میانوالی کے بس اسٹینڈ کے قریب یہ تانگہ اسٹینڈ ہماری بچپن کی کئی حسین یادوں کا محور رہا۔ بچپن میں اکثر ہم تانگوں کو دیکھتے، ان کی گھنٹیوں کی آواز اور قدموں کی چاپ سنتے تھے۔ پھر جیسے ہی سکول کے دن آئے، ہم نے دیکھا کہ تانگے آہستہ آہستہ ختم ہوگئے اور مشینی سواریوں نے ان کی جگہ لے لی۔ مختلف رنگوں کے خوب صورت اور قد آور گھوڑے اور ان کی شاندار بگیاں ہوتیں تھیں۔
بس اسٹینڈ سے سواریاں لے کر تانگے شہر کی جانب روانہ ہوتے اور واپسی پر اسی مقام پر آ کر رکتے، جہاں ایک زمانے میں رونق ہوتی تھی۔ بس اسٹینڈ کی مغربی سمت مسافر خانہ تھا جہاں لوگ آرام کرتے یا گاڑی کا انتظار کرتے اور اس کے سامنے تانگہ اسٹینڈ کی چہل پہل ہوا کرتی تھی۔ جیسے ہی تانگے ختم ہوئے اس جگہ نے رکشوں اور دیہی علاقوں سے آنے والی ڈاٹسن و دیگر گاڑیوں کی میزبانی کی، مگر یہ رونق بھی عارضی تھی۔ وقت کے ساتھ یہ جگہ ویرانی کا شکار ہوتی گئی اور یہ عمارت جو کبھی زندگی سے بھرپور ہوا کرتی تھی کافی سال خاموشی اور ویرانی کی تصویر بنی رہی۔
اسی تانگہ اسٹینڈ کے قرب میں ٹاہلی کے شجر تلے ایک خوش مزاج بزرگ کا چائے خانہ بھی تھا۔ وہاں لکڑی کے بنچوں پر بیٹھے لوگ روزمرہ کے معاملات اور تجربات ساجھا کرتے اور چائے کی چسکیاں لے رہے ہوتے۔ اخباروں کو پڑھا جاتا، نجی و ملکی حالات کے بارے تبصرے ہوتے۔ اسی تانگہ اسٹینڈ کے ساتھ اڈے والی پرانی مسجد تاحال موجود ہے۔
آج بس اسٹینڈ جانا ہوا تو دیکھا کہ اب نئی تعمیرات کا آغاز ہو چکا ہے ان پرانی عمارتوں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر عجیب سا محسوس ہوا جیسے یادوں کا ایک حصہ اور ہمارے پرانے شہر کا نظارہ بھی انہی عمارتوں کے ملبے تلے دب گیا۔ وہ تانگہ اسٹینڈ، مسافر خانہ اور پرانی یادیں سب ختم ہو گئیں۔ اب اس جگہ جدید تعمیرات سے نیا شہر آباد ہوگا۔ یہ ترقی کا سفر اپنی جگہ بہت ضروری ہے مگر ان تبدیلیوں کے ساتھ وہ پرانی یادیں، عمارتیں و آثار ختم ہو جائیں گے۔
میانوالی–٦ نومبر ٢٠٢٤ ء، بدھ