MERA MIANWALI – DECEMBER 2020

MERA MIANWALI – DECEMBER 2020

منورعلی ملک کےدسمبر           2020 کےفیس بک پرخطوط

میرا میانوالی

پروفیسر سید مختار حسین طاھر کے بعد پروفیسر ملک محمد نواز چھینہ گورنمنٹ کالج عیسی خیل کے پرنسپل متعین ہوہے – چھینہ صاحب بھکر کے زمیندار خاندان کے فرد تھے – بول چال اور عادات بھی سیدھے سادے زمینداروں والی تھیں – کھلے ڈلے بے تکلف انسان تھے – ریاضی (میتھس) کے بہترین ٹیچرز میں شمار ہوتے تھے – انہوں نے سروس کا آغاز بھی اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت میں کیا تھا – ایک دن بھی لیکچرر نہیں رہے – میرٹ پر ڈائریکٹ اسسٹنٹ پروفیسر سیلیکٹ ہو گئے – اس لیے جوانی ہی میں بہت ترقی کرگئے – ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور میں شعبہ ریاضی کے سربراہ کے منصب سے گریڈ 21 میں رٰیٹائر ہوئے –

پروفیسر مختارحسین طاہر کی طرح چھینہ صاحب بھی بہت کامیاب ایڈمنسٹریٹر تھے – کالج کو اپنی الگ بلڈنگ اور واٹر سپلائی کا نظام دلوانے کا سہرا ان کے سر ہے – میرے ساتھ ہی وہ بھی عیسی خیل سے ٹرانسفر ہوئے – میں گورنمنٹ کالج میانوالی آگیا ، وہ گورنمنٹ کالج بھکر چلے گئے – مجھ پر بہت مہربان تھے – مذاق میں کہا کرتے تھے “ملک صاحب ، یاد رکھیں ، جب تک میں اس کالج میں ہوں آپ کو کہیں نہیں جانے دوں گا “ –
اللہ نے اس مذاق کو سچ کر دکھایا – ہم دونوں کے ٹرانسفر کے آرڈرز ایک ساتھ آئے – دونوں نے ایک ہی دن عیسی خیل کو خیرباد کہا –
پروفیسر چھینہ صاحب کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج بھکر کے پرنسپل رہے – پھر ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور چلے گئے – وہیں سے رٰیٹائر ہوئے – ایک دوست سے سنا آج کل بھکر میں اپنی آبائی زمین پر کاشتکاری میں مشغول ہیں – سر پر پگڑی باندھ کر صبح سویرے ٹریکٹر لے کر گھر سے نکل جاتے ہیں – اللہ سلامت رکھے ، ہمارے بہت مہربان دوست ہیں –
اللہ کا مجھ پر ایک خصوصی کرم یہ بھی رہا کہ انگریزی میں سرکاری خط و کتابت میں مہارت کی وجہ سے میں ہر پرنسپل کا لاڈلا رہا – ایک دفعہ ڈائریکٹر کالجزسرگودھا کے دفتر میں ایک سرکاری میٹنگ میں پروفیسر چھینہ صاحب اور ڈاکٹر عبدالمجید قریشی صاحب سے ملاقات ہوگئی – دونوں عیسی خیل میں میرے پرنسپل رہ چکے تھے – میٹنگ ختم ہوئی توڈاکٹر عبدالمجید قریشی صاحب نے کہا “ ملک صاحب ، آپ میری گاڑی میں آجائیں – چھینہ صاحب نے کہا “ نہیں ، ملک صاحب ، آپ میرے ساتھ آئیں“
ڈاکٹر صاحب نے شاہپور جانا تھا ، چھینہ صاحب نے بھکر – رولا یوں ختم ہوا کہ میں نے کہا شاہپور تک میں ڈاکٹر صاحب کی گاڑی میں جاؤں گا ، وہاں سے آگے چھینہ صاحب کے ساتھ –
دونوں نے ہنسی خوشی میرا فیصلہ قبول کر لیا –——————– رہے نام اللہ کا ——–بشکریہ-منورعلی ملک- 1دسمبر 2020

میرا میانوالی

مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے
گورنمنٹ کالج عیسی خیل سے ٹرانسفر ہو کر میں30 دسمبر 1980 کو گورنمنٹ کالج میانوالی میں حاضر ہوا – اس وقت تک میرے لیے یہ کالج اجنبی تھا – میں کبھی اس کا سٹوڈنٹ نہ رہا تھا کیونکہ میں نے میٹرک سے آگے تعلیم گارڈن کالج راولپنڈی سے حاصل کی تھی –
پروفیسرصاحبان میں سے کچھ احباب مجھے ذاتی حوالوں سے جانتے تھے – بیالوجی کے پروفیسر محمد فاروق صاحب المعروف لالا فاروق ساتویں کلاس میں میرے کلاس فیلو رہے تھے – پروفیسر سرور خان سے اپنی یاری پانچ سات سال پہلے بنی تھی – سرورخان صاحب اس زمانے میں حلقہ موچھ کے فیملی پلاننگ آفیسر ہوا کرتے تھے – پروفیسر محمد سلیم احسن صاحب عیسی خٰیل میں میرے رفیق کار (کولیگ) رہ چکے تھے – ڈاکٹراجمل نیازی صاحب مجھے شاعر ادیب ہونے کے حوالے سے جانتے تھے – پروفیسر اقبال حسین کاظمی صاحب میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی کے کلاس فیلو اور نہایت قریبی دوست تھے – انہیں میں اپنا بڑا بھائی سمجھتا تھا – سرور خان صاحب کے سوا شعبہ ء انگریزی کے دوسرے دو پروفیسر صاحبان ، پروفیسر ملک سلطان محمود اعوان صاحب اور پروفیسر محمد حنیف شاہ صاحب مجھے صرف نام سے جانتے تھے – کالج کے 60 سے زائد پروفیسر صاحبان میں سے بس یہی چند لوگ مجھے جانتے تھے – بقیہ ساتھیوں سے میرا تعارف انہی دوستوں نے کرایا –
انگلش کے لیکچرر کی حیثیت میں تو یہی چند لوگ مجھے جانتے تھے ، مگر لالا عیسی خیلوی کے لیے لکھے ہوئے گیتوں کے حوالے سے سب لوگ ، ٹیچرز ، سٹوڈنٹس ، بلکہ کالج کے ملازمین تک مجھے غائبانہ طور پر جانتے تھے – تاہم میں نے تعارف کے اس حوالے کو ہمیشہ پس منظر میں رہنے دیا ، اور خود کو ٹیچر کی حیثیت میں منوانے کا تہیہ کر لیا – سچی بات یہ ہے کہ مجھے شاعر سے زیادہ ایک اچھا ٹیچر ہونے کی شہرت ہمیشہ بہت عزیز رہی ہے ، اس شہرت کو حاصل کرنے اور اس میں اضافہ کرنے کے لیے میں نے حسب توفیق محنت کی – الحمد للہ میری کوشش کامیاب رہی –
———————— رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک- 2دسمبر 2020

میرا میانوالی

کل کی پوسٹ میں گورنمنٹ کالج میانوالی کے ان دوستوں کا ذکر کیا جو اس کالج میں میرے تقرر سے پہلے مجھے جانتے تھے – ایک بہت اہم نام پتہ نہیں کیسے رہ گیا – وہ نام ہے میرے جگر, حاجی محمد اسلم خان غلبلی کا – موصوف اس کالج کے لائبریرین تھے – ان سے میری یاری میرے یہاں آنے سے دس پندرہ سال قبل قائم ہوئی – ان کے بھانجے آصف خان نیازی میرے سٹوڈنٹ تھے – تعارف کا وسیلہ بھی آصف خان ہی بنے – میں ان دنوں ایم اے انگلش کی تیاری کر رہا تھا – حاجی صآحب نے کہا “ملک صاحب ، ہماری لائبریری میں انگریزی ادب کی بہترین کتابیں موجود ہیں – آپ کو جو کتابیں درکار ہوں، آصف کو بتا دیا کریں ، جتنی کتابیں چاہیں لے لیں ، جتنا عرصہ چاہیں اپنے پاس رکھیں “-
پہلی ہی ملاقات میں اتنی بڑی شاہانہ پیشکش سن کر میں حیران رہ گیا – میں نہ تو اس کالج کا سٹوڈنٹ تھا ، نہ ٹیچر ، قانون کے تحت تو میں لائبریری سے استفادہ کرنے کا مسٹحق نہ تھا – حاجی صاحب سے یہ بات کہی تو ہنس کر کہنے لگے قانون کو گولی ماریں ، لائبریری میں میرا اپنا قانون چلتا ہے ، کتابیں آپ کو ملتی رہیں گی –
اللہ حاجی صاحب کو سلامت رکھے میرا مسئلہ یوں آسانی سے حل ہو گیا – ورنہ تو مجھے ہر دوسرے تیسرے مہینے کتابیں خریدنے کے لیے لاہور جانا پڑتا ، کتابوں کی قیمت کے علاوہ آنے جانے کا خرچ اور خجل خواری الگ ہوتی –
اگلے ہفتے میں میانوالی آکر حاجی صاحب سے لائبریری میں ملا – گورنمنٹ کالج میانوالی جیسے دورافتادہ کالج میں انگریزی ادب کی بیش قیمت کتابوں کا اتنا بڑا ذخیرہ میرے لیے کوئی سرپرائیز نہ تھا ۔ پروفیسر ًمختار محمود قریشی، پروفیسر ایم ایم انور اور پروفیسر سید محمد عالم جیسے ملک گیر شہرت والے انگریزی ادب کے سکالر جس کالج کے پرنسپل رہ چکے ہوں- پروفیسر سید طاہرحسن جیسے صاحب علم جس کالج میں شعبہ انگریزی کے سربراہ رہے ہوں وہاں انگریزی ادب کا راج تو ہونا تھا – بعض ایسی نایاب کتابیں بھی تھیں جو اب لاہور میں بھی دستیاب نہیں ہوں گی – اپنے مطلب کی کتابوں کی یہ بہار دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا – اس کے بعد مجھے کتابوں کی تلاش میں ایک بار بھی لاہور نہ جانا پڑا – لائبریری سے بہت سی کتابیں اٹھا لایا – کچھ بعد میں آصف خان کی معرفت منگواتا رہا –
حاجی محمد اسلم خان کے بارے میں دوتین سال پہلے بہت سی دلچسپ پوسٹس لکھ چکا ہوں – آج تو ضمیر کا قرض ادا کرنا تھا کہ کل کی پوسٹ میں ان کا ذکر نہ کر سکا ، اللہ انہیں سلامت رکھے، میرے محسن دوست بھی ہیں ، بہت زندہ دل شخصیت بھی –
ہماری آپس میں بے تکلف گفتگو کا ایک اپنا مزا ہے ، جو کہیں اور نہیں ملتا –———————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 3دسمبر 2020

میرا میانوالی

آج جمعہ ہے ——- دعاوں کی قبولیت کا دن —– اس دن میں ایک لمحہ ایسا ہے کہ جو کچھ مانگو مل جاتا ہے – وہ لمحہ بتایا نہیں گیا ، ورنہ کون ہے جو اس لمحے سے فائدہ نہ اٹھاتا ، پھر تو دنیا میں اس کو اپنا رب نہ ماننے والا ایک بندہ بھی نہ رھتا – جو مانتے ہیں وہ بھی ہفتہ بھر ڈٹ کے گناہ کرنے کے بعد جمعہ کے اس لمحے میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر سب گناہ بھی معاف کروا لیتے اور اپنی ضرورت کی ہر چیز بھی لے لیتے –
دعا ایک عجیب رشتہ ہے بندے اور رب کے درمیان – عجیب سخی داتا ہے رب کریم – مانگو تو خوش ہوتا ہے ، نہ مانگو تو ناراض – مانگنے کا طریقہ اور الفاظ بھی خود بتا دیے – قرآن کریم میں بہت سی دعائیں خود بتادی ہیں –
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کیا فائدہ ، روزانہ اس کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں ، ملتا تو کچھ بھی نہیں —— یہ بات درست نہیں ، دعا کبھی ضائع نہیں ہوتی – جناب علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ دعا ضائع نہیں ہوتی ، بلکہ یا تو جو کچھ مانگو وہی مل جاتا ہے ، یا اس کی بجائے اس سے کوئی بڑا فائدہ مل جاتا ہے ، یا پھر دعا آپ کے آخرت کے اکاونٹ میں جمع ہو جاتی ہے ، جو کچھ ملے گا ، وہاں جا کر ملے گا – مطلب یہ کہ دعا کبھی خالی نہیں جاتی –
اللہ کریم ہم سب کو اپنے در سے مانگنے کی توفیق عطا فرمائے –——————— رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک- 4دسمبر 2020

میرا میانوالی

ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے
کل کی پوسٹ سکرین پر آئی تو کچھ دیربعد فاروق سید صاحب کے دو کمنٹس دیکھ کر آنکھوں سے تشکر کے آنسو بہہ نکلے – فاروق شاہ صاحب کے کمنٹس یہ تھے
١)۔ ملک صاحب، میں مسجد نبوی میں بیٹھ کر دعا کرتا ہوں کہ اللہ پاک آپ کو ، اور آپ سے جڑے ہر شخص کو صحت کاملہ والی لمبی عمر عطا فرمائے –
٢)۔ میں جیسے ہی روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گیا تو آپ کی یاد آگئی ۔ اور دل سے آپ کے لیے دعائیں نکلنے لگیں –
ان دو کمنٹس میں سے دوسرا خاص طور پر قابل غور ہے —- ایسا پہلی بار نہیں ہوا – چند برس پہلے میرے مہربان دوست ، واں بھچراں سے حاجی ملک احمد نواز صاحب نے بھی عمرے سے واپس آکر فون پر بتایا کہ روضہ اطہر کے سامنے پہنچا تو آپ کی نعت کا شعر زباں پہ آگیا – پھر مجھے کچھ اور یاد ہی نہ رہا ، بس یہی شعر باربار پڑھ کر روتا رہا —- شعر یہ تھا ——-
بے طلب اتنا ملا مجھ کو کہ اب کیا مانگوں
اب تو آقا تری رحمت سے حیا آتی ہے
اسی طرح میرے رفیق کار پروفیسر شیخ گل محمد صاحب نے بھی چند سال پہلے حج سے واپس آکر بتایا کہ وہاں میری ایک نعت کا شعر ان کا ورد زباں رہا-
حاجی احمد نواز صاحب اور پروفیسر گل محمد صاحب تو خیر میرے پرانے ساتھی تھے ، فاروق سید صاحب سے تو ابھی تک ملاقات ہی نہیں ہوئی – رابطہ فیس بک تک محدود ہے – ان کی پکچر بھی ان کے پروفائیل سے لی ہے – شاہ صاحب فیصل آباد کے رہنے والے نیک سیرت ، صاحب دل نوجوان ہیں – عشق رسول ہی ان کا سرمایہء حیات ہے – غالبا مدینہ منورہ ہی میں رہتے ہیں ، رب کریم انہیں بے حساب اجرخیر عطا فرمائے کہ آقا کے حضور اس غلام کو بھی یاد کر لیتے ہیں – مرحوم کوثر نیازی کی نعت کا شعر یاد آرہا ہے :
جتنا دیا سرکار نے مجھ کو اتنی مری اوقات نہیں
یہ تو کرم ہے ان کا وگرنہ مجھ میں تو ایسی بات نہیں
———————- رہے نام اللہ کا–بشکریہ-منورعلی ملک- 5دسمبر 2020

 

 

میرا میانوالی

نہ جانے کون دعاؤں میں یاد رکھتا ہے
میں ڈوبتا ہوں تودریا اچھال دیتا ہے
اللہ جانے کس کی دعا کا نتیجہ ہے کہ میرے کئی مہربان روضہ ء رسالت مآب پر حاضرہوتے ہی میری حاضری بھی لگوا دیتے ہیں – کبھی میری کسی نعت کے شعر کی صورت میں، کبھی میرے لیے دعا کی شکل میں — وہاں تو اپنے تن بدن کا ہوش نہیں رہتا ، پھر بھی اس فقیر کی یاد وہاں کیسے وارد ہو جاتی ہے – اللہ کا لاکھ لاکھ شکر — یہ راز میری سمجھ سے بالاتر ہے – میں تو ایک بہت گنہگار ، خطا کار سا انسان ہوں ، سرکار سے ایسی کون سی نسبت ہے کہ مجھے وہاں بھی یاد کیا جاتا ہے ؟؟؟؟؟
پچھلے سال انہی دنوں خود حاضری کی سعادت نصیب ہوئی – پہلے دوتین دن مدینہ منورہ رہے ، روضہءاطہر پر حاضری ہوتی رہی ، مگر سیلفیاں بنانے کے شوقین حضرات کا ہجوم راہ میں حائل رہا – روضہ ءاطہر کے قریب جاکر دل کی باتیں کہنے کا موقع نہ مل سکا – پھر ہم مکہ مکرمہ چلے گئے – چاردن بعد مدینہ منورہ واپس آئے تو جس ہوٹل میں پہلے قیام تھا وہاں کے سب کمرے بک (book) ہو چکے تھے – ہوٹل والوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا ہم کسی اور ہوٹل میں آپ کو کمرہ دلوا دیتے ہیں – تقریبا آدھا گھنٹہ اس انتظار میں بیٹھنا پڑا –
رات کے ٩ بجنے والے تھے – پریشان تو ہونا تھا – سوچا مدینہ میں ہم سے یہ سلوک کیوں ہو رہا ہے – مکہ والا تو ڈاھڈا ہے ، کبھی بن مانگے جھولی بھر دیتا ہے ، کبھی رورو کر مانگنے پر بھی کچھ نہیں ملتا – لیکن مدینے والے کو تو اس نے خود رحمتہ للعالمین کا لقب دیا ہے – یہاں آئے مہمانوں کو سر چھپانے کی جگہ بھی نہیں مل رہی – میں نے مظہر بیٹے سے کہا کمرے کا بندوبست پتہ نہیں کب ہوگا، عشآء کی نماز تو پڑھ لیں – ہم نماز کے لیے مسجد نبوی میں داخل ہوئے – باجماعت نماز سے تو رہ گئے تھے ، نماز بہرحال پڑھنی تھی –
زیارت کا اس وقت نہ کوئی پروگرام تھا ۔ نہ وقت – صرف نماز پڑھ کر واپس آنا تھا – جونہی مسجد کے احاطے میں قدم رکھا تو دیکھا کہ روضہ ءپاک کی سمت جانے کادروازہ باب السلام کھلا تھا — باب السلام کچھ مقررہ اوقات میں کھلتا ہے ، اور جب کھلتا ہے تو لوگوں کا ایک ہجوم اندر داخل ہوتا ہے – لیکن آج باب السلام کھلا تھا ، کوئی ہجوم نہ تھا – اندر چند لوگ کھڑے درود و سلام پڑھ رہے تھے – ہم آگے بڑھے – پولیس کا ایک نوجوان روضہ ءاطہر کے قریب کھڑا تھا میں نے اس سے کہا کیا میں جالی کو ہاتھ لگا سکتا ہوں – ؟ اس نے بڑے پیار سے مسکرا کر کہا جی نہیں –
دوچار منٹ بعد ہم دوسرے دوراز ے سے باہر نکلنے لگے تو اچانک خیال آیا کہ آج کی حاضری کا مقصد کچھ اور تھا ، رہائش کے مسئلے پر ذراسادل دکھا تھا ، سرکار نے بلا لیا کہ ادھر آجاؤ – دل میں ٹھنڈ سی پڑگئی ، اور آنکھیں تشکر کے آنسؤوں سے بھیگنے لگیں — پھر نماز ادا کی ، نماز کے دوران بھی آنسو نہ رکے – نماز ادا کر کے واپس ہوٹل پہچے تو ایک اور ہوٹل میں ہمارے قیام کا بندوبست ہو چکا تھا – یہ ہوٹل پہلے والے سے بھی مسجد نبوی کے زیادہ قریب تھا –
——————— رہے نام اللہ کا-بشکریہ-منورعلی ملک-6دسمبر 2020

میرا میانوالی

جب میں گورنمنٹ کالج میانوالی آیا اس وقت کالج کا شعبہ انگریزی صرف تین ٹیچرز —– پروفیسرملک سلطان محمود اعوان ، پروفیسر محمد حنیف شاہ کاظمی اور پروفیسر غلام سرورخان نیازی —- پر مشتمل تھا — انگلش کی صرف تین ہی پوسٹس تھیں – میرے آنے سے پوسٹس کی تعداد چار ہو گئی ، وہ بھی یوں کہ اسلامیات کی ایک خالی پوسٹ کو انگلش کی پوسٹ میں convert کرکے مجھے اس پوسٹ پر متعین کیا گیا – چندسال بعد اسی کالج کے سابق سٹوڈنٹ طاہر جہان خان نیازی پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کرنے کے بعد یہاں انگلش کے لیکچرر مقرر ہوئے —
جب میں آیا اس وقت طاہر جہان خان بی اے کے سٹوڈنٹ تھے – آج ماشآءاللہ ڈاکٹر Ph D ہیں – اہلیہ لاہور کی ہیں ، وہ ریاضی (میتھس) کی پروفیسر ہیں – سسرال والوں نے انہیں جوھرٹاؤن لاہور میں گھر بھی بنا دیا – آٹھ دس سال گورنمنٹ کالج میانوالی میں گذارنے کے بعد طاہر جہان خان نے لاہور ٹرانسفر کرا لیا – کچھ عرصہ ایم اے او کالج لاہور میں میرے بیٹے پروفیسرمحمداکرم علی ملک کے کولیگ رہے – چندسال بیرون ملک بھی رہے ، وہیں سے پی ایچ ڈی کرکے ڈاکٹر بن کر آئے – اب لاہور کے کسی کالج (غالبا گورنمنٹ کالج ٹاؤن شپ) میں ہیں –
طاہر جہان کے تقریبا ساتھ ساتھ پروفیسر عبدالغفار خان خٹک صاحب بھی گورنمنٹ کالج میانوالی کے شعبہ ء انگریزی کی زینت بن گئے – شعبہ ءانگریزی میں ٹیچرز کی تعداد سات ہو گئی – یہ تعداد بھی کالج کی ضرورت سے کم تھی ، کیونکہ فرسٹ ائیر ، سیکنڈ ایئر کے 4, 4 گروپ اور تھرڈایئر ، فورتھ ایئر کے 2, 2 گروپ مل کر12 کلاسیں بنتی تھیں – اس کے باوجود ہم لوگوں نے علاقے کے مفاد کی خاطر ایم اے انگلش کی کلاسز کا پنگا بھی لے لیا – کام کا بوجھ بہت بڑھ گیا، مگر رب العزت نے لاج رکھ لی ، کام پھر بھی بہرحال چلتا رہا –
———————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-7دسمبر 2020

میرا میانوالی

آج ناصر کاظمی کا برتھ ڈے ہے – اگر آج وہ اس دنیا میں ہوتے تو ان کی عمر 95 سال ہوتی – مگر وہ تو 47 سال کی عمر میں یہ کہہ کر عدم آباد جا بسے کہ میرے جانے سے کیا فرق پڑے گا – دنیا تو آباد ہے ، ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا –
ناصر نے تو یہ کہہ دیا ، مگر اس جیسا پھر کوئی اور نہ ہو سکا – اس کی شاعری کا ایک الگ رنگ ہے ، باسی پھولوں جیسی اداس خوشبو ، آنسؤوں جیسا نمکین ذائقہ – لفظوں کا انتخاب اور ترتیب خود بتا دیتی ہے کہ یہ شعر ناصر کے علاوہ کسی اور کا نہیں ہو سکتا – بہت بڑے بڑے شاعر اور بھی تھے اس کے ارد گرد ، فیض ، ساحر ، ندیم ، فراز وغیرہ ، مگر ناصر کی اپنی الگ پہچان تھی – وہ انگریز شاعرKeats کی طرح pure poet تھا –
ناصر8 دسمبر 1925 کو مشرقی پنجاب کے شہر انبالہ میں اس دنیا میں وارد ہوئے – قیام پاکستان کے بعد لاھورمنتقل ہوگئے – لکشمی چوک کے علاقے میں رہتے تھے — کبوتر پالنے کا بہت شوق تھا ، خود بھی کبوتر کی طرح معصوم سی شخصیت تھے – جب گھر سے ان کا جنازہ رخصت ہوا تو قبرستان تک کبوتر ان کے جنازے کے ساتھ گئے – ناصر زیرزمین چلے گئے تو کبوتر منتشر ہو گئے

 –
ناصرکاظمی رات کے پچھلے پہر تک گھومتے پھرتے رہتے تھے – رات گئے مال روڈ پر پاک ٹی ہاؤس سے لیجنڈ افسانہ نگار انتظارحسین کے ساتھ نکل کر دیر تک مال روڈ پر پھرتے رہتے – انتظار حسین کو ان کے گھر پہنچا کر بہت دیر تک شہر کے گلی کوچوں میں آوارہ گردی کرتے رہتے –
ناصر بلاشبہ غم کے شاعر ہیں بہت اداس شاعری ہے ان کی ، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ناصر کی شاعری میں غم تو ہے ، مایوسی بالکل نہیں – یہ شعر دیکھیے :
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
——————————
جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ، ایک تم بھی سہی
اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں
——————————
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
——————————
حال دل ہم بھی سناتے لیکن
جب وہ رخصت ہؤا تب یاد آیا
۔۔۔—————————-——————– رہے نام اللہ کا بشکریہ-منورعلی ملک- 8دسمبر 2020

میرا میانوالی

1981-82 میں ہم نے گورنمنٹ کالج میانوالی میں دو ڈرامے بھی سٹیج کیئے – دونوں ڈرامے میانوالی کی سرائیکی زبان میں تھے ، دونوں مزاحیہ ڈرامے تھے – دونوں ہمارے کلچر کے شگفتہ پہلوؤں کی عکاسی کرتے تھے –
“بودلا“ کے عنوان سے ڈراما پروفیسر سرور خان صاحب نے لکھا تھا – “گھر آیا مہمان “ کے عنوان سے ڈراما میری کاوش تھا – بودلا کے مرکزی کردار ایک پاگل سا ، چٹا ان پڑھ دیہاتی نوجوان اور اس کی تیزطرار خالہ زاد زیتونی مسیر تھے – بودلا کا کردار کمرمشانی کے محمد عظیم خان نے ادا کیا تھا ( آہ ، یہ چاند بہت جلد غروب ھوگیا – عظیم خان یہاں سے بی اے کرنے کے بعد سکول ٹیچر بن گئے – کمر مشانی کے سکول میں ٹیچر تھے ، اچانک چل بسے- اللہ مغفرت فرما کر بلند درجات عطا فرمائے – بہت اچھے اداکار اور بہت مہذب نوجوان تھے)- بودلا کی زیتونی مسیر کا کردار رشید احمد خان نیازی (آج کل سینیئر ایڈووکیٹ) نے بہت خوبصورت انداز میں ادا کیا تھا –
میرے لکھے ہوئے ڈرامے “گھر آیا مہمان کے مرکزی کردار دو بوڑھے میاں بیوی گلایا اور گلائی تھے – گلایا کا کردار مٹھہ خٹک کے مانی خان نے ادا کیا تھا ، گلائے کی بیوی گلائی کا کردار مشہورو معروف گلوکار عطامحمد خان نیازی داؤدخیلوی نے ادا کیا تھا – عطامحمد خان اس وقت ہمارے کالج میں بی ایس سی کے سٹوڈنٹ تھے – بوڑھی خاتون کا کردار انہوں نے کمال خوبی سے نبھایا – اس ڈرامے میں باپ بیٹے اور میاں بیوی کی آپس میں نوک جھونک خاصی دلچسپ تھی-
دونوں ڈراموں کے ہدایتکار ہمارے مہربان دوست مرحوم پروفیسرمنصورالرحمن تھے – ڈرامے ہاسٹل کے صحن میں شام کے بعد سٹیج ہوئے – تمام سہولتیں ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پروفیسر چوہدری عبدالخالق ندیم اور پروفیسر اسلم خان نے فراہم کیں —– (موت , تجھے کیا کہوں، ہمارے یہ دو بہت پیارے ساتھی بھی اب اس دنیامیں نہیں) —– ندیم صاحب فٰیصل آباد کے رہنے والے تھے – یہاں اکنامکس (معاشیات) کے پروفیسر تھے – اسلم خان صاحب پنڈدادن خان کے تھے ، پولیٹیکل سائینس (سیاسیات) کے پروفیسر تھے –
کیا اچھے لوگ تھے ، کتنا اچھا دور تھا – اب تو ہم لوگ یادوں کی راکھ کرید کر دل بہلاتے رہتے ہیں –
———————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 9 دسمبر 2020

میرا میانوالی

گورنمنٹ کالج میانوالی سے ہر پندرہ دن بعد کالج بلیٹین (خبرنامہ) شائع ہوا کرتا تھا – چار صفحات پر مشتمل اس خبرنامہ کے چیف ایڈیٹر پروفیسر محمد سلیم احسن تھے – دوتین سٹوڈنٹ ان کے معاون ہوا کرتے تھے —- کالج کی اہم خبریں ، مبارک باد اور تعزیت کے پیغامات، نصیحت آموز اقوال زریں ، شائستہ لطائف (jokes) اور سٹوڈنٹس کی شاعری اور نثر میں مختصر کاوشیں اس خبرنامے کی زینت بنتی تھیں – اداریہ پروفیسر سلیم احسن صاحب لکھتے تھے – نیا تعلیمی سال شروع ہونے پر نئے آنے والے سٹوڈنٹس کے لیے استقبالیہ اداریئے میں نووارد سٹوڈنٹس کو خٰوش آمدید کہا جاتا اور انہیں کالج کے اداب اور قواعد وضوابط سے آگاہ کیا جاتا تھا – نئے تعلیمی سال کا پہلا شمارہ 8 صٍفحات پر مشتمل ہوتا تھا – کالج کا مفصل ٹائیم ٹیبل بھی اس شمارے میں شامل ہوتا تھا – خبرنامہ میانوالی پرنٹنگ پریس سے طبع ہوتا اور ہر سٹوڈنٹ کو مفت ملتا تھا –
تعلیمی اداروں میں اچھی روایات برپا کرنے میں اداروں کے سربراہ بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں – ہر پرنسپل یا ہیڈماسٹر صاحب اہلیت و بصیرت نہیں ہوتا – کچھ سربراہوں کو قدرت نے اچھی روایات قائم کرنے کے لیئے خصوصی ویژن اور اہلیت عطا کی ہوتی ہے –
گورنمنٹ کالج میانوالی میں خبرنامے کی اشاعت ، ڈراموں کی نمائش ، ادبی سرگرمیوں اور کھیلوں میں نمایاں پیش رفت ایک سابق پرنسپل پروفیسر چوھدری محمد نواز صاحب کے ویژن کا نتیجہ تھیں – پروفیسر محمد نواز چوہدری صاحب جغرافیہ کے پروفیسر تھے – گورنمنٹ کالج لاہور سے یہاں پرنسپل بن کر آئے – انہوں نے کالج کے سٹاف سے کہا میں ہر میدان میں اس ادارے میں کچھ اچھی روایات دیکھنا چاہتا ہوں – اس مقصد کے لیے کالج کے فنڈز میں سے جب اور جتنی رقم درکار ہو ، میں فراہم کروں گا – کالج کے فنڈز بچوں کا اپنا پیسہ ہوتا ہے جو وہ داخلہ فیس اور ماہانہ فیس کی صورت میں ادا کرتے ہیں – میں اس خزانے پر سانپ بن کر نہیں بیٹھنا چاہتا — بچوں کا پیسہ بچوں پر ہی خرچ ہونا چاہیئے –
چوہدری محمد نوازصاحب تقریبا ایک سال یہاں رہے ، وہ ایک سال اس کالج کی تاریخ کا سنہری دور کہلاتا تھا — کھیل کے میدانوں سے لے کر کلاس رومز تک ہر جگہ زندگی رواں دواں نظر آتی تھی –
پروفیسر چوہدری محمد نواز صاحب میرے اس کالج میں تقرر سے تقریبا ایک سال پہلے یہاں سے ٹرانسفر ہو گئے تھے- مگر ان کی قائم کی ہوئی احسن روایات کی وجہ سے ان کا نام کالج کی تاریخ کا ایک زریں باب بن گیا –
———————- رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-10دسمبر 2020

میرا میانوالی

گورنمنٹ کالج میانوالی میں ایم اے انگلش اور ایم اے پولٹیکل سائنس کی کلاسز کا اجرا ء ہمارا خواب تھا – خواب دیکھنے کے لیئے تو کسی سازو سامان کی ضرورت نہیں پڑتی، مگر جب ہم نے اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ جتنا کپڑا ہمارے پاس ہے اس سے جامہ تو کجا پاجامہ بھی نہیں بن سکتا – پنجاب یونیورسٹی سے رابطہ کیا تو انہوں نے جو شرائط بتائیں سن کر دن میں تارے نظر آنے لگے – شرائط یہ تھیں کہ ایم اے کی کلاسز کے لیے الگ کیمپس (بلڈنگ) ہونا چاہیئے – سٹاف میں کم از کم ایک پروفیسر ، دو ایسوسی ایٹ پروفیسر، چار اسسٹنٹ پروفیسر اور 6 لیکچرر ہونے چاہیئں – ہمارے پاس نہ پروفیسر، نہ ایسوسی ایٹ پروفیسر، نہ کوئی اسسٹنٹ پروفیسر ، بس ہم سات لیکچرر ہی تھے – الگ کیمپس بھی فی الحال خواب ہی تھا – لیکن ہمارا خلوص نیت دیکھ کر اللہ نے ناممکن کو بھی ممکن بنا دیا –
ہم نے سیاسی وسائل استعمال کرنے کا فیصلہ کیا – اس زمانے میں ضلع میانوالی سے مولانا عبدالستارخان نیازی اور گل حمید خان روکھڑی صاحب قومی اسمبلی کے ممبر تھے – ان سے رابطے کاکام بچوں نے اپنے ذمے لے لیا – سٹوٍڈنٹس یونین کے صدر فضل الرحمن خان شہباز خٰیل ( بعد میں لفظ صدر ان کی پہچان بن گیا ، آج بھی صدر کہلاتے ہیں ) اور ان کی ٹیم نے اسلام آباد جاکر ان دو ایم این اے صاحبان سے ملاقات کی اور کالج میں ایم اے کی کلاسز کے اجراء کی درخواست کی – نتیجہ یہ نکلا کہ اسی شام وزیراعظم نے چیف سیکریٹری پنجاب کو فون پر حکم دیا کہ گورنمنٹ کالج میانوالی میں ایم اے انگلش اور ایم اے پولیٹیکل سائنس کا فوری طور پر آغاز کیا جائے – چیف سیکیریٹری صاحب نے فورا ڈی سی (ڈپٹی کمشنر) میانوالی سے کہا کہ پرنسپل صاحب سے کہیں فوری طور پر ایم اے انگلش اور پولیٹیکل سائنس کی کلاسز کا داخلہ شروع کردیا جائے ۔ وزیر اعظم صاحب کا حکم ہے –
ڈی سی صاحب (رانا محمدافضل) تو پہلے ہی ایم اے انگلش کی کلاسز کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے – انہوں نے اپنی دو بچیاں داخل کروانی تھیں – یوں ہمارا خواب آسانی سے حقیقت بن گیا بشکریہ-منورعلی ملک- 11دسمبر 2020

میرا میانوالی

ایم اے انگلش کی پہلی کلاس کا رول نمبر 1 میرے بیٹے امجد (پروفیسر امجد علی ملک) کا تھا – اس کلاس میں سوانس کے اسد خان ، میانوالی کے ناصر اقبال ، میاں محمد دین شاہ ، طفیل احمد خان اور کچھ دوسرے بچے تھے ، سب کے نام اس وقت یاد نہیں آرہے – 15 بچوں کے علاوہ 7 بچیاں بھی تھیں – ڈپٹی کمشنر صاحب کی دوبچیوں اور جیل سپرنٹنڈنٹ صاحب کی ایک بچی کے علاوہ چار بچیاں میانوالی شہر سے بھی تھیں – امجد بیٹا اس وقت پی اے ایف کالج میں انگلش کے پروفیسر ہیں – اسد خان ایلیمنٹری کالج میانوالی کے پرنسپل ہیں ، ناصر اقبال گورنمنٹ کالج میانوالی میں ھیڈ آف انگلش ڈیپارٹمنٹ ہیں – میاں محمد دین پتہ نہیں اب کہاں ہیں — طفیل احمد خان پی اے ایف کالج کے شعبہ انگریزی کے رکن ہیں – بقیہ بچوں میں سے جو لوگ یہ پوسٹ دیکھیں گے خود اپنا ٹھکانہ بتا دیں گے – بچے پرندوں کی طرح ہوتے ہیں – تلاش معاش میں اڑ کر کوئی کہاں کوئی کہاں جا پہنچتا ہے- میرے بچے تو ہزاروں ہیں ، اللہ سب کو شاد و آباد رکھے –
ایم اے انگلش میں داخلے کا تحریری امتحان پروفیسر سرور خان لیتے تھے ، انٹرویو بورڈ کا سربراہ میں تھا –
ابتدا میں ایم اے پارٹ ون کو کلاسیکل پوئٹری میں پڑھاتا تھا ، ڈراما پروفیسر سلطان محمود اعوان صاحب ، ناول سرورخان صاحب ، نثر سید محمد حنیف شاہ کاظمی صاحب اور امریکن لٹریچرطاہر جہان خان نیازی پڑھاتے تھے – دوسال بعد صحت کے مسائل کی وجہ سے پروفیسر سلطان محموداعوان صاحب نے پڑھانے سے معذرت کر لی تو ڈراما میں پڑھانے لگا کلاسیکل پوئٹری عبدالغفار خٹک صاحب –
پہلے سال صرف پارٹ ون کی کلاس تھی – اگلے سال یہ کلاس پارٹ ٹو میں چلی گئی اور پارٹ ون میں نئے لوگ آگئے – ٹیچرز ہم لوگ ہی رہے – بعد میں پروفیسر ملک غلام حسین اعوان اور پروفیسر محمد سفیر اعوان بھی ہمارے رفیق کار بن گئے –
——————— رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک- 12دسمبر 2020

میرا میانوالی

ڈاکٹرمحمداجمل نیازی نے گورنمنٹ کالج میانوالی میں میری آمد پر ایک تعارفی تقریب منعقد کی ، جس میں ڈاکٹر اجمل نیازی نے میرے بارے میں کچھ تعارفی ، کچھ تعریفی کلمات کہنے کے بعد مجھے اپنے بارے میں کچھ کہنے کی دعوت دی – میں نے اپنے بارے میں کچھ باتیں کیں – اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا – میں نے حاضرین سے کہا آپ کچھ پوچھنا چاہیں تو میں حاضر ہوں – اپنا شعر یاد آرہا ہے —–
سوال دل میں نہ رہ جائیں حسرتیں بن کر
جو پوچھنا ہے کہو، تم سے کیا چھپانا ہے
کچھ سوالات بچوں نے پوچھے ، کچھ ٹیچرز نے – میرے بہت پیارے دوست فلسفہ کے پروفیسر نذیراحمد خان نے کہا “ ملک صاحب ، باقی ساری باتیں چھوڑیں ، ہمیں اس چوٹ کے بارے میں بتائیں جس نے لالا عیسی خیلوی کو اتنا مشہور و معروف فن کار بنا دیا “-
میں نے ہنس کر کہا “ آپ کو کبھی چوٹ نہیں لگی ؟“
شرماگئے ، کہنے لگے “ میری بات چھوڑیں ، میں نے لالا عیسی خیلوی کے بارے میں پوچھا ہے“
میں نے کہا “ بھائی صاحب ، اگر چوٹ لگنے سے انسان عطاءاللہ عیسی خیلوی بنتا تو ہر نوجوان لالا عیسی خیلوی ہوتا – بات چوٹ کی نہیں ، بڑا شاعر یا گلوکار زمین پر نہیں بنتا ، اوپر سے بن کر آتا ہے – بنانے والے کی مہربانی ہے ، جس کو جو کچھ بنا دے – لالا کو اس نے دل کو چھولینے والی آواز عطا کردی ، لالا نے اللہ کی اس نعمت کو اپنی محنت سے سنوارا ، بارہ سال دوستوں کی محفل میں شوقیہ گاتا رہا – پھر اللہ نے اس آواز کی مارکیٹنگ کے وسائل بھی مہیا کردئیے – رحمت گراموفون فیصل آباد کے چوہدری رحمت علی نے لالا کے چار آڈیو کیسیٹ ایک ساتھ ریلیز کیئے – اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ساری دنیا جانتی ہے –
پھر میں نے بچوں کو بتایا کہ اللہ نے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خوبی رکھی ہوتی ہے – اپنے اندر وہ خوبی تلاش کر کے اس پر محنت کی جائے تو اللہ بہت کچھ دے دیتا ہے – اس کے لیئے کسی چوٹ شوٹ کی ضرورت نہیں ، محنت کی ضرورت ہوتئ ہے –
———————– رہے نام اللہ کا ———–——بشکریہ-منورعلی ملک-14دسمبر 2020

میرا میانوالی

کل صبح ١١ بجے آنکھ کھلی , فون on کیا تو پتہ چلا میانوالی میں اس وقت درجہ ء حرارت صرف 8 ھے —- اللہ رحم کرے , پچھلے سال ان دنوں ہم اسلام آباد میں تھے تو وہاں بھی اتنا ہی ہوتا تھا –
اپنا معمول یہ ہے کہ فجر کی نماز کے بعد قرآن حکیم کی تلاوت ، پھر خاصی طویل دعا (اس دعا میں آپ سب کو شامل کرتا ہوں) – اس کے بعد کچھ تسبیحات اور درود پاک پڑھتا ہوں – تقریبا ساڑھے سات بجے پھر سو جاتا ہوں – ساڑھے نو ، دس بجے اٹھ کر ناشتہ کرتا ہوں اس کے بعد آپ کی محفل میں حاضری لگواتا ہوں – کل کی حاضری اس لیئے نہ ہو سکی کہ پوسٹ لکھ تو لی ، مگر پوسٹ کرنے لگا تو لیپ ٹاپ نے کہا queuing کی وجہ سے یہ پوسٹ نہیں ہو سکتی – پتہ نہیں یہ queuing کیا ہوتی ہے –
———————————————
سردی میری کمزوری ہے – سردی سے یہ خوف یا نفرت امی کی عطا ہے – دراصل مجھ سے پہلے میرے دو بہن بھائی ایک دوسال کی عمر میں نمونیہ سے فوت ہو گئے تھے – داؤدخٰیل میں اس زمانے ًمیں کوئی ڈاکٹر تو ہوتا نہیں تھا – نانیوں دادیوں کے ٹوٹکوں سے ہر بیماری کا علاج کیا جاتا تھا – اکثر اوقات یہ علاج سو فی صد کامیاب ہوتا تھا ، مگر علاج تو صرف بیماری کا ہوتا ہے , موت کا کیا علاج ، جن کو مرنا ہوتا تھا مر جاتے تھے –
اوپر تلے دو بچوں کی موت نے امی کو سردی سے بہت ڈرا دیا – بعد میں ہم تین بھائی اس دنیا میں آئے تو سردی کے موسم میں یوں سمجھیئے ہمیں ڈبی میں بند کر کے رکھا جاتا تھا – زمین بے شک الٹ جائے ،ہمیں شام کے بعد کمرے سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہیں ملتی تھی – سردی کا خوف بچپن سے لاشعور میں ایسا بیٹھا کہ اب بھی سردی ذرا سی زیادہ ہو جائے تو گھرسے باہر قدم رکھنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہےبشکریہ-منورعلی ملک- 16دسمبر 2020

میرا میانوالی

کل 16 دسمبر تھا ، میری پوسٹ پر کمنٹ میں وسیم سبطین نے کہا سر ، آج 16 دسمبر ہے – سانحہ اے پی ایس (آرمی پبلک سکول) پشاور کے بارے میں کچھ لکھنا تھا –
اور بھی کئی دوستوں کی یہ خواہش رہی ہوگی – مگر میں نے جان بوجھ کر اس المناک موضوع پر نہ لکھا -16 دسمبر 2014 کو رونما ہونے والا یہ سانحہ اتنا درد ناک تھا کہ اس کے بارے میں لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتا ہے – ان ماؤں کا خیال آتا ہے جو 6 سال سے اپنے شہید بچوں کے بستے کتابیں ، کپڑے اور جوتے سینے سے لگائے دن رات آنسو بہاتی اپنے بچوں کے قتل کا انصاف مانگ رہی ہیں – اور انصاف سر جھکائے منہ پھیر کر دوسری طرف دیکھ رہا ہے –
کیسا ملک ہے یہ —–؟؟؟؟؟
سانحہ اے پی ایس پہلا پراسرار واقعہ نہیں – قائداعظم کی موت سے لے کر سانحہ اے پی ایس تک درجنوں ایسے پراسرار واقعات ہوئے ، مگر کسی ایک واقعے کے مجرموں کو بھی سزا نہ ملی ٠ تفتیش ہوئی مگر رپورٹ کبھی منظرعام پر نہ آئی – کل سقوط ڈھاکہ (1971 کی جنگ) کی بھی 50 ویں برسی تھی – سپریم کورٹ کے جج جسٹس حمودالرحمن کی سربراہی میں کمیشن نے انکوائری کی ،مگر اس انکوائری کی رپورٹ مننظرعام پر آج تک نہیں آئی – شہید محترمہ بینظیربھٹو کے قاتلوں کا بھی آج تک پتہ نہیں چل سکا ، حالانکہ محترمہ کے نام پر ووٹ لے کر ان کی اپنی پارٹی بھی 5 سال بر سر اقتدار رہی – وہ کون سا ہاتھ تھا جس نے تفتیش نہ ہونے دی – ؟
اے پی ایس پشاور کے سانحہ کا ماسٹر مائینڈ احسان اللہ احسان فرار ہو کر بیرون ملک چلا گیا – حکومت، ادارے، عدلیہ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے – اسی ملک کے ایک شاعر نے کہا تھا :
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
————————- رہے نام اللہ کا بشکریہ-منورعلی ملک- 17 دسمبر 2020

 

میرا میانوالی

کیا آپ نے کبھی لفظ “کنگھر“ سناہے —-؟؟؟؟
شدید سردی میں رات کے دوران پانی جم کر برف بن جائے تو اسے کنگھر کہتے ہیں – اسی طرح ایک لفظ “چٹا“ ہمارے ہاں بولا جاتا تھا – سردی کی شدت سے شبنم کے قطرے رات کےپچھلے پہر برف بن جاتے تھے – صبح یوں لگتا تھا جیسے زمین پر کسی نے چونا پھیر دیا ہو – سردی تو اب بھی شدید ، بلکہ پہلے سے بھی کچھ زیادہ پڑتی ہے لیکن کنگھر اور چٹا بہت عرصہ سے نہیں دیکھا – شاید دیہات میں یہ دونوں چیزیں اب بھی نظر آتی ہوں –
کنگھر اور چٹا سردی کی انتہا سمجھے جاتے تھے – بہت سخت سردی ہے کہنے کی بجائے لوگ کہا کرتے تھے “ آکا یار کنگھر جمے پئے ھن “ یا “ چٹا پونا پیا اے“
کنگھر جمنے کے موسم میں بچہ لوگ گڑ یا شکر کا شربت بنا کر کسی پرچ یاپلیٹ میں ڈال کر رات کو صحن میں رکھ دیتے تھے – صبح اٹھتے تو شربت میٹھی برف بن چکا ہوتاتھا – اسے آپ دیسی آئس کریم کہہ لیں یا قلفی ، چیز بڑی مزیدار ہوتی تھی – بچپن میں یہ کرتوت کبھی کبھار ہم بھی کرتے تھے –
بچوں کو اس موسم میں برف کھاتے دیکھ کر ماؤں کی چیخ پکار سارا محلہ سنتا تھا – اکثر گھروں سے صبح سویرے یہ صدائیں بلند ہوتی تھیں “ وے لعنتی ، نہ کھا اے گند – اس سردی اچ ورف (برف) کھاسیں تاں بمار تھی کے کتے آلی موت مرسیں – جو ہن توں بیمار تھیسیں تاں میں بھاء وی نہ لسائیں “-
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
———————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 18دسمبر 2020

میرا میانوالی

دن کو دھوپ ، رات کو آگ ، سردی سے حفاظت کا عمومی وسیلہ ہوا کرتے تھے—- بارش کے دنوں میں دن کو بھی آگ تاپنے کا رواج تھا – ایک اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کو سردی بہت کم لگتی تھی – اس کی ایک وجہ تو اس دور کی خوراک تھی – سردی کے موسم میں میٹھا زیادہ کھایا جاتا تھا – خالص دیسی گھی ، دیسی گندم کا آٹا اور پشاوری گڑ ، ان تین اجزا سے قسم قسم کے میٹھے کھانے بنتے تھے – ھمارے گھر میں صبح ناشتے میں میٹھے پراٹھے بنتے تھے ، جنہیں ستاپڑی کہتے تھے – سوجی یا آٹے کا حلوہ ، بارش والے دنوں میں ایک مخصوص حلوہ بنتا تھا جسے کر کںڑاں کہتے تھے – شاید اس لیے کہ بننے کے تھوڑی دیر بعد یہ اچھا خاصا سخت ہو جاتا تھا — اسے چبانے کے لیے دانتوں کا اچھا خاصا زور لگانا پڑتا تھا – پھر بھی سردیوں میں بارش کے دوران تقریبا ہر گھر میں کرکنڑاں بنتا تھا – کہتے تھے یہ سردی کا خاص علاج ہے – “ اج جھڑی تتی کرینے پئے ہاں “ کا مطلب یہ تھا کہ آج ہمارے گھر میں کرکنڑاں بن رہا ہے –
آٹے یا سوجی کاعام حلوہ تو اب بھی چلتا ہے ، لیکن گھر کا خالص دیسی گھی ، بارانی گندم کا آٹا اور چینی سے زیادہ میٹھا پشاوری گڑ اب نایاب ہے – پشاوری گڑ سرخی مائل ہوتا تھا اس لیے اسے “رتاگڑ“ (لال گڑ) بھی کہتے تھے – عام گڑ ذراسا ترش ہوتا ہے لیکن پشاوری گڑ خالص میٹھا ہوتا تھا – صوبہ کے پی کا شہر ہاتھیان اس گڑ کی بہت بڑی منڈی تھا – ہمارے علاقے کے سب دکان دار یہ گڑ وہیں سے لاتے یا منگواتے تھے –
خالص دیسی گھی گائے کا زیادہ پسند کیا جاتا تھا ، اس کی مخصوص دلکش خوشبو اور ذائقہ نام لکھتے وقت بھی محسوس ہو رہا ہے – یہ گھی سونے کی طرح چمکدار سنہری رنگ کا ہوتا تھا- بھینس کے مکھن سے بنا ہوا سفید رنگ کا گھی طاقت کا خزانہ ہوتا ہے ، مگر اس کے مست ذائقے کی وجہ سے زیادہ نہیں کھایا جا سکتا –
اب تو یہ سب چیزیں خواب و خیال ہو گئیں – جو کچھ مل جاتا ہے لوگ اسی کو اصل چیز سمجھ کر کھا لیتے ہیں –
——————— رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-19دسمبر 2020

میرا میانوالی

ہمارے بچپن کے دور میں پراٹھا اس چیز کو نہیں کہتے تھے جو آپ صبح ناشتے میں کھاتے ہیں ، بلکہ یہ سردیوں کے موسم کا ایک مخصوص کھانا تھا ، نہایت لذیذ اور توانائی سے بھرپور –
توے پر ایک روٹی ڈال کر اس کے اوپر سنٹر میں تھوڑا ساگڑ کوٹ کر ڈال دیتے تھے – پھر اس کے اوپر ایک اور روٹی ڈال کر پکا لیتے تھے – اس کے پکانے میں تو گھی استعمال نہیں ھوتا تھا ، کھانے میں گھی بھی شامل ہوجاتا تھا –
دوپڑوں والی اس گرماگرم روٹی کے اوپر والے پڑ کے درمیان سے تقریبا ایک انچ کا ٹکڑا چھری یا چاقو سے کاٹ کر اس کی جگہ گرم خالص دیسی گھی بھر دیتے تھے – پھر اس میں چٹکی بھر پسی ہوئی ہلدی ڈالنے کے بعد پراٹھے کے اندر پگھلے ہوئے گڑ ، گھی اور ہلدی کے مرکب میں نوالہ ڈبو کر کھاتے تھے – ہلدی اس لیے ڈالتے تھے کہ ہلدی جسم کے دردوں کا بہت مؤثر علاج ہے – (ہلدی خالص آیوڈین ہے) –
بے حد مزیدار غذا ہوتا تھا یہ پراٹھا – انسان کو فل ری چارج کر دیتا تھا – دسمبر جنوری کی یخ بستہ راتوں کے پچھلے پہر کھلی ہوا میں وارہ بندی کے حساب سے زمینوں کو پانی دینے والے کسان یہی خوراک کھایا کرتے تھے – کہا کرتے تھے “بندہ پراٹھا کھا گھنیں تاں سی نیڑے وی نیں آناں “ ( بندہ پراٹھا کھالے تو سردی نزدیک بھی نہیں آتی) –
اب وہ پراٹھا کہاں ، اس کے بنانے والے بے شمار ہاتھ میاں رمدی صاحب اور پیر موج علی شاہ کے قبرستانوں میں تہہ خاک آسودہ ہیں ————-
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
——————— رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک- 20دسمبر 2020

میرا میانوالی

کل پوسٹ کی بجائے یہ نوٹس لگایا تھا کہ وقاراحمد ملک صاحب کے انتظار کی وجہ سے آج پوسٹ نہیں لکھ سکوں گا – کچھ دیر بعد اس نوٹس پر اپنے جگر حاجی اکرام اللہ خان کا کمنٹ موصول ہوا – انہوں نے بتایا کہ وقار صآحب اس وقت ان کی تحویل میں ہیں – ثبوت کے طور پہ حاجی صاحب نے موقع کی پکچر بھی کمنٹ کے ہمراہ بھیج دی –
قصہ یوں ہے کہ ہمارے گھر کے راستے میں حاجی اکرام نے رابی سنٹر میں چیک پوسٹ قائم کر رکھی ہے – چونکہ ہم دونوں کے مہمان بھی مشترک ہوتے ہیں ، اس لیے میرے کئی مہمان اس چیک پوسٹ پر گرفتار ہو جاتے ہیں – حاجی اکرام کے ہاتھوں گرفتاری لوگ اپنی خوش نصیبی سمجھتے ہیں – اکرام انہیں اتنا کچھ کھلا پلا دیتے ہیں کہ وہ کہیں اور جانے کے قابل نہیں رہتے ، سیدھے اپنے گھر واپس جاتے ہیں –
اللہ سلامت رکھے ، بہت پیاری شخصیت ہیں حاجی اکرام – میرے سابق سٹوڈنٹ کے علاوہ فیس بک کے اولیں ساتھی بھی ہیں – پکے پٹواری ہیں ، مگر کھلاڑیوں کے بھی محبوب – محبت اور احترام کے رشتوں کا ایک وسیع و عریض جال بچھا رکھا ہے اکرام نے – بہت عرصہ پہلے ان کا مفصل تعارف لکھا تھا ، کبھی پھر لکھوں گا – اس تعارف پر کمنٹ میں اکرام نے لکھا تھا
“ سر ، سچی بات ہے ، ہم تو صرف آپ کی کلاس اٹینڈ کرنے کے لیے کالج آتے تھے , حالانکہ انگلش سے ہمارا کچھ لینا دینا بھی نہیں تھا – بس آپ سے محبت تھی ” –
—————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک- 22دسمبر 2020

میرا میانوالی

“ چٹکا“ اور “اوہلا“ بھی سردی کے موسم کی معروف اصطلاحات تھیں –
چٹکا chitka سردیوں کی دھوپ کو کہتے تھے –
“ چٹکا لوینے پئے ہاں “ کا مطلب تھا ہم دھوپ تاپ رہے ہیں —– سردیوں میں دھوپ بھی اللہ کریم کی خاص نعمت ہے – اس سے جسم گرم اور طبیعت خوش ہو جاتی ہے – اب تو سائنس نے بھی ثابت کردیا ہے کہ چٹکے سے جسم میں وٹامن D کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے ، جس سے جسم کو بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی قوت ملتی ہے-
لفظ چٹکا ایک اور بہت دلچسپ مفہوم میں بھی استعمال ہوتا تھا – مثلا کہتے تھے “ بندہ تاں چنگا اے ، بھلا عقل آلے پاسو چٹکا ہس “ ( آدمی تو اچھا ہے مگر عقل سے محروم ہے) – یہاں چٹکا صفایا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے –
اوہلا یا اوہلہ آڑ کو کہتے تھے – سردی سے بچنے کے لیے دیوار کو آڑ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا – اوہلا ہمارے علاقے میں دیوار کی جنوبی سائیڈ پہ ہوتا ہے، کیونکہ صبح سے دوپہر تک اس علاقے میں شمال سے ٹھنڈی یخ ہوا مسلسل چلتی رہتی ہے – مکان یا دیوار کی آڑ اس ٹھنڈ سے مکمل تحفظ فراہم کرتی ہے –
گندم کی کاشت کے بعد لوگ تین چار ماہ فارغ رہتے تھے – بزرگ لوگ دن بھر چٹکے اور اوہلے میں بیٹھ کر دنیا جہان کی گپیں لگایا کرتے تھے – سچے لوگوں کی گپیں بھی سچی ہوتی تھیں – وہ لوگ ہماری طرح لمبی لمبی نہیں چھوڑتے تھے –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
—————- رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک- 23دسمبر 2020

میرا میانوالی

اللہ کریم کسی انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا – بوجھ زیادہ ہو تو اس کے مطابق طاقت بھی عطا کر دیتا ہے –
پرانے زمانے کے لوگ غریب تھے ، اکثر لوگ گرم کپڑے ، کوٹ، سویٹر وغیرہ خریدنے کی استطاعت سے محروم تھے – اس لیے انہیں سردی بھی زیادہ محسوس نہیں ہوتی تھی – لنڈا اور ریڈی میڈ گرم ملبوسات کا دور بعد میں شروع ہوا – شہروں میں صاحب حیثیت لوگ گرم اونی کپڑا خرید کر کوٹ یا کوٹ پتلون بنوا لیتے تھے – دیہات میں نہ گرم کپڑے کی دکانیں تھیں ، نہ کوٹ وغیرہ بنانے والے درزی – بچوں کے لیئے بہنیں سویٹر بنا دیتی تھیں – یہ کام صرف بہنیں ہی شوقیہ کرتی تھیں – مائیں گھر کے کاموں سے ہی فارغ نہیں ہوتی تھیں –
نوجوان تو شلوار قمیض کے علاوہ کچھ پہنتے ہی نہیں تھے – کھیل کود اور بھاگ دوڑ میں سردی محسوس نہیں ہوتی – بزرگ زیادہ تر لٹھے کی سفید چادر لپیٹ کر گذارہ کر لیتے تھے – 60 سال سے اوپر عمر کے بزرگ بہت شدید سردی میں لوئی یا لکار (مردانہ اونی شال) اوڑھ لیتے تھے – ریٹائرڈ فوجی بھائی ایک آدھ بھاری بھرکم خاکی رنگ کا اوورکوٹ لے آتے تھے ، اس اوور کوٹ کو برانڈی کہتے تھے – برانڈی بزرگوں کے کام آجاتی تھی –
ایک خاص چیز “ گڈی“ (Giddi) بھی ہؤا کرتی تھی – گڈی واسکٹ ہوتی تھی جس میں رضائی کی طرح کپاس بھری ہوتی تھی – یہ بہت پرانا فیشن تھا – ہم نے بچپن میں محلہ امیرے خیل کی مسجدکے امام مولوی امام دین قریشی صاحب کو گڈی پہنے ہوئے دیکھا تھا –
خالص اور توانائی سے بھرپور خوراک سردی کا احساس بہت کم کردیتی تھی – اس لیے لباس کے معاملے میں زیادہ تکلف نہیں کیا جاتا تھا –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
——————— رہے نام اللہ کا بشکریہ-منورعلی ملک- 25دسمبر 2020

میرا میانوالی

آج کل سردیوں میں لوگ رضائی یا کمبل اوڑھ کر سوتے ہیں – ہمارے بچپن کے دور میں رضائی اور کمبل کی بجائے دیہات میں سیرک (seeruk) یا لحاف استعمال ہوتا تھا – لحاف اور سیرک ایک ہی چیز تھے ، صرف لحاف کا سائز ذرا بڑا ہوتا تھا – سیرک کو سیرکی بھی کہتے تھے – لحاف کو ہمارے ہاں لیف کہتے تھے ، نانیاں دادیاں لیپھ کہتی تھیں –
سیرک اور رضائی میں فرق یہ ہے کہ سیرک کا کپڑا مقامی جولاہے (پاولی) کھڈی پر بناتے تھے ، جبکہ رضائی کارخانے کے بنے ہوئے کپڑے سے بنتی ہے – سیرک کا کُپڑا ملگجا سفید (off-white) رنگ کا ہوتا تھا ، اس پر جولاہے گہرے مہندی رنگ کے نقش و نگار بناتے تھے – نقش ونگار والا ٹھپہ (مہر کہہ لیں ) رنگ کے محلول میں ڈبو کر کپڑے پر ایک سرے سے دوسرے سرے تک لگا دیتے تھے – رنگ بھی وہ خود بناتے تھے – ایسا پکا رنگ ہوتا تھا کہ ہزار بار دھونے سے بھی پھیکا نہیں پڑتا تھا –
سیرک کا کپڑا کالاباغ کے قریب ماڑی شہر میں بنتا تھا – ماڑی شہر کالاباغ کے بالمقابل دریا کے بائیں کنارے پر واقع ہے – بہت قدیم ، باکمال کاریگروں کا شہر ہے – اس کے بارے میں کبھی مفصل پوسٹ لکھوں گا –
اردو میں رضائی کو بھی لحاف کہتے ہیں – مشہور افسانہ نگار عصمت چغتائی کا افسانہ “لحاف“ اردو ادب کے شاہکار افسانوں میں شمار ہوتا ہے – یہ افسانہ اتنا کھلا ڈلا ہے کہ اسے بچوں سے دور رکھنا چاہیئے – منٹو کی طرح عصمت چغتائی بھی بہت منہ پھٹ افسانہ نگار تھیں –
بات سیرک کی ہو رہی تھی ، سیرک کے کپڑے پر نقش ونگار اجرک کے نقش و نگار جیسے ہوتے تھے – اجرک تو کئی رنگوں میں ملتی ہے ، سیرک کے نقش و نگار صرف گہرے مہندی رنگ کے ہوتے تھے – بہت گرم اور آرام دہ چیز تھی –
بدل گیا ہے زمانہ ، بدل گئے ہیں لوگ
———————– رہے نام اللہ کا –—-بشکریہ-منورعلی ملک-26دسمبر 2020

میرا میانوالی

یآ اللہ رحم ———
صبح فجر کے وقت میانوالی کا درجہ ء حرارت صرف 4 تھا – یوں لگتا تھا فریزر میں بیٹھے ہیں – پچھلے ہفتے اچھی خاصی دھوپ کی مہربانی سے درجہء حرارت 21 تک جا پہنچا تھا – ہم خوش تھے کہ اب اوپر ہی جائے گا – لیکن یہ یاد نہ رہا کہ سردی ہمیشہ جاتے جاتے اپنی طاقت کا مظاہرہ ضرور کرتی ہے – ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے –
اس سال ستم یہ ہوا کہ دوتین دن سے گیس کی لوڈشیڈنگ بھی اندھا دھند ہونے لگی ہے –
پچھلے سال رات 10 بجے سے 5 بجے تک ہوتی تھی – فجر کی نماز کے وقت گیس رواں دواں ہوتی تھی – اس دفعہ دو دن 12 سے 6.30 بجے تک رہی ، کل رات 10 سے 6.30 بجے تک – آگے پتہ نہیں کیا ہوگا – اس غیر یقینی صورت حال میں بھی ہمارا کپتان کہتا ہے گھبرانا نہیں ہے—- گرم چائے ، کھانا ملے نہ ملے، گھبرانا نہیں – اب تو اللہ معاف کرے مہنگائی کی وجہ سے اکثر لوگ کھانے پینے کے لیے گرم ٹھنڈا دونوں سے محروم ہو گئے ہیں ، لیکن پھر بھی گھبرانا نہیں ہے –
اپنے گھر میں تو بھلے وقتوں کا گیس والا چھوٹا سلنڈر پڑا ہے – فجر سے پہلے اور بعد میں چائے مل جاتی ہے -جن کے ہاں یہ عارضی بندوبست موجود نہیں وہ لوگ کیا کرتے ہوں گے – کم ازکم فجر کی نماز کے وقت تو گیس کی سہولت میسر ہونی چاہیئے – مگر اب تو یہ ڈر لگ رہا ہے کہ الیکشن کے RTS کی طرح کہیں گیس کا نظام بھی یکلخت ہاتھ کھڑے نہ کردے ، اور متعلقہ وزیر صاحب اچانک یہ اعلان کردیں کہ اللہ کی مرضی ، بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے کہ گھبرانے سے سردی اور زیادہ لگتی ہے –
مشکل وقت قوموں کی زندگی میں آتے جاتے رہتے ہیں ، مگر بروقت مناسب پلاننگ سے مشکلات کی شدت کم ضرور کی جا سکتی ہے –
کوئی ہے سننے والا —– ؟؟؟–—————– رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک- 28دسمبر 2020

میرا میانوالی

اللہ کریم نے شاید کسی کی دعا قبول کرلی – کل کی پوسٹ میں گیس کی اندھا دھند لوڈ شیڈنگ کا جو شکوہ کیا تھا ، وہ شاید کسی صاحب اختیار کی نظر سے گذرا ، اور صورت حال کافی بہتر ہوگئی – عام طور پر ایسا ہوتا نہیں ہے، لیکن کبھی کبھار ہو بھی جاتا ہے —– آج نماز فجر کے وقت گیس موجود تھی –
کیا زمانہ تھا جب نہ گیس کا انتظار نہ بجلی آنے جانے کی فکر , کیونکہ اس زمانے میں نہ گیس تھی نہ بجلی – وہ جو کہتے ہیں “نہ ڈھولا ہوسی، نہ رولا ہوسی“ کچھ ایسی ہی صورت حال تھی – لکڑیوں کی آگ پر صرف کھانا ہی نہیں بنتا تھا ، منہ ہاتھ دھونے اور وضو کرنے کے لیے گرم پانی بھی فراہم ہوتا تھا –
ہر مسجد میں تانبے کی بھاری بھرکم دیگ میں نمازیوں کے لیے پانی گرم کیا جاتا تھا – یہ خدمت سرانجام دینے والا “پانی ہارا“ کہلاتا تھا – اس خدمت کا معاوضہ محلے کے ہر گھر سے مٹھی بھر آٹے کی صورت میں ملتا تھا – پانی ہارا روزانہ گھر گھر جا کر یہ معاوضہ وصول کرتا تھا – یہی اس کا ذریعہء معاش تھا – گھر کا سارا خرچ اسی آٹے سے پورا کیا جاتا تھا -محلہ امیرے خیل میں چاچا لدھو کمہار بہت عرصہ یہ خدمت سرانجام دیتے رہے – اللہ پر توکل کرنے والے لوگ تھے – اس بے سرو سامانی میں بھی خوش رہتے تھے-
گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ
—————– رہے نام اللہ کا —–—-بشکریہ-منورعلی ملک-29 دسمبر 2020

میرا میانوالی

خوش فہمی دور ہو گئی – کل صبح گیس کی موجودگی پر خوشی کا اظہار کیا تھا – خیال تھا کہ شاید سرکار کو میانوالی پر رحم آگیا، اب گیس کی لوڈشیڈنگ بہت کم ہوگی – لیکن کل رات 9 بجے گیس بند کرکے سرکار نے ہمارا اندازہ غلط ثابت کردیا –
پرسوں میڈیا پر زوروشور سے یہ خبر چل رہی تھی کہ وزیراعظم نے گیس کی بے تحاشا لوڈ شیڈنگ کا نوٹس لے لیا – عجیب نوٹس تھا کہ مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ الجھ گیا – چینی ۔ آٹا ، پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لینے کا بھی یہی انجام ہوا کہ قیمتیں پہلے سے بھی زیادہ ہو گئیں – مزے کی بات یہ ہے کہ طعنے ہم میانوالی والوں کو سننے پڑتے ہیں کہ تاریخ میں پہلی بار آپ کا وزیر اعظم آیا ہے اور یہ حالات ہیں –
لوگوں کی بنیادی ضروریات زندگی کا خیال نہ رکھا جائے تو کوئی بھی حکومت دیر تک نہیں چل سکتی – وزراء کی ٹیم علم ، عقل ، شعور، احساس ، ہر چیز سے ماورا ہے –
کوئی جا کر ہمارے کپتان کو بتائے کہ گلی کے بچوں کی ٹیم کے ساتھ ورلڈ کپ جیتنا صرف خواب ہی ہو سکتا ہے —
——————- رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک- 30 دسمبر 2020

میرا میانوالی

الوداع ——- 2020
بہت بُرا سال تھا تُو
بہت دکھ دے گیا —- عالمی ، قومی اور ذاتی سطح پر ،
تباہ کن وبا کورونا نے ایک کروڑ سے زیادہ گھر اجاڑ دیئے –
لاکھوں لوگ دوسری بیماریوں اور حادثات میں جان کی بازی ہار گئے –
موت تو کبھی فارغ نہیں بیٹھتی – لاکھوں لوگ ہر سال سرحدحیات کے اس پار ، وہاں جا بستے ہیں جہاں سے کوئی واپس نہیں آسکتا – لیکن اس سال اموات بہت زیادہ ہوئیں –
مجموعی لحاظ سے اس سال کو موت کا سال کہنا غلط نہ ہوگا –
کورونا کے باعث دنیا بھر میں معیشت کو بھی بے حساب نقصان پہنچا –
بہت کچھ لے گیا یہ ظالم سال ، تاریخ میں اسے تباہی ، بربادی اور ویرانی کا سال کہا جائے گا –
جن لوگوں کو اس سال خوشیاں ملیں، اللہ انہیں نصیب کرے اور انہیں مزید خوشیاں عطا فرمائے – جن کو دکھ ملے ان کے دکھوں کا مداوا ہو –
اپنی زندگی میں یہ سال غم کا سال تھا -میری اہلیہ کی وفات سے 61 سال کی رفاقت ٹوٹ گئی – یہ سانحہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا – غم دل میں بیٹھ سا گیا ہے – لاکھ کوشش کے باوجود اس غم کو بھلا نہیں پارہا – اللہ بچوں کوشاد و آباد رکھے، میرا بہت خیال رکھتے ہیں ، مگر تنہائی کا احساس دل سے جا نہیں رہا – اس اذیت ناک کیفیت سے نکلنے کے لیئے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے –
اللہ کریم آپ سب کو سلامت رکھے – ہر مشکل آسان ہو ، سب مرادیں بر آئیں – 2021 خوشیوں اور کامیابیوں کا سال ہو –
الوداع ———–2020
تُو بہت بُرا سال تھا ،
شکر ہے آج کے سورج کے ساتھ تُو ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے گا –
———————- رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک- 31 دسمبر 2020

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top