MERA MIANWALI  MAY 2024
منورعلی ملک کے مئی 2024     کے فیس  بک   پرخطوط

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا ہی اچھا دور تھا جب ہم داودخیل کے پانی کو جنت کا پانی کہا کرتے تھے۔ یہ پانی کنووں اور گھروں میں لگے ہوئے نلکوں (ہینڈپمپس) سے حاصل کیا جاتا تھا۔ قدرت کی یہ بے بہا نعمت پورے علاقے میں مفت دستیاب تھی۔ یہ پانی آج کے منرل واٹر سے زیادہ صاف شفاف ہوتا تھا۔ پھر یہ بھی ترقی کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا شکار ہو کر کڑوا اور بد ذائقہ ہو گیا۔

شہر کے مغرب میں نہر تھل پراجیکٹ اور مشرق میں لفٹ سکیم کی چھوٹی نہر کے پانی سے بننے والی زیر زمین سیم کے زہر نے اس پانی کو زہر آلود کر دیا۔ شہر میں کنوئیں ویران اور ہینڈ پمپ ناکارہ ہوگئے۔ نہر کے کنارے ٹیوب ویل لگا کر ایک ادھورا سا واٹر سپلائی سسٹم بھی بنایا گیا۔ مگر یہ زیادہ تر کسی نہ کسی بہانے بند ہی رہتا ہے۔ چلے بھی تو شہر کے آدھے سے بھی کم حصے کو پانی مہیا کرتا ہے۔ لوگ پینے کا پانی نہر کے کنارے بلال مسجد کے ہینڈ پمپ یا سکندرآباد کی واٹر سپلائی سکیم سے لاتے ہیں۔ خاصا مشکل کام ہے مگر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔1 مئی 2024

یہ موسم داودخیل میں کبڈی کا موسم ہوا کرتا تھا۔ ہر ہفتے نواحی علاقے کی کسی کبڈی ٹیم اور داودخیل کی ٹیم کا میچ ہوا کرتا تھا۔
یہ میچ محلہ امیرے خیل کے شمال میں ایک وسیع و عریض میدان میں ہوتے تھے جہاں آج کل محلہ اسلام آباد/ خدر خیل آباد ہے۔
مظفر خان ولد شیر خان لمے خیل المعروف مظفری شیرے آلا داودخیل کی ٹیم کے کپتان تھے۔ عبداللہ خان ولد نورباز خان ارب زئی المعروف بجلی ، مظفر ارائیں المعروف مظفری ملیار اور امیر خان بہرام خیل المعروف ہرن اس ٹیم کے نمایاں کھلاڑی تھے۔ اس علاقے کی یہ بڑی مضبوط ٹیم تھی۔ زیادہ تر میچ موچھ اور پائی خیل کی ٹیموں سے ہوتے تھے۔ اکثر میچ داودخیل کی ٹیم ہی جیتتی تھی۔
قبیلہ امیرے خیل کے بزرگ حبیب اللہ خان ان میچوں میں امپائر کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔
میچ جسمانی طاقت اور تیز رفتاری کا مقابلہ ہوتا تھا۔ کھلاڑی ایک ایک کر کے لکیر کے پار مخالف ٹیم کے علاقے میں گھستے اور اس ٹیم کے کسی کھلاڑی کو چھو کر تیزی سے بھاگتے ہوئے واپس آتے تھے۔ جس کھلاڑی کو چھوا جاتا وہ چھونے والے کھلاڑی کو پکڑنے کی پوری کوشش کرتا۔ اگر پکڑ لیتا تو اس کی ٹیم کو ایک پوائنٹ مل جاتا تھا۔ پکڑا ہوا کھلاڑی میچ سے آوٹ ہو جاتا تھا ، ورنہ مخالف ٹیم کا ایک پوائنٹ شمار ہوتا تھا۔
میچ بہت دلچسپ ہوتا تھا ۔ نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کا ڈھول اور شہنائیاں بجا کر استقبال کیا جاتا تھا۔
شہر بھر کے بچے ، جوان اور بزرگ یہ میچ بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔2 مئی 2024
اب تک کے سفر پر اک نظر۔۔۔۔۔۔۔
فیس بک پر میرا سفر تقریبا 8 سال پہلے جولائی / اگست 2015 میں میرے بیٹے محمد اکرم علی ملک کے اصرار پر شروع ہوا۔ پہلے پہل جب اکرم بیٹے نے مجھے فیس بک کی محفل میں شمولیت کے لیئے کہا تو میں نے ہنس کر ٹال دیا۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ بچوں کی محفل ہے۔ میری اس میں شمولیت رنگ میں بھنگ ہوگی۔ لیکن میرا اندازہ غلط، اکرم کا اندازہ درست تھا کہ یہ حقائق پر مبنی تھا۔۔ ہوا یوں تھا کہ پہلے پہل جب میں نے فیس بک پہ آمد سے معذرت کر لی تو بیٹے نے خاموشی سے میرے نام کا فیس بُک اکاؤنٹ بنا کر خود ہی آپریٹ کرنا شروع کردیا۔ میرا نام فیس بک پہ آتے ہی دنیا بھر میں پھیلے ہوئے میرے ہزاروں بچے(سٹوڈنٹس) اور میرے لکھے ہوئے گیتوں کے مداح میرے فیس بک فرینڈز بن گئے۔۔ یہ لوگ پتہ نہیں کب سے اس انتظار میں تھے۔ ابتدا میں اکرم بیٹا صرف میرے اشعار پوسٹ کرتے رہے۔ ان پر بھی بے شمار لائیکس اور ری ایکشنز آتے رہے۔ جلد ہی میرے فرینڈز کی تعداد 2000 سے زائد ہو گئی تو اکرم بیٹے نے مجھے یہ سب کارروائی دکھا کر کہا ابو یہ دیکھیں ، کتنے لوگ فیس بک پر آپ کو ویلکم کر رہے ہیں۔ وہ مستقل طور پر آپ کو اس محفل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ آگے آپ کی مرضی۔۔ یہ کہہ کر بیٹے نے اپنا Lenovo کا لیپ ٹاپ میرے حوالے کر دیا۔
آغاز میں ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ اردو کا کی بورڈ keyboard میری دسترس میں نہ تھا۔ اس لیئے میں صرف انگلش میں ہی لکھ سکتا تھا۔ سو میں نے انگلش ہی میں لکھنا شروع کردیا۔ انگلش میں لکھنا میرے لیئے تو کوئی مسئلہ نہ تھا مگر انگلش تحریروں کو سمجھنا ہر آدمی کے بس کا روگ نہ تھا۔ پھر بھی لوگ میرا نام ہی کافی سمجھ کر یہ تحریریں پڑھتے اور داد دیتے رہے۔ان کی اس عقیدت و محبت نے مجھے اس محفل کا مستقل رکن بننے پر مجبور کر دیا۔ ( جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔3 مئی 2024
اگلا قدم ۔۔۔۔۔۔۔۔
فیس بک فرینڈز کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی تو کئی دوستوں نے اردو میں لکھنے کا مطالبہ کیا۔ اکرم بیٹے کی مدد سے Hamariweb کے اردو کی بورڈ keyboard تک رسائی حاصل کرکے میں روزانہ اپنے تجربات و مشاہدات “میرا میانوالی” کے عنوان سے لکھنے لگا۔
روزانہ اردو پوسٹ کے ساتھ ساتھ دن کے پچھلے پہر انگلش پوسٹ لکھنا بھی تقریبا 5 سال جاری رہا۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے انگلش لکھنے میں زیادہ لطف محسوس ہوتا ہے ، کیونکہ انگلش نثر کا اپنا الگ حسن ہے۔
پھر اہلیہ کی طویل بیماری اور دوسری مصروفیات کے باعث دن کے پچھلے پہر کا وقت فارغ نہ رہا تو میں نے انگلش میں لکھنا چھوڑ دیا۔
فرینڈز کی تعداد ایک دو ماہ میں 5000 ہو گئی تو فیس بک نے ہاتھ کھڑے کر دیئے کہ اس سے زیادہ فرینڈز کی گنجائش نشتہ۔
اس اعلان کے بعد لوگ فالوورز کی راہ سے آنے لگے۔ یہ سلسلہ ابھی چل رہا ہے۔ اس وقت بحمداللہ فالوورز کی تعداد 11910 ہو چکی ہے ، روزانہ دو چار فالوورز کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ 5000 فرینڈز بھی برقرار ہیں۔
2019 میں کسی نقص کی وجہ سے میرے لیپ ٹاپ نے کام کرنا چھوڑ دیا تو ڈاکٹر حنیف نیازی نے مجھے Toshiba کا نواں نکور لیپ ٹاپ گفٹ کر دیا۔ وہ لیپ ٹاپ ابھی تک ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔
تقریبا 6 ماہ پہلے موبائل فون پر پوسٹس لکھنے کا شوق ہوا ۔ اس میں اردو انگلش دونوں زبانوں میں لکھنا زیادہ آسان ہے۔ صرف ایک ہی click سے زبان تبدیل کی جا سکتی ہے۔ اس لیئے آج کل پوسٹس موبائل فون پر لکھ رہا ہوں۔ لکھنے پڑھنے کا کچھ کام لیپ ٹاپ پر بھی کر لیتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔4 مئی 2024
۔۔۔۔۔۔ اور سفر جاری ہے
8 سال میں تقریبا 3000 پوسٹس لکھ چکا ہوں۔ چھٹی صرف عید یا محرم کے آخری دنوں میں کرتا ہوں۔
ایک پوسٹ لکھنے میں صرف پندرہ بیس منٹ لگتے ہیں۔ اتنی معمولی سی محنت کے صلے میں بے شمار لوگوں کی دعائیں مہنگا سودا نہیں۔ اس لیئے روزانہ لکھتا ہوں۔
بعض دوست کہتے ہیں میری یہ تحریریں کتاب کی شکل میں بھی آنی چاہیئیں۔ چاہتا تو میں بھی یہی ہوں مگر اس کام کے لیئے بہت مشقت کرنا پڑے گی۔ 3000 پوسٹس کو کتاب کی شکل دی جائے تو 500 صفحے کی 6 کتابیں بنیں گی۔ پوسٹس کو ترتیب دینا اور ان میں مناسب ترمیم و اضافہ کرنا بھی خاصا محنت طلب کام ہو گا۔ پھر کتابوں کی اشاعت کے لیئے بھاگ دوڑ بھی کرنی پڑے گی۔ یہ سب کچھ کرنے کی ہمت فی الحال نہیں ہو رہی۔
بہر حال کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔ دعا کریں۔
میری پوسٹس کے بیشتر قارئین معلومات سے زیادہ میرے انداز تحریر کے رسیا ہیں۔۔۔ میرا انداز تحریر تو سراسر میرے رب کی عنایت ہے۔ مجھے تو اس پہ کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی۔ خیال کے مطابق الفاظ خود بخود آکر اپنی اپنی جگہ بیٹھتے جاتے ہیں۔ مجھے لفظ تلاش یا منتخب نہیں کرنے پڑتے۔ انداز تحریر کی مقبولیت کی وجہ شاید یہ ہے کہ
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔5 مئی 2024
فیس بُک کی وادی میں قدم رکھتے ہی ادھر ادھر نظر دوڑائی یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا میرے کوئی اور ہم عمر لوگ بھی یہاں موجود ہیں یا بچوں کی اس محفل میں میں ہی اکیلا بزرگ وارد ہو گیا ہوں۔ خیال یہ تھا کہ اگر اپنا کوئی اور ہم عمر ہم عصر ساتھی نہ ملا تو خاموشی سے واپس چلا جاوں گا۔
یہ دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا کہ میرے دو مہربان دوست ظفرخان نیازی اور پروفیسر اشرف علی کلیار صاحب پہلے ہی فیس بُک پر خاصے معروف و مصروف تھے۔ دونوں نے مجھے خوش آمدید کہا۔
نوجوانوں میں سے بہت سے لوگ تو سٹوڈنٹس کی حیثیت میں مجھ سے متعارف تھے۔ کچھ لوگ میرے لکھے ہوئے گیتوں کے مداح تھے۔
ان ابتدائی ساتھیوں میں سے پیرس سے منور اقبال خان ، ڈی جی خان کے میر ثناء اللہ خان بجارانی، سندھ سے معشوق کھوسو، چکوال سے وسیم سبطین میرے بہت قریب رہے ہیں ۔ میر ثناء اللہ تو دوتین سال پہلے شادی کے بعد فیس بُک سے غائب ہو گئے، بقیہ دوست ابھی تک میرے ہمسفر ہیں۔
منور اقبال خان اور وسیم سبطین کے پاس میری اکثر پوسٹس محفوظ ہیں۔
میری پوسٹس کا مکمل ریکارڈ کرنل شیر بہادر خان نیازی کی ویب سائیٹ پر موجود ہے۔ کرنل صاحب مجھ سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں اور میری پوسٹس اپنی ویب سائیٹ پر اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے یہ سلسلہ ابھی چل رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔6 مئی 2024
کچے کوٹھے۔۔۔۔
اب تو ایک آدھ کچا مکان شاید ہی کہیں رہ گیا ہو۔ ہمارے بچپن کے دور میں دیہات میں زیادہ تر مکان کچے ہی ہوتے تھے۔ مٹی کی کچی اینٹوں سے بنے ہوئے کمرے کو کچا کوٹھا کہتے تھے۔
لوگ مالی طور پر خوشحال ہوئے تو پختہ اینٹوں کے مکان بننے لگے۔ کچا کوٹھا غربت کی علامت سمجھا جانے لگا۔ اس لیئے رفتہ رفتہ کچے کوٹھوں کی جگہ پختہ اینٹوں کے مکان بننے لگے۔ کچے کوٹھے تو اب پکچرز ہی میں کہیں نظر آتے ہیں۔
کچے کوٹھوں کی اپنی خوبیاں تھیں۔ ایک تو یہ کہ یہ گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم ہوتے تھے۔ کچی اینٹ دھوپ کی حرارت جذب نہیں کرتی۔ اس لیئے دوپہر کے وقت بھی کمرہ اندر سے گرم نہیں ہوتا۔
سردیوں میں کمرے کے اندر کی حرارت باہر نہیں جا سکتی ۔ اس لیئے کمرہ اندر سے گرم رہتا ہے۔۔
کچے کوٹھوں کی چھت لکڑی کے ٹکوں ( شہتیر ) اور لاڑیوں ( بالے) سے بنی ہوتی تھی۔ اس کے اوپر کانہہ یا ببھڑ (خشک گھاس) کی تہہ جما کر اوپر سے مٹی کا لیپ کر دیتے تھے۔۔ یوں چھت سے بھی سردی گرمی کا اثر کمرے کے اندر نہیں آ سکتا تھا۔
کمروں کے اندر اور باہر مٹی کا لیپ کیا جاتا تھا۔ فرش بھی مٹی کے لیپ کا ہوتا تھا۔ دیواروں پر چونا سفیدی کی بجائے سفید پہاڑی مٹی کا لیپ کیا جاتا تھا۔ کمروں کے اندر باہر لیپ کا سارا کام گھر کی خواتین کرتی تھیں۔
کچے کوٹھے سادہ مگر آرام دہ رہائش فراہم کرتے تھے۔ آج کل پختہ کمروں کے اندر درجہ حرارت کا تمام تر دارومدار بجلی اور گیس پر ہے۔ لوڈشیڈنگ کے دوران کمرے کے اندر بیٹھنا عذاب بن جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔7 مئی 2024
صفہ اور چھپر ۔۔۔۔۔۔
ایک دو کچے کوٹھوں کے علاوہ صفہ اور چھپر بھی ہر گھر میں ہوتا تھا۔
صفہ کچی اینٹوں کا بنا ہوا کھلا برآمدہ ہوتا تھا۔ اس کی سامنے والی سائیڈ پہ نہ تو دیوار ہوتی تھی نہ دروازہ۔ اس کی دائیں بائیں اور پچھلی دیوار میں کھلی کھڑکیاں ہوتی تھیں اس لییے ہوا جس طرف کی بھی چلتی صفے میں سے گذر کر جاتی تھی۔ گرمیوں کی دوپہروں میں کھانا پینا اور آرام صفہ ہی میں ہوتا تھا۔
عام حالات میں تو لوگ رات کو کھلے صحن میں سوتے تھے لیکن اگر بارش شروع ہو جاتی تو چارپائیاں اٹھا کر صفہ میں ڈال لیتے تھے۔
چھپر کانہہ اور کانے ( سرکنڈے) کا بنا ہوا سائبان ہوتا تھا ۔ یہ چاروں طرف سے کھلا ہوتا تھا۔ اس لیئے یہ بہت ہوادار ہوتا تھا۔ گرمیوں کی دوپہروں میں لوگ چھپر کے سائے میں سوتے تھے۔ چھپر مردوں کا ٹھکانہ اور صفہ خواتین اور بچوں کا مسکن ہوتا تھا۔
کمرے کی طرح چاردیواری پر چھپر کی چھت ڈال کر اس کے اوپر مٹی کا لیپ کر دیتے تھے ۔ اس عمارت کو لتنڑں کہتے تھے۔ کچے کے علاقے میں کمروں اور کوٹھوں کی بجائے لتنڑں ہی گھر کا کام دیتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔8 مئی 2024
چھپر کٹائی۔۔۔۔۔۔
کل کی پوسٹ میں چھپر کا ذکر چھڑا تو چھپر سے وابستہ ایک شرارتی رسم یاد آگئی۔
صفر ( محرم سے اگلے ماہ) کے آخری بدھ کو ہر گھر میں ایک خاص قسم کی روٹی کی بہت لذیذ چوری بنائی جاتی تھی جسے صفر آلی چوری کہتے تھے۔ اسی نسبت سے اس چوری والے دن کو چوری روزہ بھی کہتے تھے۔
چوری روزہ کو دوپہر کے قریب لاٹھیوں سے مسلح بچوں کی فوج محلے کے چھپروں پر حملہ آور ہوتی تھی۔ لاٹھیوں سے چھپر ٹوٹتے تو نہ تھے ، بس بچوں کا شغل بن جاتا تھا۔۔۔۔ چھپروں کے مالک بہت رولا کرتے تھے۔ بڑی لمبی لمبی گالیاں پڑتی تھیں، مگر بچے اپنی کارروائی مکمل کر کے ہی ٹلتے تھے۔
یہ رسم خدا جانے کب، کیوں اور کیسے شروع ہوئی ، ہم نے نہ کسی سے پوچھا نہ کسی نے بتایا۔ البتہ چھپر کٹائی کرنے اور گالیاں کھانے والی فوج میں ہم بھی شامل رہے۔
کیا زندہ دل لوگ تھے۔۔۔۔۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔9 مئی 2024
افواہیں۔۔۔۔۔
جب دیہات میں ریڈیو ٹیلی ویژن ٹیلیفون کی سہولتیں دستیاب نہ تھیں تو افواہوں پر اندھا دھند یقین کر لیا جاتا تھا۔
قیام پاکستان کے دنوں میں جب سرحد پار فسادات کی آگ بھڑکی اور قتل وغارت ، لوٹ مار کا بازار گرم ہوا تو ایک رات اچانک داودخیل میں یہ افواہ پھیل گئی کہ سکھ مار دھاڑ کرتے ادھر آ رہے ہیں۔ اس خطرے کو روکنے کے لیئے سب لوگوں نے بندوقیں نکال لیں اور اندھا دھند ہوائی فائرنگ شروع کر دی تاکہ حملہ آور سکھ فائرنگ سے خوفزدہ ہو کر شہر میں داخل نہ ہوں۔ رات بھر ٹھاہ ٹھاہ جاری رہی۔ لوگ خوش تھے کہ ہماری فائرنگ سے ڈر کر سکھ باہر سے ہی بھاگ گئے۔
صبح کسی نے کہا یارو ، عقل کو ہاتھ مارو، امرتسر سے داودخیل تک تین چار سو میل کا فاصلہ طے کرنے کے لیئے سکھوں کو لاہور سے میانوالی تک کا سارا علاقہ فتح کرنا پڑتا جو کہ سراسر ناممکن ہے۔ سب سے پہلے سکھوں کی ٹوٹی پھوٹی بارہ بور بندوقوں کو لاہور میں متعین پاکستانی فوج کے جدید ترین اسلحہ کا سامنا کرنا پڑتا۔ اور چند ہی منٹوں میں مٹھی بھر سکھوں کا صفایا ہو جاتا۔ سارا کھیل وہیں ختم ہو جاتا۔ ویسے بھی داودخیل میں ایسی کون سی نایاب چیز پڑی تھی جس کے لیئے سکھ خواہ مخواہ ادھر ہی آتے۔
بات سو فیصد درست تھی۔ لوگ اپنی اس حماقت پر دن بھر ہنستے رہے کہ جب کچھ ہونا ہی نہیں تھا تو ہم ویسے ہی خوف سے تھر تھر کانپتے اور رات بھر ہوا میں فائر پھونکتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔10 مئی 2024
میانوالویت۔۔۔۔۔۔
میانوالویت ایک ایسا رشتہ ہے جس کا احساس میانوالی سے باہر جا کر ہوتا ہے۔ میانوالی میں رہ کر لوگ بھلے ایک دوسرے کو جانتے بھی نہ ہوں مگر میانوالی سے باہر کہیں مل جائیں تو سگے بھائیوں کی طرح ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔
اس خوبصورت احساس کا تجربہ کئی بار ہوا۔ میں جب گارڈن کالج راولپنڈی میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا تو ایک دن مری روڈ پر جاتے ہوئےکمیٹی چوک پر کھڑے پولیس کے سپاہی نے مجھے روک کر پوچھا جوان کہاں سے آئے ہو۔ ؟ میں نے میانوالی کا نام لیا تو چاچا سپاہی نے ” اوہ ، تیری خیر” کہہ کر مجھے گلے لگا لیا۔ کہنے لگے “میں ٹور توں ای سیانڑں گھدا ہئی جو بندہ میانوالی ناں ہے” ۔
پھر انہوں نے ایک قریبی ہوٹل سے مجھے پر تکلف چائے پلائی ۔ بعد میں بھی جب کبھی سرراہ ملاقات ہوتی وہ مجھے چائے ضرور پلاتے۔
وہ بزرگ داودخیل کے چاچا شہباز خان بہرام خیل تھے۔ ان کے بارے میں تفصیل سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔
اسی طرح ایک دفعہ سرگودہا سے میانوالی آتے ہوئے ہم جوہر آباد کے قریب ایک سرراہ ہوٹل پہ کھانا کھانے کے لییے رکے۔ میرے دو بیٹے بھی میرے ساتھ تھے۔ کھانا کھا کر جب ہم پیسے دینے لگے تو بیرے نے کہا جی مالک نے کہا ہے آپ سے پیسے نہیں لینے۔ ہوٹل کے مالک سے ملے تو اس نے کہا سر آپ نے مجھے نہیں پہچانا لیکن میں آپ کو جانتا ہوں ۔ میں بھی میانوالی سے ہوں ۔ یہ آپ کا اپنا ہوٹل ہے اس لییے ہم آپ سے پیسے نہیں لے سکتے۔
ایسا ہی ایک واقعہ میانوالی تلہ گنگ روڈ پر بھی ایک ہوٹل میں پیش آیا۔جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے اپنے میانوالین ہونے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا———-11 مئی 2024
میانوالویت۔۔۔۔۔۔۔
پچیس تیس سال پہلے کی بات ہے، ہماری ایک عزیزہ پمز ہسپتال اسلام آباد میں زیر علاج تھیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ان کے خون کا گروپ لکھ کر دیا اور کہا اس گروپ کے خون کی ایک بوتل فوری طور پر درکار ہے۔
رات گیارہ بجے کا وقت تھا ۔ ہم نے ہسپتال کے بلڈ بینک جاکر ڈیوٹی پر موجود نوجوان سے کہا ہم میانوالی سے آئے ہیں۔ ہمیں اس گروپ کے خون کی ایک بوتل فوری طور پر چاہیئے۔ جتنے پیسے آپ کہیں ہم دے دیتے ہیں ، یا صبح اسی گروپ کے خون کی ایک بوتل دے دیں گے۔
اس لڑکے نے بڑی خوبصورت بات کہی۔ کہنے لگا آپ نے بتایا ہے کہ آپ میانوالی سے آئے ہیں۔ میں اٹک کا رہنے والا ہوں۔ آپ سے نہ خون کے پیسے لوں گا اور نہ خون کی بوتل کیونکہ میں جانتا ہوں میانوالی کے لوگ احسان فراموش نہیں ہوتے۔ جب بھی موقع ملے احسان کا قرض اتار دیتے ہیں۔ یہ کہہ کر اس نے خون کی بوتل ہمارے سپرد کر دی۔
یہ ہے میانوالی کی شہرت ۔ اللہ کرے ہم اس شہرت کو برقرار رکھ سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔12 مئی 2024
چہانڑیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔
محلہ شکور خیل کے جنوب میں ایک کنوئیں کے کنارے چھوٹا سا میدان تھا ، جہاں ہندو میتیں جلایا کرتے تھے۔ ہندو میتوں کو دفنانے کی بجائے جلا دیتے ہیں۔ عجیب مذہب ہے۔
میتیں جلانے کی جگہ کو ہماری زبان میں چہانڑیاں ، اردو اور ہندی میں شمشان گھاٹ کہتے تھے۔
ہم تو میتوں کو جلانے کا منظر کبھی نہ دیکھ سکے کیونکہ جب ہم نے ہوش سنبھالا تو ہندو یہاں سے رخصت ہو گئے۔۔۔۔ بزرگ بتایا کرتے تھے کہ میت کو جلانے کے لیئے میدان کے وسط میں لکڑیوں کا ایک بستر سا بنا کر میت کو اس پر لٹا دیتے تھے۔ اس بستر کو چتا کہتے تھے۔۔ اس کے اوپر لکڑیوں کی ایک اور تہہ جما کر اس پر گھی چھڑک کر لکڑیوں کو آگ لگا دیتے تھے۔ جب تک آگ جلتی رہتی ہندو اس کے گرد کھڑے ہو کر اپنے مخصوص مذہبی منتر پڑھتے رہتے ۔ جب میت کی کھوپڑی پٹاخ کی آواز کے ساتھ پھٹتی تو لوگ پیچھے ہٹ جاتے تھے۔ پھر جب آگ ٹھنڈی ہو جاتی تو میت کے وارث میت کی راکھ چن کر ایک تھیلی میں ڈال دیتے تھے۔ جب کوئی ہندو یہاں سے بھارت کے علاقے میں جاتا تو وہ راکھ کی تھیلیاں اس کے سپرد کر دیتے تھے تاکہ یہ راکھ دریائے گنگا یا دریائے جمنا میں ڈال دی جائے۔
چہانڑیاں کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ بھوتوں کا مسکن ہیں۔ اس لیئے لوگ رات کو ادھر جانے سے ڈرتے تھے۔ اب تو وہاں لوگوں نے مکان بنا لیئے ہیں۔ بھوت شاید ہندووں کے ساتھ ہی یہاں سے بھارت منتقل ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔13 مئی 2024
اپنے نبی سے دل کی باتیں۔۔۔
یہ پکچر دیکھ کر وہ لمحہ یاد آگیا جب ہم اسی طرح اسی جگہ کھڑے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم میں اپنی گذارشات عرض کر رہے تھے۔14 مئی 2024
کس کو معلوم تھا کہ یہ بچہ جو G مارکہ نب والے ہولڈر پین کے ساتھ چار لکیری کاپی پر a b c d لکھنا سیکھ رہا ہے بڑا ہو کر 13 سال انگریزی اخبارات میں کالم لکھے گا اور انگریزی ادب سے متعلق درجن بھر کتابیں بھی لکھ دے گا ۔
گھر والے تو مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے کیونکہ میں نے فرسٹ ڈویژن میں میٹرک پاس کیا تھا۔ بابا جی کے بعد خاندان میں پہلا فرسٹ ڈویژن میٹرک میں ہی تھا۔
سو مجھے ڈاکٹر بنانے کے لیئے گارڈن کالج راولپنڈی میں فرسٹ ایئر میڈیکل گروپ میں داخلہ دلوا دیا گیا۔ مگر میں نے 6 ماہ بعد ہی ہاتھ کھڑے کر دیئے کہ سائنس مجھ سے نہیں پڑھی جاتی۔ بات ذہانت کی نہیں دلچسپی کی تھی۔
گارڈن کالج کے امریکی پرنسپل پروفیسر جے بی کمنگز صاحب کو یہ بات بتائی تو انہوں نے کمال مہربانی کرتے ہوئے مجھے سائنس گروپ سے آرٹس گروپ میں جانے کی اجازت دے دی۔
آرٹس گروپ میں انگلش کے علاوہ میں نے معاشیات، سیاسیات اور فارسی کا انتخاب کیا۔ اردو اور اسلامیات اس زمانے میں لازمی مضامین نہیں تھے۔ ۔۔15 مئی 2024
سکول سے لے کر کالج تک میری دلچسپی کا مرکز صرف انگلش رہی۔ بابا جی کی ذاتی لائبریری میں سر والٹر سکاٹ، چارلس ڈکنز ، ہارڈی، آر ایل سٹیونسن اور کپلنگ کے بہت سے ناول پڑے تھے۔ وہ سب میں نے پڑھ ڈالے۔ اس وسیع مطالعے سے انگریزی زبان پر گرفت خاصی مضبوط ہوگئی۔
گارڈن کالج میں ہمارے انگلش کے پروفیسر جان وائلڈر صاحب نے ایک ٹیسٹ میں مجھے 100 میں سے ساڑھے98 نمبر دیئے۔ پیپر واپس کرتے ہوئے ہنس کر کہا میں نے ڈیڑھ نمبر صرف اس لیئے کاٹا ہے کہ آپ کے پاکستان میں انگلش میں 100/100 نمبر دینے کا رواج نہیں۔ ورنہ آپ کے نمبر پورے 100 ہی بنتے ہیں۔
پروفیسر جان وائلڈر مجھ پر بہت مہربان تھے۔ بی اے کے آخری سال امتحان سے چند ماہ قبل بابا جی ریٹائر ہو گئے تو مجھے کالج چھوڑ کر داودخیل جانا پڑا ۔ پروفیسر جان وائلڈر کو اپنے اس ارادے کے بارے میں بتایا تو پریشان ہو گئے۔ کہنے لگے چلو میرے ساتھ ۔ ان کی رہائش گاہ کالج کیمپس میں ہی تھی۔ وہاں پہنچ کر پروفیسر صاحب نے بیگم کو چائے بنانے کا کہا اور مجھ سے کہنے لگے گاوں واپس جانے کی بجائے تم میرے گھر میں رہو ۔ تمہارے تمام اخراجات میں برداشت کروں گا۔ اگلے سال واپس امریکہ جاوں گا تو تمہیں ساتھ لے جاوں گا اور تمہیں وہاں سے ایم۔ اے انگلش کرواوں گا۔
اتنے میں پروفیسر صاحب کی بیگم صاحبہ چائے بنا کر لے آئی تھیں۔ پروفیسر صاحب کی مجھ سے گفتگو سن کر کہنے لگیں۔۔
Yes, Munawar, why not be a son to us ?
(ہاں منور، آپ ہمارے بیٹے بن جائیں نا)
میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے کہا میں گھر جا کر اپنے والدین سے بات کروں گا۔ انہوں نے اجازت دے دی تو واپس آکر آپ ہی کے پاس رہوں گا اور آپ کے ساتھ امریکہ بھی جاوں گا۔ اگر واپس نہ آیا تو سمجھ لیں مجھے گھر سے اجازت نہیں ملی۔
یہ کہہ کر آنسو پونچھتا ہوا وہاں سے واپس آگیا۔
اجازت کس نے دینی تھی۔ صاف انکار کر دیا گیا ۔
ویسے بھی سات سمندر پار جا کر رہنا مشکل لگتا تھا۔ امی بیمار رہتی تھیں۔ انہیں اس حال میں چھوڑ کر جانے کو دل نہیں مانتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔16 مئی 2024
ٹیچر بننے کا تو میں نے کبھی سوچا ہی نہ تھا۔ مستقبل کا ایک دھندلا سا خاکہ ذہن میں تھا کہ ایل ایل بی کر لوں گا۔ اس کے بعد سوچوں گا کہ آگے کیا کرنا ہے ۔ دادا جی سے لے کر میرے بڑے بھائی تک سب لوگ ٹیچر تھے مگر میں ٹیچر کی بجائے کچھ اور بننا چاہتا تھا۔
بی اے کے ریزلٹ کے انتظار میں فارغ پھر رہا تھا کہ ایک دن ماسٹر نواب خان صاحب نے میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی ہیڈماسٹر صاحب سے کہا ملک صاحب منور فارغ پھر رہا ہے۔ میری کلاس کے انگلش ٹیچر امیر عمر خان تو پولیس میں بھرتی ہو گئے۔ منور سے کہیں میری کلاس کو انگلش پڑھا دیا کرے۔
معاملہ سکول کے مفاد کا تھا اس لیئے بھائی جان فورا مان گئے۔ مجھے بلا کر کہا کل سے تم نے سکول جا کر ماسٹر نواب خان صاحب کی چھٹی کلاس (Class Six)کو انگلش پڑھانا ہے۔
اس زمانے میں ہیڈماسٹرز کو یہ اختیار حاصل تھا کہ ٹیچر کی خالی پوسٹ پر کسی موزوں فرد کا تقرر کر کے ڈویژنل انسپکٹر آف سکولز سے منظوری لے لیں۔ اس قسم کے تقرر کو appointment in anticipation of approval کہتے تھے۔ بھائی جان نے اپنا یہی اختیار استعمال کر کے مجھے انگلش ٹیچر مقرر کر دیا۔ چند دن بعد ڈویژنل آفس سے منظوری بھی آگئی۔
یوں 65 روپے ماہانہ تنخواہ پر میری باقاعدہ ملازمت کا آغاز ہو گیا۔ چونکہ میں نے پیشہ ورانہ ٹریننگ BEd وغیرہ نہیں کیا ہوا تھا اس لیئے میرا تقرر عارضی تھا۔ میرا خیال تھا کہ بی اے کا ریزلٹ آنے کے بعد یہ ملازمت چھوڑ کر ایل ایل بی کر لوں گا۔
آٹھویں کلاس کے ٹیچر انچارج ماسٹر ممریز خان صاحب کی کلاس کا بھی کوئی انگلش ٹیچر اس وقت نہ تھا۔ ماسٹر نواب خان کی طرح ماسٹر ممریز خان بھی میرے ٹیچر رہ چکے تھے ۔ ان کے حکم پر میں آٹھویں کلاس کو بھی انگلش پڑھانے لگا۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔17 مئی 2024
بی اے کے ریزلٹ سے ایک آدھ ماہ قبل میری شادی ہو گئی۔ امی کی صحت مسلسل گر رہی تھی۔ ان کا اصرار تھا کہ اس دنیا سے جانے سے پہلے مجھے منور کی شادی کی خوشی دکھا دیں۔ کیا خبر یہ میری زندگی کی آخری خوشی ہو۔ امی کی خواہش کے مطابق یہ فریضہ بہت جلدی میں ادا کر دیا گیا۔
یوں میرا بی اے کے بعد ایل ایل بی کرنے کا منصوبہ دھرا رہ گیا۔ شادی کے بعد بابا جی پر مزید مالی بوجھ ڈالنے کی بجائے میں نے سکول کی ملازمت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ بی اے کے بعد ماہانہ تنخواہ 65 روپے سے بڑھ کر 85 روپے ہوگئی۔
تقریبا 3 سال بعد میں نے بی ایڈ میں داخلہ لے لیا۔ اب میرے لیئے جلد از جلد مستقل روزگار حاصل کرنے کا سب سے آسان اور کم خرچ طریقہ صرف یہی تھا کہ ایک سال کا BEd کا کورس کر کے سینیئر انگلش ٹیچر کے طور پر مستقل ملازمت کا آغاز کر دیا جائے ۔ سو یہی کرنا پڑا۔
ٹیچر کے علاوہ کچھ اور بننے کے خواب ادھورے رہ گئے۔ تاہم اللہ کے فضل سے یہ سودا بھی مہنگا نہ پڑا۔ انگلش ٹیچر کی حیثیت میں جو شہرت محبت اور عزت مجھے نصیب ہوئی ایسی شہرت محبت اور عزت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ رہے نام اللہ کا۔۔18 مئی 2024
سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور کی BEd کلاس میں داخلے کے لیئے میرا انٹرویو خاصا دلچسپ رہا۔
انٹرویو پرنسپل صاحب کے آفس میں ہوا۔ پرنسپل پروفیسر اے جی بٹ صاحب انٹرویو بورڈ کے سربراہ تھے۔ وائس پرنسپل ایس اے ہارون صاحب، ایجوکیشن کے پروفیسر حاجی فضل احمد صاحب، انگلش ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ پروفیسر شیخ نذیر احمد صاحب، ریاضی کے پروفیسر شمشاد محمد خان لودھی صاحب اور اردو کے پروفیسر محمد اسحاق جلالپوری صاحب انٹرویو بورڈ کے ممبر تھے۔
میں انٹرویو کے لیئے کمرے میں داخل ہوا تو وائس پرنسپل ہارون صاحب پھٹ پڑے ۔ فرمایا یہ کیا طریقہ ہے۔ نہ سلام نہ دعا ، منہ اٹھائے اندر چلے آئے۔ باہر جائیں، دوبارہ اندر آکر سلام کریں پھر آپ انٹرویو دے سکتے ہیں۔
میں شرمسار ہو کر کمرے سے باہر آگیا۔ اتنے میں پرنسپل صاحب کی نظر سامنے رکھی ہوئی امیدواروں کی لسٹ پر پڑی۔ پرنسپل صاحب اور وائس پرنسپل صاحب دونوں کسی زمانے میں ہمارے بابا جی کے کولیگ colleague رہ چکے تھے۔ پرنسپل صاحب نے امیدواروں کی لسٹ میں میری ولدیت کے خانے میں بابا جی کا نام دیکھا تو قہقہہ لگا کر وائس پرنسپل صاحب سے کہا
ہارون صاحب، ایہہ ملک اکبر دا پتر ای۔ اس دے پیو نے کدی افسراں نوں سلام نئیں سی کیتا، ایہہ کیوں کرے گا۔؟
پھر مجھے آواز دی “آجا کاکا، آجا”۔
میں دوبارہ کمرے میں داخل ہوا۔ اب کی بار سلام بھی کیا اور پرنسپل صاحب کے سامنے خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔
پرنسپل صاحب نے کہا
So, you are Malik Akbar’s son. How is the good old man ?
میں نے کہا
Sir he’s fine.
پرنسپل صاحب نے کہا
Good. Say my Salaam to him. You are selected.
بٹ صاحب بڑے دبنگ پرنسپل تھے۔ انٹرویو سے پہلے ہی انہوں نے میری selection کا اعلان کر دیا۔۔ اب انٹرویو بورڈ کے ارکان مجھ سے کیا پوچھتے۔ انہوں نے بھی او کے کر دیا اور میں
Thank you, Sir
کہہ کر کمرے سے باہر آگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔19 مئی 2024
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں مجھے اپنی خداداد صلاحیتوں کے اظہار کے بہترین مواقع میسر ائے۔ انگلش کی کلاس میں سب سے نمایاں کارکردگی کے علاوہ مزاح نگاری اور گلوکاری میں بھی متعدد انعامات اور اعزازات میرے حصے میں آئے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ میری صلاحیتوں کو منظر عام پر لانے کا سارا کریڈٹ ممتاز بھائی کو جاتا ہے جنہوں نے لڑجھگڑ مجھے منظر عام پر آنے پر مجبور کیا۔ اس دور کے کچھ واقعات آج سے چند سال پہلے لکھ چکا ہوں۔ اب اپنی داستان حیات لکھ رہا ہوں تو اس تسلسل میں ان واقعات کا کسی قدر مفصل ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔
ممتاز بھائی میرے ماموں زاد تھے ۔ مجھ سے عمر میں 2 سال بڑے تھے۔ ہم دونوں ہاسٹل کے کمرہ نمبر 101 میں رہتے تھے۔ یہ کمرہ گیٹ کے دائیں جانب بالائی منزل کا پہلا کمرہ تھا۔ اس کی عقبی کھڑکی کربلا گامے شاہ کے صحن میں کھلتی تھی۔
میں خاصا آوارہ مزاج انسان تھا۔ چائے پینا اور ہوٹلوں پر فلمی نغمے سننا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ کالج ٹائیم کے بعد میں داتا صاحب کے مزار کے قریب ایک ہوٹل میں جا کر موسیقی کے گراموفون ریکارڈ سنتا رہتا تھا۔
دل سوچ سمجھ کے لاویں دکھڑے عمراں دے
میرا پسندیدہ نغمہ تھا۔
وہاں سے اٹھ کر میں بھاٹی چوک کے ہوٹل لالہ زار جاتا۔ وہاں محمد رفیع ، طلعت محمود، لتا منگیشکر اور شمشاد بیگم وغیرہ کے خوبصورت گیت گراموفون پر سنوائے جاتے تھے۔ اسی طرح کے ایک دو اور ٹھکانے بھی تھے۔۔
ممتاز بھائی کو میری اس آوارہ گردی کا علم بہت دیر بعد جا کر ہوا کیونکہ وہ کالج ٹائم کے بعد دن بھر لالو نور خان قتالی خیل کے ساتھ دوسرے ہاسٹلز کے لڑکوں سے ملتے ملاتے رہتے تھے۔
جب ممتاز بھائی کو میں نے اپنی آوارگی کی تفصیل بتائی تو بہت ناراض ہوئے۔ کہنے لگے کمینے ، تمہیں قدرت نے ایسی صلاحیتیں عطا کی ہیں کہ تم چاند بن کر چمک سکتے ہو۔ اس فضول لوفری کی بجائے پڑھنے لکھنے کا کام کر لیا کرو تو عزت بھی ملے گی، شہرت بھی۔
یہ لیکچر روزانہ رات کو سونے سے پہلے سننا پڑتا تھا۔ بالآخر تنگ آکر میں نے کچھ نہ کچھ کرنے کا ارادہ کر ہی لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔20 مئی 2024
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
کالج کی مجلس ادب کے ایک اجلاس میں میں نے اپنا لکھا ہوا ایک مزاحیہ مضمون پڑھا۔ اجلاس کی صدارت پرنسپل پروفیسر اے جی بٹ صاحب نے کی۔ مضمون میں میں نے کالج میں اپنے شب و روز کا ذکر کیا تھا۔ اس میں چند پروفیسر صاحبان کا ذکر بھی شامل تھا۔
مضمون بہت پسند کیا گیا۔ بہت واہ واہ ہوئی۔ پرنسپل صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں بھی میرے انداز تحریر کی تعریف کی۔
دوسرے دن خدا جانے کس مہربان نے یہ تیلی لگا دی کہ منور ملک نے اپنے مضمون میں اساتذہ کرام کا مذاق اڑایا۔ اس پر پروفیسر صاحبان نے سخت غم و غصہ کا اظہار کیا۔ کالج کے سٹاف روم میں پروفیسر صاحبان کی میٹنگ ہوئی جس میں میری اس “حرکت” کی مذمت کی گئی اور میرے خلاف سخت ایکشن کا مطالبہ کیا گیا۔
جب بات یہاں پہنچی تو وائس پرنسپل پروفیسر ہارون صاحب نے کہا حضرات، پرنسپل صاحب نے اپنے خطاب میں اس مضمون کی تعریف کی تھی۔ اس لیئے لڑکے کے خلاف ایکشن تو وہ ہرگز نہیں ہونے دیں گے ۔ بہتر ہے لڑکے کو بلا کر اسے وارننگ دے دی جائے کہ آئندہ ایسا نہیں کرنا۔
مجلس ادب کے انچارج پروفیسر محمد اسحاق جلالپوری صاحب نے کہا میں لڑکے کو سمجھا دوں گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ناراض وہ پروفیسر صاحبان تھے جو مجلس ادب کے اس اجلاس میں شامل ہی نہیں تھے۔
مجھے بتایا گیا کہ سب سے زیادہ ناراض انگلش ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ پروفیسر شیخ نذیر احمد صاحب ہیں۔
دوسرے دن میں اپنے گروپ کی انگلش کی کلاس میں جاتے ہوئے ایک کلاس روم کے سامنے سے گذرا ۔ وہاں پروفیسر شیخ نذیر صاحب اپنے گروپ کو انگلش پڑھا رہے تھے۔ کلاس میں شاید میرا ہی ذکر ہو رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر کسی لڑکے نے پروفیسر صاحب سے کہا ” سر وہ جا رہا ہے ” ۔پروفیسر صاحب نے فورا مجھے بلا لیا۔ میں حاضر ہوا تو فرمایا۔ ٹیچرز کا مذاق اڑانے پر آپ کو شرم آنی چاہیئے۔
میں نے کہا سر میں نے مذاق تو نہیں اڑایا۔
پروفیسر صاحب نے کہا You know where you stand
میں نے کہا Yes , Sir
پروفیسر صاحب بہت غصے میں تھے۔ فرمایا
Get lost
(دفع ہو جاو)
وہاں سے دفع ہو کر میں اپنی کلاس کی طرف روانہ ہو گیا۔
دوسرے دن برآمدے میں اچانک پروفیسر صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ مجھے ہاتھ کے اشارے سے بلا کر کہا ہاں بھئی مجھے دکھاو تو سہی آپ نے اس مضمون میں کہا کیا تھا ؟ مضمون کی ایک کاپی مجھے لا دو۔
مضمون میرے پاس فائل میں موجود تھا۔ میں نے فائل پروفیسر صاحب کو دے دی۔
پروفیسر صاحب مجھے ساتھ لے کر اپنے آفس میں آئے۔ مجھے سامنے والی کرسی پر بٹھا کر مضمون دیکھنے لگے۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ سے ان کے خوشگوار رد عمل کا پتہ چل گیا۔ میں نے اطمینان کا لمبا سانس لیا۔ مضمون پڑھ کر پروفیسر صاحب نے قہقہہ لگایا اور کہا
Wonderful ! It’s a beautiful piece of literature. Well done, boy, well done.
خوشی اور تشکر کے ملے جلے آنسو چھپانے کے لیئے میں
Thank you, Sir
کہہ کر وہاں سے نکل آیا۔
اس دن کے بعد پروفیسر صاحب ہمیشہ مجھ پر خصوصی شفقت فرماتے رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔21 مئی 2024
خان چاچا کا عرس۔۔۔۔۔
ہاسٹل کے کمرہ نمبر 120 میں پشاور کے عبدالرحمن خان رہتے تھے۔ عمر میں وہ ہم سب سے بڑے تھے اس لیئے ہم انہیں خان چاچا کہتے تھے۔ خان چاچا بہت زندہ دل ، خوش مزاج ، یاروں کے یار شخصیت تھے۔
خان چاچا کے ساتھ والے کمرے میں سیالکوٹ کے دو کرسچین لڑکے مائیکل اور فلپ رہتے تھے۔ انہوں نے ہارمونیم اور طبلہ بھی رکھا ہوا تھا۔ خان چاچا کی فرمائش پر وہ ہر سنیچر کی رات خان چاچا کے کمرے میں موسیقی کی محفل سجاتے تھے۔ دونوں بہت اچھا گا لیتے تھے۔ پنڈی کے راجہ عبدالرحمن المعروف راجہ مانی بھی اس محفل میں آواز کا جادو جگاتے تھے۔ راجہ مانی کی آواز مشہور زمانہ انڈین گلوکار مکیش کی آواز سے بہت ملتی جلتی تھی۔ چکوال کے قاضی غلام مرتضی بھی بہت سریلے سنگر تھے۔ وہ بھی اس محفل کے مستقل گلوکار بن گئے۔
محفل کا اہتمام خان چاچا کے کمرے میں ہوتا تھا۔ چائے پانی کا بندوبست بھی وہی کرتے تھے۔ ایک دن میں نے کہا دوستو خان چاچا اتنا تکلف کرتے ہیں۔ کیوں نہ اس محفل کا نام خان چاچا کا عرس رکھ دیا جائے۔ تالیوں کی گونج میں سب لوگوں نے یہ نام پسند کر لیا۔ سب سے زیادہ خوش خان چاچا تھے۔
ہم نے کہا ہر ہفتے چائے پانی کا بوجھ خان چاچا کیوں اٹھائیں؟ ہمیں بھی اس خرچ میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیئے۔
خان چاچا بگڑ گئے۔ کہنے لگے میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔ محفل میرے کمرے میں ہوتی ہے۔ آپ سب لوگ مہمان کی حیثیت میں میری محفل کی زینت بنتے ہیں۔ ہم پختون خوا کے پٹھان مہمانوں کا پیسہ اپنے اوپر حرام سمجھتے ہیں۔ اس لیئے سارا خرچ میں ہی کروں گا۔ یارا میں اتنا غریب بھی نہیں ہوں کہ چند دوستوں کے چائے پانی کے لیئے بھی چندہ جمع کرتا پھروں۔
سو محفل کا تمام خرچ خان چاچا اپنی جیب سے کرتے رہے۔
ایک رات ممتاز بھائی نے اچانک یہ اعلان کیا کہ حضرات آج ہم ایک اور بہت سریلے گلوکار کو متعارف کراتے ہیں جس کا نام ہے منور علی ملک۔
میں نے بھائی کو بہت آنکھیں دکھائیں، کہنیاں ماریں مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ سب لوگ بضد ہو گئے کہ ہمیں گانا سناو۔
اس زمانے میں انڈین فلمی گیت بہت چلتے تھے۔ مجھے محمد رفیع اور طلعت محمود کے بہت سے گیت یاد تھے ۔ اس رات میں نے محمد رفیع کا نغمہ سنایا جس کے ابتدائی بول تھے۔
تقدیر کا فسانہ جا کر کسے سنائیں
بہت اونچے سروں کا درد بھرا گیت تھا۔ بہت پسند کیا گیا۔ خان چاچا کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ آج سے منور ملک کو چائے کے ساتھ ایک پیسٹری زائد ملے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔22 مئی 2024
یہ وادیاں یہ فضائیں بلا رہی ہیں تمہیں
نومبر میں شاہدرہ میں پکنک کا پروگرام بنا تو اس میں گلوکاری کا مقابلہ بھی شامل تھا۔ نورجہاں کے مزار کے لان میں دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد مقابلے کا میدان سجا۔ پروفیسر شمشاد محمد خان لودھی صاحب، تاریخ کے جواں سال پروفیسر مختار احمد قریشی صاحب اور کالج کے ڈی پی ای قاضی احمد یار صاحب اس مقابلے کے جج تھے۔ حاضرین میں پرنسپل صاحب سمیت تمام پروفیسر صاحبان اور سٹوڈنٹس شامل تھے۔
مقابلے میں ہمارے دو کرسچین ساتھیوں مائیکل اور فلپ کے علاوہ پنڈی کے راجہ عبدالرحمن المعروف راجہ مانی، چکوال کے قاضی غلام مرتضی ، دو اور لڑکے اور میں شریک ہوئے۔ میرا نام تو ممتاز بھائی نے زبردستی لکھوا دیا تھا۔ اس پر ہماری اچھی خاصی لڑائی بھی ہوئی تھی ، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ نام کا اعلان ہو گیا تھا مقابلے میں حصہ لینا ہی پڑا۔
سب گلوکاروں نے بہت خوب گایا۔ سب کو بہت داد ملی۔
اپنی باری پہ میں نے محمد رفیع کا حسرت بھرا گیت۔۔۔۔۔
یہ وادیاں یہ فضائیں بلا رہی ہیں تمہیں
سنایا۔۔۔۔۔۔۔۔ تالیوں کی گونج سے اندازہ ہو گیا کہ تیر نشانے پر جا لگا۔
مقابلے کے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے چیف جج پروفیسر شمشاد لودھی صاحب نے کہا
سب نوجوانوں نے بہت اچھا گایا تاہم ہماری متفقہ رائے یہ ہے کہ
Mr Munawar Ali Malik is the best singer of the college.
بھر پور تالیوں اور مبارکبادوں کے شور میں میانوالی اور چکوال کے جوانوں نے “میانوالی زندہ باد” کے فلک شگاف نعروں سے آسمان سر پہ اٹھا لیا ۔ ان نعروں میں سب سے نمایاں آواز پشاور کے خان چاچا کی تھی (جاری)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔23 مئی 2024
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
گلوکاری کے مقابلے سے دو دن بعد کالج میں تقسیم انعامات کی تقریب منعقد ہوئی۔ مجھےBest singer of the college کی حیثیت میں ایک سند ، چاندی کا ایک خوبصورت کپ اور جارج ایلیئٹ کا مشہور زمانہ ناول The Mill on the Floss ملا۔
پرنسپل صاحب کی فرمائش پر میں نے ایک بار پھر
یہ وادیاں یہ فضائیں بلا رہی ہیں تمہیں
سنا کر داد وصول کی۔
میرے اس اعزاز کی خوشی میں دعوتوں کا سلسلہ کئی دن چلتا رہا۔ خان چاچا کے علاوہ میانوالی اور چکوال کے دوستوں نے بھی دعوتوں کا اہتمام کیا۔
یہ اعزاز ملنے کے بعد مجھے پروفیسر صاحبان اور سٹوڈنٹس بھی خاصی اہمیت دینے لگے۔ اس عزت افزائی پر رب کریم کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کیونکہ مترنم آواز بھی اسی مالک الملک کی عطا تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔24 مئی 2024
رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گذشت
بی ایڈ کے امتحان کے لیئے فارم داخلہ بھیجتے وقت رپھڑ بن گیا۔ ہر مضمون کی کلاس میں کم از کم 75 فی صد حاضریاں لازم تھیں۔ مگر اصول تعلیم نامی مضمون میں میری حاضریاں صرف 20 فی صد بنتی تھیں۔ وجہ یہ تھی کہ اصول تعلیم بہت خشک مضمون تھا۔ ہمیں زہر لگتا تھا۔ کالج میں پہلا پیریئڈ بھی اسی مضمون کا تھا۔ میں ایک گھنٹہ کلاس میں بیٹھ کر بور ہونے کی بجائے اس پیریئڈ کے دوران کینٹین پہ چائے پیتا اور ادھر ادھر آوارہ گردی کرتا رہتا تھا۔ میں نے یہ سوچ رکھا تھا کہ امتحان سے چند دن پہلے کتاب دیکھ کر تیاری کر لوں گا۔ یہ خیال ہی نہ رہا کہ 75 فی صد حاضریاں بھی پوری کرنی ہوں گی ۔
فارم داخلہ بھیجنے والے دن میں حاضری نامہ لے کر اس مضمون کے پروفیسر حاجی فضل احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سر حاجی صاحب بہت سخت مزاج انسان تھے۔ انہوں نے میری بات سننے سے بھی صاف انکار کر دیا۔
خوش قسمتی سے عین اسی وقت ہمارے انگلش کے پروفیسر اقبال خان صاحب کسی کام سے حاجی صاحب کے کمرے میں آئے۔ سر حاجی صاحب کو گرجتے برستے اور مجھے سر جھکائے کھڑا دیکھ کر سر اقبال خان نے پروفیسر حاجی صاحب سے کہا
حاجی صاحب، منڈے نوں کیوں تنگ کردے پئے او ؟
سر حاجی صاحب نے کہا دیکھیں جی یہ نواب صاحب سارا سال غیر حاضر رہے ہیں اور اب کہتے ہیں میری 75 فی صد حاضریاں لکھ دیں۔
سر اقبال خان نے کہا کیا کہہ رہے ہیں آپ ، حاجی صاحب؟ اس سے زیادہ ریگولر لڑکا تو میری کلاس میں ہے ہی نہیں۔ انگلش میں ہر ٹیسٹ میں ٹاپ کرتا ہے۔
سر حاجی صاحب نے کہا میری کلاس میں تو یہ کبھی نظر ہی نہیں آیا۔
سر اقبال خان نے کہا بہر حال مہربانی کر دیں اس کا ایک سال ضائع ہو جائے گا۔
سر حاجی صاحب نے کہا میں نے اسے بتا دیا ہے کہ میرے قلم سے تمہاری حاضریاں پوری نہیں ہو سکتیں۔
سر اقبال صاحب نے مسکرا کر کہا میرے قلم سے تو ہو سکتی ہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے جیب سے قلم نکالا اور مجھ سے حاضری نامہ لے کر اصول تعلیم کے مضمون میں میری 75 فی صد حاضریاں لکھنے کے بعد حاجی صاحب سے کہا لیجیئے صاحب۔ اب یہاں میرے ہی قلم سے دستخط فرما دیجیئے۔
سر اقبال خان کی بات سر حاجی صاحب کیسے ٹال سکتے تھے۔ مجھ پر ایک قہر آلود نظر ڈال کر فارم پر دستخط کر دیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا–25 مئی 2024
سر اقبال خان۔۔۔۔۔۔
اچھے ٹیچرز ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ ان کی یادیں تازہ کر کے دل کو سکون ملتا ہے۔ سر اقبال خان بھی میرے ایسے ہی ٹیچر تھے۔
پروفیسر محمد اقبال خان صاحب سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں ہمیں انگلش پڑھاتے تھے۔ گورنمنٹ کالج شیخوپورہ سے پروموشن ملی تو گورنمنٹ کالج لاہور میں وائس پرنسپل کی پوسٹ آفر ہوئی مگر سر اقبال خان نے یہ منصب قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ بتایا کرتے تھے کہ گورنمنٹ کالج لاہور میں وائس پرنسپل کی پوسٹ ایک انتظامی عہدہ تھا۔ اس کا پڑھنے پڑھانے سے کوئی تعلق نہ تھا ، اس لیئے میں نے یہ کہہ کر یہ عہدہ قبول کرنے سے معذرت کر لی کہ
I was born a teacher and would like to die a teacher.
سر اقبال خان کو انگریزی زبان و ادب میں وسیع دسترس حاصل تھی۔ پڑھانے کا انداز ایسا دلنشیں تھا کہ ان کا لیکچر سن کر مزا آ جاتا تھا۔
انگریزی زبان و ادب میں میری دلچسپی دیکھ کر مجھ پر خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے انگلش کا ایک Lesson plan لکھ کر سر اقبال خان کو دکھایا تو کہنے لگے۔ بہت خوب۔ آپ ان شآءاللہ ایسے انگلش ٹیچر بنیں گے کہ دنیا یاد کرے گی۔ سر کا یہ کلمہ تحسین میرے لیئے بی ایڈ کی ڈگری سے بڑا اعزاز تھا۔
ایک دفعہ میں اور میرا ایک دوست کالج کینٹین سے چائے پی کر اٹھنے لگے تو سر اقبال خان بھی وہاں آگئے۔ میں نے کینٹین کے ملازم کو پیسے دیتے ہوئے کہا سر اقبال خان صاحب کی چائے کے پیسے بھی لے لیں ۔
سر اقبال خان نے کہا بالکل نہیں۔۔۔۔ ملازم سے کہا ان کے پیسے واپس کر دو ، ان کی چائے کے پیسے بھی میں دوں گا۔
میں نے کہا سر اتنے تکلف کی کیا ضرورت ہے ؟
فرمایا دیکھیں بھئی آپ لوگ اس وقت سٹوڈنٹ ہیں۔ گھر والوں سے جیب خرچ لے کر گذارہ چلا رہے ہیں۔ اس لیئے آپ کا پیسہ مجھ پر حرام ہے۔ جب آپ برسر روزگار ہو گئے اور زندگی میں مجھے کبھی میانوالی آنے کا اتفاق ہوا تو سیدھا آپ کے ہاں آوں گا، کھانا بھی کھاوں گا , چائے بھی پیوں گا۔ یہ میرا وعدہ سمجھیں۔
بہت عرصہ بعد ایک دن کسی کام سے اسلامیہ کالج سول لائنز جانے کا اتفاق ہوا۔ سر اقبال خان کو ایک کلاس سے نکلتے دیکھ کر میں نے آگے بڑھ کر سلام کرتے ہوئے کہا سر آپ اب یہاں ہوتے ہیں۔؟
سر نے کہا ہاں بھئی، سنٹرل ٹریننگ کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد میں ادھر پڑھا رہا ہوں ۔ جتنے دن آتا ہوں اتنے دنوں کے پیسے مل جاتے ہیں۔ مجھے خوشی پیسوں کی نہیں خوشی اس بات کی ہے کہ لوگ اب بھی میرے علم سے مستفید ہو رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔26 مئی 2024
بی ایڈ کے پریکٹیکل امتحان میں ہر امیدوار کے لیئے انگلش کا ایک سبق پڑھانا لازم تھا۔ اس کے لییے خاصا تکلف کرنا پڑتا تھا۔ اس سبق کا Lesson plan لکھ کر اس کے مطابق چارٹ بنا کر کلاس میں آویزاں کرنے پڑتے تھے۔ سبق Lesson plan میں لکھی ہوئی تفصیل کے عین مطابق پڑھانا پڑتا تھا۔۔۔۔ Lesson plan لکھنا ہر آدمی کے بس کا روگ نہ تھا ۔ انگلش میں اہل ایمان کا ہاتھ خاصا تنگ ہوتا ہے۔ صرف ہم جیسے چند گنہگار لوگ ہی درست انگلش لکھ سکتے ہیں۔ اس لیئے اکثر دوستوں نے میری خدمات سے استفادہ کیا۔ انکار مجھ سے نہیں ہوتا تھا۔ اس لیئے میں دن رات اس کام میں مشغول رہنے لگا۔۔۔ ممتاز بھائی تنگ آگئے ، کہنے لگے اوئے یہ جو تو نے میلہ لگا رکھا ہے ، نہ دن کو چین نہ رات کو آرام ، اب میں کدھر جاوں؟
میں نے ہنس کر کہا بھائی صاحب، آپ برآمدے میں منجی بچھا لیں۔۔۔ ممتاز بھائی کا جواب بہت کرارا ہوتا ، مگر عین اسی وقت لالو نور خان قتالی خیل کمرے میں داخل ہوئے۔ پوچھا کیا مسئلہ ہے۔ ممتاز بھائی نے مسئلہ بتایا تو لالو نے کہا ممتاز بھائی اس حرکت سے باز تو اس نے آنا نہیں، کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔
ممتاز بھائی نے کہا وہ کیسے؟
لالو نور خان نے کہا وہ ایسے کہ ہم Lesson plan لکھوانے کے لیئے آنے والوں پر ٹول ٹیکس لگا دیں۔ جو بھی آئے انارکلی کے جالندھر موتی چور ہاوس سے مٹھائی کا ایک ڈبہ اور کینٹین سے چار کپ چائے لے کر آئے۔ (جالندھر موتی چور ہاوس اس زمانے میں لاہور کی اعلی ترین مٹھائی کی دکان ہوا کرتی تھی) ۔
سودا مہنگا نہ تھا کیونکہ مٹھائی اور چائے لانے والے حضرات خود بھی کھانے پینے میں شریک ہوتے تھے۔ یوں پندرہ بیس دن تک روزانہ مٹھائی کے تین چارڈبے ہمیں موصول ہونے لگے۔ خاصا اچھا شغل چلتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔27 مئی 2024
اک نہ اک دن جدا تو ہونا تھا
امتحان ختم ہوا تو لوگ ہاسٹل سے رخصت ہونے لگے۔ میں نے اور ممتاز بھائی نے شام 5 بجے ماڑی انڈس ٹرین سے داودخیل جانا تھا۔
تقریبا ایک بجے خان چاچا اپنا سامان اٹھائے ہم سے الوداعی ملاقات کے لیئے ہمارے کمرے میں آئے۔ انہوں نے 3 بجے کی ٹرین سے پشاور جانا تھا۔ کمرے میں قدم رکھتے ہی بھرائی ہوئی آواز میں بولے ” اچھا سجنو ، اللہ حافظ۔ بہت اچھا وقت گذرا آپ لوگوں کے ساتھ۔ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں طرف آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ہم آپس میں لپٹ کر کچھ دیر روتے رہے۔ پھر خان چاچا نے کہا یہ میرا ایڈریس ہے۔ کبھی پشاور آنے کا اتفاق ہو تو مجھ سے ضرور ملنا۔
یہ کہہ کر خان چاچا آنسو پونچھتے رخصت ہو گئے۔
ہمیں اپنے آنسو خشک کرنے میں کچھ دیر لگی۔
کیا عظیم انسان تھا۔۔۔ !!! خدا نے اس کے سینے میں ماں کا دل رکھ دیا تھا۔ اگرچہ ہمارا کلاس فیلو تھا مگر ہم سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتا تھا۔ اس نے ہاسٹل کے خشک ماحول کو بھی ہمارے لیئے گھر جیسا بنائے رکھا۔۔۔۔۔۔ جہاں بھی ہو رب کریم اسے اپنی رحمت کے سائے میں رکھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔28 مئی 2024
نئے راستے نئی منزلیں۔۔۔۔
داودخیل پہنچ کر ہم بی ایڈ کے ریزلٹ کا انتظار کرنے لگے۔ چند ہی دن بعد مواز والا (موچھ) کے ٹیچر محمد سعید شاہ صاحب نے بتایا کہ مکڑوال سکول میں سینیئر انگلش ٹیچر کی فوری ضرورت ہے ۔ بی ایڈ کا ریزلٹ تو تین چار ماہ بعد آئے گا آپ فی الحال مکڑوال سکول جوائن کر لیں۔
مجھے جاب کی فوری ضرورت تھی اس لیئے میں اگلے دن محمد سعید شاہ صاحب کے ساتھ مکڑوال پہنچ گیا اور انگلش ٹیچر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔
مکڑوال کمر مشانی سے تقریبا 15 میل شمال مغرب میں واقع ہے۔ یہاں کوئلے کی بہت سی کانیں ہیں۔ مڈل سکول مکڑوال محکمہ معدنیات نے مزدوروں کے بچوں کے لیئے قائم کیا تھا۔
اس زمانے میں مکڑوال آنا جانا آسان نہ تھا۔۔ دن بھر میں صرف ایک ہی بس میانوالی سے مکڑوال آتی جاتی تھی۔ اگر بس نہ مل سکتی تو ترگ ریلوے سٹیشن سے کول ٹرین ( کوئلے والی گاڑی) میں ٹرین گارڈ کے کیبن میں بیٹھ کر مکڑوال جانا پڑتا تھا۔ مجھے ہر سنیچر کو سکول ٹائیم کے بعد داودخیل جانا ہوتا تھا۔ میانوالی کی اکلوتی بس تو صبح سویرے نکل جاتی تھی۔ اس لیئے میری واپسی مکڑوال سے ترگ تک کول ٹرین اور ترگ سے داودخیل تک عیسی خیل سے میانوالی جانے والی بسوں کے ذریعے ہوتی تھی۔
مکڑوال سکول میں میرے ساتھی سردار علی عباسی صاحب نے کول ٹرین کے گارڈز سے میرا تعارف کرا دیا۔ یوں آنا جانا کچھ آسان ہو گیا۔
مکڑوال سکول کے ہیڈماسٹر آزاد کشمیر کے شفیق الرحمان منہاس صاحب بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر تھے۔ ترگ کے سردار علی عباسی صاحب، سلطان خیل کے ماسٹر عالم خان صاحب اور ماسٹر عجب شاہ صاحب، اور چکوال کے ماسٹر ملک اختر صاحب میرے بہت اچھے دوست بن گئے۔
ہیڈماسٹر صاحب نے میری رہائش کے لیئے اپنے آفس کے ساتھ والا کمرہ مختص کر دیا۔ سکول کے چوکیدار راولپنڈی کے چاچا عربستان خان میری خدمت پر مامور تھے۔
کھانے کا بندوبست میں نے اڈے کے ایک ہوٹل پر کر لیا۔
یوں میری زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا————29 مئی 2024
مکڑوال میں پہلی صبح میں ناشتہ کرنے کے لیئے اڈے کے ایک ہوٹل میں بیٹھا تھا تو اچانک ماموں امیر قلم خان کسی کام سے وہاں آئے۔ مجھے ہوٹل میں بیٹھا دیکھ کر سیدھے میری طرف آئے اور کہا تم یہاں کب اور کیسے آئے ہو ؟۔
میں نے بتایا کہ یہاں سکول میں سینیئر انگلش ٹیچر کی حیثیت میں میرا تقرر ہوا ہے۔ کل ہی آیا ہوں۔ رہائش سکول میں ہے۔ کھانے کا بندوبست اس ہوٹل پہ کیا ہے۔
ماموں امیر قلم خان نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی اپنا گھر یہاں ہوتے ہوئے تم ہوٹلوں پہ دھکے کھاتے پھرتے ہو۔ چلو میرے ساتھ۔
ماموں مجھے اپنے کوارٹر پر لے گئے اور کہا آج سے تمہارا کھانا پینا سب کچھ ادھر ہی ہوگا۔
ماموں امیر قلم خان قبیلہ امیرے خیل کے اس خاندان کے بزرگ تھے جس میں میرا بچپن گذرا۔ ان کی بڑی بہن محترمہ عالم خاتوں ہماری امی کی منہ بولی بہن تھیں۔ یوں اس خاندان سے ہمارا بہت قریبی تعلق تھا ۔ یہ تعلق الحمد للہ آج بھی برقرار ہے۔ اس خاندان کی دوسری اور تیسری نسل کے نوجوان امان اللہ خان ، ضیاء نیازی ، آصف خان ، شعیب خان ، ظفراللہ جمالی اور خلیل خان وغیرہ مجھے اپنے بزرگوں میں شمار کرتے ہیں۔ ماموں امیر قلم خان کا چھوٹا بیٹا ظفراللہ خان چند ماہ قبل اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ رب کریم اسے اپنی رحمت کا سایہ نصیب فرمائے، وہ بھی میرا بہت پیارا بھائی تھا۔
مکڑوال میں ماموں امیر قلم خان کا گھر واقعی میرا اپنا گھر تھا۔ تعلق اتنا قریبی تھا کہ اس گھر میں مجھ سے پردہ بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ ماموں کی اہلیہ کو میں بھی ان کے بچوں کی طرح بخت ماء کہتا تھا۔
ماموں امیر قلم خان نے مکڑوال میں میرا رہنا آسان بنا دیا ورنہ میں تو وہاں سراسر اجنبی ماحول دیکھ کر خاصا پریشان تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔30 مئی 2024
اگلا قدم۔۔۔۔۔۔
مکڑوال سکول میں میں تقریبا 5 ماہ رہا۔ سکول کا ماحول بہت اچھا تھا۔ سٹوڈنٹس بہت مودب اور مہذب تھے۔ ٹیچرز کا بہت احترام کرتے تھے۔ ان بچوں میں علم کی پیاس تھی اس لیئے وہ کلاس میں ہمہ تن متوجہ رہتے تھے۔
بی ایڈ کا ریزلٹ آگیا تو میں مستقل گورنمنٹ سروس جوائن کرنے کا انتظار کرنے لگا کیونکہ مکڑوال میں میرا تقرر عارضی تھا ۔ بالآخر دسمبر کے آخر میں گریڈ 14 کے سینیئر انگلش ٹیچرز کی اسامیوں پر بھرتی شروع ہوئی ۔ میں بھی سیلیکٹ ہو گیا۔
ان دنوں ایک پالیسی رائج ہوئی تھی کہ نئے بننے والے مڈل سکولوں میں گریڈ 14 کے سینیئر انگلش ٹیچرز کو ہیڈماسٹر متعین کیا جائے۔ اس سے پہلے مڈل سکولوں میں گریڈ 8 کے ایس وی ٹیچرز بطور ہیڈماسٹر کام کررہے تھے۔اس پالیسی کے نتیجے میں مجھے گورنمنٹ مڈل سکول ٹھٹھی کا ہیڈماسٹر متعین کر دیا گیا۔ اور میں نے 4 جنوری 1965 کو گورنمنٹ مڈل سکول ٹھٹھی کا چارج سنبھال لیا۔
گریڈ 14 کی بنیادی تنخواہ اس وقت 220 روپے ماہانہ تھی۔ اس وقت ایک تولہ سونے کی قیمت 100 روپے تھی۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ اس زمانے میں 220 روپے کتنی معقول رقم تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔31 مئی 2024

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top