منورعلی ملک کے فروری 2024  کے فیس  بک   پرخطوط
MERA MIANWALI  FEBRUARY 2024

 

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کی شان۔۔۔۔۔۔۔
بعض مقامات پر بارش اور برف باری کے باوجود موسم خاصا بدل چکا ہے۔ سردی میں وہ پہلے جیسی کاٹ نہیں رہی۔
دوتین دن پہلے میں نے ایک پوسٹ میں سردی کی شدت کا رونا رویا تو مکہ مکرمہ سے ہمارے مہربان دوست معظم عباس سپرا صاحب نے کمنٹ میں کہا سر جی یہاں تو اس وقت درجہ حرارت 28- 30 ہے۔ کام سے واپس آتے ہی اے سی آن کرنا پڑا۔
پنجاب اور مکہ مکرمہ کے درجہ حرارت میں زمین و آسمان کے اس فرق کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ مالک کی مرضی , کہیں ہیٹر اور کہیں اے سی چلوا دے۔ کئی اور علاقوں میں بھی یہی صورت حال ہوگی۔ اللہ کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ ہمیں تو ہر حال میں صبر شکر کا حکم ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا تھا۔۔۔۔۔
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔1 فروری 2024 –منورعلی ملک۔۔۔
31 جنوری 2001 کو بھیگتی آنکھوں کے ساتھ میں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے کاغذات پر دستخط کر دیئے۔ یوں اپنی سروس کا وہ طویل سفر ختم ہوا جو میں نے 40 سال پہلے داودخیل سکول میں انگلش ٹیچر کی حیثیت میں شروع کیا تھا۔ یہ سفر بالآخر گورنمنٹ کالج میانوالی میں انگلش کے پروفیسر کی حیثیت میں ختم ہوا۔
الحمد للہ ، بہت پرسکون اور خوشگوار سفر تھا۔ اس سفر کے دوران جو بےحساب محبت اور احترام مجھے ملا وہ میرے لیئے باعث فخر ہے۔ اللہ سلامت رکھے میرے ہزاروں بچے دنیا کے طول و عرض میں مختلف مناصب پر فائز ہیں۔ وہ اب بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ مجھ سے مل کر خوش ہوتے ہیں، اور اپنی دعاوں میں مجھے یاد رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ اب بھی میری کلاس( فیس بُک ) میں مجھ سے استفادہ کر رہے ہیں ۔
ریٹائرمنٹ کے وقت میں ایم اے انگلش کی دو کلاسز کو پڑھا رہا تھا۔ میری ریٹائرمنٹ کے موقع پر میرے بچے بہت اداس تھے ۔ کچھ کو تو میں نے روتے بھی دیکھا۔ بچوں کو اداس دیکھ کر میں نے یہ کہہ کر انہیں تسلی دی کہ میں کہیں نہیں جا رہا۔ ان کا کورس مکمل ہونے تک میں کالج آتا رہوں گا ، اور میں نے اپنے اس وعدے پر عمل کیا ۔
40 برس کے سفر کی داستان بہت دلچسپ ہے۔ اچھی خاصی کتاب بن سکتی ہے۔ مگر فیس بک میں اس کی گنجائش نہیں ۔ صرف کچھ اہم باتیں ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتا ہوں ۔ یہی باتیں اور یادیں میرا سرمایہ حیات ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔2 فروری 2024 
ریٹائرمنٹ کا حساب یوم پیدائش سے لگایا جاتا ہے۔ میرا یوم پیدائش کاغذات میں تو یکم فروری درج ہوا مگر اصل یوم پیدائش 12 فروری تھا۔
سرکاری کاغذات کے مطابق ریٹائرمنٹ یکم فروری کو ہوگئی تو میری ایم اے انگلش کی بچیوں نے کہا سر ہم 12 فروری کو آپ کا برتھ ڈے منانا چاہتے ہیں۔ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ ؟
ایک بچی نے کہا سر ، ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی سب سے محبوب شخصیت آپ کے برتھ ڈے کی تقریب میں مہمان خصوصی ہو۔ میں نے کہا میری سب سے محبوب شخصیت تو میری دو سال کی پوتی فائقہ ہے۔ بچیوں نے کہا بالکل ٹھیک۔ مہمان خصوصی فائقہ ہی ہوں گی۔
بہت شاندار تقریب تھی۔ میری بائیں جانب والی کرسی پر مہمان خصوصی کو بٹھا دیا گیا۔ بچیاں موقع کی مناسبت سے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کر رہی تھیں کہ اچانک مہمان خصوصی نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔۔۔۔۔ بھوک لگی تھی۔۔۔۔ ہم دودھ کا فیڈر ساتھ لائے تھے۔ دودھ کی بوتل مہمان خصوصی کو پکڑا دی۔ اس کے بعد تقریب کی کارروائی پر امن رہی۔ (فائقہ ماشاء اللہ اب سول جج ہیں)۔
بچیاں خوبصورت برتھ ڈے کیک بھی بنوا لائی تھیں۔ کیک کاٹا گیا۔ پھر مجھ سے فرمائش ہوئی کہ اپنے لالا عیسی خیلوی کا کوئی گیت سنائیں۔ اس فرمائش کی تکمیل کے بعد مجھے بہت سے خوبصورت گفٹ دیئے گئے۔ بہت سی پکچرز بھی بنائی گئیں۔
اس شاندار تقریب کی کچھ یادیں اب بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔3 فروری 2024 
ہماری ریٹائرمنٹ کی تقریبات کا آغاز ریٹائرمنٹ سے دو ماہ قبل ہی ہو گیا۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی تقریب ہمارے انگلش ڈیپارٹمنٹ نے 20 نومبر کو منعقد کی۔ پرنسپل ملک محمد انور میکن صاحب اور شعبہ بیالوجی کے سربراہ پروفیسر محمد فاروق صاحب نے مجھ سے ایک دن پہلے (30 جنوری کو) ریٹائر ہونا تھا۔ اس لیئے انگلش ڈیپارٹمنٹ کی تقریب میں انہیں بھی مہمان خصوصی کی حیثیت میں شریک کر لیا گیا۔
یہ تقریب گورنمنٹ کالج میانوالی کی تاریخ کی ایک یادگار تقریب تھی۔ پروفیسر سرورخان نیازی، پروفیسر ناصر اقبال اور پروفیسر عبدالغفار خان خٹک کی محنت اور محبت نے اس تقریب کو ایک شاندار یادگار بنا دیا۔
تقریب کو یادگار بنانے کے لیئے ایم اے انگلش کے بچوں بچیوں نے بھی بہت محنت کی۔
تقریب میں ٹیچرز اور سٹوڈنٹس نے خوبصورت الفاظ میں ریٹائر ہونے والے اساتذہ کو خراج عقیدت و تحسین پیش کیا۔
انگلش ڈیپارٹمنٹ کے لان کو اس موقع پر دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ تقریب کے آخر میں شاندار دعوت کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
اس تقریب کی حسین یادیں اب بھی دلوں پر نقش ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔4 فروری 2024 
سٹوڈنٹس کی والہانہ محبت نے میری ریٹائرمنٹ کو اچھا خاصا جذباتی معاملہ بنا دیا۔ بچوں نے تو اپنے جذبات و احساسات کا اظہار ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور آنسووں کی صورت میں کیا، میرے جذبات نظم کی صورت میں وارد ہوئے جو میں نے اپنی الوداعی تقریب میں پیش کی۔۔۔۔۔۔۔ نظم یہ تھی۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ شہر کا موسم بڑا سہانا ہے
مسافروں کو سفر پر ضرور جانا ہے
یہاں سے اڑ کے کہاں جائیں گے خدا جانے
سفر نصیب پرندوں کا کیا ٹھکانا ہے
سدا بہار چمن میں قیام ختم ہوا
خزاں میں اور کہیں آشیاں بنانا ہے
کبھی خیال نہ آیا ہمیں بچھڑنے کا
یہ جانتے تھے یہ دن ایک دن تو آنا ہے
سوال دل میں نہ رہ جائیں حسرتیں بن کر
جو پوچھنا ہے کہو، تم سے کیا چھپانا ہے
میں پیار سارا یہاں پر ہی چھوڑ جاوں گا
سفر کٹھن ہے تو سامان کیا اٹھانا ہے
یہ پھول اپنی محبت کے کچھ بچا رکھنا
ہمارے بعد کسی اور نے بھی آنا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔—5  فروری 2024 
اردو پر رحم کیجیئے۔۔۔۔۔
کچھ عرصہ سے اردو کے چند عام الفاظ پر جو ظلم ہو رہا ہے اسے دیکھ کر دل بہت دکھتا ہے۔ مثال کے طور پر لفظ “عوام” کا استعمال یوں ہوتاہے
پاکستان کی عوام مہنگائی سے نجات چاہتی ہے۔
لفظ عوام کے ساتھ پہلی زیادتی تو یہ ہے کہ عوام مذکر ہے مونث نہیں۔ لہذا پاکستان کے عوام کہنا چاہییے۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ لفظ عوام جمع ہے واحد نہیں۔ اس لیئے درست جملہ یوں ہوگا۔۔۔
پاکستان کے عوام مہنگائی سے نجات چاہتے ہیں۔
لفظ عوام کے ساتھ یہ زیادتی ہر سطح پر ہو رہی ہے۔ عام آدمی سے لے کر بڑے بڑے کھڑپینچ سیاسی لیڈر اور میڈیا تک سب لوگ دھڑلے سے لفظ عوام کو غلط استعمال کر رہے ہیں۔
اسی طرح ایک اور مظلوم لفظ “نذر” ہے جسے آج کل “نظر” لکھا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ میری ساری محنت ایک چھوٹی سی غلطی کی نظر ہو گئی۔
مطلب یہ کہ میری ساری محنت ایک چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے ضائع ہو گئی۔
اس جملے میں نظر کی بجائے نذر لکھنا چاہئے۔ یعنی یوں لکھا جائے۔۔۔۔۔۔ میری ساری محنت ایک چھوٹی سی غلطی کی نذر ہو گئی ۔
سوشل میڈیا پر تو اردو کے ساتھ اور بھی برا سلوک ہو رہا ہے۔ کئی لوگ لفظ صحیح کو سہی لکھ رہے ہیں ۔ مثلا کہا جاتا ہے آپ سہی کہہ رہے ہیں۔ یہاں لفظ سہی سراسر غلط ہے اس کی جگہ لفظ صحیح استعمال کرکے یوں کہنا چاہیئے آپ صحیح کہہ رہے ہیں ۔
کبھی کبھی میں بھی اپنی اردو پوسٹس میں سرائیکی یا پنجابی لفظ استعمال کرتا ہوں مگر وہ الگ بات ہے ۔ اس سے اردو کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے اور بات سمجھنے میں بھی مشکل پیش نہیں آتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔6  فروری 2024 
اردو پر رحم کیجیئے۔۔۔۔۔۔۔
بولنے میں تو کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا مگر لکھنے میں غلطی چھپ نہیں سکتی۔ چند مثالیں دیکھیئے۔۔۔
غلط۔۔۔۔ دوستوں سے صاف بات کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں
درست۔۔۔۔ دوستوں سے صاف بات کہہ دینے میں کوئی ہرج نہیں
غلط۔۔۔ دولت کی حوس بے اسے برباد کر دیا۔
درست۔۔۔۔ دولت کی ہوس نے اسے برباد کر دیا۔
غلط۔۔۔۔ اس نے میری مدد کرنے کی حامی بھر لی۔
درست۔۔۔۔۔ اس نے میری مدد کرنے کی ہامی بھر لی۔
اس قسم کی غلطیاں آج کل عام ہیں۔ اس موضوع پر اور بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔
بڑی طویل کہانی ہے پھر کبھی اے دوست
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔7  فروری 2024
الیکشن کے ہنگامے ختم ہوئے۔ اب آیئے ان ہنگاموں کے منظر نامے سے دور۔۔۔۔۔ بہت دور، ماضی کی ان مہربان گلیوں کا چکر لگا لیں جو ہمارے لیئے ہمیشہ چشم براہ رہتی ہیں۔
بچپن میں میرا ایک پسندیدہ کھانا وسننڑں کہلاتا تھا۔ اپنی گائے بھینسوں کے دودھ سے تیار ہونے والے مکھن کو پگھلا کر گھی بناتے وقت اس میں چکی کا موٹا آٹا اور گڑ بھی ڈال دیتے تھے۔ مکھن پگھل کر گھی بنتا تو اس کے ساتھ ہی ایک خاص قسم کا حلوہ بھی تیار ہو جاتا تھا ۔ اسی کو وسننڑں کہتے تھے۔
گھی میں تر بتر وسننڑں کی دلکش خوشبو اور بےحد لذیذ ذائقہ اپنی مثال آپ تھا۔ مکھن میں شامل لسی کی وجہ سے وسننڑں کا ذائقہ ہلکا سا ترش ہوتا تھا ۔مکھن اگر گائے کے دودھ کا ہوتا تو سبحان اللہ، وسننڑں کھانے کا لطف دوبالا ہو جاتا تھا۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا—10  فروری 2024
رب کریم نے کیا کیا نعمتیں بنا دی ہیں ہمارے کھانے کے لیئے۔ سردی کے موسم کی سبزیوں میں ساگ بھی ایک عجب نعمت ہے۔ دیکھنے میں بالکل سادہ مگر توانائی سے بھرپور۔۔۔ فولاد سے مالامال۔
ساگ کئی قسم کا ہوتا ہے۔ پالک کا ساگ آلو، گوشت یا چنے کی دال کے ساتھ بہت لذیذ بنتا ہے۔ ابلے ہوئے چاولوں کے ساتھ پالک گوشت وسطی پنجاب میں بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے ۔
سرسوں کے پودے کی نازک کونپلیں بھی ساگ کے طور پہ پکائی جاتی ہیں۔ اسے گندلاں دا ساگ کہتے ہیں۔ بہت لذیذ سالن ہوتا ہے یہ بھی۔ گندلاں دا ساگ تے مکھن مکئی پنجابی کلچر کا سمبل ہے۔ گندلاں دا ساگ تے مکھن مکئی ایک پنجابی گیت کے ابتدائی بول بھی ہیں ۔
ہمارے بچپن کے دور میں چنے کے پودے کی نازک کونپلیں بھی ساگ کے طور پر پکائی جاتی تھیں۔ اسے پلی دا ساگ کہتے تھے۔ یہ بھی بہت لذیذ سالن ہوتا تھا۔
باتھوں اور میتھی کا ساگ بھی ہوتا ہے مگر زیادہ مقبول وہی تین ساگ ہیں جو میں نے بتا دیئے ۔–۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔11  فروری 2024
ڈڈوں کا موسم۔۔۔۔۔
چنے کے پودے پر لگی ہوئی پھلیوں کو ڈڈے کہا کرتے تھے۔ چنے انہی ڈڈوں کے اندر ہوتے ہیں۔ ایک ڈڈے میں دو یا تین چنے ہوتے ہیں۔
سبز چنے کچے بھی کھائے جاتے ہیں۔ ان کا سالن بھی بہت مزیدار بنتا ہے۔ سبز مرچ اور سبز چنے کی چٹنی بھی لوگ بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے۔
بچے چنے کے پودوں کو جڑ سے اکھاڑ کر آگ میں بھونا کرتے تھے۔ بھوننے کے اس عمل کو تراڑا کہتے تھے۔ پودے جل کر راکھ ہو جاتے تو راکھ میں سے بھنے ہوئے ڈڈے ڈھونڈ کر ان میں سے گرما گرم بھنے ہوئے چنے نکال کر کھایا کرتے تھے۔ بہت مزیدار غذا تھی مگر اسے کھاتے ہوئے ہاتھ منہ اور کپڑوں کا حشر نشر ہو جاتا تھا۔ کالے ہاتھ کالے منہ اور کپڑوں پر راکھ کے داغ دیکھ کر لوگ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ مگر بچے تو بادشاہ لوگ ہوتے ہیں۔ لوگ جتنا بھی مذاق اڑا لیں ، مائیں جتنی بھی چیخ چیخ کر لعنت ملامت کریں بچے وہی کرتے ہیں جو ان کا دل چاہے۔ خوب شغل ہوا کرتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔14 فروری 2024
آج میرے ہمدم و ہمراز ممتاز بھائی کی برسی ہے۔
ممتاز بھائی رشتے میں میرے ماموں زاد اور عمر میں مجھ سے دوسال بڑے تھے۔ میرے بارے میں ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ ہم نے بچپن اور جوانی کا دور ایک ساتھ گذارا، بڑھاپے کی وادی میں قدم رکھا تو وہ اچانک مجھ سے ہاتھ چھڑا کر سرحد حیات کے پار جا بسے۔
آج میں علم و ادب کے حوالے سے جو کچھ ہوں یہ سب کچھ ممتاز بھائی کی مہربانی ہے۔ وہ نہ ہوتے تو مجھ جیسا آوارہ مزاج انسان پتہ نہیں کیا بن جاتا ۔ ممتاز بھائی ہی نے مجھے مارپیٹ کر اس راہ پہ لگایا۔ کہا کرتے تھے ” کمینے، جتنی تخلیقی صلاحیتیں رب کریم نے تمہیں عطا کی ہیں اگر اتنی صلاحیتیں میرے پاس ہوتیں تو سارے پاکستان کو آگے لگا لیتا ، مگر تم ایسے مردود ہو کہ قلم کو ہاتھ ہی نہیں لگاتے” ۔
مجھے جگر مراد آبادی، فیض، ساحر لدھیانوی، احمد ندیم قاسمی، شکیب جلالی اور محسن نقوی کی شاعری سے ممتاز بھائی ہی نے روشناس کرایا ۔
ان جیسا مقرر کوئی نہیں دیکھا۔ جس موضوع پر بولتے سامعین پر سحر طاری ہو جاتا۔
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ میرے لیئے خدا نے ممتاز بھائی کے سینے میں ماں کا دل رکھ دیا تھا۔ ایک ماں کی طرح وہ ہر معاملے میں میرا خیال رکھتے تھے ، میری رہنمائی کرتے تھے۔ میری بہتری کی فکر کرتے تھے۔ مختصر یہ کہ مجھے جینے کا فن ممتاز بھائی ہی نے سکھایا۔
ایسا کہاں سے لاوں کہ تجھ سا کہوں جسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔15 فروری 2024
جب ہم سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں پڑھتے تھے ، ایک دن میں اور لالو نور خان قتالی خیل ممتاز بھائی کے ہمراہ آوارہ گردی کے لیئے نکلے تو اسلامیہ کالج سول لائنز کے سامنے ایک بڑے سائیز کا بینر دیکھ کر رک گئے۔ بینر اس کل پاکستان بین الکلیاتی مباحثےInter- collegiate Debate کا اعلان تھا جو اس وقت کالج کے ہال میں جاری تھا۔ ممتاز بھائی نے کہا آو اندر جاکر دیکھتے ہیں کیا ہو رہا ہے۔
ہم ہال میں داخل ہوئے۔ بہت بڑی تقریب تھی۔ پشاور، کراچی اور کوئٹہ تک سے منتخب سٹوڈنٹس مباحثے میں شریک تھے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس انوار الحق اور سینیئر سیاسی رہنما خواجہ صفدر اس تقریب میں ججز کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ بھائی نے کہا کیا خیال ہے میں بھی مباحثے شریک ہو جاوں؟ ہم نے کہا بھائی صاحب لوگ مباحثے کی تیاری کر کے آئے ہیں۔ آپ یہ پنگا نہ لیں، کیونکہ شرمندگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
مگر ممتاز بھائی نہ مانے۔ اپنا کالج کا شناختی کارڈ دکھا کر اپنا نام مقررین کی فہرست میں لکھوا دیا۔
اپنی باری پہ سٹیج پہ آکر تقریر شروع کی تو ہال میں سناٹا چھا گیا۔ مقررین دوسرے بھی بہت اچھے تھے مگر ممتاز بھائی چھا گئے۔ تالیوں کی گونج میں تقریر ختم ہوئی۔ جب مباحثے کے نتائج کا اعلان ہوا تو ممتاز بھائی بہترین مقرر کے انعام کے مستحق قرار پائے۔ ایک چمکتی دمکتی ٹرافی ( کپ) اور خوبصورت سرٹیفیکیٹ ممتاز بھائی کے حصے میں آیا۔
لوگ حیران کہ لاہور ، کراچی، کوئٹہ اور پشاور والے پیچھے رہ گئے اور پہلا انعام میانوالی کا نوجوان لے اڑا۔یہ تھے میرے ممتاز بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔16 فروری 2024 
فروری اس دنیا میں میری آمد کا مہینہ ہے، مگر میرے لیئے یہ ماہ رنج و الم ہے، کیونکہ میری تین مہربان شخصیات اسی مہینے میں اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔
15 فروری کو میرے محسن بھائی ممتاز حسین ملک اس دنیا کو خیر باد کہہ گئے۔ 16 فروری کو میری اکلوتی بہن غلام زہرا اچانک یہ دنیا چھوڑ کر عدم آباد جا بسیں۔ بہت صابر و شاکر خاتون تھیں۔ مجھ سے عمر میں پانچ سال بڑی تھیں۔ انہیں کبھی کسی سے اونچی آواز میں بات کرتے نہ سنا۔ کبھی کسی کی شکایت ان کے لب پہ نہ آئی۔ سب سے محبت ، سب پہ شفقت سب کی خدمت ان کا شعار تھا۔ جس طرح خاموشی سے زندگی بسر کی اسی طرح ایک دن چپ چاپ اچانک منزل آخرت کو روانہ ہو گئیں۔
17 فروری کو ہمارے باباجی ملک محمد اکبرعلی سرحد حیات کے اُس پار جا بسے۔ بابا جی محکمہ تعلیم کے مایہ ناز افسر تھے۔ ان کی علمی اور انتظامی قابلیت پورے پنجاب میں مشہور تھی۔
ساڑھے چھ فٹ قد، سرخ و سفید رنگت ، کوٹ پتلون میں ملبوس ، سر پہ ہیٹ سجائے دیکھنے میں انگریز لگتے تھے ۔مگر اس سراپا افسر شخصیت نے زندگی بھر نہ کبھی نماز قضا ہونے دی نہ روزہ۔
پشتو زبان اپنی مادری زبان کی طرح روانی سے بول لیتے تھے۔ اس لیئے ضلع میانوالی کے پشتون بیلٹ میں بہت مقبول تھے۔ کئی پشتون بزرگ ان کے بہت قریبی دوست تھے۔
بابا جی کے بارے میں بہت کچھ لکھ سکتا ہوں مگر شدت جذبات میں لفظ آنسو بن کر بہہ رہے ہیں۔ اس لیئے کچھ اور نہیں لکھ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔17 فروری 2024 
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ بہت ہو گیا۔ یہ روزانہ کی فیس بک پہ حاضری اتنی ضروری تو نہیں۔ یہ کوئی ملازمت تو نہیں کہ روزانہ حاضری دی جائے۔
پھر یہ سوچ کر یہ معمول جاری رکھتا ہوں کہ دنیا بھرمیں پھیلے ہوئے بے شمار دوست میری ان تحریروں کے منتظر رہتے ہیں۔ یہ تحریریں انہیں زمانہ حال کی تلخیوں اور الجھنوں سے دور ماضی کی اس دنیا میں لے جاتی ہیں جو انہوں نے اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھی ، مگر انہیں اس لیئے اچھی لگتی ہے کہ یہ ان کے آباو اجداد کی دنیا تھی۔ اس دنیا میں انہیں اپنے بزرگوں کے نقش قدم نظر آتے ہیں۔ ان کی بہت سی اچھی روایات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے ۔ محبت ، ہمدردی، تعاون ، بے لوث خدمت ، باہمی عزت و احترام جیسی اقدار کا پتہ چلتا ہے جن کی وجہ سے دنیا میں امن و سکون تھا۔ آج کی ہنگامہ خیز، بےچین و پریشان دنیا سے وہ دنیا بہرحال بہت بہتر تھی۔
کچھ دیر کے لیئے اس دنیا کے ذکر میں کھو کر لوگ اپنی موجودہ پریشانیاں بھول جاتے ہیں۔ انہیں یوں لگتا ہے جیسے ان کی کوئی کھوئی ہوئی چیز انہیں مل گئی۔ اس لیئے وہ خوش ہوتے ہیں۔ مجھے دعائیں دیتے ہیں اور میری تحریروں کے منتظر رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ چند منٹ روزانہ فیس بک کو دینے سے میرا کیا جاتا ہے؟
دعاوں کی ضرورت تو مجھے ہر لمحہ رہتی ہے۔ اس لیئے سودا مہنگا نہیں ۔ یہی سوچ کر میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ تحریروں کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔18 فروری 2024 
ذرائع ابلاغ ( ریڈیو، ٹی وی، ٹیلیفون وغیرہ) کی آمد سے پہلے لوگ بہت مطمئن اور پرسکون زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کی تمام تر توجہ اپنے ذاتی اور مقامی معاملات پر مرکوز رہتی تھی۔ گفتگو کا موضوع بھی یہی معاملات رہتے تھے ۔ سیاست سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ کبھی الیکشن ہوتے تو لوگ اپنی برادری کے بزرگوں کی ہدایت کے مطابق ووٹ دے دیتے تھے۔ ہمارے علاقے میں لوگ نواب کالاباغ کے حامی تھے۔ اس وقت نواب کالاباغ قائداعظم کی مسلم لیگ سے وابستہ تھے۔ لوگ یہ سوچ کر خوشی سے نواب کالاباغ کو ووٹ دیتے تھے کہ بابا جناح کی پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں۔ بابا جناح کے علاوہ کسی دوسری پارٹی کو ووٹ دینا گناہ سمجھا جاتا تھا۔
مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ
اور۔۔۔۔
پاکستان کا مطلب کیا
لآ الہ الا اللہ
اس دور کے مقبول ترین نعرے تھے۔
عملی طور پر الیکشن کے دنوں کے سوا عوام کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا ۔
کوئی جلسے جلوس ریلیاں مظاہرے نہیں ہوتے تھے۔ لوگ جانتے تھے کس کو ووٹ دینا یے۔ اس لیئے جلسوں جلوسوں کی ضرورت ہی نہ پڑتی تھی ۔ حکومت پر تنقید بھی نہیں ہوتی تھی۔ لوگ یہ سوچ کر مطمئن رہتے تھے کہ اوپر جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہی ہو رہا ہے۔
ذرائع ابلاغ نے سیاست کو ہر گھر میں پہنچا دیا۔ شہر ہو یا دیہات، ہر جگہ سیاست پر بحث ہو رہی ہے۔ لوگ اپنے ذاتی اور مقامی مسائل کو چھوڑ کر اپنی توانائیاں اپنے اپنے لیڈروں کو اقتدار میں لانے پر خرچ کر رہے ہیں۔ مخالف لیڈروں پر کھل کر تنقید کی جاتی ہے ۔ اسے ہم شعور کہتے ہیں۔ لیکن اس شعور سے ملک و قوم کو کیا فائدہ ہوا ؟ ملک آج بھی معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔۔ لوگ اپنے ذاتی مسائل بھول کر سیاسی محاذ آرائی میں مگن ہیں۔ بھائی بھائی کا دشمن ہے۔ ہر شخص پریشان ۔۔۔۔شعور بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔ کسی دل جلے شاعر نے کیا خوب کہا تھا۔۔۔
اس ہوش سے اچھی تھی ظالم تری بیہوشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔19  فروری 2024 
مسافر پرندوں کی اپنے وطن کو واپسی کا موسم شروع ہو گیا۔ ہزاروں مرغابیاں کونجیں اور بٹیر موسم سرما ہمارے ہاں گذار کر واپس جانے لگے۔ یہ پرندے ہر سال موسم سرما کے آغاز میں روس کے علاقے سائبیریا سے پاکستان میں آتے ہیں کیونکہ سائبیریا کی شدید سردی میں وہاں کی جھیلیں برف بن جاتی ہیں۔ یہ پرندے تلاش رزق میں ہمارے علاقے کے دریاوں اور جھیلوں کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے پرندے شکاریوں کا رزق بن جاتے ہیں پھر بھی یہ ہر سال یہاں آتے ہیں کیونکہ موسم سرما گذارنے کا کوئی دوسرا چوائس انہیں میسر نہیں۔
یہ پرندے حسن فطرت کا بہت حسین مظہر ہیں۔ ان کے آنے جانے کا منظر بہت دلکش ہوتا ہے۔ بچپن میں ہم داودخیل میں ان پرندوں کو آتے جاتے بہت شوق سے دیکھا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔21 فروری 2024
مسافر پرندے ، مرغابیاں، کونجیں وغیرہ تو اب بھی ہر سال اپنے مقررہ اوقات میں آتے جاتے ہیں مگر کچھ مقامی پرندے اللہ جانے کدھر غائب ہو گئے۔ ؟ چڑیا کے برابر قدوقامت والی پیچیاں ، پدو، پیل غڑے، سلیٹی رنگ کے ممولے جنہیں ہم شیخ ممولا یا شیخو کہتے تھے، چڑی درکھان (ہد ہد) جس کا ذکر قرآن حکیم میں بھی ہے، لاٹے ۔۔۔۔ لاٹا بڑا بدمعاش پرندہ ہے ، ہر پرندے کی بولی بول لیتا ہے۔۔۔۔۔ یہ سب پرندے پتہ نہیں کہاں چلے گئے؟ ہمارے بچپن کے دور میں تو یہ تمام پرندے ہمارے ارد گرد چلتے پھرتے ، چرتےچگتے اور اڑتے نظر آتے تھے۔ ہم انہیں اپنے دوست سمجھتے تھے۔ مگر یہ ہم سے ڈرتے تھے اس لییے ہمیں اپنے قریب نہیں آنے دیتے تھے۔ پھربھی ہم انہیں اپنے دوست سمجھتے تھے۔ دور کھڑے ہو کر ان سے باتیں کرتے تھے۔ اب یہ پرندے کہیں نظر نہیں آتے ۔ پچھلے سال اپنے داودخیل والے گھر میں ایک ممولا اور ایک چڑی درکھان دیکھا تھا۔ چند منٹ بعد دونوں غائب ہو گئے۔
ایک اندازہ یہ ہے کہ بجلی کی چکا چوند روشنیوں سے گھبرا کر یہ تمام پرندے اس علاقے سے ہجرت کر گئے۔ دور دراز دیہاتوں میں شاید اب بھی چل پھر رہے ہوں۔ واللہ اعلم۔
ہم بہرحال انہیں miss کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔22  فروری 2024
بھولے بھالے معصوم پرندے فقیر بادشاہ لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی خدمت کرنی چاہیئے۔ ان کی دعاوں سے ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
پرندوں کی خدمت کرنا کون سا مشکل کام ہے۔؟ روٹی کے بچے کھچے ٹکڑے یا باجرے کے دانے کسی پلیٹ میں ڈال کر گھر میں کسی ایسی جگہ رکھ دیا کریں جہاں پرندے آسانی سے آ جا سکیں۔ اس خوراک کے ساتھ ایک پلیٹ یا کٹورا پانی سے بھر کر رکھ دیں۔
اللہ کے بھیجے ہوئے ان مہمانوں کو ہمارا دیا ہوا رزق کھاتے دیکھ کر انسان کو عجیب سا سکون ملتا ہے ۔
ہمارے داودخیل اور میانوالی والے گھر میں پرندوں کی مہمان نوازی کا باقاعدہ اہتمام ہوتا ہے۔ دن بھر رونق لگی رہتی ہے۔ چڑیاں ، فاختائیں، لالڑیاں ، ساتھ والے گھر سے ایک دو کالی چڑیاں ، ایک دو بلبلیں بھی آتی جاتی رہتی ہیں ۔۔ میانوالی والے گھر میں ایک بوڑھا سا ایک ٹانگ والا کوا بھی آیا کرتا تھا۔ اس کی ایک ٹانگ پتہ نہیں کیسے ضائع ہو گئی۔ اب بہت دنوں سے نظر نہیں آیا۔ اللہ جانے کدھر چلا گیا۔؟
پرندوں کی خدمت رب کو راضی کرنے کا بہت آسان طریقہ ہے۔ اس پر عمل کر کے دیکھیں بہت سکون ملے گا۔ بہت سے مسائل حل ھو جائیں گے۔ بہت سی مصیبتیں ٹل جائیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔23 فروری 2024 
میں مغرب کی اذان سے دو چار منٹ پہلے محلے کی مسجد میں پہنچا تو بیس پچیس بزرگ نمازی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ حاجی صاحب ( امام مسجد) کسی وجہ سے ناراض ہیں اس لیئے وہ نماز کی امامت کرنے کے لیئے دستیاب نہیں ہوں گے۔
چاچا عمر حیات خان بہرام خیل نے کہا سب لوگ الگ الگ نماز پڑھ لیں۔
میں نے کہا بھائی رب نواز خان امامت کر لیں۔ چاچا احمد خان نے کہا ہم کسی دیوبندی کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے ۔
میں نے کہا دیکھیں ہمارے آقا علیہ السلام کا حکم ہے کہ مسجد میں دو آدمی بھی ہوں تو الگ الگ نماز ادا کرنے کی بجائے باجماعت نماز ادا کریں۔ ہم بیس پچیس لوگ الگ الگ نماز کیسے ادا کر سکتے ہیں ؟ ایسی نماز قبول نہ ہوگی۔ ہو سکتا ہے یہ نماز آپ کو الٹا لٹکوا دے۔ اس لیئے میں تو اکیلے نماز نہیں پڑھوں گا۔ میں نماز کی امامت کرنے لگا ہوں، جس کا دل چاہے میرے پیچھے کھڑا ہو جائے۔
یہ کہہ کر میں مصلے پر کھڑا ہو گیا ۔ جب میں نے اللہ اکبر کہا تو سب لوگ میرے پیچھے کھڑے ہوگئے۔ یوں باجماعت نماز ادا ہو گئی۔
اس زمانے میں میری داڑھی بھی نہیں تھی ، کلین شیو کرتا تھا۔ مگر آقا صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حکم کی تعمیل ضروری تھی اس لیئے میں نے نماز کی قیادت کر دی۔
نماز عشاء سے پہلے حاجی صاحب کے گھر جا کر میں ان کو منا لایا۔ اس لیئے نماز عشاء کی امامت کا مسئلہ پیدا نہ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔24 فروری 2024 
ایک دفعہ عشا کی نماز کے لیئے محلے کی مسجد میں پہنچا تو معلوم ہوا امام مسجد ( حاجی محمد عبداللہ خان) نے نمازیوں کے ہنسی مذاق سے تنگ آکر مسجد کو خیر باد کہہ دیا ہے۔
حاجی صاحب سیدھے سادے بزرگ پٹھان تھے۔ بلا معاوضہ نمازوں کی امامت کرتے تھے۔ اس لیئے انہیں اس کام سے کوئی لالچ نہ تھا۔ نمازیوں کی اکثریت ان پڑھ بزرگ لوگ تھے۔ بہت کھلا ڈلا ماحول تھا۔ آپس میں ہنسی مذاق بھی چلتا رہتا تھا۔ حاجی صاحب بھی مذاق کرنے میں کسی سے پیچھے نہ تھے۔ مگر کبھی کبھی لوگوں کی باتوں تنگ آکر امامت سے دستبرداری کا اعلان کر دیتے۔ عام طور پر تو لوگ آسانی سے ان کو منا لیتے تھے، لیکن آج معاملہ کچھ زیادہ سیریس تھا۔
میں نے حاجی صاحب کے بڑے بیٹے لالا محمد خان سے کہا آپ جا کر حاجی صاحب کو منا لائیں۔
لالا محمد خان نے کہا وہ آپ کے سوا کسی کی بات ہی نہیں سنتے۔ آپ ہی جاکر ان کو منا لائیں۔۔۔۔۔ بات درست تھی حاجی صاحب کا سب سے لاڈلا نمازی میں ہی تھا۔
میں حاجی صاحب کے گھر پہنچا تو وہ صحن میں چارپائی پر بیٹھے تھے۔ میں نے کہا ” بھائی صاحب یہ کیا ڈراما بنا رکھا ہے آپ نے۔؟ سنا ہے آپ نے نماز کی امامت ترک کر دی ہے” ۔
حاجی صاحب نے دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا ” بس بھئی ان لوگوں کے ساتھ میرا گذارہ نہیں ہو سکتا۔ یہ لوگ تمیز سے بات بھی نہیں کر سکتے” ۔
میں نے کہا جیسے بھی ہیں، اب تو آپ کو آنا پڑے گا۔
حاجی صاحب نے کہا بالکل نہیں آوں گا۔
ہماری تکرار سن کر اماں جی ( حاجی صاحب کی اہلیہ) نے کہا ” ہمیں تو کہتے ہو منور میرا چوتھا بیٹا ہے۔ اب یہ آگیا ہے تو چلے جاو اس کے ساتھ”۔
حاجی صاحب نے مسکرا کر کہا ” مجھے پہلے ہی پتہ تھا یہ بےایمان مجھے لے کر ہی جائے گا۔ لاو کھانا لے آو ۔ کھانا کھا کر چلتے ہیں” ۔
کھانا کھا کر ہم دونوں ، بچوں کی طرح ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہنستے ہنساتے مسجد آ پہنچے۔
حاجی صاحب ، رب کریم آپ کو اپنی رحمت کا سایہ نصیب فرمائے۔ایسا کہاں سے لائیں کہ تم سا کہیں جسے—۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔25 فروری 2024 
ہمارے بچپن کے دور میں بچہ لوگ شب براءت کو مساراں آلی عید کہتے تھے۔ مسارے مٹی کی پلیٹیں ہوتی تھیں جن میں لکڑیوں کو آگ لگا کر بچے گھروں کی منڈیروں پر سجا دیتے تھے۔ گاوں میں چاروں طرف چراغاں کا یہ منظر بہت دلکش ہوتا تھا۔
مساروں کے علاوہ اس شام آتش بازی کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ ہوائیاں( کاغذ کے میزائل) انار، پھلجھڑیاں، ننھے منے کاغذی بم ، شرکنڑیاں، کاغذ کی بنی ہوئی بارودی جلیبیاں، ٹین کے بنے ہوئے ننھے منے بارودی جہاز جن کے دھاگے کو آگ لگانے سے زووووں کی آواز کے ساتھ یہ جہاز سیدھے اوپر جاکر رات کی تاریکی میں گم ہو جاتے تے۔ کاغذ کی پٹی پر بارود کے بٹن جنھیں تڑ تڑ کہتے تھے۔ انہیں پتھر پر رگڑتے تو یہ تڑ تڑ کی آواز کے ساتھ جلنے لگتے تھے۔ کاغذ کی تین کونوں والی پڑیا جس کے ایک کونے سے نکلے ہوئے دھاگے کو آگ لگا کر تماشا دیکھتے تھے۔ اس پٹاخے کو ککڑ کہتے تھے۔ بارود کو آگ لگتے ہی ککڑ ادھر ادھر اچھلنے کودنے کے بعد ہلکے سے دھماکے کے ساتھ پھٹ جاتا تھا۔
بم کی طرح زور دار آواز پیدا کرنے والی ڈزیاں جنھیں ہتھواڑی بھی کہتے تھے۔ ان میں گندھک اور پوٹاشیم کلوریٹ کا آمیزہ بارود کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس بارود کو پٹاس کہتے تھے۔ گلی میں ڈزی کے دھماکے سے گھروں میں بیٹھے لوگ لرز اٹھتے تھے ۔ بہت گالیاں پڑتی تھیں ڈزی بازوں کو۔
جب ہم بڑے ہو گئے تو آتش بازی ترک کر کے شب براءت پر بزرگوں کے ساتھ مل کر مسجد میں عبادت کرنے لگے۔ رات بھر تلاوت اور نفل نمازیں ادا کرنے کے بعد قبرستان جاکر مرحومین کے لیئے دعائے مغفرت کیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔26 فروری 2024 
روٹ۔۔۔۔
بیٹھے بٹھائے پتہ نہیں اچانک روٹ کیوں یاد آگیا ؟
روٹ بھی روٹی کی ایک قسم ہے۔ بچپن میں میری فرمائش پر اکثر ناشتہ روٹ ہی ہوتا تھا۔ میں بسکٹ کی طرح روٹ کے ٹکڑے چائے کے ساتھ کھایا کرتا تھا۔
روٹ کا آٹا سادہ پانی کی بجائے گڑ کا شربت ملا کر گوندھا جاتا تھا۔ اس کی موٹی سی روٹی بنا کر توے پر خالص گھی میں فرائی کر لیا جاتا تھا۔ بہت لذیذ چیز ہوتا تھا یہ روٹ۔ اسے روٹ کے علاوہ روٹا بھی کہتے تھے۔
ہر جمعرات کو بزرگ خواتین بڑے بڑے روٹ بنا کر قبرستان لے جاتی تھیں۔ بچوں کی فوج روٹ کے لالچ میں ان کے ہمراہ جاتی تھی۔ میاں رمدی صاحب کے مزار پہ پہنچ کر روٹ پر کچھ دم درود پھونک کر پیر صاحب کی نیاز کے طور پر روٹ بچوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔
روٹ ہم گھر میں اب بھی کبھی کبھار بناتے ہیں، مگر وہ خالص بارانی گندم کا آٹا ، خالص دیسی گھی اور خالص پشاوری گڑ اب کہاں؟
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔27 فروری 2024
اوگرا ۔۔۔۔
لفظ اوگرا ٹی وی سکرین پر نظر آئے تو خطرے کی علامت ہے کیونکہ اوگرا
(Oil and Gas Regulatory Authority)
وہ ادارہ ہے جو ہر ماہ تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھا کر عوام کا جینا مشکل سے مشکل تر بناتا رہتا ہے۔
مگر جو اوگرا آج ہمارا موضوع ہے یہ وہ والا اوگرا نہیں , بلکہ ایک بہت سادہ مگر بہت لذیذ کھانا ہے جو ہمارے بچپن کے دور میں بڑے شوق سے کھایا جاتا تھا۔
روٹی کےبچے کھچے ٹکڑوں کو پانی میں ابال کر گڑ اور خالص دیسی گھی ڈال کر ایک حلوہ سا بنایا جاتا تھا جسے اوگرا کہتے تھے۔ اس میں گھی زیادہ ڈالتے تھے۔ گھی میں تر بتر گرماگرم اوگرا بے حد لذیذ خوراک تھا۔ بچے بڑے سب بہت شوق سے کھاتے تھے۔۔۔۔ اب تو شاید ہی کسی گھر میں اوگرا بنتا ہو کیونکہ
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔28 فروری 2024
چیتر آلا اوگرا۔۔۔۔۔۔۔
رسم تو ہندووں کی تھی لیکن کھانا حلال بھی تھا لذیذ بھی، اس لیئے ہندووں کے جانے کے بعد بھی ہمارے علاقے میں ہر سال چیتر ( چیت) کے مہینے میں چیتر آلا اوگرا ہر گھر میں بنتا رہا۔ اس کا ایک نام کنجکاں بھی تھا ۔ کچھ لوگ اسے بھت بھی کہتے تھے۔ مگر ہمارے علاقے میں اسے چیتر آلا اوگرا ہی کہتے تھے۔
بہت سادہ مگر بے حد لذیذ چیز تھی۔ چکی پر موٹی دلی ہوئی گندم کو پانی میں ابال کر چولہے سے اتار لیا جاتا تھا۔ پھر گڑ کا شربت ابال کر الگ رکھ دیا جاتا تھا۔ صبح سویرے ان دونوں چیزوں کو مکس کر کے ٹھنڈا یخ آمیزہ چمچ کی مدد سے کھایا جاتا تھا۔ اسی کو چیترآلا اوگرا کہتے تھے۔ جس نے کھایا ہو وہی بتا سکتا ہے کہ یہ کتنی لذیذ غذا تھی۔
چیتر آلا اوگرا اب بھی آسانی سے بن سکتا ہے۔ اچھی قسم کا گندم کا دلیہ اور گڑ کا شربت ملا کر بنایا جا سکتا ہے۔
ویسے تو یہ کسی موسم میں بھی بنایا جا سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں صرف چیتر کے مہینے میں ہی بنتا تھا۔اس کی کوئی خاص وجہ تو ہوگی۔ مگر نہ ہم نے کبھی پوچھا نہ کسی نے بتایا کہ یہ مخصوص کھانا چیتر کے مہینے میں ہی کیوں بنتا ہے۔ رسم ہندووں کی تھی، وجہ بھی وہی جانتے ہوں گے۔ اس کے کچھ نہ کچھ طبی فوائد بھی ضرور ہوں گے۔۔۔۔۔واللہ اعلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔29 فروری 2024 

داودخیل کی ایک صبح۔۔۔۔۔29 فروری 2024 –منورعلی ملک۔۔۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top