کیوں کیا بات ہے !میانوالی کی فاختہ اور ونی
کیوں کیا بات هے ؟ یہ ہمارے مٹھو کا تکیہ کلام ہے جو آپ اس پک میں دیکھ رهے ہیں یہ پچھلے گیارہ بارہ برس سے ہمارے پاس هے – اور اب تو همارے عزیز و احباب فون پر کبھی هماری خیریت پوچهیں تو یہ سوال بهی پوچھ لیتے ہیں کہ طوطے کا کیا حال ھے – ظاہر هے اتنے عرصے کی سنگت اور رفاقت ایک اثاثہ هوتا هے ، سو مٹهو ہمیں پیارا لگتا ہے لیکن اس کے ہم جنس ساتھیوں کی کمی کا سوچتے ہیں تو دکه بهی ہوتا ہے – اور سب سے زیادہ دکه اس وقت ھوتا ھے جب گرمیوں کے موسم میں اس کے پر کاٹنے پڑتے ہیں کہ کہیں اڑ کر پنکھے سے نہ ٹکرا جائے – یہ سارے گهر میں گهومتا هے اور سوائے کچن کے اسے ہر کمرے میں جانے کی آزادی هے – اس پک میں وہ میرے بیڈ پر بیٹها هے – میرے پاس سویٹس دیکھ کر یہ پائنتی پر چپکے سے آکر بیٹھ گیا تھا اور سویٹ لے کر وہیں کھانے لگا تھا – کچن میں پیاز اور آلو کاٹ کر اپنی طرف سے شاید ہاتهه بٹانے کی کوشش کرتا هے لیکن اس کا تعاون مہنگا بہت پڑتا هے سو اسے کچن میں نہیں جانے دیا جاتا – سارا دن یہ گهر میں کهلا پھرتا ہے ، اور شام کو اپنے پنجرے میں خود جا کر بیٹھ جاتا ہے – اسے شام کے بعد پنجرے سے باہر نکالا جائے تو برا مناتا ہے ، اس وقت جب کہتا ھے ، کیوں کیا بات ہے ، تو لگتا ہے واقعی سوچ کر پوچھ رہا ہے – صبح اٹهه کر بعض اوقات خود ہمیں جگانے آجاتا هے ، اور سردیوں میں باقاعدہ رضائی میں گھس کر آواز دیتا ھے – مینا اور مریم کے باقاعدہ نام لیتا ھے – زرمینہ کی شادی ھوئی تو اس کے چلے جانے پر اس کا نام لینا چهوڑ دیا – گھر میں چهوٹے بچے آئیں تو بہت خوش ھوتا ھے – اپنا کچھ وقت لیونگ روم کی ٹیبل کے نیچے بیٹه کر اور باقی کهڑکی کی ریلنگ پر بیٹھ کر باہر جھانکنے میں گزار دیتا ھے لیکن مہمانوں میں خواتین اور چهوٹے بچے هوں تو اس کی کوشش ھوتی ھے یہ بھی لیونگ میں ان کے پاس آکر بیٹھے – ان کے پکارنے پر فورا” جواب دیتا ھے – ٹیبل سے کرسی، صوفے پر سے ھوتا ھوا چپکے سے کندھے پر آکر بیٹھ جاتا ھے – کئی مہمان ڈر جاتے ہیں کہ کاٹ نہ لے لیکن یہ کاٹنا بهول چکا هے – لیکن مرد حضرات اسے آواز دیں تو بہت زور سے مختصر سی ٹیں ٹیں کر کے لاتعلقی اور بیزاری کا اظہار تو کرتا ہے ، لیکن انہیں بهی کاٹتا نہیں – اس کی تنہائی کا سوچ کر اس کیلئے میانوالی سے تین بار طوطیاں لائی گئیں – لیکن وہ طوطیاں اسے اس کے کیوں کیا بات ھے کے جواب میں مارتی تهیں – میں نے اپنے بهانجے رضوان سے پوچها کہ میانوالی کی طوطیاں اب اتنی لڑاکا کیوں ھو گئی هیں تو اس نے مجهے دلچسپ بات بتائی – کہنے لگا ، آپ طوطیوں کی بات کرتے ہیں یہاں تو گیلڑیاں یعنی فاختائیں بهی آپس میں لڑتی دیکهی گئی ہیں – حالانکہ یہ پرندہ انتہائی پر امن هے – شاید گرم موسم کا اثر هو – یا شہر کے لوگوں کے مزاج کا عکس ان میں بھی آگیا ھو – تلخ حقیقت یہی هے کہ میرے شہر کے لوگ جلد ناراض هو کر مارنے مرنے پر تل جاتے ہیں اور پھر جلد منانے اور جهگڑے سے جان چهڑانے کے چکر میں بیٹیاں ونی کرنے تک آجاتے ہیں – اس غیر متوازن ، عدم برداشت کے رویے نے کئی خاندان اجاڑ کر رکھ دیئے ہیں – دکهه کی بات یہ ھے کہ ونی کا گهٹیا لفظ میانوالی نے ھی پاکستانی اردو کو دیا ھے – ہاں اب میانوالی میں اتنا فرق ضرور پڑگیا هے کہ آج سے بیس پچیس سال پہلےیہاں قتل کی وارداتوں کا تناسب بہت زیادہ تها – اب قتل کی وارداتیں بہت کم هو گئی ہیں لیکن جهگڑے ایک حد تک اب بھی بہت ھوتے ہیں اور کسی کو کہو ، کیوں کیا بات ھے ، تو چهوٹا موٹا جهگڑا گلے پڑ ھی جاتا ھے –
طوطوں کے بارے میں کہا جاتا هے کہ یہ بے وفا هوتے ہیں ، اڑنے کا موقع ملے تو واپس نہیں آتے لیکن همارا مٹهو اڑ کر دو دفعہ همارے میڈیا ٹاون کے چهوٹے سے جنگل میں راتیں گزار کر گزار کر واپس لوٹ آیا ہے – اسے جنگل میں آزاد رہنے کا قرینہ ہی بهول گیا ہے ورنہ ہم اسے اب تک اڑا چکے ہوتے –
اس مٹھو کی چند دیگر باتیں جو شاید آپ کو بھی دلچسپ لگیں – کال بیل بجے یا کوئی مہمان گھر میں انٹر ھو تو طوطا ٹیں ٹیں کرکےے اور ھمارا ڈوگی بھونک کر ان کی آمد کا اعلان کرتے ہیں – ھماری کال بیل خراب ھو جائے تو بھی ھمارا گزارا ھو جاتا ھے – زرمینہ کی شادی کے بعد اس نے مینا مینا کہنا چهوڑ دیا تھا – شادی کے چند ماہ بعد زرمینہ مسقط سے گھر آئی تو اس نے دیکھتے ہی آواز دی ، مینا ، مینا — ھم سمجھ رھے تھے ، زرمینہ کو بھول گیا ھے – ڈوگی نے دور سے تو نہ پہچانا اور بھونکنے لگا لیکن زرمینہ کے قریب آنے پر وہ بھی خوشی سے یوں اچھلا جیسے اس نے ذرمینە کو پہچان لیا ھو –
مٹھو کو میں جب آواز دوں تو وہ مجھے سخت لہجے میں ٹیں ٹیں کا جواب دیتا ھے اور بات نہیں کرتا ، یعنی میرے ساتھ بھی بظاہر لاا تعلقی کا اظہار کرتا ھے – ایک وقت تھا کہ گھر میں سب سے زیادہ میرے ساتھ اٹیچ تھا اور وقت ناوقت میرے سرہانے آکر یوں آوازیں نکالتا تھا جیسے کوئی بات کہہ رہا ھے – کوئی لفظ واضح نہیں ، بس مہمل سی گفتگو – لیکن میں نے ایک دفعہ اسے بری طرح ڈانٹ دیا تھا – وہ دن ، آج کا دن ، مجه سے ایسا ناراض ھوا کہ کئی برس ھو گئے ، اس نے تعلقات بحال نہیں کئے – میری فکر اسے البتہ رهتی هے اور لگتا هے اندر سے پیار بهی کرتا ھے – مثلا” اب بھی چند دن باہر گزار کر آوں تو یہ فورا” آکر پہلے تو بیڈ پر قریب آکر بیٹھ جاتا ھے اور چپ چاپ مجهے دیکهتا رہتا هے ، جیسے مجهے مس کرتا رها هو – لیکن جب اسے آواز دوں ، مٹھو کیسے ھو ، کیا بات ھے ، تو اس کی محویت کا عالم فورا” ٹوٹ جاتا ھے اور سختی سے ٹیں ٹیں کرتا ھوا دور چلا جاتا ھے –
میری بیگم کسی بچے کو گود میں اٹھائے تو یہ ٹیں ٹیں کرتا گود میں آنے کی کوشش کرتا ھے بالکل جیسے چهوٹے بچے کرتے ہیںں – ایک بار اس کو آزمانے کیلئے اس نے گود میں تکیہ رکھا ، وہ دور سے سمجھا کوئی بچہ گود میں ھے ، بھاگ کر آیا اور گود میں بیٹھ گیا – گائے اور کتے کی جیلسی کے واقعات تو دیکھے تھے ، اس طوطے سے اندازہ ھوا کہ پیار میں ساجها کوئی برداشت نہیں کرتا – شاید پالتو طوطوں میں بھی جیلسی پائی جاتی ھے –
مجھے یہ طوطا میرے ریڈیو کے دوست ، انجنیئر راجہ رفیق الرحمان نے گفٹ کیا تھا – اور جب نیا نیا آیا تها تو یہ اکثر بے بی ، بے بیی پکارتا تھا – راجہ سے پوچھا ، اس عمر میں آپ کے ہاں کیا پهر سے بے بی ھوا ھے – کہنے لگے ، اوہ نئیں جی ، میں تو اپنی بیگم کو بے بی کہتا هوں – یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن ایک دن اس نے همارے ایک مہمان کو وہ خطاب دے دیا جو راجہ صاحب غصے میں اپنے بچوں کو دیتے تھے – ایک مہمان ھمارے ہاں آیا تو اس نے آواز لگائی – فقرے کی سمجھ تو نہ آئی لیکن مہمان بہت خوش ھوگیا ، کہنے لگا کمال هے دیسی طوطا هے اور باتیں کرتا ھے – شکر ھے اسے اندازہ نہیں ھوا یہ کیا کہہ رہا تھا ورنہ جهگڑا هو جاتا –
یہ مہمان کو الو کا پٹھا ، الو کا پٹھا کہے جا رھا تھا – میرے بچوں نے اس کا پنجرہ اٹھا کر دوسرے کمرے میں رکھ دیا – اس دن کے بعدد سے ھم اسے مہمانوں سے دور رکھنے لگے اور الو کے پٹھے کی بات کا کوئی ریسپانس نییں دیتے تھے – آخر اس نے خود هی بے بی اور الو کا پٹھا کہنا چهوڑ دیا –
اس دوران میں اس نے کئی باتیں سیکهیں ہیں اور بھلاتا رہا هے لیکن اس کی سوئی کیوں کیا بات ھے ، پر آکر اٹک گئی ھے –
آپ بھی سوچ رھے هوں گے یہ طوطا کہانی میں نے کیوں شروع کر دی – اصل میں یہ درخواست آپ کے گوش گزارر کرنا تهی کہ یہ معصوم مخلوق ، اور اس طرح کے دیگر قدرت کے انمول تحفے هماری اجتماعی غفلت سے اپنی بقا کی جنگ میں ہارنے لگے ہیں اور ان کی تعداد دن بہ دن گهٹ رھی ھے – اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ ان کے بچوں کے اغوا کا مسئلہ هے – یہ جنگلی پرندوں کے بچوں کا موسم ہے – چڑی مار جنگل بیلے میں ان کے گهونسلوں اور آشیانوں کو اجاڑ کر ان کے بچے مارکیٹ میں لے آئیں گے اور کئی طوطوں کے جوڑوں کی گود خالی کر دیں گے –
بچوں کے علاوہ جوان جنگلی پرندوں پر یہ بهی ظلم ہوتا ہے کہ چڑیمار انہیں پکڑ کر بازار میں لے آتے ہیں تاکہ کچھ پیسے دے کرر آپ ان پرندوں کو آزاد کر کے ثواب کمائیں یا اپنی کوئی منت پوری کر لیں – نتیجہ یہ کہ پرندے تیزی سے گھٹتے جا رہے ہیں –
اس کے علاوہ پرانے گهروں کے ڈیزائن میں ان کے گھونسلوں کی گنجائش تهی ، جدید طرز معاشرت میں ہم نے ان کیی رہائش کا کچھ نہیں سوچا – جدید زندگی کے تعاقب میں ھم سے گھریلو چڑیاں اور دیگر پرندے بچهڑ گئے ہیں – وہ سر بکھیرتی ، سکون بخشتی آوازیں اور چہچہے ہم سے کهو گئے ہیں – سوچنا یہ ھے کہ ھم اپنی انفرادی سطح پر ان کیلئے کیا کر سکتے ہیں ؟
لیکن کیا پرندوں کا بماری زندگی سے اخراج واقعی کوئی سنگین مسئلہ ھے بھی سہی یا میری شاعرانہ سوچ بات کا بتنگڑ بنا رہیی ہے –
ظفر خان نیازی – 11مئی2016