میرا میانوالی – منور علی ملک کی جون 2016 کی فیس بک پر پوسٹ
ایک دن ماسٹر وزیر کے ھاں کھانے کی دعوت تھی- کھانا کھاتے ھوئے لالا نے کہا “ منور بھائی، آپ اردو شاعری تو بہت اچھی کر لیتے ھیں۔ آج میرے لیے سرائیکی میں ایک گیت لکھ دیں – وہ جو انڈین گانا ھے –
پنجرے کے پنچھی رے تیرا درد نہ جانے کوئی —— اسی طرز پر لکھنا ھے-
مجھے یہ انڈین دھن اور گیت یاد تھا ، اس لیے لکھنا کوئی مسئلہ نہ تھا- میں نے اسی شام اس دھن پر پنجابی اور سرائیکی ملی جلی زبان میں گیت لکھ کر لالا کو دے دیا – اس کے ابتدائی بول تھے
کملی دا ماھی وے ڈس کیہڑے پاسے جاواں
خاصا دردناک گیت تھا- لالا کو بہت اچھا لگا- اسی شام سے میکدے کی محفلوں میں یہ گیت بھی گونجنے لگا- رحمت گراموفون فیصل آباد نے لالا کے جو پہلے چار والیوم اکٹھے ریلیزکیئے تھے، ان میں سے پہلے والیوم کا پہلا گیت یہی تھا-
ھجر، انتظار اور شکوے کی یہی کیفیت میرے تمام گیتوں کی روح ھے- اس گیت کے بعد تو چل سو چل، گیت نگاری کا سلسلہ شروع ھوگیا-
سچی بات تو یہ ھے کہ مجھے گیت لکھنا اچھا نہیں لگتا- دردناک کام ھے- بہت سے سوئے ھوئے درد جاگ اٹھتے ھیں- اس لیے میں ھمیشہ لالاکی فرمائش پر گیت لکھتا رھا- اپنے طور پر ایک آدھ سے زیادہ گیت نہیں لکھا- دوسری بات یہ کہ جس کاغذ پر گیت لکھا وھی لالا کو دے دیا- اپنے پاس اس کی کاپی رکھناضروری نہ سمجھا- سرائیکی سر سنگت کے کوثر خان نے کئی دفعہ میرے تمام گیت اکٹھے ریکارڈ کر کے مجھے دیئے، مگر میں نے وہ تمام کیسٹ بھی دوستوں کو دے دیئے-1جون2016
یکدہ کے بارے میں پہلے بھی بتا چکاھوں کہ یہ سچ مچ کا میکدہ نہیں تھا- پھر بھی بعض لوگوں کا خیال ھے کہ شاید میں نے حقیقت بیان نہیں کی- آج حقیقت بھی سن لیجیئے-
پہلی بات تو یہ ھے کہ عیسی خیل جیسی جگہ پر ایک چھوٹے سے جنرل سٹور کا مالک شراب کہاں افورڈ کر سکتا تھا- الصدف جنرل سٹور کی آمدنی سے تو گھر کا خرچ بھی مشکل سے پورا ھوتا تھا- دوسری بات یہ ھے کہ میں نے عیسی خیل میں اپنے پانچ سال قیام کے دوران میکدہ میں صرف ایک دن شراب دیکھی ھے ، وہ بھی میانوالی سے لالا کے کچھ مہمان لائے تھے-
میکدے کی محفل عجیب محفل تھی- اس میں ہنسی مذاق یا ادھرادھرکی باتیں نہیں ھوتی تھیں- یہ ایک سنجیدہ بلکہہ سوگوار سی محفل ھوتی تھی- محفل رات 8 بجے شروع ھوتی ھی اور رات گئے تک جاری رھتی تھی- لالا اپنی مرضی سے گاتا تھا- حاضرین دل کھول کر داد دیتے تھے- بعض اوقات لالا گاتے گاتے اچانک لہر میں آکر ھارمونیم کے سب سے آخری سر پر جاپہنچتا تو حاضرین حیرت اور خوف کے مارے سانس روک لیتے- خوف اس بات کا کہ اتنی بلندی پر آواز کو مسلسل برقرار رکھنے سے گلا پھٹ بھی سکتا ھے، مگر قدرت نے بے حساب لچک عطا کی تھی اس گلے کو- لالاجتنی دیر چاھتا ان اونچے سروں میں نہایت آسانی سے گا سکتا تھا-
اردو غزل میں یونس خان اور ناطق کے ڈوھڑے اورتیر کی طرح دل میں اترجانے والے ماھیئے، یا اظہر نیازی کےے گیت میں غالب، فیض اور فراز کے شعر لگا کر لالا یک عجیب سا سماں باندھ دیا کرتا تھا-
ایک دن مجھ سے قدیم لوک گیت “ساوی موراکین تے بوٹا کڈھ دے چولے تے “ میں نئے بول لکھوائے تو راتت کو یہ گیت گاتے وقت اس میں اردو کے شعر، سرائیکی کے ڈوھڑے اور ماھیئے وغیرہ لگا کر تقریبا تین گھنٹے یہی ایک گیت جاری رکھا-2جون2016
میکدے میں ھر رات کی محفل کی ریکارڈنگ بھی ھوتی تھی- ریکارڈنگ ٹیپ ریکارڈر پر ھوتی تھی اور وہ بھی ھمارا اپنا نہ تھا- لالا کی مالی حالت پہلے ھی بتا چکا ھوں- اپنا یہ حال تھا کہ اس زمانے میں لیکچرر کی تنخواہ پانچ سو روپے ھوتی تھی ( آج پنشن اسی ھزار مل رھی ھے- کیا تماشا ھے ھمارا یہ نظام بھی !!!) –
دوسرے دوستوں میں سے بھی کسی کو ٹیپ ریکارڈر میسر نہ تھا- شکر ھے میرے کالج کے دو سٹوڈنٹس، مجیب الرحمان ھاشمی اور حفیظ خان کے پاس ٹیپ ریکارڈر تھے- انہی سے ھمارا کام چلتا رھا- میں کبھی ایک سے منگوالیتا کبھی دوسرے سے- دس پندرہ دن بعد ایک کو واپس دے کر دوسرے سے لے لیتا-
لالا کے پاس ٹی ڈی کے کےدو کیسٹ تھے- انہی پر باربار ریکارڈنگ کرتے رھتے تھے- رات کی ریکارڈنگ لالا دن کو دکان پر باربارسن کر اس میں بہتری کے امکانات تلاش کرتا رھتا، اور پھر شام کو وہی گیت نئے انداز میں گا کر حاضرین کو حیران کر دییا کرتا تھا-
کبھی کبھار بسوں کے ڈرائیوراور کنڈکٹر حضرات اپنے ٹیپ ریکارڈر لے آتے تھے، اور یوں محفل کی ایک آدھ کاپی وہ اپنے لیے بھی بنا لیتے تھے- یہی کاپیاں رفتہ رفتہ ٹرک ڈرائیوروں کے ھاتھ لگیں تو لالا کی آواز پورے پاکستان میں گونجنے لگی–3جون2016
ایک دن فیصل آباد کا کوئی ٹرک ڈرائیور لالا کی میکدے والی ریکارڈنگ کی کاپی بنوانے کے لیئے رحمت گراموفون کمپنی نامی دکان پر گیا ، تو اس ادارے کے مالک چوھدری رحمت علی لالا کی درد بھری آواز سن کر اتنے متاثر ھوئے کہ انہوں نے فی الفور لالا کی ریکارڈنگ کرنے کا ارادہ کر لیا-
عیسی خیل آکر جب چوھدری رحمت صاحب نے لالا کو فوری طور پر ریکارڈنگ کرانے کا کہا تو لالا نے معذرت کر لی – دراصل لالا ان دنوں اپنی چھوٹی بہن سیما کی ناگہاں موت کی وجہ سے بہت پریشان تھا- تاھم دوستوں نے کہا کہ قدرت نے آگے بڑھنے کا جو موقع دیا ھے اسے ضائع نہیں کرنا چاھیئے-
بالآخر دوستوں کے اصرار پر لالا نے فیصل آباد جا کر ریکارڈنگ کروادی- چوھدری رحمت صاحب نے ایک دو نہیں ، اکٹھے چار کیسٹ ریکارڈ کر کے ریلیز کیئے تو موسیقی کی تاریخ کا وہ دور شروع ھؤا، جو عطاءاللہ عیسی خیلوی کا دور کہلائے گا-
لالا نے موسیقی کا ذوق، بلکہ کلچر ھی بدل دیا- اس سے پہلے ھمااری فلمی موسیقی زوال کی اس انتہا کو پہنچ چکی تھی کہ شریف لوگوں نے موسیقی سننا ھی چھوڑ دیا تھا- جب ملکہ ترنم جیسی وی آئی پی گلوکارہ ” میری ویل دی قمیض“ (اس سے اگلے پچھلے بول لکھتے ھوئے مجھے تو شرم آتی ھے) جیسے گیت گانے لگے تو اس سے زیادہ زوال اور کیا ھوگا-
لالا نے لوک موسیقی کے روپ میں لوگوں کے دلوں کےدرد کا ذکر چھیڑا تو پوری دنیا ادھر متوجہ ھوگئی-4جون2016
ریڈیوُپاکستان میانوالی سے میرے ایک انٹرویو میں پروفیسر غفور شاہ قاسم نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے عطاءاللہ خان عیسی خیلوی کے بارے میں کتاب درد کا سفیر کیوں لکھی ؟
میرا جواب یہ تھا کہ میں نے قدرت کا ایک کرشمہ اپنی آنکھوں کے سامنے ھوتا ھؤا دیکھا ، تو اس کے بارے میں لکھنا واجبب سمجھا، تا کہ لوگوں کو یہ معلوم ھو سکے کہ اللہ جب چاھے تو یوں بھی کر سکتا ھے کہ ایک دورافتادہ علاقے کے غریب اور گمنام سے نوجوان کو اچانک دنیا بھر کا محبوب بنادے- عزت، دولت، شہرت اس کے پیچھے بھاگنے لگیں-
وہ نوجوان جو روزی کمانے کے لیئے کبھی رکشاچلاتاتھا، کبھی آرا مشین، کبھی کپڑے کی دکان اورکبھی جنرل سٹور، میرے سامنے صرف دو سال کے مختصر سے عرصے میں لاکھوں روپے روزانہ کمانے لگا- سہراب سائیکل کا سوار ، لمبی چوڑی وی آئی پی گاڑی مزدا– 929 کا مالک بن گیا- پہلے اسلام آباد ، پھر لاھور میں جابسا- پہلے لاھور میں کرائے کےمکان میں رھتا تھا، بہت جلد ماڈل ٹاؤن میں اپنا عالیشان گھر بنا لیا- یہ سب کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، تو اس کے بارے میں کتاب لکھ دی-
رحمت گراموفون کے چار والیوم منظرعام پر آنے کے بعد لالا کی آواز گلی گلی گونجنے لگی تو فاروق روکھڑی، ملک سونا خان بے وس، اور آڈھا خان صاحب جیسے بڑے شعراء بھی ادھر متوجہ ھوئے- ان شعراء کے خوبصورت کلام کی بے پناہ مقبولیت کو دیکھ کر بہت سے نوجوان بھی کاغذ پنسل لے کر اس امید پر گیت لکھنے میں مشغول ھو گئے کہ کبھی لالا ھمارا بھی ایک آدھ گیت ریکارڈ کرا دے گا- ان میں سے کئی نوجوان اس اعزاز کے مستحق بھی تھے ، کچھ کو مل بھی گیا- لیکن بہت سے مستحق محض غریبی اور گمنامی کی وجہ سے یہ اعزاز حاصل نہ کر سکے مجھے ان کا دکھ بہرحال محسوس ھوتا رھتا ھے-5جون2016
17 ویں صدی کے نامور انگریز شاعر جان ملٹن کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ ملٹن تو اب ایک انڈسٹری (صنعت یا کاروبار) بن چکا ھے – ھزاروں لوگ اس انڈسٹری سے اپنی روزی کماتے ھیں- کچھ لوگ ملٹن کی کتابیں چھاپ کر ، کچھ لوگ اسکی کتابیں بیچ کر کچھ لوگ یہ کتابیں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھا کر اورکچھ لوگ ملٹن پر ریسرچ کر کے اپنا رزق کمارھے ھیں-
یہی بات لالا کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ھے کہ 1978 میں منظرعام پر آتے ھی لالا ایک انڈسٹری بن گیا- بہت سے لوگ اس کی ریکارڈنگ کر کے، ملک بھر میں سینکڑوں ڈیلر اس کے کیسیٹ بیچ کر، روزی کمانے لگے- ٹیپ ریکارڈر کی سیل میں بے پناہ اضافہ ھؤا- کچھ کاروباری ادارے اپنے اشتہارات میں لالا کا حوالہ دینے لگے-
لالا نے لوک گلوکاری کا دروازہ کھولا تو بہت سے دوسرے لوگوں نے بھی لوک گلوکاری کو اپنی شناخت اور رزق کا وسیلہ بنا لیا- ان میں میرا بہت ھی پیارا بیٹا عطا محمد نیازی داؤدخیلوی، شفاءاللہ خان روکھڑی، عمران پائی خیلوی، ندیم خان نیازی عالم خیل، ّعابد ںؤآذ اتراء، طاھر ساقی، گل تری خیلوی، شرافت تری خیلوی، میرا ایک اور بہت پیارا بیٹا ظفرخان وتہ خیل، اور میرا لخت جگر علی عمران بھی شامل ھیں- تاھم لالا کے بعد میانوالی کے سب سے سینیئر لوک گلوکار ایوب نیازی ھیں – ھمارے بہت پیارے دوست ھیں- ان کا ذکر کچھ عرصہ بعد ایک الگ پوسٹ میں کروں گا، انشاءاللہ—– مرحوم شفیع اختر وتہ خیلوی بھی لوک گلوکاری میں ایک اھم نام تھے-7جون2016
سلیم شہزاد بیٹے کا ممنون ھوں کہ ایک سہو کی نشان دہی کر کے مجھے تلا فی کا موقع فراھم کر دیا- جی ھاں، عبدالستار زخمی ضلع میانوالی کے سینیئر لوک گلوکاروں میں اپنے انداز کا منفرد گلوکار تھا-
ایک رات لالا اور ھم چند دوست کندیاں میں فاروق قریشی کے ھاں مہمان تھے- عبدالستار زخمی سے میرا تعارف اسی محفل میں ھؤا – اس رات ھم نے زخمی صاحب سے بہت سے خوبصورت گیت سنے- لالا نے خود گانے کی بجائے وہ رات زخمی صاحب کے نام کردی- زخمی کی اچانک موت لوک موسیقی کی دنیا میں ایک دردناک سانحہ تھی- اللہ مغفرت فرمائے-
فاروق قریشی کے ھاں اس رات کی محفل اس لحاظ سے بھی بہت اھم تھی کہ اسی محفل میں لالا کا بابائے تھل فاروق روکھڑی صاحب سے تعارف ھؤا، جو بعد میں مستقل دوستی کی شکل اختیار کر گیا- فاروق روکھڑی نے اپنی خوبصورت مترنم آواز میں بہت سے گیت سنا کر اس محفل کو یادگار بنادیا-
پپلاں کے مبارک اور منیر معروف کلاسیکل ماھر موسیقی استاد برکت عرف بکا کے صاحبزادے تھے- یہ دونوں بہت اچھے لوک گلوکار بھی تھے- مری کی پر کیف فضاؤں میں ایک چاندنی رات ان دو بھائیوں کا گایا ھؤا گیت “پیلوں پکیاں “ آج چالیس سال بعد بھی میرے کانوں میں رس گھول رھا ھے-
مسعود ملک (ھم تم ھوں گے بادل ھوگا) اگرچہ لوک گلوکار نہیں تھے، لیکن میانوالی میں موسیقی کی تاریخ کا ایک بہت اھم باب تھے- ان کا انداز سب سے منفرد تھا- وہ بھی اچانک یہ دنیا چھوڑ کر چلے گئے- اللہ مغفرت فرمائے-
چراغ تلے اندھیرا کی ایک مثال یہ بھی دیکھیئے کہ میں لوک گلوکاروں کی فہرست میں اپنے قریبی عزیز اور بہت سریلے گلوکار سلیم ھاشمی داؤدخیلوی کا نام شامل کرنا بھول گیا- سینیئر لوک گلوکاروں میں مرحوم احمد خان ملنگ بھی ایک مشہور شخصیت تھے- لالا نے جس انڈسٹری کی بنیاد رکھی اس میں میانوالی سے باھر کے کچھ مشہور و معروف نام یہ بھی ھیں-
منصورعلی ملنگی لالا کے ساتھ ھی اس میدان میں وارد ھوئے- منصور کے علاوہ بشیر آف چوکی بھاگٹ، اللہ دتہ لونے والا، اکرم راھی، پنڈی کے ایک سائیں بھی تھے نام اس وقت یادداشت کی گرفت میں نہیں آرھا- کچھ اور معروف نام بھی تھے- میں تقریبا 25 سال سے موسیقی سے لاتعلق ھوں ،اس لیئے جو نام میرے علم میں نہیں ان سے معذرت-7جون2016
کل کی پوسٹ کا آغاز میں نے نامور انگریز شاعر جان ملٹن کے حوالے سے کیا تھا- لالا کی طرح ملٹن بھی میری پسندیدہ شخصیت ھے- ملٹن کو اس دنیا سے رخصت ھوئے 342 سال ھوگئے لیکن ملٹن آج بھی دنیا کی ھر یونیورسٹی کے ایم اے انگلش لٹریچر کے کورس میں شامل ھے-
ملٹن پر چار ھزار سے زیادہ کتابیں شائع ھو چکی ھیں- اب بھی ھر سال اوسطا ملٹن پہ سو سے زائد تحقیقی مقالات اور کتابیں شائع ھو رھی ھیں-
ملٹن کی بارہ جلدوں پر مشتمل شاھکار رزمیہ نظم پیراڈائیز لاسٹ (Paradise Lost) رزمیہ شاعری میں حرف آخر سمجھی جاتی ھے-
دس ھزار مصرعوں پر مشتمل یہ نظم ملٹن نے اس وقت تخلیق کی جب وہ بینائی سے محروم ( مکمل طور پر اندھا) ھوچکا تھا- اس وقت اس کی عمر پچاس سال سے اوپر تھی-
جب ملٹن نیبائی سے محروم ھؤا تو پہلے اس نے اپنی نابینائی کے حوالے سے ایک مختصڑ سی نظم On his Blindness لکھی- اس نظم کا آغاز تواس محرومی پر شکوے سے ھوتا ھے، مگر آخر میں ملٹن کہتا ھے کہ میں کرنا تو بہت کچھ چاھتا تھا، مگر اللہ نے بینائی واپس لے کر مجھے ان لوگوں میں شامل کر دیا جو کچھ کر تو نہیں سکتے ، بس قطار میں لگ کر اللہ کے حکم کے منتظر رھتے ھیں- اللہ نے اب مجھے اس ڈیوٹی پہ لگا دیا تو میں اس پہ بھی شکر ادا کرتا ھوں کہ میرا رب مجھ سے کوئی کام تولے رھا ھے-
شاید اللہ کو ملٹن کی یہی ادا پسند آگئی کہ اس کا نام رھتی دنیا تک زندہ کر دیا-
شاعری کے بارے میں ملٹن کا نظریہ یہ تھا کہ شاعری کوذھنی عیاشی کی بجائے لوگوں کے ایمان و اخلاق کی اصلاح کا ذریعہ ھونا چاھیئے-
ملٹن عام عیسائیوں کی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کو نعوذباللہ خدا کا بیٹا نہیں مابتا تھا، بلکہ انہیں صرف نبی مانتا تھا- اس کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ آخرت کا فیصلہ ایمان اور اعمال پر ھوگا-
ایک بہت پڑھے لکھے دوست کی فرمائش پر میں نے ملٹن پر جان ملٹن کے عنوان سے اردو میں درد کا سفیر جیسی دلچسپ کتاب لکھی تھی جو لاھور کے ادارے قوسین نے-1998 میں شائع کی تھی—–8جون2016
عیسی خیل کے حوالے سے ابھی دو چار پوسٹس اور لکھنی ھیں، مگر بچپن کی کچھ یادیں ضد کر رھی ھیں کہ پہلے ھمیں فارغ کر دیں پھر جو مرضی لکھتے رھیں- اس لیئے آیئے چلتے ھیں داؤدخیل —
ساٹھ پینسٹھ سال پہلے کا داؤدخیل – رمضان مبارک کے یہی دن، ایسی ھی گرمی، لوڈشیڈنگ کہاں، بجلی ھی نہیںں تھی اس زمانے میں- اس لیئے اے سی ، کولر، فریج، پنکھے، جیسی عیاشیوں کا تصور ھی ناممکن تھا- کھجور کے پتوں سے بنے ھوئے کالاباغ کے دستی پنکھوں کو ھاتھ سے گھما کر گذارہ کرنا پڑتا تھا- دن چھپروں ، یا درختوں کے سائے میں گذارنا پڑتا تھا-
اس غضب کی گرمی میں بھی سب لوگ روزہ رکھتے تھے- داؤدخیل میں روزہ نہ رکھنے کا تصور ھی نہ تھا- اس معاملے میں گناہ گاراور نیک لوگ ایک ھی صف میں کھڑے نظر آتے تھے-
سحری کا مینیو ھر گھر میں خالص دیسی گھی میں تلے ھوئے خاص قسم کے ھلکے پھلکے پراٹھے ھوتے تھے جنہیں وشلی washilli کہتے تھے- وشلی کے اوپر شکر کی ڈھیری سی بنا کر اسے پیالے کی شکل دے دیتے تھے، اور اس پیالے کو بھی دیسی گھی سے لبالب بھر کر روٹی کے نوالے اس میں سالن کی طرح ڈبو کر مزے سے کھایا کرتے تھے- اس کے ساتھ کچھ لوگ چائے، کچھ پانی پیتے تھے- وشلی کے بارے میں کہتے تھے کہ سحری میں وشلی کھانے سے پیاس نہیں لگتی- واللہ اعلم-
روزے گذرنے پر کچھ لوگ یہ بول گاتے سنائی دیتے تھے–
لنگھ گئے روزے وڈا ارمان وشلیاں نا “—9جون2016
داؤد خیل کے ایک دو دکاندار میانوالی سے برف کے ایک دو بلاک لے آتے تھے- برف کی خریداری کا منظر دیکھنے کے قابل ھوتا تھا- خریدنے والوں کی قطاریں دوپہر سے ھی لگ جاتی تھیں- برف آتے ھی۔ پہلے برف لینے پر لڑائی جھگڑے کسی فلم کا منظر پیش کرتے تھے- اس منظر سے باھر رھنے والے شریف لوگوں کے لیے یا تو برف بچتی ھی نہ تھی، یا بہت منت ترلے کر کے ایک آدھ پاؤ مل جاتی تو اس کامیابی پر ان کے گھر کے لوگ خوشی سے نعرے لگایا کرتے تھے-
بزرگ لوگ برف پسند نہیں کرتے تھے- ان کا خیال تھا (اور یہ درست خیال تھا ) کہ برف پیاس بجھانے کی بجائے پیاس کو کچھ اور بھڑکا دیتی ھے- اس لیئے وہ کنوئیں یا نلکے (ھینڈ پمپ) کے تازہ پانی سے روزہ افظار کرتے تھے- اس زمانے میں داؤدخیل کے نلکے اور کنوئیں کا پانی بھی اتنا ٹھنڈا ، میٹھا اور پاک صاف ھوتا تھا کہ بزرگ کہا کرتے تھے یہ تو جنت کا پانی ھے-
آہ، نہر کی سیم نے اس پانی کو کڑوا کر کے اسے جہنم کا پانی بنا دیا- اب پینے کے لیے یا تو میونسپل کمیٹی کی واٹرسپلائی کا پانی ھے، یا نہر کے کنارے مسجد بلال کے نلکے کا ( تصویر میں آپ مسجد بلال ھی دیکھ رھے ھیں)-
افطاری کے وقت سے ایک آدھ گھنٹہ پہلے روزہ بہلانے کے لیے افظاری کی تیاریاں شروع ھو جاتی تھیں- خواتین تو کھانا بنانے میں مصروف ھو جاتیں ، مرد اور بچے کسی ٹب یا بڑے سے پتیلے میں ٹھنڈا پانی ڈال کر اس میں چینی یا شکر گھول کر اوپر سے لیموں نچوڑتے اور خشک ھونٹوں پر زبان پھیرتے دھتے-
اس زمانے میں افطار کے وقت کا اعلان مساجد میں نقارہ بجا کر کیا جاتا تھا- نقارے کی آؤاز سنتے ھی لوگ اللہ سے اپنی اپنی مرادیں مانگ کر کھانے پینے میں مشغول ھو جاتے-
اگلی ایک دو پوسٹوں میں داؤد خیل کی عید کا دلچسپ ذکر ھوگا ، انشاءاللہ-
میری ایک نعت کے پہلے دو شعر —
دل میں ھے یاد آپ کی، لب پہ ھے نام آپ کا
دامن پہ آنسوؤں سے ھے لکھا سلام آپ کا
اک بے نوا فقیر کی پہچان نعت بن گئی
میرے تو صرف لفظ ھیں حسن کلام آپ کا –10جونن2016
عید کی تیاریاں رمضان المبارک آتے ھی شروع ھو جاتی تھیں- کپڑوں اور جوتوں کے لیے درزیوں اور موچیوں کی دکانوں کے پھیرے لگائے جاتے- بچوں کو ھر وقت یہی فکر رھتی کہ درزی کے پاس کام بہت زیادہ ھے کہیں ھمارے کپڑے رہ نہ جائیں- دن میں کئی دفعہ درزیوں کے ھاں اس قسم کے ڈائیلاگ سننے میں آتے-
درزی ؛ اوئے تو پھر آگیا ؟ چل بھاگ یہاں سے
بچہ : چاچا میرے کپڑے ؟
درزی : کوئی کپڑے شپڑے نہیں ھیں تیرے ادھر—
بچہ : چاچا میں خود دے کر گیا تھا، ابے کے ساتھ آیا تھا-
درزی : اب ابے کو بھی لے آ تو کپڑے نہیں دوں گا تجھے-
بچہ : چاچا، ناراض نہ ھو، تم نے کہا تھا اتوار کو ملیں گے-
درزی : اوئے ، آج کوئی آخری اتوار تو نہیں ھے- اگلی اتوار کو آجانا- چل، جا مجھے کام کرنے دے-
جوتے کالاباغ سے آرڈر پر بنوائے جاتے- آرڈر کا مطلب ھے ناپ اور کچھ پیسے ایڈوانس (ساھی) دے کر تاریخ لے لی جاتی- اگلی پیشی پر جوتے مل جاتے یا پھر نئی تاریخ- اس زمانے میں فرمے والی کھیڑی کا رواج تھا- کیا خوبصورت چیز ھوتی تھی وہ کھیڑی !!! مردانہ وجاھت کو چار چاند لگا دیتی تھی –
کالاباغ میں بہت سے کاریگر یہ کھیڑی بناتے تھے، مگر سپیشلسٹ کاریگر، فقیرمحمد، ابرا ھیم اور چاچا پشو تھے- پشو کا اصل نام پتہ نہیں کیا تھا، سب پشو ھی کہتے تھے- جوئے میں سب کچھ ھار کر اس نے کاروبار ھی ختم کر دیا تھا- ان تینوں کاریگروں کی بنائی ھوئی کھیڑی کالاباغ کے نواب صاحبان بھی بڑے شوق سے پہنتے تھے- بہترین کھیڑی سولہ روپے کی آتی تھی — باقی قصہ کل-11جون2016
عیدپرنئے کپڑے اور جوتے پہننے کے علاوہ ھاتھ پاؤں پر مہندی لگانا بھی ضروری سمجھا جاتا تھا- عید سے ایک آدھ دن پہلے سب لوگ اپنے ھاتھ پاؤں مہندی سے لال کر لیتے تھے-
عید کے دن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ عید توبچوں کی عید ھوتی ھے- واقعی یہی بات تھی- عید نئے کپڑوں اور جوتوں کی نمائش اور کھانے پینے کا دن ھوتا تھا- دن بھر بچوں اور نوجوانوں کی ٹولیاں گلیوں میں سجی دکانوں پر کھانے پینے میں مشغول نظر آتی تھیں-
داؤد خیل میں مٹھائی کی کوئی مستقل دکان تو نہ تھی- عید کے دن کچھ دکان دار اپنا روز مرہ کا کاروبار چھوڑ کر اپنی دکانوں کے سامنے جلیبیاں ، پکوڑے، کلیجی کے تکے اور سوڈا واٹر کی ٹھاہ کر کے کھلنے والی بوتلیں سجا دیتے تھے- جلیبیاں ، پکوڑے اور تکے وہ خود بناتے تھے- ھمارے محلہ مبارک آباد میں چاچا اولیا، محلہ امیرے خیل میں ماما حمیداللہ خان اور محلہ علاؤل خٰیل میں حاجی کالا کمہار کی گرم گرم تازہ جلیبیاں عید کی رونق کا لازمی جزو سمجھی جاتی تھیں- ان جلیبیوں کی مقبولیت کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس کے علاوہ اور کوئی مٹھائی داؤدخیل میں نہ بنتی تھی نہ ملتی تھی- دوسری بات یہ تھی کہ یہ نعمت بھی ھم داؤدخیل کے لوگوں کو سال بھر میں صرف عید کے تین دنوں میں نصیب ھوتی تھی-
عید پر ایک خاص شو، کنوارے خیل نوجوانوں کے مہارے اونٹوں کا ھوتا تھا- کنوارے خیل ریلوے سٹیشن داؤدخیل کے قریب اپنے الگ محلے میں آباد ھیں- یہ لوگ اچھے خاصے زمیندار پٹھان ھیں- ان کے کچھ نوجوانوں نے شوقیہ مہارے اونٹ پال رکھے تھے- مہارا نہایت سمارٹ خوبصورت اور تیز رفتار اونٹ ھوتا ھےجوتیز رفتار سواری کے طور پر استعمال ھوتا ھے- عید کے دن چند کنوارے خیل نوجوان اپنے بنے سنورے مہاروں پر پورے شہر کا چکر لگایا کرتے تھے- مہاروں کے پاؤن میں بندھے گھنگھروؤں کی چھن چھن دوردور تک سنائی دیتی تھی—
(عید الفطر کے دن کی کوئی تصویر نہ مل سکی- نجیب اللہ زبیر نے عید میلاد کی تصویر بھیج دی، وہی اس پوسٹ میں لگا دی ھے)-12جون2016
عید کا دوسرا دن خواتین کی عید کا دن تھا- اس دن خواتین کی ٹولیاں عید کے لیے سجائی گئی دکانوں پر جا کر اپنی پسند کی چیزیں خریدا کرتی تھیں- صرف شادی شدہ خواتین ھی ٹولیوں کی شکل میں گھروں سے نکل کر دکانوں پر جایا کرتی تھیں- جوان بچیاں گھروں سے باھر نہیں نکلتی تھیں- ان کی پسند کی چیزیں ان کی امیاں، چاچیاں، مامیاں وغیرہ خرید کر لایا کرتی تھیں- بڑی غریبانہ اور معصوم سی فرمائشیں ھوتی تھیں ان بچیوں کی- کانچ کی رنگ برنگی چوڑیاں، پیتل کی انگوٹھیاں اور کانوں میں پہننے کے کانٹے (بالیاں) مہندی کے پیکٹ , پراندے اور کنگھیاں، جلیبیاں اور پکوڑے وغیرہ ان کی پسندیدہ چیزیں تھیں-
خواتین کے ساتھ بچے بھی ھوتے تھے- وہ غبارے، سیٹٹیاں ، غلیلیں اور کھٹی میٹھی گولیاں (چوپنڑیاں) وغیرہہ خریدا کرتے تھے-
اس دن شہر بھر کی گلیوں میں مرد نظر نہیں آتے تھے- اگر کہیں ایک دو مرد کسی دکان پر کھڑے ھوتے، تو خواتین کو دیکھتےے ھی وھاں سے کھسک جاتے، یا دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑے ھو جاتے- یہ تھا میرے غیرت مند داؤدخیل کا رواج- اللہ کرے یہ رواج آج بھی برقرار ھو-
عید کا تیسرا دن “سیل“ (سیر) کا دن کہلاتا تھا- اس دن شہر ھی نہیں پورے ضلع کے مرد اور بچے ماڑی انڈس میں شاہ گلل حسن کا میلہ دیکھنے جایا کرتے تھے- یہ میلہ ضلع میانوالی کی سب سے بڑی سماجی تقریب ھؤا کرتا تھا- اس کی دلچسپ روداد انشاءاللہ کل کی پوسٹ میں بتاؤں گا- -13جون2016
شاہ گل حسن کا مزار ماڑی انڈس ریلوے سٹیشن کے جنوب مغرب میں دریا کے کنارے ایک گھنے جنگل میں واقع ھے- بڑی ویران اور پر اسرار سی جگہ ھے، مگر عید الفظر کے تیسرے دن ضلع میانوالی کی ساری رونق، تمام چہل پہل یہیں جمع ھو جاتی تھی- اس زمانے میں ضلع بھکر بھی ضلع میانوالی میں شامل تھا، بھکر سے لے کر داؤد خیل تک کی تقریبا تمام مردانہ آبادی اس دن شاہ گل حسن کے میلے میں آجاتی تھی-
اس پوسٹ کے ساتھ والی تصویر میں ٹرین کا جو حشر آپ دیکھ رھے ھیں، لاھور سے ماڑی انڈس آنے والی ٹرین کا میلہ شاہ گل حسن کے دن یہی حال ھوتا تھا- ایک آدھ دفعہ ھم خود اپنے ماموں غلام فرید کی سفارش پر ٹرین کے انجن میں بیٹھ کر ماڑی اںدس گئے- ماموں ماڑی انڈس میں ریلوے کے انجن مکینک تھے، اس لیے ڈرائیور حضرات ان کا بہت لحاظ کرتے تھے-
میلے میں روایتی میلوں والی کوئی بات نہیں ھوتی تھی- نہ کوئی تھیٹر، نہ سرکس، نہ نیزہ بازی کے مقابلے، نہ کتوں کی دوڑ، نہ کوئی مداری ، نہ بازی گر، بس درختوں کے سائے میں چل پھر کر کھانا پینا، اورھنسی مذاق- یعنی وہی سب کچھ جو عید کے دن ھر شہر اور گاؤں میں ھوتا تھا یہاں بھی ھوتا تھا- پھر بھی اس میلے میں حاضری لازم سمجھی جاتی تھی-
داؤد خیل، کالاباغ اور گردو نواح کے دکاندار جلیبیوں اور پکوڑوں کے کارخانے یہیں لگالیتے تھے- سر پہ درختوں کی چھت اور پاؤن تلے زمین کا فرش- لوگ اس ی فرش پر بیٹھ کر کھا پی لیتے تھے-
سنا ھے اس دن ارد گرد کی پہاڑیوں میں جؤا بھی بڑا زبردست ھوتا تھا- خدا نے ھمیں کبھی دکھایا تو نہیں، البتہ ھارے ھوئے جواریوں کو اپنی قسمت کو کوستے کئی بار سننے کا اتفاق ھؤا-
میلے میں حاضری کا شوق اتنا زوردار تھا کہ بچے اپنا عید کا جیب خرچ اسی میلے کے لیے بچا کر رکھ لیتے تھے- داؤدخیل کے جو لوگ کسی وجہ سے ٹرین سے نہ جاسکتے ، وہ آٹھ دس کلومیٹر پیدل چل کروھاں پہنچ جاتے تھے- کچھ بھی ھوجائے ، حاضری ضروری سمجھی جاتی تھی-
شام پانچ بجے ٹرین اسی حال میں سر سے پاؤں تک آدمیوں سے لدی ھوئی واپس لاھور روانہ ھو جاتی تھی- پھر سال بھر اس ویرانے میں الو ھی بولتے سنائی دیتے تھے-
میلے کے بارے میں کچھ لوگ کہتے ھہیں کہ اب نہیں ھوتا- کچھ لوگ کہتے ھیں کہ تھوڑی بہت رونق اب بھی لگ جاتی ھے- واللہ اعلم —
بڑے لوگ —
مولانا محمد علی جوھر جیل میں تھے کہ گھر سے اطلاع آئی ، بیٹی آمنہ شدید بیمار ھے- آپ نے بیٹی کے نام خط میں یہ دو شعر بھیجج دیے-
میں ھوں مجبور، پر اللہ تو مجبور نہیں
تجھ سے میں دور سہی، وہ تو مگر دور نہیں
آمنہ ، تو جو شفا پائے تو رحمت اس کی
اس کو منظور نہ ھو، مجھ کو بھی منظور نہیں-14جون2016
غلام حسین ولد رنگی خان شکورخیل (عرف غلام حسین رنگی آلا) کے ذکر کے بغیرداؤدخیل میں عید کا ذکر مکمل نہیں ھوتا- غلام حسین غریب آدمی ھے، مگر پھر بھی عید کے دن داؤد خیل میں سب سے مہنگآ آور خوبصورت لباس پہن کر جب یہ بانکا سجیلا جوان گھر سے نکلتا تو جدھر بھی جاتا راہ چلتے لوگ اس کی شان دیکھنے کے لیے رک جاتے- جاپان کی مشہورومعروف دو گھوڑا بوسکی کی قمیض ، چابی مارکہ مہنگے سفیدلٹھے کی شلوار، سر پہ ڈھاکے کی قیمتی سفید ململ کی کلف لگی طرے والی پگ- پاؤں میں سفید یا زری والی فرمے کی کھیڑی پہنے، سرخ و سفید رنگت کا یہ جوان قدرت کا ایک کرشمہ نظر آتا تھا-
یہی غلام حسین اپنی عید کی شان و شوکت کے لیے رمضان المبارک کا پورا مہینہ دن بھر گیلی مٹی سے کچی ایٹیں بناتا تھا- شدید گرمی میں روزے کے ساتھ دن بھر اتنی مشقت آسان نہیں- مگر یہ زندہ دل نوجوان عید پر اپنی حسرتیں پوری کرنے کے شوق میں دن بھر کام میں لگا رھتا تھا- رمضان المبارک کے آخری دنوں میں تمام اینٹیں بیچ کر جتنے پیسے ملتے وہ سب کے سب اپنے عید کے لباس اور آرائش پہ خرچ کر دیتا تھا-
ایک دو سال ھوئے میں داؤدخیل میں اپن گھر کے سامنے والی سڑک پہ جارھا تھا تو راستے میں غلام حسین خان مل گیا- میں نے پوچھا لالا، عید پہ اب بھی وھی شان ھوتی ھے تمہاری ؟“
ہنس کر بولا “ ھا، لالا، تیڈی دعا نال تیڈا بھرا اجے وی ٹھیک ٹھاک وتا اے “
غلام حسین خان کی عمر اب اسی سال سے اوپر ھے- آج صبح اس کے بارے میں اپنے بھتیجے رضوان سے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ غلام حسین خان ان دنوں شدید بیمار ھے- اللہ اسے اپنی حفظ و امان میں رکھے- اس کے لیے خصوصی دعا فرمائیں- داؤدخیل کے دوستوں کا فرض ھے کہ اس کے گھر جا کر اس کی بیمار پرسی کریں ، اور اس کا خیال رکھیں- ایسے قیمتی آدمی روزروز پیدا نہیں ھوتے –غلام حسین خان رنگی والا( تصویر بہ شکریہ، محمد فرحت اللہ خان )-15جون2016
لالا غلام حسین خان رنگی خیل کی تازہ ترین تصویر داؤدخیل سے رضوان علی ملک نے اس شعر کے ساتھ بھیجی ھے-
دل فسردہ تو ھؤا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون حسیں، کون جواں رھتاھے
میرے کہنے پر رضوان بیٹا کل غلام حسین خان سے ملنے گیا تھا- غلام حسین کی یہ تازہ تصویر دیکھ کر مجھے اپنا یہ شعر یاد آگیا —————
مسرتیں بانٹتا تھا جو شخص شہر بھر میں
اسی منور کو دیکھ کر آج رو پڑا ھوں
داؤدخیل کی عید کا ذکرھوچکا، پھر بھی یہاں سے جانے کو جی نہیں چاھتا- میری زندگی داؤدخیل اور میانوالی کے درمیان کچھ اس طرح تقسیم ھوئی ھے کہ میں نہ ادھر کا رھا، نہ ادھر کا – زندگی کے پہلے 35 سال داؤدخیل میں گذرے، اب 35 سال سے میانوالی میں ھوں- یہاں اللہ کے فضل سے اتنی محبت اور احترام ملا کہ میانوالی چھوڑ کر جانے کو جی نہیں چاھتا-
مگر داؤدخیل بھی تو داؤدخیل ھے- میرے بچپن، جوانی، والدین اور مہربان دوستوں کا شہر- یوں سمجھ لیجیئے کہ داؤدخیل اور میانوالی میری دو آنکھوں کی طرح ھیں- میرے لیے دونوں اھم ھیں- فی الحال یہ فیصلہ نہیں کر پا رھا کہ اپنی کہانی کہاں سے شروع کروں- جو بھی فیصلہ کیا، انشاءاللہ کل کی پوسٹ میں آپ دیکھ لیں گے–16جون2016
(داؤدخیل سے رضوان علی ملک کی پوسٹ)T-20
ورلڈکپ کا جب آغاز ہوا تو مہر خان شکور خیل مرحوم کے آرے پر ایک بڑا ٹی وی رکھا گیا جہاں محلہ شکور خیل اور مبارکک آباد کے نوجوان اکٹھے ہو کر میچ دیکھتے۔ یہاں چاچا غلام حسین کی موجودگی میچ کا لطف کئی گنا بڑھا دیتی۔ آپ پاکستان کا ہر میچ بہت شوق سے نا صرف دیکھتے بلکہ میچ پر رواں تبصرہ بھی جاری رکھتے۔
شاہد آفریدی آپ کا فیورٹ پلئیر تھا اور اگر کوئی اس کے خلاف بات کرتا تو آپ لڑنے پہ آجاتے۔چند شرارتی لڑکے جان بوجھ کر آپ کو تنگ کرنے کے لیے کہ دیتے کہ آفریدی کو تو کھیلنا بھی نہیں آتا اس پر آپ غصے سے جواب دیتے پھر تمہاری ماں کو بھیج دیں ورلڈکپ کھیلنے ؟ مگر سب کو آپ کا یہ غصہ ہی تو پسند تھا
پاکستان سے بے پناہ محبت کرنے والے چاچا غلام حسین ہر میچ میں پاکستان کے لیے خود بھی دعا کر رہے ہوتے اور ہم سے بھی زبردستی دعا کرارہے ہوتے۔
اور پھر پاکستان فائنل میں پہنچ گیا جہاں اس کا مقابلہ انڈیا سے تھا۔ یوں سمجھ لیں اس دن شاید اتنی ٹینشن گراؤنڈ میں بھی نا ہو جتنی محلہ شکور خیل کے اس کمرے میں تھی جہاں چاچا غلام حسین اور بہت سے نوجوان اپنی ٹیم کی فتح یاب ہوتا دیکھنے جمع تھے۔
میچ میں اتار چڑھاؤ آتے رہے مگر ایک موقع پر پاکستان کی شکست یقینی نظر آنے لگی۔ دلوں کی دھڑکنیں جیسے تھمنے لگیں گلاب چہرے مرجھانے لگے مگر چاچا نے کہا ” اوے اجے مصباح کھلوتا ہے اجے ساکو امید ہے “
اور پھر جیسے مصباح تک چاچا کی آواز پہنچ گئی۔ اس نے انڈین بولرز کی ایسی درگت بنانی شروع کی کہ پاکستان کی ھار جیت میں بدلتی نظر آنے لگی
“اوے آکھا نم مصباح جتوا کے ویسی” ۔چاچا کی آواز کی بشاشت لوٹ آئی تھی۔ مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا آخری اوور میں جب صرف ایک باؤنڈری درکار تھی مصباح کی لگائی ہوئی ہٹ کیچ ہو گئی ،
افسوس تو سب کو تھا مگر جو اداسی چاچا غلام حسین کے چہرے پے چھائی تھی اسے دیکھ کے اس کی اپنے وطن سے محبت کا اندازا لگایا جاسکتا تھا۔
چھوٹے سے شہر کا باسی اپنے دیس کا بہت بڑا چاہنے والا ہے۔ اللہ اس کو اور اس کے ملک کو بے شمار خوشیاں عطا فرمائے۔آمین۔————- ( رضوان علی ملک ، داؤدخیل )Ghulam Hussain Khan Rangi Khel–
بڑے لوگ —-
ھمارے دوست، مرحوم سوز زیدی بتایا کرتے تھے کہ تحریک پاکستان کے دوران ھم کچھ طلبہ وفد کی صورت میں قائداعظم کی خدمت میں حاضر ھوئے ، اور ان سے گذارش کی کہ ھندو اور انگریز شرافت کی زبان نہیں سمجھتے، اس لیئے قیام پاکستان مذاکرات سے ممکن نہیں ھوگا، اگر آپ ھمیں اجازت دیں تو ھم جلسے جلوس کر کے کچھ توڑ پھوڑ کریں گے، اور اس طرح انگریز حکومت دباؤ میں آ کر قیام پاکستان پر رضامند ھو جائے گی-
ھماری بات سن کر قائداعظم نے افسردہ لہجے میں کہا “ بیٹا، اگر آپ نے توڑ پھڑ کی تو حکومت لیڈروں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دے گی- مگر میرے اکثر ساتھی اتنے مخلص نہیں کہ پاکستان کی خاطر جیل جانا گوارا کر لیں- یہ سب لوگ مجھے چھوڑ کر بھاگ جائیں گے- آپ بس میرے لیے دعا کریں کہ اللہ میری مدد کر دے-
دنیا نے دیکھا کہ اللہ نے مدد کر دی – مذاکرات ھی کے ذریعے قاءد اعظم نے پاکستان حاصل کر لیا- یہ تھے ھمارے بابا رحمتہ اللہ علیہ-18جون2016
داؤدخیل کا ذکر تو میری ذاتی زندگی کے حوالے سے ھر تحریر اور ھر کتاب میں ھوتا ھے- کچھ باتیں میری کتاب “درد کا سیفر“ میں ھیں، کچھ میرے شعری مجموعے “جو تم سے کہہ نہ سکا “ میں- بہت سی اھم باتیں میرے بارے میں پروفیسر نصرت نیازی صاحبہ کی کتاب میں ھیں-
بہت سی تفصیلات میری آپ بیتی “کوئی ھے“ کی پہلی دو قسطوں میں معروف ادبی جریدہ “سویرا“ میں شائع ھو چکیں – اب تیسری قسط لکھ رھا ھوں- اس میں اس وقت داؤدخیل میں بٹیربازی کا تذکرہ لکھ رھاھوں- یہ مشغلہ بھی کسی زمانے میں داؤدخیل کی پہچان ھؤا کرتا تھا- بچپن میں کچھ عرصہ ھم بھی اس شوق میں مبتلا رھے- دلچسپ کہانی ھے –
کچھ لوگوں کا اصرارھے کہ ھمیں قسطوں کی مار نہ دیں- جلدی سے آپ بیتی مکمل کر کے کتاب چھپوا دیں- ادھر اپنی مصروفیات کچھ اور بھی ھیں- اس وقت بھی ایم اے کی ایک کتاب Ibsen کے دردناک ڈرامے Hedda Gabler پر کام کر رھا ھوں-
کل سے اپنے عیسی خیل میں قیام کے حوالے سے کچھ بقیہ باتیں لکھنا شروع کروں گا- دوتین پوسٹس میں یہ کہانی سمیٹ کر آپ کو میانوالی لے چلوںگا- لیکن ایک بات پہلے بھی کہہ چکا ھوں- اب بھی کہوں گا- کہ لکھوں گا وہی کچھ جو میں ضروری سمجھتا ھوں- آپ کو بس میری انگلی پکڑ کر چلنا ھوگا- -(Picture from a literary event at Jinnah Hall Mianwali in October, 2015
بڑے لوگ
بابائے قوم کی زندگی کے آخری دن کی داستان بہت افسوسناک بھی ھے دردناک بھی- لکھنا مشکل ھو رھا ھے- صرف ان کی زندگی کے آخری لمحے کا ذکر ان کے ذاتی معالج، کرنل ڈاکٹر الہی بخش کے الفا ظ میں سن لیجیے- ڈاکٹر صاحب کہتے ھیں کہ نو بج کر پچاس منٹ پر بڑی مشکل سے ھم انہیں دل کی طاقت کا انجیکشن دینے میں کامیاب ھو گئے ، تو میں نے قائد اعظم سے کہا :Sir, we have given you an injection to strengthen you, and it will soon have effect.You are going to live.
قائداعظم نے نحیف آواز میں کہا ” No. I ‘m not.”
آدھ گھنٹہ بعد ڈاکٹروں نے چیک اپ کیا تو معلوم ھؤا کہ پنجرہ خالی ھے- جنت کا پرندہ اڑ کر اپنے وطن کو واپس جا چکا تھا- رحمتہ اللہ علیہ،—-19جون2016
آہ ! اب تو وہ ریلوے لائین بھی باقی نہیں رھی جس پر یہ ٹرین روزانہ ماڑی انڈس سے بنوں آیا جایا کرتی تھی- ایک زمانہ وہ تھا جب میانوالی سے بنوں جانے کا واحد ذریعہ یہی ٹرین تھی-
1952-53 میں جب میں گورنمنٹ ھائی سکول عیسی خیل میں ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا، اس زمانے میں صرف تین بسیں میانوالی سے عیسی خیل آتی جاتی تھیں- عیسی خیل سے بنوں تک بس سروس کا تصؤر تک نہ تھا- لکی مروت اور بنوں لوگ اسی ٹرین سے آتے جاتے تھے-
یہ ٹرین سروس انگریز حکومت نے اپنی فوجی ضروریات کے لیے شروع کی تھی- قبائلی علاقوں پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لیے بنوں میں فوج کی چھاؤنی قائم کی گئی تو پنجاب سے فوجی دستوں اور سازوسامان کی ترسیل کے لیے یہ ٹرین سروس ضروری تھی- عوام کے مطالبے پر اسے عام پسنجر ٹرین سروس بنا دیا گیا-
جب یہ ٹرین سروس شروع ھوئی تھی اس وقت کالا باغ کاپل موجود نہ تھا- اس وجہ سے بڑی ٹرینوں کی آمدورفت ممکن نہ تھی – ایک سمندری جہاز سا ماڑی انڈس اور کالاباغ کے درمیان چلا کرتا تھا- اس پر ریلوے لائین بچھا دی گئی- ٹرین ماڑی انڈس ریلوے سٹیشن سے چل کر دریا کے کنارے اس جہاز پر آجاتی تھی ، اور پھر یہ جہاز اسے کالاباغ پہنچا دیتا تھا، وھاں سے آگے بنوں تک باقاعدہ ریلوے لائین موجود تھی، جس پر یہ ٹرین روزانہ آیاجایا کرتی تھی- بعد میں جب کالاباغ پل بن گیا تو ترینوں کی تعداد بھی بڑھا دی گئی-
میں زندگی میں پہلی بار عیسی خیل اسی ٹرین سے آیا تھا- اس وقت میں چھٹی کلاس میں پڑھتا تھا- داؤدخیل اور عیسی خیل کے ھائی سکولوں کی والی بال ٹیموں کا میچ تھا- میں چونکہ گورنمنٹ ھائی سکول عیسی خیل کے ھیڈماسٹڑ صاحب کا بیٹا تھا ، اس لیے مجھے تبرک کے طور پر ساتھ لے لیا گیا- داؤدخیل ھائی سکول کے ھیڈماسٹر سلطان محمود خان نیازی ، اور پی ٹی آئی سعداللہ خان ینازی بھی ٹیم کے ھمراہ تھے-20جون2016
ZAFAR KHAN NIAZI COMMENTS ON THE POST
یہ لکی مروت کا اسٹیشن ہے ، اور یہ ریل گاڑی اڑھائ فٹ کی پٹڑی پر کھڑی ہے ۔ میں نے اس ٹرین پر 1967 میں ایک بارات کے ساتھ سفر کیا تھا جو میانوالی سے چلی اور پھر ماڑی انڈس سے بنوں جانے کیلۓ اس ٹرین میں سوار ہوئ تھی ۔ اس ٹرین کی رفتار کے بارے میں یہ کہاوت مشہور تھی کہ لوگ پیشاب کرنے کیلۓ چلتی ٹرین سے اتر جاتے ہیں اور پھر بھاگ کر واپس سوار ہو جاتے ہیں ۔ اپنی کم رفتاری کے باوجود یہ ایک پسندیدہ اور سستی ترین ، محفوظ سواری تھی ۔ آج کل آپ بسوں ، ویگنوں میں سفر پہلے کی نسبت آدھے وقت میں طے کر لیتے ہیں لیکن اس وقت ایسی ٹرینوں میں سفر کرنے کا جو لطف تھا ، ان رونوں میں وہی فرق ہے جو دیسی گھی اور ڈالڈے میں ہے ۔ نئ نسل کو دیسی گھی اور دیسی انڈے سے بو آتی ہے ۔ میرے لۓ دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ اڑھائ فٹ پٹڑی اور وہ دو تین ڈبوں کی مختصر ٹرین ، کسی گم گشتہ اسٹیشن پر جا کر یادوں کی منزل سے واپس نہیں آئ ۔ شاید اب تو وہ عمارتیں بھی زمیں بوس ہوچکی ہوں ، اور وہ رقبہ بھی بٹ چکا ہو، جن پر ریلوے اسٹیشن تھے ۔ پٹڑی کا لوہا تو بہت پہلے بنوں کے ایم این اے کبیر خان کی معرفت اتفاق فاونڈری سے ڈھل کر عوام کے کام آچکا ھے ۔
اس چھک چھک کرتی گاڑی کی سیٹی کو وہاں کے پرانے لوگ مس کرتے ہیں یا نہیں ، یہ تو وہی بتا سکتے ہیں ، میں اس خوشگوار سفر کو کبھی نہیں بھولا ، ہم سارا رستہ لوک گیت گاتے گۓ تھے
کوئ گڈی دیاں کوکاں نیں
سن لے کن دھر کے ، میرے دل دیاں ہوکاں نیں
کل کی پوسٹ میں ھم اس ٹرین کا ذکر کر رھے تھے جو ماڑی انڈس سے بنوں جایا کرتی تھی- اس ضمن میں میں نے اس جہاز کا ذکر کیا تھا جو کالاباغ پل کی تعمیر سے پہلے ماڑی انڈس اور کالاباغ کے درمیان چلتا تھا- کمنٹ میں ایک دوست نے بتایا کہ گوگل پر ٹرین فیریز (Train Ferries) کے تذکرے میں اس جہاز کا ذکر موجود ھے- یہ جہاز پندرہ سال تک اس ٹرین کو لے کر آتا جاتا رھا-
دریائے سندھ میں جہاز چلنے کی یہ قدیم روایت سنا ھے پھر زندہ ھو رھی ھے- ایک دوست نے ایک اخبار کی خبرکا تراشہ پوسٹ کیا ھے، جس میں ایک جہاز دریائے سندھ میں چلتا دکھایا گیا ھے-
یہ دیکھ کر مجھے اپنے مرحوم دوست کالاباغ کے ھیڈماسٹر کرم اللہ پراچہ کی بات یاد آگئی، مرحوم کہا کرتے تھے کہ ھمارا یہ دریائے سندھ کسی زمانے میں تجارتی کشتیوں اور چھوٹے جہازوں کی جی ٹی روڈ (آج کی موٹر وے سمجھ لیں) ھؤا کرتا تھا- کشمیر سے کراچی تک تجارتی کشتیاں آتی جاتی تھیں- کالاباغ سے نمک کی کشتیوں کی بھی ایک باقاعدہ سروس چلتی تھی- یوں اس دریا پر کشتیوں کی ٹریفک چوبیس گھنٹے جاری رھتی تھی- بعد میں تربیلا ڈیم اور دوسرے ڈیم بننے سے یہ سلسلہ ختم ھو گیا-
دراصل اھم بات کلچر کی ھے-ایک وہ کلچر تھا جو اس دریا کے وسیلے سے کشمیر سے کراچی تک کے علاقے کو منسلک کرتا تھا- کشمیر سے دریا کی راہ سے آنے والی خالص دیار کی عمارتی لکڑی، میٹھے نرم، خوشبو دار کشمیری سیب ، قیمتی خوبصورت کشمیری شالیں اور دوسری مصنوعات ھمارے علاقے میں عام تھیں- اسی طرح سندھ کی بہت سی مصنوعات بھی ھمارے ھاں آتی تھیں- کالاباغ سے دستی پنکھے، لوھے کا گھریلو ضرورت کا سامان ، مٹی کے برتن اور جوتے کشمیر سے کراچی تک جاتے تھے- تجارت کی وجہ سے اس وسیع و عریض علاقے کے لوگوں کے اپس میں، دوستانہ مراسم بھی تھے- ڈیم بننے سے دریا کے راستے آمدورفت ناممکن ھوئی ، تو وہ سارا کلچر ختم ھو گیا- بہر حال ترقی کی کچھ نہ کچھ قیمت تو ادا کرنا پڑتی ھے-21جون2016
عیسی خیل رئیسوں کا شہر کہلاتا ھے، کیونکہ یہاں دس پندرہ بڑے زمیندار گھرانے آباد ھیں، مگر یہ رئیس سندھ کے وڈیروں اور جنوبی پنجاب کے جاگیرداروں سے بہت مختلف ھیں- لوگوں کی جان، مال، عزت لوٹنے کی کوئی داستان ان سے وابستہ نہیں- کسی کو زندہ جلا دینے یا کسی پر کتے چھوڑ دینے کا کوئی واقعہ ان سے منسوب نہیں-
یہ دس پندرہ رئیس گھرانے آپس میں قریبی رشتہ دار ھیں- ان کی اپنی معاشرت ھے، اپنے رسم و رواج اور طرز زندگئ ھے- یہ عام لوگوں کی زندگی میں دخل اندازی نہیں کرتے- شریف اور بے ضرر لوگ ھیں، اور شرافت کی قدر کرتے ھیں-
عیسی خیل میں بطور لیکچرر پانچ سال قیام کے دوران میرا ان لوگوں سے دوتین دفعہ واسطہ پڑا، کسی ذاتی کام کے لیے نہیں ، دوستوں کی فرمائشوں اور کاموں کے سلسلے میں- اور میری بات مان کر ان لوگوں نے میری لاج رکھ لی، حالانکہ انہیں مجھ سے کوئی غرض یا فائدے کالالچ نہیں تھا- ان کا کوئی بچہ میرے کالج میں نہیں پڑھتا تھا، نہ ھی ان کا کوئی اور مفاد مجھ سے وابستہ تھا-اپنے اس تجربے کی بنا پر میں یہ کہوں گا کہ بے شک عیسی خیل رئیسوں کا شہر ھے، مگر یہ رئیس شریف لوگ ھیں، عزت کرواتے ھی نہیں، عزت کرتے بھی ھیں- اس ضمن میں ایک دو واقعات آئندہ ایک دو پوسٹوں میں بتاؤں گا، انشاءاللہ-22جون2016
ایک دن داؤدخیل سے ایک بزرگ چاچا غلام محمد عیسی خیل کالج میں مجھ سے ملنے آئے- ان کے بیٹے نے کچھ عرصہ قبل لکی مروت میں شادی کی تھی- شادی کے کچھ دن بعد ان کی بہو تمام زیور، اور بہت سی نقد رقم لے کر واپس میکے چلی گئی- جب اس کا شوھر اور سسر اسے واپس لانے کے لیے گئے، تو لڑکی کے میکے والوں نے انہیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں دے کرخالی ھاتھ واپس بھیج دیا-
چاچا غلام محمد نے مجھ سے کہا عیسی خیل کے شفیع اللہ خان ھمارا یہ کام کر سکتے ھیں، کیونکہ شفیع اللہ خان کے کچھ رشتہ دار لکی مروت میں رھتے ھیں – وہ بہت طاقتور لوگ ھیں- اگر وہ کہہ دیں تو لڑکی ھمیں واپس مل سکتی ھے-
میں چاچا غلام محمد کے ساتھ جا کر شفیع اللہ خان سے ملا- شفیع اللہ خان نے اپنے ماموں کے نام خط لکھ کر چاچا غلام محمد کو دے دیا-
چند روز بعد چاچا غلام محمد مجھ سے ملنے آئے اورمجھے بتایا کہ لکی مروت والے خان نے تو کمال کر دیا- شفیع اللہ خان کا خط پڑھنے کے بعد خان نے لڑکی کے وارثوں کو بلا کر کہا کہ یہ کیا تماشا ھے- تم لوگوں نے اپنی لڑکیوں کو لوٹ مار کا وسیلہ بنا رکھا ھے- لڑکی ان لوگوں کو واپس دے دو ورنہ آج شام سے پہلے یہ شہر چھوڑدو“
خان کا یہ حکم سن کر ان لوگوں کا دماغ درست ھو گیا ، اور انہوں نے فی الفور لڑکی کو ھمارے ساتھ واپس بھیج دیا“
چاچا غلام محمد نے کہا َ“ ملک صاحب ، اس خوشی میں میں شفیع اللہ خان کے لیے مٹھائی لے کر جانا چاھتا ھوں، آپ میرے ساتھ چلیں“
میں نے کہا چاچا مٹھائی والی بات رھنے دیں – میں شفیع اللہ خان کو جانتا ھوں – وہ خوش ھونے کی بجائے ناراض ھو جائیں گے“ —-23جون2016
مارشل لاء کے نفاذ کے بعد جنرل ضیاءالحق کا قوم سے خطاب رات آٹھ بجے نشر ھونا تھا- عیسی خیل میں ھم پروفیسر حضرات نووارد مسافر لوگ تھے- ٹی وی ھم میں سے کسی کے گھر میں بھی اس وقت موجود نہ تھا-
کچھ دوستوں نے مجھ سے کہا کہ آپ پرنسپل ھیں، نواب صلاح الدین خان سے بات کریں- اگر وہ مان جائیں تو ھم ان کے ھاں جنرل صاحب کا خطاب سن لیں گے-
میں نے نیشنل بنک سے فون پہ صلاح الدین خان سے بات کی تو انہوں نے کہا Most welcome , ھمم آپ کا انتظار کریں گے-
ھم صلاح الدین خان صاحب کے ھاں پہنچے تو انہوں نے بڑے تپاک سے استقبال کیا- کوٹھی کے لان میں ٹی وی اور صوفے وغیرہ سجے ھوئے تھے- پہلے شربت سے ھماری تواضع کی گئی، پھر پر تکلف چائے آگئی- ھم نے اطمینان سے ٹی وی پہ نئے حکمران کا خطاب سنا- خان صاحب نے کھانے کے لیے بھی اصرار کیا، مگر ھم نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ابھی چائے کے ساتھ جو کچھ آپ نے ھمیں کھلادیا، وہ کھانے سے کم نہیں تھا-
اس واقعے میں اھم بات جنرل صاحب کا قوم سے خطاب نہیں، صلاح الدین خان کا حسن سلوک ھے، ھمیں اب یہ تو یاد نہیں کہ جنرل صاحب نے اپنے خطاب میں کیا کہا تھا، لیکن صلاح الدین خان کا حسن سلوک آج بھی یاد ھے، اور ھمیشہ یاد رھے گا-
عزیز دوستو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ-
دعا کبھئ خالی نہیں جاتی- ھوتا یوں ھے کہ یا تو آپ جو کچھ مانگیں وھی مل جاتا ھے، یا اس کی بجائے اس سے کوئی بہتر چیز مل جاتیی ھے، یا کسی آنے والی مصیبت کو ٹال دیا جاتا ھے- اللہ حکیم ھے ، وہ جانتا ھے کہ ھمارے لیے کیا بہتر ھے- یہ فیصلہ اس پہ چھوڑ کر مانگتے رھیئے- ھر بار کچھ نہ کچھ ملتا رھے گا- کریم کسی کو خالی نہیں لوٹاتا- وقت افظار کی دعاؤں میں میرے لیے کچھ مانگنا نہ بھولیں- اللہ آپ کی تمام مشکلات آسان فرمائے-24جون2016
لالا کا ھارمونیم اچانک ناکارہ ھو گیا تو لالا نے مجھ سے کہا “منور بھائی، ایک بہت اچھا ھارمونیم نوابزادہ عبدالغفورخان صاحب کے ذاتی میوزیم میں موجود ھے- ویسے تو وہ یہ ھارمونیم کسی کو نہیں دیتے- لیکن آپ نے بتایا تھا کہ نوابزادہ صاحب آپ کے والد محترم کے سٹوڈنٹ رھے ھیں- آپ بات کریں تو شاید وہ ھارمونیم ھمیں مل جائے، تاکہ جب تک میرا نیا ھارمونیم نہیں آجاتا، ھم نوابزادہ صاحب کے ھارمونیم سے اپنی رات کی محفلیں جاری رکھ سکیں-
میں نے نوابزادہ صاحب سے بات کی تو انہوں نے مسکرا کر کہا “ ھاں، وہ ھارمونیم میرے ذاتی میوزیم میں ھے- ویسے تو میں کسی کو نہیں دیتا، لیکن آپ میرے محترم ٹیچر ملک محمداکبرعلی صاحب کے صاحبزادے ھیں، آپ کو انکار نہیں کر سکتا- عطاءاللہ خان سے کہیں وہ ھارمونیم لے جائیں- جتناعرصہ چاہیں یہ ھارمونیم استعمال کریں، مگر واپس ضرور کرنا ھے کیونکہ یہ میری Collection کاحصہ ھے-
کیا ھارمونیم تھا وہ !!! جرمنی کابنا ھؤا یہ ھارمونیم دیکھنے میں تو پرانا سا تھا، مگر لالا کہتا تھا اتنا سریلا ھارمونیم میں نے آج تک نہ کبھی دیکھا نہ سناھے- کچھ عجیب سا سرور تھا اس کی آواز میں- اس وقت کے ریکارڈ کیے ھوئے بعض کیسٹس میں اس کی آواز محفوظ تھی-مگر اب وہ کیسٹس بھی قصہ ماضی بن چکے-
تقریبا ایک ماہ بعد لالا کا نیا ھارمونیم آگیا تو ھم نے نوابزادہ صاحب کا ھارمونیم شکریہ کے ساتھ واپس کر دیا- لالا نے ہنس کر کہا تھا “یار اگر نوابزادہ صاحب مان جائیں تومیں اپنا نیا ھارمونیم اس کے بدلے میں دینے کو تیار ھوں-“
(تصویر میں جو ھارمونیم نظر آرھاھے ، یہ لالا کا نیا ھارمونیم ھے)-25جون2016
گورنمنٹ کالج عیسی خیل بہت چھوٹا سا کالج تھا- اس وقت یہ انٹرمیڈیئٹ کالج تھا- ڈگری کالج بعد میں بنا- ھمارے زمانے میں وھاں صرف انٹرمیڈئیٹ کی دو کلاسیں تھیں جن میں طلبہ کی تعداد پچاس سے اوپر کبھی نہ گئی- کالج کی اپنی عمارت بھی نہ تھی- گورنمنٹ ھائی سکول عیسی خیل کی بالائی منزل کالج ھؤا کرتی تھی- اس بے سروسامانی کے عالم میں بھی ھم نے دوتین تقریبات وھاں منعقد کر لیں-
ایک تقریب انٹرمیڈئیٹ کے انگلش کورس میں شامل ڈراما The Rising of the Moon تھا- یہ ڈراما آئرلینڈ کی تحریک آزادی کے بارے میں تھا- میں نے اس کا اردو میں ترجمہ کر کے اسے کشمیر کی تحریک آزادی پر مبنی ڈراما بنا دیا- اس ڈرامے میں مرکزی کردار کمر مشانی کے احمد نواز خان نے ادا کیا- عجیب بات یہ ھے کہ کمر مشانی کے لوگ بہت اچھے اداکار ھوتے ھیں- کالج کے ڈراموں کے لیے مرکزی کردار ھمیں ھمیشہ کمر مشانی ھی سے ملا- عیسی خیل کالج میں احمد نواز خان تھا- گورنمنٹ کالج میانوالی میں پروفیسر سرور نیازی صاحب کے لکھے ھوئے ڈرامے “بودلا“ کا مرکزی کردار محمد عظیم خان بھی کمر مشانی کا تھا- چند دن پہلے یہ سن کر بہت دکھ ھؤا کہ عظیم خان اب اس دنیا میں نہیں رھا- اللہ مغفرت فرمائے- بہت ذھین اور زندہ دل نوجوان تھا-
عیسی خیل کالج میں ھم نے کشمیر کی تحریک آزادی کے حوالے سے جو ڈراما سٹیج کیا، اس میں سارجنٹ کا کردار میانوالی کے ارشد میڈیکل سٹور کے مالک خالد شاہ نے ادا کیا تھا- خالد شاہ اس زمانے میں گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں سیکنڈ ائیر کا طالب علم تھا- اگر چہ ھمارے پاس ڈرامے کا روایتی سازوسامان تو نہیں تھا، تاھم، اللہ کی مہربانی سے یہ ڈراما خاصا کامیاب ثابت ھؤا-26جون2016
گورنمننٹ کالج عیسی خیل میں دوسری اھم تقریب لالا کی محفل تھی- پرنسپل ڈاکٹر عبدالمجید قریشی صاحب نے مجھ سے فرمائش کی تھی کہ کالج میں اپنے لالا کا پروگرام کرا دیں-
لالا دوپہر کے قریب کالج پہنچا- یہ تقریب صرف کالج تک محدود تھی، اس لیے حاضرین صرف کالج کے طلبہ اورر اساتذہ تھے- لالا کے ساتھ طبلے پر سنگت لالا کے اولیں طبلہ نواز ملازم حسین عرف ماجا نے کی- چونکہ کالج کا پروگرام تھا ، لالا نے زیادہ تر معروف اردو غزلیں ھی سنائیں جن میں
انہیں قصہ غم جو لکھنے کو بیٹھے تو دیکھے قلم کی روانی میں آنسو
دل لگایا تھا دل لگی کے لیے
آکر ھماری قبر پر تو نے جو مسکرا دیا
اور میری غزل ——-
لوگ کہتے ھیں کہ گلشن میں بہار آئی ھے
شامل تھیں- ان کے علاوہ لالا نے محمد رفیع کے کچھ مشہور نغمے اور لتا منگیشکر کا شاھکار نغمہ
وہ دل کہاں سے لاؤں تری یاد جو بھلا دے
بھی سنا کر بے پناہ داد پائی- طلبہ کی فرمائش پر ساوی موراکین اور مرحوم یونس خان کا دردناک گیت
کالا شاہ بدلا ناں وس توں ساڈے دیس
سنا کر لالا نے سماں باندھ دیا-
پرنسپل صاحب نے کہا “ عطاء اللہ خان، آپ کا شکریہ ادا کرنے کو مجھے مناسب الفاظ نہیں مل رھے-
لالا نے کہا “سر شکریہ کیسا، آپ کے سامنے اپنے ناچیز فن کا مظاھرہ کرنا میرے لیے بہت بڑا اعزاز ھے“-27جون2016
اپنا ایک شعر یاد آ رھاھے —
وہ شہر چھوڑنا مشکل تھا کچھ حوالوں سے
وگرنہ شہر سے آگے سفر تو آساں تھا
بہر حال عیسی خیل چھوڑنا ضروری ھو گیا- بچوں کے لیے بہتر تعلیم اور زندگی کی سہولیات کے لیے کسی بڑے شہر میں منتقل ھونا لازم تھا- داؤدخیل سے نزدیک ترین بڑا شہر میانوالی تھا- اس لیے میں دسمبر 1980 میں گورنمنٹ کالج عیسی خیل سے گورنمنٹ کالج میانوالی آ گیا-
سچ پوچھیے تو اس وقت میرے لیے عیسی خیل کی نسبت میانوالی ایک زیادہ اجنبی شہر تھا- میں یہاں کبھی نہیں رھا تھا- داؤدخیل سے میٹرک کرنے کے بعد بقیہ تعلیم کے لیے راولپنڈی چلا گیا جباں میرے والد محترم ڈپٹی ڈائریکٹر سکولز تھے- ملازمت کا آغاز میں نے گورنمنٹ ھائی سکول داؤدخیل سے کیا- پھر گورنمنٹ مڈل سکول ٹھٹھی میں ھیڈماسٹر متعین ھؤا- اس کے بعد گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں انگلش کا لیکچرر بن گیا-
اس لیے یہ کہنا غلط نہ ھو گا کہ جب میں میانوالی آیا تو شہر میں کوئی میرا جاننے والا نہ تھا- کالج میں شعبہ انگریزی کے پروفیسر صاحبان صرف اتنا جانتے تھے کہ میں بھی انگلش کا لیکچرر ھوں- البتہ سرورنیازی صاحب سے یاری کچھ پرانی تھی- وہ قصہ بعد میں سناؤں گا- پروفیسر سلیم احسن عیسی خیل میں بھی میرے ساتھ رھے تھے ، اس لیے وہ بھی مجھے جانتے تھے-
اھل قلم طبقے میں سے سید نصیر شاہ، شرر صہبائی، انجم جعفری، میاں نعیم، تاج محمد تاج ، اسم ظفر سنبل اور چند دوسرے لوگوں سے علیک سلیک مشاعروں میں ھوتی رھتی تھی- سالارنیازی تو ویسے بھی داؤدخیلوی اور میرے بزرگ تھے، ان حوالوں سے وہ مجھ پر بہت شفقت فرماتے تھے- ڈاکٹر اجمل نیازی بھی اس زمانے میں گورنمنٹ کالج میانوالی میں تھے- قلم کے حوالے سے وہ بھی مجھے جانتے تھے-
ان چند محترم افراد کے علاوہ میانوالی شہر میں جاننے والا کوئی نہ تھا- مگر الحمدللہ نہ صرف میانوالی نے بہت جلد مجھے قبول کرلیا، بلکہ اتنی بے حساب عزت اور محبت بھی مجھ پہ نچھاور کردی کہ میں یہیں کا ھو کر رہ گیا-28جون2016
اس زمانے میں پروفیسر چوھدری نیازاحمد گورنمنٹ کالج میانوالی کے پرنسپل تھے- بہت شریف النفس اور شفیق بزرگ تھے- ان کی شخصیت کا سب سے دلکش پہلو ان کا والہانہ عشق رسالتمآب علیہ السلام تھا- رسول اکرم کا نام سنتے ھی ان کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں- اس حوالے سے انہیں غازی علم الدین شہید سے خصوصی عقیدت تھی-
غازی علم الدین شہید وہ فدائے رسول تھے جنہوں نے رسول اکرم کی شان میں گستاخی پر راج پال نامی ھندو کو جہنم رسیدد کیا تھا، اور اس جرم کی سزا کے طور پر پھانسی کا ہھندا چوم کر اپنے گلے میں ڈال لیا تھا- غازی علم الدین شہید نے اپنی زندگی کے آخری ایام میانوالی جیل میں گذارے، اور یہیں انہیں سزائے موت دی گئی- اس کے بعد انہیں امانت کے طور پر جیل سے ملحق قبرستان میں دفن کر دیا گیا، پھر کچھ عرصہ بعد انہیں یہاں سے لاھور منتقل کر کے میانی صاحب کے قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا –
پرنسپل چوھدری نیاز احمد صاحب نے جیل سپرنٹنڈنٹ سے بات کر کے غازی علم الدین کی عارضی آرام گاہ کی زیارت کی- شہید کے آخری دنوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں، میانوالی شہر کے بزرگوں سے بھی اس سلسلے میں بہت سی کارآمد معلومات حاصل ھوئیں-
بزرگوں نے بتایا کہ میانوالی کے نوجوانوں کے ایک وفد نے غازی علم الدین سے ملاقات کر کے ان سے کہا کہ آپ تیار رھیں ، ھم جیل توڑ کر آپ کو یہاں سے آزاد کر دیں گے- اس طرح آپ پھانسی سے بچ جائیں گے- مگر غازی نے ان کی بات سننے کے بعد مسکرا کر کہا، “ نہیں بھائی، میں گھر نہیں جانا چاھتا، میرا کسی اور جگہ انتظار ھو رھا ھے“ (جاری) -منورعلی ملک —-Picture by Prof Arif Niazi-
29جون2016
غازی علم الدین شہید کی میانوالی میں شہادت کے حوالے سے میانوالی کے لوگوں کے کردار پر بعض لوگوں نے تنقید کی ھے، کہ غازی کی جان بچانے کے لیے یہاں کے لوگوں نے کچھ نہیں کیا- جیسا کہ میں نے کل کی پوسٹ میں کہا ، غازی علم الدین اپنی جان بچانا ھی نہیں چاھتے تھے- انہیں آگے کوئی ایسا دلکش منظر قدرت نے دکھا دیا تھا، کہ وہ اس دنیا میں رھنا ھی نہیں چاھتے تھے- اگر وہ اپنی جان بچانا چاھتے تو قائداعظم اور علامہ اقبال جیسے لیڈر اس وقت دنیا میں موجود تھے- لیکن غازی علم الدین شہید نے ان سے بھی مدد نہ مانگی- شوق شہادت ھر انسان کو نصیب نہیں ھوتا- جس کو نصیب ھو جائے وہ تو جلد از جلد اس دنیا سے جانا چاھتا ھے- کچھ ایسا ھی معاملہ تھا غازی علم الدین شہید کا بھی-
دوسری بات یہ کہ غازی علم الدین شہید کی میانوالی میں آمد مکمل طور پر خفیہ رکھی گئی- حکومت وقت نے نہایت مکاری سے کام لیا- میڈیا کا زمانہ نہیں تھا کہ لمحہ بہ لمحہ بریکنگ نیوز نازل ھوتی رھتیں- آیک دو اردو اخبارات تھے، وہ بھی صرف باقاعدہ خریداروں کے گھروں میں ڈاک کے ذریعے آتے تھے- ڈاک کے ذریعے اخبار پہنچنے میں بھی دو تین دن لگ جاتے تھے- اخبارات پر بھی غازی علم الدین کے حوالے سے خبریں شائع کرنے پر پابندی عائد تھی-
میانوالی کے لوگوں کو جب غازی علم الدین کی میانوالی میں موجودگی کا علم ھؤا تو انہوں نے بہت کچھ کرنا چاھا، مگر غازی نے انہیں روک دیا-
ھمارے کالج کے پرنسپل چوھدری نیاز احمد کی تحقیق کے دوران یہ بات بھی منظرعام پر آئی کہ اپنے ملاقاتیوں اور اھل خانہ کی مہمان نوازی پرخوش ھو کر شہید نے میانوالی کے لیے خصوصی دعا بھی کی تھی-
چوھدری نیازاحمد نے میانوالی میں علم الدین شہید کی یادگار بنانے کا کام بھی شروع کر دیا – اس کا ذکر کل ھوگا، انشاءاللہ-30جون2016
mashallah bahut hi khoobsurat andaaz hay munnawar sahib ka . aur bahut hi maloomati bhi allah in ku umre khizer ata karay . mere dada nay bhi kuch arsa esa khel main guzara , unka naam mirza fateh muhamnad tha aur woh irrigation department main thay