MUHAMMAD AKRAM KNOW AS ATEEL ISA KHELVI BORN IN ISA KHEL ON 4TH APRIAL 1942 AFTER COMPLETING HIS STUDIES HE JOINED LIVESTOCK DEPARTMENT IN 1964 AND RETIRED FROM THEIR IN 1997 .HIS FIRST POETRY BOOK RASHTA DARD WAS PUBLISHED IN 1885 .HE IS WELL KNOWN IN MIANWALI WRITER AND POET CIRCLE .FOLLOWING BOOKS ARE AT HIS CREDITGULL DASHAT IN !1978, RUSWAIAN 1991,TAZKRA SHURAEN PUNJABI,SHERE-E- BEWFFA -1997,GARDE-E-AYYAM – 2002, AND MANY OTHER
عتیل عیسیٰ خیلوی
عتیل عیسیٰ خیلوی اردو اور سرائیکی کے عمدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین کاتب ، ستارہ شناس اور دست شناس بھی تھے ۔ بچپن میں “عتیل” تخلص والے دوہڑے اور گیت عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی آواز میں سنے ۔ پھر اپنے سینئرز کی زبانی “عتیل عیسیٰ خیلوی کی بیٹھک کی چائے ” کے تذکرے سنے ۔
منور علی ملک صاحب کی کتاب “درد کا سفیر “پڑھتے ہوئے پھر وہی واقعات ۔۔ موسیقی کا پروگرام کہیں بھی ہوتا ۔۔عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کی سوئی اس بات پہ اٹک جاتی کہ چائے عتیل کے پاس پیئیں گے ۔۔۔
یہ جاڑے کا اختتام تھا ۔ میٹھی میٹھی دھوپ اچھی لگتی تو ٹھنڈی ہوا جسم کو چبھتی ۔ میں نے مرید عباس شانو (دوہڑے کے اچھے شاعر ) سے کہا کہ تیاری پکڑو عتیل صاحب کے پاس جاتے ہیں ۔ کئی احباب یہ بتا چکے تھے کہ عتیل صاحب اب عمر کے اس حصے میں ہیں کہ صحت کی خرابی کی وجہ سے ملنے سے گریز کرتے ہیں ۔ کئی دوستوں نے یہ بھی بتایا کہ بہت چڑچڑے ہو گئے ۔۔ لیکن یہ سب تو شاعروں ادیبوں کے ساتھ جڑا ہوا اس لئے ان تمام معاملات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ سوچ کر وقت لیا کہ یہ اعزاز کم تو نہ ہو گا کہ عتیل صاحب کی زیارت ہو گی ۔
ہماری ملاقات ایک دوست کے دولت خانے پر ہونا تھی ۔ دوست کا وعدہ تھا کہ وہ عتیل صاحب کو گھر سے لے آئیں گے ۔ حسبِ وعدہ عتیل صاحب تشریف لے آئے ۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ سا وجود ، چھوٹا قد ، نرم و ملائم ہاتھ ، میٹھا سانولا رنگ ، سادہ خدوخال ، شریفانہ ہیت ، اور دھیما نستعلیق لہجہ ۔۔۔ کافی دیر چپ بیٹھے رہے ۔ میرے استاد محترم ابوالمعانی عصری صاحب کا ذکر ہوا تو عتیل صاحب نے انھیں علامہ عصری کے نام سے یاد کیا اور فرمانے لگے کہ وہ ہم سب سے الگ تھے . عتیل صاحب حسبِ توقع بہت کم بول رہے تھے ۔ اچانک انھوں نے گفت گو میں حافظ کا مصرع پڑھا۔۔
جریدہ رَو کہ گزرگاہِ عافیت تنگ است
میں نے فوراً گرہ لگائی۔۔
پیالہ گیر کہ عمرِ عزیز بے بدل است۔۔۔
عتیل صاحب جھوم اٹھے ۔۔ پوچھنے لگے تمھیں اس غزل کے مزید کچھ شعر یاد ہیں ؟
بھلا ہو عصری صاحب کا ایک بار فیض صاحب کی نظم “حبیبِ عنبر دست” کے حوالے سے میرے استفسار پہ انھوں نے نا صرف حافظ شیرازی کی غزل سنائی تھی بلکہ مجھے یاد کرنے کا حکم بھی صادر فرما دیا تھا سو کچھ اشعار یاد تھے جو میں نے پڑھ دیے ۔۔ پھر تو گویا ان کا باتوں والا بٹن آن ہو گیا ۔۔
رام لعل ، انجم جعفری ، شرر صہبائی ،مجبور عیسیٰ خیلوی ، سونا خان بے وس ، آڈھا خان ، گلزار بخاری ، مشتاق گھمٹالوی سے لے کر سید نصیر شاہ اور سر منور علی ملک تک اپنی یادوں کی گھٹڑی کھول کر بیٹھ گئے ۔۔
انھیں موٹے شیشوں والی عینک لگتی تھی میرے بات کے دوران میری ہتھیلی دیکھتے ہی چشمہ درست کیا اور ہاتھ تھام کر لکیریں پڑھنے لگے ۔۔
بغور ہاتھ کو دیکھنے کے بعد پیشانی کی کچھ لکیریں دیکھتے ہوئے کہا ،
“بھئی ۔۔۔۔ شادی مت کرنا۔۔”
میں نے ہنس کر کہا ۔۔ حضور شادی تو ہو چکی ۔۔ !
اوہ ۔۔ ظالم انسان ۔۔ کہتے ہوئے پھر ہاتھ تھام لیا اور کہتے ہیں اب نبھاہ کرنا ، ہماری بہو کو چھوڑنا مت !
پھر ماتھے کی لکیریں پڑھتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ بھرپور عشق سے دوچار ہو گے اور عمر بھی خوب پاؤ گے لیکن افسوس ہے کہ اخیر عمر میں درویش ہو جاؤ گے ۔۔
آخری جملہ ادا کرتے ہوئے عتیل صاحب مسکرا دیے ۔ میں نے ادب سے کہا سر درویش تو ابھی بھی ۔۔
جملہ کاٹتے ہوئے فرمایا ۔۔ وقت تمھیں سمجھائے گا اور ہاں ان باتوں پہ یقین کرنا شرک ہوتا ہے !!
کافی دیر مجلس رہی ۔۔ آخر عتیل صاحب نے اجازت طلب کی تو میں نے اصرار کیا میں آپ کو گھر تک چھوڑنے آؤں گا ۔۔ مقصد یہی تھا کہ عتیل صاحب کا گھر دیکھ لوں ۔۔ لیکن عتیل صاحب کا انکار کہ نہیں شاکر تمھارے ساتھ نہیں جانا مجھے !
چاروناچار مجھے واضح کہنا پڑا کہ میں صرف آپ کا گھر دیکھنا چاہتا ہوں تو عتیل صاحب آبدیدہ ہو کر فرماتے ہیں
بیٹا ! اب وہ گھر گھر نہیں رہا ۔۔ اس قابل ہوتا تو تمھیں ضرور ساتھ لے جاتا ۔۔
میں نے اصرار کیا کہ چلیں مجھے اپنے گھر کی گلی تک لے چلیں ۔۔ جہاں اتنے بڑے بڑے ادیب ، شاعر ، موسیقار آئے ہیں اس گلی کی زیارت بھی بہت ہے !
عتیل صاحب چل پڑے ۔۔ سڑک سے اتر کر قبرستان ، قبرستان سے گزرے تو عتیل صاحب فرمانے لگے ان قبروں میں سے اکثر کے کتبے میرے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔۔
ساتھ ہی قبرستان سے ایک گلی کی جانب ہم محلے میں داخل ہوئے ۔۔ دو تین گلیوں میں مڑنے کے بعد ایک جگہ پہ مجھے روک دیا ۔۔۔ خیال تھا کہ اب حکم ملے گا کہ تم جاؤ !
لیکن اس کے الٹ ہوا ۔۔
ٹھہرو ۔۔ میں آیا ۔۔ !
کچھ دیر انتظار کے بعد میں سوچنے لگا کہ شاید عتیل صاحب اپنی کوئی کتابیں ڈھونڈ رہے ہوں کہ ہم لکھنے والوں کا سب سے بڑا تحفہ کتاب ہے ۔۔
میں عتیل عیسیٰ خیلوی کے در پہ کھڑا تھا ، اللہ اکبر !
دروازے کے اوپر تین اینٹوں کی سمنٹ کی چنائی، جس میں سنگ مرمر ایک چھوٹی تختی پر “عتیل ظہوری” لکھا تھا ، (عتیل صاحب کتابت میں انوار حسین ظہوری کے شاگرد تھے ) بے ترتیب اینٹوں والی گرنے پہ آمادہ دیوار ، کچی گلیوں کے ایک کنارے گندے پانی کی نالی ، نالی کا پانی کہیں کہیں گلی تک پھیلا ہوا !
وقت کے بڑے بڑے ہیرے یہاں کھڑے ہونے کا اعزاز حاصل کر چکے ہوں گے اور آج مجھ نالائق کو یہ سعادت نصیب تھی ، میں اپنی سوچوں میں تھا کہ دروازے کا ایک پٹ کھول پردہ ہٹا کر باہر جھانکتے ہوئے مسکراتے ہوئے عتیل صاحب برآمد ہوئے اور فرمایا ؛
“توں عتیل دے بوہے تے آویں تے چاء وی نہ پیویں ، اے کنجیں تھی سگدائے؟”
تم عتیل کے دروازے پہ آو گے اور چائے بھی نہیں پیو گے یہ کیسے ممکن ہے !
ہائےےے ہائے ۔۔
وہ واقعی گھر نہیں تھا !
مختصر سا صحن ، صحن کے وسط میں نلکا ، ایک جانب برآمدے جیسا سامنے سے کشادہ کمرہ جس میں لکڑیاں ، اپلے اور ٹوٹی چارپائیاں نظر آ رہی ہیں سامنے ایک کمرہ اسی سے منسلک ایک چارپائی سے کچھ زیادہ بڑا کچن ، جس میں پیڑھی کا ایک حصہ دکھائی دے رہا ہے ۔۔ اسی کمرے کی دو دیواریں کتابوں سے بھری ہوئی ہمیں دیکھ رہی تھیں !
یہ خستہ حالی دیکھ کر طبیعت ملول ہو گئی ۔۔ خود ہی جست کی پتیلی اٹھا کر نلکے پہ دھونے چل دیے ۔۔ میں نے ہاتھ سے لینے کی مکمل کوشش کی تو سرزنش کے انداز میں بولے ۔۔
بچے میرا روز کا کام ہے ۔۔
ساتھ ساتھ بتاتے گئے
بیٹی سے بہت محبت تھی ۔ اللہ نے اسے اپنے پاس بلا لیا ۔۔ بیگم کو فالج ہو گیا ۔۔ جتنی دیر تمھیں انتظار کرایا اس کی چادر ٹھیک کر رہا تھا ۔۔ اب صحت ویسی نہیں رہی ۔۔ لیکن اللہ کا شکر ہے ۔۔
وہ بولتے جا رہے تھے ۔۔
کئی بار بیٹی کے ذکر ، احباب کی سنگ دلی ، دوستوں
کی لاپرواہی اور حکومت کی ناقدری پہ ان کی آنکھوں میں موتی چمکے لیکن ضبط کر گئے !
چائے بنی ، پی گئی ، کتابیں ، آٹوگراف ، تصویریں ، ایک خزانہ تھا کہ چھپا ہوا تھا ۔۔
فرماتے ہیں
“سب شکوہ کرتے ہیں میں ان سے گپ شپ نہیں کرتا ۔۔ اب انھیں کون سمجھائے کہ میں ان سے کس موضوع پہ بات کروں ؟”
کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں
چھت ٹپکتی ہے ، ایک دن عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی ملے تو کہنے لگے ، عتیل میں نے اپنی کوٹھی پہ لائبریری بنوائی ہے تمھارے نام کا الگ گوشہ بنا دیتا ہوں اپنی کتابیں وہاں رکھوا دو ، ورنہ یہاں دیمک لگ جائے گی !
عتیل صاحب فرماتے ہیں میں نے جواباً کہا : “وے عطاء اللہ ؛ اے کتاباں میریاں معشوقاں ہن ، معشوقاں وی کوئی ڈیندا اے ؟”
(یہ کتابیں میری محبوبائیں ہیں ، اور محبوبائیں بھی کوئی دیتا ہے )
جاتے ہوئے مجھے جوش ملیح آبادی کی “یادوں کی برات” کا پرانا نسخہ نظر آیا ۔۔
میں نے جھجک کر کتاب پڑھنے کے لئے مانگی تو فرمایا :
تم تو ساری لائبریری بھی لے جا سکتے ہو ۔ مجھے پتہ چل گیا ہے تم کتابیں پڑھو گے ۔۔ عیسیٰ خیلوی کا کتابوں سے کیا کام !
چند ملاقاتوں کے بعد ہی عتیل صاحب ربِ اکبر کی بارگاہ میں حاضر ہو گئے !!
اور علم و ادب کا ایک روشن ستارہ مٹی کا رزق بن گیا .
شاکر خان بلچ (میانوالی)
ATEEL ISA KHELVI POETRY