
Muhammad Akram, widely known by his pen name Ateel Isa Khelvi (April 4, 1942 – December 2012), was a renowned poet, writer, and literary figure from Isa Khel, District Mianwali. Belonging to the Bhatti clan, he was admired for his humility, gentle nature, and refined character. In the literary circles of Mianwali, he was recognized as a serious and quality poet whose verses captured the struggles of life, the pain of human relationships, and the realities of time.
Early Life and Career
Muhammad Akram was born in Mohallah Bumbra, Isa Khel. After completing his matriculation, he joined the Livestock Department (Veterinary Services) in 1964. He served with dedication for over three decades and retired in 1997. Alongside his professional career, he remained deeply engaged in poetry and literature.
Literary Journey
Adopting the pen name Ateel Isa Khelvi, Akram published several poetry collections and literary works that established his reputation as a respected poet of the region. His first poetry book “Rashta Dard” was published in 1985, earning him recognition in the literary community.
Notable Works
Personality and Skills
-
Apart from poetry, he was also a skilled calligrapher, known for writing signboards, banners, and epitaphs.
-
He practiced palmistry, which made him well-known among the locals.
-
His poetry was serious, thought-provoking, and of high literary standard.
-
Due to his humble personality, good manners, and cheerful temperament, he was highly respected in his community.
Muhammad Akram, alias Ateel Isa Khelvi, passed away in December 2012. His memory continues to live through his poetry and contributions to Urdu and Punjabi literature. May Allah grant him a place in Jannah.
عتیل عیسیٰ خیلوی

عتیل عیسیٰ خیلوی اردو اور سرائیکی کے عمدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین کاتب ، ستارہ شناس اور دست شناس بھی تھے ۔ بچپن میں “عتیل” تخلص والے دوہڑے اور گیت عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی آواز میں سنے ۔ پھر اپنے سینئرز کی زبانی “عتیل عیسیٰ خیلوی کی بیٹھک کی چائے ” کے تذکرے سنے ۔
منور علی ملک صاحب کی کتاب “درد کا سفیر “پڑھتے ہوئے پھر وہی واقعات ۔۔ موسیقی کا پروگرام کہیں بھی ہوتا ۔۔عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کی سوئی اس بات پہ اٹک جاتی کہ چائے عتیل کے پاس پیئیں گے ۔۔۔
یہ جاڑے کا اختتام تھا ۔ میٹھی میٹھی دھوپ اچھی لگتی تو ٹھنڈی ہوا جسم کو چبھتی ۔ میں نے مرید عباس شانو (دوہڑے کے اچھے شاعر ) سے کہا کہ تیاری پکڑو عتیل صاحب کے پاس جاتے ہیں ۔ کئی احباب یہ بتا چکے تھے کہ عتیل صاحب اب عمر کے اس حصے میں ہیں کہ صحت کی خرابی کی وجہ سے ملنے سے گریز کرتے ہیں ۔ کئی دوستوں نے یہ بھی بتایا کہ بہت چڑچڑے ہو گئے ۔۔ لیکن یہ سب تو شاعروں ادیبوں کے ساتھ جڑا ہوا اس لئے ان تمام معاملات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ سوچ کر وقت لیا کہ یہ اعزاز کم تو نہ ہو گا کہ عتیل صاحب کی زیارت ہو گی ۔
ہماری ملاقات ایک دوست کے دولت خانے پر ہونا تھی ۔ دوست کا وعدہ تھا کہ وہ عتیل صاحب کو گھر سے لے آئیں گے ۔ حسبِ وعدہ عتیل صاحب تشریف لے آئے ۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ سا وجود ، چھوٹا قد ، نرم و ملائم ہاتھ ، میٹھا سانولا رنگ ، سادہ خدوخال ، شریفانہ ہیت ، اور دھیما نستعلیق لہجہ ۔۔۔ کافی دیر چپ بیٹھے رہے ۔ میرے استاد محترم ابوالمعانی عصری صاحب کا ذکر ہوا تو عتیل صاحب نے انھیں علامہ عصری کے نام سے یاد کیا اور فرمانے لگے کہ وہ ہم سب سے الگ تھے . عتیل صاحب حسبِ توقع بہت کم بول رہے تھے ۔ اچانک انھوں نے گفت گو میں حافظ کا مصرع پڑھا۔۔
جریدہ رَو کہ گزرگاہِ عافیت تنگ است
پیالہ گیر کہ عمرِ عزیز بے بدل است۔۔۔
عتیل صاحب جھوم اٹھے ۔۔ پوچھنے لگے تمھیں اس غزل کے مزید کچھ شعر یاد ہیں ؟
بھلا ہو عصری صاحب کا ایک بار فیض صاحب کی نظم “حبیبِ عنبر دست” کے حوالے سے میرے استفسار پہ انھوں نے نا صرف حافظ شیرازی کی غزل سنائی تھی بلکہ مجھے یاد کرنے کا حکم بھی صادر فرما دیا تھا سو کچھ اشعار یاد تھے جو میں نے پڑھ دیے ۔۔ پھر تو گویا ان کا باتوں والا بٹن آن ہو گیا ۔۔
رام لعل ، انجم جعفری ، شرر صہبائی ،مجبور عیسیٰ خیلوی ، سونا خان بے وس ، آڈھا خان ، گلزار بخاری ، مشتاق گھمٹالوی سے لے کر سید نصیر شاہ اور سر منور علی ملک تک اپنی یادوں کی گھٹڑی کھول کر بیٹھ گئے ۔۔
انھیں موٹے شیشوں والی عینک لگتی تھی میرے بات کے دوران میری ہتھیلی دیکھتے ہی چشمہ درست کیا اور ہاتھ تھام کر لکیریں پڑھنے لگے ۔۔
بغور ہاتھ کو دیکھنے کے بعد پیشانی کی کچھ لکیریں دیکھتے ہوئے کہا ،
“بھئی ۔۔۔۔ شادی مت کرنا۔۔”
میں نے ہنس کر کہا ۔۔ حضور شادی تو ہو چکی ۔۔ !
اوہ ۔۔ ظالم انسان ۔۔ کہتے ہوئے پھر ہاتھ تھام لیا اور کہتے ہیں اب نبھاہ کرنا ، ہماری بہو کو چھوڑنا مت !
پھر ماتھے کی لکیریں پڑھتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ بھرپور عشق سے دوچار ہو گے اور عمر بھی خوب پاؤ گے لیکن افسوس ہے کہ اخیر عمر میں درویش ہو جاؤ گے ۔۔
آخری جملہ ادا کرتے ہوئے عتیل صاحب مسکرا دیے ۔ میں نے ادب سے کہا سر درویش تو ابھی بھی ۔۔
جملہ کاٹتے ہوئے فرمایا ۔۔ وقت تمھیں سمجھائے گا اور ہاں ان باتوں پہ یقین کرنا شرک ہوتا ہے !!
کافی دیر مجلس رہی ۔۔ آخر عتیل صاحب نے اجازت طلب کی تو میں نے اصرار کیا میں آپ کو گھر تک چھوڑنے آؤں گا ۔۔ مقصد یہی تھا کہ عتیل صاحب کا گھر دیکھ لوں ۔۔ لیکن عتیل صاحب کا انکار کہ نہیں شاکر تمھارے ساتھ نہیں جانا مجھے !
چاروناچار مجھے واضح کہنا پڑا کہ میں صرف آپ کا گھر دیکھنا چاہتا ہوں تو عتیل صاحب آبدیدہ ہو کر فرماتے ہیں
بیٹا ! اب وہ گھر گھر نہیں رہا ۔۔ اس قابل ہوتا تو تمھیں ضرور ساتھ لے جاتا ۔۔
میں نے اصرار کیا کہ چلیں مجھے اپنے گھر کی گلی تک لے چلیں ۔۔ جہاں اتنے بڑے بڑے ادیب ، شاعر ، موسیقار آئے ہیں اس گلی کی زیارت بھی بہت ہے !
عتیل صاحب چل پڑے ۔۔ سڑک سے اتر کر قبرستان ، قبرستان سے گزرے تو عتیل صاحب فرمانے لگے ان قبروں میں سے اکثر کے کتبے میرے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔۔
ساتھ ہی قبرستان سے ایک گلی کی جانب ہم محلے میں داخل ہوئے ۔۔ دو تین گلیوں میں مڑنے کے بعد ایک جگہ پہ مجھے روک دیا ۔۔۔ خیال تھا کہ اب حکم ملے گا کہ تم جاؤ !
لیکن اس کے الٹ ہوا ۔۔
ٹھہرو ۔۔ میں آیا ۔۔ !
کچھ دیر انتظار کے بعد میں سوچنے لگا کہ شاید عتیل صاحب اپنی کوئی کتابیں ڈھونڈ رہے ہوں کہ ہم لکھنے والوں کا سب سے بڑا تحفہ کتاب ہے ۔۔
میں عتیل عیسیٰ خیلوی کے در پہ کھڑا تھا ، اللہ اکبر !
دروازے کے اوپر تین اینٹوں کی سمنٹ کی چنائی، جس میں سنگ مرمر ایک چھوٹی تختی پر “عتیل ظہوری” لکھا تھا ، (عتیل صاحب کتابت میں انوار حسین ظہوری کے شاگرد تھے ) بے ترتیب اینٹوں والی گرنے پہ آمادہ دیوار ، کچی گلیوں کے ایک کنارے گندے پانی کی نالی ، نالی کا پانی کہیں کہیں گلی تک پھیلا ہوا !
وقت کے بڑے بڑے ہیرے یہاں کھڑے ہونے کا اعزاز حاصل کر چکے ہوں گے اور آج مجھ نالائق کو یہ سعادت نصیب تھی ، میں اپنی سوچوں میں تھا کہ دروازے کا ایک پٹ کھول پردہ ہٹا کر باہر جھانکتے ہوئے مسکراتے ہوئے عتیل صاحب برآمد ہوئے اور فرمایا ؛
“توں عتیل دے بوہے تے آویں تے چاء وی نہ پیویں ، اے کنجیں تھی سگدائے؟”
تم عتیل کے دروازے پہ آو گے اور چائے بھی نہیں پیو گے یہ کیسے ممکن ہے !
مختصر سا صحن ، صحن کے وسط میں نلکا ، ایک جانب برآمدے جیسا سامنے سے کشادہ کمرہ جس میں لکڑیاں ، اپلے اور ٹوٹی چارپائیاں نظر آ رہی ہیں سامنے ایک کمرہ اسی سے منسلک ایک چارپائی سے کچھ زیادہ بڑا کچن ، جس میں پیڑھی کا ایک حصہ دکھائی دے رہا ہے ۔۔ اسی کمرے کی دو دیواریں کتابوں سے بھری ہوئی ہمیں دیکھ رہی تھیں !
یہ خستہ حالی دیکھ کر طبیعت ملول ہو گئی ۔۔ خود ہی جست کی پتیلی اٹھا کر نلکے پہ دھونے چل دیے ۔۔ میں نے ہاتھ سے لینے کی مکمل کوشش کی تو سرزنش کے انداز میں بولے ۔۔
بچے میرا روز کا کام ہے ۔۔
ساتھ ساتھ بتاتے گئے
بیٹی سے بہت محبت تھی ۔ اللہ نے اسے اپنے پاس بلا لیا ۔۔ بیگم کو فالج ہو گیا ۔۔ جتنی دیر تمھیں انتظار کرایا اس کی چادر ٹھیک کر رہا تھا ۔۔ اب صحت ویسی نہیں رہی ۔۔ لیکن اللہ کا شکر ہے ۔۔
وہ بولتے جا رہے تھے ۔۔
کئی بار بیٹی کے ذکر ، احباب کی سنگ دلی ، دوستوں
کی لاپرواہی اور حکومت کی ناقدری پہ ان کی آنکھوں میں موتی چمکے لیکن ضبط کر گئے !
چائے بنی ، پی گئی ، کتابیں ، آٹوگراف ، تصویریں ، ایک خزانہ تھا کہ چھپا ہوا تھا ۔۔
فرماتے ہیں
“سب شکوہ کرتے ہیں میں ان سے گپ شپ نہیں کرتا ۔۔ اب انھیں کون سمجھائے کہ میں ان سے کس موضوع پہ بات کروں ؟”
کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں
چھت ٹپکتی ہے ، ایک دن عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی ملے تو کہنے لگے ، عتیل میں نے اپنی کوٹھی پہ لائبریری بنوائی ہے تمھارے نام کا الگ گوشہ بنا دیتا ہوں اپنی کتابیں وہاں رکھوا دو ، ورنہ یہاں دیمک لگ جائے گی !
عتیل صاحب فرماتے ہیں میں نے جواباً کہا : “وے عطاء اللہ ؛ اے کتاباں میریاں معشوقاں ہن ، معشوقاں وی کوئی ڈیندا اے ؟”
(یہ کتابیں میری محبوبائیں ہیں ، اور محبوبائیں بھی کوئی دیتا ہے )
جاتے ہوئے مجھے جوش ملیح آبادی کی “یادوں کی برات” کا پرانا نسخہ نظر آیا ۔۔
میں نے جھجک کر کتاب پڑھنے کے لئے مانگی تو فرمایا :
تم تو ساری لائبریری بھی لے جا سکتے ہو ۔ مجھے پتہ چل گیا ہے تم کتابیں پڑھو گے ۔۔ عیسیٰ خیلوی کا کتابوں سے کیا کام !
چند ملاقاتوں کے بعد ہی عتیل صاحب ربِ اکبر کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے !!
اور علم و ادب کا ایک روشن ستارہ مٹی کا رزق بن گیا .
شاکر خان بلچ (میانوالی)
محمّد اکرم المعروف عتیل
اپ اپریل 1942 میں محلہ بمبرہ عیسیٰ خیل پیدا ہوئے اپکا تعلق بھٹی قوم سے تھا آپ نہیات شریف۔اچھے اخلاق اور خاموش طبع تھے اپکی علاقه میں معروف شاعر۔کتب نویس پہچان تھی۔ شاعری میں عتیل عیسیٰ خیلوی تخلص کرتے۔ اور اسی نام سے مشور تھے آپ پامسٹی بھی کرتے۔اپ اعلی قسم خوش نویس تھے لوگ اپ سے کتبے ۔اشتہار ۔بینر وغیرہ لکھواتے ۔میٹرک کے بعد 1964 میں اپ محکمہ وٹنری میں ملازم ہو گئے ۔اپکی شاعری سنجیدہ اور معیاری تھی۔ آپکے مجموعہ کلام میں پھل کلیاں ۔گرد آیام ۔جبکہ تصانیف میں رسوایاں۔شہر بے وفا۔ گل دہشت۔تذکرہ شامل ہیں آپکے اچھے اخلاق اور خوش مزاجی کی وجہ سے لوگ اپکی عزت کرتے۔ آپکے اصل نام محمّد اکرم سے لوگ کم واقف تھے اپنے تخلص عتیل عیسیٰ خیلوی سے مشور تھے اپکی وفات دسمبر 2012 ہی۔ اللّه تعالیٰ انکی مغفرت فرمائے –
تحریر و ترتیب -صوبیدار (ریٹائرڈ) حاجی محمد رفیع اللہ خان
Muhammad Akram, widely known by his pen name Ateel Isa Khelvi (April 4, 1942 – December 2012), was a renowned...
Read More
AFZAL AJIZ WAS BORN ON 7 JANUARY 1967 . HE IS FROM MIANWALI AND WELL KNOWN FAMOUS POET , LYRICIST...
Read More
AKRAM ZAHID NIAZI IS ONE OF THE POPULAR LYRICISTS OF MIANWALI FOLK MUSIC .HE HAS LOT OF SONGS AT HIS...
Read More
ASAD AMRAN SHAH A native of Pakki Shah Mardan and now a proud resident of Mianwali, is a symbol of...
Read More
تعارف اسد مصطفی (بطور شاعر اور ادیب) ۱۰جولائی ۱۹۷۰ء کو میانوالی شہر میں پیدا ہوا۔میرا آبائی گاؤں ٹبی شریف ہے...
Read More
EHSAN NIAZI, KNOWN AS EHSAN KALEEM NIAZI,IS ONE OF THE EDUCATED AND EXCELLENT POET, WHO PRODUCED GOOD POETRY IN URDU,PUNJABI...
Read More
SARDAR UMER FAROOQ KNOWN AS FAROOQ ROKHRI WAS BORN IN ROKHRI MIANWALI, ON MAY 29, 1929. HE GREW UP IN...
Read More
HABIB KHAN ROKHRI WAS BORN ON 12 APRIL 1982 .HE IS WELL KNOWN POET FROM ROKHRI MIANWALI . HE STUDIED...
Read More
حمید اللہ خان معروف بہ ضیاء اسلام پوری بہت سیر کی باغ و راغ جہاں کی ضیاء تھک گئے...
Read More
امداد حسین خان کی سوانح عمری میں امداد نیازی ایک باصلاحیت اور پرجوش مصنف ہے جو اپنی مادر وطن کی...
Read More
CREATOR OF PAKISTAN’S FIRST NATIONAL ANTHEM JAGAN NATH AZAD WAS BORN IN 1918 IN ISA KHEL IN THE PUNJAB .HE...
Read More
MAJBOOR ESA KHELVI WAS BORN IN ESA KHEL ON 01 JAN 1935. HE GOT INTERMEDIATE IN FINE ARTS AFTER GETTING...
Read More
PROFESSOR MUHAMMAD SALEEM AHSAN THE PRIDE OF MIANWALI EARLY LIFE & EDUCATION Prof. Muhammad Saleem Ahsan, is a distinguished...
Read More
MANSOOR AFAQ,S WAS BORN ON JANUARY 17, 1962. HE PASSED HIS HIGH SCHOOL EDUCATION FROM JAMIA HIGH SCHOOL MIANWALI. HE DID...
Read More
Muhammad Akram, widely known by his pen name Ateel Isa Khelvi (April 4, 1942 – December 2012), was a renowned...
Read More
MUHAMMAD MAHMOOD AHMAD WAS BORN ON 12 NOVEMBER IN MIANWALI .MUHAMMAD MAHMOOD AHMAD IS POET OF URDU , SERAIKI, PERSIAN...
Read More
THE FINEST CONTEMPORARY SERAIKI POET FROM MIANWALI MUHAMMAD MAZHAR NIAZI IS A VERY FAMOUS POET OF MIANWALI DISTRICT. HE BELONGS...
Read More
MUHAMMAD NAJAF ALI WAS BORN ON JULY 3, 1989 IN MIANWALI ,PAKISTAN. HE ATTENTEDD AND COMPLETED HIS STUDIES FROM VIRTUAL...
Read More
I AM A RETIRED PROFESSOR OF ENGLISH. I HAVE BEEN WRITING POETRY AND PROSE IN ENGLISH,URDU,PERSIAN AND SIRAIKI. MY SIRAIKI...
Read More
MURID ABBAS QAMAR WAS BORN IN VILLAGE NAURANGA SIFTED TO PAKKI SHAH MARDAN (DISTT MIANWALI. AS POET HE IS KNOWN...
Read More
محمد سلیم احسن – نعتیہ و حمدیہ شاعری کا روحانی سفر اردو ادب میں نعت اور حمد کی صنف...
Read More
POET/WRITTER /COLUMNIST NASIR ABBAS IS THE MAN OF MANY QUALITIES. HE IS FROM MARI INDUS MIANWALI. HE WAS BORN ON...
Read More
Noor Tarikhelvi was born on 11 may 1984 in mianwali . he joined Govt.comprehensive high school mianwali and passed matric...
Read More
PERSONAL QUALITIES OF PROFESSOR MUHAMMAD SALEEM AHSAN FROM THE PEN OF CELEBRITIES پروفیسر ملک محمد سلیم احسن کے بارے میں ...
Read More
شاعر پروفیسر محمد سلیم احسن ---میانوالی سے پہلا قومی صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر شاعر پروفیسر محمد سلیم احسن کی شاعری...
Read More
نورنگا کا روشن دمکتا ستارہ پروفیسر گلزار بخاری کھڑکیاں جاگتی آنکھوں کی کھلی رہنے دو چاند کو دل میں اترنا...
Read More
خیر کا اجر تیرے شہر میں کیا دیتے ہیں غزل پروفیسر گلزار بخاری خیر کا اجر تیرے شہر میں کیا...
Read More
پروفیسر رئیس احمد عرشی پیدائش اور ذاتی پس منظر پروفیسر رئیس احمد عرشی (اصل نام: احمد خان نیازی) یکم...
Read More
پروفیسر عاصم بخاری — ایک ہمہ جہت ادبی شخصیت ادب کے افق پر کچھ نام ایسے طلوع ہوتے ہیں جو...
Read More
A POET FROM THE SOIL OF MIANWALI. HE WAS BORN ON 19 DECEMBER 1977. HE ATTENDED GOVERNMENT COMPREHENSIVE HIGH SCHOOL...
Read More
SHAKIR KHAN NIAZI IS A URDU POET. HE WAS BORN ON 6 DEC 1987 . HE PASSED HIS MATRIC...
Read More
آسمانِ ادب کا شہابِ ثاقب۔۔سید نصیر شاہ حدِ ادب انوار حسین حقی سید نصیر شاہ18 دسمبر کی شام اپنے خالقِ...
Read More
Zafar Khan Niazi , Station Director Rted Radio Pakistan Islamabad (Grade 20) from Radio Pakistan in 2006 . He was...
Read More