منورعلی ملک کے نومبر 2019 کےفیس بک پرخطوط
میرا میانوالی————-
اسلام آباد کا تو اس وقت نام ونشان بھی نہ تھا –
بات اس زمانے کی ھے جب ھم گارڈن کالج راولپنڈی میں پڑھتے تھے – ھمارا گھر راولپنڈی شہر کے کمیٹی چوک میں مری روڈ کے کنارے واقع تھا – یہ کرائے کا مکان تھا – نچلی منزل پر عزیز کریانہ سٹور تھا ، بالائی منزل کے تین کمرے ھمارے تھے ، چوتھے کمرے میں مالک مکان کے صاحبزادے راجہ فرخ عنایت مقیم تھے – راجہ فرخ عنایت میرے ھم عمر تھے میرے کمرے کی دوکھڑکیاں مری روڈ کی جانب کھلتی تھیں – میں فارغ وقت میں ان کھڑکیوں میں سے مری روڈ کا منظر دیکھا کرتا تھا – کوئی خاص رونق نہیں ھوتی تھی – چند جانی پہچانی کاریں ، گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کی دوچار بسیں ، پانچ سات مری آنے جانے والی بسیں ، اور اکا دکا ٹرک — زیادہ تر اس روڈ پہ تانگوں کی حکمرانی تھی – صاف ستھرے سجے سجائے تانگے ، خوبصورت سمارٹ گھوڑے ، پنڈی کے تانگے پورے پاکستان میں مشہور تھے-
شام کے بعد مری روڈ تقریبا سنسان ھو جاتی تھی —- پنڈی اس زمانے میں خاصا مسکین سا شہر تھا – صدر کے علاقے میں کچھ رونق نظر آتی تھی ، مگر وھاں کی زیادہ تر آبادی خاکی وردی والے مجاھدوں پر مشتمل تھی – ان کی ایک اپنی دنیا تھی – شہر سے ان لوگوں کا کچھ لینا دینا نہ تھا –
پنڈی شہرشمال میں محلہ وارث خان سے شروع ھوکر ایک دوکلومیٹر جنوب میں مریڑ چوک پہ ختم ھو جاتا تھا – تقریبا آج کے میانوالی جتنا شہر تھا – کمیٹی چوک سے مغرب کی جانب فوارہ چوک ، راجہ بازار تک ٹرنک بازارکہلاتا تھا – اسی بازار سے دائیں ھاتھ بوھڑ بازار شمال کو جاتا تھا – بوھڑ بازار کے پہلے موڑ پر آج کے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کا گھر ھے’ جو لال حویلی کہلاتا ھے – اس زمانے میں لال حویلی کا نام بھی کوئی نہیں جانتا تھا ، کیونکہ شیخ رشید اس وقت پرائمری سکول کی تیسری چوتھی کلاس میں پڑھتے تھے -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک- 3 نومبر 2019
میرا میانوالی————-
پرانے پنڈی کا کچھ مزید ذکر – باتیں اس دور کی جب ھم گارڈن کالج راولپنڈی میں پڑھتے تھے –
زیادہ تر پنڈی شہر مری روڈ کے مغرب میں تھا – کمیٹی چوک کے مشرق میں چک لالہ تک کھلا میدان تھا – ایک سنگل سڑک اس میدان سے چک لالہ کو جاتی تھی – کمیٹی چوک سے شمال مشرق کو ظفرالحق روڈ کوڑھی ھسپتال تک کچھ آبادی تھی – آگے ویرانہ تھا – اس کے شمالی سرے پر چاہ سلطان نام کی چھؤٹی سی بستی تھی -<لیاقت باغ کے مری روڈ والے گیٹ کے سامنے اسلامیہ ھائی سکول اور اس کے پیچھے وقارالنسا گرلز کالج تھا – یہاں سے کمیٹی چوک تک کچھ آبادی تھی – کمیٹی چوک مے مشرق میں وسیع و عریض خالی میدان تھا ، سینما ، اخبار جنگ کا دفتر اور ادھر کی بقیہ آبادی بہت بعد کی بات ھے –
راجہ بازار شہر کا سب سے بڑا بازار کہلاتا تھا – لمبائی میں تو یہ کچھ زیادہ بڑا نہیں ، بمشکل آدھا کلومیٹر ھوگا ، جامع مسجد چوک سے شروع ھو کر فوارہ چوک پہ ختم – البتہ چیزوں کی ورائیٹی اور کوالٹی کے لحاظ سے یہ واقعی شہر کا سب سے بڑا بازار تھا –
اس کے مشرقی کنارے سے کئی چھوٹے چھوٹے بازار ، بازار کلاں ، صرافہ بازار ، ٹرنک بازار (لیاقت بازار) مشرق میں مری روڈ سے جاملتے تھے –
ان بازاروں کے درمیان کئی چھوٹے بازاروں کا جال سا بچھا ھؤا تھا ، اردو بازار ، بوھڑ بازار ، موتی بازار وغیرہ اسی علاقے میں واقع تھے – آج بھی موجود ھیں — فوارہ چوک سے مغرب میں کشمیری بازار اور جنوب میں سٹی صدر روڈ ، اور لیاقت روڈ بھی زندہ و سلامت ھیں – بہت کچھ بدل گیا ، نقشہ نہیں بدلا –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-4 نومبر 2019
میرا میانوالی————-
کل شام 4 بجے کے قریب فتح جنگ کا مختصر سا دورہ کیا – مظہر بیٹے نے کچھ فرنیچر خریدنا تھا – یہ علاقہ مجھے اس لیے اچھا لگتا ھے کہ تقریبا 200 سال پہلے یہی علاقہ ھمارا آبائی وطن تھا – اعوان قبیلے کے جد امجد بابا قطب شاہ اعوان اسی علاقے کے سردار تھے – قطبال نام کا شہر انہی سے منسوب ھے –
بابا قطب شاہ کے قبیلے سے ھمارے بزرگ مولوی محمد حیات اعوان یہاں سے ھجرت کر کے ضلع میانوالی کے پشتون علاقہ میں اعواناں والا نام کے گاؤں میں منتقل ھوگئے – صاحب علم بزرگ تھے – بہت سے پشتون ان کے مرید تھے – ان کے پوتے (ھمارے دادا کے دادا) وھاں سے مندہ خیل منتقل ھوئے ، ھمارے دادا کے والد ڈھیرامیدعلی شاہ میں آباد ھوئے – دادا جی مولوی مبارک علی مستقل طورپر داؤدخیل میں مقیم ھوگئے — ھجرت در ھجرت کی یہ داستان دلچسپ تو ھے ، مگر ————
بڑی طویل کہانی ھے ، پھر کبھی اے دوستبات بہت دور نکل گئی – بتانا یہ تھا کہ فتح جنگ ، پنڈی گھیب کے علاقے سے مجھے اس لیے پیارھے کہ ھمارا آبائی وطن یہی علاقہ تھا – صدیوں پہلے کی بات ھے – اب تو ھمیں وھاں جانتا بھی کوئی نہیں ، اور نہ ھم کسی کو جانتے ھیں ، مگر مٹی کی خوشبو بتاتی ھے کہ ھمارا خمیر اسی مٹی سے اٹھا – اللہ اس علاقے کو سدا آباد رکھے-ھمارا دورہ بہت مختصر تھا، مگر اس کی یادیں دور تک ساتھ چلیں گی –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-5 نومبر 2019
میرا میانوالی————-
مجھے تو پتہ ھی نہ تھا فلم کیا ھوتی ھے – جب گارڈن کالج راولپنڈی میں داخلہ لیا اور والد صاحب کے پاس پنڈی میں رھنے لگا , تو مالک مکان راجہ فرخ عنایت سے سنا کہ فلم بہت مزے کی چیز ھوتی ھے – والد صاحب کی موجودگی میں تو فلم دیکھنا ممکن نہ تھا ، البتہ جب کبھی والد صاحب سکولوں کے معائنے کے لیے پنڈی سے باھر جاتے تو مجھے چھوٹی موٹی عیاشیوں کا موقع مل جاتا –
والد صآحب راولپنڈی ڈویژن کے ڈپٹی ڈائریکٹر آف سکولز تھے – پنڈی ڈویژن اس زمانے میں 6 اضلاع ( راولپنڈی – اٹک ، میانوالی ، سرگودھا ، جہلم اور گجرات) پر مشتمل تھا – ستمبر سے دسمبر تک والد صاحب ھرماہ پانچ سات دن ان اضلاع کے سکولوں کے معائنے کے لیے پنڈی سے باھر رھتے تھے-راجہ فرخ سے فلموں کی دلچسپ باتیں سن کر میرے دل میں بھی فلم دیکھنے کا شوق پیدا ھؤا – زندگی میں میں نے سب سے پہلی فلم فوارہ چوک راولپنڈی میں واقع روز سینیما میں دیکھی – یہ ایک پنجابی فلم تھی – فلم کا نام تھا “پینگاں“ — مسرت نذیر اور اسلم پرویز کی یہ فلم اس زمانے کی مقبول ترین فلموں میں شمار ھوتی تھی – اس دور کی فلموں میں کہانی بھی ھوتی تھی ، جس میں سمجھدار لوگوں کے لیے کئی سبق بھی ھوتے تھے – فلموں میں مار کٹائی اور قتل و غارت کا فیشن ابھی برپا نہیں ھؤا تھا – ھیرو اور ھیروئین زیادہ اچھل کود بھی نہیں کرتے تھے – گیتوں پر لفنگے قسم کے ڈانس بھی نہیں ھوتے تھے – آج کل تو موسیقی سننے کی بجائے دیکھنے کی چیز بن گئی ھے – گلوکار یا گلوکارہ کی آواز سریلی ھو نہ ھو ، شکل وصورت ، لباس اور حرکتیں دلکش ھونی چاھیئں – گیت کا کوئی مفہوم نہ بھی ھو , ھر قسم کی بکواس کو گیت سمجھ کر لوگ اس پر ناچ گا لیتے ھیں-
پرانی فلموں میں گیتوں کا معیار اور تھا ، لفظ اور موسیقی دونوں دل میں اتر جاتے تھے ، اور باربار سننے کو دل چاھتا تھا – فلم “پینگاں“ بھی بہت خوبصورت گیتوں سے آراستہ تھی- یہ پہلی فلم دیکھنے کے بعد فلم دیکھنا میرا شوق بن گیا – بہت سی فلمیں دیکھیں – عشق لیلی ، سات لاکھ ، سرفروش اور یکے والی جیسی شاھکار فلمیں اسی دور میں دیکھیں – ان سے اپنے کردار میں تو کوئی خرابی پیدا نہ ھوئی ، فلموں میں کوئی ایسی بات تھی ھی نہیں -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-6 نومبر 2019
میرا میانوالی————-
پروفیسر محمد سلیم احسن کا ایک شعر ——————
تجھے مشکل منانا ھو گیا ھے
ترا ساتھی زمانہ ھو گیا ھے
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-7 نومبر 2019
میرا میانوالی————-
آج کچھ ذکر اسلام آباد کا –
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس کا دارالحکومت کراچی تھا – دفاعی ضروریات کے لحاظ سے یہ شہر محفوظ نہ تھا – 1958 میں صدر ایوب نے دارالحکومت کے لیے جگہ کا انتخاب ایک کمیشن کے سپرد کیا – کمیشن نے یہ جگہ منتخب کی – شہر کا نقشہ یونان کی شہری منصوبہ بندی کی ایک تنظیم نے تجویز کیا – اس نقشے کے مطابق شہر کی تعمیر 1960 میں شروع ھوئی – ابتدا میں عارضی طور پر راولپنڈی کو دارالحکومت بنا دیا گیا –
تعمیر کی تکمیل کے بعد 1966 میں یہ شہر آباد ھو گیا -کسی شہر کا کلچر اس شہر کی زبان ، مزاج، رسم و رواج ، لباس اور روایات پر مشتمل ھوتا ھے – مثال کے طور پر لاھور کی پہچان اس کے شہریوں کی زندہ دلی ، سخاوت ، مہمان نوازی اور دوست داری ھے – میانوالی کی پہچان سادگی ، مہمان نوازی اور وفاداری ھے –
اسلام آباد فی الحال کلچر سے محروم ھے ، کیونکہ کلچر صدیوں میں بنتا ھے ، مگر اس شہر کی عمر ھی ابھی صرف نصف صدی بنتی ھے – دنیا کے ھر علاقے سے آئے ھوئے لوگ یہاں کچھ عرصہ رھتے ھیں اور اپنی اپنی ملازمت کا عرصہ مکمل کر کے واپس چلے جاتے ھیں – شاپنگ کے مراکز میں ھر رنگ و نسل اور علاقے کے لوگ دیکھنے میں آتے ھیں – سفارت خانوں میں دنیا کے ھر ملک کے لوگ رھتے ھیں – شاپنگ کے مراکز میں یورپ اور امریکہ کے گورے ، افریقی ممالک کے سیاہ فام لوگ ، مخصوص عربی لباس میں ملبوس عرب ممالک کے سفارتی ملازم ، گورے چٹے درازقد ترک ، غرض روئے زمین کے ھر خطے کا کلچر یہاں چلتا پھرتا نظر آتا ھے –
اندرون ملک سے پنجابی ، پشتون ، بلوچ اور سندھی تو اپنے گھر کے لوگ ھیں – ملک کے ھر علاقے کے لوگ یہاں مقیم ھیں – ھمارے میانوالی کے بھی بے شمار لوگ اپنی دلکش روایات سمیت یہاں رہ رھے ھیں –
کلچر کے حساب سے یہ کہا جا سکتا ھے کہ فی الحال تو مختلف کلچرز کے مرچ مسالوں کی ایک ھانڈی سی پک رھی ھے – دوچار صدیوں میں یہ ھانڈی پک جائے گی تو جو چیز بنے گی وہ اسلام آباد کا کلچر کہلا ئے گی –
تب تک اسلام آباد گریڈوں (سرکاری عہدوں) افواھوں اور سازشوں کا شہر ھی کہلاتا رھے گا -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک- 8 نومبر 2019
میرا میانوالی———–
ھم زندہ قوم ھیں ———-
یہ بچی کراچی کے ایک ھسپتال کے باھر لگے ھوئے بلب کی روشنی میں اپنے سکول کا پڑھنے لکھنے کا کام کر رھی ھے – اس کے والد گردے کے علاج کے لیے ھسپتال میں داخل ھیں –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-8 نومبر 2019
میرا میانوالی————-
اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد
آج سے 1448 سال قبل مکہ کے اس گھر سے وہ چاند طلوع ھؤا جس کی روشنی قیامت تک اور اس کے بعد بھی ھمیشہ قائم ودائم رھے گی –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-9 نومبر 2019
میری کاوش ————-
آرائش —- شاھد انورخان نیازی
داؤدخیل
میرا میانوالی————-
شجر راھوں کے کٹتے جارھے ھیں
سروں سے سائے ھٹتے جا رھے ھیںکل میرے بڑے بھائی مرحوم ملک محمد انورعلی کی اھلیہ طویل علالت کے بعد یہ دنیا چھوڑ کر عدم آباد جا بسیں – رب کریم ان کی مغفرت فرماکر اپنی رحمت خاص کی امان میں رکھے – میرے لیے وہ صرف بھابھی نہیں ، ماں اور بہن بھی تھیں ، کیوں کہ میری امی اور اکلوتی بہن بہت عرصہ پہلے اس دنیا سے جا چکی تھیں –
کل صبح یہ اندوھناک خبر ملتے ھی میں اور مظہر بیٹا اسلام آباد سے داؤدخیل روانہ ھو گئے اسی شام واپسی بھی ضروری تھی کہ میری اھلیہ اسلام آباد میں زیرعلاج ھیں –
ھم تقریبا بارہ بجے داؤدخیل پہنچے – خاندان کے بہت سے لوگ مدتوں بعد یکجا ھوئے تھے – ھر چہرہ غم کی تصویر، ھر زباں پہ مرحومہ کی خوبیوں کا ذکر – اس سوگوار ماحول میں دو بجے جنازہ اٹھا ، محلے کی جنازہ گاہ میں نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد جسد خاکی کو میاں رمدی صاحب کے قبرستان میں اپنے قبیلے کے لوگوں کے درمیان سپرد خاک کر دیا گیا –
نماز جنازہ سے پہلے اور قبرستان میں اپنے شہر کے بہت سے لوگ بہت پیار سے ملے – ان میں کچھ ایسے نوجوان بھی تھے جو مجھے صرف نام اور خاندان کے حوالے سے جانتے تھے – مگر وہ بھی یوں گلے لگ کر ملے جیسے ھم عمر بھر ساتھ رھے ھوں – اللہ ان سب کو شاد اور میرے داؤدخٰیل کو آباد رکھے – مجھے اپنے شہر اور اس کے لوگوں پر فخر ھے – میں جہاں بھی رھوں داؤدخیل میرے من میں بستا ھے – سب شہر اچھے ھیں ، مگر—- داؤدخیل تاں داؤدخیل اے ناں –
داؤدخیل سے واپسی میرے لیے آسان نہیں ھوتی ، مگر وہ جو شاعر نے کہا تھا ————-
انسان نے نصیب میں مجبوریاں بھی ھیں
ھم تین بجے کے قریب واپس اسلام آباد روانہ ھوئے اور رات آٹھ بجے اسلام آباد پہنچ گئے –
روزانہ خلوص دل سے دعا کرتا ھوں کہ اے رب کریم مجھے زندگی کے باقی دن داؤدخیل میں بسر کرنے کی توفیق اور مہلت عطا فرما –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک- 11 نومبر 2019
میرا میانوالی————-
وہ ھجر کی رات کا ستارا ، وہ ھم نفس ، ھم سخن ھمارا
سدا رھے اس کا نام پیارا ، سنا ھے کل رات مرگیا وہ<کل یہ اندوھناک خبر مطیع اللہ خان کی پوسٹ سے ملی تو سکتہ طاری ھو گیا – کچھ دیر بعد مظہر نیازی صاحب کی پوسٹ نے رلا دیا – یہ پوسٹ مرحوم سے ان کی موت سے ایک دن پہلے ملاقات کا احوال تھی – اس ملاقات میں مرحوم محمد حامد سراج نے کہا میرا آدھا جسم کینسر سے ختم ھو چکا ھے ، پھر بھی اللہ کا شکر ھے کہ اس جسم نے 61 سال تک میرا ساتھ دیا –
پروفیسرمحمد حامد سراج علم ، ادب اور اخلاق ، ھر حوالے سے ایک لیجنڈ تھے – ایسے نفیس مزاج شائستہ انسان بہت کم دیکھنے کو ملتے ھیں – ادب میں ان کا شمار ملک کے چوٹی کے افسانہ نگاروں میں ھوتا تھا – ملک کے تمام بڑے ادبی رسائل میں ان کے افسانے شائع ھوتے رھے – افسانوں کے متعدد مجموعے بھی شائع ھوئے – اپنی والدہ کی زندگی کے اخری دنوں کی داستان پر مشتمل ان کی کتاب “میا“ میری نظر میں ان کا شاھکار تھی – ماں کی عظمت کا ایسا دل میں اتر جانے والا امیج کہیں اور شاید ھی نظر آئے –
مرحوم محمد حامد سراج سے میرا تعارف تقریبا تیس سال پہلے منصورآفاق نے کرایا – میں نے جناب حامد سراج کے آبا ؤاجداد کی مشہور زمانہ خانقاہ سراجیہ لائبریری کے بارے میں انگلش میں ایک مضمون لکھا جو انگریزی روزنامہ پاکستان ٹائیمز میں شائع ھوا – نادرو نایاب کتابوًں اور قرآن حکیم کے قدیم نسخوں کے بارے میں معلومات جناب محمد حامد سراج نے فراھم کیں ، پکچرز منصورآفاق نے بنائیں – یہ پہلی ملاقات عمر بھر کی دوستی کی بنیاد بن گئی – جب بھی ملے بہت پیار سے ملتے تھے – ان کے اور میرے تعلق کو مزید مستحکم مرحوم ناصر خان (الناصرفوٹوسٹوڈیو) نے کیا – وہ بھی جناب محمد حامد سراج کے بہت قریبی دوست تھے –
مرحوم کو خراج عقیدت بہت سے اھل قلم پیش کریں گے – مجھ سے بہتر لکھنے والے لوگ بھی ان کے بارے میں لکھیں گے – حسب توفیق حق دوستی ادا کرنا میرا بھی فرض تھا – یہ سب کچھ لکھنے کے بعد بھی یہ احساس باقی ھے کہ ————– حق تو یہ ھے کہ حق ادا نہ ھؤا
میں ان دنوں اسلام آباد میں ھوں ، پیارے بھائی کا آخری دیدار نہ کر سکنے کا دکھ بھی ھمیشہ رھے گا –
رب رحیم و کریم ھمارے اس محبوب بھائی کی مغفرت فرما کر انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ——
شہر میں اک چراغ تھا ، نہ رھا
ایک روشن دماغ تھا ، نہ رھا
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-14 نومبر 2019
میرا میانوالی————-
میرا میانوالی————-
میانوالی کو افسانوں کی سرزمین کہنا غلط نہ ھوگا – اردو ادب کے چار بڑے افسانہ نگار ، رام لال ، ھرچرن چاولہ ، ظفرخان نیازی اور محمد حامد سراج اسی دھرتی کے بیٹے تھے – اب چاروں اس دنیا میں موجود نہیں – رام لال اور ھرچرن چاولہ قیام پاکستان کے بعد انڈیا چلے گئے – دونوں ریلوے میں ملازم تھے – چاولہ بعد میں ناروے کی ایک لائبریری میں لائبریرین کی حیثیت میں خدمات سر انجام دیتے رھے –
ان دو ھندو افسانہ نگاروں کا اپنے آبائی وطن میانوالی سے پیار ان کے افسانوں میں بھی جابجا نظرآتا ھے-ظفر خان نیازی ریڈیو پاکستان سے وابستہ رھے – بہت اچھے شاعر بھی تھے ، کامیاب افسانہ نگار بھی – محمد حامد سراج کندیاں کے قریب مرجع خلائق خانقاہ سراجیہ کے پیر گھرانے کے چشم و چراغ تھے – گورنمنٹ کالج چشمہ میں اردو کے پروفیسر رھے – ظفر اور حامد کے افسانوں میں بھی میانوالی کے کلچر کی دلنشیں روایات دیکھنے میں اتی ھیں –
افسانوی ادب میں بیسویں صدی کا سب سے اھم اردو ناول “اداس نسلیں “ بھی ضلع میانوالی ھی میں تخلیق ھؤا- اس ناول کے مصنف عبداللہ حسین نے جب یہ ناول لکھا اس وقت وہ داؤدخٰیل کی سیمنٹ فیکٹری میں انجینیئر تھے –
دلچسپ بات یہ ھے کہ متذکرہ بالا چار بڑے افسانہ نگاروں میں سے دو (ھرچرن چاولہ اور ظفرخان نیازی) میرے داؤدخٰیل سے تھے – اور عبداللہ حسین نے اپنا شاھکار ناول “اداس نسلیں“ بھی داؤدٰخیل میں بیٹھ کر لکھا –
اس حساب سے داؤدخٰیل کو افسانوں کی سرزمین کہنا بھی غلط نہ ھو گا –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-15 نومبر 2019
میرا میانوالی————-
بھول چوک بشری کمزوری ھے – کل میانوالی کے ان افسانہ نگاروں کا ذکر ھؤا جو اب اس دنیا میں موجود نہیں – کل شام اچانک یاد آیا کہ ایک بہت اھم افسانہ نگار کا ذکر رہ گیا – وہ صرف ایک اچھے شاعر اور بڑے افسانہ نگار ھی نہیں ، میرے بہت مہربان دوست بھی تھے –
سید نصیر شاہ قومی سطح کی معروف ادبی شخصیت تھے- رب کریم نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا – اردو ، فارسی کے علاوہ عربی کے بھی بہت بڑے عالم تھے- بچپن میں ترقی پسند اھل قلم (پریم چند ، منٹو، کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی وغیرہ ) سے اتنے متاثر ھوئے کہ عمر بھر ترقی پسند نظریات پر مبنی افسانے اور شعر لکھتے رھے- سادہ لفظوں میں ترقی پسند نظریہ غریبوں اور مزدوروں کے حقوق کے لیے قلمی جدو جہد کا دوسرا نام تھا – ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں نے دولت کی غیر مساوی تقسیم اور سرمایہ دارانہ نظام سیاست و معیشت پر سخت تنقید کی – ان پر غداری اور وطن دشمنی کے الزام بھی بہت لگے – قیدوبند کے عذاب بھی ان پر نازل ھوئے ، مگر ان لوگوں نے پروا نہ کی – لکھنے پر پابندیاں لگائی گئیں تو جناب فیض احمد فیض نے کہا ————–
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ھے
کہ خون دل میں ڈبو لی ھیں انگلیاں میں نے
سید نصیر شاہ کو بھی ترقی پسند نظریات کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی – کوئی مستقل ذریعہ معاش اختیار نہ کر سکے ، ورنہ ایسے جینیئس انسان کے لیے سی ایس ایس یا ایم بی بی ایس کرنا کچھ مشکل نہ تھا –
سید نصیر شاہ نے دل کو چھولینے والے بہت سے افسانے لکھے – “ککر دے پھل“ کے عنوان سے ان کے سرائیکی افسانوں کا مجموعہ بھی شائع ھؤا – مرحوم فاروق روکھڑی نے شاعری اور منصورآفاق نے سب کچھ شاہ جی ھی سے سیکھا –
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک- 16 نومبر 2019
میرا میانوالی———–—
میانوالی میں افسانہ نگاری کا گلشن اب بھی ھرا بھرا ھے – نوجوان نسل کے کئی لوگ بہت خوبصورت افسانے لکھ رھے ھیں –
کل شام مظہر بیٹے کے آفس میں حمید قیصر سے ملاقات ھوئی – حمید قیصر کالاباغ سے تعلق رکھتے ھیں – بہت عرصہ سے راولپنڈی اسلام آباد میں مقیم ھیں – کچھ عرصہ انگلینڈ میں بھی رھے ، پھر واپس اسلام آباد آگئے – میں حمید قیصر کی افسانہ نگاری کا دیرینہ فین ھوں – ان کا افسانہ “سیڑھیوں والا پل “ مجھے اپنی ھی داستان حیات کا ایک باب لگتا ھے، کیونکہ راولپنڈی ریلوے سٹیشن کے اس پل سے میری بھی بہت سی یادیں وابستہ ھیں- حمید قیصر کے افسانوں کے مجموعے کا عنوان بھی “سیڑھیوں والا پل “ ھے –
آج کل کالاباغ کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں کتاب لکھ رھے ھیں – ان کے سادہ و دلنشیں انداز تحریر کی وجہ سے یہ کتاب بھی ان شاءاللہ بہت مقبول ھوگی نوجوان افسانہ نگاروں میں وقار احمد ملک سب سے نمایاں ھیں – انگریزی کے شہرہ ء آفاق ناول نگار تھامس ھارڈی کی طرح وقار احمد ملک کے افسانوں میں کرداروں اور واقعات کے ساتھ ساتھ مفصل منظرنامہ بھی بہت اھم کردار ادا کرتا ھے – ھارڈی کی کہانیوں کی طرح وقار کی کہانیوں میں بھی المیہ رنگ غالب نظر آتا ھے-
حال ھی میں محترمہ ارم ھاشمی کے افسانوں کا مجموعہ منظر عام پر آیا ھے – ارم ھاشمی کا انداز تحریر بھی بہت دلکش ھے – سنجیدہ ، مزاحیہ دونوں انداز میں بہت خوب لکھتی ھیں – ان کی افسانہ نگاری میں قرت العین حیدر کا رنگ جھلکتا ھے – ادب کی دنیا میں بہت تابناک مستقبل کی جانب رواں دواں ھیں -\کچھ عرصہ پہلے تک لوگ کہا کرتے تھے ، کہ پڑھنے کا ذوق و شوق ختم ھو رھا ھے – مگر اب فیس بک نے اس ذوق و شوق کو دوبارہ زندہ کر دیا ھے – اس لیے اچھا لکھنے والوں کی محنت اب ضائع نہیں ھوگی – لوگ اپنی پسند کے اھل قلم کی کتابیں بھی بہت شوق سے پڑھیں گے –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک- 17 نومبر 2019
میرا میانوالی————-
ھمارے بچپن کے دور میں سردی کی آمد کے ساتھ ھی گھر میں انقلاب آجاتا تھا – ھم سب لوگ ایک بڑے کمرے میں منتقل ھو جاتے – اس کمرے کا فرش نہ تھا – فرش کی بجائے مٹی کی لپائی کی جاتی تھی —— فرش اینٹوں کا ھو یا سیمنٹ کا سردی کے موسم میں بہت ٹھنڈا ھو جاتا ھے – اس ٹھنڈ ک کا اثر پورے کمرے میں پھیل جاتا ھے – اس مصیبت سے بچنے کے لیے ھماری امی ھمیں ساتھ لے کر فرش کے بغیر والے کمرے میں منتقل ھو جاتی تھیں – اس کمرے کے درمیان میں اینٹوں کا چوکور چولہا بنا ھؤا تھا – چولہے کے تین طرف ھماری چارپائیاں لگا دی جاتی تھیں – چارپائیوں اور چولہے کے درمیان جگہ پر چٹائیاں (پھوڑیاں) بچھا دی جاتیں – سورج غروب ھوتے ھی امی چولہے میں آگ جلا دیتی تھیں – کوئی ایسی ویسی آگ نہیں ، اچھا خاصا بھانبھڑ ھوتا تھا – آدھی رات تک ھم لوگ آگ کے گرد بیٹھ کر“سیک“ لیتے رھتے تھے – کھانا بھی وھیں بیٹھ کر کھایا جاتا -ایک مستقل رواج یہ بھی تھا کہ گرمی کے موسم میں روٹیاں تنور پر بنتی تھیں ، سردیوں کے موسم میں روٹیاں توے پر بنائی جاتیں – سردی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے میٹھا (گڑ یا حلوہ وغیرہ) بھی بہت کھایا جاتا تھا — شام کے بعد ھمیں کمرے سے باھر نکلے کی اجازت نہیں ملتی تھی – دسمبر جنوری میں بارش کی جھڑیوں کے دوران تو امی ھمیں سکول بھی نہیں جانے دیتی تھیں –
اب نہ وہ موسم رھے ، نہ وہ لوگ – نہ وہ محبتیں نہ احتیاطیں – کلچر بھی بدل گیا – اس کلچر نے زندگی آسان بنا دی ھے – لکڑیوں کی آگ کی جگہ گیس کے ھیٹر آگئے ھیں – گیس کی حرارت اپنی جگہ ، اب تو گیس کا بل دیکھ کر ھی پسینہ آ جاتا ھے – موسموں کا چلن بھی بدل گیا ھے – آگے آگے دیکھیے ھوتا ھے کیا ؟ –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-19 نومبر 2019
میرا میانوالی————-
انسانوں کے دل سخت ھوئے تو موسموں کے مزاج بھی سخت ھو گئے – گرمی کا موسم اتنا سفاک کہاں ھوتا تھا – گرمی میں اضافہ بارش کی علامت سمھا جاتا تھا – جب بھی دو چار دن مسلسل گرمی پڑتی اللہ کی رحمت بادلوں کے روپ میں آکر گرمی کی شدت کو ختم کر دیتی –
سردی کے موسم میں ھلکی بارش کی جھڑیاں ھفتہ ھفتہ جاری رھتیں – لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر جمعرات کو بارش کی جھڑی شروع ھو تو اگلی جمعرات تک ضرور چلتی ھے – واقعی ایسا ھی ھوتا تھا ، اللہ جانے کیوں ؟
یہ بھی کہا جاتا تھا کہ بارش خشک سردی کی بیماریوں ( نزلہ ، زکام ، نمونیا وغیرہ) کا قدرتی علاج ھے – واقعی یہ بہت کامیاب علاج تھا -اب سردیوں میں پورا پورا مہینہ بارش نہیں ھوتی – سردی عام طور پر زیادہ نہیں پڑٹی ، لیکن جاتے جاتے ساری کسر نکال دیتی ھے – دو چار ھفتے شدید سردی رھتی ھے ، اور یہ سردی بیماریوں کے علاج کی بجائے ان میں اضافے کا باعث بنتی ھے –
خالص غذا کی توانائی سردی کا احساس بہت کم کر دیتی تھی – کوٹ ، سویٹر ، جرسیوں وغیرہ کا نام و نشان تک نہ تھا – بزرگ سفید لٹھے کی چادر اور خواتین رنگدار سوتی چادریں اوڑھ کر سردی کا موسم آسانی سے بسر کر لیتی تھیں – بہت شدید سردی میں لکار، لوئی یا شال اوڑھ لی جاتی تھی –
بارش کی جھڑیوں میں “جھڑی تتی (گرم) کرنے“ کا رواج بھی مستقل تھا – جھڑی تتی کرنے کے لیے آٹے یا سوجی ، گھر کے دیسی گھی اور پشاوری گڑ سے ایک خاص قسم کا حلوہ سا بناتے تھے ، جسے “کرکنڑاں کہتے تھے – گڑ اور گھی کی پت (شیرہ) بنا کر اس میں آٹا یا سوجی ڈال دیتے تھے – دوچار منٹ میں کرکنڑاں تیار ھو جاتا تھا — کرکنڑاں دس پندرہ منٹ بعد ٹھنڈا ھو کر پتھر کی طرح سخت ھو جاتا تھا – پھر بھی بڑے شوق سے کھایا جاتا تھا -رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-20 نومبر 2019
میرا میانوالی————-
میں اس کرم کے کہاں تھا قابل
14 نومبر کو مظہر بیٹے نے کہا “ اباجی ، آئیں آپ کو عمرہ کروا دوں “-میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میری اتنی بڑی حسرت کی تکمیل اتنی آسانی سے ھو جائے گی – اگلی صبح مظہر بیٹا مجھے پاسپورٹ آفس لے گیا – وھاں ندیم صاحب نام کے ایک افسر اس کے دوست تھے – دو دن بعد انہوں نے میرا پاسپورٹ بنوا کر بھجوا دیا – تیاری کے باقی مراحل بھی بہت تیزی سے طے ھونے لگے – کہیں کوئی رکاوٹ نہ آئی – اکرم بیٹے کو بتایا تو اس نے کہا “لگتا ھے آپ کو بلایا گیا ھے “-
آنکھیں بھیگ گئیں —– کچھ ایسا ھی لگتا ھے —– اچانک یہ سب کچھ کیسے ھوگیا ؟ میں تو اسلام آباد اھلیہ کے علاج کے لیے آیا تھا – یہاں سے عمرے کے لیے جانے کا تو وھم و گمان بھی نہ تھا – یوں اچانک پروگرام کیسے بن گیا ؟ اس سوال کا میرے پاس ایک ھی جواب ھے
یہ تو کرم ھے ان کا وگرنہ مجھ میں تو ایسی بات نہیں
اپنی نعتوں کےاشعار یاد آنے لگے – پتہ نہیں کون سا شعرکام آگیا – ایک عجیب سی کیفیت میں ھوں – اس کیفیت کا ذکر بہت عرصہ پہلے اپنی ایک نعت کے اس شعر میں کردیا تھا ——————
عنایتوں کے یہ سبز موسم ، یہ رحمتوں کی گھٹائیں آقا
مجھے تعجب سے دیکھتی ھیً مری پریشاں دعائیں آقا
ان شآءاللہ 28 نومبر کی شام یہاں سے روانگی ھے – پہلی منزل مدینہ منورہ ھوگی – آپ کی دعاؤں کی ضرورت تو پہلے بھی ھر لمحہ رھتی ھے – اب اور زیادہ ھوگی – آپ میری دعاؤں میں پہلے ھی شامل ھیں ، کہنے کی ضرورت نہیں – اللہ ھم سب کو اپنی رحمتوں کا مستحق بنا دے-
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک- 22 نومبر 2019
میرا میانوالی————-
سمارٹ فون سے ھمیشہ گریز کرتا رھا – بس دل نہیں مانتا تھا – میری نظر میں یہ زنانہ سی چیز تھی جس سے سیلفیاں بنانے کے سوا اور کوئی ایسا کام نہیں لیا جاسکتا جو عام موبائیل فون سے نہ ھو سکے – اس لیے میں ھمیشہ سادہ “نوکیا“ فون ھی ستعمال کرتا رھا –
کچھ ایسا ھی خیال فیس بک کے بارے میں بھی تھا ، مگر اکرم بیٹے کے اصرار پر (با دل ناخواستہ) فیس بک کا کام شروع کیا تو مزا آگیا – چار سال سے روزانہ اس محفل میں شریک ھوتا ھوں – امید ھے فیس بک کی طرح سما>سمارٹ فون استعمال کرنے کی ترغیب بھی بچے بہت عرصے سے دے رھے تھے – مگر دل نہیں مانتا تھا – اب جب دیارحبیب جانے کا ارادہ کیا تو پتہ چلا کہ وھاں سے گھر میں اور باقی دنیا سے رابطے کے لیے واٹس ایپ WhatsApp استعمال کرنا پڑے گا – اس لیے سمارٹ فون سے کام لینا ضروری ٹھہرا – مظہر بیٹے نے سمارٹ فون فراھم کر دیا ھے – مجبورا اسی سے کام چلانا پڑے گا – سمجھنے کی کوشش کر رھا ھوں –
کل کی پوسٹ پر کمنٹس میں جن دوستوں نے سلام پہچانے اور دعاؤں کی درخواست کی ھے ان شآءاللہ ان کی فرمائشوں کی تعمیل کروں گا- مکہ ، مدینہ اور گردونواح میں رھنے والے کچھ دوستوں نے ملاقات کی دعوت دی ھے – ان شآءاللہ ملاقاتیں ضرور ھوں گی – ان دوستوں سے مل کر بہت خوشی ھوگی – ان میں سے بیشتر دوست اب تک مجھے صرف فیس بک کی حد تک جانتے ھیں – اللہ آپ سب کو سلامت رکھے – محبتوں اور دعاؤں کے یہ رابطے ھم سب کے لیے باعث خیرو برکت ھوں –
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-23 نومبر 2019
میرا میانوالی————-
سمارٹ فون پر پہلی پوسٹ-
لیپ ٹاپ والا کام آسان تھا- ادھر کی بورڈ (keyboard) اس سے مختلف ھے۔ ھاتھ رواں ھونے میں کچھ وقت لگے گا- تب تک دعا سلام پر ھی گزارہ کرنا پڑے گا۔
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-27 نومبر 2019
میرا میانوالی————-
ان شآءاللہ آج رات 10 بجے کے بعد سفر کا آغاز ھوگا-پہلے 3 دن مدینہ منورہ میں قیام ، پھر3دن مکہ معظمہ میں ۔ وھاں سے مدینہ واپس آکر 3دن مزید مدینہ میں قیام ، اور 7 دسمبر کو اسلام آباد واپسی ھوگی- آپ کی دعائیں میرا زاد راہ اود آپ کے لئیے دعائیں میرے پاس آپ کی امانت ھیں – ان شآءاللہ آپ سے رابطہ بھی رھے گا–
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک- 28 نومبر 2019
میرا میانوالی————-
عزیز ساتھیو ، السلام علیکم ورحمتہ اللہ۔ بحمداللہ تعالی مدینہ منورہ میں قیام کے دوران آپ میری دعاوں میں شامل ھیں۔ اللہ کریم آپ کے ایمان، جان ، مال اور عزت کی حفاظت فرماے اور آپ کی ھر مشکل آسان کر دے۔ جن دوستوں کے سلام میرے پاس امانت آتے ھیں، پہنچا رھا ھوں۔ دعاوں میں یاد فرماتےرھاکریں۔
کہاں ھم ، کہاں یہ مقام اللہ اللہ۔
الحمدللہ الکریم۔
رھے نام اللہ کا – بشکریہ- منورعلی ملک-30 نومبر 2019