آج شام کو واک کرکے گھر پہنچا تو تھکاوٹ کی وجہ سے برا حال تھا۔ بستر پر لیٹ گیا ۔کمرے میں ہیٹر جل رہا تھا ۔پھر بھی کہیں سے آواز آئی کھڑکیاں اور دروازہ بند کرو۔۔ اندر سردی آ رہی ہے ۔۔
مجھے اپنا بچپن یاد آ گیا جب ہم دسمبر اور جنوری کی کڑاکے دار سردیوں میں بغیر کسی سویٹر کے شام کو کھیلنے چلے جایا کرتے تھے ۔والی بال ،کھبا کھنڈوری ،باڈی باڈ ،لُونڑ پٹراں ،مار تراڑ،پیٹو گرم گاؤں کی زندگی کے شام کے مقبول کھیل تھے ۔غروب آفتاب کے ساتھ ہی ہم ان کھیلوں سے فارغ ہو کر گھر کا رُخ کرتے ۔۔
سردیوں میں دو چُولھوں سے کام چلایا جاتا ۔ایک باہر صحن میں کمرے کے دروازے کے ساتھ اور ایک چُولھا کمرے کے اندر ۔۔
کوشش ہوتی کہ شام کا کھانا دن غروب ہوتے ہی باہر والے چولھے پر کھا لیا جائے ۔چنانچہ چولھے میں دسترخوان بچھا دیا جاتا جو کے اکثر پٹ سن کی خالی بوریاں ہوتیں ۔۔
والدہ پیڑھی پر بیٹھ کر ہانڈی میں سے سب بچوں کو سالن دیتیں اور سب بچے اپنی اپنی تھالیوں میں سالن لے کر اور “خجی” کی” مزیری” سے گھر کے بنے دبے سے روٹی نکال کر اسے جھولی میں ڈال کر یا “تلانگڑے ” میں ڈال کر کھانا کھایا جاتا ۔ایک یا دو مُنگرے پانی کے بھرے پڑےہوتے جس سے سارے پانی پیتے ۔۔۔ اکثر ایک ہی “ڈِیک” میں پانی پی کر پیاس بجھائ جاتی ۔۔
اپنی اپنی تھالیاں صاف کرکے اور کھانے سے فارغ ہو کر تمام بچے اُٹھ کھڑے ہوتے۔کھانےکےبعد ہاتھ صاف کرنے کا کوئی تکلف نہیں تھا۔اور اگر ضرورت پڑتی تو “چولا” اس کام کے لئے استعمال کیا جاتا۔۔
اُسی دسترخوان کو اٹھا کر کمرے کا رُخ کرتے جہاں مربعے کی صورت میں مٹی سے بنی انگیٹھی نما چولھے کے گرد یہ بوریاں بِچھا دی جاتیں۔۔تین طرف پٹ سن کی بوریاں ہوتیں اور ایک طرف ایندھن رکھا ہوتا۔۔اس اںگیٹھی نما چولھے کے درمیان میں تین ٹانگوں والی لوھے کی بنی چُلھ رکھ دی جاتی ۔۔ماچش کی تیلی کی بچت کرتے ہوئے باہر والے بڑے چولھے سے سُلگتی ہوئی لکڑی اور کچھ دہکتے ہوئے انگارے اندر والی انگیٹھی میں لوہے والی چُلھ کے نیچے رکھ دیئے جاتے اور پھر اس کے اوپر ” چِھٹیاں ( کپاس کی فصل سے کپاس نکالنے کے بعد باقی ماندہ خشک ٹہنی نما پودا)” یا سرکنڈوں سے آگ بھڑکائی جاتی ۔۔پھر اس آگ پر ہاتھ سینکے جاتے ۔۔ اس آگ کے تپتے اور بجھے انگاروں کی اس “گیری ” میں آلُو بھوننے کے لئے رکھ دینا ۔۔پھر گنوں کے چوسنے کا دور چلنا اور گنوں کی”چِھنگیں” ایک”سانڑُک” میں ڈالتے جانا۔۔۔آخر میں چائے کا دور چلنا ۔۔پورا کمرہ دھوئیں سے بھر جانا جو رات گئے تک آہستہ آہستہ کمرے کے روشندان سے خارج ہوتا رہتا ۔۔لکڑی کے بنے دروازے کی “جِِھیتوں ” کو سردیوں کے آغاز ہی میں کاغذ لگا کر بند کر دیا جاتا تاکہ سردی نہ آئے ۔۔
رات پانی پینے کے لئے ایک گھڑا پانی کا “کِھرکے (مدانی )” کے ساتھ بنی تھلی کے اوپر ریت پر رکھا ہوتا۔۔
تمام بچوں کا اپنے بستروں کا رُخ کرنا اور “سیرُک ” میں گُھس کر سیرُک لپیٹے پڑھنے کی کوشش کرنا اور جب نیند کا غلبہ ہونا تو ہر ایک نے “کانڑی ” آنکھ سے دوسرے بھائی کو دیکھ رہا ہونا تاکہ گرم سیرُک سے نکل کر بلب کو آف نہ کرنا پڑے۔بلب آف کرنے پر روزانہ لڑائی ہوتی کہ کل میں نے کیا تھا آج تم کرو۔۔
جونہی بلب کی روشنی کی بجائے اندھیرا ہو جاتا تو سب نے ایک دفعہ پھر تازہ دم ہو جانا ۔بُجھارتوں کا دور شروع ہو جاتا ۔۔کبھی کسی نے کہانی سنانا اور اس طرح کہانی سناتے سناتے سو جانا ۔۔۔
انہی خیالات میں گم تھا کہ عشاء کی اذانیں شروع ہو گئی ہیں ۔۔بیٹی کو کہا ہے کہ ہیٹر کے سامنے جائے نماز ڈال دو کہ نماز پڑھوں ۔۔۔
آج کل سردی زیادہ لگتی ہے شاید بوڑھے ہو گئے ہیں یا پھر
جیسا دیس ویسا بھیس کے مصداق ۔۔۔
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
تحریر :
ڈاکٹر طارق نیازی