حمید اللہ خان معروف بہ ضیاء اسلام پوری
بہت سیر کی باغ و راغ جہاں کی
ضیاء تھک گئے جب یہاں آ کے لیٹے
حمید اللہ خان معروف بہ ضیاء اسلام پوری بروز ہفتہ 11 مارچ 1911ء کو ضلع میانوالی کے قصبے موچھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک علمی، دینی اور باوقار خانوادے سے تھا۔ آپ کے والد گرامی خان جی مولوی عباس خان صاحب نہ صرف علاقے کے ممتاز معلم اور حکیم تھے بلکہ تعلیمی و سماجی اصلاحات میں بھی نمایاں کردار ادا کرنے والے اور مصلح تھے۔ انہی کے زیرِ سایہ ضیاء اسلام پوری کی ابتدائی تربیت ہوئی۔ ضیاء اسلام پوری کے والد گرامی مولوی حکیم عباس خان نے اپنی پوری زندگی تعلیم، دین و حکمت کے فروغ اور سادہ طرزِ حیات کے فروغ میں گزار دی۔ پاکستان کے قیام کے بعد بھی ان کی یہ مساعی جاری رہیں بالآخر یکم جون 1949ء بروز بدھ کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔
حمیداللہ خان کا قلمی نام ضیاء اسلام پوری تھا اور آپ ایک سنجیدہ مزاج، اصول پسند اور باوقار شخصیت تھے جنہوں نے اپنی زندگی علم، ادب، تدریس اور فکری دیانت کے لیے وقف کی۔ وہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کی بنیاد دینی، اخلاقی اور تعلیمی اقدار پر استوار تھی۔ انہوں نے شہرت کی بجائے سادگی اور خاموش خدمت کو اپنی پہچان بنایا۔ ان کی شاعری میں فکر، حب الوطنی اور روحانیت کا امتزاج نمایاں ہے۔ ان کے کلام کا مرکزی محور قوم کی فکری و عملی رہنمائی اور اصلاح تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری کو نہ صرف اظہار کا ذریعہ بنایا بلکہ مقصد کا وسیلہ بھی بنایا، اسی سوچ کے تحت اپنے شعری مجموعے کا نام ’’منزل مراد‘‘ رکھا جو ان کی معروف کتابوں میں سے ایک ہے۔ ایک اور آپ کی کتاب “غالب اور تلمیحاتِ غالب” کا اول ایڈیشن 1992 میں شائع ہوا تھا۔
ضیاء اسلام پوری نے ادبی حلقوں، مشاعروں اور تقریبات سے دانستہ دوری اختیار رکھی کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ علم و ادب کا اصل مقصد شہرت و دکھاوا نہیں بلکہ خدمت اور اصلاح ہے۔ تقریباً نصف صدی تک پاکستان کے مختلف اخبارات، رسائل و مجلات میں ان کا کلام اور مضامین شائع ہوتے رہے۔ وہ نظم و نثر دونوں میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔ وہ نہ صرف صاحبِ طرز شاعر تھے بلکہ ایک باکمال نثرنگار بھی تھے۔ ان کے مضامین میں علمی، فکری اور زبان و بیان کی چاشنی پائی جاتی تھی۔ یہی نہیں بلکہ ہفت روزہ “شان” میانوالی کے مدیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے، جہاں ان کی تحریریں نہ صرف ادبی حلقوں بلکہ عام قارئین میں بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتیں۔ ان کی علمی و ادبی شخصیات سے خط و کتابت بھی رہی۔
ان کی معروف کتابوں میں منزل مراد اور میرے مضامین شامل ہیں، جبکہ گلدستہ ادب جیسا اہم مجموعہ میجر (ر) مشتاق احمد خان نیازی نے ترتیب دیا، جس میں پہلے حصے میں ’’منزل مراد‘‘ پر اہلِ علم کے تبصرے اور دوسرے حصے میں ضیاء اسلام پوری کے نام اہلِ علم کے چند خطوط شامل ہیں۔ یہ مجموعہ ان کی شخصیت اور تخلیقات پر ایک ہمہ جہت روشنی ڈالتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی غیر مطبوعہ تحریریں، مضامین اور منظوم کلام آج بھی موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی شاعری کی اشاعت کے خواہاں نہ تھے، تاہم ان کے چھوٹے بھائی لفٹیننٹ کرنل لطف اللہ خان نے انہیں آمادہ کیا اور ان کا شعری مجموعہ شائع کروایا، جس کی بدولت ادب سے محبت کرنے والوں کو ان کے کلام سے روشناس ہونے کا موقع ملا۔
پیشہ ورانہ زندگی میں بحیثیت استاد اور ہیڈماسٹر کئی دہائیوں تک انہوں نے علم کا چراغ روشن رکھا۔ ان کے شاگرد آج بھی ان کے اندازِ تعلیم، شفقت، تربیت اور اصول پسندی کو یاد کر کے دعائیں کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت نے معلمی کے پیشے کو محض تدریس نہیں بلکہ کردار سازی اور انسانیت سازی کی اعلیٰ منزل دی۔ میانوالی کے مختلف تعلیمی اداروں میں انہوں نے اپنی تدریسی خدمات انجام دیں۔
ان کی فکری و تاریخی وسعت کا ایک اور اہم پہلو نیازی پٹھان قبیلے کی تاریخ پر ان کی تحقیق ہے۔ انہوں نے اس موضوع پر قابلِ قدر مواد جمع کیا لیکن عمر نے وفا نہ کی۔ ان کا یہ خواب ان کے برادر نسبتی محمد اقبال خان تاجہ خیل نے پورا کیا اور اسی سلسلے کو مزید وسعت دی، جو ایک ناقابلِ فراموش علمی و تاریخی خدمت ہے۔
ضیاء اسلام پوری کی علمی پرورش اور فکری تربیت میں ان کے والد مولوی عباس خان صاحب کا نمایاں کردار تھا، جنہیں “موچھ کا سرسید احمد خان” کہا جاتا تھا۔ ان کی علمی، دینی اور تعلیمی خدمات آج بھی اہلِ علاقہ کے لیے قابلِ فخر سرمایہ ہیں۔ ان کے فیض سے نکلنے والے افراد نے دین و دنیا دونوں میں راہنمائی پائی۔
حمیداللہ خان ضیاء اسلام پوری نے 88 برس کی عمر پائی اور 12 نومبر 1999 کو جمعہ کے روز اس فانی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی تدفین ان کی آبائی مسجد “جامع مسجد خانجی صاحب” موچھ، اسلام پورہ کے جوار میں ہوئی۔ وہ دنیا سے چلے گئے، مگر ان کے الفاظ، خیالات، تحریریں اور نظریات آج بھی اہلِ علم و علاقہ کو بیداری عطا کر رہے ہیں۔
مرحوم حمیداللہ خان ضیاء اسلام پوری کی آخری آرام گاہ (قبر) سفید ماربل سے مزین ہے، جو ان کی سادگی کی خوب صورت علامت معلوم ہوتی ہے۔ آپ کی یہ آرام گاہ ایک برآمدے میں واقع ہے جو جامع مسجد خان جی صاحب، اسلام پورہ، موچھ سے متصل ہے۔ یہ برآمدہ اور اس کے ساتھ موجود کمرہ آپ اور آپ کے خاندان کی چھ قبروں کے لیے مختص کیا گیا ہے اور ایک طرح سے یہ گوشہ اُن عظیم ہستیوں کا مجموعہ ہے جنہوں نے علم، ادب، دین اور خدمت کے مختلف میدانوں میں نمایاں نقوش چھوڑے۔ حمید اللہ خان معروف بہ ضیاء اسلام پوری کی قبر پر نصب کتبہ:
“﷽”
لا إله إلا الله محمد رسول الله
درویش صفت شاعر و علم
حمید اللہ خان
ضیاء اسلام پوری
ولد
خان جی عباس خان
پیدائش: ۱۱ مارچ ۱۹۱۱ء
وفات: ۱۲ نومبر ۱۹۹۹ء بروز جمعۃ المبارک
برآمدے میں آپ کے ساتھ آپ کے چھوٹے بھائی لیفٹیننٹ کرنل لطف اللہ خان مدفون ہیں، آپ کے دائیں جانب مغربی سمت میں آپ کی زوجہ محترمہ نور بانو آسودہ خاک ہیں جب کہ ان کے پہلو میں کرنل لطف اللہ خان کی اہلیہ امیر بی بی کی قبر ہے۔ برآمدے کے ساتھ ایک کمرہ متصل ہے، جس میں آپ کے والد گرامی خان جی مولوی عباس خان صاحب اور والدہ محترمہ گلاں خاتون مدفون ہیں۔ یہ کمرہ دونوں طرف سے قابلِ رسائی ہے: ایک دروازہ برآمدے سے کھلتا ہے جب کہ دوسرا دروازہ مسجد سے متصل ہے، جو اہلِ علاقہ یا اہلِ خاندان کو مسجد کے اندر سے بھی اس کمرے میں داخل ہونے کی سہولت دیتا ہے۔
ضیاء اسلام پوری جیسی شخصیات وقت کی دھار میں بہت خاموشی سے آتی ہیں اپنا کام دیانت سے انجام دیتی ہیں اور پھر خامشی سے رخصت ہو جاتی ہیں لیکن ان کی خدمات و فکری روشیں دیر تک باقی رہتی ہیں۔ آج وہ اور ان جیسے کئی اہلِ علم، جو اس خطے کا فخر تھے یا تو مٹی کی آغوش میں سو چکے ہیں یا خامشی سے گوشہ نشین ہو گئے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے علم و ادب کے دیپ جلائے، فکری شعور بیدار کیا اور اپنی زندگیاں مقصد کے ساتھ گزاری، وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ سوچیے کہ ان کے بعد یہ چراغ کون روشن رکھے گا؟ آج میانوالی کی یہ علمی و ادبی سرزمین، جو کبھی فکری حیات سے منور تھی، ایک بار پھر آبِ حیات کی متلاشی ہے۔ یہ سرزمین آج ان لوگوں کی تلاش میں ہے جو اپنے اندر اخلاص، علم سے محبت، مطالعہ، تحقیق و خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں۔ نوجوان نسل اور اہلِ فکر و دانش آگے بڑھیں، قلم سنبھالیں، کتاب سے رشتہ جوڑیں اور وہ چراغ پھر سے روشن کریں جو وقت کے گرد و غبار میں مدھم ہوتے جا رہے ہیں تاکہ یہ خطہ اپنے ان محسنین کا قرض اتار سکے جنہوں نے اپنی زندگیاں علم و ادب کے چراغ روشن کرنے میں صرف کر دیں۔
تحریر: محمد منشا خان، میانوالی
Masha Allah Great personality