حضرت عبدالغفور باہی علیہ الرحمہ (مٹھہ خٹک)

HAZRAT ABDUL GHAFOOR BAHI – MITHA KHATAK

تحریر-سید طارق مسعود کاظمی-مصنف   کتاب سرزمین اولیا میانوالی

آپ باہی خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ کے والد محترم کا نام شیخ ابراہیم باہی بتایا جاتا ہے۔ آپ اس جگہ کیسے پہنچے تاریخ میانوالی مرتبہ ڈاکٹر لیاقت علی نیازی میں کتاب نیازی قبیلے کی داستان کے حوالے سے درج ہے کہ:

نیازی کے بیٹے باہی کے اخلاف کو زہد و تقویٰ کی بدولت ہمیشہ بلند مرتبہ حاصل رہا ہے۔ نیازی قبیلے کی داستان کے مؤلفین نے موجودہ موسیٰ خیل کے علاقے میں سب سے پہلے عبدالکریم باہی علیہ الرحمہ کا آمد کا تذکرہ کیا ہے ان کے خیال میں یہ واقعہ پندرھویں صدی عیسوی کا ہے، بعد میں اس علاقے میں اس کی اولاد نے رشد و ہدایت کی شمع روشن رکھی۔ چنانچہ جب موسیٰ خیلوں اور سلطان خیلوں کی پانی کے تنازعہ پر آپس میں ٹھن گئی تو شیخ ابراہیم باہی نے معاملہ طے کرنا چاہا تھا اگرچہ اس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوئے۔ موسیٰ خیل سے ہجرت کے بعد سلطان خیلوں کو ترگ کے عوام نے موجودہ جائے سلطان خیل پر قدم جمانے نہ دیئے۔ ناچار سلطان خیلوں کا ایک وفد حضرت شیخ ابراہیم باہی علیہ الرحمہ کی خدمت میں مدد خواہ پہنچا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے فرزند شیخ عبدالغفور کو سلطان خیلوں کی مستقل آباد کاری کے واسطے روانہ کیا جنہوں نے سلطان خیل (موجودہ) کی بنیاد ڈالی۔ شیخ عبدالغفور کی اولاد آج بھی سلطان خیل کے مضافات میں باہیاں والا میں مقیم ہے۔ روایت ہے کے کہ شیخ عبدالغفور باہی کی دعا کے طفیل (مٹھہ خٹک میں موجودپانی کا چشمہ) سلطان خیلوں کے قبضے ہی میں رہا۔ اس سلسلہ میں ایک ضرب المثل بھی مروتوں اور خٹکوں میں زبان زد عام رہی کہ ‘‘سلطان خیل چہ میٹھا خوری چاپو دعا سرا’’(یعنی سلطان خیل جو مٹھا خٹک کے چشمہ سے فیض یاب ہو رہے ہیں تو کسی کی دعا سے سبب سے ہے) ۔

بزرگوں کا کہنا ہے کہ انہیں یہاں ان کی وصیت کے مطابق دفن کیاگیا ہے مقبرے کے احاطے میں ان کے بیٹے شیخ خواجہ نور علیہ الرحمہ کو بھی جگہ دی گئی ہے ۔ اوائل میں یہ زیارت گاہ اڑھائی تین فٹ چار دیواری میں گھری تھی تب ان کے مزار پر بے شمار مکوڑے ہوا کرتے تھے ۔ ان کے مقبرہ سے تھوڑے ہی فاصلے پر ان کے خلیفہ شاہ زمان کا مزار ہے یہاں بھی بے شمار مکوڑے ہوا کرتے تھے ۔ مگر 1970 ء میں جب ان پر مقبرہ تعمیر کیا گیا تو مکوڑے احاطہ چھوڑ گئے۔ اس پر شیخ عبدالغفور باہی علیہ الرحمہ کے قبیلے ہی کے خلف رشید شیخ احمد باہی علیہ الرحمہ کو شہ ملی چنانچہ 1980 ء میں شیخ عبدالغفور باہی علیہ الرحمہ کا مقبرہ تعمیر کیا گیا ۔ اس مقبرے کے کچھ فاصلے پر شمالی جانب چشمے کی گزرگاہ سے متصل کریم خان ولد عبوت خان بیکی خیل نے زائرین کی سہولت کے لئے ایک مسجد بھی تعمیر کرائی تھی جسے بعد میں 1975-76 ء میں شیخ احمد باہی علیہ الرحمہ ہی نے توسیع دی اور پختہ کیا ساتھ ہی ایک حجرہ بھی بنوایا۔

کوڑھ ، خارش اور چمبل وغیرہ کے مریض آپ کے مزار پر بکثرت حاضرہوتے ہیں اور قریب ہی موجود چشمے پر نہاتے ہیں اور مزار پر حاضر ہو کر شفایابی کی دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے امراض کو دور کر دیتا ہے۔

شجرہ قادریہ: آپ کا منظوم شجرہ میسر ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سلسلہ قادریہ کے بزرگ تھے ۔

شیخ شمس الدین شمس النور حضوری

حضرت عبدالکریم کرم تھیں دور کریندے دوری (عبدالکریم باہی علیہ الرحمہ)

شیخ سید میر بائی خان دا جگمگ جلوہ نوری

شیخ طور ظہور فقر تھیں دیہن شفا بیماراں               (شیخ تور باہی علیہ الرحمہ)

پیر میراں یاغوث الاعظم دم دم نال پکاراں

پیر پٹھان سخی دے گلشن مست الست بہاراں

حضرت مرزا شیخ صاحب نے جھنڈے فیض جھلائے   (شیخ مرزا باہی علیہ الرحمہ)

شیخ الہٰ داد امداد کریندے جو دروازے آئے

حضرت شیخ داؤد صاحب دے انت نہ جاندے پائے

حضرت ابراہیم پیارے محرم کل اسراراں         (شیخ ابراہیم باہی علیہ الرحمہ)

پیر میراں یاغوث الاعظم دم دم نال پکاراں

پیر پٹھان سخی دے گلشن مست الست بہاراں

شیخ عبدالغفور سراں توں ٹالن سب آفاتاں         (عبدالغفور باہی علیہ الرحمہ)

شیخ احمد دی جھلکوں نسن کالیاں غم دیاں راتاں

شیخ الہٰ داد ثانی لاثانی بخشی فیض براتاں

حضرت گل محمد پائے رتبے باہجھ شماراں

پیر میراں یاغوث الاعظم دم دم نال پکاراں

پیر پٹھان سخی دے گلشن مست الست بہاراں

حوالہ جات:

۱۔      تاریخ میانوالی مضمون پروفیسر رئیس احمد عرشی

۲۔      جناب حمید خان سلطان خیل، زربادشاہ خٹک کرک اور محمد یوسف صابری مٹھہ خٹک کا تعاون شامل حال رہا۔

۳۔      منظوم شجرہ دائم اقبال دائم منڈی بہاؤالدین

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top