روحیں بلانے کا کھیل
ایک ذاتی تجربہ
شرلاک هومز کے خالق ڈاکڑ سر آرتهر کانن ڈائل کو پیغام ملا کہ اس کا ایک دوست قریب المرگ ھے اور وہ اس سے بات کرنا چاہتا ھے –
موصوف نے جواب دیا ، فے الحال میں بہت مصروف هوں – میں بعد میں اس کی روح سے بات کر لوں گا –
روح کو بلا کر ان سے باتیں پوچھنے کا ھر زمانے اور ھر مذہب کے لوگوں کو شوق رہا ھے – انسان کے سامنے سب سے بڑا سوال یہی ھے کہ وہ کہاں سے آیا ھے اور کہاں جانا ھے – ہر مذہب نے اسی سوال کو بنیادی اہمیت دی ھے اور مختلف مذاہب کی مختلف تشریحات اور تصورات کے باوجود ان سب میں ایک بات مشترک ھے ، وہ یہ کہ جسم کے ٹهنڈا ھو جانے اور روح نکل جانے پر جسم تو گل سڑ جاتا ھے لیکن روح کو موت نہیں ، اس کا سفر جاری و ساری ھے – کچھ لوگ سرے سے آگے جانے کے تصور کو هی محض وہم سمجھتے ہیں – ان کے خیال میں سانس ختم تو کھیل ختم – ایسے افراد کو ملحد کہا جاتا ھے – حقیقت کیا ھے ، کیا نہیں ، یہ بحث بہت طویل ھے ، بہرحال جسم سے بچهڑی روحوں سے ملاقات اور ان سے باتیں کرنے کے شوقین اور دعویدار دنیا کے ہر کونے میں پائے جاتے ہیں – مغربی دنیا میں روحوں کو بلانے کی کئی سوسائٹز ، گروپ یا کلب بنے هوئے هیں – مسمانوں میں بھی کشف القبور کے نام سے کچھ لوگوں کو قبرستانوں میں نئی پرانی قبریں کے گرد ان کی روحوں سے ملاقات کے شوق میں سرگرداں دیکها گیا ھے لیکن میں نے ان میں سے کسی سے ان کے تجربات کا ذکر نہیں سنا – لیکن آپ نے اپنی زندگی کا کچھ حصہ کسی هاسٹل میں گزارا ھے تو آپ نے دیکھا ھوگا کئی لوگ شغل میں مذاق کے طور پر روحیں بلانے اور ان سے سوال و جواب کرنے کا کھیل ضرور کھیلتے ہیں – میرا بھی کچھ ایسا ھی تجربہ ھے – اور اگر آپ نے جوش صاحب کی کتاب ‘یادوں کی بارات ‘ پڑھی ھو تو آپ کو معلوم ھوگا انہوں نے ایسے ھی تجربے کا ذکر کیا ھے اور لکھا ھے ، کہ مرزا غالب کی روح کو بلایا اور نام پوچھا تو پنسل نے جواب میں نام لکھا – میرا نام غالب مغلوب ھے – وہ پنسل کس طرح لکھتی تھی انہوں نے اس کی وضاحت تو کی ھے لیکن میں سمجھ نہیں سکا ، جو تجربے میں نے دیکھے وہ اس پک کے مطابق ھی تھا جو آپ دیکھ رهے ہیں – ایک صاف سطح کی میز پر درمیان میں ایک اوندھا گلاس ، اس کے اوپر والے حصے میں انگلش کے حروف ، اے سے زیڈ تک اور نیچے کے حصے میں صفر اور ایک سے نو تک کے ھندسے ، گلاس کے دائیں طرف ایک آدهه فٹ کی دوری پر یس yes اور بائیں طرف نو No لکھ دیا اور روح بلانے کا سٹیج تیار – لگتا ھے روحوں کے جہان میں بھی اب انگلش چلنے لگی ھے – وہاں بھی ہم اردو میڈیم —؟
یہ 1979 کی بات ھے – میں ان دنوں کوئٹہ میں تھا – دن ریڈیو ، عصر اور شام عطا شاد کی آرٹس کونسل رات کو پہلا پہر کوئٹہ پریس کلب اور رات گئے جب پی ٹی وی والے اپنی نشریات ختم کر کے آتے تو ٹی وی پروڈیوسر قمر محی الدین ، خالق سرگانہ یا پھر رفیق گورائیہ کے ساتھ اکثر و بیشتر ٹی وی ہاسٹل جا کر خوش گپیاں اور دیر تک جاگتے رہنے کے بعد صبح دیر تک وہیں سویا رہتا – میرا ریڈیو ہاسٹل گوالمنڈی چوک پر تھا – لیکن اس هاسٹل میں وہ رونق یا شغل نہیں تها جو ٹی وی ہاسٹل میں تها – کبھی دل چاہا تو اپنے ہاسٹل چلا جاتا – کسی نے چهڑے کی نشانی بتائی ھے کہ ایسا شخص جو ہر روز اپنے کام کاج کی جگہ پر صبح ہر بار مختلف سمت سے آریا ھو – یہ نشانی ان دنوں مجھ پر پوری اترتی تھی – پی ٹی وی ہاسٹل میں میرے ان نیوز پروڈیوسر دوستوں کے علاوہ ہر کیڈر کے لوگ تھے – ان میں ایک نوجوان تسنیم شیروانی تھا ، سمارٹ ، قد آور ، بے تکلف اور خوش مزاج ، جو پی ٹی وی میں فلم ایڈیٹر تها – نظر کی عینک لگاتا تھا – کوئٹہ سے آنے کے بعد اس سے پهر کبھی ملاقات نہیں ھوئی – اور ایک اور دوست شمیم شیروانی نے کوئی بیس سال بعد اسلام آباد میں بتایا کہ تسنیم امریکہ سے آیا تھا اور سلام کہہ رہا تھا – اس دن معلوم ھوا کہ وہ شمیم شیروانی کا چهوٹا بھائی ھے – شمیم شیروانی سے پرانی کتابوں کی تلاش میں اولڈ بک سنٹر سپر مارکیٹ اسلام آباد میں مسلسل ملاقاتیں ریتی تهیں – وہ خوش مزاج ہنسوڑ طبعیت کا کتاب دوست انسان چند سال پہلے راولپنڈی میں انتقال کر گیا ھے – تسنیم امریکہ میں ھے ، اللە کرے خیر سے ھو –
ایک رات جب سردی انتہا کی تھی ، ہیٹر یا گیس کا بندوبست نہیں تھا – نیند نہیں آرهی تھی ، قمر محی الدین اور میں بیٹھے تھے ، تسنیم ، قمر کے کمرے میں آیا اور کہنے لگا ، چلو شغل کرتے ہیں ، آج کسی روح کو بلاتے ہیں – قمر نے کہا ، ٹھیک ھے – میں نے کہا ، وہ کیسے – انہوں نے کہا ، لالہ آپ بس دیکھتے جاو –
میں ایک بات واضح کر دوں ، اللە مجھے معاف کرے ، ان دنوں سوشلزم اور اسلام کی بحث وتکرار کے چکر میں میں اسلام سے بہت دور هو گیا تھا – نماز روزہ تو کیا ، عید کی نماز بھی چهوٹ گئی تھی اور ہمیں اس ترقی پسندی کی طرف دهکیلنے میں هماری جہالت سے زیادہ ان مذہبی سیاسی رہنماوں کے فتووں کا دخل تھا جنہوں نے روٹی ، کپڑا ، مکان اور سوشلزم کے معاشی نظریہ کو کفر اور اپنے سیاسی مخالفوں کو کافر قرار دے رکھا تھا – ہم میں سے بہت نوجوانوں نے تنگ آکر یہ طعنہ قبول ہی کر لیا تها – میں تو خوش قسمت هوں کہ اپنی دنیا کو لوٹ آیا هوں لیکن سوچتا هوں کہ کتنے بد نصیب ان فتووں کی ضرب سے جانبر نہ ھو سکے – مطالعے کا مجھے ان دنوں بھی شوق تھا – دنیا بھر کے ادب کے ساتھ ساتھ جنرل موضوعات میں میٹا فزیکس ( ما فوق الفطرت) پڑھنے کا مجھے بہت شوق تھا – دست شناسی ،ٹیرٹ ، تاش کے پتوں سے قسمت کا حال ، بدھ راہبوں کی پریکٹس ، یوگا کیا ھے ، وغیرہ سے مجھے بہت دلچسپی تھی – البتہ آسٹرالوجی یعنی علم نجوم اور تعویذ وغیرہ سیکھنے سمجھنے کی طرف طبیعت کبھی نہیں گئی – اگرچہ ان دنوں آرٹس کونسل میں خادم مرزا اور عطا شاد ستاروں کی چال اور قسمت وغیرہ کے شوق میں بہت گرفتار تھے – سو روح بلانے کا عمل مجھے دلچسپ لگا –
عمل شروع اس طرح ھوا کہ تسنیم نے ایک چهوٹی میز سامنے رکھ کر حروف و ہندسے اسی ترتیب میں میز پر لکھ دیئے اور ایک جگہ پر جسے آپ مرکز کہہ سکتے ہیں ، شیشے کا ایک گلاس اوندھا کر کے رکھ دیا اور اس پر اپنی انگلی دھیرے سے رکھ دی ، دوسری طرف سے قمر نے اپنی شہادت کی انگلی گلاس پر رکھ دی اور مجھے کہا گیا کہ میں بھی اسے انگلی سے ٹچ کروں – میں نے گلاس پر زور سے انگلی جمائی تو مجھے کہا گیا کہ اسے بس چھونا ھے ، زور سے دبانا نہیں ھے – اس کے بعد تسنیم نے ہاکروں کی طرح آواز لگانا شروع کر دی ، کوئی روح ادھر سے گزر رھی ھے تو پلیز ھمارے ساتھ بات کرنے کیلئے اس گلاس میں آجائے – کچھ دیر اسی طرح آواز لگاتے گزری تو اچانک یوں لگا جیسے گلاس پهڑپهڑایا ھو – تسنیم نے کہا ، کوئی روح اس گلاس میں ھے تو ہاں کی طرف گلاس جائے – ھم تینوں اس الٹے گلاس پر اپنی انگلیاں بدستور رھے ھوئے تھے – گلاس حرکت کرکے یس کے لفظ کی طرف چلنے لگا – مجھے سمجھایا گیا کہ گلاس کو دھکیلنا نہیں ، نہ هی دبانا ھے ورنہ گلاس الٹ جائے گا اور گلاس کے اندر جو روح ھے ، وہ نکل جائے گی – بس اسے چھونا ھے – ماسٹر آف سرمنی تسنیم تھا سو اس کے کہے پر عمل کرتا رھا – یس جواب کے بعد گلاس کو واپس مرکزی نشان پر لایا گیا اور اب سوال کیا گیا ، کیا آپ ہمارے سوال کا جواب دینا پسند کریں گے – گلاس نو کی طرف چل پڑا – تسنیم نے گلاس اٹھا لیا اور ناراض ھو کر کہا تو پھر جاو ، ہمارا وقت کیوں ضائع کر رھے ھو – گلاس دوبارا مرکز پر رکھ کر تسنیم پھر اسی طرح آواز لگانے لگا – خاصا وقت لگا اور پھر گلاس کانپا – درمیان میں همارا ہنسی مذاق کا شغل چلتا ریا – اب جو گلاس پهڑپهڑایا تو ھم متوجہ ھوئے – تسنیم نے کہا ، کیا آپ ہمارے سوالوں کے جواب دیں گے – گلاس یس پر جا کر ٹھہر گیا –
آپ کا نام کیا ھے –
گلاس نے حرکت کی اور لفظ وی v پر چلا گیا – واپس مرکز پر لایا گیا تو گلاس اے پر آگیا – اب طے یہ کیا گیا کہ اس طرح گلاس کو بار بار مرکز پر لانے سے میں دیر بہت ھوتی ھے ، گلاس کی حرکت کو اسی طرح جاری رکھا جائے – اب جو گلاس چلا تو سمجھ میں نہ آیا یہ کیا نام بن ریا ھے – قمر غالبا” وہ حرف ساتھ ساتھ لکھ ریا تھا – ایس پر آکر گلاس رک گیا جیسے نام مکمل ھو گیا ھو – لفظ ترتیب دیئے اور ذهن پر زور دیا تو پتہ چلا یہ واسو داس بنتا ھے –
اگلا سوال یہ تھا – تم کہاں رہتے تھے – – گلاس جی او اے پر گهوم کر رک گیا – جی او اے – اوہ ، یہ تو گوا بنتا ھے – اگلا سوال کیا گیا – مرتے وقت تمہاری عمر کی تھی – گلاس نیچے ہندسوں والے پورشن کی طرف چل پڑا – 3 پر جا رک گیا اور پھر زرا آگے جا کر واپس 3 پر آگیا – 33 سال ؟ – یس –
کس طرح مرے ؟ – جواب آیا – ایکسیڈنٹ
قمر محی الدین نے کہا ، میرے پنڈ دا نمبر کی اے – گلاس 216 پر گھوم کے رک گیا – قمر بولا – اوئے ایہہ تے ٹھیک دس رہیا اے – میں نے سوال کیا ، میں جس لڑکی سے محبت کرتا هوں ، اس کا نام کیا ھے – گلاس جے اے ایم تک گیا تو میں نے کہا – روکو روکو – میں گھبرا گیا ، گلاس تو میرا راز فاش کرنے والا تھا – پہلے تینوں حروف سو فیصد درست تھے – میں نے اگلا سوال کیا – میری اس سے شادی ھوگی – جواب ملا – نو – پوچها- وجہ؟ جواب آیا ، فیملی – پوچھا کس کی فیملی – جواب ملا – یورز –
مجھے یہ یاد نہیں اس دن اس روح سے دوسروں نے اور کیا سوال پوچھے تھے – اس بات کو 37 سال ھو چکے ہیں –
ایک دن پھر روح بلانے کا شغل کیا گیا – اس دن غالب کی روح کو بلایا گیا – میں نے سوال پوچھا ، آج کل اردو کا سب سے بڑا زندہ شاعر کون ھے – گلاس چل پڑا -ایم اے جے – سمجھ نہ آیا کدھر گلاس جا رھا ھے – سارے حرف جمع کئے تو یہ مجروح سلطان پوری کا نام بنتا تھا –
میں نے پوچھا – غالب صاحب ، میری شاعری کیسی هے – جواب میں او کے پر گلاس رک گیا – غالب سے او کے کی سند بھی بہت تھی – تسنیم مذاق میں چاچا غالب کہہ کر باتیں کر رہا تھا –
یہ 1979 کا زمانہ تھا – جس دن بهٹو کو پھانسی ھوئی اس دن پاکساتنی قوم پر سکتہ طاری هو گیا تها – وہ رات بہت بوجھل گزری – کسی کا کچھ بھی کرنے کو جی نییں چاہتا تھا – اس سے اگلی رات تسنیم نے کہا ، آو آج بهٹو صاحب کی روح کو بلاتے ہیں –
اس رات اسی طرح گلاس وغیرہ پر انگلیاں رکھ کر تسنیم نے بهٹو شہید کی روح کو آواز دینا شروع کی – گلاس نے حرکت کی – سوال کیا ، آپ بهٹو صاحب هیں – گلاس یس کی طرف چل پڑا –
سوال کیا ، آپ ہمارے سوالوں کے جواب دینا پسند کریں گے – گلاس نو کی طرف گھوم گیا – پوچھا ، کیوں –
جواب آیا – آئی ایم ٹائرڈ –
بوجھل دل سے الٹا گلاس اٹھا لیا گیا –
مجھے روحوں کے اس کھیل میں اوروں کے باقی سوال یاد نہیں – ان مختلف محفلوں میں ٹی وی کے اور ساتھی بھی شامل ھوتے تھے اور اس سوال و جواب میں کوئی سنجیدہ نہیں ھوتا تھا – سارے ہنس کهیل رهے هوتے تهے – ایک دن میں نے کسی روح سے یہ پوچھا تھا ، میری بیوی کا نام کیا ھوگا – جواب ملا تسنیم –
مجھے باقی سارے سوال کے جواب تو اسی وقت صحیح ملے ، بعد میں میری والدہ نے میری شادی کی درخواست کو بھی سختی سے ٹھکرا دیا اور میری فیملی کی وجہ سے یہ شادی نہ ھوئی تو یہ جواب بھی درست ھوگیا – اب تسنیم سے شادی والی بات رہ گئی تھی –
ایک دلچسپ بات کا اضافہ کر دوں – ایک دن میں نے یہی سوال خادم مرزا اور عطا شاد سے پوچھا – اس دن ہم کیفے صادق میں بیٹھے تھے – دن دو اڑھائی بجے کا وقت تھا – اسڑالوجی والے مستقل زائچے کے علاوہ سوال کرنے کا وقت ، اور کچھ اور عوامل کو دیکھ کر وقتی زائچہ بھی بناتے ہیں – انہوں نے ستاروں کی چال وغیرہ دیکھی اور مجھے جواب میں کہا – ہمارے حساب سے یہ شادی نہیں ھوگی اور اس کی وجہ تمہاری فیملی کی رکاوٹ ھوگی – جے اے ایم سے میری شادی نہ ھو سکی – والدہ کا مستقل انکار اس کی وجہ بنی – میں پانچ چھ سال کی عمر میں یتیم ھو گیا تھا – میری اماں ھی میرا باپ بھی تهیں –
سن 1981 میں میں کوئٹہ سے ٹرانسفر ھو کر پنڈی آگیا – اس وقت تک میری عمر 34 سال ھو چکی تھی – میری شادی میرے گهر والوں کیلئے سنگین مسئلہ بنتی جا رهی تهی – سن 83 میں بڑی بہن نے لاهور میں برادری سے باہر کی ایک لڑکی پسند کی – یہ کوئٹہ ہی کا ایک خاندان تھا ، مجھے تصویر دکھائی گئی – بہت ھی خوبصورت ناک نقشہ – جواب میں میں اس کے گھر والوں کو اپنا منہ دکھانے لاہور جا پہنچا – مجھے اس لڑکی کے گھر والوں نے پسند کر لیا – هاں ھو گئی – لڑکی کا نام پوچھا ، معلوم ھوا نام تسنیم ھے –
کچھ عرصہ گزرا ، خاندانی حالات ایسے ھوئے میں نے رشتے سے انکار کر دیا – بعد میں دکھ تو بہت ھوا کہ خواہ مخواہ ایک لڑکی کے خواب ٹوٹے هوں گے لیکن حالات ھی ایسے بن گئے تھے – بہر حال شادی تسنیم سے نہ ھوئی –
آخر جیسے سب کی شادی ھو ھی جاتی ھے ، میری بھی سن 85 میں شادی ھو گئی لیکن تسنیم سے نہیں ثوبیہ سے – سو یہ بات صحیح نہیں نکلی –
ایک دن میری کمپیئر ساتھی اور معروف شاعرہ نورین طلعت عروبہ نے کہا – نیازی صاحب ، اس دن میں آپ کی کتاب خواب کنارے میں بیت بازی کیلئے ث سے شروع ھونے والے شعر ڈهونڈتی رھی ، مجهے ایسا ایک بھی شعر نہیں ملا –
مجھے خیال آیا اللہ اللہ کر کے مشکل سے 38 سال کی عمر میں بیوی ملی ھے جس کا نام ھی ث سے ھے – اور میں نے ث کے لفظ کو کبھی لفٹ ھی نہیں کرائی – سو خفت مٹانے کیلئے میں نے آٹهه اشعار کی ایک ایسی غزل لکھی جس کا ہر شعر ث سے شروع ھوتا ھے – مطلع سنا دیتا هوں ، میری یہ غزل خوابشار میں ھے –
ثنائے حسن مری فکر سے عمل تک ھے
اسی کا عکس میری آخری غزل تک ھے
روفیسر مسعود الرحمان اس پوسٹ پر لکھتے ہیں –
میں سلسله نقشبند سے وابسته ھوں – اپنے علم اور تجربے کی بنا پر عرض کرتا ھوں که کشف القبور تو واقعی ھوتا ھے لیکن روحوں کو طلب کرنے کا عمل فریب حواس ھے – اس عمل میں جنات تفریح کی غرض سے شامل ھو جاتے ھیں اس لیے کچھ باتیں درست بھی ھوتی ھیں – جنات کا علم بھی محدود ھی ھوتا ھے –
جی ہاں پروفیسر صاحب ، مسلم جمہور کا یہی عقیدہ ھے – میں نے اس تجزیئے کو پڑهنے والوں پر چهوڑ دیا تھا اور اس بات کی کمی محسوس کر رہا تھا –
آپ کا بہت شکریہ –
میں ایک بات کی وضاحت کر دوں – تسنیم روح بلانے کیلئے کوئی منتر نہیں پڑھتا تھا اور دوران عمل بھی انتہائی ہنسی مذاق میں مصروف رہتا تھا – ان لوگوں کا مقصد مل بیٹھ کر تهوڑی دیر کیلئے شغل کرنا اور گھر سے دوری کے احساس کو مٹانا تھا – ورنہ عام طور پر لوگ کسی مقصد کیلئے خاص طور پر روحانی دکانداری کیلئے ایسے کام کرتے ہیں جس کیلئے انہوں نے کئی چلے کاٹے ھوتے ہیں اور طرح طرح کے ڈھونگ جو صاف طور پر غیر اسلامی اور غیر مستحسن ھیں –
میٹا فزکس کے کچھ موضوعات پر میں مزید عرض کر سکتا تھا لیکن شاید اس طرح یہ پوسٹ بوجھل ھو جاتی –
باٹم لائن یہ هے کہ پهر میری خوش قسمتی کہ زندگی میں پپلاں کے حضرت مظہر قیوم صاحب سے ملاقات کا شرف نصیب هوا – ان کی گفتگو نے میٹا فزکس کے بارے میرا نظریہ اور رویہ یکسر تبدیل کر دیا – اس سے پہلے میں پامسٹری کا قائل تھا – خود بھی کبھی کبھار پاتھ دیکھ کر مزاج اور ماضی کی باتیں بتانے کی کوشش کرتا تھا – حضرت مظہر قیوم کی گفتگو اور ان کی پیاری زبان سے پیش آنے والے واقعات کے کھلے اشارے دیکھ کر مجهے پامسٹری وغیرہ کا سارا علم ھی بہت بودا اور کم علمی کا سودا لگا –
یہ روحوں کا کهیل کیا ھے ، اللە بہتر جانتا ھے – اس میں کوئی تکا لگ بھی جاتا هے ، لیکن حقیقت اللہ کو معلوم هے اور پھر اس نے کہہ بھی دیا ھے کہ انسان کو روح کے بارے میں بہت ھی کم علم دیا گیا ھے ، بہر حال حضرت مظہر قیوم کی خدمت میں حاضری کے بعد ان کی واضح باتوں اور کھلے اشاروں کو دیکها تو اندازہ هوا کہ یہ پامسٹری اور یہ آسٹرالوجی تو نامکمل اور ناقص علم ھے – جبکہ درویشوں پر اللہ کی خاص عنایت ھے اور ان کے علم کی دولت کتنی وسیع ھے ، اندازہ لگانا مشکل ھے —–
کبھی موقع اور حوصلہ ملا تو حضرت مظہر قیوم کی کچھ باتیں آپ سے شیئر کروں گا –
——– واللہ اعلم بالصواب—-
ظفر خان نیازی – 31مارچ2016