پوری کتاب پڑھی ، اور پھر اس کی فوٹو کاپی کرا کے لے آیا –
روزنامہ امروز کے سینیئر سب ایڈیٹر ملک اسلم صاحب نے خط میں لکھا :———-
میں اور میری اھلیہ پشاور سے پی آئی اے کی پرواز میں لاھور آرھے تھے – سفر کے دوران کتاب کا باب “ سیما بہن ، ھم تم کو نہیں بھولے“ بار بار پڑھ کر روتے رھے –
نامور ادیب مرحوم ممتاز مفتی نے اس کتاب کے بارے میں رائے دیتے ھوئے کہا : “مجھے آپ کی تحریر میں ایک چمک سی نظر آتی ھے، جو بہت کم تحریروں میں دیکھنے میں آتی ھے “-
ممتازمفتی صاحب جیسے لیجنڈ ادیب کے یہ الفاظ میرے لیے بہت بڑی سند تھے ———–
مشہور شاعر، ادیب اور نقاد جناب محمد سلیم الرحمان نے کہا “ کتاب پڑھ کر تشنگی سی رہ جاتی ھے – جی چاھتا ھے ، کہانی ختم نہ ھو ، یونہی چلتی رھے “-اس کتاب سے مجھے جو عزت اور پہچان ملی اس کے لیے رب کریم کا جتنا بھی شکر کروں ، بالآخر یہی کہنا پڑے گا –
حق تو یہ ھے کہ حق ادا نہ ھؤا———
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 10 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
“درد کا سفیر“ کا پہلا ایڈیشن بہت جلد ختم ھو گیا – زیادہ تر کتابیں لاری اڈہ میانوالی میں لیاقت خان کی دکان سرائیکی سر سنگت اور میانوالی ریلوے سٹیشن پر عبدالصمد خان کے بک سٹال پہ بکیں – ان دونوں جگہوں سے کتابیں ظاھر ھے بسوں اور ٹرینوں کے مسافروں نے خریدیں – یوں یہ کتاب ملک بھر میں متعارف ھو گئی –
مارکیٹ سے کتاب غائب ھوتے ھی دوسرے ایڈیشن کا مطالبہ شروع ھو گیا – اگرپہلے ایڈیشن والی کتاب کسی تبدیلی یا اضافے کے بغیر دوبارہ چھپوا دیتا تو کام آسان تھا – مگر مکھی پر مکھی مارنا مجھے اچھا نہیں لگتا – نئے ایڈیشن میں کچھ نئی باتوں کا اضافہ تو ضرور ھونا چاھیے – باتیں تو بہت تھیں , لکھنا بھی آسان ، مگر لکھنے کے لیے ٹائیم نکالنا آسان نہ تھا – کچھ فطری سستی بھی اس کام کی راہ میں حائل رھی- یوں پہلے ایڈیشن کے دس سال بعد جاکر 2002 میں دوسرا ایڈیشن منظرعام پر آسکا – یہ ایڈیشن نیو نفیس بک ڈپو میانوالی نے شائع کیا -کچھ عرصہ بعد تیسرے ایڈیشن کا تقاضا شروع ھوگیا – انہی پہلی وجوہ کی بنا پر یہ ایڈیشن سولہ سال بعد 2018 میں شائع ھؤا – اس کی اشاعت کا اھتمام اسلام آباد سے میرے بیٹے مظہرعلی ملک (علی عمران) کے ایک دوست نے کیا – اشاعت کے لیے ایک پبلشر نے محترم بھائی ملک سونا خان بے وس کی معرفت بھی پیشکش کی تھی ، لاھور سے ملک طارق محمود اعوان (تلہ گنگ) کی معرفت بھی ایک پبلشر نے پیغام بھجوایا، مگر میں پہلے ھی اسلام آباد کے پبلشر کو زبان دے چکا تھا، اس لیے کتاب اسلام آباد ھی سے شائع ھوئی – پبلشر سے رابطے کا فون نمبر ھے 0300 – 8502456 –
اس کتاب کے حوالے سے ایک لطیفہ یہ ھؤا کہ ایک دن لالا سے ملاقات کے دوران میں نے کہا —-
“یار یہ درد کا سفیر لکھ کر تو میں مصیبت میں پڑگیا – جوبھی ملتا ھے کہتا ھے اگلا ایڈیشن کب آرھا ھے –
لالا نے کہا “ پنگا لے جو لیا ھے ، تو اب لکھتے رھو“
میں نے کہا , لکھتا تو رھوں گا ، مگر ————————————-جا میکدے سے میری جوانی اٹھا کے لا
رھے نام اللہ کا -بشکریہ-منورعلی ملک– 11 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
دوتین دن پہلے ھمارے بہت پیارے صاحب دل اور صاحب ذوق ساتھی مجیب اللہ خان نیازی نے فرمائش کی کہ ھمیں رمضان مبارک کے حوالے سے ھمارے اس کلچر کے بارے میں بتائیں ، جو اب صرف دور دراز دیہاتوں میں اپنی زندگی کے آخری سانس لے رھا ھے – میں نے ان سے وعدہ کرلیا کہ انشآءاللہ اتوار کو لکھوں گا –
اس کلچر کے بارے میں پچھلے دو تین سال میں بہت کچھ لکھ چکا ھوں ، رمضان المبارک ، عیدالفطر، عیدالآضحی ، عاشورہء محرم کے بارے میں بہت سی پوسٹس لکھیں —— یہ بھی کئی بار بتا چکا ھوں کہ میری وہ پوسٹس فیس بک پہ کہاں مل سکتی ھیں -مجیب اللہ خان کی فرمائش کی تکمیل کے لیے آج رمضان المبارک کے بارے میں کچھ باتیں ایک بار پھر عرض کردیتا ھوں
ھمارے بچپن کے دور میں داؤدخیل میں نہ بجلی تھی نہ گیس – فریج اور فریزر کا نام بھی کسی نے نہیں سنا تھا – داؤدخٰیل کے ایک دو دکان دار میانوالی سے برف کے دو تین بلاک لے آتے تھے – منتوں اور سفارشوں سے مٹھی بھر برف دو چار آنے کی ملتی تھی –
لیکن برف کا شوق صرف بچہ لوگوں اور نوجوانوں کو تھا – بزرگ اور خواتین افطاری کے وقت برف استعمال نہیں کرتے تھے – وہ کہا کرتے تھے، اور بالکل ٹھیک کہا کرتے تھے کہ برف تو پیاس بجھاتی نہیں پیاس کو بھڑکاتی ھے-
برف کی ضرورت ھی کیا تھی – رب اتنا مہربان تھا کہ داؤدخیل کے گھریلو ھینڈ پمپ (نلکے) اور کنؤوں کا صاف شفاف ٹھنڈا یخ تازہ پانی فریج میں رکھی ھوئی منرل واٹر کی بوتلوں سے بھی زیادہ صاف اور ٹھنڈا ھوتا تھا – افطار کے وقت اسی پانی میں لیموں ، تخم ملنگا ، املی آلو بخارا ، اسپغول یا ستو ملاکر پیتے تو دن بھر کی بھوک پیاس کا احساس فورا ختم ھو جاتا تھا – بزرگ تو پانی میں صرف گڑ یا شکر ملا کر پی لیتے تھے – یہ نسخہ سب سے اچھا تھا –
اس سے ملتا جلتا صاف شفاف ٹھنڈا پانی اب صرف نہر کے کنارے بلال مسجد کے نلکے سے ملتا ھے – ھمارے گھر میں بھی وھی استعمال ھوتا ھے – لیکن وہ مزے اب کہاں کہ ھر گھر کے نلکے کا پانی بھی ایسا ھی ھوتا تھا-
اب نہ وہ لوگ رھے ، نہ وہ پانی جسے ھم بڑے فخر سے جنت کا پانی کہا کرتے تھے –
گذر گیاوہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ
رھے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک– 12 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
اردو میں میری دوسری کتاب “پس تحریر“ 1994 میں شائع ھوئی — یہ اپنی نوعیت کی سب سے پہلی کتاب ھے – یہ کتاب 6 لیجنڈ اھل قلم ( میرزا ادیب ، ممتازمفتی ، شفیق الرحمن ، احمد ندیم قاسمی ، رام لعل اور ڈاکٹر سلیم اختر) کے قلمی انٹرویوز پر مشتمل ھے – مشہورشخصیات کے انٹرویوز کی بہت سی کتابیں موجود ھیں ، مگر قلمی انٹرویوز کی کتاب صرف “پس تحریر “ ھی ھے –
یہ کتاب مرتب کرنے کا خیال یوں آیا کہ لاھور سے اپنے کالج (گورنمنٹ کالج میانوالی) کی لائبریری کے لیے انگلش کی کتابیں خریدتے ھوئے میں نے Writers at Work کے عنوان سے پانچ کتابوں کا ایک سیٹ دیکھا – یہ کتابیں امریکہ کا ایک ادارہ شائع کرتا ھے — ادارے کے لوگ نامور اھل قلم کے ھاں جا کر انہیں سوالنامہ اور جوابات ریکارڈ کرنے کے لیے ایک کیسیٹ دے دیتے ھیں – اور پھر دس پندرہ دن بعد ان سوالوں کے جوابات سے مرتب کیا ھؤا جواب نامہ (کیسیٹ میں ریکارڈ کیا ھؤا ) لے آتے ھیں – پانچ سات جواب ناموں کو کتاب کی صورت میں مرتب کرکے شائع کر دیتے ھیں – یہ سلسلہ اب بھی جاری ھے -انٹرویو کا یہ طریقہ ء کار مجھے بہت اچھا لگا – میں نے تقریبا 60 سوالات پر مشتمل سوالنامہ مرتب کر کے اس وقت کے دس لیجنڈ اھل قلم کو ڈاک سے بھجوا دیا – کیسیٹ کی بجائے میں نے تحریری جواب نامہ ڈاک سے بھجوانے کی گذارش بھی کردی —- مزے کی بات یہ ھے ان حضرات میں سے کسی سے بھی میری ملاقات نہیں ھوئی تھی – میں تو بس ان کی تحریروں کا فین تھا
دو نے کوئی جواب نہ دیا ، دو نے بیماری کی وجہ سے معذرت کر لی ، 6 نے مفصل جوابات لکھ کر بھجوا دیئے – ان 6 میں سے کوئی بھی آج اس دنیا میں موجود نہیں – جب کتاب شائع ھوئی اس وقت سب موجود تھے – سب بہت خوش ھوئے –
تمہید خاصی طویل ھو گئی – بہت سی باتیں باقی ھیں – ان شآءاللہ اگلے ایک دو دن میں کتاب کا مکمل تعارف ھو جائے گا – خاصی دلچسپ داستان ھے –
ایک بات کہناضروری سمجھتا ھوں ، آپ کو اس قصے سے دلچسپی ھو نہ ھو ، یہ قصہ میری زندگی کا حصہ ھے – میں بہر حال لکھوں گا –
رھے نام اللہ کا -بشکریہ-منورعلی ملک– 13 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
میری کتاب “پس تحریر“ جن 6 اھل قلم ( ممتازمفتی ، میرزا ادیب ، شفیق الرحمن ، احمد ندیم قاسمی ، رام العل ، ڈاکٹر سلیم اختر ) کے انٹرویوز پر مشتمل تھی ، ان میں سے ھرایک اپنے میدان کا لالا عیسی خیلوی تھا – لاکھوں لوگوں نے ان کی کتابوں سے جینا ، رشتوں کا احترام کرنا اور لکھنے کا ھنر سیکھا – ان کے چاھنے والے ان کی ذاتی زندگی اور شخصیت کے بارے میں جو کچھ جاننا چاھتے تھے ، وہ میری کتاب نے فراھم کردیا –
میرے سوال نامے میں ان کی ذاتی زندگی، پسند ناپسند ، دوستیوں اور ان کی تحریروں کے بارے میں سوالات تھے- سوال بھی خاصے دلچسپ تھے ، جواب بھی -کتاب میں شامل ھر شخصیت کی پکچر ، قلم سے لکھی ھوئی تحریر کا عکس ، مختصر سوانح حیات ، ان کی کسی تحریر سے اقتباس اور میرے سوالات کے جوابات سے ھر شخصیت کی ایک بولتی ھوئی تصویر بن گئی –
اپنی اس بری عادت کا کیا کروں کہ اپنی لکھی ھوئی کتابیں بھی پاس نہیں رکھتا – جو بھی مانگے کتاب دے دیتا ھوں – کچھ عرصہ پہلے لالا کو “درد کا سفیر“ کی ضرورت تھی – مجھے پیغام بھجوایا ، مگر اپنے پاس تھی ھی نہیں – اب “پس تحریر کا ذکر ھو رھا ھے ، تو اس کی پکچر لگانے کے لیے کتاب میرے پاس ھے نہیں – لاھور جاؤں گا تو مزنگ میں “نگارشات پبلشرز“ سے کتاب لے کر پکچر بھی لگا دوں گا – فی الحال زبانی کلامی باتوں سے ھی کام چلا لیں گے –
تنویر شاھد محمد زئی کا ممنون ھوں کہ ان کے پاس دائرہ دین پناہ میں کتاب موجود تھی – انہوں نے کتاب کے ٹائیٹل کی دونوں جانب کی پکچر بھیج دی – رب کریم انہیں بے حساب اجر خیر عطا فرمائے-
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 14 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
اس پہلی ملاقات میں مفتی صاحب سے بہت سی باتیں ھوئیں – ادب اور تصوف کے علاوہ میانوالی کےحوالے سے بھی انہوں نے اپنی کچھ یادیں شیئر کیں – مجھے اپنے افسانوں کی دوکتابیں بھی عنایت کیں –
کہنے لگے “ ایک کام کی بات بتاؤں – عام لوگوں کے لیے لکھوگے تو وہ لوگ تمہارے ھاتھ چومیں گے ، تمہیں سلام کریں گے – شاعروں اور ادیبوں کے لیے لکھوگے تو وہ حسد کے مارے تمہاری تحریروں کو لفٹ نہیں کرائیں گے“-مفتی جی کی یہ بات سو فی صد سچی ثابت ھوئی – آج عام لوگوں کے لیے لکھ رھا ھوں تو5000 فرینڈز اور 7163 فالوورز کی محبتیں اور دعائیں میری ھمسفر ھیں – جو کچھ شاعروں ادیبوں کے لیے لکھا، اس کا نشان بھی باقی نہیں رھا-
اسی موقع پر میری کتاب “درد کا سفیر“ کے حوالے سے مفتی صاحب نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا “ مجھے تمہاری تحریر میں ایک چمک سی نظر آتی ھے ، جو بہت کم تحریروں میں دیکھنے کو ملتی ھے “ –
مفتی صاحب جیسے لیجنڈ ادیب کا یہ جملہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز تھا –
میں رخصت ھونے لگا تو مفتی صاحب نے کہا “ یار ، ایک بندہ ھے رجنیش نام کا – ھندو ھے، مگر بہت پہنچی ھوئی باتیں کرتا ھے – امریکہ میں بھی اس کے ھزاروں مرید ھیں – اس کی باتوں کا ایک کیسیٹ میرے پاس تھا – اس وقت نہیں ھے – کوشش کروں گا کہ اگلی بار جب تم آؤ تو اس کی ایک کاپی تمہیں بھی دے سکوں – مل گئی تو دے دوں گا – سن کر بتانا کہ یہ کیا کہتا ھے “-
جلد دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے میں وھاں سے واپس آگیا –
– رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 17 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
چند ماہ بعد مفتی جی سے دوسری ملاقات ھوئی – مفتی صاحب اور ان کی اھلیہ باھر لان میں بیٹھے تھے – کسی کالج کی دو بچیاں بھی مفتی صاحب سے کچھ پوچھنے کے لیے آئی ھوئی تھیں – مجھے دیکھتے ھی مفتی صاحب نے کہا—
“ فلاسفر، تمہارے لیے رجنیش کے کیسیٹ کی کا پی میں نے منگوا لی تھی” –
یہ کہہ کر کیسیٹ لانے کے لیے اندر چلے گئے -میں نے ان کی بیگم صاحبہ سے کہا “ سنا ھے ھر بڑے آدمی کی کامیابیوں کے پیچھے کسی خاتون کا ھاتھ ھوتا ھے –
میری بات مکمل ھونے سے پہلے ھنس کر کہا “ ھائے اللہ ، یہ تو آپ نے مجھے اس عمر میں شک میں ڈال دیا – ابھی آتا ھے تو پوچھتی ھوں ، بتا ، کون ھے وہ —–“
اتنے میں مفتی صاحب کیسیٹ لے کر آگئے – مجھ سے حال احوال پوچھنے لگے – بہت سی باتیں ھوئیں – میں رخصت ھونے لگا تو مفتی جی نے کہا —
“یار، عجیب بات ھے ، یہ کیسیٹ گھر میں رکھنے سے گھر پہ نحوست سی طاری ھو جاتی ھے “-
میں نے دل ھی دل میں کہا “ چنگا ٹکرا ایں “
احترام کی وجہ سے مفتی صاحب سے تو کیسیٹ کے بارے میں کچھ نہ کہہ سکا ، لیکن اس کیسیٹ کا بندوبست سوچ لیا تھا –
پنڈی میں ھمارا گھر پشاور روڈ پر لین نمبر 4 میں واقع تھا – گھر کے قریب ھی گندے پانی کا ایک جوھڑ تھا – گھر میں داخل ھونے سے پہلے میں نے وہ کیسیٹ جوھڑ میں پھینک دیا –
بعد میں ایک خط میں میں نے مفتی صاحب کو اس کیسیٹ کا انجام بتا دیا – انہوں نے جواب میں لکھا “ وہ تو تمہارا امتحان لینا تھا -“-
مفتی صاحب سے خط و کتابت چلتی رھتی تھی – ان کی ایک اچھی بات یہ بھی تھی کہ خط کا جواب فورا دیتے تھے – ایک خط میں لکھا ——-” 89 برس کا ھو چکا ھوں – سامان باندھ کر سٹیشن پر بیٹھا گاڑی کا انتظار کر رھا ھوں “
کچھ عرصہ بعد معلوم ھؤا مفتی جی بیمار ھیں – میں نے مزاج پرسی کے لیے خط لکھا – فورا جواب آیا لکھا تھا —-
” میں عمر کی جس منزل پہ ھوں یہاں بیماری جانے کے لیے نہیں، لے جانے کے لیے آتی ھے “-
بیماری واقعی لے جانے کے لیے آئی تھی – چند روز بعد ٹی وی پہ خبر سے پتہ چلا کہ مفتی صاحب اب اس دنیا میں نہیں رھے –
رب کریم مغفرت فرمائے ، بہت پیارے انسان تھے –
رھے نام اللہ کا -بشکریہ-منورعلی ملک– 18 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
یادیں ——————– 17 مئی 2018
کچر —— حاجی انعام اللہ خان ، میں اور نعیم اللہ خان
ھاتھ کانپ رھا ھے آج لکھتے ھوئے – پرسوں داؤدخیل سے اچانک خبرآئی کہ قبیلہ امیرے خیل ایک اور عظیم انسان سے محروم ھوگیا-یہ المناک خبر میرے لیے اتنا شدید صدمہ تھی ، کہ ھوش و حواس سن ھوگئے – فوری طور پر داؤدخیل جانے کی ھمت نہ کر سکا – دوسرے دن (کل) تعزیت کے لیے حاضر ھؤا ، مگر دل کی بے چینی نے زیادہ دیر بیٹھنے نہ دیا – یہ سوچ سوچ کر آنسو ضبط کرنا مشکل ھو رھا تھا کہ اب وہ چہرہ نظر نہ آئے گا
انعام اللہ خان میرے استاد محترم عیسب خان نیازی کے صاحبزادے اور داؤدخیل سکول میں میرے سٹوڈنٹ تھے- اس لحاظ سے وہ میرے بھائی بھی تھے ، بیٹے بھی- ایک اور اھم بات یہ کہ انعام اللہ خان قبیلہ امیرے خیل کے اسی خاندان کے فرد تھے جس میں میرا بچپن گذرا – پہلے لکھ چکا ھوں کہ اس خاندان کے لوگ مجھے امیرے خیل شمار کرتے ھیں –
اپریل کے آخری دنوں میں داؤدخیل میں اپنے قیام کے دوران ایک دن کا پچھلا پہر میں نے انعام اللہ خان کے ھاں گذارا – ان کے دونوں چھوٹے بھائی نعیم اللہ خان ، حمیداللہ خان ، اور ان کے ایک صاحبزادے بھی شریک محفل تھے- میرے آنے پر انعام اللہ خان حسب معمول بے حد خوش تھے – مجھے انہوں نے اپنے زرعی رفارم کے بارے میں بھی بتایا ، اور مجھے یہ فارم دیکھنے کی دعوت دی ، جمعہ کا دن طے ھؤا ۔ مگر بخار کی وجہ سے میں نہ جاسکا –
انعام اللہ خان کا مجھ سے پیار ، محبت اور احترام سے آگے عقیدت کی سرحدوں کو چھوتا تھا – میں تو ایک گنہگار سا انسان ھوں ، مگر انعام اللہ خان مجھ سے پیرومرشد جیسا سلوک کرتے تھے- اللہ جانے ان کی اس عقیدت میں کیا راز تھا ، مجھ میں تو ایسی بات نہیں – 3 مئی کو میں نے اپنی پوسٹ میں انعام اللہ خان سے ملاقات کا ذکر لکھا – اس پوسٹ پر کمنٹ میں انعام اللہ خان نے لکھا :
” سر، اب تو فارم پر آپ کی آمد کا عرصہ بہت لمبا ھوگیا ، اب تو عید کے بعد ھی زیارت نصیب ھوگی – چلو، جو مزا پیاروں کے انتظار میں ھے وہ کسی اور چیز میں نہیں – اللہ تعالی آپ کو بخیریت رکھے ، آمین ”
اس کمنٹ سے صرف بارہ دن بعد اچانک پتہ چلا کہ میرا انتظار کرنے والا ، مجھے قیامت تک کے انتظار میں مبتلاکرکے اس دینا سے چلا گیا – رب کریم مرحوم کو اپنی رحمت خاص کا سایہ نصیب فرمائے – کچھ سمجھ میں نہیں آ رھا کیا لکھوں – ———————–
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 19 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
میری کتاب “پس تحریر“ میں دوسرا انٹرویو میرزا ادیب کا تھا – میرزا ادیب بہت سینیئر افسانہ نگار اور ڈراما نگار تھے – بالخصوص ایک ایکٹ کا ڈراما (ایک ھی قسط کا مکمل ڈراما) بہت کمال کا لکھتے تھے – ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان کے بہت سے ڈرامے نشر ھوئے – ان کے ڈراموں کا موضوع عام لوگوں کی زندگی تھا – یہ ڈرامے آج کل کی زندگی کی بہت سچی تصویریں پیش کرتے تھے – واقعات اور ڈائیلاگ بہت دلچسپ ھوتے تھے – اس کارکردگی کی بنا پر میرزا ادیب کو کئی ایوارڈزبھی ملےمیرزا ادیب کا اصل نام دلاور بیگ خان تھا – ان کا آبائی گھر لاھور میں داتا صاحب کے نواح میں موھنی روڈ پر واقع تھا – ان کے والد مزدور تھے – بہت غریب گھرانہ تھا – میرزا ادیب کی آپ بیتی “مٹی کا دیا“ میں ان کے بچپن کی داستان پڑھتے ھوئے آنسو روکنا مشکل ھو جاتا ھے.
میرزا ادیب مشہورومعروف ادبی رسالہ “ادب لطیف“ کے ایڈیٹر بھی رھے – گوشہ نشین آدمی تھے – ادبی حلقوں میں اٹھنے بیٹھنے سے گریز کرتے تھے، انہیں ھمیشہ یہ شکایت رھی کہ ان کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے -\
میں نے “پس تحریر“ کے لیے انٹرویو کا سوال نامہ بھیجا تو بہت خوش ھوئے – ایک خط میں لکھا یہاں کے لوگ تو مجھے زندہ دفن کر چکے تھے ، آپ نے مجھے کیسے ڈھونڈھ نکالا –
کتاب کی اشاعت پر بہت خوش ھوئے – زندگی کے بقیہ دوچار سال مجھ سے باقاعدہ خط وکتابت کرتے رھے – تقریبا ھر ھفتے ان کا خط آتا تھا – کبھی میری طرف سے جواب میں دیر ھو جاتی تو ناراض ھوتے تھے — یہ دکھ ھمیشہ رھے گا کہ ان سے ملاقات کا اعزاز نصیب نہ ھو سکا-
اللہ جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے، بہت شفیق بزرگ تھے –
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 20 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
“پس تحریر“ میں تیسرا انٹرویو احمد ندیم قاسمی کا تھا – قاسمی صاحب ایک عہد ساز ادبی شخصیت تھے – بہت سے قدآور شاعروں اور ادیبوں نے قلم پکڑنا ان سے سیکھا – آج کے بے شمار سینیئر شاعر اور ادیب قاسمی صاحب کی عنایات کے مقروض ھیں –
احمد ندیم قاسمی ضلع خوشاب میں وادیء سکیسر کے مشہور قصبہ انگہ کے معزز اعوان گھرانے کے چشم و چراغ تھے – اصل نام احمد شاہ اعوان تھا ، قلمی نام احمد ندیم قاسمی – ان کا گھرانہ علاقے کا بڑا زمیندار گھرانہ بھی تھا ، پیرومرشد گھرانہ بھی – احمد ندیم قاسمی نے پیری مریدی کی بجائے اپنی الگ راہ متعین کی – انہوں نے بی اے کرنے کے بعد ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا – ادب لطیف ۔ سویرا اور نقوش جیسے بلند پایہ رسالوں کے ایڈیٹر رھے- بعد میں “فنون“ کے نام سے اپنا رسالہ نکالا ، جو ان کے دم آخر تک باقاعدہ شائع ھوتا رھا- انجمن ترقی پسند مصنفین کے قائدین میں شمار ھوتے تھے- انسان سے محبت ان کی شاعری اور افسانہ نگاری کی روح رواں ھے-اردو ادب کی دو سو سالہ تاریخ میں احمد ندیم قاسمی واحد مثال ھیں جو صف اول کے شاعر بھی تھے ، افسانہ نگار بھی – رب کی دین ھے جس کو جو چاھے دے دے – شاعری میں فیض اور ساحر لدھیانوی جیسے لیجنڈز کے ھم پلہ اور افسانہ نگاری میں منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور غلام عباس کے ھم قد تھے- شاعری کے دس مجموعے ۔ افسانوں کی پندرہ کتابیں دے کر ادب کو مالا مال کر گئے – دیہاتی زندگی کی سادگی اور معصومیت کی عکاسی ان کے افسانوں کا طرہ ءامتیاز ھے –
قاسمی صاحب ایک کامیاب اور مقبول کالم نگار بھی تھے – نظم ، نثر دونوں میدانوں میں قاسمی صآحب کی تحریریں اردو ادب کی شاھکار تحریریں شمار ھوتی ھیں – مقدار اور معیار دونوں لحاظ سے ان کا کام اپنی مثال آپ ھے ———- رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 21 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
کبھی کبھی یوں لگتا ھے ھم سب بارود کے ڈھیر پہ بیٹھے ھیں – ذرا سی چنگاری سب کچھ جلا کر راکھ کر سکتی ھے – یہ محض وھم نہیں ، اللہ توفیق دے تو قرآن کھول کر دیکھ لیں – بڑی بڑی مضبوط سلطنتیں صفحہء ھستی سے مٹ گئیں – کسی قوم کو دریا میں غرق کردیا گیا ، کسی پر آسمان سے پتھر برسائے گئے – کسی ملک کو زلزلے نے تہ و بالا کر دیا – کبھی صرف ایک ھولناک چیخ جیسی آواز فضا میں گونجی او دھشت سے لوگوں کے کلیجے پھٹ گئے –
ڈر اس بات کا ھے کہ جن جرائم پر قہر الہی ان صورتوں میں نازل ھؤا ، وہ سب آج کے معاشرے میں کھلم کھلا ھو رھے ھیں – اس لیے کسی بھی وقت کچھ بھی ھو سکتا ھے ھو رھی ھے فرشتہ نامی معصوم بچی کے ساتھ ھونے والے ظلم کی – ایسی ھی ایک مسخ شدہ بچے کی لاش ھری پور کے علاقے سے بھی ملی ھے – ایسے انسانیت سوز واقعات دو چار سال سے مسلسل ھو رھے ھیں – حکومت جو بھی ھو مجرموں کو کیفر کردار تک پہچانے کی بڑھک لگا کر خاموش ھو جاتی ھے – ھوتا کچھ بھی نہیں –
مظلوم بچوں کے والدین کی درخواست پر پولیس ایف آئی آر تک درج نہیں کرتی –
اس جرم میں ھمارا قانون بھی شریک ھے – بلکہ ھم سب مجرم ھیں – ایسے جرائم کی روک تھام ھم سب کا فرض ھے – ھر گلی محلے کے لوگ مل بیٹھ کر لائحہ ء عمل تیار کر سکتے ھیں – مشکوک لوگوں پر نظر رکھی جائے – والدین بچوں ، بچیوں کو آزاد گھومنے پھرنے سے روکیں – بہت کچھ ھو سکتا ھے –
ھمارے سیاست دان حضرات ایک دوسرے کو گالیاں دینے سے کچھ وقت بچا کر ایک ایسا قانون بنا دیں کہ مجرموں کو جلد سر عام پھانسی دی جا سکے –
بہت سی تجاویز اور بھی ھو سکتی ھیں – کچھ نہ کچھ کرنا ضرور چاھیے – ورنہ یاد رکھیں جب عذاب کا فیصلہ ھوتا ھے تو کوئی نہیں بچتا – اچانک بیٹھے بٹھائے زمین ذرا سی لرزتی ھے ، یا بادل گرجتا برستا ھے اور سب کچھ ملیا میٹ ھو جاتا ھے – حکومت ، اپوزیشن ، فوج ، عدلیہ ، میڈیا ، عوام ، کچھ بھی باقی نہیں بچتا -وماعلینا الا البلاغ ———
رھے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک– 22 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
اس بے رحم دور میں لوگوں کو ھنسانا بھی بہت نیک کام ھے – مزاح نگار اور مزاحیہ اداکار یہی کام کرتے ھیں – یہ آسان کام نہیں – اکثر مزاح نگار اور مزاحیہ اداکار گھسے پٹے گھٹیا لطیفوں سے کام چلالیتے ھیں – شائستہ اور بامقصد مزاح لکھنے والے میری نظر میں صرف تین ھیں ، پطرس بخاری ، ابن انشآء اور شفیق الرحمن – افسوس کہ ان تینوں میں سے کوئی بھی اب اس دنیا میں موجود نہیں –
آج ذکرجناب شفیق الرحمن کا –
شفیق الرحمن ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے – ایم بی بی ایس کرنے کے بعد فوج کی میڈیکل کور میں کیپٹن بھرتی ھو گئے اور جنرل ریٹائر ھوئے – بہت خوبصورت مزاحیہ کہانیاں لکھتے تھے – ان کی کہانیوں کے کئی مجموعے شائع ھوئے – ان کہانیوں کے کرداروں کے نام بھی بہت دلچسپ ھیں – مثلا شیطان ، حکومت آپا ، مقصود گھوڑا وغیرہ –
دربار نادر شاھی کے عنوان سے شفیق الرحمن کی ایک کہانی کچھ یوں ھے “>دربار شاھی میں ایک وزیر باتدبیر تشریف لائے , جلیبیوں سے بھرا ھؤا لفافہ ان کے ھاتھ میں دیکھ کر بادشاہ سلامت نے پوچھا یہ کیا ھے ؟<
وزیر نے کہا “ جہاں پناہ ۔ کسی دشمن نے یہ افواہ اڑا دی کہ آپ فوت ھو گئے ھیں – میں بازار سے گذرا تو دیکھا کہ بد تمیز لوگ اس خوشی میں ڈھولوں کی تھاپ پہ ناچ رھے تھے – ایک دکاندار اس خوشی میں جلیبیاں بانٹ رھا تھا – مفت کی چیز تھی میں نے بھی لے لی –
بادشاہ سلامت نے جلیبییاں چکھ کر دیکھیں تو فرمایا “ لذیذ ھیں ، جاؤ اور بھی لے آؤ“
میں نے تو اپنے الفاظ میں یہ کہانی سمیٹ دی – اصل مزا شفیق الرحمن کے اپنے الفاظ میں ھے –
اگر آپ اداس رھتے ھیں تو میرا مشورہ ھے شفیق الرحمن کی کتابیں پڑھیں – چند کتابوں کے نام یہ ھیں –
پرواز
حماقتیں
مزید حماقتیں
کرنیں
لہریں
بہت سی اور بھی ھیں –
میری کتاب “پس تحریر“ میں چوتھا انٹرویو شفیق الرحمن کا تھا –
رھے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک– 23 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
“پس تحریر“ میں آخری انٹرویو ڈاکٹر سلیم اختر کا تھا – ڈاکٹر سلیم اختر ادب کی دنیا کا بہت بڑا نام ھے – گورنمنٹ کالج لاھور ( آج کا GCU ) کے شعبہ ء اردو میں پروفیسر تھے –
1994 میں ریٹائر ھوئے – اپنی علمی و ادبی خدمات کی بنا پر ادب کی مشہور ترین شخصیات میں شمار ھوتے تھے- ادب کی جھولی میں 88 کتابیں ڈال کر 2018 کے آخری دنوں میں اس دنیا سے رخصت ھو گئے -افسانہ نگاری کے علاوہ ڈاکٹر سلیم اختر نے تنقید ، نفسیات اور غالبیات و اقبالیات کے کئی اھم موضوعات پر بھی کتابیں لکھیں – ان کی سب سے معروف و مقبول کتاب “ اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ “ ھے جو پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کی یونیورسٰٹیز کی ایم اے اردو کے لیے Recommended books میں شامل ھے – یہ کتاب انڈیا میں بھی بار بار شائع ھوتی رھتی ھے –
ڈاکٹر سلیم اختر میرے بہت مہربان دوست تھے – گورنمنٹ کالج لاھور کے علاوہ سنگ میل پبلشرز کے ھاں بھی ان سے ملاقات ھوتی رھتی تھی – تقریبا دوسال پہلے گورنمنٹ کالج برا ئے خواتین میانوالی کی پروفیسرمحترمہ نصرت نیازی نے میرے بارے میں اپنے ایم فل کے مقالے کے لیے ڈاکٹر سلیم اخترصاحب کی میرے بارے میں راے لینے کی خاطر فون پر رابطہ کیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا “ فالج کی وجہ سے میں لکھنے سے معذور ھو گیا ھوں – میں اپنی رائے زبانی آپ کو لکھوا دیتا ھوں “ – یہ کہہ کر انہوں نے مختصر مگر جامع رائے لکھوادی –
ڈاکٹر سلیم اختر کے بارے میں کئی کتابیں بھی لکھی گئیں ، آئندہ بھی لکھی جائیں گی – سب سے مستند اور مؤثر کتاب ڈاکٹر طاھر تونسوی کی کتاب “ھمسفر بگولوں کا“ ھے –
رھے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک– 25 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
گذشتہ ھفتے ڈی آئی خان ( ڈیرہ اسمعیل خان) سے سہ ماھی ادبی رسالہ “عطاء“ کا تازہ شمارہ , تازہ معطر ھوا کا جھونکا بن کر وارد ھؤا – یہ سہ ماھی رسالہ عظیم فارسی شاعر عطاءاللہ خان عطاء کی یاد میں ان کے اھل خانہ اور عقیدتمند وں نے جاری کیا تھا – عطاءاللہ خان عطاء علامہ اقبال کے بعد ارض پاک کے سب سے بڑے فارسی شاعر تھے –
اس رسالہ کے مدیر عنایت اللہ خان گنڈاپور اس سال مارچ کے آخر میں دنیا سے رخصت ھوگئے تو رسالے کی ادارت انجینیئر ذکاءاللہ خان نے سنبھال لی – ذکاءاللہ خان واپڈا میں انجینیئر ھیں – بہت رواں اور شستہ نثر لکھتے ھیں – انجینیئر کا صاحب قلم ھونا کوئی انوکھی بات نہیں – اردو ادب کے شاھکار ناول “اداس نسلیں“ کے مصنف عبداللہ حسین بھی انجینیئر تھے – انہوں نے یہ ناول سکندرآباد ( داؤدخیل) کی سیمنٹ فیکٹری میں تقرر کے زمانے میں لکھا – انگریزی ادب کے نامور ناول نگار تھامس ھارڈی بھی انجینیئر تھے-“>ذکاءاللہ خان کی محنت اور حسن انتخاب نے سہ ماھی جریدہ “عطاء“ کو تازہ ترین ادبی تخلیقات کا نمائندہ انتخاب بنا دیا – حمد، نعت ، نظم ، غزل ۔ افسانہ ، تحقیقی مضامین ، سب کچھ اس دسترخوان پر موجود ھے- بہت بڑے بڑے , مشہور و معروف اھل قلم کی تحریریں اس رسالے کی زینت ھیں – ھمارے مہربان دوست نسیم سحر اور عزیزم ریاض ندیم نیازی کی نعتیں اس رسالے کی اھمیت کا منہ بولتا ثبوت ھیں – مرحوم پرتوروھیلہ کا عطاءاللہ خان عطاء کی فارسی شاعری کا جائزہ ، اور ڈاکٹر انور زاھدی کا خصوصی مطالعہ تنقیدی بصیرت کے عمدہ نمونے ھیں – حصہ غزل اور افسانے بھی آج کے طرزفکرو احساس کی عمدہ نمائندگی کرتے ھیں –
ذکاءاللہ خان کی آپ بیتی کا زیر نظر باب اھل میانوالی کے لیے خصوصی دلچسپی کا حامل ھے کہ اس میں ذکاءاللہ خان نے میانوالی میں اپنی تعیناتی کے دور کی یادیں تحریر کی ھیں – اس باب میں میانوالی کی تاریخ اور جغرافیہ کے بارے میں بھی قابل قدر معلومات ملتی ھیں –
میانوالی کے بارے میں ھم لوگ بڑے فخر سے کہا کرتے ھیں کہ جو بھی سرکاری افسر یا ملازم یہاں آئے روتا ھؤا آتا ھے کہ ھائے مجھے کہاں بھیج دیا ، اور جب یہاں سے ٹرانسفر ھو کر جائے تو روتا ھؤا جاتا ھے کہ ھائے مجھے یہاں سے دوسری جگہ کیوں بھیج دیا – ذکاءاللہ خان کے مضمون سے بھی اس حقیقت کی تصدیق ھوتی ھے –
ڈی آئی خان جیسی دورافتادہ جگہ پر روشن ھونے والے ادب کے چراغ سہ ماھی عطاء کو زندہ رکھنا ھم سب کا فرض ھے – ذکاءاللہ خان نے تو تعاون کی اپیل نہیں کی ، لیکن میں یہ سمجھتا ھوں کہ یہ ھمارا اخلاقی فرض ھے – ادب کے تمام شائقین یہ رسالہ ضرور پڑھیں – مفت نہ مانگیں ، دوسو روپے کوئی بڑی رقم نہیں – یہ رسالہ کمشنری بازار ڈیرہ اسمعیل خان سے شائع ھوتا ھے – رابطے کا نمبر یہ ھے -0300- 5989866
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 26 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
ھر سال رمضان المبارک ، عید ، اور محرم کے حوالے سے کچھ نہ کچھ لکھتا رھتا ھوں – صرف آپ کے لیے نہیں ، اپنے لیےبھی ، کہ گئے دورکی خوشبوئیں ، رنگ اور ذائقے میرے قلم سے اپنا حق مانگتے رھتے ھیں – آج سے اگلے چند روز کے لیے رمضان المبارک اور عید کا تذکرہ رھے گا –
ھمارے بچپن کے دور میں پورے شہر (داؤدخیل) میں سحری کا ایک ھی کھانا ھر گھر میں بنتا تھا – پتلے آٹے کی خالص دیسی گھی میں تلی ھوئی وشلی Washilli , , اس کے اوپر شہد جیسی میٹھی پشاوری شکر کی ننھی سی ڈھیری جسے انگوٹھے سے دبا کر پیالے کی شکل دے دی جاتی تھی ، اور اس پیالے میں خالص گھی ڈال کر نوالے اس میں ڈبو کر کھائے جاتے تھے-وشلی کے دو بڑے فائدے یہ تھے کہ ایک تو توانائی کا خزانہ ھوتی تھی – دوسرا فائدہ یہ کہ اس سے دن بھر پیاس نہیں لگتی تھی – آپ بے شک کہتے رھیں ،اس گرمی میں خالص گھی اور شکر ، توبہ، توبہ — بزرگوں کی اپنی سائنس ھوتی تھی ، اور وہ سو فیصد درست ثابت ھوتی تھی –
وشلی بنانا ویسے تو کچھ مشکل نہیں ، کسی بھی وقت بن سکتی ھے – لیکن اس زمانے میں وشلی صرف رمضان المبارک کے لیے مخصوص تھی- اسی لیے رمضان المبارک ختم ھونے کو آتا تو اکثر بزرگ خواتین و حضرات یہ کہتے سنائی دیتے ——– لنگھ گئے روزے وڈا ارمان وشلیاں دا –
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ –
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 27 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
اے، سی ، فریج ، پنکھے کا تو وجود ھی نہ تھا کہ ابھی بجلی ھمارے علاقے میں نہیں آئی تھی – ان چیزوں کے بغیر شدید گرمی کے طویل دن روزے کے ساتھ گذارنا آپ کو ناممکن لگتا ھو گا ، اس زمانے کے لوگوں کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہ تھا – اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ لوگوں کا ایمان مضبوط تھا – دوسری وجہ یہ کہ لوگ جس ماحول میں رھتے ھیں اس کے عادی ھو جاتے ھیں – گرمی ھمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھی –
دوپہر تک کا وقت لوگ چل پھر کر کام کاج میں گذاار لیتے تھے – دوپہر کو گھر کے نلکے یا کنوئیں پر کپڑوں سمیت نہا کر پانی سے شرابور لباس کے اوپر ایک اور گیلی چادر اوڑھ کر چھپر کے سائے میں مزے کی نیند سو جاتے تھے – چھپر ھر گھر میں ھوتا تھا – کچھ مدد اللہ تعالی کر دیتا تھا کہ دن بھر ھلکی ھلکی ھوا چلتتی رھتی تھی – گیلا لباس اور ھلکی ھلکی ھوا– اے سی کی ایسی تیسی — دن مزے سے گذر جاتا تھا – ظہر کی نماز کے بعد ایک بار پھر نہاکر سوجاتے – عصر کے وقت اٹھ کر افطاری کی تیاریوں میں مشغول ھو جاتے – روزوں کے گذرنے کا پتہ ھی نہ چلتا تھا ->مردوں کے برعکس خواتین دن بھر گھر کے کسی نہ کسی کام میں لگی رھتی تھیں – اپنا دن گذارنے کے لیے کوئی نہ کوئی کام روزانہ نکال لیتی تھیں – گھر کی صفائی ، بچوں کا کھانا بنانا ، چکی پر گندم پیسنا ، بچوں کے پھٹے پرانے کپڑوں کو پیوند لگانا ، بے شمار کام ھوتے تھے ، اور وہ یہ سب کام اپنی خوشی سے کرتی تھیں –
بہت ، سیدھے سادے ، ایمان دار ، فرض شناس لوگ تھے – اسی لیے رب کریم نے انہیں سکون اور اطمینان سے بھی مالا مال کر رکھا تھا –گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
—-بشکریہ-منورعلی ملک-28 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
رمضان المبارک کے آخری آٹھ دس دن سیویاں (ھم سیمیاں seemiyan کہتے تھے) بنانے کا عمل زوروشور سے جاری رھتا تھا – باریک بازاری سویاں دیہات میں کہاں – لوگ گھروں میں بناتے تھے – یہ موٹی سیمیاں ھماری نانیاں دادیاں اپنے ھاتھوں سے بنایا کرتی تھیں – لسی والی ماٹی کو الٹا رکھ کر اس پر گوندھے ھوئے آٹے کا پیڑا رکھتے اور دونوں ھاتھوں کو آگے پیچھے حرکت دیتے تو ماٹی کے دونوں جانب ایک لمبی سی سیمی بن جاتی تھی – اس طرح بہت سی سیمیاں بنا لیتے تھے – یہ ٹیکنالوجی میرے الفاظ آپ کو نہیں سمجھا سکیں گے – جس نے یہ عمل ھوتے دیکھا ھو وھی سمجھ سکے گا ھمارے بچپن کے دور میں سیمیاں بنانے والی مشینیں آگئیں – ھاتھوں سے سیمیاں بنانے والی نانیاں دادیاں قبروں میں جاسوئیں – ان کی جگہ مشینوں نے لے لی – سیمیاں بنانے والی مشین کو دیہات میں “گھوڑی” کہتے تھے
جس گھر میں گھوڑی ھوتی وھاں دن بھر سیمیاں بنانے والی خواتین کا میلہ لگا رھتا تھا- اپنا اپنا آٹا سب گھر سے گوندھ کر لاتی تھیں- مشین کے منہ میں آٹے کا پیڑا ٹھونس کر ھینڈل کو گھماتے تو سیمییوں کے لچھے مشین میں سے نکلتے ، جنہیں دھوپ میں پڑی چارپایئوں پر بچھی ھوئی چادروں پر سلیقے سے سجاتے رھتے – ایک دو گھنٹے میں سیمیاں سوکھ جاتیں تو انہیں سمیٹ کر گھر لے جاتے –
مشین کے ھینڈل کو گھمانا خاصا مشقت طلب کام تھا – یہ کام عموما بچوں کی منت خوشامد کر کے ان سے لیا جاتا تھا – یا ھر محلے میں کوئی ایسا سیدھا سادا بھولا بھالا مرد مل جاتا تھا جسے سب خواتین “ماما“ کہہ کر دن بھر کام میں لگائے رکھتی تھیں – ھمارے محلے میں یہ خدمت ھمارے ماموں غلام فرید ھاشمی سرانجام دیتے تھے –
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 29 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
عید کی نماز پڑھ کر واپس آتے تو تازہ بنی ھوئی گرما گرم سیمیاں ھمارا استقبال کرتیں –
سیمیاں پکانے کا طریقہ بالکل سادہ تھا – سیمیوں کو پانی میں ابال کر چھلنی یا باریک کپڑے سے چھان کر پانی نکال دیتے – پھرسیمیوں کو مٹی کی پرات ( صحنک) میں ڈال کر گھر کا خالص دیسی گھی اور سرخ پشاوری شکر ملا کر کھایا کرتے تھے سیمیاں ، گھی اور شکر تو آج بھی ملتی ھے، مگر وہ پہلے والی بات اب کہاں – سیمیاں کیمیائی کھاد سے پاک بارانی گندم کے چکی پر پیسے ھوئے موٹے آٹے کی بنتی تھیں ، گھی گائے کا ھو یا بھینس کا ان مویشیوں کی خوراک کھاد والے پودے نہیں بلکہ قدرتی خود رو پودے ھوتے تھے – شکر پشاور ، مردان سے آتی تھی – ان چیزوں کی خوشبو اور ذائقہ ھی کچھ اور تھا
آج کل جو کھیر مکس اور بازاری خوراک چل رھی ھے ، یہ بھی اپنی جگہ بہت مزیدار ھوتی ھے – مگر ذائقے اور توانائی میں پرانے دور کی چیزیں اپنی مثال آپ تھیں – یہ جو میں پوسٹس میں ایسی چیزوں کا ذکر کرتا رھتا ھوں یہ تو
توں نئیں تے تیریاں یاداں سہی
کے مصداق اپنا دل بہلانے کے لیے لکھتا ھوں – ان پرانی چیزوں کے ذکرسے ان ماؤں بہنوں کی یادیں بھی تازہ ھو جاتی ھیں ، جو بہت پیارسے یہ چیزیں بنایا کرتی تھیں –
رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 30 مئی 2019
میرا میانوالی—————-
عید کے دن کی ایک خاص عیاشی مرغی کا سالن ھؤا کرتی تھی – مرغی کا سالن عید کے علاوہ سال بھر میں بمشکل ایک آدھ بار کسی بہت اھم مہمان کی آمد پر ھی بنتا تھا –
دیہات کے ھر گھر میں دوچار مرغیاں ضرور ھوتی تھیں – یہ دیسی مرغیاں مختلف رنگوں کی ھوتی تھیں – سردیوں میں ان کے انڈے کھائے جاتے ، گرمیوں میں انڈوں سے بچے نکلوا کر مرغیوں کی تعداد میں اضافہ کر لیا جاتا تھا – تعداد زیادہ ھو جاتی تو کچھ مرغیاں بیچ کر گھر کی ضرورت کی دوسری چیزیں خرید لی جاتی تھیںمرغی کی مامتا مثالی ھوتی ھے – کسی انسان یا جانور کو آتے دیکھ کر بچوں کو اپنے پروں تلے سمیٹ لیتی ھے ، اور لڑنے مرنے پر تیار ھو جاتی ھے – شیر بھی ادھر کا رخ کرے تو اس سے بھی ٹکرانے سے گریز نہیں کرے گی-
بات عید پر مرغی کے سالن کی ھو رھی تھی – ھر گھر میں مرغی ذبح ھوتی تھی – مرغیوں کو گھر کے افراد سمجھا جاتا تھا- اس لیے مرغی ذبح ھونے پر خواتین اور بچے تھوڑا بہت رونا دھونا بھی ضرور ڈالتے تھے –
خالص دیسی گھی میں اپنے ھاتھوں سے پسے ھوئے خالص مصالحوں سے جو سالن اس دور کی خواتین بناتی تھیں ، اس کی خوشبو اور ذائقہ یہ الفاظ لکھے وقت بھی محسوس ھورھا ھے –
اس سے ملتا جلتا مرغی کا سالن چوبرجی لاھور میں خان بابا کے ھوٹل پر بھی ملتا ھے – تلہ گنگ میانوالی روڈ پر بھی ایک بابا یہ سالن بناتے تھے ، پتہ نہیں اب ھیں یا نہیں ————————————رھے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک– 31 مئی 2019