افضل عاجز کے جولائی  2016کےفیس بک پرخطوط

اے میرے صاحب

اے میرے صاحب آج کے مبارک دن کے موقعہ پر نہ صرف اپنے لیے بلکہ ھر ایک لیے اللہ کے حضور دعا کیجیے گا اللہ پاک ھر ایک کی زندگی میں  آسانیاں پیدا فرمائے آمین الہی آمین

کل ایک صاحب ھمارے ان بکس میں آے اور کہھا اے میرے صاحب ھم بھت پریشان ھین.. ھم نے کہھا ھم تو خود بھت پریشان بلکہ اتنے پریشان ھیں کہ پریشان خٹک بنے پھرتے ھیں.. وہ صاحب بگڑ کے بولے ایک تو آپ… مسقری… بھت کرتے ھو ھم نے کہھا چلو سنجیدہ ھو جاتے ھین بتاو کیا بات ھے؟ انہوں نے کہھا رات کو نید نہھین آتی.. ھم نے کہھا دن کو نہ سویا کرو… کہھنے لگے دن کو کون بد بخت سوتا ھے… ھم نے پوچھا پریشانی کیا ھے.. کہھنے لگے عشق ھو گیا ھے… ھم نے کہھا تو پھر اپنے محبوب کے پاس جاو… کہھنے لگے آپ پرانے عاشق ھو سوچا آپ سے مشورہ کر لیں؟… ھم نے کہھا ھم ناکام عاشق ھیں تم ایسا کرو کسی کامیاب عاشق سے مشورہ کرو.. ان کے آصرار پر ھم نے کہھا لوک گلوکار اکرم راھی صاحب ھمارے دوست ھیں اور عشق میں کامیاب ھو گیے تھے ان کے نام چھٹی لکھ دیتے ھین چلے جاو؟ کہھنے لگے مشورہ تو آپ کا تھیک ھے مگر سنا ھے کہ وہ ھاتھ بعد مین ملاتے ھین تھپڑ پہھلے مارتے ھین ھم نے کہھا عشق مین بھت کچھ سہھنا پڑتا ھے… کہھنے لگے یہ جو عطاء اللہ ھیں ان کے ساتھ آپ کی دعا سلام ھے؟ ھم نے کہھا یہ نام کچھ سنانا لگتا ھے.. کہھنے لگے یہ سب سے کامیاب عاشق ھیں ھم نے کہھا زرا بتایے تو کہھنے لگے انہوں نے تو نام بھی کمایا اور دام بھی..ھم نے کہھا ان کے لیے کوی اور سفارش ڈھونڈ لو….مگر انہوں نے کہھا پہلے آپ ھمارا حال دل تو سنو…. ھم نے کہھا اچھاسناو…. فرمانے لگے… ھر وقت ٹھنڈے پ-1  جولائی 2016

پارٹ2…….. …. کل ھمیں اپنی انگلی پہ اتنا غصہ آیا کہ بس کاٹنے ھی والے تھے ک ترس آگیا کہ بچاری روزے سے ھے افطاری کے بعد اس کا کچھ کرتے ھیں مگر لایک اتنے آچکے تھے کہ ھم نے کہھا چلو چھوڑو آخر لایک بھی تو کوی چیز ھے کہ نہھین.. تو ھم بات کر رھے تھے ایک عاشق کی تو اس نے کہھا مجھے ٹھنڈے پسینے آتے ھیں ھاتھ پاوں جلتے ھیں سوتے ھوے لگتا ھے کمرے کی چھت گر پڑے گی بس مین سفر کرتا ھوں تو لگتا ھے ایکسڈنٹ ھو جاے گا عطاء اللہ کا.. بالو بتیاں… سنوں تو لگتا ھے مہندی حسن صاحب کی غزل.. گلوں مین رنگ بھرے… سن رھا ھون شفااللہ کا.. ؤٹہ چکاواں… سنوں تو لگتا ھے غلام علی کی… چپکے چپکے…. سن رھا ھوں کیئ بار میڈم نورجہاں کی آواز پر لتا منگیشکر جی کا گمان ھونے لگتا ھے ابھی کل ھی کی بات ھے.. ریڈیو پہ… کھڑی نیم کے نیچے… چل رھا تھا مین نے کہھ دیا نصیبولال نے کیا اچھا گایا ھے مگر قریب بیٹھے ھمارے کزن نے ھمین کہھنی مارتے ھوے کہھا.. کملی دیا….ماھیا یہ نصیبو نے نہیں. ما ی بھاگی نے گایا ھے….. ھم خاصے حیران ھوے کہ یا اللہ یہ کیسا عشق ھے کہ جس مین سب کچھ الٹ دکھای دیتا ھے؟….. ……… ھم ابھی سوال کرنا چاھتے تھے کہ اس نے کہھا ایک اور مسئلہ بھی ھے… ھم نے پوچھا اور کیا مسئلہ ھے اس نے کہھا کھٹے ڈکار بھت آتے ھیں…. ھم ساری بات سمجھ گئے اور اسے کہھا تم زرا انتظار کرو ھم نسخہ عشق بتاتے ھین ھم نے جو نسخہ اے عشق اسے لکھا آپ بھی پڑھ لیں………………………….تیڈی مرض دا حل میں گول گھداے ناں تھی ایڈا دلگیر اے.. ڈوں چمچے ولے ڈیھیں دے کھا پیشی ویلے ڈوں کھیرے… زرا بکھ رکھ کے تے کھادا کر ول تھیسیں دھیرے دھیرے… ایویں عشق دا ناں بدنام ناں کر میڈا چن تینوں تبخیر اے… مگر وہ کم بخت تھوڑئ دیر بعد پوچھنے لگا…….. اے میرے صاحب یہ نسخہ نہھارمنہھ کھانا ھے کہ کھانے کے بعد؟–2  جولائی 2016

غزل…

بہناچاھیں تو کسی سمت بھی بہہ سکتے ھیں.

کہنا چاہیں تو کوی بات بھی کہہ سکتے ھیں.

تو نہھیں جانتا اے دوست فقیروں کا مزاج.

.. رھنا چاہیں تو ترے بن بھی تو رہ سکتے ھیں؟ تو حقارت سے ھمیں دیکھ رھا ھے افسوس

.. پیار سے دیکھ تو خنجر کو بھی سہہ سکتے ھیں..

ھم کو یارانے نبھانے کا ھنر آتا ھے. جرم تیرے کو بھی سر اپنے پہ لے سکتے ھین.

بجلیاں ھم پہ گرانے کو نہ بھیجو صاحب. کچے کوٹھے ھیں جو بارش سے بھی ڈھہ سکتے ھیں.

یہ جو احباب محبت ھیں بھت ڈاھڈے ھیں قسم سے بھٹ ڈاھڈے ھیں ایک. ساب. ان بکس میں باقاعدہ دھرنا دے کے بیٹھے ھیں اوپر سے علامہ طاہر القادری کی طرح باقاعدہ دلیلیں دے دے کے ھمیں متکبر بھی قرار دے رھے ھیں…. بس ایک ھی مطالبہ ھے کہ عید کا دوھڑہ پوسٹ کرو ھم نے سو بار سمجھایا بھی کہ آج معاف کردو کل انشاءاللہ لکھ کے پوسٹ کر دیں گے مگر نہھیں ان بکس سے نکلنے کا نا م ھی نہھیں لے رھے. سو ان.. ساب.. کے دل کے بچے کو بہلانے کے لیے دوھڑہ عرض خدمت ھے….

…پہلی رمضان کوں بوھے تے میں ٹنگ رکھینداں اکھیاں.. ھر شام کوں وت مین ھنجوواں دے چا سنگ پرنیداں اکھیاں.. تیڈی یاد دے سجھ دی بھا دے وچ میں چا کلکینداں اکھیاں. توں نیں آندا میں رو رو چا برباد کرینداں اکھیاں-3  جولائی 2016

جب ھم نے آنکھ کھولی تو سورج ادھر سے ھی نکلتا تھا جدھر سے اب نکلتا ھے. چودھویں کا چاند بھی 14کو ھی چمکتا تھا رمضان انتیس یا پھر تیس کا ھی ھوتا تھا لیکن ان دنوں بھی لوگوں کی خواہش ھوتی تھی کہ اللہ کرے اس بار چاند انتیس کا ھو اور پھر لوگ کسی نہ کسی طرح انتیس کا چاند دیکھ لیا کرتے تھے. چاچا نورا تو 28سے عید مبارک کا ڈھول پیٹنا شروع کردیتا تھا اور تو اور مولوی جی بھی خیر مبارک کہھتے ھوے پانچ دس روپے اسکی ہتھیلی پہ رکھ دیا کرتے تھے حالانکہ مولوی جی ھر روز بتایا کرتے تھے کہ.. عید والے دن شیطان کا روزہ ھوتا ھے؟ ہمارے بچپن مین بھی سحری اور افطاری کاوقت بھی آج کل کے وقت کے مطابق ھوا کرتا تھا.. ایسا نہھین ھوتا تھا کہ مغرب کے بجاے عصر کے وقت روزہ افطار کرنے کی اجازت ہوتی تھی افطاری کیلے بھی آج ہی کی طرح اہتمام کیا جاتا تھا اپنی اپنی استطاعت کے مطابق لوگ خوب اہتمام کیا کرتے تھے.. پہلے رمضان سے ہی عید کی خریداری شروع ھو جاتی تھی درزی حضرات اس وقت بھی ناصر کا جوڑا افضل کے سائز کا اور افضل کا جوڑا خالد کے سائز کا بنا دیا کرتے تھے ببچارے چاچا نورا کا جوڑا تو ھر سال چاچی کے سائز کا سل جاتا تھا اس زمانے میں زنانہ اور مردانہ کپڑے ایک ہی درزی بناتا تھا اور چاچا نورا بچارا بھولا بھالا عید کی نماز پڑھنے آتا تو اسے پتہ چلتا کہ وہ تو چاچی کا جوڑا پہن کے آگیا ھے…….. ہمارے بچپن مین بھی عید مبارک کے طور پر ایک دوسرے کے گھروں میں میٹھی چیز بنا کے بیجھی جاتی تھی خاص طور پر عید سے دودن پہلے شادی شدہ بچیوں کے گھر.. عیدی.. بیجھنے کی بھت فکر ھوا کرتی تھی.. لیٹ ھونے پر ابا مرحوم کو بھت.. تپ.. چڑھا کرتی تھی وہ ایک محبت سے بھری ھوی گالی نکالتے ہوے کہا کرتے تھے…….. کیسا الٹا زمانہ آگیا اے.. مزے کی بات یہ ھے کہ ہم بھی زرا زرا سی بات پہ اپنے بچوں کو یہی کہتے ھیں… اف اللہ کیا زمانہ آگیا اے… لیکن ہم سمجھتے ھین کہ ہمارے ابا کے ابا اور پھر ان کے ابا کے ابا ولد ابا کے ابا… ….. …………………. ولد ابا کے ابا بھی یہی کہتے ھوں گے کہ… کیا زمانہ آگیا ھے… مگر ہم سمجھتے ھیں کہ زمانہ نہیں بدلا…. ھم بدل گیے ھیں ہمارا احساس بدل گیا ھے ہماری محبتیں بدل گئی ھیں ہمارے مشغلے بدل گیے ھیں سب کچھ وہی ہے مگر ہمارے ذہن بدل گیے ہیں….. … کبھی خو سے سوال کیجیے… کہ ہم کیوں بدل گیے ھیں؟4  جولائی 2016

ھمارے اندر کوی موجود ہے جو ہمیں اندر سے کاٹ رہا ہے مگر ہم اپنے اندر جھانکنے کے بجاے باہر دیکھنا شروع کردیتے ہین ہمیں ہر شے کے پیچھے بیرونی ہاتھ نظر آتا ہے ہمیں ہر جگہ مسلمان دشمن نظر آتے ہین عجیب بات ہے کہ ہر دھماکے کے بعد مسلمان دشمن قوتوں کانام لے کہ ہم مطمعن ہو جاتے ہین مسجد نبوی کے باہر دھماکہ ہو یا داتا دربار کے صحن میں مون مارکیٹ لاہور میں دھماکہ ہو یا پشاور کے سکول میں مذمت اسلام دشمن قوتوں کی کی جاتی ہے لیکن… اسلام پسند.. قوت کا نام لیتے ہوے ہر ایک زبان خاموش ہو جاتی ہے ہم مسلمان روز ازل سے کسی نہ کسی.. اسلام پسند.. قوت کا نشانہ بنتے آرہے ہیں جناب حضرت علی کرم اللہ سے لیکر جناب حضرت امام حسین تک اور پھر اس کے بعد آج تک مسلمان کا سب سے زیادہ نقصان مسلمان نے کیا ہے جب کوی مسلمان کسی غیر کے ہاتھوں مارا جاتا ہے تو اس کے اور طرح کے اثرات سامنے آتے ہیں لیکن جب کوی مسلمان مسلمان کے ہاتھوں مارا جاتا یے تو بحیثیت قوم جانی نقصان کے بعد ہم اخلاقی طور پر بھی بھت نقصان اٹھاتے ہین اور نقصان اٹھا رہے ہیں کتنی افسوس ناک بات ہے کہ جس قوم کے سردار نبی آخر کے اخلاق کریمانہ صفات کی تعلیمات ان کے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں ان کی امت نے اس کے الٹ چلنا شروع کر دیا ہے ہمیں فیصلہ کر لینا چاہیے کہ ہمیں حضرت محمد.ص کی محبت انسانیت درگزر کی تعلیم کے ساتھ آگے بڑھنا ہے یا دوسرے کو لہولہان کر کے اس زمین کو لہو لہو کرکے آگے بڑھنا ہے؟ اے میرے دوستو اسلام دین محبت ہے محبت کی طاقت سے دلوں کو تسخیر کرو لوگوں کو خدا کے قریب لانے کیلے گولی سے نہیں اخلاق سے کام لو اور آقا دوجہاں کے پرچم محبت کے ساے میں آجاو..اگر بانٹ سکتے ہو تو عشق محمد کو بانٹیے خدا کی قسم خدا کی محبت تمہیں خود تلاش کرے گی… جنت کیا ہے؟……….. صرف ایک بار پورے دل کے ساتھ آقا دوجہاں کی زات پر درود پاک پڑہیے جنت خود قربت کے لیے درخواست گزار ہو جاتی دوزخ کیا ہے؟ آپ زرا سا کسی کے بارے منفی سوچیے دوزخ پوری شدت کے ساتھ آپ کے وجود میں پھیل جاتی ہے-5جولائی 2016

اے میرے صاحب ھم امید رکھتے ہیں آپ کی عید بھت اچھی گزری ہو گی آج دوسرا دن ہے آج کے دن کو بھی خوبصورت بنانے کی کوشش کیجئے گا ہم سمجھتے ہیں کہ بعض معاملات میں آپ خود مختیار ہیں مثال کے طور پر اگر آپ کسی پہ ناراض ہیں تو اسے معاف کر دینے میں آپ خود مختیار ہیں آپ کسی کے رزق کے مالک نہیں ہیں لیکن یہ اختیار آپ کے پاس ہے کہ آپ نے اگر کوی اچھی چیز بنای ہے تو ایک پلیٹ اس گھر بجھوا دیں جن کے گھر کچھ نہیں پکا آپ نے اگر بھت قیمتی کپڑے پہنے ہوے ہیں اور آپ کے کسی ملنے والے نے عام کپڑے پہن رکھے ہیں تو آپ اس کا دل بڑھانے کے لیے کہہ سکتے ہیں یار کیا بات ہے یہ سوٹ بہت جچ رہا ہے آپ پہ بہت اچھا کلر ہے مجھے تو بھت پسند آیا ہے اس طرح کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں تقسیم کرنے سے آپ کی عید مزید خوبصورت ہو سکتی ہے ایک کام آپ اور بہی کر سکتے ہیں اور وہ ہے اپنے پردیسی دوستوں کے ساتھ رابطہ کر کے انہیں یہ احساس دلانے کا کہ اگر آپ کسی بھی وجہ سے عید منانے کے لیے نہھیں اسکے تو ہم بھی آپ کے لیے بھت اداس ہیں اور ہماری عید بھی آپ کے بغیر ادھوری ہے آپ کے یہ الفاظ ان کے لیے بھت اہم ہوں گے انہیں آپ گھر یا گاوں کے حوالے سے کوی بھی اچھی خبر سنا کے خوش کر سکتے ہیں…. لیکن ھم سمجھتے ہیں کہ اپنے وطن اور پھر وطن میں اپنے گاوں کی عید کہیں نہیں ہو سکتی سو ہم ھمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ عید اپنے گاوں منائیں اور گاوں ہی مناتے ہین……عید کے تین دن بھت اچھے گزرتے ہیں دوستوں کے ساتھ ملاقات ہوجاتی ہے تو نئے دوست بھی مل جاتے ہیں کل ایک نئے دوست ملنے آے ابتدائی گپ شپ کے بعد کہنے لگے یہ آپ کیا کالا کالا لکھ کے پوسٹ کر دیتے ہیں زرا نیلا پیلا لکھا کریں ہم نے کہھا….میں کالا میڈا چولا کالا کالا گل دا ہار بھلا… میکوں کالیاں دے نل پیار بھلا…… وہ مسکراے اور کہھا آپ اگر چاہیں تو آپ کے کالے حروف کو حسیین چہروں پہ لکھ کے مزید دلکش بنایا جا سکتا ہے ہم نے کہھا کہ ہمیں اچھا نہیں لگتا… کہنے لگے اچھا ہم آپ کو ایک اور طریقہ سکھاتے ہیں… ہم نے ایک گیت جو کہ اپنی بلبل کی فر مائش پر پردیسی بھائیوں کے لیے لکھا ہے انہھیں دیا اور کہھا یہ لکھ کے دکھائیے انہھوں نے لکھ دیا.. لکھا بہت اچھا ہم بھی خوش ہوے اور انعام میں چاے کا کپ بھی پلایا اور پھر پوچھا…. پوسٹ کردوں انہھوں نے کہھا کر دیں ہم نے انگلی دبا دی مگر جب پوسٹ سامنے آی تو پتہ چلا پوسٹ کا سر غائب ہے البتہ دھڑ موجود ہے سو پڑھنے والے پریشان ہیں کہ آخر یہ ہے کیا….. جو ہم نے پوسٹ کی ہے سو ہم اپنے احباب سے معذرت خواہ ہیں…. لیکن آپ فکر نہ کریں ہم اس نئے دوست کی تلاش میں ہیں چاے کا کپ تو اس کے پیٹ سے نکلوا کے ہی رہیں گے پورا گیت بھی آج آپ کی خدمت میں پیش کریں گے انشاءاللہ–7 جولائی 2016

اے میرے صاحب بلبل کی فرمائش پر مکمل گیت حاضر هے…

ساڈا آن وساویں ها بھان

اس وار چا کر احسان

وے ڈھولا عیداں تے.

بهوں عیداں ڈھول منائیاں نی پر دیساں وچ.

هن ول آ پاکستان .

وے ڈھولا عیداں ….!

کل بابے وی پچھیا هےتیڈے آون دا.

کل ستھنڑی چولا ماء گھن آئ هئ پاون دا.

اس گل دا رکھیں دھیان.

وے ڈھولا عیداں تے.

تیڈی نکی بهینڑ وی سیویاں وٹ کے بیٹھی هے.

تیڈی “کجھ لگدی”وی اکھیاں پٹ کے بیٹھی هے.

سب بیٹھن تیڈے کان.

وے ڈھولا عیداں تے.

کل بھتریجی بھتریجه وی پۓ آهدے هن.

اس واری چاچے پکے کیتے وعدے هن.

پۓ پچھدے هن نادان .

وے ڈھولا عیداں تے.

کوئ بوهے تے هتھ مارے تاں بھج پوندی هے.

تیڈی نکی بھانجی وی تیڈے کن روندی هے.

آهدی هےماموں جان.

وے ڈھولا عیداں تے.

هک واری وت ونج نکی نھرتے دھانسوں وے.

وت چاه دیاں چسکیاں نال جلیبیاں کھاسوں وے.

توں بن تاں سهی مهمان .

وے ڈھولا عیداں تے.

میکوں پته اے آون کیتے توں وی سکدا هیں.

تائیوں درداں وچ پرو کے میسج لکھدا هیں.

نا هو ئیا کر پریشان .

وے ڈھولا عیداں تے.

بریکنگ نیوز….. اے میرےصاحب چاچا نورا اس وقت ہمارے پاس تشریف فرما ہیں اور ہم گپ شپ میں مصروف ہیں انشاءاللہ کل.. فوٹو سیشن.کا پروگرام ہے اگر آپ چاچا نورا سے کوی سوال پوچھنا چاہتے ہیں تو پوچھ سکتے ہیں-8جولائی 2016

اے میرے صاحب- عبدالستار ایدھی صاحب کے لیے الفاظ میں اظہار بھت مشکل ہے یا کم از کم ہمارے لیے مشکل ہے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ حضرت بابا ے قوم کے بعد ان کی موت پاکستان کا سب سے بڑا نقصان ہے وہ در حقیقت بابا ے خدمت تھے اور پاکستان سے باہر واحد شخصیت تھے جو پاکستان کا واحد مثبت چہرہ تھے ان کے لیے دعا مغفرت کی اپیل ہے-9  جولائی 2016

بریکنگ نیوز..

ہم اپنے احباب محبت کو بتانا چاھتے ہیں کہ چاچا نورا کا فوٹو سیشن مکمل ہو چکا ہے اور ہم نے مختلف انداز میں ان کی بھت سی تصویریں بنالی ہیں مگر…… انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ ہماری تصویریں کیوں بنای گئی ہیں.. تو ہم نے انہیں بتایا کہ یہ تصویر یں.. فیس بک پر دکھانی ہیں مگر انہوں نے کہھا ہے کہ پہلے ہمیں بتایا جاے کہ یہ فیس بک کیا چیز ہے اور جب تک ہم فیس بک کے بارے جان نہیں لیتے اس وقت تک آپ ہماری تصویریں اپنے استعمال میں نہیں لا سکتے چاچا نورا اس وقت ہمارے پاس بیٹھے بریانی کھا رہے ہیں ہم کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں فیس بک کے بارے سمجھائیں مگر سمجھا نہیں پا رہے اگر آپ کے پاس انہیں سمجھانے کا کو طریقہ ہے تو سمجھا دیجیے ہم اپنے طور پر ان کے ساتھ مذاکرات کر رہےہیں مگر وہ قائل نہیں ہورہے ہم بھی سوچ رہے ہیں آپ بھی زرا سوچ کے مشورہ دیجئے-10  جولائی 2016

اے میرے صاحب جب ہم نے بطور ادکار اپنے سفر کا آغاز کیا تو ہماری چار انچ کی مونچھ ہمارے لیے بھت پریشانی کا باعث بن گئی اور ہمیں مونچھ کی قربانی دینی پڑ گئی حالانکہ ہمیں اپنی مونچھ بھت عزیز تھی اور ہم اپنی مونچھ کی بھت حفاظت کرتے تھے ہم رات سوتے وقت زیتون کے تیل سے مونچھ کی مالش کیا کرتے تھے اب خیال آتا ہے کہ کاش ہم نے سر پہ زیتون کے تیل کی مالش کی ہوتی تو آج.. فارغ البال.. تو نہ ہوتے…………………. مصیبت یہ تھی کہ ہمیں اکثر مختلف کریکٹر ملا کرتے تھے سو کریکٹر کے مطابق میک اپ کیا جاتا تھا اور پھر ہماری اصلی مونچھ پہ نقلی مونچھ لگای جاتی تھی بعد میں جب ہم نقلی مونچھ اتارتے تو ساتھ اصلی مونچھ کے بال بھی اکھڑ جاتے جس سے بھت تکلیف ہوتی تھی سو ہم نے ایک بھت معروف اداکارہ کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کیا تو انہھوں نے کلین شیو کا مشورہ دے دیا ہم نے ان کے کہھنے پہ مونچھ صاف کرا دی لیکن بعد میں یہی اداکارہ ہمارے پہ طنز کرنے لگی کہ عاجز صاحب.. مرد کی مونچھ ہی تو ہوتی ہے اور پھر وہ مزے لے لے کے ہمیں چھیڑا کرتی تھی مگر ایک دوسری اداکارہ نے ہمین حوصلہ دیا کے آپ پریشان نہ ہوں مونچھ کے بغیر آپ بھت اچھے لگتے ہو بہرحال کچھ دن تو ہم خاصے شرماے شرماے رہے مگر پھر سب کچھ ٹھیک ہو گیا… لیکن چند دن بعد ہمیں گاوں آنا پڑا ہم جونہی اپنے گھر داخل ہوے تو سب سے پہلے تو ہماری بیگم نے ہی نے چلاتے ہوے کہھا… ھاے اللہ اے کون ساڈے گھر وڑ آیا اے… قریب تھا کہ وہ کوی چیز پکڑ کے ہمارے سر پہ دے مارتی ہم نے جھپٹ کے اس کے بازو سے پکڑا اور کہھا.. اچھا اب ہم کون ہو گیے ہیں؟ بیگم کی حد تک تو ہم نے خود کو محفوظ کر لیا مگر ہماری اماں بھت بگڑیں کے یہ تم نے کیا حلیہ بنایا ہے زرا اپنے ابا کو آنے دو.. شام کو جب ابا آے تو انہھوں نے خلاف توقع اماں سے کہھا.. کملی اے دھیاں جیا پتر اے پرے کریس…………… گھر والوں کو مطمعن کرنے کے بعد اب بازار جانے اور دوستوں سے ملاقات کرنے کا مسئلہ تھا سو ہم نے دوستوں کو پیغام بھیجا کہ جس نے ملنا ہے گھر آ کے مل لے پیغام ملتے ہی سعید عابد اور عثمان صابر آگیے کافی بحث کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ عینک پہین کے باہر نکلا جاے سو ہم عینک پہین کے جونہی بازار داخل ہوے کسی نے افواہ پھیلا دی ک فوڈ انسپکٹر آگیا ہے بھت سے دکانداروں نے دکانیں بند کرنی شروع کردیں ہم سیدھے عثمان صابر کے والد حاجی صدیق کی دکان پر سلام عرض کرنے کیلئے حاظر ہوے وہ بیچارے سمجھے کہ ہم انسپکٹر ہیں انہھوں نے چاے کے ساتھ بسکٹ پیش کرتے ہوے کہھا…. آپ جو چیز چیک کرنا چاھتے ہیں کر لیں ہم ملاوٹ نہیں کرتے… مگر ہم نے جب انہیں بتایا ک ہم تو افضل ہین اور آپ کو سلام کرنے آے ہیں ہمارے بتانے کی دیر تھی کہ انہھوں نے اپنا ہاتھ جوتی کی طرف بڑھایا مگر ہم بھاگ نکلے اور سیدھا رضااراییں کی ریڑی پر جا کے دم لیا زیر نظر تصویر اسی دن کی ہے تصویر میں سعید عابد عثمان صابر رضا آرایین بھی نمایاں نظر آرہے ہیں شکریہ عثمان تم نے تصویر کے ساتھ پرانا واقعہ بھی یاد کرا دیا-11جولائی 2016

اے میرے عصمت گل خٹک آپ ہماری پوسٹ پہ تشریف لاے اور قلم سرا ہوے سو ہم نے مناسب سمجھا کہ آپ کا جواب علیحدہ سے دیا جاے ہم محسوس کرتے ہیں کہ آپ آجکل خاصے. قلم چھٹ.. ہوتے جارہے ہیں بھت دلیری کے ساتھ اپنی بات کرتے ہوے جہاں واہ واہ واہ کے الفاظ سن رھے ہیں وہاں یقینی طور پہ اپنے دشمن بھی پیدا کر رہے ہیں سو اس کے مثبت یا منفی نتائج کا بھی آپ کو اندازہ ضرور ہوگا آپ نے ایک لفظ میراثی لکھا اور پھر اپنی بات ہم تک لاے آپ نے لفظ میراثی جس مفہوم میں لکھا وہ مثبت مفہوم کے ساتھ ہے اور اپنے اندر ایک کشش رکھتا ہے ہم آپ کی بات کو آگے بڑھاتے ہوے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ گزشتہ تیس سال سے زائد عرصے سے ہم نسلی نہیں تو کم از کم.. کسبی میراثی.. ضرور ہیں……………. بدقسمتی سے ہمارے ہاں گانے بجانے والے لوگوں کو میراثی سمجھا جاتا ہے حالانکہ میراثی میراث سے ہے یہ میراث کیا ہے؟ میراث درحقیقت وی چیز ہے جو کسی بھی خاندان کی ملکیت ہو یہ میراث صرف دولت ہی نہیں ہوتی بلکہ علم و ھنر بھی میراث ہے اور علم وھنر کی میراث بھت فضیلت والی ہوتی ہے جس کے پاس یہ دولت ہو ہماری نظر میں وہ بھت با عظمت انسان ہوتا ہے……………………………………… 2ہم نے نے بڑے بڑے سرداروں کواپنے سے بڑے سردار کے سامنے میراثی بنتے ہوے دیکھا ہے اور بھت چھوٹے چھوٹے مراثیوں کو بڑے بڑے سرداروں کے آگے چٹان کی طرح مضبوط کھڑے ہوے بھی دیکھا ہے.. ہم سمجھتے ہیں کہ کردار دراصل شخصیت کا تعارف ہوتا ہے زات پات کا تعلق شناخت کی حد تک ہی محدود ہے………………… مثال کے طور پر ایک شخص بھت بڑے خاندان سے تعلق رکھتا ہے لیکن سوچ بھت نچلی سطح کی ہے تو اس کا خاندانی پس منظر اس کی حقیقی قدر منزلت کا پیمانہ نہیں بن سکتا……. جنہیں ہم عام طور میراثی کہتے ہیں یا سمجھتے ہیں ان میں سے اکثر لوگوں نے پاکستان کے نام کو بھت عزت دلای ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو چھوٹے چھوٹے گھروں سے نکلے اور دنیا پہ چھا گئے اور نام اس لیے نہیں لکھ رہا کہ طوالت کا خوف ہے اور پھر انگلی پھسلنے کا بھی خوف رھتا ہے………………………………….. . 3ہم قلم کے مزدور تھے اور اب بھی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر مزدوری کرکے کھانا ہے تو پھر خوشامد کر کے رزق کو حرام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟……………………………… خان بابا ہمارا موضوع نہیں ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ… اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا…………………………………. مگر جب سوال اٹھایا جاتا ہے تو پھر جواب دینا ضروری ہوتا ہے………………………………….. ہم نے جتنی مدت خان بابا کے ساتھ کام کیا پوری دیانت داری کے ساتھ کیا مگر جب ہم محسوس کیاکہ اب… اس شاعری میں عزت سادات کا معاملہ ہے.. تو ہم ہاتھ جوڑ کے علیحدہ ہو گیے اور اپنے رب کی بارگاہ مین ہاتھ پھیلاتے ہوے کہا………………………….. اے میرے رب مجھے زلت سے بچا………….. اے میرے رب مجھے اپنے فضل سے نواز…….. اے میرے رب رزق کے دروازے کھول…………………………………………………. اور میرے رب میرے لیے آسانیاں پیدا فرما آپ کی طرح بھت سے احباب اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ہم بھت انا پرست ہین حالانکہ ہم انا پرست بلکل نہیں ہیں بلکہ الحمدللہ ہم خدا پرست ہیں اور نبی آخر کے غلام ہیں……………………………. آپ نے ہمارا دوھڑہ تو سنا ہوگا کہ……………. ……………. آساں عاجز جھکنا سکھیا نیں آساں رکھی ہوی اے کھیڈ خدا تے……………. مزید کوی حکم؟-12  جولائی 2016

اے میرے صاحب یہ جو مسلک محبت سے جڑے احباب ہیں یہ جب اصرار کریں تو بات ماننی پڑتی ہے بلکہ مان لینے مین ہی اچھای ہے کیونکہ بقول شاعر………………… ڈھا دے مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے جو کجھ ڈھیندا پر بندیاں دا دل نہ ڈھانویں رب دلاں وچہ رھندا…………………عرشی صاحب ہمارے بھت پیارے ہیں اور سرگودھا ڈویژن کے مقبول اخبار.. نواے شرر کے ساتھ منسلک ہیں گزشتہ روز ان کے ساتھ گپ شپ ہوی اب وہ اس گپ شپ کو اخبار کے زریعے آگے بڑھانا چاھتے ہین اس انداز میں جو ہم آپ کی نظر کر رہے ہیں-14  جولائی 2016

اے میرے صاحب اس بار کندیاں گئے تو ایسا دل اٹکا کہ کسی حسینہ کے آنچل میں کیا اٹکے گا کندیاں پہ ہم نے کیا عاشق ہونا ہے ہم سے زیادہ تو ہمارا علی کندیاں کا مجنوں بنا پھرتا ہے ہم نے گزشتہ روز اس سے.. کن سن.. میں پوچھ ہی لیا کہ کندیان کے نام پہ کوی اور. چن نہ چڑھا.دینا؟ وہ مسکرایا اور کہا بابا جانی جو اپنی مٹی کی خوشبو میں مست ہوں وہ کسی اور خشبو کے اسیر نہیں ہوتے ہمیں تو اپنے گاوں کی فضاؤں اور نیلے آسمان پر محبت کے گیت گاتے پرندوں کے سروں سے ہی فرصت نہیں ملتی ہم جب کندیاں آتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ دنیا کی جنت مین آگیے ہیں یہھاں جدید دنیا کی کوی آسائش نہیں ہے ھر طرح کی پسماندگی ہے مگر قدیم دنیا کی محبت اتنی وافر ہے کہ جدید دنیا کی ہر چیز مصنوعی لگنے لگتی ہے مگر لاہور بھی لاہور ہے جس نے مجھے اپنی دھرتی کے ساتھ محبت کا سلیقہ سکھا یا ہے… علی لاہور جاچکا ہے ہم اسلام آباد کی طرف آڑان بھر رہے ہیں ملک کے معروف شاعر نزیر یاد ہمارے ساتھ ہیں ان کی ہماری گفتگو علم الاعداد کے حوالے سے شروع ہے اس گفتگو کے حوالے سے باقی باتیں اسلام آباد پہنچ کر انشاءاللہ دعا کی درخواست-15  جولائی 2016

ہم اسلام آباد کی طرف آڑان بھر رہے تھے کہ آچانک نزیر یاد کا فون آیا استاد محترم کہھاں ہو. نزیر یاد کی طبیعت ٹھیک ہو تو وہ ہمیں استاد محترم کہھ کے مخاطب کرتے ہیں اور اگر طبیعت خراب ہو تو پھر جو منہ میں آے کہھ کے مخاطب کرتے ہیں ان کے پوچھنے پر ہم نے بتایا کہ اسلام آباد نکل رہے ہیں انہھوں نے کہھا کس کے ساتھ ہم نے کہھا جو مل جاے فرمانے لگے ہم نے بھی اسلام آباد جانا ہے ہماری ایک عزیزہ فوت ہو گئی ہے ایسا کرو ہماری ٹکٹ بھی کرادو ہم نے کہھا ٹکٹ تو ہو جاے گی مگر پیسے اپنے اپنے ہوں گے انہوں نے کہھا پیسے بڑے تم ٹکٹ کراو مگر جب ہم نے ٹکٹ کے لیے بات کی تو کہھا گیا جگہ نہیں ہے ہم نے بتایا کہ جگہ نہیں ہے تو یاد صاحب نے کہھا چلو کوی بات نہیں مگر جب گاڑی میانوالی اڈے پر پہنچی تو یاد صاحب موجود کھڑے تھے انہھوں نے آو دیکھا نہ تاو گاڑی میں سوار ہوگئے اور ہمارے پہلو میں آکر بیٹھ گیے ہم نے اپنے بھتیجے کو.. موڑے.. پر بٹھا دیا نزیر یاد نے پہلی ہی سانس میں کہھا میری روحانیت بتا رہی تھی کی اکٹھے سفر کریں گے اور پھر ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے ابھی ہم. ترحدہ… کے قریب پہنچے ہوں گے کہ بس کا.. اے سی… گرم ہوا پھینکنے لگا اور پھر قیامت کا سماں بن گیا کافی چیخ پکار کے بعد ڈرائیور نے گاڑی روکی تقریباً ایک گھنٹہ کے بعد خوش خبری سنای کہ گاڑی تلہ گنگ جا کے تھیک ہو سکے گی گاڑی چلی تو نزیر یاد نے کہھا مجھے صبح سے اندازہ تھا کہ گاڑی کا اے سی خراب ھو گا اور پھر تلہ گنگ جا کے پتہ چلا ک گاڑی پنڈی سے پہلے ٹھیک نہیں ھو گی نزیر یاد نے ایک بار پھر اپنے علم کی دھاک بٹھاتے ہوے کہھا مجھے پہلے علم تھا کہ گاڑی ٹھیک نہیں ھوگی گاڑی کا ماحول خاصا خراب ہو چکا تھا مزید گڑ بڑ اس وقت ہوی جب راستے مین ایک جگہ روٹی کھانے کے بعد سب مسافر گاڑی میں بیٹھے تو ٹھیک پندرہ منٹ بعد اندازہ ہونے لگا کہ……. کس نے پیٹ میں کتنی مولی ٹھونسی ہے…. خود نزیر یاد بھی احساس دلا رہے تھے کہ انہوں نے پیپسی پی رکھ ہے یہ تو شکر ہے ہم نے چاے پی رکھی تھی ہم ابھی اسی.. آب وخراب.. میں گم تھے کہ نزیر یاد کو فون آیا تو انہھوں نے کہھا ہم نے کہھا تھا کہ جنازے میں نہیں پہنچ سکیں گے دیکھ لو چار بجے جنازہ ہے اور ہم ابھی آدھے راستے میں ہیں.. فون بند ہوا تو انہھوں نے ہمین مخاطب کرتے ہوے کہھا ہم صبح سے جانتے تھے کہ جنازے میں پہنچنا مشکل ہے ہم خاموش رہے کیونکہ اس دوران سامنے والی سیٹ پہ بیٹھے ایک مولوی صاحب نے باقاعدہ تڑکے والی دال سے بھرا ہوا. ڈکار. ہماری طرف پھینکتے ہوے احساس دلایا کہ… ہم بھی یہھاں موجود ہیں…. اس ماحول میں ہم پنڈی پہنچے تو نزیر یاد نے کہھا مجھے معلوم تھا کے سفر بہت برا گزرے گا مجھے اجازت میں مرگ والے گھر سے ہو کے آونگا رات کو گپ شپ کریں گے مگر نزیر یاد رات کو نہ آے ہم نے صبح فون کیا تو انہھوں نے کہھا ہم تو واپس میانوالی روانہ ہو چکے ہین ہم مسکراے اور کہھا… ہمیں اپنے علم کے زریعے معلوم ہو چکا تھا کہ آپ اس وقت میانوالی روانہ ہو چکے ہو وہ مسکراے اور کہھا آپ بڑے.. استاد ہو…. استاد محترم… ہم نے کہھا آپ استاد سے بھی چار قدم آگے ہو شاگرد محترم لیکن خدا کے واسطے راستے مین پیپسی نہ پینا…..

اے میرے صاحب کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کون معزز شخصیت ہیں مگر احتیاط کے ساتھ کیونکہ بھت معزز اور قابل احترام ہیں اور ایک یہ بھی کہ ہم بھی ہم ہیں یا ہم جیسے کوی ہیں مگر سلیم شہزاد کو اجازت نہیں ہے کیونکہ کیمرے کے پیچھے وہ ہیں-اس تصویر میں ایک تو ہم ہین اور دوسری شخصیت جناب مفتی عمران صاحب ہیں جن احباب نے درست جواب دیا ان کے لیے شاباش اور جنہھوں نے غلط جواب دیا ان کے لیے ڈبل شاباش کیونکہ انہھوں نے کوشش تو کی-16  جولائی 2016

اے میرے صاحب آج تو فیس بک نے ہاتھ جوڑتے ہوے کہھا اللہ کے بندے کم ازکم اتوار کے دن تو تھوڑا..ساہ..لینے دیا کرو آخر میرے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان کا بھی مجھ پہ حق ہے ان کا بھی جی چاہتا ہے کہ تھوڑا بھت انجوائے کیا جاے کسی عزیز رشتے دار کے گھر جا کے کمزور پڑتے رشتے کو دوبارہ سے مضبوط کیا جاے کسی پارک میں جا کے تھوڑی تازہ ہوا لی جاے بیگم کو زرا میکے کی سیر کرائی جاے وہ جو امی اور ابو ایک عرصے سے چھوٹے بھای نے سنبھال رکھے ہیں زرا ان کی خبر لی جاے فیس بک ہوں انسان تو نہیں ہوں نا کہ سارے رشتے ناطے توڑ کے بیٹھ جاؤں اب تم قندیل بلوچ کے بارے میں پوسٹ لکھنے کیلئے رات سے ذھن بناے بیٹھے ہو اب تم اس کا. مرثیہ.. لکھنے کا ارادہ باندھے بیٹھے ہو اب تمہیں انسانیت اور عورت کا مظلوم ہونا یاد آگیا ہے لیکن کیا یہ تم ہی نہیں تھے جو اسے ایک فاحشہ اور گندی عورت قرار دیتے تھے اور کیا یہ بات سچ نہیں ہے کہ جب وہ اپنی شوبز کی مصروفیات کی تصاویر منظر عام پر لاتی تھی تو تم بھت غور سے اس کی تصاویر دیکھ کے خوش ہوا کرتے تھے لیکن جونہی اس کے کردار پر بات ہوتی تو فوراً کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوے کہھا کرتے تھے اف اللہ کتنی گندی عورت ہے.. اور پھر وہ مولانا جس نے اس کی موت پر کہھا ھے کہ قندیل کی موت سے یہ پیغام گیا ہے کہ اب وہ لوگ جو علماء کی تو ھین کرتے ھیں انہیں اپنے انجام سے خوف اے گا.. مگر اس مولانا سے کوی پوچھے جب وہ ایک عورت کو گود میں بٹھا کے اسلام کی گفتگو کر رہا تھا اس کی اجازت اسلام نے کب دی تھی کیا قندیل نے مولانا کے ساتھ زبردستی تصاویر بنوائیں تھی؟…………………….. کہا جاتا ہے کہ شوبز کے لوگ بھت گندے ہوتے ہیں تو کیا مذہب کے پیش کرنے والوں مین مولانا.. قوی.. نھین ہوتے؟……………………..تم بھت خوش ہو کہ ایک غیرت مند بھای نے اپنی بہن یا کسی بھی غیرت مند نےایک عورت کو قتل کردیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ غیرت صرف عورت کے کردار پر ہی کیوں جاگتی ہے یہ جو تم راہ چلتی عورتوں کو اپنی حریصانہ نگاہوں سے روزانہ اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہو تو کیا وہ قندیل کی طرح کی عورت ہوتی ہے؟…………………………… قندیل کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ بعض معاملات میں حد سے تجاوز کرتی تھی مگر کیا ہم اپنی حد میں رھتے ہیں؟ کیا مولانا قوی کا کردار قندیل کے کردار سے کم ہے؟ شوبز کے لوک تو اپنے اس سے ساتھی فنکار سے لاتعلقی کا اعلان کر دیتے ہیں جو اداکارہ یا ادکار فن کے نام پر فحاشی پہھلا تا ہے مگر کبھی نہیں سنا کہ کسی مولانا کی فحش حرکت پہ اس کی برادری نے اس کے فعل کی مذمت کی ہو یا اسے اپنی برادری سے نکالنے کا اعلا ن کیا ہو قندیل اپنے انجام کو پہنچ چکی مگر مولانا قوی ابھی تک مفتی کی مسند پہ بیٹھا ہیے کیا علماء برادری میں سے کوی ایسا مرد مومن ہے جو قندیل جتنے ہی کردار کے مالک مولانا قوی سے کم سے کم لفظ مفتی اور مولانا کا خطاب واپس لے سکے یا کم از کم اسے اپنی برادری سے نکال باہر کرے؟ آخری بات یہ کہ اب قندیل کا معاملہ اللہ کے حضور پہنچ چکا ہے ہمین اس کے لیے بخشش کی دعا کرنی چاھیے اور اس کے قاتلوں کو سزا دینی چاھیے کیونک مقتول کتنا بھی برا ہو کسی بھی قانون میں اسے اس کے حق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا اور قندیل کو اس کا حق ملنا چاھیے……. اور اے میرے افضل عاجز آج پوسٹ لکھنے کی چھٹی کر زرا مجھے بھی.. ساہ.. لینے دے…….. سو اے میرے صاحب آج اتوار ہے اس لیے پوسٹ کی چھٹی کل انشاءاللہ حاظر ہوں گے

اے میرے صاحب فیس بک سے آج ہم چھٹی پہ ہیں سو پرانی تصاویر نکال کے ان میں سے گزرے زمانے کے منظر دوبارہ سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ ایک پرانی تصویر ہے اس زمانے میں علی صاحب کو باقاعدہ دونوں ہاتھوں سے اٹھا کے آپنے گال کے قریب کرنا پڑتا تھا تب کہیں جا کے وہ ہماری.. چمی.. لیتے تھے اور اب بفضل ربی ہم اگر اس کی.. چمی.. لیں تو ہمیں پاوں کے نیچے اینٹ رکھنی پڑتی ہے اور اگر وہ شرارت سے منہ ادھر ادھر کردے تو پھر ہمادی چمی ہوا میں ا ور ہاتھ اس کی ماں کے کندھے پر ہوتا ہے………. ہم دعا کرتے رھتے ہیں اپنے رب سے کہ میرے رب تو سب کی اولاد پہ رحم کر اور انہیں نیک بنا اور والدین کو اپنی اولاد کی خوشیاں دکھا آمیںن لیکن یاد رھے کہ ہم آج فیس بک سے چھٹی پر ہیں-17  جولائی 2016

کل ایک صاحب خاصے بگڑ کے بولے بچپن کے قصے سناتے ہو کبھی جوانی کے کرتوت بھی سامنے لاو ہم نے کہھا کم بخت نالائق تو ہم ہیں مگر بیوقوف نہیں ہیں ک چوراہے میں کھڑے ہو کے حسینائوں کے پردے چاک اور اپنے پردے فاش کرتے پھریں بگڑ کے بولے مرد بنو مرد ہم نے کہھا ہم آپ کی باتوں میں آنے والے نہیں ہماری جوانی تو ایسی تھی کہ……………………………………… کہاں تک سنو گے کہھاں تک سنایں………. ہزاروں کے شکوے ہیں کیا کیا بتایں……… بگڑ کے بولے شعر نہ سناو کوی کرتوت سناو…ہیم نے کہھا کم بخت ہمیں جذباتی نہ کر ہمارے اندر کی ملکہ جذبات جاگ اٹھی توپھر………………………………………… معاملہ………………………………………………… اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا.. دل اس کی محبت مین گرفتار ہوا تھا…….. تک جا سکتا ہے……………………………………… وہ ہماری بات پہ پورا منہ کھول کے ہنسے اور کہا.. اک حسن کی دیوی سے.؟…….. خدا کا خوف کرو تم تو ایسے دیوداس تھے کہ توبہ……………………………………………………. ہم نے انہیں سمجھایا کہ بھای سنی سنای پہ دھیان نہیں دینا چاہیے اور کسی کے بارے میں غلط راے بھی قایم نہیں کرنی چاہیے چھوڑیئے جوانی کی باتیں……. آو تمہیں بچپن کے واقعات سناتے ہیں…… جب ہم بھت چھوٹے تھے اور گرمی کے موسم میں جب بارش روٹھ جایا کرتی تھی تو پھر پھر بزرگ کہھا کرتے تھے……………. اوے بالو اللہ کولوں دعا منگو……………………….. اور پھر ہم بچے اپنے جسموں پر کالا رنگ پھیر کے گلیوں میں گانا شروع کر دیتے تھے.. کالی بکری کالا شینہ گھتو دانڑیں وسے مینہ…. اور پھر ایک ایک دروازے پہ جا کے بھیک مانگتے ہوے نعرہ لگایا کرتے تھے.. اللہ ہو بی اللہ…………………………اس نعرے کو سنتے ہی ھر کوی اپنی توفیق کے مطابق ہماری جھولی میں کچھ نہ کچھ ڈال دیا کرتا تھا اس کیفیت کو ہم نے اپنے ایک گیت میں بھی بیان کیاہے………………. روہی رنگ رنگیلڑی وہ رنگیلڑی……………. چڑھیاں بدلیاں کالیاں.. .. ……………….. جٹیاں چاڑیاں گھنگڑیاں…………………….. بالاں اڈیاں تھالیاں……………………………… اور پھر جب ہم بھیک میں ملے ہوے چنے گندم باجرہ اور دیگر اشیاء کی. گھنگڑیاں…. پکاتے تو اچانک کہیں سے بادل آجاتے اور پھر بارشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا….ہم آج تک نہیں سمجھ سکے کہ ایسا کیسے ہو جاتا تھا…………………………………. کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ایسا کیسے ہو جاتا تھا؟ …………………………………………. آج صبح اسلام آباد میں بارش دیکھ کے ہمیں بچپن کا واقعہ یاد آیا تو سوچا آپ کو بھی سنا دیا جاے

ڈیکھنڑں وچ چن دا ٹوٹہ اے

پر اندروں دل دا کھوٹہ اے

اسے واسطے ودے ہاں پرے پرے

18  جولائی 2016

اے میرے صاحب

گل بجھدے ہاں نادان…. تاں ناں

ساڈی ذات اچ عیب ہزاراں سئی

پر تیں وانگوں بے ایمان.. تاں ناں

کئی سالاں توں تیڈی وستی وچ

راہندے ہاں اپنی مستی وچ

بے در ہون ساڈا عیب سئی

پر ہر کیں دے دربان… تاں ناں

ہاں دل وچ رکھنڑں دی شئےعاجز

نالے دل وچ راہنڑں دی عادت ہے

کوئی ڈنداں تلے چگھل سٹے

معشوق دے لب دے دا پان.. تاں ناں

جو مل پوندا اے کھا گھندے ہاں

چنگا ماڑا پا گھندے ہاں

آساں راضی رب دی مرضی تے

تئیں وانگوں چن پریشان.. تاں ناں

اے میرےصاحب ہم میں سے اکثر شکائت کرتے ہیں کہ زمانہ بدل گیا ہے اور خون سفید ہوگئے ہیں بھای بھای کو کا ٹتا پھرتا ہے بیٹا باپ کا دشمن بنا پھرتا ہے ماں بیٹی کی دشمن بن چکی ہے دوست دوست کو مارنے پہ تیار ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ یہ بات بلکل درست ہے لیکن یہ بات بھی نہیں ہے کہ دنیا محبت سے خالی ہے…………..

بھت سے احباب کا خیال ہے کہ ہم بھت اچھے آدمی ہیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم کتنے اچھے آدمی ہیں مگر احباب کی آنکھوں پہ پردہ پڑا ہوا ہے حالانکہ اگر کوی ہمارے جگر جان علی صاحب سے پوچھے کہ آپ کے بابا کیسے آدمی ہیں تو وہ ہمارے خلاف دفتر کھول کے بیٹھ جاے گا کہ بابا تو ایسے آدمی ہیں اور ویسے آدمی ہیں

بہرحال احباب ہمارے بارے میں اچھی راے رکھتے ہیں تو اب اس کا کیا کیا جاے؟

سو کچھ احباب ہم سے اپنے ذاتی مسائل پر بھی بات کر لیتے ہیں بعض تو قانونی مشورہ بھی مانگ لیتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم مشورہ دے بھی دیتے ہیں

گزشتہ روز ایک صاحب ہمارے ان بکس میں آے اور کہا سلام اے میرے صاحب

ہم نے سلام کا جواب دیا تو وہ حال احوال پوچھنے لگے ہم بھی حال احوال بتانے لگے کہ اچانک انہھوں نے کہھا اے میرے صاحب آپ سے ایک کام ہے ہم نے دل میں دعا مانگی یا اللہ یہ بھای کہیں پیسے ہی نہ مانگ لے

مگر ہم نے ڈرتے ڈرتے کہھا جی حکم

انہوں نے پوچھا آپ کندیاں کے رہنے والے ہیں

ہم نے کہھا جی بلکل

اب انہھوں نے کہھا میں آجکل پردیس میں رھتا ہوں آپ کے شہر کا میرا ایک دوست ہے ہم لاہور اکٹھے رہتے تھے وہ مجھے اچانک ملا تھا شکل و صورت سے کسی اچھے گھرانے کا نظر آتا تھامیرے پاس آئے بیٹھ گیا اور تعارف کے بعد اس نے بتایا کہ وہ گھر والوں سے جھگڑ کے لاہور آگیاہے یہاں اس کا کوی جاننے والا نہیں ہے آپ مجھے کہیں کام دلوا دیں

میں نے اسے کہھا کہ آپ ایسا کرو میں آپ کو پیسے دیتا ہوں آپ واپس گھر چلے جاو لیکن اس نے واپس جانے سے انکار کر دیا سو میں نے اسے کام پر لگوا دیا اور اپنے ساتھ رہائش بھی دے دی وہ بھت محنتی اور شریف آدمی تھا مجھے ایسا لگا کہ وہ میرا چھوٹا بھای ہے ہم کافی عرصہ تک ساتھ رہے اچانک ایک دن اس نے واپس جانے کی تیاری کرتے ہوے کہھا میں چند دنوں کے لیے گھر جانا چاہتا ہوں میں نے بھی اسے کہھا کہ اچھی بات ہے آپ گھر سے ہو آو وہ گھر گیا تو میرے ساتھ رابطے میں رہا کہ اچانک مجھے پردیس کا پروانہ مل گیا میراخیال تھا کہ میں اپنے دوست کو بھی یہاں لے آونگا مگر نجانے کیسے اس کا نمبر گم ہو گیا میں گزشتہ دوسال سے اپنے اس بھای جیسے دوست کے لیے بھت اداس ہوں آپ مجھے اس کا پتہ کر کے بتائیں ہم نے اسے کہھا کہ ہم عید پہ گھر جایں گے تو آپ کو معلومات دیں گے

ہمیں ان صاحب نے اپنے دوست کے خاندان کے حوالے سے جو کچھ بتایا تھا اس کے مطابق ہم نے پہچان لیا تھا ک وہ کون ہے.

وہ نوجوان ہمارے گاوں کے بھت معزز گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور ہماری بھی ان کے ساتھ اچھی جان پہچان تھی

ہم نے جب نوجوان کے بارے پوچھا تو بتایا گیا کہ وہ اللہ کو پیارا ہو گیا ہے

ہمیں بھت افسوس ہوا ادھر رانا خالد صاحب کا فون آگیا وہ بھت جذباتی ہو رہے تھے کہ ہم اسے اس کے دوست کے ساتھ ملانے والے ہیں

مگر جب ہم نے انہیں بتایا ک ان کے دوست وفات پا چکے ہیں تو ان کی جو کیفیت فون پہ محسوس کی ایسی تھی کہ جیسے اس کے سگے بھای کی موت کی خبر سنای ہو

وہ بھت دیر تک اپنے دوست کے حوالے سے باتیں کرتے رہے

مگر دوسرے دن انہوں نے مجھے فون کیا اور کہھا

میں خانہ کعبہ شریف گیا تھا اور دو نفل آپ کی درازی عمر اور دوست کی بخشش کے لیے پڑھ کے آیا ہوں

دوستی کے اس جذبے سے میرا یہ احساس مزید پختہ ہو گیا ہے کہ زمانہ ابھی اتنا بھی خراب نہیں ہوا ک ہم ناامید ہو کے بیٹھ جایں

کیا خیال ہے آپ کا؟

19  جولائی 2016

پیار دی پاداش وچ پرچہ تھیم

ایں سبب ول شہر وچ چر چہ تھیم

حسن دے دربار وچ رلدا ریھاں

دل اڑاونڑں تے وی کجھ خرچہ تھیم

20جولائی 2016

اے میرے صاحب

جب ہم نے نئی نئی شاعری کی دکان کھولی تو اس میں پرچون کا مال یعنی دوہڑے ماہیے ہی تھے ایک دن اچانک ایک غزل ہو گئی ہم بھت حیران ہوے ایک شاعر دوست سے پوچھا زرا بتاو تو یہ کیا ہے………… اس کم بخت نے مبارک دیتے ہوے کہھا……. اللہ نے آپ کو غزل دی ہے اور ہم نے وہ غزل ایک مشاعرے میں پڑھی تو ایک بڑے شاعر نے کہھا یہ غزل اس کے منہ سے میل نہین کھاتی لہذا یہ غزل اس کی ہو ہی نیں سکتی

اس زمانے کی بات تو خیر پرانی ہے اکثر احباب ہمیں اب بھی شاعر نہیں مانتے ان دنوں ایک بھت بڑے مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس میں ملک کے معروف کالم نگار جناب منو بھای نے بطور خاص شرکت کی وہ مشاعرے کے صدر بھی تھے ہماری باری آی تو ہم نے قطعہ پیش کرتے ہوے کہھا

پیار دی پاداش وچ پرچہ تھیم

ایں سبب ول شہر وچ چر چہ تھیم

حسن دے دربار وچ رلدا رھیاں

دل اڑاونڑں تے وی کجھ خرچہ تھیم

منو بھای نے ہمیں گلے لگاتے ہوے نہ صرف ایک چمی لی بلکہ ایک سو روپے انعام بھی دیا بعد میں انہوں نے اپنے کالم گریبان میں بھت نمایاں کرکے شائع کیا

بھت سے احباب نے جناب آڈھا خان کا نام لیا بعض نے فاروق روکھڑی صاحب کا نام اور سوھنا خان کا بھی ایک نام شوکت علی خان کا بھی آیا یہ سب بھت بڑے لوگ ہیں یہ خود انعام کی طرح کے لوگ ہیں

عطاء اللہ خان کا نام آیا تو ہم بھت مسکراتے رہے اللہ ان کو خوش رکھے وہ تو ایسے سخی بادشاہ ہیں کہ اپنے بالوں میں سے.. جوں.. پٹ کے نہ دیں آپ انعام کی بات کرتے ہیں…………20  جولائی 2016

عشق نہ کیتی گھٹ…. سائیں

تھیا تن من پھٹو پھٹ..سائیں

آساں چھوڑ حویلیاں پکیاں کوں

ودے بھر دے آں تیڈے مٹ. سائیں

بس منہ چوں نکھتا عشق خدا

ہر کیں چا چا ئی لٹھ.. سائیں

ساکوں اوکھے سبق نہ یاد تھیسن

ہاں سدہے سادے جٹ.. سائیں

کدے آ تتڑی دیاں جھوکاں تے

بھاویں آتوں جھٹ دا جھٹ.. سائیں

تیڈی زات عجائب خانہ اے

جتھاں عقل تھی ویندی اے چٹ سائیں

اجاں عشق اے نازک ونگ وانگوں

نہ مار ہجر دی سٹ سائیں

عنقریب ساز آواز کے ساتھ آپ احباب کی بارگاہ میں پیش کریں گے

21  جولائی 2016

اے میرے صاحب یہ ہمارے چھوٹے بھای ناصر صاحب کی پوتیاں یعنی ہماری بھی پوتیاں ہیں گزشتہ روز بگڑ کے کہھا……. بابا ساڈے فوٹو کیوں نی چھکیندا آپڑیں تاں ہر ویلے چھکیندا ایں ہم نے کہھا

تساں نکیاں ہو کیمرے اچ ناو آندیاں… بگڑ کے بولیں

ڈیکھاں تو چھک تاں سہی

ہم نے تصویر بنای سو آج نہ صرف ہماری طرف سے بلکہ

حرم اور نور کی طرف سے بھی

جمعہ مبارک

دعا کی اپیل

22  جولائی 2016

اے میرے صاحب یہ شخصیت ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب ہیں اور ملک بھر میں انہیں بھت عزت کے ساتھ پہچانا جاتا ہے انہھوں نے اپنی شاعری اور کالم نگاری کے زریعے میانوالی کا نام روشن کیا گزشتہ روز انہھوں نے منصور آفاق صاحب کی مولانا ایدھی کے حوالے سے غزل کی بھت تعریف کی اور منصور کے لیے بھت اچھے الفاظ استعمال کیے منصور کالج مین ان کے شاگرد بھی تھے تو اس حوالے سے بھی منصور کے لیے وہ خاصے جذباتی ہو رہے تھے ان کے ساتھ گفتگو کا فائدہ یہ ہوا کہ انہھوں نے ہماری بھی تعریف کردی گویا ہم بھی.. جھونگے.. میں دعا لینے والے بن گیے

ہم نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے منصور کو فون کیوں نہیں کیا؟

تو انہھوں نے کہھا میرا خیال تھا کہ منصور کے حوالے سے گفتگو کا حقیقی لطف آپ کے ساتھ آے گا اس لیے آپ کو فون کیا

مگر ایک عجیب بات یہ ہوی کہ ہمارے دوست عثمان صابر صاحب اے تو انہھوں نے کہھا کہ میرے پاس ایک بھت یادگار تصویر ہے اور یہ تصویر دی

یہ تصویر میانوالی میں ایک بھت یادگار تقریب کی ہے

میانوالی سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگار ہرچرن چاولہ کے اعزاز میں تھی تقریب کے میزبان مرشد سلیم احسن اور منصور آفاق تھے اور ہم بھی کچھ تھے اب یاد نہیں کے کیا تھے

اس وقت رانا افضل صاحب ڈپٹی کمشنر میانوالی تھے خاصے دبنگ افسر تھے اور شعر وادب سے بھت شغف رکھتے تھےتیسری. شخصیت.. ہم ہیں ڈاکٹر صاحب کے کان میں بات کرتے ہوے

بعض احباب نے درست پہچانا ہے مگر وہ سب میانوالی سے تعلق رکھتے ہیں اور اس تقریب میں موجود تھے اس لیے انہیں کس قسم کے نمبر نہیں مل سکتے

22  جولائی 2016

اے میرے صاحب

آج بھت اچھا دن تھا ہمیں ایک ادبی تقریب میں جانا تھا اچانک موسم بھی بھت خوش گوار ہو گیا ہم جب تقریب میں پہنچے تو بھت معزز شاعرہ راشدہ مابین ملک سے ملاقات ہو گئی وہ بھی تقریب میں شرکت کے لیے آئیں تھیں ہمیں دیکھتے ہی انہھوں کہھا اچھا ہوا آپ سے ملاقات ہو گئی مجھے آپ کو اپنی نئی کتاب دینی تھی میں نے سوچا تھا کہ سلیم شہزاد کے ہاتھ بجھوا دونگی

ہم نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوے کہھا یہ تو اچھا کیا کہ اس کم بخت کو نہیں دی وہ تو پہلے ہماری دس بارہ کے قریب کتابیں دبا کے بیٹھا ہے وہ بھت حیران ہوئیں کہ میں تو انہیں بھت شریف آدمی سمجھتی تھی

ہم نے کہا اس جیسا کتاب چور تو آپ کو دلی مین بھی نہیں ملے گا

مابین صاحبہ بھت حیران ہوئیں اور با ت پلٹتے ہوے کہا

اچھا آپ اپنی کتاب تو لیجیے نا

.. دل والی دلی میں ..

یہ دراصل سفر نامہ ہے جو ہندوستان کے ادبی سفر کے حال احوال پر مبنی ہے…

23  جولائی 2016

اے میرے صاحب

اساں تیڈی محبت توں کڈاں انکار کیتا اے

اساں تاں جاں پھرے ھاں چن تیڈے نل پیار کیتا اے

تڈا کجلا بنڑے ھاں تے کڈاھیں مہندی وی بنڑ گئے ھاں

جیویں فرمان ھا تیڈا چا اویں آر کیتا اے

تیکوں دل دی گھڑولی وچ ھمیشہ کج کے رکھیا ھے

تیڈی سجنڑائی دی خاطر چا دشمن شاھر کیتا اے

تیں والاں کوں ولایا ھے تاں تیڈی سیندھ بنڑ گئے ھاں

تیں جاں چھنڈ کا ھے والاں کوں اساں شمکار کیتا اے

تیڈے چولے دی کھبئ جیب دا رومال بنڑ گئے ھاں

پنگھارا پونجھ کے چا تیں عجب اظہار کیتا اے

کڈاھیں گاون کڈاھیں مرلی کڈاھیں گھنگرو گڈاھیں چمٹا

اسے رنگ اچ رنگی گئے ھاں جیہڑا رنگ یار کیتا اے

تیڈی باھں دی گھڑی بن کے تے تیڈا وقت بنڑ گئے ھاں

اساں بروقت موقع تے تیکوں ھشیار کیتا اے

تیں کل اچی حویلی دے “مکیں زادے” کوں گل لا کے

محبت نہیں میڈا عاجز تیں کاروبار کیتا اے

24  جولائی 2016

اے میرے صاحب

وت کیتم اتبار تیڈی گال تے

رات لنگھسی وت میڈی درسال تے

وت میڈے اندر دی مرلی کوکسی

نیندر نچسی وت میڈی درسال تے

توں کتھائیں میں کتھائیں رل گیا

کیا ملو سے ڈس انائیں پال کے

ایڈیا ں پکیاں نا قسماں چا خدا دے واسطے

تیڈا تاں جھٹ کھنڈ ویندا اے سال تے

بخت دا مارا کتھائیں ڈھا پیا ے

او جیڑا کڈھیا ہا پھل تئیں شال تے

کیا خبر او بے خبر وی مل پو وے

جل جلوں عاجز قلندر لعل تے

27  جولائی 2016

اے میرے صاحب

رانجھن دے دربار تے ست خمیساں من

تیڈے تے میکوں عشق دا سایہ لگدا اے

28  جولائی 2016

اے میرے صاحب

اف اللہ زرا دیکھو تو

ہمارے احباب محبت

ہماری تصویروں کے ساتھ کھیلنے سے باز ہی نہھیں آرہے گزشتہ روز ہماری تصویر کو شیروانیاں پہھنا کے ایسا دولہا بنایا کہ اب ہم گھر میں.. دولے شاہ کے چوہے.. بنے پھرتے ہیں

آپ زیر نظر تصویر دیکھیئے یہ تصویر جناب فاران سلیم احمد خان نے بنای ہے

ہمیں تو بھت پسند آی ہے

کیا آپ احباب کی سمجھ میں آی ہے؟

30  جولائی 2016

No shortCode found

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top