باب دوم
محمد حامد سرا ج کے افسانوں کا فکر ی و فنی جائزہ
محمد حامد سراج کے افسانوں کاموضوعاتی مطالعہ
اردو افسانے کا میدان بہت وسیع ہے اس میں ہر موضوع اپنی جزئیات کے ساتھ سما سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے منشی پریم چند سے لے کر محمد حامد سراج تک نے اسے اپنے سانچے میں ڈھالا ہے۔ وہ دیہی زندگی کی پگڈنڈیاں ہوں یا شہری سماج کی غلام گردشیں۔۔۔ وہ قیام پاکستان کے وقت فسادات کا زمانہ ہو یا مارشل لا کی پابندیوں کا علامتی اظہار۔۔۔ ایک محبت سو افسانے ہوں یا عشق حقیقی کی تلاش ، الغرض کوئی ایسا موضوع نہیں جو افسانے کے مزاج سے آنکھ چرائے۔۔۔
محمد حامد سراج کے افسانوں کا مرکزی موضوع انسان اور سماج کا تال میل ہے۔ اُن کے افسانوں کی خوبصورتی اُن کے اپنے مشاہدے اور تجربے کے نقوش ہیں۔ اُن کی کہانیاں زمین سے اٹھتی ہیں۔ اس لیے اُن میں اپنائیت کا احساس سوا ہے۔ انسانی زندگی ، سماج اور کائنات کے پیشِ نظر ان کا نقطہ نظر روحانی اور ذہنی ہے۔ ان کے افسانے داخلیت اور خارجیت کی ہم آہنگی کے ساتھ مشاہدات کو لفظ عطا کرتے ہیں۔
محمد حامد سراج کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’وقت کی فصیل‘‘ ہے۔ اس میں انہوں نے عالمی منظر نامے سے لے کر درونِ ذات کے معاملات کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ ڈاکٹر محمد غالب نشتر اسی حوالے سے کہتے ہیں:
’’ محمد حامد سراج کی افسانوی شناخت اس بات میں مضمر ہے کہ اُن کے پاس موضوعات کا تنوع ہے اس لیے وہ ایک ہی موضوع کا طواف نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں کسی ایسے افسانوی مزاج سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔‘‘
خانگی زندگی کے مدوجزر:
محمد حامد سراج کے افسانوں کا موضوع ’زندگی‘ ہے اور زندگی بہت سے عناصر سے ترکیب ہے۔ گھریلو زندگی اور رشتے ناتے اس کا ایک اہم جزو ہیں۔ ایک تخلیقی ذہن کبھی بھی اپنے قرب و جوار سے بے بہرہ نہیں رہ سکتا۔ محمد حامد سراج نے بھی حقیقت نگاری کے سانچے میں ان موضوعات کو نہایت چابک دستی سے برتا ہے کہ سب کہانیاں دیکھی بھالی محسوس ہوتی ہیں۔
مسافر تو گیا (وقت کی فصیل)
مصنف ، مادیت پر روحانیت کو ترجیح دیتا ہے۔ اس میں اس بات کی طرف نشاندہی کی گئی ہے کہ جب انسان اس عالم رنگ و بو میں تنہا رہ جائے اور کوئی محرم حال پاس نہ ہو تو ماں ، باپ، بہن بھائی اور قریبی رشتے دار یاد آتے ہیں ۔ آج کے اس مادی دور میں مال و متاع ، انس و محبت پہ بھاری ہیں۔ رشتے ناتوں کی دیواریں بُھر بھری مٹی سی چُنی گئی ہیں ۔
’’ کلثوم کے طعنوں کا کینسر حکیم جی کی ہڈیوں میں سرایت کرنے لگا۔ وہ غصے سے کپکپا رہے تھے۔ میں نے تمہیں کیا نہیں دیا۔ محبت، دولت، شہرت، حویلی، زیور۔۔۔اور۔۔۔تم۔۔۔تم نے مجھے کی دیا۔۔۔ نفرت اور عیاری۔۔۔! دالان کے ایک کونے میں پڑا ہوں ، یہاں سے بھی نکال پھینک۔ اللہ کی زمین بہت بڑی ہے کہیں تو پناہ مل جائے گی۔۔۔تو۔۔۔تو۔۔۔جا، میں تجھے گالی بھی نہیں دیتا۔
بڈھے خبیث، دفع ہو یہاں سے۔۔۔
کلثوم نے حکیم جی کو گھسیٹ کر باہر پھینکا اور کنڈی چڑھا لی۔ ‘‘
لالٹین جلتی رہے گی (چوپ دار)
گھر ایک اکائی کا نام ہوتا ہے جس کی بنیادیں، ایثار، صبر، برداشت اور باہمی احترام پر اُستوار ہوتی ہیں۔ اس افسانے میں گھریلو ، خاندانی زندگی کے بکھرنے اور جڑنے کو بڑے موثر انداز سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر احترام اور اپنائیت باقی نہ رہے تو اس شیرازے کو بکھرنے سے کوئی نہیں روک پاتا۔
’’مشترکہ خاندانی نظام کا تانا بانا بکھرنے کا سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا ہے کہ ہر فرد تنہا ہو گیا ہے۔ دوسرا ہر آدمی اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتا ہے۔ زرداری کی اندھی دوڑ نے عقل پر پٹی باندھ دی ہے۔ چھوٹے بڑے کی تمیز ختم ہو گئی ہے۔ احترام کا لفظ متروک ہو چلا ہے۔ خاندان میں ایک بزرگ کی اہمیت اور اس کے فیصلے ہمیں بہت سی قباحتوں سے بچا لیتے تھے۔ بزرگ کے ختم ہونے سے خاندان کی مرکزی حیثیت ختم ہو گئی ہے۔‘‘
مکینک کہاں گیا ( چوب دار)
یہ افسانہ باپ بیٹے کے رشتے کی نفسیاتی الجھنوں سے عبارت ہے۔ بچوں کے مسائل سے باخبر رہنا نہایت ضروری ہے اور اُن کی عزت نفس کا خیال رکھنا لازم ہے جبکہ بچوں کو بھی چاہیے کہ وہ بڑوں کو وہ مقام دیں جو اُن کا حق ہے اور اُن کی توقعات پہ حتیٰ الامکان پورا اتریں۔ والدین کا بے جا غصہ اور مارپیٹ ، بچے کی شخصیت کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے۔
’’ دل پر لگنے والی چوٹ گہری تھی، من میں اترنے والا گھاؤ شدید تھا۔ اس کی آنکھیں جھکی تھیں۔ پاؤں کے انگوٹھے سے وہ زمین کرید رہا تھا۔ آنکھیں اُٹھانا اس کی تربیت کے خلاف تھا جو اس کی طبیعت اور مزاج کا بچپن سے حصہ تھی۔ وہ آنکھیں اٹھا کر باپ کے سامنے گستاخی کا مرتکب نہیں ہونا چاہتا تھا۔ باپ اسے تھپڑ دے مارتا تو وہ سہہ جانا آسان تھا لیکن باپ کی آنکھ میں اترا غصہ اس کے وجود کو ریزہ ریزہ کر گیا۔ اپنے وجود کے ریزے چن کر دوبارہ سانس بحال کر کے وہ کہیں نکل جانا چاہتا تھا لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ باپ کے غصے کو سہتے سہتے وہ جینا تو سیکھ گیا لیکن مجروح عزتِ نفس کی کرچیاں رات میں اس کے لیے باعثِ آزار ہو جاتیں۔ وہ سونے کو بستر پر لیٹتا تو پورے بستر پر عزتِ نفس کی کرچیاں کانٹوں میں بدل جاتیں۔ ‘‘
محمد حامد سراج کے افسانوں پہ تبصرہ کرتے ہوئے منیر احمد فردوس رقمطراز ہیں:
’’ ان کا سب سے بڑا وصف یہی ہے کہ وہ اپنے ذاتی تجربہ یا دُکھ کو کہانی کی پوشاک پہنا کر اس پر لفظوں کی ایسی ملمع کاری کرتے ہیں کہ وہ سب کا دُکھ بن جاتا ہے۔‘‘ (۵)
شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں کی فضا سے اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ تمام کردار دیکھے بھالے لگتے ہیں۔ محمد حامد سراج کا تعلق جس خاندانی پسِ منظر اور علاقے سے ہے وہاں خاندانی اختلاف کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔ ان اختلافات کا سبب، دنیاوی مال و متاع اور ایسے رویے ہیں جو دلوں میں نفرتوں کے بیج بوتے ہیں۔ ان افسانوں کے ذریعے محمد حامد سراج نے ان کا حل بھی تجویز کیا ہے کہ تواضع اور ایثار سے ان جھگڑوں کا ختم کیا جا سکتا ہے اور خود اُن کی اپنی زندگی بھی ایسے ہی مثبت رویوں کی امین تھی۔ خدا کی ذات پر کامل یقین اور لوگوں سے بے جا توقعات سے بچنا ہی پُر سکون زندگی کا پیش خیمہ ہے۔
افسانوی مجموعے ’ وقت کی فصیل‘ میں شامل افسانے ’پچھلا دروازہ‘ اور ’ ایک سو اکیاون‘ افسانہ نگار کے والدین کے خاکے ہی نہیں بلکہ ماں باپ جیسی ہستیوں کے اس دُنیا سے اُٹھ جانے کے بعد ان رشتوں کی صداقتوں کے آئینے بھی ہیں۔ اول الذکر افسانہ، بعد میں ’میا ‘ جیسی کتاب کا پیش خیمہ بنا ۔
’’ ماں کے بعد اسے یقین ہو گیا کہ دُنیا ایک ویران سرا ہے۔ گھڑونچی پر رکھے گھڑے میں پانی خشک ہو گیا، چھپر تلے چڑیوں کے گھونسلوں میں ان کے بچے مر گئے، آنگن میں لگے شرینہہ اور شیشم کے درختوں کو دیمک چاٹ گئی، صحن میں لگے ہینڈ پمپ کا پانی گر گیا، کمروں میں چمگارڈروں نے بسیرا کیا، اس کے والد کی دو نالی بندوق کے لکڑی کے دستے کو دیمک خوراک سمجھ کر چٹ کر گئی، گھر کی بوسیدہ دیواروں میں موت رینگنے لگی۔ اس نے ایک دن اپنے والد کی بوسیدہ ڈائری کے اوراق آیستگی اور نرمی سے کھولے تو ایک شعر پڑھ کر بہت رویا۔ ‘‘
جان کر منجملہ خاصانِ مے خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
’ایک سو اکیاون‘ میں والد کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ ابو جس عجلت اور تیزی سے زندگی کے مسائل نمٹاتے تھے، اسی تیزی سے انہوں نے آخرت کا سفر باندھا۔ اس کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ اس کے ابو خوابوں میں اسے تواتر سے ملتے رہے۔ کوئی خواب بھی ایسا نہیں تھا جسے خواب کہا جا سکے۔ ‘‘
ازدواجی زندگی کے مسائل:
حوا اور آدم کا رشتہ نوعِ انسانی کے تمام رشتوں کی ابتدا ہے۔ اور یہ رشتہ بذاتِ خود اپنے اندر بہت سے مدوجزر لیے ہوئے ہے۔ محمد حامد سراج نے بھی اس رشتے کی نا ہمواریوں اور تفاوت کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ میاں ، بیوی کے تعلق کی مضبوتی میں دو طرح کے بنیادی عوامل کار فرما ہوتے ہیں ۔ اول؛ رومانی، جذباتی اور جنسی ہم آہنگی اور دوم؛ معاشی اور معاشرتی مطابقت۔ محمد حامد سراج نےانہی پہ اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
اوریگان (وقت کی فصیل):
یہ افسانہ ایک ایسے جوڑے کی کہانی ہے جن کے ہاں معاشی آسودگی تو ہے لیکن جذباتی ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ اس میں بیوی کا کردار ایک ایسی وفا شعار عورت کا ہے جو اپنے خاوند کے لیے وطن کو چھوڑتی ہے جبکہ خاوند اُس پہ دوبارہ وطن جانے پہ پابندی عائد کر دیتا ہے۔ اس پہ سوا یہ کہ وہ اپنی بیوی کو وہ وقت بھی نہیں دیتا جو اُس کا حق ہو تا ہے۔ اُسے صرف پیسہ کمانے سے مطلب ہے۔ اور بیوی تنہائی کا شکار۔۔۔ یہی تنہائی اسے بیمار کر دیتی ہے اور وہ خاوند علی احمد کو تنہا چھوڑ کر اگلے جہان سُدھار جاتی ہے۔ یوں خاوند کی بقیہ زندگی اک المیہ بن جاتی ہے۔ بیوی کا المیہ مصنف بیان کرتے ہیں۔:
’’ علی احمد۔۔۔ میں نعمتوں کو نہیں ٹھکرا رہی۔ مجھے تم سے گلہ ہے تم نے مجھے وقت دیا؟ توجہ دی؟ گھر میں سہولیات ہیں لیکن تم تو نہیں ہو۔۔۔ مجھے تمہاری ضرورت ہے ۔ تم لوٹ آو تو شاید پاکستان نہ لوٹنے کا غم کچھ کم ہو جائے۔ تم گھر نہیں رہتے۔ میرے دل میں نہیں رہتے۔ جانے کہاں رہتے ہو؟‘‘
عورت کا معاملہ بڑا سادہ سا ہے کہ وہ پورا مرد مانگتی ہے اُسے ٹکڑوں میں بٹا شخص نہیں چاہیے۔
مسافر تو گیا( وقت کی فصیل ):
یہ افسانہ عورت کی جھوٹی محبت کا بیان ہے ۔ جسے صرف دولت کا طمع ہے اور شوہر محض روزگار کی مشین ہے۔ جب تک گھر میں آسودگی رہتی ہے بیوی بھی خوش رہتی ہے لیکن جب بیماری کی وجہ سے خاوند کمانے لائق نہیں رہتا تو بیوی اُسے نکال باہر کرتی ہے۔ دراصل یہ کہانی نہیں ہمارا اجتماعی معاشرتی رویہ ہے۔ ہمارے نزدیک صرف دولت ہی وہ واحد پیمانہ ہے جس سے رشتوں کی قدر کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ حکیم جی درد سے بلبلا رہا ہے:
’’ کلثوم کے طعنوں کا کینسر حکیم جی کی ہڈیوں میں سرایت کرنے لگا۔ وہ غصے سے کپکپا رہے تھے۔ میں نے تمہیں کیا نہیں دیا۔ محبت، دولت، شہرت، حویلی، زیور۔۔۔اور تم۔۔۔تم نے مجھے کیا دیا۔۔۔نفرت اور عیاری۔۔۔! دالان کے ایک کونے میں پڑا ہوں، یہاں سے بھی نکال پھینک۔ اللہ کی زمین بہت بڑی ہے کہیں تو پناہ مل جائے گی۔۔۔تو۔۔۔تو۔۔۔ جا، میں تجھے گالی بھی نہیں دیتا۔
بڈھے خبیث ، دفع ہو جا یہاں سے۔۔۔کلثوم نے حکیم جی کو گھسیٹ کر باہر پھینکا اور کنڈی چڑھالی۔ ‘‘
امام غزالی کا گمشدہ کردار (چوب دار):
ہمارے معاشرے میں میاں بیوی کا رشتہ بڑی الجھنوں کاشکار رہتا ہے۔ اس افسانے کا موضوع بڑا سادہ اور سیدھا سادہ ہے کہ اگر فریقین ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنا شروع کر دیں اور غلطیوں کو درگزر کریں تو ازدواجی زندگی خوش و خرم گزر سکتی ہے۔ زین کی بیوی کا غلطی کا اعتراف اُس پیار کی بدولت ہے جو اُن دونوں کے رشتے کی بنیا د ہے۔
’’ بس ۔۔۔کیا کہوں۔۔۔ آنکھ کھل گئی میری کہیں گہرے اندر سے آواز آئی، زیادتی ہمیشہ میری جانب سے ہوتی ہے۔ میں بلاسبب جھگڑ کر میکے کا رستہ پکڑ لیتی ہوں آج خیال آیا میرے گھر کا رستہ تو تمہارے دل سے گزر کر رُوح تک جاتا ہے۔۔۔ تم میری ہر زیادتی خندہ پیشانی سے برداشت کر لیتے ہو۔۔۔
کیا مجھ پر ترس کھا کر لوٹ آئی ہو۔۔۔؟ زین نے بیڈ لیمپ آف کرتے ہوئے پوچھا۔
نہیں۔۔۔ تم پر پیار آ گیا ۔۔۔!‘‘
محمد حامد سراج کا اپنے موضوع کی حمایت میں طرز قلم ناصحانہ ہوتا ہے۔
چائے کی پیالی( برائے فروخت):
شک ایسا دیمک ہے جو رشتوں کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے ۔ اور پھر تعلق ایسا شجر بن کے رہ جاتا ہے جس کی جڑہیں دیمک چاٹ چکی ہو اور بقول اقبال ’ ’ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ کے مصداق ہم خوش فہمی پال رکھیں۔۔ لیکن انجام کبھی خوشگوار نہیں ہو سکتا۔
یہ افسانہ بھی ایسے ہی شکی مزاج شوہر ارتات کا المیہ ہے جو بیوی ارینہ کی محبت سے محروم رہ جاتا ہے ۔ افسانہ نگار نے اس شک کے مختلف پہلووں اور اس سے پیدا ہونے والی قباحتوں کا بیان کیا ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کا پردہ ہوتے ہیں ایک دوسرے کے رازدان ہوتے ہیں ۔ لیکن شک اُن کی زندگیوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ محمد حامد سراج اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ازدواجی زندگی میں خوشیوں کا باعث قواعد و ضوابط یا قوانین نہیں ہوتے بلکہ خوش خُلقی سے ہی یہ رشتہ مسرت و انبساط پاتا ہے۔ ارینہ اپنا آپ کھو چکی ہے۔:
’’اس کا تن من اُجلا تھا۔ بے داغ ۔۔۔ کہیں کوئی خراش نہیں تھی۔ پھر بھی جانے اس کے مجازی خدا نے اس پر کیوں شک کیا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو جمع کیا۔ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی تھی۔ انسان کے وجود کے ٹکڑے بکھر جائیں تو انہیں سمیٹنا مشکل ہوتا ہے۔ اس نے اپنے وجود کے ریزے جمع کیے۔ اس نے حواس کو مجتمع کیا۔ اس کی زندگی بکھرنے لگی تھی۔ جانے شک کی چنگاری اس کے مجازی خدا کے من میں کہاں سے آ گری تھی۔ ‘‘
’کتنے مہر دین‘ اور ’ذہن بازار‘ بھی اسی قبیلے کے افسانے ہیں جن میں میاں بیوی کی باہمی رنجش ازدواجی زندگی کے خال وخد بگاڑ دیتی ہے۔
محمد حامد سراج کی اپنی ازدواجی زندگی بڑی خوش و خرم گزری ۔ اس لیے وہ اپنے افسانوں کے ذریعے قاری کو یہی پیغام دیتے ہیں کہ ازدواجی زندگی کی بقا، آپسی محبت اور احترام میں ہی ہے۔ اس کی بنیادیں وہ اسلام کی اقدار سے کشید کرتے ہیں ۔ قرآن کی آیتیں اس پہ دلیل ہیں اور آپﷺ کی زندگی کامل نمونہ ہے۔
معاشرتی مسائل اور ہمارے رویے:
دنیا کا کوئی بھی ادب ہو وہ اپنے معاشرے سے کٹ کے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا ۔ ادب انفرادیت اور معاشرے کے باہمی تال میل سے جنم لیتا ہے۔ معاشرتی رویے ادیب کی فکر کو متاثر کرتے ہیں اور ادیب کی تخلیق معاشرے میں نئے رجحانات کے امکان پیدا کرتی ہے ۔ اس طرح ہر ادیب کی طرح محمد حامد سراج بھی معاشرے سے الگ تھلگ رہ کر افسانہ نہیں لکھ سکتے تھے یو ں ان کے ہاں بھی ہمیں ہمارے اجتماعی معاشرتی رویوں اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کا تذکرہ ملتا ہے بلکہ محمد حامد سراج نے باقاعدہ اسے اپنا موضوع بنایا ہے۔ مجنوں گورکھ پوری اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ :
’’کامیاب ترین ادب وہ ہے جو حال کا آئینہ ہو اور مستقبل کا اشاریہ ہو، جس میں واقعیت اور تخلیقیت، افادیت اور جمالیت ایک آہنگ ہو کر ظاہر ہوں، جس مین اجتماعیت اور انفرادیت دونوں مل کر ایک مزاج بن جائیں، جو ہمارے ذوقِ حُسن اور ذوقِ عمل دونوں کو ایک ساتھ آسودہ کر سکے اب تک ادب جو کچھ بھی رہا ہو لیکن اب اس کو یہی ہونا ہے۔‘‘
محمد حامد سراج کا اسلوب حقیقت نگاری کا آئینہ ہے۔ اس لیے معاشرتی کشمکش اور زندگی کے مسائل ان کے افسانوں کا موضوع رہے ہیں۔ڈاکٹر انور سدید کا نقطہ نظر کچھ یوں ہے۔:
’’ ادیب اپنے عصر کا جزو بھی ہے اور آئینہ بھی۔ ادیب جب تخلیقی عمل سے گزرتا ہے تو اس کی تخلیق میں لازماً وہ لرزشیں بھی ہوتی ہیں۔ جو اس عہد کی معاشرتی، تہذیبی اور فکری سطح پر رونما ہو رہی ہوتی ہیں۔ اور جن سے ادیب پہلو تہی اختیار نہیں کر سکتا۔‘‘
محمد حامد سراج بھی اپنے عصر کا جزو ہے۔ وہ اپنے گردو نواح کے معاشرتی مسائل سے آنکھ نہیں پھیر سکتا۔ اسی لیے اُس نے اپنے علاقائی ، دیہی اور قصباتی زندگی کو کمال جامعیت کے ساتھ پیش کیا ہے اور حتی الامکان ان کے ممکنہ سدباب بھی پیش کیے ہیں۔
ہے کوئی (وقت کی فصیل):
یہ کہانی ایک ایسے کردار کی ہے جو رزق حلال کی تلاش میں اپنے دکان داری کرتا ہے۔ مروت، ایک ایسا انسان ہے جسے کسی سے کوئی سروکار نہیں، لیکن معاشرہ جن برائیوں کی دلدل میں پھنس چکا ہے وہ کسی عفریت سے کم نہیں، اسے مہنگائی، قتل و غارت، دہشت گردی، اور طبقاتی کشمکش کا شدت سے احساس ہے جس کا ذکر کا وہ اُس بازار کی مجلس دانشوراں سے بھی کرتا ہے۔ یہاں پہ ایک قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں ہر کوئی ہی خود کو دانش ور کہنے پہ مُصر ہے۔ یہی حال اُس بازار کے دانشوروں کا بھی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان سب میں دانش عنقا ہے۔ مروت کی فکر پہ کوئی کان نہیں دھرتا بلکہ اُس کو پاگل، سنکی کہہ کر اُس کی تذلیل کی جاتی ہے۔ المیہ یہ ہے ہر کوئی اپنی ذاتی مفادات کے دائرے میں گھوم رہا ہے نا ہی کسی کو اصل مسائل کا ادراک ہے اور اگر ادراک ہے بھی تو صرف زبانی جمع خرچ تک۔۔۔ کوئی بھی ان معاشرتی برائیوں کا حل پیش کرنے سے قاصر ہے بلکہ افسانے کے اختتام پر یہ راز کھُلتا ہے کہ اس مجلس دانشوراں کا ہر ممبر ہے جنسی لذتوں کے بدبو دار پانیوں میں غوطہ زن ہے۔ کہانی بڑی سادہ سی ہے ، ہم بحثیت قوم بے ایمان اور اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں۔ اور ہم سے جو بھی مروت کا ہم خیال ہے اُس کے لیے یہ معاشرہ رہنے کے قابل نہیں۔ مروت کسی اور ہی سیارہ کا باشندہ ہے۔۔ سوچتا ہے۔۔۔:
’’ وہ گلی میں گزرتے چہرون پہ پیوست، یبوست زدہ تحریریں پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ کیا یہ چہرے زندہ ہیں۔۔۔؟ ان پر مردنی کی سی کیفیت کیوں چھائی ہے۔۔۔؟ خوف کاشت کرنے والے ہاتھوں کو قلم کیوں نہیں کر دیا جاتا۔۔۔؟‘‘
دُنیا اس وقت ایک ایسے معاشی نظام کی زیرِ اثر ہے جو امیروں کو امیر تر اور غریبوں کو غریب تر کرتا چلا جا رہا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام ، خدائے ثانی بن بیٹھا ہے۔ اس کے نتیجے میں محرومی، غربت، بد امنی اور نہ جانے کیا کیا برائیاں جنم لے رہی ہیں۔ اک استحصال کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔۔۔ رزق کا ذمہ خدا کا ہے لیکن زمین کے خداوں نے اسے اپنی دسترس میں کرنے کا ہر ہتھکنڈہ آزمایا ہوا ہے۔
’’اسے زندہ رہنا تھا اور اپنے حصے کا رزق تلاش کرنا تھا۔ اسے معلوم نہیں تھا، اللہ کی بجائے لوگوں نے رزق کی تقسیم اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ وہ سورج ، چاند ، ستاروں اور سمندروں پر قابض ہو کر روشنی اور پانی کا بیوپار کرنے لگے ہیں۔ ‘‘
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی بھی ہے جو مہنگائی سے تنگ ہے اور سوچتا ہے کہ یہ انسان کون ہوتے ہیں جو اُس پہ زندگی کو تنگ کر دیں۔
دائمی حبس (وقت کی فصیل):
اس افسانے کا کردار، خود کلامی میں ان ساری باتوں کا اظہار کرتا ہے جو ہم سب کرنا چاہتے ہیں۔ وہ آزادی کا متلاشی ہے۔ وہ اس کائنات پہ ،خود پہ، اس معاشرے پہ غور و فکر کرتا ہے۔ وہ دہشت گردی، موت، بھوک ، افلاس، ان سب سے آزادی چاہتا ہے۔ اک حبس کا عالم ہے۔ وہ ہر اُس پابندی سے آزادی چاہتا ہے جو اسے کسی بھی زاویے سے مقید کیے ہوئے ہے۔
’’ مہنگائی کی ہر نئی لہر میرے آنگن میں خوف کاشت کر جاتی ہے۔۔۔ زرد رَو چہروں والی یہ مخلوق۔۔۔ میں بھی انہیں میں سے ہوں۔۔۔ پیٹ پر پتھر باندھے سانس لیتا ہوں، صدیوں سے اپنی پیٹھ پر حکومتوں کے عذاب ڈھوتا، میں خمیدہ کمر، زمین زاد پِس رہا ہوں۔ میں پہروں مہنگائی کے خوف پر زہر کی کونپلیں پھوٹتے دیکھتا رہتا ہوں، کیونکہ انہی کو آنے والی نسلِ نو کا رزق ہونا ہے۔۔۔ میں شہروں سے خائف ہونے لگتا ہوں۔ شہر در شہر، بھوک، مہنگائی اور بیروزگاری کا عفریت گھومتا نظر آتا ہے۔ ‘‘
افسانہ نگار اس بات پر قائل ہے کہ معاشرتی برائیوں کی جڑ مہنگائی ہے۔ اس لیے اسے یہ خوف ہے کہ اگر یہ معاملات یوں ہی چلتے رہے تو آنے والی نسلیں اس کے منفی مضمرات سے بچ نہیں پائیں گی۔ اس لیے ہمیں اس مسئلے کا حل
مستقل بنیادوں پہ تلاش کرنا ہو گا۔
مے خوار ( برائے فروخت):
یہ ایک ایسے شراب نوش کی کہانی ہے جو شراب تو پیتا ہے ، بہکنے کے لیے نہیں بلکہ غم روزگار بھلانے کو۔۔۔ جبکہ اہلِ بازار اس کے کردار پہ انگلیاں اُٹھاتے ہیں حالانکہ وہ سب بد کردار ہیں برائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ وہ شراب نوش ، شراب بھی پیتا ہے لیکن خدا کو یاد بھی رکھتا ہے اور اس سے تما م مرد و زن کی عزتیں بھی محفوظ ہیں۔
یہ افسانہ بھی ہماری مجموعی معاشرتی رویوں کی اک جھلک ہے۔ ہماری منافقت کے پردے چاک کرتا ہے۔ ہماری نظر لوگوں کے کرادر پہ تو رہتی ہے لیکن اُن کی بھوک کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔
’’ سارا بازار مجھ سے نالاں ہے کہ میں عصر کے بعد پٹھانے خان کی کیسٹ اونچی آواز میں کیوں لگا لیتا ہوں۔ ہر کام میں مین میخ نکالنا ان کا مشغلہ ہو گیا ہے۔ بھلے سے اپنی دکانوں میں پردے کے پیچھے جو مرضی کرتے رہیں۔ اس ایک مہینے میں کتنے واقعات نمودار اور روپوش ہو گئے۔ کپڑے والا بھری دوپہر میں پردے کے پیچھے ایک عورت کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ جانے کتنی عورتوں کو مفت پہناتے پہناتے ان کے کپڑے اُتار لیے۔ اور تو اور سنار نے سونے کی انگوٹھی کے عوض ایک کنواری لڑکی کی عزت کا سونا اتار کر اسے ذلت کی کٹھالی میں ڈال دیا۔ جنرل سٹور والے کو دیکھو، سرخی پاؤڈر اور پرفیوم دکھاتے دکھاتے کتنی عورتوں کے ساتھ شرمناک کھیل کھیلتا رہا۔ جو بھی پردہ نشین آتی ہے پردہ کھینچ لیتا ہے۔ کہتا ہے، بیبی کیا کیا دکھاؤں۔ چیزوں کے دام چکاتے چکاتے سارے سالے عزت کے دام چکا لیتے ہیں اور میں۔۔۔۔۔ ‘‘
اسے حوالے سے ڈاکٹر سلیم اختر کی رائے حامد سراج کے اس موضوع کی تائید کرتی ہے۔ :
’’ ہر معاشرے کی اخلاقی اساس سے جنم لینے والی سیاسی، سماجی اور قانونی، بنیادیں ہوتی ہیں۔ جو اقدار اور معیار اور اداروں کی صورت میں معاشرہ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ مگر ہم عہدِ منافقت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔۔۔ اس لیے ہمارے معیار اور اقدار ہمارے اعمال سے رنگِ اثبات حاصل نہیں کر سکتے۔ ‘‘
ذہن بازار ( چوب دار):
اس کہانی کا مرکزی کردار مفلسی مگر قناعت کی زندگی گزار رہا ہوتا ہے ۔ اس کا ذہن ہر لمحہ گھریلو ضروریات کو پوری کرنے کے خیالات سے لبا لب بھرا رہتا ہے۔ اس کی بیوی ، اِس غربت کی زندگی سے تنگ آ جاتی ہے ۔ معاشرے میں پھیلے دکھاوے کے زہر نے ہر شخص کو حریص بنا دیا ہے ۔۔۔ لوگ دوسروں کا پراٹھا دیکھ اپنی خشک روٹی کی نا شکری پہ تُلے ہیں۔ یہاں بھی یہی معاملہ ہے ۔ آخر کار، گھر کی ضروریات با آسانی پوری ہونے لگتی ہیں لیکن باپ مذہبی روایات کی پاسداری میں گھر میں کیبل لگوانے سے مانع ہے ۔ بیٹا اس انتظار میں ہے کہ کب باپ مرے اور گھر میں کیبل کی رونقیں میسر ہوں۔ باپ نے جس روز سے حرام کمانا شروع کیا ہے اولاد نا فرمان ہو گئی ہے۔ دو اقتباسات ملاحظہ کیجیے:
’’ فکرِ معاش نے پوری قوم کی سائیکی بدل کر رکھ دی تھی۔ چڑ چڑا پن عام ہو گیا تھا۔ فانی بدن کے آرام کا خیال رکھتے رکھتے رُوحیں بنجر ہو چکی تھیں۔ آسائشات اور سہولیات نے انسان کو چُور چُور کر دیا تھا۔ ‘‘
’’ ہم نے تو رزقِ حلال سے ان کی پرورش کی تھی۔‘‘ اس کی بیوی کے چہرے کا رنگ لٹھا ہو رہا تھا۔
’’یہ ہونا تھا۔۔۔‘‘
’’ مگر کیوں ہونا تھا؟‘‘
اگر مگر چھوڑو، جس روز تم نے دوپٹے کی رنگائی پر مجھ سے جھگڑا کیا تھا۔ اس دوپٹے سے لے کر تمہارے کاٹن کے اس سوٹ تک جو تم نے پہن رکھا ہے۔ ساری کمائی رشوت کی ہے۔‘‘
محمد حامد سراج چونکہ ایک دینی و روحانی پسِ منظر سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کی اپنی ذات بھی دین پر عمل پیرا رہی۔ اس لیے اُن کے افسانوں میں بھی ایسے موضوعات بکثرت ملتے ہیں جن کی اساس دینی نظریات ہیں۔ مندرجہ بالا افسانے میں بھی رزقِ حلال کمانے اور قناعت پر زندگی بسر کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
گاؤں کا غیر ضروری آدمی( برائے فروخت):
حیف صد حیف! ہمارا معاشرہ کس تنزلی کا شکار ہے کہ یہاں روپیہ پیسہ اور عہدہ ہی عزت کا معیار ٹھہرا۔ محنت کش کمی کہلایا اور آرام پرست نواب!!! یہ افسانہ ہمارے معاشرتی رویوں کے چہرے پہ زناٹے دار تھپڑ ہے۔ ہم غریب مزدور کو وہ مقام نہیں دیتے جو اس کا حق ہوتا ہے۔ حلال کی روزی کمانے والا کسم پُرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے کہ سفید صاف ستھرا کپڑا صرف کفن کا ہی نصیب ہوتا ہے۔ شرافت ، بزدلی کا روپ بن گئی اور بدمعاشی، بہادری کا چہرہ۔۔۔ پورا معاشرہ ہی تعفن زدہ ہو گیا ہے۔ باہمی محبت اور رواداری کا معیار فقط دولت قرار پاتی ہے۔ غریب کا ہونا نہ ہونا ایک برابر۔۔۔ زندہ ہو یا مردہ۔۔۔وہ ایک غیر ضروری آدمی ہی ہوتا ہے۔ ایسا بد نصیب کہ کوئی چار آنسو بھی دان نہ کرے۔
’’ہم میں سے ایک انسان کم ہو گیا۔ وہ علاقے کا نہ سہی گھر کا تو سر براہ تھا۔ کل تک گاؤں کی پگڈنڈیوں پر اپنا گدھا ہانکتا ، میلے دانتوں میں اجلی مسکراہٹ لیے سر ہلاتا، دوہڑے الاپتا وہ شخص کہاں گیا۔۔۔؟ وہ تو تمہارے ہر دکھ میں رہا۔ تم لوگ اس سے اپنی درانتیاں تیز کرواتے تھے، ہلوں کے پھالے، ترینگل اور کھرپیان بنواتے تھے۔ گم چابیوں والے تالے تڑوایا کرتے تھے۔ تمہاری آنکھیں کیوں عقیدتِ غم سے خالی ہیں۔‘‘
امام غزالی کا گمشدہ کردار ( چوب دار):
یہ افسانہ ا ن اقدار کی طرف توجہ مبذول کرواتا ہے جن سے دلوں کے خرابے روشن ہو سکتے ہیں۔ معاشرہ تہذیب یافتہ ہو سکتا ہے۔ یہ افسانہ اسی نوع کا ہے۔ صبر ،تحمل، بُردباری اور عفو در گزر، یہی سرمایہ انسانیت ہیں۔ انہی سے اس دنیا میں پھیلی نفرت کی آگ ٹھنڈی ہو سکتی ہے۔ زین ، مطیع الرحمٰن سے کہتا ہے:
’’ مطیع الرحمٰن اچھی کتابیں مطالعے میں رکھا کرو۔ انسانوں کی تلاش میں رہا کرو۔ کتاب اور نیک انسان کی صحبت زمین پر سانس لینے میں آسانی پیدا کر دیتی ہے۔‘‘
محبت،جنس ، تہذیب اور اخلاقی اقدار:
محمد حامد سراج کی اپنی شخصیت تہذیبی اور اخلاقی اقدار کی مجسم تصویر تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے افسانوں میں بھی ان خواہشات کی جھلک ملتی ہے جو وہ معاشرے سے تقاضا کرتے ہیں۔ وہ ایک ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں جو اعلٰی اخلاقی اقدار کا پاسدار ہو۔ اسی نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے مصنف کے چند افسانوں کا جائزہ پیش ہے۔
گھڑی، سمت ،سوئیاں(برائے فروخت):
یہ افسانہ، ہمارے معاشرے کے مجموعی کردار پہ سوالیہ نشان ہے۔ یونس ویر اس افسانے کا مرکزی کردار ہے۔ جس کا وڈیو سنٹر ہے۔ بچوں سے لے کر بوڑھے تک ہر کوئی اس کا گاہک ہے۔ یہ منظر بیچنے کا کام کرتا ہے ایسے منظر جنہیں دیکھ ہیجانی کیفیات پیدا ہوں۔ عریانیت اور بے راہ روی کا زہر معاشرے کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ نام نہاد شریف شُرفا بھی اس سے محفوظ نہیں۔ طالب علم ہو یا اُستاد، مردو زن ، ہر ایک لذتوں کا مارا ہے۔ معاشرے کو کسی آسیب نے آ لیا ہے وقت اُلٹا چلنے لگا ہے۔ ہماری سوچیں کسی بھی بڑی فکر سے عاری ہیں۔ ہم ذہنی، فکری طور پر اپاہج ہو چکے ہیں۔ اور ان سب کی ایک بڑی وجہ فحاشی، عریانیت اور پورن انڈسٹری کا عروج ہے۔ ہم نے نطام قدرت کو للکارا ہے۔ اس لیے وقت بھی اُلٹی سمت میں چل پڑا ہے۔۔۔ اُستاد ، معاشرے کا معلم ہوتا ہے۔۔۔ لیکن۔۔۔:
’’ یہ پروفیسر ہے گزشتہ برس گرمیوں میں اس نے اکیانوے فلمیں دیکھی ہیں۔ اسے سی ڈی لے جانے دو میں تمہیں اسکا کھاتہ دکھاتا ہوں۔ پروفیسر نے سی ڈی کاونٹر پر رکھی۔ تعلیم اس کے وجود میں سے رُخصت ہو چکی تھی۔ میں نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ پروفیسر رشید احمد صدیقی نہیں تھا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ ہونٹو ں پر تیرتے لفظوں میں سے کوئی مہک تلاش کرنے کی سعی لاحاصل سے گزرا۔ بے نور چہرے کی کرن تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ‘‘
محمد حامد سراج یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اٹھنے والا تعفن ، بے راہ روی کی وجہ سے ہے ۔ لیکن افسوس کہ جس طبقہ فکر نے اس کا سدباب کرنا تھا قوم کے تعلیم دینی تھی وہ خود منہ کالا کیے ہوئے ہے۔
آخری آئس کیوب ( برائے فروخت):
یہ کہانی محبت اور جنس کی کشمکش کی کہانی ہے۔ عورت کا کردار بے باکانہ ہے مرد محبت کو پاکیزہ شے تصور کرتا ہے اور جنس کی آمیزش اُسے گوارہ نہیں۔یہی بات عورت کو ناگوار گزرتی ہے۔ عورت کے اندر جنس کی آگ ، اُس کی اخلاقی قدروں کا پتا دیتی ہے۔ مغربی ثقافت سے متاثر مردو زن جنس کے معاملے میں بڑے بےباک ثابت ہوتے ہیں۔ لڑکی کہتی ہے:
’’ قرب کے لمحات میں تم ایک حد سے آگے کیوں نہیں جاتے۔
شیکسپیئر نے کہا ہے کہ محبت ایک پاکیزہ پھول ہے جو گناہ کی دھوپ سے مرجھا جاتا ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کے بعد شیکسپیئر کو کون خاطر میں لاتا ہے۔۔۔؟‘‘
جنسی جذبات مر د و عورت دونوں کی سرشت کا حصہ ہیں۔ تہذیب بس یہ سکھاتی ہے کہ اُن کا اظہار کیسے، کب اور کس کے سامنے ہونا مناسب ہے۔
’’ لمحہ موجود میں تمہاری ہوں میں۔۔۔ مکمل تمہاری۔ تم مجھے پورا کا پورا کیش کر لو‘‘
آج کی عورت جس نے مغربی فکر کو صرف جنس تک ہی سمجھا ہے وہ جنسی رویوں میں بے باکی کو اپنا حق جانتی ہے۔ شرم و حیا دقیانوسی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ مغرب زدہ عورت اپنے مرکز سے ہٹ گئی ہے اسی لیے اُس کی زندگی میں ہیجان برپا ہے ۔ جبکہ اس کے بر عکس مشرقی عورت گھٹن کا شکار ہے وہ تو اپنے خاوند کے سامنے بھی جنسی خواہشات کا اظہار کرنے کو گناہ کبیرہ تصور کرتی ہے۔ توازن زندگی کا حسن ہے۔
نقش گر ( وقت کی فصیل ):
یہ ایک ایسے طبقے کی کہانی ہے جن کی اخلاقیات باقی ماندہ عوام کی اخلاقیات سے یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ اس افسانے میں لڑکی اپنے مصور دوست سے یہ فرمایش کرتی ہے کہ وہ کاغذ کی بجائے اُس کے عریاں جسم پہ نقش و نگار بنائے۔ انسان نے جنسی خواہشات کے اظہار کے طرح طرح کے طریقے ڈھونڈے ہیں۔ یہ طریقہ بھی آسودگی کا سامان پیدا کرنے کی ایک سعی ہو سکتا ہے اور لڑکی اسی کی تلاش میں ہے۔
نقش گر، اس افسانے کا موضوع نفساتی جنسی رویے ہیں جن پہ محبت کی ملمع کاری ہوتی ہے۔ افسانے کا آغاز ماسکو کے مشہور میوزیم میں رکھے فن پاروں کی منظر کشی سے ہوتا ہے۔ جہاں دو کردار اک مدت بعد دوبارہ مل رہے ہوتے ہیں۔ مرد ایک آرٹسٹ ہے اور عورت یہ خواہش ظاہر کرتی ہے وہ اسے مونا لیزا کی طرح امر کر دے۔ لیکن شرط یہ رکھتی ہے کہ یہ نقش گر ، جو بھی نقش بنائے وہ اس کے جسم پہ اپنی فنکاری کے جوہر دکھائے۔ لیکن یہ نقش گر ایسا کرنے سے انکاری ہے۔ بعد ازاں اُس کے اصرار پر وہ چودھویں کی رات میں پینٹنگ بنانے کی حامی بھر لیتا ہے لیکن لڑکی کو انتظار کی سولی پہ لٹکنے کو چھوڑ دیتا ہے ۔۔۔ رات بھی گزر جاتی ہے لیکن وہ نقش گر نہیں آتا۔انتظار بذات خود محبوب کے قرب کا شدید ترین احساس ہے۔ اس افسانے کا آخری جملہ ہے:
’’ اس کے بدن پر پوری رات کے انتظار کی کیفیات پینٹ تھیں۔‘‘
یہ افسانہ رومان کے سحر میں ڈوبا ہوا افسانہ ہے۔ چند اقتباسات دیکھیے:
’’ ہاں ایک بار اس نے کہا تھا میں تمہارے بدن پر اپنا لمس پینٹ کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے انکار ہی کب کیا تھا۔ ‘‘ (۲۷)
’’ تم ہوش میں تو ہو۔۔۔؟ تمہیں پانے کے بعد ہوش کھویا ہی کب ہے۔ آتشدان میں لکڑیاں چٹخ رہی تھیں، سرخ چنگاریاں ، اس کی آنکھوں کی طرح لال انگارے۔۔۔ اسے سردی محسوس ہونے لگی، عجیب پاگل لڑکی ہے۔ سامنے بٹھا کر تمہارا پورٹریٹ تو بنایا جا سکتا ہے لیکن بدن پر نقش گری نہیں۔ ۔۔ ناممکن۔۔۔!‘‘ (۲۸)
مرصع آئینے ( وقت کی فصیل ):
فیض احمد، علیزہ اور امداد کی تکونی کہانی ہے۔ فیض ایک جاگیردار صاحب ثروت شخص ہے جبکہ امداد شاعر۔۔۔ علیزہ امداد سے محبت کا دم بھرتی ہے اور فیض علیزہ پہ فریفتہ ہے۔ فیض کینسر کی بیماری کا بہانہ بنا تا ہے اور علیزہ فیض کی تنہائی کو دور کرنے کے لیے امداد کو اعتماد میں لیتی ہے ۔ دونوں شادی کر کے بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر علیزہ ، امداد کو خبر دیتی ہے کہ فیض نے بیماری کا بہانہ صرف اُسے حاصل کرنے کے لیے کیا تھا۔۔۔ اب وہ کیا کرے۔۔۔!!!
لیکن کہانی اتنی سادہ نہیں۔۔۔ علیزہ محبت پر مادیت کو ترجیح دیتی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا عمومی رویہ ہے جب محبت اور دولت کے درمیان انتخاب کا وقت آتا ہے تو ہم دولت کو ترجیح دیتے ہیں۔ علیزہ نے بھی وہی کیا۔ لیکن ایسی سادگی سے کہ امداد کو دھوکے کا احساس بھی نہ ہو۔ لیکن امداد کو یقین ہے کہ اس کے ساتھ ہاتھ ہو چکا ہے۔ علیزہ کے کہے گئے جملے اپنی کہانی آپ بیان کر رہے ہیں:
’’مجھے اپنی زندگی سے صرف اتنی سانسیں ادھار دے دیجیے، جن سے فیض احمد کی اجڑی زندگی میں بہار آجائے۔ میں نے صرف آپ کو سوچا ہے۔ چاہا اور پوجا ہے۔ اسی محبت کی بھیک مانگتی ہوں آپ سے! مجھے فیض احمد سے شادی کی اجازت دے دیجیے۔ باقی زندگی تو میں آپ کے نام کر چکی ہوں اور ہاں یہ خیال دل میں مت لائیے گا کہ مجھے بیرون ملک گھومنے کا شوق ہے۔۔۔‘‘
علیزہ نے رنگ بدلا اور امداد کی زندگی کے سارے رنگ پھیکے پڑ گئے۔
’’ امداد۔۔۔ فیض احمد کو کینسر نہیں ہے۔ اس نے محض مجھے حاصل کرنے کے لیے ساری کہانی گھڑی تھی۔ یہ تم سے بڑا کہانی کار نکلا ہے۔۔۔ اب تم ہی بتاؤ، میں کیا کروں۔۔۔ سچی میں بہت پریشان ہوں۔۔۔ تم بتاؤ، تمہارا کیا حال ہے؟ امداد؟ آسٹریا بہت خوبصورت ہے۔۔۔ پہلی بار زندگی کا صحیح مفہوم سمجھ میں آیا ہے۔ ہیلو۔۔۔ امداد۔۔۔ہیلو، تم بولتے کیوں نہیں۔۔۔‘‘
’مجھے بیرونِ ملک گھومنے کا شوق نہیں ‘سے لے کر’ آسٹریا بہت خوبصورت ہے‘ تک کا سفر یہی محبت کی تنزلی کا ثبوت ہے۔
ناسٹلجیا:
انسان کو دو بڑی فیکلٹیز مہیا کی گئی ہیں۔ ایک ماضی کی یاد اور دوسری مستقبل میں جھانکنے کے لیے متخلیہ کی طاقت۔ محمد حامد سراج کے ہاں بھی یہ دونوں قوتیں اُن کے افسانوں میں جا بجا دکھائی دیتی ہیں۔ ادیب اپنے ماضی سے کٹ کر کبھی کچھ تخلیق نہیں کر سکتا ۔ اُس کا ایک قدم ماضی کے دھندلکوں میں ہوتا ہے تو دوسرا مستقبل کے افق پہ۔۔۔ حال میں وہ تخلیق کرتا ہے۔
محمد حامد سراج کے موضوعات کے بارے میں خالد قیوم تنولی نے ڈاکٹر افتخار مغل کی رائے نقل ہے۔:
’’ محمد حامد سراج کی کہانیوں کی کئی جہتیں ہیں۔ مثلا جنگ، محبت ناسٹلجیا ، مذہب، نفسیات، لاشعور اور سائنس وغیرہ، لیکن تمام جہتوں میں طاقت ور جہت زمان و مکاں کی جہت ہے۔ ‘‘
ڈِنگ:
ملک بشارت احمد، اس افسانے کا مرکزی کردار ہے۔ یہ محمد حامد سراج کے قریبی دوست کی بپتا ہے۔ جس کا دُکھ مہاجرت کا دُکھ ہے ۔ وہ اپنی جن بھومی سے نقل مکانی تو کر لیتا ہے ۔ یہ نقل مکانی روزگار کی تلاش میں نہیں بلکہ ایک سرکاری حکم کی تعمیل میں عمل میں آتی ہے۔لیکن جب وہ اُس گاؤں کا رُخ کرتا ہے جہاں اُس کا ماضی گزرا ہوتا ہے۔ تو کردار، بشارت احمد، کا تخیل اس کو دوبارہ اُسی دور میں لے جاتا۔ بشارت احمد جن کیفیات سے گزرتا ہے محمد حامد سراج نے اُس کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے یہ موضوع ایسا ہے کہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
’’ اُس کے قدموں میں صدیوں کی تھکن تھی۔ اس کے وجود میں زمانے گم تھے۔ وہ چلتا رہا، بے سمت، بے آواز قدموں کے ساتھ۔ شرینہہ کے درخت کی تلاش تھی۔ جس کے سائے کا پھیلاؤ دو کنال تھا۔ اس گھنے شجرِ سایہ دار کے نیچے فقیر محمد امیر سے لوگ ملنے آتے۔ جوق در جوق، قطار اندر قطار، بس ایک روحانی کشش انہیں کھینچ لاتی۔ ‘‘ (۳۲)
انسان کی پوری شخصیت ماضی سے عبارت ہوتی ہے اگر وہ خود کو اپنے ماضی سے جدا کر لے تو فقط خلا باقی رہ جاتا ہے۔ سائنسی نقطہ نظر سے کسی بھی شے کو سمجھنے کے لیے اُس کے ’ریفرنس پوائنٹ‘ کو دیکھنا ضروری ہے۔ اور ہمارا ماضی ہمیں وہ ’ریفرنس پوائنٹ‘ مہیا کرتا ہے۔ اردو افسانہ نگاری میں بہت سے لوگوں کے ہاں ہمیں ماضی کی بازگشت سنائی دیتی ہے لیکن اُن میں سب سے ممتاز نام انتظار حسین کا ہے۔ انتظار حسین کی کہانی میں ماضی قنوطی پہلو لیے ہوئے ہے جبکہ محمد حامد سراج کا ماضی رجائیت کا علمدار ہے۔ انتظار حسین کی ماضی پرستی کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
’’انتظار حسین کے افسانوں میں بنیادی طور پر ماضی پرستی کا گہرا شعور ملتا ہے۔ مصنف کا اپنا قول ہے کہ وہ کھوئے ہوؤں کی جستجو کرتے ہیں۔ اور آتشِ زیرِ رفتہ کا سراغ لگاتے ہیں۔ کھوئے ہوؤں کی جستجو اور آتش رفتہ کا سراغ تو اقبال نے بھی لگایا تھا لیکن اس نے اسلامی معاشرے کو حرکت و عمل کا سبق دیا اور سمبل ان لوگوں کو بنایا جن کے تحرک نے کاخ و امرا کے درودیوار گرا ڈالے تھے۔ علامہ اقبال کے تفکر کا علامتی اظہار شاہین سے ہوتا ہے۔ جو بلندی کی طرف پرواز کرتا ہے۔ اور ہمیشہ جہانِ نو کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے مگر انتظار حسین کے کھوئے ہوئے کون ہیں؟ مکھی، بندر، لومڑی کتا اور بکری کی جُون میں آئے ہوئے وہ مجہول کردار جو عقل و خرد سے کام نہیں لیتے اور قوتِ بازو پر اعتماد نہیں رکھتے۔ ‘‘
قدیمی کرسی اور کتاب کی مرمت ( چوب دار):
یہ افسانہ محمد حامد سراج کی آپ بیتی کا ایک ٹکڑا معلوم ہوتا ہے۔ جس میں ماضی قدیمی کرسی اور ضعیف کتابوں کی صورت سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔ لیکن افسوس صرف اتنا ہے کہ وہ ان کو بوسیدہ ہونے سے نہیں بچا سکا۔ کتابیں تو بہر طور مرمت ہو جائیں گی لیکن یہ کرسی اپنے بوجھ سے زمین بوس ہو جائے گی۔ ماضی کو سنبھال کر رکھنا ہی اعلیٰ ظرفی ہے ۔
’’ وقت کی دیمک کا کیا علاج۔۔۔؟ اپنی لائبریری کی ساری کتابوں کو پرکھنا چاہیے۔ یہ تو ہمارا قیمتی ورثہ ہے۔ اسے دیمک سے بچانا ہمارا فرض ہے۔ ‘‘
’’ ہوا، یاد، عمر، ماضی اور خوشبو کو روکنا ممکن ہی کہاں ہوتا ہے۔‘‘
’’ شعور سنبھالنے پر میں نے نانی اماں سے یہ چار کرسیاں مانگ لی تھیں۔ ننھیال کی یہ آخری نشانی میں نے اب تک سنبھال رکھی ہے۔ یہ عہدِ رفتہ ہے اسے صرف کُرسی خیال نہ کیا جائے۔ ‘‘
انسان کو جب مستقبل خوشگوار دکھائی نہ دے تو وہ ماضی میں نشاط کے لمحے تلاش کرتا ہے اور وہ ان لمحات سے بھی لذت کشید کرنے کی سعی کرتا ہے جن لمحات نے اُسے دکھ پہنچائے ہوتے ہیں۔ اسی نظریے پہ وقار عظیم کی رائے قابلِ غور ہے۔ :
’’ انسان اپنی گردوپیش کی زندگی سے اُکتا کر ماضی کی یادوں میں پناہ اور بسیرا لیتا ہے۔ نئی پود کے افسانہ نگاروں میں سے اکثر کے یہاں ماضی کی یادوں کے نقش ملتے ہیں۔ ان مین گھرا ہوا انسان عموما افسردہ دلی، اکتاہٹ اور بے زاری کا ستایا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ان اکتائے ہوئے بیزار انسانوں میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ جب موجودہ زندگی میں انہیں کوئی سہارا ، خوشی کی کوئی لہر اور روشنی کی کرن دکھائی نہیں دیتی تو وہ خود کشی کر لینے کی بجائے، ماضی کے تصورات میں غرق ہو کر غموں سے نجات حاصل کرتے ہیں۔ ‘‘
مگر یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ محمد حامد سراج ماضی میں فرار کی راہ تلاش نہیں کرتے بلکہ اُن اقدار کے موتی کھوجتے ہیں جو آج کے پُر فریب دور میں نایاب ہو چکے ہیں۔ محمدحامد سراج کے افسانوں، ’پتیاں‘ اور ’لرزیدہ لمحوں کا تاوان‘ میں بھی ماضی کی بازگشت سُنی جاسکتی ہے۔
دیہی زندگی کا آئینہ:
منشی پریم چند اردو کے وہ پہلے افسانہ نگار ہیں جنھوں نے دیہات اور وہاں کی زندگی کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا اور دیہی زندگی کی حقیقی تصویر پیش کی۔ پروفیسر قمر رئیس ان کے بارے میں رقمطراز ہیں:
’’ پریم چند پہلے ادیب ہیں جنھوں نے ہندوستانی گاؤں کے کسانوں ،کھیت ،مزدوروں اور ہریجنوں کی عظمت اور انسانی وقار کو سمجھا ۔ان کے لئے ادب کے کشادہ دروازے کھولے ،انھیں ہیرو بناکر ،ان کے د ُکھ سکھ کی گا تھا سنا کر اردو کے افسانوی ادب کو نئی وسعتوں اور ایک نئے احساس جمال سے آشنا کیا۔‘‘(۳۸)
محمد حامدسراج کا تعلق خانقاہ سراجیہ، کندیاں، ضلع میانوالی سے ہے۔ کندیاں ایک قصبہ ہے اور خانقاہ سراجیہ گاؤں میں واقع ہے۔ جہاں انسان اپنی زندگی کے شب و زور بسر کرتا ہے وہاں کا ماحول اُسے ضرور متاثر کرتا ہے۔ محمد حامد سراج پر بھی اُس علاقے کی بودوباش نے اپنے نقوش چھوڑے۔۔۔ اب جبکہ حامد سراج ایک افسانہ نگار بھی ہے تو اُس نے اپنے علاقے کے رسم ورواج، رہن سہن ، گھر، کھلیان، اور وہاں کے مسائل کو اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے اور گمان غالب ہے کہ یہ سب حقیقیت کا آئینہ دار ہے۔ وہ افسانے جن میں دیہاتی مناظر کی واضح جھلکیاں ملتی ہیں درج ذیل ہیں۔ ’’ڈنگ‘‘، ’’کتنے مہر دین‘‘، ’’ گاؤں کا غیر ضروری آدمی‘‘، ’’راوی خاموش ہے‘‘، ’’مرصع آئینے‘‘، ’’کیڑا‘‘، ’’رونے کی آواز‘‘، ’’ خودداری کی نیند‘‘۔
محمد حامد سراج کے ان افسانوں میں مقامی لب و لہجہ اور رنگ دیکھ جا سکتا ہے۔ اسی ضمن میں چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔ افسانہ ’ڈنگ ‘ میں ’بشارت احمد کا کردار انہی بھول بھلیوں میں گُم ہے ۔
’’ صحن میں لگے تلسی کے پودے کھرپے سے نکال کر اپنے اندر لگائے۔ چھپر بنایا، اس میں بھینسیں اور گائے باندھی۔ بکریوں کی چرنیاں تک اس نے ترتیب سے رکھیں۔ کیکر کا درخت لگانے میں اسے بہت محنت کرنا پڑی۔ کیکر کے ایک بڑے ٹہن پر لگا رسے کا جھولا جو وہ ہر سال عید پر جھولا کرتے تھے، اسے بھی اس نے نظر انداز نہیں کیا۔ ‘‘
’’اسے دو چار روز پہلے کیا ایک شادی کی تقریب یاد آگئی۔ یہ رات یہ روایت بھی دم توڑ جائے گی۔ وہ اپنے قد آور باپ ملک فتح شیر کے ساتھ ملک سکندر مستی خیل کے گھر پہنچا تو چھپر تلے کوندر کی گھاس بچھی تھی۔ چھپر تلے لوگ آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے۔ اتنے میں مٹی کے پتروٹے ان کے سامنے جن دیے گئے۔ ’’مٹی کے کٹورے‘‘ میں پکا لذیذ سالن ان کے سامنے رکھا گیا۔ ’’لور‘‘ پر لگی بڑی بڑی چباتیاں جو پھتو کمہار اور میراں کمہاری نے اتاری تھیں۔ جوان لڑکے گلے اور کمر کے گرد کَس کر کپڑا باندھے جھولا بنائے اس میں روٹیاں ڈالے باراتیوں کے آگے رکھ رہے تھے۔ کھانے کے بعد ’’ پتروٹوں ‘‘ میں حلوہ دیا گیا۔ ‘‘
محمد حامد سراج نے گاؤں کے ماحول اور رسم ورواج نہایت روانی سے بیان کیا ہے اور ان افسانوں میں مقامی زبان کے الفاظ بے جا محسوس نہیں ہوتے۔ اسی حوالے سے ڈاکٹر عطش دارنی کی رائے یہ ہے:
’’ مقامی لہجہ کرداروں کے انداز زندگی کے حوالے سے جملوں کی ایک خاص ساخت تخلیق کرتا ہے۔ اس سے ان کے اطوار، سطح اور بول چال کے سانچے اور سلینگ نظر آتے ہیں۔‘‘
مقامی زبان کا برمحل استعمال اور کرداروں کا ڈیل ڈول کے ذریعے افسانوں میں فطری عنصر پیدا کیا گیا ہےدیہی ثقافت کے بیسیوں استعارے ہیں جو اپنے اندر جہانِ معنی لیے ہوئے ہیں۔ افسانہ ’راوی خاموش ہے‘ کے یہ جملے افسانہ نگار کی مقامی زبان دانی کے برمحل استعمال کا واضح ثبوت ہے۔ وہ اپنی کرداروں سے اُن کی اپنی زبان بلواتا ہے۔
’’ کیں ویلے تے اس نگو سانوی دکان چوں باہر وی نکلا کر۔۔۔(کسی وقت توا س بد بخت دکان سے باہر بھی نکلا کر)
میں بھا۔۔۔ لیناں۔۔۔(میں آگ لگاتا ہوں) میانوالی کا روایتی فقرہ کہتے ہوئے ناصر خان ہنسا کیونکہ اسے عطا ء اللہ کندی کی ناراضی کا ڈر بھی تھا۔ ‘‘
’’ شام ڈھلے جب عطاء اللہ کندی اجلے کپڑے پہنے پر فیوم لگائے بازار کو نکلتا تو کہتے ہیں جن دنوں جوانی ٹوٹ کر آئی تھی تو کسی نہ کسی چک کے پیچھے سے آواز آتی۔۔۔ پتلا ڈھولا جانٹریں کیندے نصیب ہوسی۔‘‘
کسی بھی علاقے کے کلچر اور نفسیات کو سمجھنا ہو تو وہاں کی زبان سے واقفعیت ہونا لازم ہے۔ حامد سراج نے بھی جس سرائیکی دیہی کلچر کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا تو جہاں ضرورت محسوس کی ہے تو اردو سے ہٹ کر سرائیکی کو برتا ہے۔ جس سے افسانے کا حقیقی رنگ برقرار رہتا ہے۔ ’راوی خاموش ہے‘ ہمارے علاقائی رسوم ورواج، وٹہ سٹہ اور کاروکاری کے پس منظر میں لکھا گیا افسانہ ہے۔ بقول شخصے:
’’ ادب کی سب سے اہم خوبی سماج کی ترجمانی ہے۔ جو ادیب جتنی خلاقی سے جتنے بہتر انداز میں سماج کی عکاسی کرتا ہے اس کا مقام اتنا ہی بلند ہوتا ہے۔ ادیب ناصح نہیں ہوتالیکن وہ اس طرح سے اپنی تخلیق میں معاشرتی برائیوں کا اظہار کرتا ہے کہ قارئین خود بخود اس بُرائی سے نفرت کر کے علاج کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ‘‘
افسانہ ’گاؤں کا غیر ضروری آدمی‘ جہاں معاشرے کی بے حسی اور مادیت پرستی کی غمازی کرتا ہے وہاں گاؤں کے اُن کرداروں کا بھی نقشہ کھینچتا ہے جو محنت مزدوری کی منہ بولتی تصویر ہوتے ہیں۔ افسانے کا مرکزی کردار خیرو لوہار جب وفات پا جاتا ہے تو اس کا بیٹا تیسرے دن ہی اوزار سنبھالے دُکان پہ موجود ہوتا ہے۔ تاکہ گاؤں والوں کے کام تعطل کا شکار نہ ہوں اور اپنی روزی روٹی کا بھی چارہ کیا جائے۔
محمد حامد سراج نے اپنے افسانوں میں دیہی زندگی کے جن عناصر کا ذکر کیا ہے اُن میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں۔:
’’شرینہہ، پیپل ، برگداور کیکر کے درخت، مدھانی، چھپر، زمین کی بیجائی، حقہ پینا، تندروں کا دھواں، اُپلے، کھیتوں میں رفع حاجت کو جانا، مٹی کا لیمپ، ٹیوب ویل، مٹی کا مٹکا، گھڑولی، تلے دار کھسہ، موڑھا، کاڑھنی، کھیس، گھڑونچی،کنواں،حویلی۔۔۔
افسانہ نگار اپنے عصر کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اُس کے افسانوں میں دیہی زندگی کا نقشہ اوپری تاثر نہیں دیتا ۔ دیہی زندگی جس کرب سے گزرتی ہو اُس کا اندازہ وہاں کا مکین ہی لگا سکتا ہے۔
بقول احمد ندیم قاسمی:
’’ تیری نظروں میں تو دیہات ہیں فردوس مگر
میں نے دیہات میں اُجڑے ہوئے گھر دیکھے ہیں
میں سمجھتا ہوں مہاجن کی تجوری کا راز
میں نے دہقان کی محنت کے ثمر دیکھے ہیں‘‘
احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں:
’’سماج سے ادب کارشتہ ہی اصل چیز ہے۔ جس ادیب کو ان رشتوں کا ادراک نہیں میرے خیال میں اس کا ادب اور فن بے معنی ہے‘‘
ترقی پسند تحریک سے وابستہ کن کن افسانہ نگاروں نے دیہی زندگی اور وہاں کے مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔اس ضمن میں کرشن چند،حیات اﷲ انصاری ،اوپندر ناتھ اشک ،راجندر سنگھ بیدی،اختراورینوی ،احمد ندیم قاسمی اور دیوندر ستیار قابل ذکر ہیں۔کرشن چند کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے انہوں نے دیہی زندگی خصوصاً کشمیر کی دیہی زندگی اور وہاں کے ماحول کو اپنے افسانوں میں موضوع بنایا ہے۔ حیات اﷲ انصاری نے اپنے افسانوں میں بیشتر اپنے عہد کے حالات و ماحول کو پیش کیا ہے۔ ان میں دیہی زندگی کے مسائل بھی شامل ہیں۔ حیات اﷲ انصاری نے غربت و افلاس میں زندگی بسر کرنے والے دیہاتوں کی مشکلات اور ان کے استحصال کے واقعات کو بڑے موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں کا پس منظر شہری اور دیہی دونوں زندگی ہیں ۔ احمد ندیم قاسمی کے زیادہ تر افسانے دیہی موضوعات و مسائل پر مبنی ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں نہ صرف پسماندہ طبقات کی بدحالی کو بیان کیا ہے بلکہ ان مظلوموں کو زندگی سے لڑنے کا حوصلہ بھی بخشا ہے۔ حاصل گفتگو یہ ہے کہ اردو افسانہ نگاروں نے تقریباً ہر دور میں دیہات اور دیہات سے جڑے مختلف مسائل کو اپنے افسانوں میں نہ صرف پیش کیا ہے بلکہ ان کو حل کرنے کی تدابیر بھی پیش کی ہیں۔
محمد حامد سراج کے افسانوں میں علاقائی ثقافت ، رسم ورواج، علاقائی موسیقی اور یہاں کے کردار اپنی حقیقی شناخت میں موجود ہیں۔ افسانہ ’کیڑا‘ میں گاؤں کی صبح اور ایک ہوٹل کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔
’’ شمو کا باپ تڑکے تڑکے کھیتوں کو نکل جایا کرتا تھا۔ وہ بھینس کو چارہ ڈالتی ، دودھ دوہتی، ناشتہ بناتی۔ اس کا باپ سورج کافی اوپر آ جانے پر لوٹ کر ناشتہ کرتا، لسّی پیتا، حقہ گڑگڑاتا، اگر کھیتوں کا کام ہوتا تو لوٹ جاتا، نہیں تو گاؤں کی مشرقی سمت برگد کے گھنے درخت تلے ہمجولیوں کے ساتھ مل بیٹھتا۔ برگد کے نیچے فیروزے کا ہوٹل تھا۔ ہوٹل کیا تھا، گھاس پھونس کا ایک چھپر تھا۔ پلی اینٹوں کے دو چولہے، ایک چولہا مٹی کے تیل کا، دو کیتلیاں ، سات مگے،میزوں کرسیوں کی بجائے اس نے سیمنٹ کے بنچ بنوا لیے۔ رش نہ ہوتا تو چند بے فکرے وہاں آکر لیٹ جاتے۔ چھپر کے ایک ایک کونے میں لوہے کے ایک بوسیدہ زنگ آلود ٹرنک میں ان بے فکروں کے لیے سگریٹ، بیڑیاں، ماچسیں اور چرس کی گولیاں رکھی ہوتیں۔ جن دنوں اس کا ہوٹل چرسی ہوٹل کے نام سے شہرت پانے لگا اس نے فوراً دھندا بند کر دیا۔ ‘‘
گاؤں کی ایک اپنی ہی معاشی اور سماجی زندگی ہوتی ہے۔ ہر گاؤں میں ایک درخت ایسا ضرور ہوتا ہو جسے آج کی زبان میں ’ مال‘ کہا جا سکتا ہے۔جہاں طرح طرح کے ’برینڈز‘ موجود ہوتے ہیں۔ افسانہ ’رونے کی آواز ‘ میں اسی زیرِ شجر سایہ دار ’مال‘ کا ذکر ہے۔
’’پیپل کے نیچے ایک پورا شہر آباد تھا۔ ایک پو سی او، منیاری کا کھوکھا، نائی کی دکان، موچی، ایک لوہار اور ترکھان بھی اپنا رندہ سارا دن پھیرتا رہتا تھا۔ ‘‘
افسانہ ’خودداری کی نیند‘ میں ایک ایسے گھر کی تصویر ہے جو اپنی عُسرت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ گاؤں میں اس جیسے کئی گھر اپنے مکینوں کی غربت کا بھرم رکھتے رکھتے خستہ ہو جاتے ہیں۔
’’ اُس کا گھر عُسرت کی منہ بولتی تصویر تھا لیکن کبھی کسی نے اُس کی زبان سے ایسا کلمہ نہیں سُنا جس سے نا شکری جھلکتی ہو۔ ۔۔ گھر کیا تھا۔۔۔؟ ایک کچا کمرہ، چھت جس کا ٹیڑھی میڑھی، لکڑی کی کڑیوں اور گھاس پھونس سے بنا تھا۔ دیواروں پر اس کی بیوی ہر سال مٹی کا لیپ کر دیا کرتی تھی۔ چھوٹا سا کچا صحن، داہنی جانب مٹی کے چولہے، گرمیوں کے لیے ایک چھپر، صحن کے شمالی کونے میں لکڑیوں کا ڈھیر جو اکثر جنگل سے چُن لایا کرتا تھا۔۔۔!‘‘
محمد حامد سراج کا مشاہدہ بہت عمیق ہے۔ وہ گاؤں کی زندگی کو جزئیات کے ساتھ بیان کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ اُس کا تجریہ غیر حقیقی ہر گز نہیں ہے وہ جو کہتا ہے ا س کا چشم دید گواہ ہے۔
گاؤں کی معاشرت دو بنیادی کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ پہلا کردا ر جاگیردار ؍زمیندار ہے جبکہ دوسرا مزراع؍ کمی۔کمین ہے۔ اور یہی طبقاتی تقسیم گاؤں کے ماحول کو غیر منصفانہ بناتی ہے۔ مزارع کی بیٹی ، جاگیردار کی جاگیر تصور کی جاتی ہے۔ افسانہ ’کتنے مہر دین‘ میں جو سلوک مزارع کی بیٹی سے کیا گیا وہ تو اپنی جگہ ایک ظلمِ عظیم ہے اس کے علاوہ اُس کی بیوی بھی ذہنی کرب سے نبردآزما ہوتی ہے۔ یہاں کی معاشرت میں کم وبیش ہر زمیندار ہی مہر دین کی ذہنیت کا مالک ہے۔ وہ استحصال کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ، چاہے وہ گاؤں کی حدود میں ہو یا اسمبلی کے فلور کے ذریعے ۔۔۔ اس افسانے کا کردار ’ستو‘ مہر دین کو مخاطب کر کے کہتی ہے۔
’’ زمینوں کا مالک ہے تو کیا ہوا۔۔۔؟ میں اس کی رکھیل نہیں بنوں گی، جس کھوہ پر جاؤ یہ سالے وہاں ڈسنے کو موجود ہوتے ہیں۔ غریب کی تو عزت ہی نہ ہوئی نا۔ جب جی چاہا رکھ لیا اور جب جی اوبھ گیا نکال دیا۔ ‘‘(۴۹)
احمد ندیم قاسمی اور شوکت صدیقی بھی اس نظام ہائے جاگیر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ محمد حامد سراج نے اس افسانے میں جاگیردار کی بیوی کا جو کردار دکھایا ہے وہ روایتی جاگیردارنیوں سے مختلف ہے ۔ یہاں اُس کی بیوی ، ستو کے معاملے میں اپنا بھرپور احتجاج رکارڈ کرواتی ہے۔ اور خلا لے کر ایک پڑھے لکھے ایم این اے سے شادی کر لیتی ہے۔
افسانہ ’کیڑا‘ میں بھی اسے موضوع کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ مرصع آئینے میں بھی شاعر کی محبت ہار جاتی ہے اور جاگیردار کی جاگیر فتح یاب ہوتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ مغل سلطنت زمینداروں اور جاگیرداروں کے ذریعے چلائی گئی اور اس کے بعد انگریز سامراج نے اس جاگیردارانہ نظام کو مزید تقویت دی اور اس کی سرپرستی کی۔ آج بھی اسمبلی جاگیرادروں سے بھری پڑی ہے۔ اس حوالے سے سجاد ظہیر لکھتے ہیں:
’’ سامراج کے لیے ضروری تھا کہ وہ نوابوں ، روجوڑوں اور جاگیرداروں کو باقی رکھے، با لکل اسی طرح اسکے لیے ضروری تھا کہ ہماری قوم کو ذہنی اور روحانی طور پر مفلوج اور غیر متحدہ اور غلام رکھنے کے لیے وہ سامراجی زوال پذیر جاگیری نظریوں اور عقائد کی سرپرستی اور ترویج کرے۔‘‘
نفسیاتی پہلو
جدید نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائڈ نے ایک بار کہا تھا ’’ میں جہاں بھی جاتا ہوں (یعنی اپنی نفسیاتی تحقیق میں جو کچھ دریافت کرتا ہوں) کوئی شاعر مجھ سے پہلے وہاں پہنچ چکا ہوتا ہے۔‘‘ اگر ہم فرائڈ کے اس قول میں شاعر کی جگہ ’’فنکار‘‘ کا لفظ استعمال کریں تو غلط نہ ہو گا۔ فنکار جتنا بڑا ہوتا ہے، اس کی بینائی ، اس کی بصیرت اتنی ہی گہری ہوتی ہے ۔ ایک عظیم فنکار کو نفسیات ، سائنس اور تحقیق کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اس کا تخلیقی مشاہدہ اسے انسان اور وہ دنیا جس میں انسان بستے ہیں ، کی گہرائیوں تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ مشاہدہ اور اس مشاہدے کی مدد سے حاصل کیے گئے بنیادی حقائق ہی ایک فنکار کی عظمت کی دلیل ہوتے ہیں ۔
نفسیاتی افسانوںمیں موضوع کے اعتبار سے سب سے نمایاں افسانہ ’ ٹھنڈی چائے ‘ ہے۔ مجموعہ سراج میں اسے افسانے کا نام ’چائے کی پیالی ‘درج ہے جبکہ ’منتخب افسانوں کی کتاب ’نقش گر‘ میں یہ ’ٹھنڈی چائے ‘ کے نام سے موجود ہے۔
اس افسانے کا موضوع ’شک ‘ کی نفسیات ہیں۔ رشتوں کے درمیان جب شک در آتا ہے تو پیچھے کچھ نہیں بچتا۔ خاص طور پر میاں بیوی کا رشتہ ایسا ہے کہ اس میں شک کی گنجائش ہی نہیں۔ ارینہ اور ارتات احمد، کافی دیر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں ۔ دونوں اپنی زندگی کے شب و روز گزار رہے ہوتے ہیں کہ ارتات کے ذہن میں کچھ خیالات دخل دیتے ہیں کہ اُس کی بیوی حسین وجمیل ہے تو ضرور ماضی میں اس کا کوئی افئیر رہا ہو گا۔ انہی خیالات کی بدولت دونوں کے درمیان ایک سرد جنگ کی سی کیفیت طاری رہتی ہے۔ ایک دن ارینہ تھک ہار کے پوچھ ہی لیتی ہے کہ کیا مسئلہ چل رہا ہے اگر اولاد کا نہ ہونا باعثِ پریشانی ہے تو میں آپ کو پریشان نہیں دیکھ سکتی ۔ خود اپنے ہاتھوں سے آپ کی دلہن سجاؤں گی۔ لیکن مسئلہ تو کچھ اور ہوتا ہے۔ اور وہ ہمت جُٹا کر یہ بیان کرتی ہے:
’’ میں شک کی وجہ جان سکتی ہوں ۔۔۔؟
تمہارے بے پناہ حسن نے مجھے اس مقام پہ لا کھڑا کیا ہے۔
اس میں میرا قصور نہیں نکلتا۔
کیسے۔۔۔؟
میں نے اپنے آپ کو تخلیق نہیں کیا۔ یہ تخلیق کار کی عنایت ہے۔
ایک بات کہوں۔۔۔؟
کہیے؟
سکول، کالج اور یونیورسٹی میں تمہارا کوئی دوست بھی رہا ہے۔۔۔؟
دوست سے آپ کی کیا مراد ہے۔۔۔ اس کا اعتماد بحال ہو رہا تھا۔
کوئی ایسا شخص جس نے تمہیں پسند کیا ہو۔۔۔؟
پسند کرنے والے تو ہزاروں تھے ۔ شمع کے گرد پروانے تو رقص کرتے ہی ہیں۔
تم کچھ چھپا رہی ہو۔
میں کچھ بھی نہیں چھپا رہی۔ آپ نے سوال ہی الٹ کیا ہے۔ میں ہزاروں کی پسند سہی لیکن میں نے کسی کو پسند نہیں کیا۔ میری زندگی میں آپ پہلے مرد ہیں۔‘‘
ایک ایسی عورت عورت کے لیے جو وفا شعار ہو لیکن اپنے حسن کی وجہ سے شک کا نشانہ بن رہی ہو وہ اپنے ہوش و حواس کیسے قائم رکھ سکتی ہے۔ اس لیے وہ جنون کے عالم میں اپنے ہونے سے بھی انکاری ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ا س کے شوہر نے ارتات نے اپنی بیوی ارینہ بھی شک کیا تھا اس لیے اب وہ ایک ایسی نفسیاتی کیفیت میں ہے کہ وہ ارینہ سے بھاگ رہی ہے۔ اب جبکہ شوہر اس بات پہ مُصر ہے کہ تمہارا کوئی دوست رہا ہو گا اس لیے وہ ایک نا معلوم شخص کو نفسیاتی طور پہ اپنا ایک محبوب بنا لیتی ہے۔ عورت کی نفسیات اور کردار کی پیچیدگیوں کے بارے میں ڈاکٹر سلیم اختر اپنے ایک مضمون ’’ پا کستانی خواتین کے افسانوں میں عورت ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ جس طرح عملی زندگی میں عورت بیک وقت ماں، بیوی، بیٹی، اور بہن ہو سکتی ہے یا محبوبہ یا طوائف بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح افسانوں میں بھی عورت جبلی تقاضوں ، نفسی محرکات اور رنگ بدلتے متنوع کردار کی بھول بھلیوں میں بھی گم ہو جاتی ہے تو کبھی عرفان ذات حاصل کر لیتی ہے۔ ‘‘
مذکورہ افسانے میں بھی ارینہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو کر کرادر کی بھول بھلیوں میں کھو جاتی ہے۔ اور کہیں بہت گہرا اُس کے اندر شوہر سے بدلے کے جذبات بھی نشو ؤنما پاتے ہیں کہ جس وجہ سے تم نے مجھ پہ شک کیا ہے اب میں وہی بن کے دکھاؤں گی۔
افسانہ نگار نے میں عورت کی جنسی نا آسودگی کے باعث پیدا ہونے والے نفسیاتی عوامل کو اپنے افسانوں ’’ نقش گر‘‘، ’’آخری آئس کیوب‘‘ اور ڈرائنگ روم اک گزر گاہ‘‘ میں موضوع بنایا ہے۔
’نقش گر‘ میں لڑکی کی نا آسودہ جنسی خواہش ، اپنے بدن پہ پینٹنگ بنوانے کی آرزو کے طور پہ نمودار ہوتی ہے جس کا تقاضا وہ اپنے ایک مصور دوست سے کرتی ہے لیکن وہ ایسا کرنے سے انکار کر دیتا ہے ۔
افسانہ ’آخری آئس کیوب‘ میں مرد شادی سے پہلے کوئی ایسا جنسی عمل نہیں کرنا چاہتا جس سے اُسے محبت میں گلٹ کا احساس ہو جبکہ عورت اپنی جنسی تسکین کی خواہاں ہے۔ وہ مرد کو ہر صورت سے آزمانے کی سعی کرتی ہے۔ یہاں مرد کی نفسیاتی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ محبت میں جنس کے ملاپ کو نا جائز تصور کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ کیا وہ ایسا کر کے کوئی کاروبار تو نہیں کرے گا۔ لیکن آخر میں وہ خود کو اس بات پہ قائل کر لیتا ہے کہ اسے تمام حدود کو عبور کر لینا چاہیے۔ تاکہ ساری عمر کی آگ سے بچ سکے۔
فرائڈ کے خیال میں انسان کی نا آسودہ جنسی خواہشات، اس کے لاشعور میں محفوظ رہتی ہیں اور کبھی نا کبھی اظہار کا کوئی رستہ نکال لیتی ہیں ۔ یہاں جنس کی خواہش ، محبت کے زیرِ اثر دبی رہی اور آخر میں جنسی انتقام کی شکل میں باہر آئی۔
حالانہ لڑکی شادی کر چکی ہوتی ہے لیکن عورت ابھی بھی اسے ٹھنڈا ہونے کا طعنہ دیتی ہے ۔افسانے کا آخری حصہ دیکھیے:
’’ تم ایک حد پر آ کر ٹھہر کیوں جاتے ہو
شیکسپیئر نے کہا ہے محبت ایک پاکیزہ پھول ہے جو گناہ کی دھوپ سے مرجھا جاتا ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کے بعد ان پابندیوں کو کون خاطر میں لاتا ہے۔۔۔
اس نے مکیش کا سوٹ ایک نظر دیکھا
کھردری یاد ابھری
اس کی آنکھوں میں اس نے جھانک کر دیکھا تو اس کا خاوند مکمل کیوب کی صورت میں اس کی آنکھوں میں تحلیل ہو چکا تھا۔۔۔!
آخری آئس کیوب جانے اس نے گلاس میں کب ڈالا تھا۔۔۔؟ یہ اسے یاد نہیں تھا
لیکن جب وہ شیکسپیئر کا فلسفہ اوڑھ کر ہوٹل سے نکلا تو اس کے پورے بدن پر مکیش کے بوسے ناسور میں بدل چکے تھے۔ ‘‘ (۵۳)
افسانہ ’ ڈرائنگ روم اک گزر گاہ ہے‘ میں ایسی عورت کا کردار پیش کیا گیا ہے ۔ جسے لمحاتی محبت عجیب کیفیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ گھر کا روایتی ماحول اور اقدار محبت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اس ضمن میں عورت کی نفسیاتی عوامل کو موضوع بنایا گیا ہے۔
’’ سر۔۔۔وہ جو۔۔۔ میرا نہیں تھا۔ سہ پہر کی چائے پر اپنا ادھورا کپ چائے کا چھوڑ گیا تھا۔۔۔ میری زندگی ادھوری رہ گئی۔ تب سے میری میز پر میری چائے کے ساتھ اس کا آدھا کپ بھی موجود رہتا ہے۔ میں نے کرسی بھی اس جگہ سے نہیں اُٹھائی جہاں سے وہ اُٹھ کر گیا تھا مبادا اچانک کسی لمحے اچانک لوٹے اور کرسی آباد ہو جائے۔۔۔سر۔۔۔ وہ میرا تھا، میرے وجود کی مہک اور۔۔۔اور۔۔۔!‘‘
یہ افسانہ حقیقیت نگاری کی عمدہ مثال ہے۔ افسانہ نگار اس کردار سے خود محوِ کلام ہے۔ اور اس میں اس کردار کی تحلیل نفسی کی جا رہی ہے۔
افسانہ جھونکا ہوا میں موت کی گہرائی کا بیان ہے۔ اس کا مرکزی کردار ایک جان لیوا بیماری کا شکار ہے اور وہ خود ڈاکٹر بھی ہے۔ اور اسے معلوم ہے کہ کچھ عرصہ بعد اُس نے مر جانا ہے ۔ ایسے میں وہ کیا سوچتا ہے ، اُس کے اندر کیسی کیفیات ہیں، وہ ذہنی طور پہ کن عوامل کے زیرِ اثر ہے۔ وہ اسلم انصاری کی نظم کو اپنا اظہاریہ بناتا ہے۔ ’’تمام دُکھ ہے‘‘
’’ میرے دوست۔۔۔ موت نے تو سکندر اعظم کو خالی ہاتھ کر دیا تھا۔ موت تو سقراط کے پیالے میں بھی بیٹھی مسکرا رہی تھی۔ موت تو سرمد کے لہو کی بوند میں بھی رقص کناں تھی۔ اب پھراس کائنات میں اس نے میرا چناؤ کیا ہے۔ میں اسے پسند آگیا ہوں۔۔۔ ڈاکٹر عبداللہ تمہیں نابود نہیں ہونا۔ صرف آنکھوں سے اوجھل ہو جانا ہے۔‘‘ (۵۵)
افسانہ ’ بوسیدہ آدمی کی محبت‘ ایک ایسے شخص کی تنہائی کی کہانی ہے جسے دُنیا میں کوئی الفت نصیب نہیں ہوتی لیکن وہ اپنے من میں پیار کی دُنیا بسا لیتا ہے۔ اُسے اپنی بوسیدگی پہ اس قدر یقین ہے کہ وہ خود کو کسی پیار کسی مہ جبین کا مستحق نہیں سمجھتا۔۔۔ یہ ایک ایسے شخص کی نفسیات کا ذکر ہے جو احساس کمتری کا شکار ہے لیکن کہیں بہت گہرائی میں اسے اس بات کا ادراک ہے کہ وہ محبت کے لائق تھا لیکن اہل محبت نے اس کو پہچانا نہیں۔ اس افسانے کی آخری سطور ہیں:
’’ اُس نے راکھ ہتھیلی پرجھاڑتے ہوئے کہا۔۔۔’’میں بھی نہیں سمجھا، مجھے کیسے ملی تھی اور ملتی بھی کیسے یار۔۔۔مجھ ایسے بد صورت اور بوسیدہ آدمی سے بھلا کون محبت کرے گا۔۔۔؟‘‘
افسانہ ’پتیاں‘، ’رونے کی آواز‘، ’شور بہت کرتا تھا‘ اور ’لرزیدہ لمحوں کا تاوان ‘ بھی اسی نوع کے افسانے ہیں جن میں انسان کی نفسیات کو موضوع بنایا گیا ہے۔
سیاسی و سماجی مسائل اور عالمگیریت:
ادیب ، لکھاری، افسانہ نگار، فنکار، غرض کوئی بھی نا م دے لیں، ایک تخلیقی فکر کا آدمی کبھی بھی محدود نہیں رہ سکتا ۔ وہ اپنے اندر ہونے والے واقعات کا بھی جائزہ لیتا ہو اور باہر کی دُنیا کا بھی احاطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ باہر کی دُنیا میں ہر لمحہ کوئی نا کوئی واقعہ رونما ہوتا رہتا ہے اور ایک تخلیقی ذہن اس سے کج نگاہی نہیں برت سکتا۔ اسی لیے اردو کے افسانہ نگاروں نے بھی سیاسی، سماجی، ملکی ، غیر ملکی ہر موضوع کو موضوع سخن بنایا ہے یا یوں کہہ لیجیے ان تمام عوامل نے اُن کی تخلیقات پہ اپنے نقوش ضرور چھوڑے ہیں۔ ادیب نہ صرف اپنے دور کا نمائندہ ہوتا ہے بلکہ آنے والے زمانوں کی خبر بھی دیتا ہے۔ اُس کا شعور باقی عوام سے ایک درجے آگے ہوتا ہے۔ میرؔ ، غالبؔ یا اقبالؔ، سرسید ہوں یا حالیؔ، ان تمام نے اپنی عوام میں شعور کی آبیاری کی ہے۔ اسی حوالے سے ڈاکٹر فضل ربی لکھتے ہیں:
’’ادیب صرف اپنے دور کے سیاسی اور سماجی زندگی کا عکاس نہیں ہوتا بلکہ اپنے قلم سے سماجی اور سیاسی تاریخ میں انقلاب لا سکتا ہے۔ روسو اور والیٹر کی تحریروں نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جس نے فرانس میں صنعتی انقلاب کی قوتوں کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح روسی ادب میں گورکی، ٹالسٹائی اور چیخوف نے اپنی با اثر تحریروں سے انقلاب کے لیے راستہ ہموار کیا۔‘‘ (۵۷)
ڈاکٹر وزیر آغا نے اردو افسانے کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ ارضی رجحان۔۔۔ جسے حقیقت پسندی کا نام دیا گیا۔تخلیقی رجحان جو خیال کے جمال کا ترجمان رہا اور ان دونوں رجحانات کا خوشگوار امتزاج جسے سب سے زیادہ پذیرائی ملی۔
تقسیم ہند کے بعد ہمارے ہاں جو حالات پیدا ہوئے اس کا اثر ہمارے افسانوی ادب نے بھی قبول کیا۔ ایک دور ایسا بھی آیا جب تجریدی اور علامتی افسانے سماجی انتشار کے ردعمل کے طور پر لکھے گئے۔ سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی، مرزا ادیب، راجندر سنگھ بیدی، شوکت صدیقی، غلام عباس، حسن عسکری، انتظار حسین، ممتاز مفتی، اے حمید اور بہت سے لکھنے والوں کے یہاں سیاسی و سماجی زندگی کی بدلتی ہوئی قدروں کا شعور جنم لیتا محسوس ہوتا ہے۔ علامتی رجحان کے ساتھ حقیقت پسندی کے رجحان کے تحت پاکستان اور دُنیا کے سیاسی و سماجی مسائل کے متعدد رنگوں اور ہر رخ کی ترجمانی کا عمل جاری ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے اس تناظر میں افسانہ کی اہمیت اپنے مضمون ’’ ادب اور عصری آگاہی:افسانہ‘‘ میں یوں اجاگر کیا ہے۔
’’ عصری آگاہی کے نقطہ نظر سے جب پوری صدی پر محیط افسانے کا افسانہ سنے تو یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ہماری تاریخ کے ہر موڑ پر، ہماری تہذیب کی ہر کروٹ پر اور ہمارے تمدن کے ہرتغیر پر کہانی نے زندگی کا ساتھ دیا ہے۔ چنانچہ اسی نقطہ نظر سے اگر اہم افسانہ نگاروں کے افسانوں کا انتخاب کیا جائے تو صرف ان افسانوں کی امداد سے ہم برصغیر کی تہذیبی، معاشرتی، سیاسی اور جذباتی فضا کی تخلیقی سطح پر ایک تاریخ مرتب کر سکتے ہیں۔‘‘(۵۸)
حامد سراج گو حالات حاضرہ کے آدمی نہیں تھے لیکن انہوں نے اپنے افسانوں میں عدم استحکام، دہشت گردی، سماجی صورتحال اور مجموعی طور پر انسانیت کو موضوع بنایا ہے۔
حامد سراج نے اپنے پہلے افسانوی مجموعے ’’وقت کی فصیل ‘‘ میں شامل افسانوں ’’گلوبل ولیج‘‘ ،’’ حبسِ دوام‘‘، اور وقت کی فصیل ‘‘ میں عالمی سیاست اورا س کے اثرات سے پیدا شدہ صورتحال کو موضوع بنایا ہے۔
گلوبل ولیج ، اس مجموعے کا پہلا افسانہ ہے۔ یہ افسانہ جدید ٹیکنالوجی پہ اپنے شدید تحفظات کا اظہاریہ ہے۔ اس میں ایک بستی کا المیہ پیش کیا ہے جس میں تمام لوگ اندھے ہو جاتے ہیں لیکن ان میں ایک نومولود بچہ بینائی کے ساتھ پیدا ہوتا تو پوری بستی والے اس سے امیدیں وابسطہ کر لیتے ہیں یہ دُنیا دیکھے گا اور ہمارے دکھوں کا علاج کرے گا۔ اس وقت عالمی منظر نامہ جنگ و جدل کی لپیٹ میں ہے ہر طرف انسان کے بنانے ہوئے آلات نے تباہی مچا رکھی ہے۔ امیر ممالک ، غریب ممالک کا حق کھانے پر مُصر ہیں۔ کوئی کسی کا پُرسانِ حال نہیں۔ وہ بچہ جب جوان ہوتا ہے تو زمانے کے سفر پر نکلتا ہے۔ لیکن ساری دُنیا ایٹمی جنگوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے کہیں زندگی کے آثار نہیں۔۔۔ ایک جگہ اسے ایسی مخلوق ملتی ہے جو تھور اور کانٹے کھا رہی ہوتی ہے۔ جب وہ یہ سب دیکھ کر واپس اپنی بستی کو پلٹتا ہے تو اپنی آنکھوں میں سلائیاں پھر لیتا ہے۔ یہ افسانہ ہمیں مستقبل کے اُن خدشات کا پتا دیتا ہے جو آج کے جدید انسان نے بڑی محنت سے پیدا کیے ہیں۔ انسان کی اپنی انٹیلیجنس ہی اُس کے مقابل میں آکھڑی ہوئی ہے۔ یہ پورا نظام ہائے زندگی ہی استحصال کے بیانیے پہ کھڑا ہے ۔ اسی ضمن میں ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’ اس وقت روس ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہے۔ ریاستیں آزاد تو ہو گئی تھیں۔ لیکن حکمران کٹھ پُتلی تھے۔ گلف میں بھی یہی صورتِ حال تھی۔ تیل کے کنوؤں پر عالمی طاقتیں پنجے گاڑے بیٹھی تھیں۔۔۔ اس عہد میں جھوٹ، فریب، رشوت اور ملاوٹ کا چلن عام تھا۔ کاروبارِ زندگی میں جھوٹ، فریب اور رشوت اتنی ہی ضروری قرار دے دی گئی جتنی زندہ رہنے کے لیے سانس لینا ضروری ہے، کرہ ارض کو گلوبل ولیج قرار دے دیا گیا تھا اور اس میں سودی کاروبار اور سودی قرضہ جات کو قانونی اور حکومتی تحفظ حاصل تھا۔ تعلیم اور علاج جیسے شعبے میں خدمتِ خلق کے دائرے سے نکل کر مکمل طور پر کمرشل اور کاروباری ہو گئے تھے۔ جان بلب مریضوں کے ورثا سے لاکھوں روپیہ بٹور لینے کا چلن عام تھا۔ بے حیائی اور فحاشی شرافت کے زمرے میں شمار ہونے لگی تھی۔ اسے فنون لطیفہ کے نام سے فروغ دیا جا تا تھا۔‘‘ (۵۹)
افسانہ نگار نے عالمی صورتحال کے اس منظر نامہ کو محض دیکھا نہیں ہے۔ بلکہ اپنی سماجی اور تاریخی شعور کی قوت سے اس عالمی سطح کے سیاسی محرکات کو بخوبی سمجھا بھی ہے۔
افسانہ ’دائمی حبس‘ میں افسانہ نگار خودکلامی کرتا ہے۔ وہ ہر اس خوف سے آزادہ چاہتا ہے جس نے اس کائنات کو محدود کیا ہوا ہے۔۔ دہشت گردی۔۔بھوک، افلاس اور ان سے جڑے تمام مسائل کا حل تلاش کرتا ہے۔ اور اس کا ممتنع نظر صرف پاکستان نہیں ہے بلکہ وہ عالمی امن کی بات کرتا ہے۔
’’کہیں کوئی شہہ زور میزائل گراتا ہے تو رات کو صحن میں لیٹے لیٹے کئی بار نیند میں لرزتا ہوں۔۔۔آسمان سے ٹوٹنے والا تارہ میرے اندر خوف بو دیتا ہے کہ ابھی کوئی اندھا میزائل گرا۔
مہنگائی کی ہر نئی لہر میرے آنگن میں خوف کاشت کر جاتی ہے۔۔۔زرد رَو چہروں والی یہ مخلوق۔۔۔میں بھی انہیں میں سے ہوں۔۔۔پیٹ پر پتھر باندھے سانس لیتا، صدیوں سے اپنی پیٹھ پر حکومتوں کے عذاب ڈھوتا، میں خمیدہ کمر، زمین زاد پِس رہا ہوں۔ میں پہروں مہنگائی کے خوف پر زہر کی کونپلیں پھوٹتے دیکھتا رہتا ہوں، کیونکہ انہی کو آنے والی نسلِ نو کا رزق ہونا ہے۔۔۔ میں شہروں سے خائف ہونے لگتا ہوں۔ شہر در شہر، بھوک، مہنگائی اور بیروزگاری کا عفریت گھومتا نظر آتا ہے۔
شہر کا خوف مجھے نیا اذنِ سفر عطا کرتا ہے اور میں دنیا کی سیر کا ارادہ باندھنے لگتا ہوں۔۔۔ لیکن کیا کیجیے؟
بوسنیا، چیچنیا، کشمیر، فلسطین، افغانستان، کوسووو۔۔۔ہر جگہ آگ لگی ہے۔ ملکوں کی چار دیواری میں مجھے سانس لینا دو بھر ہو جاتا ہے۔ پنچھی پھڑپھڑاتا ہے، ہیروشیما اور ناگا ساکی کی تپش مجھے رگِ جاں سے زیادہ قریب محسوس ہوتی ہے۔۔۔ میری عمر صدیوں پر محیط ہے۔ ‘‘(۶۰)
افسانہ ’وقت کی فصیل‘
اس کا ایک کردار گویا ہوتا ہے۔
’’پہلے پہل بیٹا۔۔۔گھر اور بستی کے دکھ ہوتے تھے۔ اور اب۔۔۔؟ اب تو دُنیا سمٹ گئی ہے۔۔۔میڈیا نے تو ہم کو ہمارے اپنے دُکھ بھی بھلا دیے۔
وہ کیسے۔۔۔؟
روزانہ ہم جو دیکھتے اور سنتے ہیں۔ وہ ہمارے شعور اور لاشعور میں اودھم مچاتا رہتا ہے۔ وہی تصویریں متحرک رہتی ہیں۔ رملہ کی گلیوں میں اسرائیلوں ٹینک معصوم فلسطینی بچوں کو کچل دیتے ہیں۔ سارے شہر کھنڈر بنتے جا رہے ہیں۔ کابل، قندوس، قندھار اور تورابورا پر دیوہیکل جنگی جہاز لاکھوں ٹن بارود برسا چکے ہیں۔ دہشت گرد مغربی طاقتیں۔۔۔ ان تھوتھنیوں سے رستا لہو۔۔۔!
میری خواہش تھی میرے افسانے کا کردار چلا جائے۔ میں ڈرتے ڈرتے کہا۔۔۔‘‘(۶۱)
افسانہ ’اعلان‘ میں کردار خود کلامی کرتا ہے۔
’’ اعلان سننے کے بعد میں نے سوچا مجھے ضرور بولنا چاہیے۔ میں نے ہاتھ بلند کیا لیکن میری زبان لڑکھڑا گئی۔ میری زبان کو تالا کس نے لگا دیا۔۔۔؟ یہ جو دیہاڑی مانگنے آیا تھا۔ جس کے بیلچے نے اتنی روٹی نہیں کمائی تھی، جتنی ہاتھوں نے گانٹھیں کمالی تھیں۔ کھردرے ہاتھوں پر محنت کی روٹی رقم تھی، لکیروں کی لکڑیاں ہاتھ کے تندور میں سلگ رہی تھیں۔ یہ بھی چپ ہے میں بھی چپ ہوں، صرف پولیس وین کے انجن کی آواز ہے اور بس۔۔۔!
سنا ہے پورے کرۂ ارض کی بستیاں صدیوں سے چپ ہیں اور اعلان ہو رہا ہے۔۔۔ ! اعلان کو خود بھی معلوم نہیں تھا کہ اسے بار بار کیوں دُہرایا جا رہا ہے اور مغربی سمت سے آنے والے طاعونی پر ندے پوری زمین پر یا جوج ماجوج کی طرح پھیل گئے ہیں۔ ان کی چونچ میں ایٹمی، کیمیائی، جراثیمی کنکریاں ہیں وہ اندھی ہیں۔۔۔‘‘(۶۲)
افسانہ’کلوننگ کی پیداوار‘ میں طاقتور طبقے اور عام عوام۔۔۔
’’میں اس روز ان کے گھر موجود تھا جب ان کی ہمشیر ان سے اپنے بیتے کے لیے جھگڑ رہی تھی۔ چیئرمین صاحب کا کہنا تھا کہ اداروں کو چلانے کے لیے ہمیں ٹیلنٹڈ اذہان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور میرا بھانجا پرلے درجے کا نالائق اور لاپروا ہے۔ چار پیسے دے کر اس نے ڈگری تو لے لی ہے لیکن وہ اس اسامی کے اہل نہیں ہے۔
ان کی ہمشیر تراخ سے بولی ۔ یہ ملک اور اس کا قانون ساز ادارہ انگوٹھے چھاپ ممبران سے چل سکتا ہے تو آپ کا ادارہ میرے بیٹے کے ساتھ کیوں نہیں چل سکتا۔ ‘‘
’’ امی رہنے دیجیے۔۔۔اس ملک کی ساری بیوروکریسی اور اربابِ اقتدار کے چہرے ایک سے ہیں۔ یہ سب کلوننگ کی پیدار ہیں۔ ‘‘
حامد سراج کے افسانوں کا فنّی مطالعہ
نقش گر:
محمد حامد سراج نے افسانے کو اپنے الگ اسلوب میں برتنے کی سعی کی ہے۔ وہ اسلوب اور ہئیت کے تجربے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔’’نقش گر‘‘ کہانی ہے ایسے دو کرداروں کی جن کے جذباتی اور نفسیاتی رویے اُن کی زندگی پہ ہاوی ہیں۔ کہانی کے آغاز میں دونوں کرداروں کی ملاقات ایک آرٹ گیلری میں ہوتی ہے۔ مرد مصور ہے اور عورت اُس کی مداح ہے۔ افسانہ نگار نے کرداروں کا تعارف نہیں کروایا بلکہ اُن کے درمیان ہونے والے مکالمے کے پیش نظر یہ معلوم ہوا ہے۔ عورت ایک ہیجانی کیفیت کا شکار ہے اور وہ چاہتی ہے کہ نقش گر اُس کے آئینہ بدن پہ نقش بنائے اور اسے ہمیشہ کے لیے امر کر دے۔ لیکن وہ اس بات پہ آمادہ نہیں ہوتا اور اسی کشمکش میں کہانی آگے بڑھتی ہے۔
افسانہ نگار کا فن اس افسانے میں مکالماتی تکنیک کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ کرداروں کی داخلی کیفیات کو استعاراتی وصف میں لپیٹا گیا ہے۔ افسانہ نگار بنیادی طور پہ جدید معاشرے کی آزاد عورت کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور اس کے جنسی رویوں کی آسودگی کے ذرائع کو برا مانتا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ نہ آئے کسی مصور کی اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک لڑکی اسے اپنے بدن پر نقش گری کی فراخدالانہ دعوت دے۔ ‘‘
’’ ہاں ایک بار اس نے کہا تھا میں تمہارے بدن پر اپنا لمس پینٹ کرنا چاہتا ہوں ۔ میں نے انکار ہی کب کیا تھا۔ ‘‘(۶۵)
اس افسانے میں خودکلامی کی تکنیک کا استعمال بھی کیا گیا ہے ۔ جس سے کرادار اپنا کتھارسس بھی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ خود کلامی کے ساتھ ساتھ بیانیہ انداز بھی اپنایا گیا ہے۔ جہاں کردار سے بلوانا مقصود نہ ہو وہاں مصنف خود اُن کی داخلی و خارجی حالت کا بیان کرتا ہے۔
اس افسانے کی تکنیک کا ایک اہم پہلو شاعرانہ مزاج ہے ۔ افسانہ نگار کو جہاں موقع ملتا ہے وہ شاعری کا سہارا لیتا ہے یا جملوں کی ساخت کسی آزاد نظم کی صورت معلوم ہوتی ہے۔
’’فون کی گھنٹی بجی اس نے لپک کر ریسیور اُٹھایا۔
رات کیوں نہیں آئے؟ اس کی آواز میں پوری رات کی چیخ تھی۔
میں تمہارے پاس موجود تھا۔
جھوٹ۔۔۔ وہ روہانسی ہو رہی تھی۔
ذرا آئینے کے سامنے جا کر اپنے بدن پر ایک نظر تو ڈال کر دیکھو۔
ریسیور اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
وہ آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ بدن کے خطوط کو غور سے دیکھا۔
ناف۔۔سُکھ کے نشے میں سویا ہوا مکان
ساق۔۔۔پورے چاند کی پہیلی سریلی تان
بالوں کو چھو کر دیکھا ۔۔۔ریشم کے انبار
ہونٹ۔۔۔ہونٹوں پر اس کے لمس کی یاقوتی مہکار
بل کھاتی ریشم سی کمر۔۔۔سینہ۔۔۔شیریں شہد میں ڈوبا ہوا پیکان
اس نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔۔۔تراشیدہ چٹان
اس کی رنگت شرم سے گلنار ہو گئی۔
اس کے بدن پر پوری رات کے انتظار کی کیفیات پینٹ تھیں۔ ‘‘
گلوبل ولیج:
یہ افسانہ ایک علامتی افسانہ ہے۔ حامد سراج نے گلوبل ولیج کی اصطلاح کو ذو معنی انداز سے پیش کیا ہے۔ ولیج بنیادی طور پر ایک ایسی معاشرتی اکائی ہوتا ہے جہاں کے دُکھ درد، سکھ اور خوشیاں سانجھی ہوتی ہیں ۔ لیکن ہر گاؤں کا ایک چودھری بھی ہوتا ہے۔ جس کے حکم کا ہر بندہ تابع ہوتا ہے۔ جو ظلم بھی کرتا ہے تو گاؤں والوں کی بھلائی کا بہانا بنا کر۔۔۔ با لکل اسے طرح ہم اس وقت ایک گلوبل ولیج میں رہ رہے ہیں یہاں کا بھی ایک چودھری ہے۔ جس نےاس کو اپنے ظلم و جبر سے دوزخ بنا رکھا ہے۔ حامد سراج نے اسی صورتحال کی نقاشی علامتی انداز سے کی ہے۔
اس افسانے کی تکنیک بیانیہ ہے۔ کہیں کہیں فرد یا ہجوم بھی کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ افسانے کی فضا اساطیری ہے۔ یہ ایک ایسی بستی کا المیہ ہے جہاں رہنے والوں کی بینائی چلی جاتی ہے۔ حاملہ عورتیں بچے جننے کی طاقت سے محروم ہو جاتی ہیں۔ پھر ایک معجزہ ہوتا ہے اور ایک عورت کو حمل ٹھہرتا ہے اور بچے کی پیدایش ہوتی ہے۔ یہ بچہ بینا پیدا ہوتا اور جوانی کی عمر میں پہنچتے ہی دُنیا کی سیر کا ارادہ باندھتا ہے تاکہ بستی والوں کی بینائی کا کوئی علاج تلاش کیا جا سکے۔ اس سفر میں اُسے کرۂ ارض کی تباہ کاریوں کا ہی سامنا رہتا ہے۔ عالمی امن کی راکھ میں بس چنگاریاں ہی باقی ہیں۔ جب وہ اس سفر سے پلٹتا ہے تو بستی والے اس سے دُنیا کا حال دریافت کرتے ہیں اور وہ اپنی آنکھوں میں سلائیاں پھر لیتا ہے۔
اس افسانے کی خوبصورتی یہ ہے ماضی حال اور مستقبل، تینوں زمانوں کو اس افسانے میں سمیٹ دیا ہے۔ اور المیہ یہ ہے افسانے نگار نے اس دُنیا کے حال اور مستقبل کی جو صورت پیش کی ہے وہ دل دہلا دینے والی ہے۔
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
اس گلوبل ولیج میں ہر سو خوف کے سائے منڈلاتے ہیں۔ ہم بحیثیت انسان ہر اُس پستی کی پاتال میں جا چکے ہیں جہاں سے واپسی شاید نا ممکن ہے۔ حامد سراج نے موجودہ اور آنے والی دُنیا کا جو منظر نامہ پیش کیا ہے وہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم اجتماعی خودکشی کے راستے پہ گامزن ہیں۔ اس افسانے کو پڑھ کر افسانہ نگار کی آفاقی فکر، بالغ النظری اور گہرے احساس کا پتا چلتا ہے۔
’’ اس عہد میں جھوٹ، فریب، رشوت اورملاوٹ کا چلن عام تھا۔ کاروبارِ زندگی میں جھوٹ، فریب اوررشوت اتنی ہی ضروری قرار دے دی گئی جتنی زندہ رہنے کے لیے سانس لینا ضروری ہے۔ کرۂ ارض کو گلوبل ولیج قراردے دیاگیاتھا اوراس میں سودی کاروبار اورسودی قرضہ جات کو قانونی اورحکومتی تحفظ حاصل تھا۔ تعلیم اورعلاج جیسے شعبے بھی خدمتِ خلق کے دائرے سے نکل کرمکمل طورپرکمرشل اورکاروباری ہوگئے تھے۔ جاں بلب مریضوں کے ورثا سے لاکھوں روپیہ بٹورلینے کا چلن عام تھا۔ بے حیائی اورفحاشی شرافت کے زمرے میں شمارہونے لگی تھی۔ اسے فنونِ لطیفہ کے نام سے فروغ دیاجاتاتھا۔‘
ہے کوئی:
’ہے کوئی‘ تلاش ہے اس انسان کی جو اعلیٰ اخلاقی صفات کا مظہر ہو۔ یہ افسانہ ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر کا آئینہ ہے۔ اس افسانے کا آغاز بیانیہ انداز سے ہوتا ہے۔ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے کردار تشکیل پاتے ہیں اور کئی کردار وجود میں آتے ہیں۔ ہر کردار اپنی اندر ایک کہانی لیے ہوئے ہے۔ اس لیے کئی کہانیاں جنم لیتی ہیں لیکن دراصل وہ ایک ہی کہانی کی جزئیات ہیں۔
یہ افسانہ بازار کے ایک خاص ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ جس میں مختلف شخصی رجحانات کا بیان کیا گیا ہے۔ جو کہ مختصر خاکے معلوم پڑتے ہیں۔ کہانی کا پلاٹ اور موقع محل عام فہم ہے اس لیے قاری کہانی میں جلد محو ہو جاتا ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار مروت ہے جو ایک اچھا انسان ہے لیکن واقعات اور ماحول سے بہت جلد متاثر ہونے والا ہے۔ ہر طرف اخلاقی تنزلی اپنے عروج پر ہے۔ برائی گھر گھر پھیل چکی ہے۔ اس لیے یہ اچھا کردار بھی اس گندگی سے پہلو تہی کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ لیکن اسے اس بات کا احساس بھی ہے ۔ افسانے کی ساخت کو عامیانہ ہونے سے بچانے کے لیے علامتی انداز بھی اپنا گیا ہے جس سے ایک خاص قسم کا سحر قائم رہتا ہے۔
’’ مروت بوجھل قدموں سے اپنے دکھ اورمسائل کاندھوں پراٹھائے دکان پرآن بیٹھا۔ کیا کبھی کوئی آئے گا…..؟ ابنِ مریم….. اذنِ مسیحائی لے کر اوریہ بوجھ ہمارے کاندھوں سے اتارے گا۔ ہرآنے والے دن کے ساتھ بوجھ بڑھتا جا رہا ہے….. گلی کی نالی سے تعفن اٹھ رہاہے، کوڑے کرکٹ کے ڈھیرلگ رہے ہیں…..پہروں بجلی نہیں ہوتی….. ہوش رباگرانی میں سانس کی گھٹن، یہ سارے مسائل کون حل کرے گا…..؟ کون….. کون…. کون…..؟ مروت کے ذہن میں جھکڑچلنے لگے…..
وہ گلی میں گزرتے چہروں پہ پیوست یبوست زدہ تحریریں پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ کیایہ چہرے زندہ ہیں…..؟ ان پرمردنی کی سی کیفیت کیوں چھائی ہے…..؟ خوف کاشت کرنے والے ہاتھوں کو قلم کیوں نہیں کر دیا جاتا…..؟ وہی ذہن کے پردوں پر رینگتا لامتناہی سوالات کا سلسلہ…..! ‘‘ (۶۸)
’’مشین رُک گئی، پنکھاساکت ہوگیا، کونے میں سربہ زانو عفریت نے انگڑائی لی۔ مروت کا رنگ لٹھا ہوا۔ بہت سے سؤر اورکتے اس کی دکان میں گھس آئے۔ ان کی رال ٹپک رہی تھی۔ سؤروں اور کتوں نے پردے پھاڑ دیے اور۔۔۔ وہ کئی سال سے یہ ٹکڑے لیے دکانو ں پر گھومتا اور پوچھتا پھرتا ہے۔۔۔ ہو کوئی اللہ کا بندہ جو ان ٹکڑوں کو جوڑ دے۔۔۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اس قدر تعفن زدہ ہو گیا ہے کہ مروت جیسےشریف کردار کو بھی اس تعفن سے بچنے کے لیے بہت کوشش کرنی پڑتی ہے۔
ڈِنگ:
حامد سراج کے افسانوں میں ماضی کی بازگشت اور ایک رومانس ملتا ہے۔ ان کے ہاں ماضی روشن مثال کی مانند عیاں رہتا ہے۔ اس افسانے میں بھی وہ اپنے ایک حقیقی دوست بشارت احمد کی اس کے گاؤں کے ساتھ وابستگی کو بیان کرتے ہیں۔ افسانے کا انداز بیانیہ ہے۔ شعور کی رو کی تکنیک کو بارہا برتا گیا ہے۔
افسانہ کا سارا ماحول بشارت احمد کے گاؤں کی روداد ہے۔ افسانہ آغاز سے انجام تک بشارت احمد کی داخلیت کو لے کر آگے بڑھتا ہے۔ یہ افسانہ ، افسانہ نگار کے گہرے مشاہدے جس میں اُس کی اپنی باطنی کیفیات بھی شامل ہو جاتی ہیں غمازی کرتا ہے۔ بشارت احمد کا کردار نقل مکانی کے نتیجے میں احساس محرومی، تنہائی اور بے زمینی کا شکار ہو چکا ہے۔ افسانہ نگار نے اس کردار کے داخلی کرب کا نفسیاتی جائزہ اسکی عمر کے خارجی زمان و مکان کے اعتبار سے پیش کیا ہے۔
گھر ، گاؤں اور زمین کو علامت کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ایک گھر جو باہر کی دنیا میں نظر آتا ہے جبکہ ایک گھر انسان اپنے اندر بناتا ہے جس کی تعمیر تمام عمر جاری رہتی ہے۔
’’اچانک ایک خیال اس کے دماغ میں کوندا۔ پلٹ کر اس نے گھرکے درودیوارکودیکھا۔
کیوں نہ میں اپنے اس گھرکو اپنے اندرتعمیرکرلوں…..! وہاں سے تواسے کوئی بھی گراکراپنا منصوبہ شروع نہیں کرسکے گا۔ یہ خیال اسے اتنابھایا پہلے اس نے سارے کمرے اپنے اندرتعمیر کیے۔ صحن میں لگے تلسی کے پودے کھرپے سے نکال کر اپنے اندرلگائے۔ چھپربنایا، اس میں بھینسیں اورگائے باندھی۔ بکریوں کی چرنیاں تک اس نے ترتیب سے رکھیں۔ کیکرکادرخت لگانے میں اسے بہت محنت کرناپڑی۔ کیکرکے ایک بڑے ٹہن پرلگا، رسے کا جھولا جو وہ ہرسال عیدپرجھولا کرتے تھے، اسے بھی اس نے نظراندازنہیں کیا۔ جب اسے یقین ہوگیا کہ پوراگھر سازو سامان سمیت اس کے اندر تعمیرپاگیا ہے تووہ سرشارہوگیا۔ وہ گھرسے نکلا۔ ‘‘ (۷۰)
ہجر ، سفر اور موت انسان کا مقدر ہے ۔ وہ اپنے مقدر سے نہیں بھاگ سکتا۔ ہجر چاہے کسی شخص سے ہو یا کسی جگہ کا، سفر باہر کا ہو یا اندر کا اور موت تو ہر صورت میں ہم پہ غالب آتی ہے۔ حامد سراج کی جزئیات نگاری نے افسانے کو زیادہ جاذب بنا دیا ہے۔ حامد سراج کے افسانوں میں شرینہہ کا درخت ایک واضح علامت کے طور پہ ملتا ہے۔ یہ علامت کسی شفیق بزرگ کا تاثر دیتی ہے۔ جس میں محبت، شفقت ، آرام اور سکھ اپنے اعلیٰ درجے میں جمع ہوتے ہیں۔
افسانہ نگار نے اس کہانی کو بیان نہیں کیا بلکہ یہ خیال کے رو کے ساتھ بہتی چلی گئی ہے۔ اس کا کردار اور خود افسانہ نگار بھی اس سفر میں تھک چکا ہے ۔ صدیوں کی تھکاوٹ ان کے بدن میں سرایت کر چکی ہے۔
’’ اس کے قدموں میں صدیوں کی تھکن تھی۔ اس کے وجودمیں زمانے گم تھے۔ وہ چلتارہا، بے سمت، بے آواز قدموں کے ساتھ۔ اسے شرینہہ کے درخت کی تلاش تھی۔ جس کے سائے کا پھیلاؤ دوکنال تھا۔ اس گھنے شجرِ سایہ دارکے نیچے فقیرمحمد امیرسے لوگ ملنے کوآتے۔ جوق درجوق، قطاراندرقطار، بس ایک روحانی کشش انہیں کھینچ لاتی۔ لوگ اپنی باطنی تشنگی کی سیرابی کو اس چھتناور درخت کا رخ کرتے۔ فقیرمحمد امیرکاسایہ شرینہہ کے سائے سے کہیں زیادہ گھنا، میٹھا اورآرام دہ تھا۔‘‘(۷۱)
’’ بشارت احمد چھپرتلے بیٹھا شرینہہ کے سائے کو سرکتے ہوئے دیکھتارہا۔ شرینہہ کا سایہ نہیں اس کے سامنے وقت ڈھل رہاتھا۔ یا وہ خودڈھل رہاتھا۔ لوگ ایک ایک کرکے جارہے تھے۔ وہ تھا، فقیرمحمد امیرتھے اوریاد کی تیز ہواتھی، سب ریزہ ریزہ، کرچی کرچی….. وہ لوٹنا چاہتاتھا۔ اس کی جھولی دعاؤں سے بھرگئی تھی۔ اس کے قدموں میں صدیوں کی تھکن اوردھول تھی۔ وہ چلتارہا، چلتارہا۔ ‘‘
افسانہ نگار نے کرداروں کی حرکات و سکنات، انکی رسومات، علاقائی ثقافت اور بستی کے ماحول کی جزئیات کو جس حقیقت نگاری سے پیش کیا ہے۔ قاری اپنے آپ کو ڈنگ میں موجود پاتا ہے۔
رومنی:
رومنی کا کردار ایک ایسی مشرقی لڑکی کی نمائندگی کرتا ہے جس کے اندر محبت کے جذبات طلالم برپا کئے رکھتے ہیں لیکن اظہار کے ساحل کا بوسہ نہیں لے پاتے۔وصل کی چاہت کا اظہار حیا کے پردے میں لپٹا رہ جاتا ہے۔ بس ایک بوسہ ہی محبت کاا ظہاریہ قرار پاتا ہے۔ اور دائمی ہجر کی بھٹی میں دونوں سُلگ جاتے ہیں۔
یہ افسانہ ماضی کی بازیافت اور خود کلامی کی تکنیک میں لکھا گیا ہے۔فلیش بیک کی تکنیک کی تکرار کو برتا گیا ہے۔ اس افسانے میں رومنی کی محبت کی گہرائی کو نہایت شائستہ انداز سے پینٹ گیا گیا ہے۔ بظاہر دونوں کے ہجر کی کوئی خاص وجہ بیان نہیں کی گئی لیکن اس ہجر نے دونوں پہ جو اثرات چھوڑے ہیں اُن کو سمجھنے کے لیے ان تین اقتباسات کودیکھنا ضروری ہے۔
’’ اسی شام وضو کرنے کے لیے میں غسل خانے میں گیا تو پلاسٹک کے پائپ کا ٹکڑا لگا تھا۔ میں نے چوکی پر بیٹھ کر آرام سے وضو کیا۔ وضو کرکے زوردار نعرہ لگایا۔
’’چاچی زندہ باد۔ ‘‘
’’کیا ہوا، چاچی کی اتنی تعریفیں ہو رہی ہیں۔ ‘‘
’’چاچی تو نے پائپ جو لگا دیا ہے۔ ‘‘
’’میں نے کب لگایا ہے؟‘‘
’’تو پھر…..؟‘‘
’’رومنی لگا گئی ہے۔ کہہ رہی تھی، چچی کپڑے دھوتی ہوں تو چھینٹے پڑتے ہیں۔ ‘‘ یہ دوسری خاموش ملاقات تھی۔ تیسری ملاقات بھی خاموشی کے کفن میں لپٹی تھی…..
میں کیاریوں کی گوڈی کرنے میں مگن تھا۔ نئی کیاری بناتے ہوئے میں کھرپے سے مٹی نکال رہا تھا۔ وہ درخت کے تنے کا سہارا لیے خاموش کھڑی تھی۔ شرارتاً میں نے اس کے پاؤں پر مٹی ڈالی، وہ کھڑی رہی۔ میں مٹی ڈالتا رہا، پاؤں چھوٹی سی قبر نما ڈھیری میں چھپ گیا۔ میں نے اوپر دیکھا۔ اس کی آنکھیں نم تھیں۔ میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی وہ پلٹ گئی۔‘‘
محبت کی مقناطیسیت ایسی ظالم شے ہے کہ جو محبوب پہ بیتتی ہے وہی محب پہ گزرتی ہے۔ اور جو محب کی حالت ہوتی ہے وہی محبوب کا حال ہو جاتا ہے۔ رومنی سے اس کی ملاقات ہسپتال کی راہ داری میں ہوتی ہے جہاں وہ اپنی ماں کے ساتھ چیک اپ کے لیے آئی ہوتی ہے۔ رومنی ٹی بی کی مریضہ بن چکی ہے۔
’’ مجھے کئی ماہ سے مسلسل کھانسی رہنے لگی تھی۔ اس روز ہسپتال کی طویل راہ داریوں میں اپنے ایکسرے، بلڈرپورٹ اور یورین ٹیسٹ کے سلسلے میں مجھے سرجن سے ملنا تھا۔ چھپاکا سا ہوا اور مندر میں ہلچل کچ گئی۔ پرندوں اور روحوں نے وہ شور مچایا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ تیز ہوائیں مندر میں بین کرنے لگیں۔‘‘
وہ ایک جھلک اتنی اچانک اور غیر متوقع تھی کہ یقین نہیں آرہا تھا وہ رومنی ہے، نہیں….. کوئی اور ہے…..؟ رومنی…..‘‘
’’ رومنی نے آنکھیں کھولیں، آنکھیں خاموش اور ویران تھیں۔ ان میں کوئی پہچان نہ تھی۔ بے رونق اور زرد آنکھیں۔ میں پریشان ہو رہا تھا کہ اتنے سالوں بعد اچانک ملنے پر رومنی کے چہرے پر کوئی خوشی کیوں نہیں ابھری۔
میں نے ہمت کی اور ہولے سے پکارا۔
رومنی…..
بیٹا، یہ پچھلے سال سے یادداشت کھو بیٹھی ہے۔ دن بھر غسل خانے کی ٹونٹی چلا کر چھینٹے اڑاتی ہے یا گھر بھر میں اپنے پاؤں پر گیلی مٹی ڈال کر قبریں بناتی ہے۔
یہ سن کر میری جیب میں رکھے اکیلے بوسے سے خون رسنے لگا۔‘‘
افسانے میں رومان سنجیدگی کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے۔ رومنی کے ذہن میں وہ دو واقعات جو اس کی محبت کا شدید ترین اظہار تھے منجمند ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ اس کی زندگی ان سے آگے بڑھ ہی نہیں پاتی۔ کہانی میں محبت کے گہرے رشتے کو اشارات کی زبان میں قاری تک پہنایا گیا ہے۔
زمین زاد:
حامد سراج کا افسانوی اسلوب بیانیہ اور ناصحانہ ہے۔ ان کے یہاں مذہب کی بات افسانے کے قالب میں ڈھل سکتی ہے جسے وہ اپنی کہانیوں کا حصہ بناتے ہیں۔ افسانہ زمین زاد ایک ایسی کہانی ہے جس میں سائنسی ترقی کے ذریعے مزید دنیاؤں کی تلاش جاری ہے اور قرآن کے ابلاغ کو بھی اس کا حصہ بنایا گیا ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن ، انسانی ترقی کو باطنی ترقی سے تشبیع دیتا ہے جبکہ سائنس ابھی خارجی منازل میں ہی سر پٹخ رہی ہے۔ یہ افسانہ اُن کی اپنی فکر کے پہلوؤں کی غمازی کرتا ہے۔ کہانی میں اپنی فکر کو سچ ثابت کرنے کے لیے سائنسی اور قرآنی حقائق کو دلائل کے طور پہ پیش کیا گیا ہے۔
سائنس دان ایک جوڑے کو مریخ پہ بھیجتے ہیں جہاں وہ کئی سال گزارتے ہیں اور اس بات کا خاص اہتمام کرتے ہیں کہ وہ مذہب سے دور رہیں۔ جبکہ مذہب کے حامی اس مشن میں مذہب کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔
’’ موضوعِ بحث یہ بات تھی کہ ساری باتیں اور فیصلے درست لیکن مریخ پر بھیجے جانے والے انسان کو مذہب سے دور ہی رکھا جائے تو بہتر ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ زمین پر فساد کی جڑ مذہب ہی ہے۔ خوفناک جنگیں، ہتھیاروں کی دوڑ، تیر سے میزائل تک، منجنیق سے توپ اور ٹینک تک اور آگ کے گولوں سے ایٹم تک تباہی کے جتنے بھی ہتھیار ہیں وہ مذہبی منافرت کی بنیاد پر ہی ایجاد ہوئے ہیں۔ ا من قائم کرنے کی آڑ میں اپنے مفادات کی جنگیں لڑی جاتی ہیں۔ مذہبی سکالرز نے پرزور اور مدلل طریقے سے سائنس دانوں کی اس رائے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ انسانیت کو رہنمائی صرف مذہب نے عطا کی ہے۔ ان کا کہنا تھا، اس حیوانِ ناطق کو انبیاء و رسل نے انسانیت کا درس نہ دیا ہوتا تو اس کے سفلی جذبات اسے حیوانوں سے بدتر بنا دیتے۔ اور آج بھی جن انسانوں کا باطن تیرہ و تاریک ہے وہ پوری انسانیت کو جنگ کی ہولناک تاریکیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ اس لیے مریخ پر اترنے والا انسان اگر مذہب سے بیگانہ رہا تو اس کے لیے وہاں زندگی عذاب ہو جائے گی۔ اس کے جذبات، احساسات اور ذہن میں پنپنے والے سوالوں کو رہنمائی کہاں سے ملے گی…..؟ اسے مذہبی کتابوں سمیت بھیجا جائے۔ ان کتابوں میں سے وہ کس کتاب سے زیادہ رہنمائی حاصل کرتا ہے یہ فیصلہ ان پر چھوڑ دیا جائے۔ لیکن سائنس دانوں کی سوئی اس ایک نقطے پر اٹکی ہوئی تھی کہ انسان کو مذہب سے دور ہی رکھا جائے۔‘‘(۷۶)
زمین سے رابطہ منقطع ہونے کے بعد انہیں اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ کوئی ذات ایسی ہے جو انہیں یہاں بھی اپنی پناہ میں لیے ہوئے اور یوں سائنس اور مذہب باہم ہوتے ہیں۔ وہ یہاں بیزار ہو جاتے ہیں انہیں زمین کی یاد ستانے لگتی ہے۔ ان کے وہاں بچے پیدا ہوتے ہیں ۔ بیوی اپنی خاوند کو قرآن کی آیتوں کے حوالے دے کر کائنات کی وسعتوں کے واضح اشاروں کا بتاتی ہے۔
بنیادی طور پر مذہب اور سائنس کی بحث کو سمیٹنے کی سعی کی گئی ہے۔ یہاں انسان کی اجتماعی شعور کو بیان کیا گیا ہے کہ اس کے نزدیک ترقی کے معیار کیا ہیں۔ راستہ باہر ہے یا اندر۔۔۔ سکون قلب کہاں میسر ہو گا۔ کہانی آگے بڑھتی ہے ، زمین سے رابطے بحال ہو جاتے ہیں ۔ زمین پر ہزاروں برس گزر چکے ہیں۔ وہ واپس زمین پر آتے ہیں لیکن ’کوئی محرم راز نہ ملدا‘ کے مصداق یہاں بھی تنہائی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔
’’ وہ جب زمین پر اترے….. ہزاروں نسلیں گزر چکی تھیں۔
وہ عظیم ا لشان استقبال کے باوجود با لکل اجنبی تھے۔
وہ کس سے گلے ملتے۔ کون ان سے مل کے خوش ہوتا….. کون ان کی تنہائی کا دکھ بانٹتا۔ اَن گنت چہروں کے درمیان ان کا کوئی بھی اپنا نہیں تھا…..!
وہ اربوں انسانوں کے درمیان پھر تنہا ہو گئے…..! ‘‘
افسانہ نگار چاہتا ہے کہ سائنسی تحقیق کا دھارا بدلا جائے ۔۔۔ جہاں باہر کی دُنیا کو کھو جا تا ہے وہیں اندر کی کائنات کا بھی سراغ لگایا جائے۔۔۔
افسانے کا اسلوب جہاں بیانیہ ہے وہیں چھوٹے چھوٹے مکالمے کہانی میں جاذبیت پیدا کرتے ہیں۔
اوریگان:
اوریگان ایک یونانی لفظ ہے۔ جس کی اصل’ اوریگونو‘ ہے جو ایک پودے کا نام ہے۔ یہ پودا پودینے کی فیملی سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی خوشبو آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
یہ نام افسانے میں علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے کہ اپنی مٹی کی خوشبو آپ کو ہمیشہ اپنی جانب کھینچتی ہے۔ کہانی کا آغاز بیانیہ اسلوب سے ہوتا ہے جہاں علی احمد ماضی کے زخم کریدتا ہے۔ پھر کہانی مکالماتی طرز سے آگے بڑھتی ہے۔ علی احمد ایک پڑھا لکھا شخص ہے جو پردیس میں روزی کی تلاش میں زندگی گزارتا ہے۔ اس کی شادی ایک پاکستانی لڑکی ہو جاتی ہے جو اس کے ساتھ پردیس میں رہنے لگتی ہے لیکن اس کا دل ہمیشہ پاکستان میں ڈھرکتا ہے۔ جبکہ علی احمد دولت کے نشے میں مگن ہے اور اسے اپنی ازدواجی زندگی کا کوئی خیال نہیں ۔ عتیقہ اس کی بیوی بارہا اسے پاکستان جانے کا کہتی ہے لیکن وہ مانع ہے۔ کئی ماہ و سال گزر جاتے ہیں بچے جوان ہوجاتے ہیں ۔ اور عتیقہ کو ہجر کھا جاتا ہے۔ اسے پاکستان میں اپنے گھر کے آنگن میں لگے تلسی ، ریحان کے پودے کی خوشبویاد آتی ہے۔ وہ انسانوں سے ملنے کو ترس چکی ہے۔ یہی ہجر اس کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوتا ہے ۔ عتیقہ مر جاتی ہے اور اس کی میت اس کے بچے پاکستان لے جاتے۔ علی پردیس میں اکیلا رہ جاتا ہے۔
عتیقہ ، اوریگان، تلسی،ریحان، یہاں خوشبو کی علامتیں ہیں۔۔۔ خوشبو کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اس افسانے میں پردیس میں رہنے والے لوگوں کی تنہائی کو بیان کیا گیا ہے۔ اس افسانے میں بھی ماضی کی بازیافت ملتی ہے۔ علی احمد حسرتوں کو پیکر معلوم ہوتا ہے۔ افسانہ نگار نے اپنی منظر کشی سے اس افسانے میں حسرتوں کے دُکھ بھر دیے ہیں۔ اور دیارِ غیر میں رہنے والوں کے جذبات و احساسات کو بڑی خوبی سے برتا ہے۔عتیقہ کے مکالمے اس افسانے کا مغز ہیں۔علی احمد بھی عتیقہ کی خوشبو سے ماورا نہیں ہو سکا۔
’’ یہ میرا گھر نہیں ہے۔ میرا گھر وہیں تھا جہاں ماں کی مٹھاس اور بابا کی چھاؤں تھی۔ وہاں میرے آنگن میں تلسی کے کتنے ننھے ننھے سے پودے تھے….. علی احمد، مجھے لگتا ہے میں بھی تلسی ہوں، تم نے مجھے پاکستان سے اکھاڑ کر اچھا نہیں کیا۔ مجھے یہ مٹی راس نہیں آئی۔ میں مرجھا گئی ہوں۔ مجھے میری جڑوں سمیت لوٹا دو، شاید میں جی اٹھوں۔‘‘ (۷۸)
میرا بڑا بیٹا بوٹ کی ٹو سے زمین کرید رہا تھا۔
ابو، امی کی Dead Body پاکستان جائے گی۔
میرے حواس جواب دے گئے۔ مجھے تو اپنی دھرتی کا نام تک بھول گیا تھا۔ میں کسی کو بھی نہ روک سکا۔ عتیقہ نے کہا تھا، نا….. میں پاکستان ضرور جاؤں گی، تم مجھے روکنا چاہو گے، لیکن نہیں روک سکو گے۔ ‘‘
پچھلا دروازہ:
حامد سراج کی تخلیق کی معراج اس کا خاکہ ’’میّا ‘‘ ہے۔ یہ افسانہ بھی اسی خاکے کا تسلسل معلوم ہوتا ہے۔ افسانے میں حقیقت نگاری کو افسانوی رنگ میں لپیٹ کر قارئین تک پہنچایا گیا ہے۔ حامد سراج کے گھر کے پچھلے دروازے سے چند قدم کے فاصلے پر آبائی قبرستان ہیں جہاں ان کے آباؤ اجداد آسودہ خاک ہیں۔ افسانہ نگار اسی قبرستان میں کھڑا ہے اور اپنے جذبات کا بیان کررہا ہے۔ اسے اپنی موت کا انتظار ہے۔ ماں کے جانے کے بعد اس کی زندگی لایعنی ہو گئی ہے۔ کہانی خود کلامی کے پیرائے میں آئے بڑھتی ہے۔ اس میں اس کا اپنا کردار ہی مرکزی کردار ہے۔ پلاٹ بڑا سیدھا سادہ سا ہے۔ موت ہی تمام غموں سے نجات کا ذریعہ ہے۔
’’موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں‘‘
افسانے کے آخر میں پچھلے دروازے سے اس کا بیٹا اسے بلا رہا ہوتا ہے۔ یہاں پچھلا دروازہ زندگی کی علامت ہے جہاں بیوی بچے ہیں، مال و متاع ہے اور آگے موت باہیں پھیلائے بغل گیر ہونے کو بے تاب!!! افسانہ نگار اپنی ماں سے والہانہ محبت کا اظہار کچھ یوں کرتا ہے۔
’’ ماں کے بعد اسے یقین ہوگیا کہ دنیا ایک ویران سراہے۔ گھڑونچی پررکھے گھڑے میں پانی خشک ہوگیا، چھپر تلے چڑیوں کے گھونسلوں میں ان کے بچے مرگئے، آنگن میں لگے شرینہہ اورشیشم کے درختوں کو دیمک چاٹ گئی، صحن میں لگے ہینڈ پمپ کا پانی گرگیا، کمروں میں چمگادڑ وں نے بسیراکیا، اس کے والد کی دونالی بندوق کے لکڑی کے دستے کو دیمک خوراک سمجھ کر چٹ کرگئی، گھر کی بوسیدہ دیواروں میں موت رینگنے لگی۔ اس نے ایک دن اپنے والد کی بوسیدہ ڈائری کے اوراق آہستگی اورنرمی سے کھولے تو ایک شعرپڑھ کر بہت رویا۔
جان کر منجملہ خاصانِ مے خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
ماں کی الماری میں قرآن، سیپارے، درودشریف کی کتابیں، کریشیہ، اُون، سلائیاں، کڑھائی کے گول فریم، تسبیحیں اورایک تاگے میں تسبیح کے پروئے سات دانے جو اس کی ماں نے عمرے کی ادائیگی کے دوران خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے ہرچکرکی گنتی شمارکرنے کے لیے ساتھ رکھ لیے تھے۔ سراسے جاتے ہوئے کوئی بھی تواپنی جائداد ساتھ لے کر نہیں گیاتھا۔ ‘‘
اس افسانے کا اسلوب بیانیہ ہے اور آپ بیتی کے انداز میں لکھا گیا ہے۔
ایک سو اِکیاون:
یہ افسانے بھی ’پچھلا دروازہ ‘ کا ہی تسلسل ہے۔ پچھلے دروازے میں ماں کی محبت مرکزی نقطہ تھاا ور یہ افسانہ والد کی محبت اور ان کے معمولات کا بیان ہے۔ یہ افسانہ اور خاکے کی کوئی درمیانی صورت کی تحریر ہے۔ جملوں کی ساخت اور بے ساختگی نے اس میں افسانوی رنگ کو نمایاں کیا ہے۔
اس کا اسلوب بھی بیانیہ ہےلیکن اپنے بیٹے سے مکالمے کے ذریعے کہانی آگے بڑھتی ہے۔ حقیقت نگاری کارنگ غالب ہے اس کے ساتھ ساتھ ماضی کی بازگشت واضح سنائی دیتی ہے۔ ایک سو اکیاون استعارہ ہے والد کی سفید پوشی کا جسے انہوں نے زندگی بھر زیبِ تن کیا۔ وفات کے بعد والد کے اکاونٹ سے کل متاع ایک سو اکیاون روپے بر آمد ہوتی ہے۔
’’ ایک دن اس کی ماں نے پوچھا….. ٹریکٹرکی بہت زیادہ آمدن ہوتی ہے کیا…..؟
نہیں بی بی، لوگوں کی باتوں پرکان نہ دھراکرو۔ اﷲ نے دال روٹی دے رکھی ہے۔ صبرشکرکیا کرو، سفیدپوشی کا بھرم قائم ہے۔
اسی سفید پوشی کے بھرم کے قائم رکھنے کو بیٹیوں کی شادی پرتیس ایکڑ زمین بک گئی۔ تاکہ وہ اپنے سسرال میں آسودہ رہیں۔ چنیوٹ سے فرنیچربن کرآیا۔ جس نے دیکھا، انگشت بدنداں رہ گیا۔ بیٹیوں کی رخصتی آن بان اورشان سے ہوئی۔ بیٹیوں کی رخصتی کے بعد پھروہی زمین، دولت اورامارت کے بارے لوگوں کی چہ مگوئیاں اور اس کے ابوکی وہی بُردباری، تحمل اورقناعت….. گھرمیں سادگی اورمعمولاتِ زندگی معمول پر۔ ‘‘
لوٹایا ہوا سوال:
اپنی شناخت کا مسئلہ ہمیشہ ہی زیرِ بحث رہا ہے۔ ہر کوئی اپنی شناخت کروانے کے لیے سابقے لاحقے لگاتا ہے۔ کسی کو دُنیاوی جاہ وحشم اور رشتے داروں کے عہدوں پہ مان ہے تو کوئی مقدس بزرگ ہستیوں کا اپنی شناخت کا پیمانہ بناتا ہے لیکن سوال پھر وہی کہ ہماری اصل شناخت ہے کیا!!!
افسانہ نگار نے بھی اس افسانے میں دو کرداروں کے ذریعے اس مسئلے کا اجاگر کیا ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ غور ہے کہ حامد کے یہاں حقیقت نگاری بدرجہ اتم موجود ہے۔ حامد سراج کا سلسلہ نسب بزرگ ہستیوں سے ملتا ہے اس لیے ان کے تذکرے سے افسانے کی فضا مقدس ہو جاتی ہے۔ ایک کردار اپنی ظاہری شان و شوکت پہ نازاں ہے اور غرور کی حد تک اس کی ریاکاری کرتا ہے جبکہ دوسرا کردار روحانیت میں اپنی پناہ ڈھونڈتا ہے۔۔۔افسانے کے آخر میں ذاتی شناخت کا سوال اٹھایا جاتا ہے جس کا جواب دونوں کے پاس موجود نہیں۔
’’ مجھے صرف یہ پوچھنا ہے کہ آپ کی ذاتی شناخت کیا ہے؟ اورنسبت کس سے ہے…..؟
اورجب میں یہ پوچھ رہاتھا تواپنے نسب کی آخری کڑی اندرہی اندرگن چکاتھا…..
اس کاایک پاؤں تسبیح خانے کے اندراوردوسراجوتی میں تھا۔ اس نے آنکھیں اٹھاکرمجھے دیکھا…..
اس کی پُتلیاں ٹھہری ہوئی تھیں۔
ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں مجھے یوں محسوس ہوا، میراہی سوال اس کی ٹھہری پتلیوں سے منعکس ہوکرمیرے سارے وجود کواپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔‘‘
مسافر تو گیا:
حامد سراج کے افسانوں کے کردار اس کے اپنے ماحول سے نمو پاتے ہیں۔ وہ جس معاشرت کا حصہ ہے اس کی کہانیاں بھی اس سے جلا پاتی ہیں۔ مسافر تو گیا ایک ایسے حکیم کی کہانی ہے جو اپنی بچپن کی محبت سے پسند کی شادی کرتا ہے ، لڑکی جنسی رویوں میں حکیم سے دو قدم آگے ہے۔ ماں باپ کی وفات کے بعد، حکیم صاحب کا سگا بھائی حکیم کی بیوی کے رویے کی وجہ سے گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ جبکہ حکیم عبدالرحمٰن پہ بیوی نے ایسا جادو کیا ہے کہ وہ اپنی آبائی حویلی اس کے نام کر دیتا۔ اس کی بیوی وہ حویلی آگے اپنے بھائیوں کے نام کروا دیتی ہے۔ آسمان رنگ بدلتا ہے اور حکیم کی بیماری اسے چارپائی سے لگا دیتی ہے اور پھر اسے گھر بدر کر دیا جاتا ہے۔ اپنے پیر خانے میں جائے پناہ ڈھونڈتا ہے ۔جہاں بابا عزیز اس کی خدمت کرتا ہے۔ حکیم اپنے بھائی عبدالحمید کی راہ تکتا تکتا یہ سرائے چھوڑ جاتا ہے۔
بیانیہ تکنیک کے اس افسانے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں کہانی کا اختتام ہے۔ دوسرے حصے میں شروعات اور تیسرے حصے میں کرداروں کے تعارف کی گرہیں کھلتی ہیں۔ ان کرداروں کے ذریعے افسانہ نگار نے سماجی توڑ پھوڑ اور خاتونِ خانہ کے کردار کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ بھائیوں کی محبت بھی جب اظہار کا ہجر اوڑھ لیتی ہے تو مسافر کو تو جانا ہوتا ہے۔ عبدالحمید نے بھی دیر کر دی۔ یہ افسانہ بھی حقیقت نگاری کے فن میں گوندھا ہوا ہے۔ کرداروں ک کشمکش واقعات جنم لیتے ہیں اور واقعات سے کہانی مکمل ہوتی ہے اور مسافر اپنی حقیقی منزل کو سدھار جاتا ہے۔ حامد سراج کے افسانوں میں کہانی میں دلچسپی کو قائم رکھنے کے لیے جزئیات نگاری سے کام لیا ہے۔
’’ میں مسافر….. عبدالرحمن….. جس کی روح میں آبلے ہی آبلے ہیں۔ میرے اندرماضی کا ناسورپل رہاہے۔ اندر سے گل سڑگیاہوں میں۔ میرے وجود سے لوگوں کو گھن کیوں نہیں آتی۔ شاید مجھے روح نے ڈھانپ رکھا ہے۔ نہیں رہے گی تومجھے اٹھا کر گڑھے میں ڈال آئیں گے۔ پیوندِ خاک ہوجاؤں گا۔ میں چلاگیا توکچھ بھی نہیں ہوگا۔ ساری کائنات کا نظام اسی طرح رواں دواں رہے گا۔ کسی ایک کے مرجانے سے کچھ بھی تونہیں بدلتا۔‘‘
کہانی میں ہجر آہیں بھرتا بھرتا اگلے جہاں سدھار جاتا ہے۔ جب آپ کے اپنے ہی بے اعتنائی برتیں تو دکھوں کا مداوا کیسے ہو!!!
ٹھنڈی چائے:
ٹھنڈی چائے ایک استعارہ ہے علامت ہے بیوی کی محبت کا جو اپنے شوہر کی بے اعتنائی اور شکی مزاج کی بدولت ٹھنڈی ہو چکی ہے اس نے اپنے ہی تصورات میں کوئی اور راج کمار تخلیق کر لیا ہے جسکا کوئی ظاہری وجود نہیں۔
ارینہ ایک نہایت حسین لڑکی ہے جس کی شادی ارتات احمد سے ہو جاتی ہے ، ارینہ کا حسن اسے محو کیے رکھتا ہے لیکن یہی حسن شک کی وجہ بھی بنتا ہے ۔ ارینہ ایک با حیا اور با کردار لڑکی ہے جس کا وجود صرف ارتات کے لیے ہے جبکہ ارتات کے رویے کی وجہ سے ارینہ کا باطنی وجود ارتات کی پہنچ میں نہیں رہا۔ یہاں عورت کی نفسیات تک پہنچنے کی سعی کی گئی ہے۔ عورت مکمل عورت تب ہوتی ہے جب وہ باطنی وجود اور ظاہری وجود ہم آہنگ ہو ورنہ وہ ایک گوشت پوست کا مجمسہ بن کے رہ جاتی ہے۔ اور مرد کے لیے محض ٹھنڈی چائے ہوتی ہے۔
بیانیہ اور مکالماتی تکنیک کے اس افسانے میں گھر کی مقدس اور محبت سے بھر پور زندگی میں انسانی رشتوں کے تصادم کی تصویر کشی کی گئی ہے کہ کیسے انسان کے ذہنی افق بدلتے ہیں۔ ٹھنڈی چائے ‘ کرداروں کی کیفیات کا علامتی اظہاریہ ہے۔ افسانہ نگار نے آخر میں ٹھنڈی چائے کی پیالی میں اس رشتے کا منطقی انجام دکھایا ہے۔
’’ شیشے کی میز پر رکھی چائے کی پیالی ٹھنڈی ہو گئی تھی۔
ارینہ۔۔۔؟
گہری خاموشی تھی۔۔۔
اس نے دوبارہ پکارا۔۔۔ارینہ ناول میں اتنا استغراق۔۔۔!
اسے اس کی خاموشی سے الجھن ہونے لگی
ارینہ۔۔۔ارینہ۔۔۔
اس نے ناول بند کیا اور پوچھا
یہ آپ کس کو پکار رہے ہیں۔۔۔؟
تمہیں۔۔۔
لیکن معاف کیجیے میں تو۔۔۔ارینہ نہیں ہوں۔۔۔! آپ کون ہیں اور کس سے ملنا ہے آپ کو۔۔۔؟
ارینہ۔۔۔!
یہ آپ کے لیے کوئی چائے رکھ گیا ہے، پی لیجیے۔
اس نے ارینہ کی آنکھوں میں رکھی اس کے حصے کی چائے کی پیالی جانے کب سے ٹھنڈی ہو چکی تھی۔‘‘
ایک دوسرے کے لیے جذبےا ور احساسات سدا ایک سے نہیں رہتے ا س لیے رشتوں میں خیال کی گرمی رہنی چاہیے۔
کتنے مہر دین:
افسانہ نگار کہانی کا آغاز نہایت دلچسپ انداز سے کرتا ہے ۔ اسلوب بیانیہ ہے۔ تمہید باندھی گئی ہے کہ کہانی کیا رُخ لے سکتی ہے۔ یہ کہانی ہمارے معاشرہ کا ایک ایسا ڈرامہ ہے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ طاقت ور ، کمزور کا استحصال کرنے پہ مُصر ہے۔ چاہے یہ استحصال مالی ہو یا جسمانی۔۔۔
اس افسانے کا عنوان ہی کہانی کا مرکزی کردار ہے۔ جو جاگیرادری سوچ کا علمدار ہے۔ جس کے لیے مزارعے کی بیٹی اس کی رکھیل ہے اور اپنی بیوی اس کی باندی۔۔۔
اس افسانے کے کردار اپنی داخلی کیفیات سے اپنا تعارف کرواتے ہیں۔ کہانی کا مزاج ایسا ہے کہ جابر کے خلاف نفرت انگیز جذبات پیدا ہوں اور مظلوم کے ساتھ ہمدردی ہو۔
افسانے میں ایک ان پڑھ مزارع کی بیٹی اور خوبرو مالدار عورت کی نفسیات اور داخلی کیفیات کا تجزیہ ایک نئے انداز کیا گیا ہے۔ یہاں افسانہ نگار نے مزارع کی بیٹی ستو کے کردار کے ذریعے عورت کی اندرونی کشمکش کو خود کلامی کے اسلوب میں بیان کیا ہے۔
’’ زیورات آہستہ آہستہ وہ اپنے بدن پر سجانے لگی۔ پہلے اس نے کانوں میں بڑے بڑے جھمکے ڈالے،گانی اور پھر کٹمالا،دونوں ہاتھوں میں سونے کی بارہ بارہ چوڑیاں ڈال کے انہیں غور سے دیکھنے لگی۔ یہ میں ہوں ستو…..؟ یا کوئی اور ہے۔ میں یونہی اُپلے تھاپتی اور زندگی برباد کرتی رہی۔ اک ذرا سی دیر میں کیسے زندگی بدل گئی۔
وہ اس وقت چونکی جب اس کی ماں نے اسے مہردین کی بیوی کے کہنے پر برتن دھونے کا کہا۔ برتن مانجھتے مانجھتے وہ اندر سے ایک فیصلہ کر چکی تھی۔ برتن دھوتے ہوئے ہاتھ میں سے صابن پھسل کر گرنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ ‘‘
افسانہ نگار نے عورت کو کمزور نہیں دکھا یا ہے بلکہ یہ مہر دین کی بیوی کو ایک نمائندہ کردار کے طور پر پیش کیا ہے جو اپنے فیصلے خود کر سکتی ہے اور کسی جاگیردارانہ سوچ کے تابع نہیں رہ سکتی۔
’’ تم نے پہلی ہی رات طلاق کا کہہ کر مجھے عذاب میں ڈال دیا ہے۔ مجھے اپنے وجود سے نفرت ہوگئی ہے۔ خاوند اگر محبت عزت اور وقار نہ دے سکے تو کم سے کم اسے عذاب بھی نہیں دینا چاہیے۔ جانے تم لوگ شادی کیوں کرتے ہو۔ تمہیں جنسی تسکین کے لیے کتنی ہی عورتیں مل جاتی ہیں تو پھر ایک عورت کو کیوں باندھ کے رکھنا چاہتے ہو…..؟ہمارا کیا قصور ہے…..؟ کیا یہ معاشرہ صرف مرد کا ہے۔ کیا ہماری طرح تم لوگوں کی عزت داغ دار نہیں ہوتی۔ دولت کیوں تم سب کو کالے کرتوتوں کے باوجود صاحبِ توقیر بنائے رکھتی ہے۔ میں نے تو تمہارے سوا کسی کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ایک رات تو صبر کر لیا ہوتا۔ مجھے آزما تو لیا ہوتا۔ میں نے ایک فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘
حامد سراج کی کہانیاں حقیقت پسندی کے رنگ میں رنگی ہیں۔ یہ کردار، مکالمے اس کے اردگرد کے ماحول سے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ بس انہیں اپنی فنی مہارت کے ذریعے افسانوی رنگ دیتا ہے۔
ہونٹ کنارے:
ہونٹ کنارے ایک مختصر مگر بھرپور افسانہ ہے۔ تکنیک بیانیہ ہے اور افسانے کے ماحول میں حسرت کی دبیز تہہ جمی ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ایک بیوروکریٹ ہے جو شہر میں آکر اپنی گاؤں کی محبت کو ردی کے بھاؤ بیچ چکا ہے۔ ’ہونٹ کنارے‘ محبوب کا تل بھی اسے دولت اور عہدے کی ہوس کو کم نہیں کر سکا۔ کہانی کے آخر میں جب وہ اپنی بہن کے جنازے کے لیے گاؤں جاتا ہے تو اس کی ملاقات اپنی محبت سے ہوتی ہے جو آرتھرائیٹس کی مریضہ بن چکی ہے لیکن لڑکی جس کا نام زیتون ہے ، سلیم الرحمٰن سے اس کا حال پوچھتی ہے مگر اس کی فلائٹ کا وقت آ پہنچا ہے اور اس کے لیے محبت کے سچے جذبوں کے لیے چنداں وقت نہیں۔
’’ بھائی زیتون آپ کو سلام کرنے اور تعزیت کے لیے آئی ہے۔ آپ اندر کمرے میں چلئے وہ آرتھرائیٹس کی پیشنٹ ہے۔
ایک عورت، ملول اجڑی اجڑی سی، کھنڈر…..
سارے ماہ و سال زندہ ہو گئے۔
زیتون کی کلائی میں چاندی کاوہی کنگن تھا جو اس نے شہر جاتے سمے آخری نشانی کے طور پر اسے دیا تھا۔
سلیم الرحمن کے ہونٹوں پر تل سلگنے لگا۔
آپ کیسے ہیں…..؟
وہی لہجہ وہی آواز….. وہی اپنائیت۔
بیورو کریسی کی فائلوں کے انبار سے نکل کر اس نے زیتون کو آواز دینا چاہی
لیکن…..
فلائٹ پکڑنا ضروری تھا۔ ‘‘
یہاں افسانہ نگار نے سلیم الرحمٰن کی اندرونی کشمکش کو اجاگر کیا ہے کہ وہ واپس پلٹنا بھی چاہتا ہے لیکن فائلوں کا بوجھ اتنا ہے کہ قدم نہیں اُٹھتے۔ اس افسانے میں افسانہ نگار نے ایسے نوجوانوں کا نوحہ لکھا ہے جو گاؤں کی سوندھی مٹّی کی خوشبو کو بھول کر شہر کی کنکریٹ میں مصنوعی خوشبوؤں سے دل بہلاتے ہیں۔
آخری آئس کیوب:
آئس کیوب یہاں استعارہ ہے علامت ہے ایسے شخص کی جو ذرا سی حدت کو بھی برداشت نہیں کر پاتا اور پگھل جاتا ہے۔ اپنے جذبات میں بہہ جاتا ہے۔ سر عام بہک جاتا ہے۔ اپنا ہوش کھو بیٹھتا ہے۔ یہ افسانہ خیال کی رو کی تکنیک میں لکھا گیا ہے۔ اس کے دو مرکزی کردار ہیں ایک مرد اور عورت۔کہانی کرداروں کے درمیان مکالمے سے آگے بڑھتی ہے ۔ مرد محبت میں جنسی لذت کو معیوب سمجھتا ہے جبکہ عورت اسے معراج مانتی ہے۔ انہیں ذہنی کیفیات کی بنیاد پر کہانی آگے بڑھتی ہے۔
’’لمحہ موجود میں تمہاری ہوں میں۔۔۔مکمل تمہاری۔۔۔تم مجھے پورا پورا کیش کر لو۔ کل آنے والا تمہیں کیش نہ کروانے دے تو پھر مجھے نہ کہنا۔۔۔‘‘ص۔
مرد عورت کی محبت میں یخ بستہ ٹھنڈا رہتا ہے جبکہ عورت میں ابال اُٹھ رہے ہیں۔ یہاں افسانہ نگار نے ان دو کرداروں کے باہمی مکالمے سے ان کی جنسی رجحانات کی عکاسی کی ہے۔
’’تم سیاچین گلیشیر ہو۔۔۔برف۔۔۔ٹھنڈے ٹھار، میں تمہیں نہیں پگھلا سکی۔۔۔
جانے وہ کون خوش نصیب ہو گی جو تمہیں مکمل حاصل کرے گی‘‘
لڑکی کو اس کی مرضی کا آئس کیوب اپنے خاوند کی شکل میں مل جاتا ہے جو کہ ایک عملی آدمی ہوتا ہے۔ اس افسانے میں مرد کو ایک ’کمپوزڈ‘ شخص دکھایا گیا ہے جبکہ عورت کو مغربی روشن ضمیری کے نمائندہ فرد کے طور پہ پیش کیا گیا ہے۔
مکینک کہاں گیا:
حامد سراج کے افسانوں میں درد کی لہر اور معاشرتی مسائل کی نبض شناسی ہے۔ یہ ایک ایسے باپ بیٹے کی کہانی ہے ، جس میں بیٹا ایک فرمانبردار نوجوان ہے لیکن اس کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا جبکہ باپ ایک سخت گیر شخص ہے۔ جو والد کی شفیق پن سے نا بلد ہے۔ یہ کہانی پانچ حصوں میں بٹی ہے ہر حصہ کسی نہ کسی واقعے پہ منحصر ہے۔ اسی طرح کہانی روانی سے آگے بڑھتی ہے۔ بیٹا مکینک بن جاتا ہے اور آخر میں گردوں کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اور زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔ اس واقعے کے بعد باپ اپنے ہوش کھو بیٹھتا ہے۔
’’ ایک بوڑھاشخص ٹوٹی چارپائی دروازے کے سامنے ڈالے ہرآنے جانے والے سے سوال کرتا ہے…..
’’اے بھائی….. اے بابا….. بیٹا….. اوبیٹا….. بی بی….. میری بات توسنو۔‘‘
’’میکینک کہاں گیا…..!‘‘
یہ کہانی ایک متوسط بؤطبقے کے ایک خاندان کی ہے جس میں باپ بیٹے کے رشتے کے درمیان خواہشات کے تصادم اور ان کے باہمی تعلاقات کی دراڑیں واضح دکھائی گئی ہیں۔
افسانہ نگار کیونکہ ایک ناصحانہ سوچ کا حامل شخص ہے اس لیے وہ یہاں بھی تعلقات کو بچانے کےلیے اپنا مشورہ بیوی کی زبان سے دینا نہیں بھولتا۔
’’ وہ جب سے دکان پر کام کرنے لگا تھا، اس کے باپ نے اسے ڈانٹناکم کردیا تھا۔ اسے وہ رات بھی یادتھی جس میں اس کی ماں باباکی پائینتی بیٹھی سمجھانے کے انداز میں کہہ رہی تھی ’’اولاد جوان ہوجائے تو اسے مارا کرتے ہیں نہ بے جاڈانٹاکرتے ہیں، اولاد کی بھی عزتِ نفس ہوتی ہے، وہ مجروح ہوتی ہے اولاد زِچ ہوکرخودکشی کرلیتی ہے یاباغی ہوجاتی ہے۔ ہمارے بیٹے کی صحت کمزور ہے پھربھی وہ دلجمعی سے کام سیکھ رہاہے۔‘‘
افسانے میں مکالمے بڑے با معنی اور جاندار ہیں۔ افسانہ نگار کی پختہ فکر کی غمازی کرتے ہیں۔ باپ بیٹے کے تعلق کی مثالی صورت کیا ہونی چاہیے، اور کیا والدین کو اپنے خواب بچوں کے سر تھوپنے چاہیں ۔۔۔افسانہ نگار نے انہیں زاویوں کے گرد اس افسانے کی بُنت کی ہے۔
مولوی قاسم بہت مصروف ہے:
یہ کہانی ہے نئے دور کہ ایسے شخص کی جس کے پاس خود سے ملاقات کا بھی وقت میسر نہیں۔ وہ بھاگنا چاہتا ہے زمانے کی بے سود مصروفیات سے لیکن عبث!!! بالآخر اسے مولوی قاسم کی شکل میں ایک ایسا شخص ملتا ہے جو سراپا اطمینان ہے جس کی مصروفیات شام کھوہ کے کنارے سرمئی اندھیرے میں ڈوب جاتی ہیں۔ وہ اس کے ساتھ اپنا وقت گزارتا ہے اور گڑ والی چائے کے مزے لیتا ہے۔ ’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘ ۔۔۔ مولوی قاسم وہ گاؤں چھوڑ جاتا۔۔۔ وقت کا پہیہ دوڑتا رہتا ہے پھر یک روز وہ مولوی قاسم کی تلاش میں اس کے گاؤں پہنچتا ہے جہاں اس کا استقبال بڑے تپاک سے کیا جاتا ہے ، لیکن اب کی بار گڑ والی چائے کی جگہ چینی نے لے لی ہے اور مولوی قاسم شہر کسی ضروری کام سے روانہ ہو جاتا ہے۔ اور وہ شخص پھر تنہا رہ جاتا ہے۔
’’ وقت کے گھومتے پہیے نے انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ہر انسان بے سمت گھوم رہا ہے۔ وہ رات میں جب اپنے بستر پر آ کے گرتا ہے تو اسے یاد آتا ہے یہ تو وہی بستر ہے جسے صبح دم اس نے چھوڑا تھا۔ انسان بہت مصروف ہے۔ وہ سوچتا ہے اور بھاگتا ہے۔ فاصلہ ہی کتنا ہے، قبر تک ہی تو جانا ہے وہ پھر بھی برق رفتار ہے اسے اپنی ذات کے لیے بھی ایک لمحہ میسر نہیں۔‘‘
اس مختصر افسانے کا اسلوب نہایت سادہ لیکن پُر تاثیر ہے۔ بیانیہ اور خود کلامی کی تکنیک سے کام لیا گیا ہے۔ بنیادی موضوع ہماری بے جا مصروفیات ہیں۔ جس کو افسانہ نگار نے نہایت چابکدستی سے مختصر الفاظ میں قاری تک پہنچایا ہے۔ اس افسانے میں اداسی اور مایوسی کے ملے جلے جذبات ہیں کہ اب کوئی بھی ایسا شخص نہیں بچا جو اپنی سمت کا تعین کر سکے اور زمانے کی دوڑ سے بچ سکے۔
گاؤں کا غیر ضروری آدمی:
یہ کہانی خیرو لوہار کی ہے جو گاؤں والوں کے ہر کام آتا ہے لیکن اس کی وفات پر کوئی آنسو بہانے والا نہیں ۔ کسی کو بھی اس کی موت کا دُکھ نہیں ۔ بے حسی دلوں میں سرایت کر چکی ہے۔
یہ بیانیہ تکنیک کا افسانہ ہے۔ افسانہ نگار کی تحریروں میں سماجی حقیقت پسندی کا رنگ نمایاں ہے۔ اس لیے وہ یہاں بھی ان حقیقتوں کی جانب توجہ مبذول کروانا چاہتا جنہیں ہمارا معاشرہ بھول چکا ہے۔ وہ لوگوں کی بے اعتناعی پہ خود کلامی کے انداز میں مخاطب ہے:
’’ موت کے قدموں کی چاپ سننے میں باہرنکلا۔ زندگی معمول پرتھی۔ کسی نے بھی اس کی موت کا نوٹس نہ لیا۔ کسی زبان پر اس کا تذکرہ نہ تھا۔ ابھری ہڈیوں، دھنسے گالوں، بڑھی شیو اورکرخت ہاتھوں والا خیرولوہارگاؤں والوں کے درمیان نہ تھا۔ غربت نے اس کا لہو چوس کرہڈیوں پرصرف چمڑہ رہنے دیاتھا۔ اس کی ہڈیاں اس کی مفلسی کی طرح نمایاں تھیں۔ اس کی صحت گرتی رہی۔ سناہے اسے یرقان تھا۔ اسے کوئی سنبھالنے والانہ تھا۔ زمین نے جب زندہ انسانوں کی بے حسی دیکھی تواسے اپنی آغوش میں سلالیا۔ وہ خوش قسمت تھا اسے جمعہ کا دن نصیب ہوگیا۔‘‘
افسانہ نگار کی منظر نگاری اس قدر حقیقی ہے گویا وہ خود گاؤں کی ان گر آلود گلیوں میں گھوم گھوم کر لوگوں کی بے حسی کا نوحہ پڑھ رہا ہو۔ جب وہ خیرو کی میت پر پہنچتا ہے تو وہاں کا غربت سے اٹا منظر اور پُراسرارخاموشی دل دہلا دینے والی ہے۔
’’ اس کی ایک بیٹی کو دورمیں نے کھیتوں میں باپ کے سائے کے بجائے شیشم کے سائے تلے کھڑادیکھا۔ وہ اکیلی کھڑی رورہی تھی۔ اس کے سرپرپھٹادوپٹہ اورپاؤں میں ٹوٹی چپل تھی۔ نوبجے جب کفن پہنچاتواس وقت دو کی بجائے چارعورتیں بیٹھی تھیں۔ کوئی ہوک، کوئی کوک نہ تھی۔ عجب سناٹاتھا۔ میرادم گھٹنے لگا۔‘‘(۹۱)
افسانہ نگار کی اپنی شخصیت انسان دوستی پہ استوار ہے۔ وہ چاہتا ہے ہم ہر شخص کوانسان سمجھیں جس کی شکل انسانوں والی ہے۔ چودھری کا جنازہ اس لیے بڑا ہو کہ وہ چودھری ہے اور کمّی کو کندھا دینے والوں کی بھی کمی ہو۔ ہم ایک بیمار معاشرے میں زندہ ہیں جو بنیادی اخلاقیات سے عاری ہے۔ یہ گاؤں کا غیر ضروری آدمی نہیں بلکہ نہایت ضروری آدمی تھا لیکن حیف صد حیف!!
نماز قصر:
بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں ۔ شادی سے پہلے ماں باپ کا گھر اس کا اپنا گھر ہوتا ہے لیکن شادی کے بعد وہ میکہ بن جاتا ہے۔ ہماری معاشرتی روایات میں بیٹی کے لیے والدین کا گھر ایک سرائے ہوتا ہے اور وہ مسافر! جسے اب نماز قصر (سفر کی نماز)ادا کرنی ہوتی ہے۔ یہ کہانی بھی ایک ایسے بیٹی کی کہانی ہے جو اپنے گھر کے ذرے ذرے محبت کرتی ہے اور ہمیشہ کے لیے یہ گھر چھوڑ جانے کا تصور ہی اسے رنجیدہ کر دیتا ہے۔
افسانہ نگار نے جزئیات نگاری سے اس کی خواہشات کو قلم بند کیا ہے۔ لڑکی اپنی بیتی خود بیان کرتی ہے ۔ وہ اپنی بچپن کو ہمیشہ کے لیے اپنی مٹھی میں بند رکھنا چاہتی ہے لیکن ایسا ممکن نہیں!
’’ تیسرے روز کی بات ہے۔
گھر میں چہل پہل تھی، رونق، رنگ ونور کی برسات…..
میں گھر آئی تھی۔
عصر کے وقت میں نے کھنکتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’بابا….. اب یہاں اس گھر میں مَیں مکمل نماز ادا کروں گی یا نمازِ قصریعنی سفر کی نماز…..؟‘‘
’’بیٹا….. یہ گھر اب تمہارا نہیں ہے تم نمازِ قصر ادا کرو گی۔‘‘
دیواروں کی درزوں میں میرا بچپن رونے لگا….. !‘‘
ذرا غور کیا جائے تو شائبہ ہوتا ہے یہ کہانی ان کے اپنے گھر کی کہانی ہے۔ کیونکہ حامد سراج اپنے تجربات اور مشاہدات کو اپنی کہانیوں کا حصہ بناتا ہے تاکہ تاثیر قائم رہے۔
افسانے میں نہایت ہی سادگی اور اختصارسے عورت کی زندگی کا المیہ بیان کیا ہے۔
حوالہ جات باب دوم
۱۔ حامد سراج، محمد، نقش گر (پچیس منتخب افسانے): مرتبہ، جہلم، بک کارنر، ۲۰۱۹ ،ص۔ ۲۰
۲۔حامد سراج، محمد، مجموعہ محمد حامد سراج، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۱۳ء، ص۔۱۴۵
۳۔ ایضاً،ص۔۴۸۴
۴۔ایضاً، ص ۔ ۴۷۰
۵۔ منیر احمد فردوس۔ محمد حامد سراج بطور حیات نگار، مشمولہ
۶۔ حامد سراج، محمد، مجموعہ محمد حامد سراج، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۱۳ء، ص۔۱۱۵
۷۔ ایضاً، ص۔ ۱۲۰
۸۔ ایضاً، ص۔ ۹۹
۹۔ایضاً، ص۔۱۴۵
۱۰۔ ایضاً، ص۔ ۴۹۹
۱۱۔ ایضاً، ص۔ ۳۱۵
۱۲۔ مجنون گورکھ پوری، ادب اور زندگی۔ اردو گھر ، علی گڑھ، ۱۹۸۴ء، ص۔ ۶۸
۱۳۔ انور سدید،ڈاکٹر، موضوعات، مکتبہ عالیہ، لاہور، ۱۹۹۱ء، ص۔ ۳۷
۱۴۔ حامد سراج، محمد، مجموعہ محمد حامد سراج، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۱۳ء، ص۔۶۲
۱۵۔ ایضاً، ص۔ ۶۱
۱۶۔ ایضاً، ص۔ ۱۰۴
۱۷۔ ایضاً، ص ۔ ۳۲۴
۱۸۔ سلیم اختر، ڈاکٹر، مجموعہ ڈاکٹر سلیم اختر، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۶، ص۔ ۲۴۰
۱۹۔ حامد سراج، محمد، مجموعہ محمد حامد سراج، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۱۳ء، ص۔۵۱۶
۲۰۔ ایضاً، ص ۔ ۵۱۷
۲۱۔ ایضاً، ص ۔ ۲۸۰
۲۲، ایضاً، ص ۔ ۴۹۸
۲۳۔ ایضاً، ص ۔ ۳۴۹
۲۴۔ ایضاً، ص ۔ ۳۵۷
۲۵۔ ایضاً، ص ۔ ۳۵۸
۲۶۔ ایضاً، ص ۔ ۵۴
۲۷۔ ایضاً، ص ۔ ۵۲
۲۸۔ ایضاً، ص ۔ ۴۹
۲۹۔ ایضاً، ص ۔ ۱۱۲
۳۰۔ ایضاً، ص ۔ ۱۱۳
۳۱۔ ایضاً، ص ۔ ۱۹
۳۲۔ ایضاً، ص ۔ ۷۳
۳۳۔ وزیر آغا، ڈاکٹر، آخری آدمی، انتظار حسین، اوراق، شمارہ ۳، لاہور، ۱۹۶۷، ص۔ ۳۰۳
۳۴۔ حامد سراج، محمد، مجموعہ محمد حامد سراج، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۱۳ء، ص۔۴۴۴
۳۵۔ ایضاً، ص۔ ۴۴۳
۳۶۔ ایضاً، ص۔ ۴۴۳
۳۷۔ وقار عظیم، ڈاکٹر، داستان سےافسانے تک، اردو اکیڈمی سندھ، کراچی، ۱۹۹۰، ص۔ ۱۲۱
۳۸۔ قمر رئیس، پروفیسر، اردو میں بیسویں صدی کا افسانوی ادب، کتابی دُنیا، دہلی، ۲۰۰۴،ص۔ ۲۶۸
۳۹۔ حامد سراج، محمد، مجموعہ محمد حامد سراج، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۱۳ء، ص۔۶۵
۴۰۔ ایضاً، ص۔ ۶۹
۴۱۔ عطش درانی، شوکت صدیقی کے ناول جانگلوس کا تجزیہ، مضمون مطبوعہ ، اکادمی ادبیات، ص۔ ۲۷۴، ۲۷۵
۴۲۔ حامد سراج، محمد، مجموعہ محمد حامد سراج، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۱۳ء، ص۔۳۸۰
۴۳۔ ایضاً، ص۔ ۳۷۹
۴۴۔ احمد ندیم قاسمی، بگولے(افسانوی مجموعہ)، نظم، مکتبہ اردو لاہور، ۱۹۴۱
۴۵۔ احمد ندیم قاسمی، اردو افسانے کے مسائل، شمارہ نقوش، لاہور، ص۔ ۱۱۰
۴۶۔ حامد سراج، محمد، مجموعہ محمد حامد سراج، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۱۳ء، ص۔۴۰۹
۴۷۔ ایضاً، ص۔ ۴۰۱
۴۸۔ ایضاً، ص۔ ۴۳۹
۴۹۔ ایضاً، ص۔ ۳۴۹
۵۰۔ سجاد ظہیر، روشنائی، مکتبہ اردو، لاہور، ۱۹۵۶، ص ۔۶۷
۵۱۔ حامد سراج، محمد، نقش گر (پچیس منتخب افسانے): مرتبہ، جہلم، بک کارنر، ۲۰۱۹ ،ص۔ ۱۲۵
۵۲۔ سلیم اختر، ڈاکٹر، مجموعہ ڈاکٹر سلیم اختر، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۶، ص۔ ۱۸۴
۵۳۔ حامد سراج، محمد، نقش گر (پچیس منتخب افسانے): مرتبہ، جہلم، بک کارنر، ۲۰۱۹ ،ص۔ ۱۵۵
۵۴۔ ایضاً۔ص۔ ۱۷۰
۵۵۔ حامد سراج، محمد، مجموعہ محمد حامد سراج، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۱۳ء، ص۔۳۹۶
۵۶۔ حامد سراج، محمد، نقش گر (پچیس منتخب افسانے): مرتبہ، جہلم، بک کارنر، ۲۰۱۹ ،ص۔ ۲۰۴
۵۷۔ فضل ربی، ڈاکٹر، ’’شوشیالوجی آف لٹریچر‘‘، کامن ویلٹھ پبلشرز، دہلی، ۱۹۹۲، ص۔ ۶
۵۸۔ ۔سلیم اختر، ڈاکٹر،’’افسانہ اور افسانہ نگار‘‘ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۱، ص ۳۲
۵۹۔ حامد سراج، محمد، مجموعہ محمد حامد سراج، سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور، ۲۰۱۳ء، ص۔۴۵
۶۰۔ ایضاً، ص۔ ۱۰۴
۶۱۔ ایضاً، ص۔ ۱۳۴،۱۳۵
۶۲۔ایضاً، ص۔ ۵۳۳
۶۳۔ حامد سراج، محمد، نقش گر (پچیس منتخب افسانے): مرتبہ، جہلم، بک کارنر، ۲۰۱۹ ،ص۔ ۱۸۸
۶۴۔ ایضاً۔ ص۔ ۱۸۹
۶۵۔ ایضاً۔ ص۔۳۷
۶۶۔ ایضاً۔ ص۔۴۰
۶۷۔ ایضاً۔ ص۔۳۱
۶۸۔ ایضاً۔ ص۔۲۷
۶۹۔ ایضاً۔ ص۔۴۸
۷۰۔ ایضاً۔ ص۔۵۰
۷۱۔ ایضاً۔ ص۔۵۷
۷۲۔ ایضاً۔ ص۔۵۷
۷۳۔ ایضاً۔ ص۔۶۲
۷۴۔ ایضاً۔ ص۔۶۴
۷۵۔ ایضاً۔ ص۔۶۵
۷۶۔ ایضاً۔ ص۔۶۷
۷۷۔ ایضاً۔ ص۔۷۵
۷۸۔ ایضاً۔ ص۔۸۱
۷۹۔ ایضاً۔ ص۔۸۲
۸۰۔ ایضاً۔ ص۔۸۵
۸۱۔ ایضاً۔ ص۔۹۱
۸۲۔ ایضاً۔ ص۹۷۔
۸۳۔ ایضاً۔ ص۔۱۰۰
۸۴۔ ایضاً۔ ص۔۱۲۹
۸۵۔ ایضاً۔ ص۔۱۳۲
۸۶۔ ایضاً۔ ص۔۱۳۶
۸۷۔ ایضاً۔ ص۔۱۴۰
۸۸۔ ایضاً۔ ص۔۱۴۵
۸۹۔ ایضاً۔ ص۔۱۶۱
۹۰۔ ایضاً۔ ص۔۱۸۰
۹۱۔ ایضاً۔ ص۔۱۸۳
۹۲۔ ایضاً۔ ص۲۰۸۔
۳۶۔ ایضاٌ

