HAZRAT NOOR MUHAMMAD GHANJIRA DING KHOLA

حضرت نور محمدگھنجیرہ علیہ الرحمہ (ڈنگ کھولہ)

بکھڑا کی سرزمین میں کوئی ایسی کشش رہی کہ ا ولیائے کرام دور دور سے آکر وہاں اپنا مسکن بنا لیتے تھے۔ متعدد اولیاء کرام کا تذکرہ کیا جا چکا ہے جوکہ اس مردم خیز سرزمین کی طرف مختلف علاقوں کا سفر کرنے کے بعد پہنچے اور پھر وہیں اپنا ٹھکانہ بنالیا۔ حضرت میاں غلام محمد حضوری علیہ الرحمہ بکھڑوی ، قریشی ہاشمی خاندان کے جانڈلو فقیر، حافظ ساندھ اور ان کی خانقاہیں ان لوگوں کی دین سے محبت کا احوال بتاتی ہیں۔ لیکن ان سب سے قدیم اور پرانے بزرگ حضرت نورمحمد گھنجیرہ علیہ الرحمہ ہو گزرے ہیں۔

آپ کا عرصہ حیات

مختلف حوالوں سے آپ حضرت میاں علی محمد علیہ الرحمہ کے ہم عصر مانے جاتے ہیں اور اندازہ کیا جاتا ہے کہ آپ سترہویں (17 ) صدی کے آخر یا اٹھارویں صدی کے شروع میں اس جگہ تشریف لاکر عبادت گزار ہوئے۔ کچھ روایات میں آپ کا سن وصال 1740ء بتایا جاتا ہے۔ اس اندازے سے آپ 250سال قدیم بزرگ شمار کئے جا سکتے ہیں۔آپ کی اور حضرت میاں علی محمد بن سلطان زکریا رحمتہ اللہ علیہما کی دوستی کا واقعہ ان کے حالات زندگی میں درج کیا گیا ہے۔

کچھ روایات میں آپ کی بکھڑا شریف آمد سے قبل سلطان خیل میں سکونت بتائی جاتی ہے۔ چونکہ آپ ہر وقت جنگلوں، پہاڑوں میں اللہ کے ذکر میں مصروف رہتے تھے۔ آپ کا کوئی خاص ٹھکانہ نہیں ہوتا تھا۔ سلطان خیل میں بھی ایک (کھگل) کا بڑا درخت ، جس میں خول بنا ہوا تھا آپ کا مسکن تھا۔ اسی درخت کی کھوہ میں آپ اللہ اللہ کرتے تھے ۔ وہاں کے کچھ لوگ آپ کے اس مسکن سے واقف ہو گئے اورانہوں نے آپ سے اپنی عقیدت کا رشتہ استوار کر لیا۔لیکن آپ وہاں سے بکھڑا کی طرف چلے آئے تو ان عقیدت مندوں نے بھی آپ کا ساتھ دیا اور یہاں پر آپ کی خدمت کرنے لگے ۔ آپ کے یہ خدمتگار میانہ خاندان ہے جو آج بھی آپ کے مزار کا مجاور اور خادم شمار ہوتا ہے۔آپ کے وصال کے بعد آپ کو یہاں دفن کیا گیا اور آپ کے خادم میانہ خاندان نے بھی اردگرد سکونت اختیار کرلی۔یہ جگہ خانقاہ حضرت نور محمد گھنجیرا سے مشہور ہوئی۔

آپ ایک بلند پایہ بزرگ ہستی ہیں ۔ آپ کے ساتھ عقیدت کا اظہار مختلف اولیائے کرام کرتے چلے آئے ہیں جیسا کہ مشہور ہے ولی راولی فی شناسد ولی کو ولی ہی پہچان سکتا ہے۔حضرت جان محمد علیہ الرحمہ میبل شریف کی خدمت میں اس علاقہ کے لوگ جب حاضر ہوتے تھے تو آپ ان سے پوچھتے کہ تمہارے راستے میں ایک خانقاہ حضرت نور محمد علیہ الرحمہ واقع ہے کیا آتے ہوئے تم اس پر فاتحہ پڑھ کر آئے ہو یا نہیں؟ پھر آپ تاکید فرماتے کہ وہاں ضرور ان کے مزار پر حاضری دے کرپھر یہاں میرے پاس آیا کریں۔

کشف و کرامات:

آپ کی کشف و کرامات کے مختلف واقعات بیان کئے جاتے ہیں ۔

(۱) جناب محمد سعید اسدی صاحب ایڈوکیٹ جو کہ بکھڑا شریف کے جانڈلو خاندان کے انتہائی عالم فاضل اور بزرگ ہیں، اپنے خاندانی حوالوں سے بیان کرتے ہیں کہ ایک اللہ کا نیک بندہ آپ کے مزار پر مراقب تھاکہ خواب کی حالت میں اس کو حضرت نورمحمد گھنجیرہ علیہ الرحمہ نے حکم دیا کہ باہر جاؤایک مرد اور عورت میری حاضری پر آرہے ہیں ان کو یہاں آنے سے منع کردو۔ وہ شخص باہر نکلا ۔ اردگرد نظر دوڑائی تو کوئی نظر نہ آیا اور واپس آکر پھربیٹھ گیا۔ پھر خواب کی حالت طاری ہوئی تو فرمایا گیا کہ باہر جا کر ان کو زیارت پر آنے سے منع کردو۔ اب اس نے ان دو بندوں کی تلاش شروع کردی ۔چنانچہ ایک طرف سے ایک مرد اور ایک عورت آتے ہوئے نظر آئے۔ فوراً ان کے پاس جا کر پوچھا کہ کہاں جارہے ہو؟ وہ کہنے لگے ہم خانقاہ نورمحمد علیہ الرحمہ کی زیارت کو جارہے ہیں۔تو اس بزرگ نے انہیں حضرت صاحب کا حکم سنایا کہ تم وہاں نہیں جا سکتے ہو۔ تمہیں زیارت سے منع کر دیا گیا ہے۔چنانچہ استفسار سے پتہ چلا کہ دونوں زیارت کے لئے آرہے تھے ۔ راستے میں ملاقات ہوئی اور راستے ہی میں دونوں سے گناہ سرزد ہو گیا ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کر لیا اور معافی کے خواستگار ہو کر واپس چلے گئے۔

(۲) آپ کی خانقاہ کے بالکل ساتھ چشمہ کا ایٹمی پلانٹ واقع ہے اور متعدد لوگ اس بات کو روایت کرتے ہیں کہ تکمیل کے بعد غیر ملکی انجیئر پلانٹ پاکستانی حکام کے حوالے کرکے چلے گئے لیکن ان سے یہ پلانٹ نہیں چل رہا تھا اور بار بار بند ہو جاتا تھا۔ حتی کہ انجیئرز مایوس ہو گئے اور حکام بالا کو اطلاع دی گئی چنانچہ ان کے انتہائی سینئر افسران تشریف لائے تو انہوں نے پلانٹ کا جائزہ لیا۔ پھر پلانٹ سے باہر آکر قبرستان کا جائزہ لیا اور یہاں خانقاہ حضرت نور محمد علیہ الرحمہ پر جا کر حاضری دی۔ واپس آکر حکم دیا کہ خانقاہ اور اس کے قریب موجود مسجد میں فوراً حکومت کے خرچہ پر بجلی پہنچائی جائے۔ وہاں پنکھے وغیرہ لگوانے اور روشنی کا انتظام کرانے کے بعد تمام ملازمین کو ختم قرآن پاک کا حکم دیا اور اچھے کھانے کا بندوبست کیا گیا پھر دعائے خیر کی گئی۔ اس کے بعد جا کر پلانٹ کو چلایا گیا تو پلانٹ کامیابی سے چل پڑا اور تمام لوگ مطمئن ہوگئے۔

پرانے زمانے سے یہ خانقاہ جنات کے ستائے ہوئے ستم رسیدہ انسانوں کے لئے پناہ گاہ کی حیثیت رکھتی ہے اور اس قسم کے لوگ یہاں شفا حاصل کرتے ہیں۔

حوالہ جات:

۱۔         مراتب سلطانی

۲۔        گفتگو محمد سعید اسدی ایڈوکیٹ سعید آباد میانوالی

۳۔        میاں شوکت علی انجیئر میانوالی

۴۔        میاں خالد محمود ایڈوکیٹ میانوالی

۵۔        ماسٹر علم الدین صاحب کا غیر مطبوعہ مضمون

 

تحریر-سید طارق مسعود کاظمی-مصنف   کتاب سرزمین اولیا میانوالی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top