مولانا شیخ محمد ہشام کبانی نقشبندی
تحریر: محمد منشا خان (میانوالی)
28 جنوری 1945 کو بیروت، لبنان میں پیدا ہونے والے مولانا محمد ہشام کبانی کا تعلق ایک علمی اور روحانی خاندان سے تھا۔ بچپن ہی سے، وہ علم اور روحانیت دونوں میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کا یہ شوق ان کے تعلیمی سفر کی بنیاد بنا، جو دمشق و شام میں اسلامی قانون (شریعت) کی ڈگری سے شروع ہوا۔ دینی علمی ترقی کے ساتھ، انہوں نے دنیاوی تعلیم کو بھی اہمیت دی اور امریکن یونیورسٹی آف بیروت سے کیمسٹری میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی، ساتھ ہی لووین، بیلجیم میں طب کی تعلیم کو بھی جاری رکھا۔ تاہم، ان کی روحانی رہنمائی ان کی زندگی کا اصل مقصد تھی۔
شیخ محمد ہشام کبانی نقشبندی دو عظیم نقشبندی مشائخ حضرت عبد اللہ الفائز الداغستانی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت مولانا شیخ ناظم عادل الحقانی نقشبندی رحمتہ اللہ علیہ سے بے حد متاثر اور مستفیض ہوئے۔ آپ کی تربیت ان دونوں بزرگوں نے فرمائی۔ لیکن آپ کو نسبت و بیعت اور خلافت، حضرت مولانا شیخ محمد ناظم عادل الحقانی نقشبندی سی حاصل تھی۔ جس کے بعد انہیں دوسروں کی رہنمائی کے لیے اجازت عطا کی گئی۔ آپ مولانا شیخ ناظم کے نہ صرف مرید تھے بلکہ خلیفہء خاص اور داماد بھی تھے۔
1991 میں، شیخ ہشام امریکہ منتقل ہوئے، جہاں انہوں نے مغربی دنیا میں سلسلہ نقشبندیہ اور اس کی تعلیمات کو متعارف کرانے کے لیے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔ انہوں نے امریکہ میں نقشبندی حقانی صوفی سلسلے کی بنیاد رکھی اور کینیڈا اور امریکہ میں 23 سے زائد مراکز قائم کیے۔ یہ مراکز روحانی تعلیم، ذکرِ الٰہی، اور سماجی ہم آہنگی کے مراکز بنے، جہاں مختلف مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے افراد یکجا ہوئے۔ شیخ محمد ہشام کبانی ایک عظیم اسلامی اسکالر تھے، جن کی تعلیمات مختلف علوم اور روایات پر محیط تھیں۔ ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہ صوفی تعلیمات کے گہرے حقائق کو جدید دور کے مسائل سے مربوط کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ آکسفورڈ اور شکاگو یونیورسٹی جیسے ممتاز اداروں میں ان کے لیکچرز نے علمی اور روحانی دنیا کے درمیان ایک پُل کا کردار ادا کیا۔ ان کا پیغام ہمیشہ محبت، رحم دلی اور خدمت پر زور دیتا تھا، جو اسلامی روحانیت کے بنیادی اصول ہیں۔
حضرت شیخ محمد ہشام نقشبندی کی تعلیمات کا محور اپنے شیخ کی تعلیمات یعنی قلب کی پاکیزگی تھی۔ وہ اکثر اپنے معتقدین کو یاد دلاتے تھے کہ اللہ تک پہنچنے کا راستہ دل کی صفائی سے شروع ہوتا ہے، جس میں ذکر، عاجزی، صبر اور سخاوت جیسی خوبیاں شامل ہیں۔ وہ خود ان تمام صفات کا عملی نمونہ تھے اور ان کے کردار کا نور لوگوں کو متوجہ کرتا۔ ان کے مریدین انہیں صرف ایک استاد نہیں بلکہ ایک روحانی والد کی حیثیت سے دیکھتے تھے، جو ان کے نفوس کی تربیت کرتے اور انہیں ان کے خالق کے قریب لاتے۔
شیخ ہشام کی خدمات صرف روحانیت تک محدود نہیں تھیں بلکہ وہ خاص بصیرت رکھنے والے رہنما تھے، جنہوں نے اپنے دور کے سماجی اور سیاسی مسائل کو بھی اہمیت دی۔ اسلامی سپریم کونسل آف امریکہ کے بانی اور چیئرمین کی حیثیت سے، انہوں نے بین المذاہب مکالمے کو فروغ دیا اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کوششیں کیں۔ وہ انسانی بہبود کی سرگرمیوں میں بھی متحرک رہے۔ آپ نے ہمیشہ امن اور برداشت کے پیغام کو پھیلانے پر زور دیا۔ دنیا بھر میں سیاسی، مذہبی رہنماؤں، سفیروں اور عوام سے ملاقاتیں کیں تاکہ ہم آہنگی اور تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔ ان کی یہ کوششیں انسانیت کی وحدت اور ایک دوسرے کی دیکھ بھال کے مشترکہ احساس پر مبنی تھیں۔
شیخ ہشام، انتہائی عاجزی اور محبت کرنے والی شخصیت کے مالک تھے۔ جو بھی ان سے ملا، ان کی شفقت، حکمت اور گہری روحانیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ ایک ایسے رہنما تھے جو اپنے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی دوسروں کی خدمت اور خدا کے نور کو پھیلانے میں صرف کر گئے۔ ان کے شاگرد، جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں، آج بھی ان کی تعلیمات اور مثال سے متاثر ہوتے ہیں۔
مجھے یہ کہنے میں ہرگز عار محسوس نہیں ہو رہی کہ شیخ محمد ہشام کبانی نقشبندی کی وفات ایک عہد کے خاتمے کی علامت ہے۔ 5 دسمبر جمعرات کی صبح سویر خبرِ غم نے میرے دل پر دستک دے کر آپ کے وصال کی خبر سنائی اور مجھے حد درجہ غمگین و دکھی کر دیا۔ آپ کی نماز جنازہ 5 دسمبر 2024 کو فینٹن زاویہ، مشی گن میں ادا کی گئی۔ ہم شیخ ہشام کبانی نقشبندی کو الوداع کہتے ہوئے خدا تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ مالک ان کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت عطا فرمائے۔ یقیناً ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔