KOTKI BAIRONI -ISA KHEL  – Historical Background & Overview

خٹک بیلٹ کے گاؤں کوٹکی بیرونی کی مختصر تاریخ و تعارف

کوٹکی کا گاؤں پہلے چچالی نالے کے دہانے پر پہاڑوں کے بیچ میں آباد ہوا ۔روایت بیان کی جاتی ہے کہ سکھوں کے دور تک یہاں ایک قلعہ بنا ہوا تھا جسے کوٹ کہا جاتا تھا اور آبادی اس قلعہ کے اندر مقیم تھی اس وجہ سے اس ابادی کو کوٹکی اندرونی کا نام دیا جاتا تھا ۔یہ آبادی چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی تھی شاید اسی وجہ سے بھی اس جگہ کو کوٹکی اندرونی کہا جاتا تھا کہ یہ پہاڑ ایک قدرتی قلعہ کا کام دیتے تھے یا پھر واقعی یہاں کوئی قلعہ موجود رہا ہو جس کے آثار اب نظر نہیں آتے ،چونکہ پہاڑوں کے دامن میں جگہ تنگ تھی اور ابادی میں اضافہ ہو رہا تھا تو کوٹکی اندرونی کے لوگ نقل مکانی کی سوچنے لگے اور کوٹکی اندرونی سے نکل کر ایک مقام جسے بوڑھائے کہا جاتا تھا، پر ڈیرے لگا لیئے پتھروں سے بننے والی یہ جھونپڑیاں جو کہ پہاڑوں سے باہر تھی اس لیے ان کو کوٹکی بیرونی کا نام دیا گیا۔چونکہ یہ ایک نئی آبادی تھی قرب و جوار کے لوگ اس کو نواں شہر کہنے لگے اب بھی کوٹکی بیرونی کو نواں شہر کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے ۔۔
تحصیل عیسیٰ خیل میں دو بڑے خاندان حکومتی اثرورسوخ ،جاگیریں اور رعب و دبدہہ رکھتے تھے ان میں نواب آف کالاباغ اور خوانین آف عیسیٰ خیل شامل ہیں ۔یہ علاقہ میں نواب آف کالاباغ کے اثرورسوخ سے باہر تھا لیکن خوانین آ ف عیسیٰ خیل کے زیر سایہ تھا جنہوں نے حکومتی سرپرستی کی وجہ سے بہت سارے زرعی و غیر زرعی رقبے پر اپنا حقِ ملکیت منوا لیا۔اور اس موضع کی اراضی کے زیادہ تر مالکان خوانین آف عیسیٰ خیل تھے ان کے بعد نانوں خیل کچھ اراضی پر قبضہ و ملکیت رکھتے تھے ۔۔خوانیں آف عیسیٰ خیل کے اس موضع میں تین نمبردار تھے جب کہ ایک نمبردار نانوں خیل قبیلے کا تھا۔خوانین آف عیسیٰ خیل جب بھی اپنا رقبہ بیچنے لگتے تو قابلِ کاشت رقبہ بیچتے وقت یہ پابندی لگاتے کہ اس کے ساتھ غیر ممکن کاشت رقبہ بھی خریدنا پڑے گا ۔اب بھی کافی رقبہ خوانین آف عیسیٰ خیل کی ملکیت ہے ۔
کوٹکی بیرونی آبادی کے لحاظ سے قابل توجہ ابادی نہیں تھی لیکن یہاں بننے والی پھٹکڑی نے اسے ایسی پہچان عطا کر دی تھی اس لیے ہر حملہ آور اس کی طرف ضرور متوجہ ہوتا تھا ،پھٹکڑی سازی کی آمدنی اور محصول سکھوں کو بھی اس دور افتادہ مقام پر کھینچ لایا ۔اور انگریز حکمرانوں کے اس طرف متوجہ ہونے کا سبب بھی یہی پھٹکڑی سازی کی آمدنی تھی ۔انگریزوں نے اس کام کی نگرانی کے لیے چاپری کے مقام پر ڈاگ بنگلہ بنایا ۔ڈاکٹر فلیمنگ جو اس علاقے میں تعینات رہے معدنیات کے ماہر انجینیئر مانے جاتے تھے، انگریزوں سے قبل یہ پھٹکڑی روایتی طریقوں پر تیار کی جاتی تھی ،جب انگریزوں نے اقتدار سنبھالا اس کام میں جدت لائے ،کوٹکی بیرونی میں پھٹکڑی بنانے کے تین کارخانے تھے پھٹکڑی بنانے کا یہ کام لیز پر دیا جاتا تھا 1877 اور 1878 میں دو سالوں کے لیے ٹھیکہ 36 ہزار روپے عوض دیا گیا ہے ان دو سالوں میں پھٹکڑی 12 ہزار من سالانہ بنیاد پر تیار ہوئی تھی، اس پھٹکڑی کی قیمت فی من تین تا پانچ روپے تھی یہ پھٹکڑی پورے ہندوستان میں بھیجی جاتی تھی۔ کالا باغ میں پھٹکڑی بنانے کی ایک فیکٹری تھی جس کی تیار کردہ پھٹکڑی کا معیار کوٹ کی بیرونی کی پھٹکڑی سے کم تھا ۔خوانین آف عیسیٰ خیل اپنے قدیم اثرورسوخ اور رقبوں کی وجہ سے انگریزوں کے بھی منظور نظر تھے ۔یہاں کی پھٹکڑی سازی کا عمل دخل خوانین کو سونپا گیا اور رئیس آف عیسیٰ خیل خان محمد خان کی اولاد کو انگریز سرکار کی طرف سے پھٹکڑی کی آمدنی کا 1/6 حصہ ملتا تھا ۔اگرچہ نانوں خیل بھی اس موضع میں حق ملکیت رکھتے تھے لیکن انہیں کسی قسم کی مراعات ،مالکانہ یا محصول وغیرہ کا حقدار نہ سمجھا گیا ۔بالاج
اس گاؤں میں نانوں خیل قبیلہ اب بھی اکثریت میں ھے ۔اور یہ بھی بانگی خیل خٹک کی ایک ذیلی شاخ ہے ۔لیکن یہ تہذیب و تمدن اور نفاست پسندی میں دیگر خٹک قبائل سے ممتاز ہیں ۔یہاں خوانین آف عیسیٰ خیل اور نانوں خیلوں کے علاوہ دیگر قبائل کو رقبہ نہیں بیچا جاتا تھا ،ہندو بھی یہاں کاروبار کے لئے آۓ اور قیام پاکستان کے وقت بحفاظت ہجرت کر گئے اور جو امانتیں جو مقامی لوگوں کے پاس رکھ گیۓ تھے جب لینے آۓ تو انہیں پوری پوری لوٹا دی گئیں ۔نانوں خیلوں کا معرکہ مشہور اصطلاح ھے کیونکہ یہ ہر مسئلہ معرکے یعنی جرگہ میں باہمی مشاورت سے حل کرتے ہیں ۔اب معززین نے امن کمیٹی قائم کر رکھی ہے ۔اسی وجہ سے یہ پر امن گاؤں ھے پچھلے ستر سال میں خاص اس گاؤں میں کوئی قتل کی واردات نہیں ھوئی بلکہ پولیس سے غیر اعلانیہ معاہدہ طے ھے کہ اگر کوٹکی بیرونی کا کوئی فرد پولیس کو مطلوب ھو گا تو آپ امن کمیٹی کو فون کر دیں ہم خود تھانے لے آئیں گے ۔اور ہر ممکن تعاون کریں گے۔

کوٹکی بیرونی میں اب بہت سے وانڈھا جات شامل ھو چکے ہیں اور ہر وانڈھا پر مختلف برادریاں اور قبیلے اباد ہیں جیسے وانڈھا کالی والا اور وانڈھا گل خان والا میں نوراخیل وانڈھا مانا والا میں سمال خیل وانڈھا اودھے والا میں اودہ خیل ،وانڈھا چاندی والا میں جٹ ارلاء، وانڈھا درکھان والہ میں درکھان برادری ، وانڈھا علماء والا میں والا علماء ،اور وانڈھا کتل خیل آباد ہیں ۔لنڈو خیل بھی کتل خیلوں کی ایک ذیلی شاخ ہیں ۔جنجوانی غربی بھی اسی موضع کا حصہ ہے جنجوانی اور ارلاء اگرچہ پشتو بولتے ہیں، لیکن یہ دونوں پشتون قبیلے نہیں ہیں، جنجوانیوں کے بارے میں عام خٹک قبائل یہ کہتے ہیں کہ جنجوانی جنوبی پنجاب سے اونٹوں پر مزدوری کرنے یہاں ائے تھے اور ماحول سازگار مل گیا تو یہیں کے ہو کر رہ گئے ہیں اس موضع میں دیگر ذاتیں جیسے لوہار، موچی، درکھان، قریشی ، کردوال اور بارک خٹک بھی آباد ہیں یہ ساری برادریاں آپس میں پیار و محبت سے رہ رہی ہیں اور ذات پات کی تمیز نہیں رکھتے ۔ لیکن یہ سارے قبیلے تقریبا امن پسند اور صلح جو ہیں کوٹکی بیرونی کے باشندوں کا ذریعہ معاش کاشتکاری، فوجی ملازمت اور دکانداری ہے۔اکثر فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد کوٹ چاندنہ میں کاروبار شروع کر دیتے ہیں ۔موضع کوٹکی بیرونی سے تعلق رکھنے والے فوج میں اعلی عہدوں پہ تعینات رہے ہیں، میجر خان گل صاحب کا بیٹا ریٹائرڈ کرنل سعید اللہ خان اب اس کا بیٹا ریٹائرڈ کرنل سیف اللہ خان جو ایس پی ڈی میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہے اس کے علاوہ انجینیئر ثمر گل خان واپڈا سے جنرل منیجر ریٹائرڈ ہوئے ہیں اسی ثمر گل صاحب کی بیٹی ایرج مہرین سکن سپشلسٹ ھے پہلے جو ہر ماہ کے پہلے ہفتے میں کوٹ چاندنہ میں قائم دارالمحسنین ہسپتال میں پورا دن سکن پیشنٹ کا فری چیک اپ کرتی ہے۔ اور اس کے علاوہ ڈاکٹر عطااللہ کے دو بیٹے فرمان اللہ خان اور زرداد خان سافٹ انجینیئر ہیں اور اسلام اباد میں پرائیویٹ کمپنیوں میں جاب کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سلیم ملک مسلم کمرشل بینک میں کلاس ون افیسر ہیں اور ان کے علاوہ سعد اللہ خان ایک سکول ٹیچر اور سماجی کارکن ہیں ان کے بیٹے
حاشر اسد خان انرجی اینڈ انوائرمینٹل انجینئر ہے اور المعیض شوگر مل میں بطور اسسٹنٹ منیجر کام کررہا ہے اور دوسرا بیٹا بی۔بی۔اے (آنزر) ہے اور لاہور کے ایک نجی بنک میں ملازمت کررہا ہے: جنجوانی غربی کے ظفر اقبال خان کا بیٹا آرمی میں کمیشنڈ آفیسر ہے
اودے والہ کے استاد حمیداللہ خان خٹک کی بیٹی ،کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سے ایم۔بی۔بی۔ایس کررہی ہے۔ گل خانوالہ کے ڈاکٹر عمر صدیق خان، فزیو تھراپسٹ ہیں اور تحصیل عیسی خیل کے مختلف پرائیویٹ ہاسپٹلز میں خدمات سرانجام دے ہیں ۔
چاندی والہ کے محمد عامر خان اور بلال خان کیمیکل انجینئر ہیں۔ اودے والہ کے اویس خان نیوی میں اعلی عہدے پر فائز ہیں
اب کوٹکی بیرونی اور دیگر وانڈھا جات کے
سینکڑوں طالب علم زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں اور بچوں کے ساتھ ساتھ بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا رجحان بھی زیادہ ہو رہا ہے ۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ کوٹکی بیرونی کے باشندوں میں سیاسی شعور بھی بہت پرانا ہے نواں شہر کوٹکی بیرونی سے تعلق رکھنے والے میجر گل خان صاحب نے عبید اللہ خان شادی خیل کے دادا غلام حسن خان کے خلاف دور ایوبی میں ضلع کونسل کا الیکشن لڑا تھا لیکن 13 ووٹوں سے ہار گئے تھے اگرچہ خٹک بیلٹ کے متفقہ نمائندے کے طور پر سامنے ائے تھے لیکن وہی نہ ملنے والے تیرا ووٹ بھی خٹک بیلٹ کے تھے جن سے یہ ہارے تھے۔ حاجی امان اللہ خان مرحوم یونین کونسل کوٹ چاندنہ کے چیئرمین رہ چکے ہیں اور جب یہ موضع یونین کونسل چاپری کا حصہ بنا تو شفیع اللہ خان یونین کونسل چاپری کے نائب ناظم رہ چکے ہیں۔ ان کے علاوہ بنارس خان اور محمد نواز خان یونین کونسلر رہ چکے ہیں یہ کوٹکی بیرونی شادی خیل گروپ کا گڑ رہا ہے لیکن پچھلے دو الیکشن 2018 اور 2023 کے جنرل الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدواران چھائے رہے ہیں۔ یہاں پہ پولنگ پرامن ہوتی ہے ووٹر اپنی پسند کے امیدوار کو اس طرح ووٹ ڈالتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون کس امیدوار کا حامی ہے ۔ کچھ لوگ ببلی خان گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور نوابزادگان کے سپورٹر آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں ۔
کوٹکی بیرونی کے نمبردار محمد خان نانو خیل مرحوم تھے ،اب ان کے بیٹے اسلم خان نمبردار ہیں یہ واپڈا میں لائن مین بھی ہیں۔ دوسرے نمبردار شاہنواز خان تھے ان کی وفات کے بعد ان کا بھتیجا ریاض خان نمبردار بن گیا ہے ،محمد اسلم خان حکومتی نمبردار ہیں جو کہ نانوں خیل قبیلے کی طرف سے ہیں ،جبکہ ریاض خان خوانین کے نمبردار ہیں۔ موضع کوٹکی بیرونی کے تیسرے نمبردار عطاءاللہ خان اودھے والہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہاں پینے کے پانی کا مسئلہ نہیں ہے واٹر سپلائی کا کنواں ہے وہ امداد باہمی کے تحت مل کر یہ لوگ چلا رہے ہیں۔ اس پانی کی زندہ دل لوگ یہ تعریف کرتے ہیں کہ یہ منرل واٹر ھے اور یہ واحد گاؤں ہے یہاں سے باہر کے لوگ یہاں پہ آ کے اباد ہوئے ہیں ورنہ خٹک بیلٹ میں شاید ہی کوئی گاؤں جس میں نقل مکانی کر کے دوسرے علاقوں سے نقل مکانی کر کے آباد ہوۓ ھوں۔
موضع کوٹکی بیرونی کے باشندے مذہب سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں ،مولانا بدر جہان صاحب مرحوم کے بیٹے مولانا عتیق الرحمن صاحب کا تعلق بھی کوٹکی بیرونی سے ہے ،جو کہ جلالپور میں امامت و خطابت فرماتے ہیں، جب ان کے دوسرے بھائی علامہ شیر زمان صاحب جامع مسجد نواں شہر میں امامت اور خطابت فرماتے ہیں جبکہ تیسرے بھائی مولانا علامہ عطا الرحمان صاحب ہیں جو مسجد فاروق اعظم نواں شہر میں خطابت فرماتے ہیں۔
اور یہ گورنمنٹ ایلیمنٹ سکول خدوزئ میں عریبک ٹیچر بھی ہیں ۔اس کے علاوہ علامہ قاری سمیع اللہ صاحب کا تعلق بھی کوٹکی بیرونی سے ھے جو مدینہ منورہ میں مقیم ہیں ،مسجد نبوی میں جائزہ لگاتے رہتے ہیں اور مدینہ منورہ میں اپنا کاروبار بھی کرتے ہیں ۔ان کے علاوہ مولانا فیصل رحیمی صاحب ہیں ،جو قمر مشانی میں مریم مسجد لوہان خیل میں امامت و خطابت فرماتے ہیں ،ان کے بڑے بھائی اسد عباس صاحب اپنے گاؤں میں ہی امامت فرماتے ہیں یہاں پہ کوئی دینی مدرسہ تو نہیں ہے مساجد میں قرآن کریم پڑھایا جاتا ہے ۔۔مولانا عتیق الرحمن صاحب نے یہاں پہ بچیوں کی تعلیم کے لیے مدرستہ بدر البنات کی بنیاد رکھ دی ہے، جہاں پہ مدرسہ تعمیر کیاجا رہا ہے ،ان کے والد مرحوم کا آبائی گھر ھے جسے سب بھائیوں نے متفقہ طور پر بچیوں کے دینی مدرسے کے لئے وقف کر دیا ہے اور مولانا بدر جہان صاحب کی دو پوتیاں بھی حافظ قرآن ہیں جو عالمہ کا کورس کر رہی ہیں اور یہ اسی مدرسہ میں کوٹکی بیرونی اور گردونواح کی طالبات کو دینی تعلیم سے آراستہ کریں گی۔کوٹکی بیرونی میں مسلک اہل حدیث و اہل تشیع سے تعلق رکھنے والے افراد نہیں ہیں ۔زیادہ تر بریلوی و دیو بندی مسلک کے پیروکار ہیں لیکن دونوں مسالک میں مذہبی ہم آہنگی اس قدر پائی جاتی ہے، کہ دونوں ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں ۔کوٹکی بیرونی میں ہر سال عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر مقامی جلوس نکالا جاتا ہے اور
مرکزی جلوس اودھے والہ سے شروع ھو کر چاپری میں اختتام پذیر ہو تا ہے۔ جس میں لوگ مذہبی جوش و خروش سے شامل ھو تے ہیں ۔زیادہ تر لوگ پیر اف کربوغہ کے مرید ہیں جب کربوغہ شریف کے پیر سلطان احمد صاحب زندہ تھے تو یہ اس سے عقیدت و ارادتمندی رکھتے تھے ان کے انتقال کے بعد حضرت علامہ بشیر احمد صاحب کی بیعت کر لی ،اب ان کے گدی نشین علامہ جمشید صاحب اور پیر فخر زمان صاحب ہیں اور تقریباً سو فیصد انہی پیر صاحبان کے مرید ہیں۔ اس علاقے میں جتنے بھی تنازعات ہوتے ہیں اس کے فیصلے مقامی سفید پوش کرتے ہیں اگر ان سے نہیں ہو پاتے تو پیر صاحب اف کربوغہ آ کر فیصلہ کر دیتے ہیں اور عقیدت مندی کی وجہ سے ہر آدمی یہ فیصلہ قبول کر لیتا ہے۔ پیر صاحب آف کربوغہ محترم گلاء باؤ صاحب کے حکم و ترغیب پر 1948 میں جہاد کشمیر کے لیے جو لوگ گیۓ تھے ان میں نانوں خیل قبیلہ کے حاجی علی خان بھی شامل تھے۔ علاقے میں ایک زیارت ڈبہ فقیر کی ہے روایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک بار پیر صاحب اف کربوغہ گلا باؤ صاحب نے پوچھا کہ اس علاقے میں کوئی زیارت تو نہیں ہے لوگوں نے ڈبہ فقیر کی قبر کے بارے میں بتایا ،تو پیر گلا باؤ صاحب اس قبر کو دیکھنے تشریف لے گئے ،قبر کو دور سے دیکھا تو سواری سے اتر پڑے اور اپنے جوتے بھی اتار دیے، لوگوں نے پیر صاحب کو اس قبر کا اتنا احترام کرتے دیکھا تو اس قبر کو باقاعدہ زیارت بنا لیا اور ہر جمعرات کو سلام کے لیے انے لگے منتیں مانی جانے لگیں اور بہت ساری کرامتیں بھی صاحب مزار کے بارے میں مشہور کر دی گئیں۔
علاقے میں بجلی آ گئ تو ویرانے روشن ھونے لگے کوٹکی بیرونی میں بجلی کی لائن 1983 میں ائی اور 1985 میں پہلا بلب راشن ہوا جس دن بجلی کا پہلا کنکشن لگا، اسی دن گل خان والا وانڈھا کا ایک نوجوان سیف اللہ نوراخیل بجلی کے کھمبے پر چڑھ گیا اور کرنٹ لگنے سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا یوں بجلی نے ایک جوان کا خون پی کر کوٹکی بیرونی کے اندھیروں کو روشن کیا۔
لیکن کوٹکی بیرونی کے اندھیرے پوری طرح روشن نہیں ھو پاۓ کیوں کہ یہاں پہ علاج معالجہ کے لیے کوئی ہسپتال نہیں ہے لوگ پرائیویٹ ڈاکٹروں اور عطائیوں سے علاج کرانے پر مجبور ہیں مرض بڑھ جائے تو کالا باغ یا کمر مشانی کے ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے اس علاقے کے بہت سارے جوانوں نے دفاع وطن کے لیے خون بہایا ہے اور 1971 ء کی پاک بھارت جنگ میں پولیس ملازم گل رحمان ولد میجر گل خان اور سپاہی محمد نواز ولد عبداللہ خان نانوں خیل قبیلے کے بنگال میں قیدی بن گئے تھے دیگر قیدی تو معاہدے کی رو سے واپس آگئے ،لیکن یہ دو جوان واپس نہ آ سکے، ان کے پیارے اج بھی ان کی راہیں دیکھتے ہیں اور ان کا ذکر کر کے اپنے دل کے غم بلاتے ہی۔ں اس کے علاوہ یہ لوگ مرنے والوں کا تین دن تک سوگ مناتے ہیں ، فوتگی والے گھر تین دن عزیز وقار کھانا بھیجتے ہیں اور تین دن تک سوگ مناتے ہیں شادی بیاہ کے موقع پر موسیقی کی محفلیں نہیں سجاتے بلکہ سادہ روایتی ڈول شہنائی کی پارٹی منگوا کر خود خوشی کے بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان نفیس خوش اخلاق لوگوں کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے آمین ۔

مصنف تعارف:

بالاج جیسل (محمد اقبال حجازی) راجپوت بھٹی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک تجربہ کار استاد، حساس قلمکار، اور تہذیبی ورثے کے سچے محافظ ہیں۔ انہوں نے تین دہائیوں تک تدریس سے وابستہ رہتے ہوئے علم کی روشنی پھیلائی، اور ساتھ ہی ساتھ کالاباغ، کوٹ چاندنہ اور میانوالی کی ثقافت، یادیں اور تاریخ اپنے سادہ مگر پُراثر انداز میں قلمبند کیں۔ ان کی تحریریں خلوص، سچائی اور دیہی زندگی کے جذبے سے لبریز ہوتی ہیں۔ وہ فیس بک پر فعال ادیب ہیں اور اپنی زمین، لوگوں اور ماضی سے جڑے تجربات کو محفوظ رکھنے کے لیے مسلسل لکھ رہے ہیں۔۔ اُن کا قلم مقامی زبان، محبت اور روایت کا ترجمان ہے

کوٹکی بیرونی کی یادیں — منور علی ملک کی زبانی
ٹولہ مَنگَلی سے ہم کوٹکی بیرونی (کتکی بھی کہتے ہیں) پہنچے – یہاں ہمارے میزبان , باباجی کے دیرینہ دوست صوبیدار شمعون خان تھے – بہت باوقار ، خوش اخلاق بزرگ تھے – پختون روایات کے مطابق انہوں نے بھی مہمان نوازی کا حق خوب ادا کیا – والد صاحب اور ان کی دن بھر اور رات گئے تک گفتگو کا تو میں ایک لفظ بھی نہ سمجھ سکا ، کیونکہ تمام تر گفتگو پشتو میں ہوتی رہی – ان کے قہقہوں سے پتہ چلتا تھا کہ خاصی دلچسپ گفتگو ہورہی ہے –
میں اس وقت پانچویں کلاس کا سٹوڈنٹ تھا – اپنی عمر کے مطابق میری توجہ گفتگو کی بجائے کھانے پینے پر رہی – وہاں پہلی بار “ نَغَن“ بھی کھایا – نغن بہت لذیذ سادہ روٹی ہوتی ہے جو لسی میں آٹا گوندھ کر بنائی جاتی ہے – ڈبل روٹی کی طرح اندر سے پھولی ہوئی ہلکی پھلکی نرم روٹی ہوتی ہے –
وہاں کی ایک اور سپیشل خوراک پانچ دس سال پرانا گھی بھی ہوتا تھا – گائے کے مکھن کا بناہوا خالص دیسی گھی جست کے برتن (تمبالُو) میں سربمہر کرکے زمین میں دفن کر دیتے تھے – کہتے تھے اس طرح محفوظ کیا ہؤا گھی طاقت کا خزانہ ہوتا ہے – جتنا پرانا ہو اتنا بہتر ہوتا ہے – ہمیں دوپہر کے کھانے میں جو گھی دیا گیا وہ دس سال پرانا تھا – اس کا رنگ تقریبا سیاہ اور ذائقہ اچھا خاصا کڑوا تھا – مجھ سے تو دوچار نوالے سے زیادہ نہ کھایا گیا ، بزرگوں نے بڑے شوق سے کھایا – میں نے دیسی مرغی کے سالن اور تازہ گھی شکر پہ گذارہ کر لیا –
اگلی صبح ہم وہاں سے جلالپور تک صوبیدار شمعون خان کے گھوڑے پر سوار ہوکر گئے – والد صاحب گھوڑے کے بہت اچھے شہسوار تھے – صوبیدار صاحب کا ایک ملازم ہمیں بس پر سوار کروانے کے لیے ہمارے ساتھ تھا – صوبیدار صاحب نے ٹولے کے خربوزوں کی ایک بوری بھی گھوڑے پر رکھوادی تھی – ٹولے کا خربوزہ اس علاقے کی مشہور و معروف سوغات تھا – ہلکے زرد رنگ کے لمبوترے خربوزوں کی دلکش مہک اور شہد جیسا شیریں ذائقہ اپنی مثال آپ تھا – کمرے میں ایک خربوزہ پڑا ہوتا تو پورا کمرہ اس کی خوشبو سے مہک اٹھتا تھا – سچ پوچھیے تو الفاظ اس نعمت کی خوبیاں بیان کرنے سے قاصر ہیں ، جس نے کھایا ہو وہی جانتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے – ہمارے فیس بک کے ساتھی ماحی خان نے ایک دفعہ بتایا تھا کہ ان کے علاقے توحید آباد المعروف گندا میں یہ خربوزہ اب بھی کاشت ہوتا ہے – اب موسم آرہا ہے ، کسی دن چھاپہ ماریں گے –———– رہے نام اللہ کا ——–
—–—— منورعلی ملک —–
KALABAGH

KALABAGH

KALABAGH HISTORY KALABAGH A TOWN AND UNION COUNCIL OF MIANWALI DISTRICT . IT IS LOCATED ON THE WESTERN BANK OF...
Read More
KAMAR MUSHANI

KAMAR MUSHANI

KAMAR MUSHANI THE LAND OF PAKISTAN NO. 1 SILICA (SILICON) KAMAR MUSHANI  HAS A POPULATION OF ABOUT 20,000 AND IS...
Read More
TRAG

TRAG

TRAG IS A VILLAGE AND UNION COUNCIL OF MIANWALI DISTRICT IN THE PUNJAB PROVINCE OF PAKISTAN. IT IS LOCATED AT...
Read More
KHAGLAN WALA

KHAGLAN WALA

KHAGLAN WALA ڪھگلانواله ڪھگلانواله ، پنجاب کے ضلع میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل کا ایک گاؤں اور یونین کونسل ہے۔...
Read More
Sultan Khel, Isa Khel Mianwali — Tareekh, Tehzeeb aur Maujooda Halaat

Sultan Khel, Isa Khel Mianwali — Tareekh, Tehzeeb aur Maujooda Halaat

سلطان خیل، عیسیٰ خیل میانوالی — تاریخ، تہذیب اور موجودہ حالات سلطان خیل، ضلع میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل کا...
Read More
TANI KHEL

TANI KHEL

DATA BEING ADDED PLEASE VISIT SOON THANKS FOR VISITING AND VIEWING PLEASE mianwaliorg@gmail.com  
Read More
KOT CHANDNA

KOT CHANDNA

Read More
TABISAR

TABISAR

Google Map of Tabisar TABISAR IS A TOWN AND UNION COUNCIL ISAKHEL TEHSIL  MIANWALI DISTRICT, PUNJAB, PAKISTAN AND IS LOCATED...
Read More
CHAPRI

CHAPRI

Chapri is a village and union council of the Mianwali District in the Punjab province of Pakistan. It is located...
Read More
VANJARI

VANJARI

Vanjari (ونجارى‎), is a town and union council of Tehsil Isa Khel ,Mianwali District in the Punjab province of Pakistan....
Read More
TOLA BHANGI KHEL

TOLA BHANGI KHEL

Tola Bhangi Khel is a town and union council, an administrative subdivision, of Mianwali District in the Punjab province of...
Read More
TEHSIL ISAKHEL KE DIHH O QSBAT KA TAARUF. BALAJ JISL KE QALAM SE

TEHSIL ISAKHEL KE DIHH O QSBAT KA TAARUF. BALAJ JISL KE QALAM SE

تحصیل عیسیٰ خیل کے دیہات و قصبات عیسیٰ خیل تحصیل کا رقبہ کافی وسیع ہے اور اس میں متعدد تاریخی...
Read More
The Khattak Belt  A Comprehensive Profile -Isa Khel Tehsil

The Khattak Belt  A Comprehensive Profile -Isa Khel Tehsil

The Khattak Belt  A Comprehensive Profile -Isa Khel Tehsil - Mianwali District The “Khattak Belt” refers to the contiguous hilly...
Read More
TOLA MANGALI

TOLA MANGALI

KHATTAK BELT KE GAON TOLH MANGALI KI MUKHTASIR TAREEKH O TAARUF  خٹک بیلٹ کے گاؤں ٹولہ منگلی کی مختصر تاریخ...
Read More
KOTKI BAIRONI -ISA KHEL  – Historical Background & Overview

KOTKI BAIRONI -ISA KHEL – Historical Background & Overview

خٹک بیلٹ کے گاؤں کوٹکی بیرونی کی مختصر تاریخ و تعارف کوٹکی کا گاؤں پہلے چچالی نالے کے دہانے پر...
Read More

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top