MERA MIANWALI  MARCH 2024منورعلی ملک کے مارچ 2024 کے فیس  بک   پرخطوط

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دوست نے کہا جی آپ صرف دو چار موضوعات پر ہی لکھتے ہیں اس لیئے آپ کے قارئین کہیں آپ کی تحریروں میں دلچسپی لینا چھوڑ نہ دیں۔
میرا جواب یہ ہے کہ میں بنیادی طور پر کلچر کے بارے میں لکھتا ہوں۔ لوگوں کا رہن سہن ، لباس ، روایتی کھانے، رسم و رواج، روایات و اقدار ، شاعری، موسیقی، تاریخ ، جغرافیہ سب کچھ کلچر میں شامل ہے اور میں انہی موضوعات پر لکھتا ہوں۔
کلچر کا دامن اتنا وسیع ہے کہ کسی اور طرف دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ میرے قارئین بھی انہی موضوعات پر تحریریں پسند کرتے ہیں۔
میں صرف ان موضوعات پر لکھتا ہوں جن کے بارے میں معلومات میری دسترس میں ہیں۔ ان موضوعات پر میں اعتماد سے لکھ سکتا ہوں۔
دوسری طرف میرے پاس اردو اور ا نگریزی ادب کا وسیع علم بھی ہے مگر اس علم میں عام قارئین کی دلچسپی کا سامان بہت کم ہے۔ اس لیئے میں اس علم کو فیس بک پہ نہیں لانا چاہتا۔ اردو انگریزی میں میری بہت سی کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور ادب کے شائقین ان سے مستفید ہو رہے ہیں۔
فیس بک عوامی چیز ہے اس پر صرف عوام کی دلچسپی کی باتیں ہی لکھنی چاہیئیں۔
ویسے تو سیاست بھی عوام کا پسندیدہ موضوع ہے۔ لیکن اس میں لڑائی جھگڑے کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور میں لڑائی جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہتا۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ ٹیچر وکیل اور ڈاکٹر کو متنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیئے میں متنازع باتوں سے گریز ضروری سمجھتا ہوں۔۔۔۔ جو کچھ لکھ رہا ہوں بحمداللہ لوگ اسی سے مطمئن بھی ہیں، مستفید بھی ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔1 مارچ 2024 
لوگ موسم کے مطابق اپنا رہن سہن تبدیل کرتے رہتے تھے۔ ہمارے گھر میں کمروں کی ایک قطار تھی۔ جنوب والے چار کمرے جدید طرز کے ہوادار کمرے تھے جن کے آگے ایک برآمدہ بھی تھا۔ گرمی کا موسم ہم ان کمروں میں گذارتے تھے۔ قطار کے شمالی سرے والا کمرہ پرانی طرز کا بڑا سا ہال تھا۔ اس میں کوئی کھڑکی نہ تھی۔ یہ کمرہ اندر سے کچی اینٹوں اور باہر سے پختہ اینٹوں کا بنا ہوا تھا۔ اس کی اندرونی دیواروں پر چونا سفیدی کی بجائے پہاڑی مٹی کا لیپ کیا ہوا تھا۔ فرش بھی کچا تھا۔
سردی کا موسم آتے ہی ہم لوگ اس کمرے میں منتقل ہو جاتے تھے۔ کمرے کے وسط میں چوکور چولہا تھا۔ اس چولہے میں رات دیر تک آگ جلتی رہتی تھی۔ ہم لوگ چولہے کے گرد چٹائیوں پر بیٹھ کر آگ تاپتے رہتے تھے۔ کھانا بھی وہیں بیٹھ کر کھاتے تھے۔ سونے کے لیئے چارپائیاں بھی اسی کمرے میں بچھی ہوئی تھیں۔
اپریل میں ہم لوگ جنوبی کمروں میں منتقل ہو جاتے تھے۔
موسموں کے مطابق رہائش کی تبدیلی کا یہ سسٹم تقریبا ہر گھر میں رائج تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے گھر کا نقشہ بھی بدل گیا۔ ہال کمرہ اور اس سے ملحق دو کمروں کا نام و نشان بھی مٹ گیا۔ صرف جنوب والے دو کمرے باقی ہیں۔ ہال اور اس سے ملحق دو کمروں کی جگہ جدید طرز کے دو کمرے اور برآمدہ بن گیا ۔
اب گھر میں بجلی گیس ہر سہولت موجود ہے لیکن گھر کا وہ پرانا نقشہ اور سسٹم اب بھی بہت یاد آتا ہے کیونکہ اس سے ہمارے والدین اور بہن بھائیوں کی بہت سی حسین یادیں وابستہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔2 مارچ 2024
چند روز پہلے میرے فیس بک فرینڈز میں معروف موسیقار صابر علی صاحب کا اضافہ ہوا۔ صابر علی سے تعارف تقریبا 30 سال قبل لالا عیسی خیلوی کے سٹوڈیو میں ہوا۔ بہت سادہ مزاج ، خوش اخلاق اور مہذب انسان ہیں ۔صابر علی کو نصرت فتح علی خان اور ملکہ ترنم نورجہاں جیسے لیجنڈ گلوکاروں کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز بھی نصیب ہوا۔
لوک گلوکاروں میں سے عطا محمد نیازی داودخیلوی اور اللہ دتہ لونے والا کے کئی معروف گیتوں کی دھنیں صابر علی نے کمپوز کیں۔
صابر علی نے لالا کے کئی شاہکار گیتوں کی دھنیں ترتیب دیں جن میں سے
آ وسیاں ساونڑیاں
قرار میڈا توں لٹ گھدا اے
وے بول سانول
اور
تساکوں مانڑں وطناں دا
بہت مقبول ہوئے۔ ان کے علاوہ بھی لالا کے کئی مشہور گیتوں کو صابر علی نے موسیقی سے آراستہ کیا ۔
اللہ سلامت رکھے بہت ذہین موسیقار اور اچھے انسان ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔3 مارچ 2024 
صحت برقرار رکھنے کے لیئے بزرگوں کے اپنے سادہ سے اصول تھے جن پر عمل کرکے وہ اکثر بیماریوں سے محفوظ رہتے تھے۔ ڈاکٹروں کے پاس نہیں جانا پڑتا تھا۔ بلکہ ڈاکٹر اس دور میں تھے ہی کہاں۔ صرف بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں دو چار ڈاکٹر ہوتے تھے مگر دیہات کے لوگوں کو وہاں جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔
صحت برقرار رکھنے کا ایک اصول یہ تھا کہ اس موسم میں لوگ معدے کی صفائی کرکے اسے اگلے موسم کی غذاوں کے لییے نواں نکور بنا لیتے تھے۔
طریقہ کار یہ تھا کہ صبح سویرے ایک حصہ کیسٹرآئل اور چار حصے سونف کا عرق ملا کر پی لیتے تھے۔ اس طرح ایک دو گھنٹے میں معدہ بالکل خالی ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد دو دن روٹی کی بجائے کھچڑی یا لیٹی کے سوا کچھ نہیں کھاتے تھے۔( گندم کے بھنے ہوئے دانے پیس کر پتلا سا حلوہ بناتے تھے جسے لیٹی کہتے تھے)۔ اس طرح معدے کو دو دن آرام بھی مل جاتا تھا۔
یہی عمل سردی کا موسم شروع ہونے سے پہلے اکتوبر نومبر میں بھی دہرایا جاتا تھا۔
سال میں دو دفعہ معدے کی مکمل صفائی کے باعث وہ لوگ بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتے تھے۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔4 مارچ 2024 
1975 میں جب گورنمنٹ کالج عیسی خیل میرا تقرر ہوا لالا عیسی خیلوی اس وقت عطاءاللہ خان شاہین کہلاتے تھے ۔ بعد میں عتیل صاحب کے کہنے پر لالا نے اپنا تخلص شاہین کی بجائے ساجد رکھ لیا۔ یہ تخلص ایک ماہیئے میں بھی استعمال ہوا جس کے بول تھے۔۔۔۔
سجدہ ساجد دا شالا رب منظور کرے
لالا ان دنوں پیپلز پارٹی کے سرگرم کارکن تھے ۔ تحصیل عیسی خیل میں پیپلز پارٹی کے نوجوانوں کی تنظیم کے چیئرمین بھی تھے۔ پارٹی کے لیئے لالا کی خدمات کے صلے میں پارٹی کی اعلی قیادت نے انہیں ایک سہراب سائیکل بھی انعام کے طور پہ عطا کی تھی۔ سائیکل کے اگلے پہیے پر سٹیل کی ایک پلیٹ نصب تھی جس پر پارٹی کا نام اور لالا کا عہدہ لکھا ہوا تھا۔ لالا مین بازار عیسی خیل میں اپنی دکان پر اسی سائیکل پر آتے جاتے تھے۔
لالا کا ذریعہ معاش اس زمانے میں مین بازار عیسی خیل میں الصدف نامی جنرل سٹور تھا۔ لالا ہرماہ شاہ عالم مارکیٹ لاہور سے اپنے سٹور کا سامان خریدنے کے لییے بس سروس کے ذریعے عیسی خیل سے لاہور آتے جاتے تھے۔
1977 میں لالا کے پہلے 4 کیسیٹ منظر عام پر آئے تو تہلکہ مچ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لالا بین الاقوامی شخصیت بن گئے ۔
اللہ یرزق من یشآء بغیر حساب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔5 مارچ 2024 
لالا عیسی خیلوی جب لاہور منتقل ہوئے تو ابتدا میں علامہ اقبال ٹاؤن میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ ایک دن مجھے پیغام بھیجا کہ فلیٹیز ہوٹل میں میرے اعزاز میں ایک تقریب ہورہی ہے اس میں آپ نے بھی میرے بارے میں اظہار خیال کرنا ہے۔
یاری نبھانی تھی اس لیئے جانا پڑا۔ منصورآفاق ، نوجوان صحافی عبدالملک عبدل اور واں بھچراں کے سینیئر صحافی روشن ملک بھی میرے ہمسفر ہوگئے۔
خاصی شاندار تقریب تھی۔ بہت سے شاعروں ادیبوں کے علاوہ نامور گلوکار شوکت علی بھی شریک محفل تھے۔ لالا کے بارے میں میرا دلچسپ اظہار خیال بہت پسند کیا گیا۔
تقریب سے فارغ ہو کر واپس آئے تو لالا نے کہا یار آہی گئے ہو تو ایک اور مہربانی بھی کر دو۔ میری داستان حیات لکھ دو۔
میں نے کہا یہ ایک آدھ دن کا کام نہیں اور میں زیادہ دن یہاں ٹھہر نہیں سکتا کہ پیچھے میانوالی میں میرا ایک گھر بھی ہے۔ بچے بھی ہیں اور مجھے کالج بھی جانا ہوتا ہے۔
لالا نے کہا کچھ بھی ہو جائے میں تمہیں نہیں جانے دوں گا۔ میرا کام مکمل کر کے ہی جانا ہوگا۔
میں نے کہا ٹھیک ہے ، دیکھیں گے۔
منصور آفاق وغیرہ نے کچھ دن وہاں رہنا تھا۔ اگلی صبح لالا کے بیدار ہونے سے پہلے میں نے منصورآفاق وغیرہ سے کہا
اس سے کہنا کہ مسافر کو بہت جلدی تھی
یہ کہہ کر میں وہاں سے نکل آیا۔۔۔۔۔۔دوستی میں ایسی چھوٹی موٹی زیادتیاں کبھی کبھی کرنی پڑتی ہیں۔ بعد میں لالا کو بھی احساس ہو گیا کہ میرا جانا بہرحال ضروری تھا۔ اس لیئے بات آگے نہ بڑھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا————–6 مارچ 2024 
اب تو بازار سے برائلر مرغی کا گوشت خرید لیا جاتا ہے۔ انڈے بھی بازار سے خرید لیئے جاتے ہیں ۔ زندہ مرغی سے لوگوں کا کوئی واسطہ تعلق ہی نہیں رہا۔ ایک زمانہ تھا جب برائلر کا نام و نشان بھی ہمارے ہاں موجود نہ تھا۔ رنگ برنگی دو چار دیسی مرغیاں ہر گھر میں ہوتی تھیں۔ انہی کے انڈے بھی کھائے جاتے تھے اور گوشت بھی۔
مرغی پر ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے جسے کڑنگ کہتے تھے۔ اس کیفیت میں مرغی دو چار ہفتے گوشہ نشین ہو جاتی تھی ۔ اس کیفیت میں مرغی بہت لڑاکا ہو جاتی تھی ۔ کسی کو نزدیک نہیں آنے دیتی تھی۔ یہ کیفیت دراصل اس کے ماں بننے کا عمل ہوتی تھی۔ کڑنگ ککڑی انڈوں پر بیٹھ کر انڈوں سے چوزے نکلنے تک انہیں اپنے جسم کی حرارت فراہم کرتی تھی۔ انڈوں اور بچوں کی حفاظت کرتے ہوئے وہ ہر وقت لڑنے مرنے کے لیے تیار رہتی تھی۔ کتوں بلیوں کو بھی نزدیک نہیں آنے دیتی تھی۔ جب بچے چلنے پھرنے چرنے چگنے کے قابل ہوجاتے تو انہیں آزاد چھوڑ کر خود بھی آزاد ہو جاتی تھی۔
مرغی کا گوشت صرف کسی خاص مہمان کے لییے بنتا تھا یا عید کے موقع پر۔ وہ بھی اگر گھر میں کوئی مرغا ہوتا تو چھری اسی کے گلے پر پھرتی تھی۔ انڈوں کے حصول اور بچے نکلوانے کے لیئے مرغیوں کو ذبح کرنے سے گریز کیا جاتا تھا۔
مرغیاں پالنا بھی ایک کلچر تھا جو اب تقریبا مٹ چکا۔ دیہات میں شاید اب بھی رنگ برنگی دیسی مرغیاں پالنے کا رواج باقی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔7 مارچ 2024 ۔
بگیاڑ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تو ہمارے علاقے میں بگیاڑوں( بھیڑیوں) کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا۔ ہمارے بچپن کے دور میں بگیاڑوں کے بہت سے قصے مشہور تھے ۔
بگیاڑ کتے سے ذرا بڑا وحشی درندہ ہے۔ داودخیل کے قریبی پہاڑوں کی غاروں میں کچھ بگیاڑ رہتے تھے۔ کبھی کبھار راتوں کے پچھلے پہر شہر کے مشرقی کنارے والے گھروں میں گھس کر ایک آدھ بھیڑ بکری گھسیٹ کر لے جاتے تھے۔ عام طور پر تو گھر والوں کو اس واردات کا علم صبح ہی ہوتا تھا۔اگر واردات کے دوران گھر کے لوگ جاگ جاتے تو بگیاڑ شکار کو چھوڑ کر بھاگ جاتے تھے۔
شکار کے لیئے بگیاڑ اکیلا کبھی نہیں نکلتا۔ بیوی بچوں سمیت پوری فیملی شکار میں شریک ہوتی ہے۔۔
بگیاڑوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ فیملی کی شکل میں مل جل کر رہتے ہیں۔ میاں بیوی کا ساتھ عمر بھر کا ہوتا ہے۔ بچے بڑے ہو کر بھی ماں باپ کے ساتھ رہتے ہیں۔
ویسے تو بگیاڑ انسان سے ڈرتا ہے لیکن بھوکے بگیاڑوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ اکیلا انسان ہتھے چڑھ جائے تو اسے بھی چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں۔۔
ہمارے بچپن کے زمانے میں بگیاڑوں کی دہشت کے بہت قصے مشہور تھے۔ ہم خود تو بگیاڑ کبھی نہ دیکھ سکے مگر بگیاڑوں کے ڈر سے رات کو گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔8 مارچ 2024 
ماں۔۔۔۔۔۔
کھانا کم تھا ، ماں نے بچے سے کہا بیٹا تم کھا لو، مجھے بھوک نہیں ہے۔
یہ کہہ کر کھانا بچے کو دے دیا اور خود بھوکی سو گئی۔
بہن ۔۔۔۔۔۔
بہن بھائی میں رنجش کی وجہ سے بھائی نے بہن کو اپنے گھر آنے سے منع کر دیا۔
تقریبا ایک سال بعد بھائی بے روزگار ہو گیا۔ ایک دن بہن اس کے گھر آئی اور رومال میں لپٹے ہوئے دو سونے کے کنگن بھائی کو دے کر کہنے لگی یہ کنگن بیچ کر کوئی کاروبار شروع کر دو۔ کملیا تو پریشان نہ ہوا کر ، تیری بہن ابھی زندہ ہے۔
بیٹی۔۔۔۔۔۔۔
باپ بیٹے کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا اور بیٹے کو خوش کرنے کے لییے بار بار ہار رہا تھا۔ بیٹا اس کا مذاق اڑا رہا تھا۔ بیٹی بھاگ کر آئی اور باپ سے لپٹ کر روتے ہوئے کہنے لگی ابو آپ میرے ساتھ کھیلیں، میں آپ کو ہارنے نہیں دوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔8 مارچ 2024 
یہ موسم سکولوں کے امتحانات کا موسم کہلاتا تھا۔ ہمارے داودخیل سکول کا مڈل ( آٹھویں کلاس ) کے امتحان کا سنٹر گورنمنٹ ہائی سکول موچھ تھا۔ ماسٹر رب نواز خان صاحب ہماری کلاس کے ٹیچر انچارج تھے۔ ہم تقریبا 30 سٹوڈنٹ تھے۔
امتحان سے ایک دن پہلے ہم لوگ ماسٹر صاحب کی قیادت میں موچھ روانہ ہوئے۔ اس زمانے میں داودخیل سے ڈائریکٹ موچھ جانے والی کوئی ٹرانسپورٹ میسر نہ تھی۔ اس لیئے داودخیل سے موچھ تک سات آٹھ میل کا سفر کوٹ بیلیاں کے راستے پیدل طے کرنا پڑا۔ ہمارے بستر اور کھانے پینے کا سامان اونٹوں پر لاد دیا گیا۔ میں چونکہ محکمہ تعلیم کے افسر کا بیٹا تھا اس لیئے مجھے پیدل ٹورنے کی بجائے ایک اونٹ پر سامان کے اوپر بٹھا دیا گیا۔
سفر تقریبا تین گھنٹے میں طے ہوا۔ موچھ میں ہمارا قیام محلہ خان جی خیل کے ایک دکان دار چاچا محمد خان کے ہاں طے تھا۔ چاچا محمد خان نے دو بڑے کمرے ہماری رہائش کے لیئے وقف کر دیئے۔۔
آٹھ دس دن کا یہ قیام ہمارے بچپن کا ایک یادگار دور تھا۔ گھر سے دور سات آٹھ دن رہنا ہم لوگوں کے لیئے ایک انوکھا تجربہ تھا۔۔۔۔۔
کھانا بنانے کے لییے داودخیل سے ایک چاچا جی ہمارے ساتھ تھے۔۔ آٹھ دس دن آلو مٹر کا سالن کھانا پڑا کیونکہ چاچا جی صرف یہی سالن بنا سکتے تھے۔ البتہ ایک دن فیشن کے طور پر حلوہ بھی بنایا گیا۔ بہت لاجواب حلوہ تھا۔
ماسٹر صاحب رات کو بھی دیر تک ہمیں پڑھایا کرتے تھے۔ اس لیئے ہمارے پیپر بہت اچھے ہو گئے۔ کوئی لڑکا امتحان میں فیل نہ ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔9 مارچ 2024 
مڈل کا امتحان دے کر موچھ سے داودخیل واپسی کا سفر میرے لیئے قیامت بن گیا۔
میں اور میرے کلاس فیلو محمد صدیق خان بہرام خیل اپنے دوست ٹھٹھی کے کرم داد خان کے ساتھ کرم داد خان کی سائیکل پر ٹھٹھی پہنچے۔ دوپہر کا کھانا کرم داد کے ہاں کھا کر میں اور محمد صدیق خان پیدل داودخیل روانہ ہوئے ۔ راستے میں ایک آدمی ملا جس نے مجھ سے کہا آج آپ کے خاندان کی کوئی خاتون فوت ہو گئی ہے۔
یہ المناک خبر میرے لیئے قیامت سے کم نہ تھی کیونکہ میری امی بیمار رہتی تھیں۔ مجھے سو فی صد یقین تھا کہ امی اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔ میں زاروقطار روتے ہوئے بھاگنے لگا۔ صدیق خان نے بھی میرا ساتھ دیا۔
جب ہم اپنے محلے میں داخل ہوئے تو محلے کے ایک شخص نے فوت ہونے والی خاتون کا نام بتایا۔ وہ خاتون امی کی کزن تھیں۔ یہ خبر سن کر میں نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا یا اللہ تیرا لاکھ شکر۔
شکر خالہ کی موت پر نہیں امی کے زندہ و سلامت ہونے کی خبر پر تھا۔
گھر پہنچ کر میں روتے ہوئے امی سے لپٹ گیا۔ میں نے رونے کی وجہ بتائی تو امی نے ہنس کر کہا ” پاگل ، میں تجھ سے ملے بغیر کیسے جاسکتی ہوں۔؟ موت اگر آ بھی جاتی تو میں اس سے کہتی ابھی ٹھہر جاو۔ میرے بچے کو آ لینے دو”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔10 مارچ 2024 
گذر گیا وہ زمانہ ۔۔۔۔۔۔
ہمارے بچپن کے دور میں لوگوں کی زیادہ تر مصروفیات اپنے گاوں اور گردونواح تک محدود رہتی تھیں۔ خرید و فروخت کے لیئے کبھی کبھار کالاباغ جانا پڑتا تھا یا مقدمات کی تاریخ سماعت پر حاضری کے لیئے میانوالی آنا جانا ہوتا تھا۔ آمدورفت کا ذریعہ ٹرین تھا۔
کالاباغ یا میانوالی جانے والوں کو رشتہ داروں اور ہمسایوں کی فرمائش کی چیزیں بھی لانی پڑتی تھیں۔ انکار کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ فرمائشوں کی تکمیل فرض سمجھی جاتی تھی۔ پیسے سب لوگ اپنے اپنے دیتے تھے۔ اس لیئے فرمائشیں بوجھ نہیں بنتی تھیں۔
بھائی چارے اور تعاون کا وہ دور ایک مثالی دور تھا۔ لوگ غریب مگر مطمئن تھے۔ ایک دوسرے کی مدد کرنا فرض سمجھا جاتا تھا۔ بیماروں کی عیادت اور مرنے والوں کے لواحقین سے تعزیت بھی لازم سمجھی جاتی تھی۔ اب تو عیادت اور تعزیت بھی فون کال یا میسیج کی صورت میں کی جاتی ہے۔ لوگوں کو ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے ، مل بیٹھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔11 مارچ 2024 
رمضان المبارک کا آغاز۔۔
سب دوستوں کو مبارک باد ۔
رب کریم اس ماہ مقدس کو ہم سب کے لییے باعث خیرو برکت بنائے۔11 مارچ 2024 –
رمضان المبارک میں افطار تو سب لوگ اپنی اپنی پسند کی چیزوں سے کرتے تھے، مگر سحری کا کھانا ہمارے داودخیل شہر میں سب کا ایک ہی تھا۔ اس مخصوص کھانے کو وشلی کہتے تھے۔
توے پر تھوڑا سا گھی ڈال کر پتلا گوندھا ہوا آٹا اس پر روٹی کی طرح پھیلا دیتے تھے۔ پھر اس روٹی کو گھی میں فرائی کر لیتے تھے۔۔ اسی کو وشلی کہتے تھے ۔
وشلی کو توے سے اتارنے کے بعد اس پر مٹھی بھر شکر کی ڈھیری سی بنا لیتے۔ اس ڈھیری کو انگوٹھے سے دبا کر پیالے کی شکل دے دیتے تھے۔ پیالے میں خالص دیسی گھی ڈال کر روٹی کے ٹکڑے گھی اور شکر کے آمیزے میں ڈبو کر کھایا کرتے تھے ۔ یہ بے حد لذیذ غذا تھی۔وشلی کھانے سے روزے کی حالت میں دن بھر نہ تو بھوک اور پیاس لگتی تھی نہ کمزوری محسوس ہوتی تھی۔
وشلی سے لوگوں کو اتنا پیار تھا کہ رمضان المبارک کے اختتام پر لوگ کہا کرتے تھے
لنگھ گئے روزے بہوں ارمان وشلیاں ناں
(روزے گذر گئے ۔ افسوس کہ ہم وشلیوں سے محروم ہوگئے)۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا–12 مارچ 2024 –
سحری میں وشلی تو ہر موسم میں چلتی تھی ، افطار کا پروگرام گرمیوں اور سردیوں کا الگ الگ ہوتا تھا۔ گرمی کےموسم میں پیاس زیادہ لگتی ہے اس لیئے مشروبات کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ نوجوان لوگ چینی کا شربت بنا کر اس میں لیموں کا رس اور برف ملا کر پیتے تھے۔ ہمارے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی مچلز کے مینگو سکواش میں برف اور پانی ملا کر افطاری کا بندوبست کرتے تھے۔
بزرگ لوگوں کا اپنا الگ پروگرام ہوتا تھا۔ وہ کہتے تھے اور ٹھیک ہی کہتے تھے کہ برف اور چینی تو پیاس کو بجھاتی نہیں، بھڑکاتی ہیں۔ اس لیئے بزرگ لوگ گھڑے کے پانی میں گڑ یا شکر ڈال کر اس میں اسپغول، املی آلوبخارا، گوندکتیرا، یا تخم ملنگا ملا کر پیا کرتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ یہ چیزیں پیاس کے ساڑ (جلن) کو ختم کرتی ہیں۔ زیادہ نخریلے بزرگ گڑ کے شربت میں یہ چاروں چیزیں ملا کر پیتے تھے ورنہ تو ان میں سے کسی ایک چیز سے بھی مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔
گرمیوں کی افطاری میں کھانے کا زیادہ اہتمام نہیں کیا جاتا تھا۔ افطاری میں کھجور اور مغرب کی نماز کے بعد شام کا معمول کا کھانا کھایا جاتا تھا۔
بزرگ لوگ شام کا کھانا عشا کی نماز کے بعد کھاتے تھے۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ————-13 مارچ 2024 
سردیوں کے روزوں کی افطاری سادہ پانی اور کھجور سے ہوتی تھی۔ اس کے بعد ایک تازہ گرم روٹی چٹنی یا اچار کے ساتھ کھا کر اوپر سے چائے پی لیتے تھے۔ پکوڑوں سموسوں والے چونچلے ہمارے بچپن کے دور میں نہیں ہوتے تھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری سیدھی سادی دیہاتی مائیں بہنیں یہ چیزیں بنا ہی نہیں سکتی تھیں۔
شام کا کھانا مغرب کی نماز کے بعد کھایا جاتا تھا۔ بزرگ لوگ کھانا عشا کی نماز کے بعد کھاتے تھے۔
فروٹ کی کوئی دکان ہمارے داودخیل میں نہیں تھی۔ جب کبھی لوگ کالاباغ جاتے تو وہاں سے تازہ فروٹ لے آتے تھے۔ لیکن فروٹ افطاری کا مستقل آئٹم نہیں تھا۔ لوگ سالن روٹی پر ہی گذارہ کر لیتے تھے۔ صبر شکر کا دور تھا اس لیئے روزہ مشکل نہیں لگتا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔14 مارچ 2024 
رمضان المبارک میں نماز عشا کے وقت مسجدیں نمازیوں سے بھر جاتی تھیں۔ جو لوگ عام حالات میں باجماعت نماز ادا نہیں کر سکتے تھے، نماز عشاء اور تراویح میں وہ بھی باقاعدہ حاضر ہوتے تھے۔ خاصی رونق بن جاتی تھی۔
نماز تراویح میں مکمل قرآن پڑھانے کے لییے قاری صاحبان کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ داودخیل میں زیادہ تر قاری صاحبان ضلع اٹک سے آتے تھے۔
تراویح میں ختم قرآن عام طور پر 23 یا 27 رمضان المبارک کو ہوتا تھا۔ اس رات مساجد کو جھنڈیوں اور رنگا رنگ روشنیوں سے دلہن کی طرح سجایا جاتا تھا۔ نماز عشاء سے پہلے نعت خوانی اور درودوسلام کی محفل ہوتی تھی۔ ختم قرآن کے بعد حاضرین میں مٹھائی تقسیم کی جاتی تھی۔ قاری صاحب کو کپڑوں کا ایک جوڑا اور نقد رقم حق خدمت کے طور پر ادا کی جاتی تھی۔ مٹھائی اور قاری صاحب کے حق خدمت کے لیئے رمضان المبارک کے آغاز سے ہی لوگ حسب توفیق پیسے مسجد کے خزانچی کے پاس جمع کرا دیتے تھے۔
آخری تراویح کے موقع پر لوگ خاصے جذباتی ہوتے تھے کیونکہ دوبارہ یہاں جمع ہونے کا موقع سال بھر بعد نصیب ہوتا تھا۔ کئی بزرگوں کو یہ کہہ کر روتے بھی دیکھا کہ پتہ نہیں اگلے سال ہمیں یہاں آنا نصیب ہو گا یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔15 مارچ 2024 
موسموں ، مذہبی رسومات اور روایات کے بارے میں ہر سال لکھتا ہوں۔ لیکن چونکہ کاپی پیسٹ نہیں کرتا اس لیئے الفاظ اور انداز ہر بار مختلف ہوتا ہے اور اسی لیئے لوگ ان تحریروں کو پسند کرتے ہیں۔
اپنے بچپن کے دور کی روایات اور رسم رواج کا بار بار ذکر اس لیئے بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ بقول لالا عیسی خیلوی ۔۔۔۔۔۔۔۔
توں نئیں تے تیریاں یاداں سہی
وہ لوگ اور وہ روایات تو باقی نہ رہیں مگر ان کے ذکر سے دل کو سکون اب بھی ملتا ہے۔
رمضان المبارک میں ایک خاص رواج ہوتا تھا سویاں بنانے کا۔ ہم سویوں کو سیمیاں کہتے تھے۔ سیمیاں ایک مشین کے ذریعے بنائی جاتی تھیں جسے گھوڑی کہتے تھے۔ جس گھر میں گھوڑی ہوتی وہاں دن بھر اڑوس پڑوس کی خواتین کا میلہ لگا رہتا تھا۔ سب اپنا اپنا آٹا گھر سے بھگو کر لاتی تھیں۔ مشین کے منہ میں گیلا آٹا ڈال کر ہینڈل کو گھماتے تو سیمیوں کے لچھے مشین کی چھلنی سے برآمد ہوتے تھے۔ ان لچھوں کو چارپائیوں پر بچھی چادروں پر پھیلا کر رکھتے جاتے تھے۔ دھوپ میں سیمیاں ایک آدھ گھنٹے میں خشک ہو جاتی تھیں اور انہیں سمیٹ کر گھر لے جاتے تھے۔
مشین کے ہینڈل کو گھمانا خاصا با مشقت کام تھا۔ یہ خواتین کے بس کا روگ نہ تھا۔ اس خدمت کے لیئے ہر محلے میں کوئی نہ کوئی شریف مسکین سا بندہ ہوتا تھا جسے سب خواتین ماما ماما کہہ کر کام میں لگائے رکھتی تھیں۔ ہمارے ہاں یہ خدمت ماما غلام فرید ہاشمی سرانجام دیتے تھے۔
سیمیاں پانی میں ابال کر خالص گھی اور شکر ملا کر کھائی جاتی تھیں۔ عید کے روز کا ناشتہ سیمیاں ہوتی تھیں۔ 23 رمضان المبارک کی شام کو بھی سیمیاں ہر گھر میں پکائی جاتی تھیں۔ اس رواج کی وجہ نہ کبھی ہم نے پوچھی نہ کسی نے بتائی۔ واللہ اعلم۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔16 مارچ 2024 
گرمی کے موسم میں روزہ خاصا مشکل ہوتا ہے۔ پیاس اس موسم کے روزہ داروں کے لیئے خاصی کڑی آزمائش ہوتی ہے۔ جسم میں پانی کی کمی کمزوری کا سبب بھی بنتی ہے۔ لیکن بات ایمان کی ہے ، ایمان مضبوط ہو تو روزہ رکھنا مشکل نہیں لگتا۔
ہمارے بچپن اور جوانی کے دور میں ہاڑ ساون ( شدید گرمی کا موسم) میں بھی لوگ روزے باقاعدہ رکھتے تھے۔ روزہ نہ رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ نوجوان لوگ نماز میں تو سستی کر لیتے تھے لیکن روزہ ضرور رکھتے تھے۔
روزوں میں پیاس کا واحد علاج نہانا ہوتا تھا۔۔ دن میں دو تین بار نہا کر پیاس کو بہلا لیا جاتا تھا۔ بزرگ لوگ کپڑوں سمیت کنوئیں یا گھر کے ہینڈ پمپ کے پانی سے نہا کر انہی گیلے کپڑوں کے ساتھ دوتین گھنٹے سو لیتے تھے۔ ظہر کی نماز کے بعد ایک بار پھر نہا کر عصر تک سوئے رہتے تھے۔ عصر کے بعد افطاری کی تیاریوں میں مصروف ہو کر وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔
بچے اور نوجوان دن بھر نہر پر نہاتے رہتے تھے۔
اب اگلی دفعہ گرمیوں کے روزے تقریبا 18 سال بعد آئیں گے۔ ہم میں سے جو لوگ اس وقت دنیا میں موجود ہوں رب کریم انہیں روزے رکھنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔
ایک دفعہ میں نے رمضان المبارک کے آخری دنوں میں محلے کے ایک بزرگ سے کہا چاچا شکر اے روزے خیر نال لنگھ گئےہن۔
بزرگ نے کہا پتر لنگھ تاں اساں وساں ، روزے تاں ہر سال آنے رہسن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔17 مارچ 2024 
عید کی شاپنگ رمضان المبارک آتے ہی شروع ہو جاتی تھی۔ گاوں کے دکان دار نیا مال لاکر دکانوں میں سجا دیتے تھے۔ چیزوں کی ورائیٹی بہت کم تھی۔ کپڑا صرف کاٹن کا دستیاب تھا۔ مردانہ لباس اپنی پسند کے رنگ کی پاپلین کی قمیض اور سفید لٹھے کی شلوار تھا۔ کچھ لوگ چیک(دھاری دار) کپڑے کی قمیض پہنتے تھے۔ بزرگ لوگ سفید لٹھے کا کرتہ ، شلوار کی جگہ سفید لٹھے کی چادر اور سر پہ سفید ململ کی پگڑی پہنتے تھے۔
خواتین رنگدار چھینٹ( کاٹن کا پھولدار کپڑا) کا کرتہ ، اس سے ہم رنگ پاپلین کی شلوار اور سر پہ سفید ململ کا دوپٹہ پہنتی تھیں۔ بزرگ خواتین شلوار کی بجائے کالے ، نیلے یا براؤن رنگ کی چادر پہنتی تھیں۔
دیہات میں کپڑے کی الگ دکانیں نہیں ہوتی تھیں ۔ کریانہ بیچنے والے دکان دار دال ، چینی ، گڑ ، چاول وغیرہ کے علاوہ کپڑے کے پانچ سات تھان بھی دکان میں رکھ لیتے تھے۔ کچھ دکان دار اپنی دکان میں ایک آدھ درزی بھی بٹھا لیتے تھے۔ لوگ کپڑا خرید کر وہیں سے سلوا بھی لیتے تھے۔ ہمارے محلے کے دکان دار چاچا محمد اولیا درزی کا کام بھی خود کر دیتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔18 مارچ 2024
 
عید کے نئے کپڑوں کی نمائش بچوں کا شوق ہی نہیں جنون ہوتا تھا۔
میں جب چار پانچ سال کا تھا تو ایک دفعہ عید پر بابا جی میرے لیئے جامنوں(بینگن کے رنگ والا) قمیض کا ریشمی کپڑا اور سفید لٹھے کا شلوار کا کپڑا لے آئے۔ قمیض کا کپڑا بہت اعلی تھا ۔ اس میں سفید رنگ کی دھاریاں بھی تھیں۔ ایسا اعلی کپڑا شہر میں اور کسی بچے کا نہ تھا۔ خوشی سے میرے پاوں زمین پر ٹکتے ہی نہ تھے۔ فورا جا کر محلہ داوخیل کے درزی لالہ رضا محمد کمہار کو یہ جوڑا سلائی کے لیئے دے آیا۔ رضا محمد نے کہا تین دن بعد آکر سلا ہوا جوڑا لے جانا۔
تین دن بعد صبح سویرے اتنی شدید بارش ہوئی کہ گھر سے باہر قدم رکھنا بھی مشکل ہو گیا۔ خدا خدا کرکے دوپہر کے قریب بارش تھمی تو میں اپنے کزن ملک ریاست علی اور دوست صدیق خان بہرام خیل کو ساتھ لے کر محلہ داوخیل روانہ ہوا۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ سکول کے سامنے میدان میں دوتین فٹ گہرا پانی دیکھ کر ہم رک گئے۔ صدیق خان نے کہا واپس چلیں۔ کل آجائیں گے۔ مجھ سے کل تک صبر نہیں ہوتا تھا۔ ریاست بھائی نے کہا آگے جانا تو کوئی مسئلہ نہیں، شلواریں اتار کر کندھوں پر ڈال کر آرام سے پانی میں سے گذر جائیں گے۔
تجویز سو فیصد معقول تھی۔ اس دور میں پانچ سات سال کی عمر کے بچوں کے لیئے شلوار پہننا لازم نہ تھا۔ اکثر بچے شلوار کے بغیر لمبا سا چولا پہن کر پھرتے رہتے تھے۔ سو ہم نے شلواریں اتار کر کندھوں پر ڈالیں اور شڑاپ شڑاپ کرتے پانی میں سے گذر کر لالہ رضا محمد کے گھر جا پہنچے۔ لالہ رضا محمد نے کہا صرف قمیض کے بٹن لگانے ہیں۔ کل آکر لے جائیں۔ میں نے کہا ہرگز نہیں۔ ہم تو جوڑا آج ہی لے کر جائیں گے۔ سو ہم وہیں بیٹھ گئے اور کپڑے لے کر ہی ٹلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔19 مارچ 2024 
عید کی تیاریوں میں نئے جوتے خریدنا بھی شامل تھا۔ مردانہ جوتوں میں فرمے والی کھیڑی اس زمانے کا مقبول ترین جوتا تھا۔ کالاباغ فرمے والی کھیڑی کی صنعت کا مرکز تھا۔ ویسے تو کالاباغ کا ہر موچی فرمے والی کھیڑی بنا لیتا تھا لیکن چاچا فقیرمحمد، چاچا ابراہیم اور چاچا پشو اس فن کے سپیشلسٹ تھے۔ چاچا پشو کا اصل نام پتہ نہیں کیا تھا ، سب لوگ پشو ہی کہتے تھے۔
ریڈی میڈ کھیڑی دس بارہ روپے میں مل جاتی تھی۔ مگر شوقین مزاج لوگ آرڈر پر کھیڑی بنواتے تھے۔ آرڈر والی کھیڑی کو ساہی والی کھیڑی کہتےتھے۔ ساہی کا مطب ہے ایڈوانس ادائیگی۔ لوگ پاوں کا ناپ اور کچھ رقم ایڈوانس دے کر کھیڑی کی وصولی کی تاریخ لے لیتے تھے۔ مقررہ تاریخ کو بقیہ رقم ادا کرکے کھیڑی وصول کرلی جاتی تھی۔
بہترین قسم کی ساہی والی کھیڑی کی قیمت 16 روپے تھی۔
ساہی والی کھیڑی مردانہ حسن کا زیور ہوا کرتی تھی۔ جن لوگوں نے دیکھی ہی نہ ہو ان کو کیا پتہ کہ یہ کیا چیز تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔20 مارچ 2024 
عید کے موقع پر ہاتھ پاوں پر مہندی لگانا بھی ہمارے ہاں ایک مستقل رواج تھا۔ بچے بوڑھے اور جوان سبھی لوگ عید سے ایک آدھ دن پہلے مہندی سے ہاتھ پاوں لالولال کرلیتے تھے۔
نماز عید کے بعد دعا کے لیئے اٹھے ہوئے مہندی لگے ہاتھوں کی قطاریں دیکھ کر یقینا آسمان پر فرشتے بھی مسکرا دیتے ہوں گے کہ کیا بھولے بادشاہ لوگ ہیں یہ بھی۔
کہیں اور ہو نہ ہو ہمارے داودخیل میں تو عید کے موقع پر مہندی لگانا ایک مستقل رواج تھا۔
عام طور پر مہندی خواتین کے میک اپ کا حصہ ہے لیکن عید اور شادی کے موقع پر مرد بھی مہندی ضرور لگایا کرتے تھے۔ شادی کے موقع پر تو دولہا کی بہنیں کزنیں اور بھابھیاں باقاعدہ لالا جاگ والا گیت گاتے ہوئے دولہا کے ہاتھ پاوں پر مہندی لگایا کرتی تھیں۔
عید کے موقع پر مردوں کو اپنی مدد آپ کرنا پڑتی تھی۔ اس میں خواتین کا کوئی دخل نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔21 مارچ 2024 
عید کے موقع پر ہر محلے میں کسی کھلی جگہ پر شوتیر نصب کر کے شوتیر چڑھانے کے مقابلے ہوا کرتے تھے۔
شوتیر دس بارہ فٹ اونچا جھولا ہوتا تھا۔ اس پر دو نوجوان آمنے سامنے کھڑے ہو کر جھولا جھولتے ہوئے باری باری بازووں اور پاوں کا زور لگا کر زیادہ سے زیادہ بلندی تک جانے کی کوشش کرتے تھے۔ جو جوڑی سب سے زیادہ بلندی تک جاتی اسے فاتح قرار دے کر بھرپور تالیوں سے داد دی جاتی تھی۔
لفظ شوتیر غالبا لفظ شہتیر کی بگڑی ہوئی شکل تھا۔ کیونکہ یہ دو شہتیر(لکڑی کے گارڈر) زمین میں عمودا گاڑ کر بنایا جاتا تھا۔
ہمارے محلے کے عظیم خان اربزئی شہر کے سب سے کامیاب شوتیرباز تھے۔ وہ اکیلے ہی دس بارہ فٹ کی بلندی تک پہنچ جاتے تھے۔
شوتیر بازی عید کے بعد بھی کئی دن چلتی رہتی تھی۔
بچوں کو مائیں گھر کے کسی درخت پر دو رسیاں باندھ کر جھولا بنا دیتی تھیں جسے پینگ کہتے تھے۔ اگر ایک رسی ٹوٹ جاتی تو بچے ایک ہی رسی سے لٹک کر جھولا جھولتے رہتے تھے۔ اس ایک رسی والے جھولے کو گھم ٹٹو کہتے تھے۔
گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔22 مارچ 2024 
چچینگل۔۔۔۔۔
جھولے کی ایک شکل چچینگل کہلاتی تھی۔ یہ پانچ سات فٹ لمبی دو لکڑیوں سے بنتا تھا۔ ایک لکڑی زمین میں گاڑ کر دوسری لکڑی اس کے اوپر ایسے رکھی جاتی تھی کہ T کی شکل بن جاتی تھی۔ نیچے والی لکڑی پنسل کی طرح نوکدار ہوتی تھی۔ اوپر والی لکڑی کے درمیان میں ایک ننھا سا گڑھا ہوتا تھا۔ اس گڑھے کو نچلی لکڑی کی نوک پر رکھ کر توازن قائم کیا جاتا تھا۔ اوپر والی لکڑی کے دونوں سروں پر رسی سے لٹکتے جھولے لگے ہوتے تھے۔ ان جھولوں پر ایک ایک بچہ بیٹھ جاتا اور ایک تیسرا آدمی درمیان میں کھڑا ہو کر اوپر والی لکڑی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر گھماتا تھا۔
یہ ٹیکنالوجی وہ لوگ شاید ہی سمجھ سکیں جنہوں نے چچینگل نہیں دیکھا ۔
چچینگل پر جھولا جھولنے والے چچینگل سے اتر کر ایک آدھ منٹ توازن برقرار نہیں رکھ سکتے تھے ۔ دوقدم چل کر گر جاتے تھے۔ سر چکرانے کی اس کیفیت کو بھوالیاں کہتے تھے۔
جس گھر میں چچینگل ہوتا وہاں سارا دن رونق لگی رہتی تھی۔
اس جھولے کو چچینگل اس لیئے کہتے تھے کہ اس کے گھومنے سے چیں چیں کی آواز آتی تھی۔
لکڑی والا چچینگل تو کب کا ختم ہو گیا ، اب اس سے ملتا جلتا لوہے کا چچینگل شہروں کے پارکوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔23 مارچ 2024 
زبان یار من ترکی
امیر خسرو نے کہا تھا
زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم
(میرے محبوب کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا)
امیر خسرو کا یہ قول کہاوت بن گیا۔ جہاں بھی بات سمجھنا سمجھانا مشکل ہو یہی کہا جاتا ہے کہ
زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم
اس کہاوت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ نے اپنے سفرنامہء ترکی کا عنوان “زبان یار من ترکی” رکھ دیا۔
یہ خوبصورت کتاب فروری 2024 میں شائع ہوئی۔
ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ کا آبائی وطن ضلع سرگودہا کا ایک گاوں ہے۔ ڈاکٹر تصور ایف آر سی ایس سرجن ہیں۔ 20 سال سے آسٹریلیا کے شہر برسبن میں مقیم ہیں ۔
ڈاکٹر تصور ڈاکٹر کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہیں۔ ہوابازی کا شوق لاحق ہوا تو باقاعدہ ٹریننگ لے کر سند یافتہ پائلٹ بھی بن گئے۔ اقبال سے عشق لاحق ہوا تو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم اے اقبالیات بھی کر لیا۔
ترکی کی تاریخ و ثقافت سے دلچسپی انہیں ترکی لے گئی۔
“زبان یار من ترکی” اسی
سیاحت کی داستان ہے۔ یہ کوئی عام سفر نامہ نہیں بلکہ سفرنامہ ، تاریخ اور آپ بیتی کا ایک حسین امتزاج ہے۔ ترکی ایک طلسماتی ملک ہے۔ اس کی تاریخ کے آثار سرزمین ترکی میں قدم قدم پر موجود ہیں۔ عظیم الشان سلطنت عثمانیہ کے عروج و زوال کی داستان بہت عبرت آموز ہے۔ سلطان محمد فاتح، ارطغرل غازی اور بہت سی ایسی تاریخ ساز شخصیات کا تذکرہ اس کتاب کی زینت ہے۔
ڈاکٹر تصور نے صرف سیرو تفریح پر اکتفا نہیں کیا۔ ترکی کی تاریخ و ثقافت پر بہت سی ریسرچ کر کے کتاب کی معلومات کو مستند بنا دیا ہے۔ سنی سنائی باتوں کی ذمہ داری خود لینے کی بجائے صاف کہہ دیا ہے کہ فلاں فلاں واقعے کا کوئی ثبوت تاریخ میں نہیں ملتا۔
ڈاکٹر صاحب کے خوبصورت انداز بیان نے اس کتاب کو ناول کی طرح دلچسپ بنا دیا ہے۔
اہم شخصیات اور تعمیرات کی تصاویر نے کتاب کی قدروقیمت میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔
کتاب کے آغاز میں “نئیں ریساں بابے دیاں” کے عنوان سے ڈاکٹر تصور نے اپنے والد محترم کو بہت خوبصورت خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میری ہر کامیابی میرے بابا کی عطا ہے۔ یہ تحریر پڑھتے ہوئے آنکھیں بے اختیار بھیگ جاتی ہیں۔
یہ خوبصورت کتاب بک کارنر جہلم نے شائع کی ہے۔ اہل علم و ذوق کے لییے یہ ایک گراں قدر تحفہ ہے۔ مجھے یہ کتاب ڈاکٹر تصور نے میانوالی کے صاحب ذوق ڈاکٹر محمد ثقلین شاہ کے توسط سے حال ہی میں بھجوائی ہے۔ دونوں ڈاکٹر صاحبان کا بہت شکریہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔24 مارچ 2024
عید کی رونقیں دوبالا کرنے میں قبیلہ کنوارے خیل کے چند نوجوان اہم کردار ادا کرتے تھے۔
دوپہر کےقریب یہ نوجوان گھنگھرووں ، ٹلیوں اور رنگا رنگ اونی ہاروں سے سجے مہارے اونٹوں پر سوار ہوکر شہر کا چکر لگایا کرتے تھے۔
مہارا بہت سمارٹ تیز دوڑنے والا اونٹ ہوتا ہے ، جو بوجھ لادنے کی بجائے صرف سواری کے لییے استعمال ہوتا ہے۔ اونٹوں میں مہارا اونٹ ایسا ہے جیسے کاروں میں سپورٹس کار۔
دوڑتے اونٹوں کے گھنگھرووں کی چھن چھن اور ٹلیوں کی ٹن ٹن عجیب سماں باندھ دیتی تھی۔
کنوارے خیل قبیلہ کے یہ نوجوان ہائی سکول کے سامنے میدان میں پہنچتے تو وہاں محلہ امیرے خیل، علاول خیل اور لمے خیل کے نوجوان ان کا بھرپور استقبال کرتے تھے۔ وہاں مٹھائی اور پکوڑے وغیرہ کھانے کے بعد یہ نوجوان اونٹوں کو بھگاتے ہوئے محلہ داوخیل، محلہ سالار ، شریف خیل اور سمال خیل سے گذر کر ریلوے سٹیشن کے قریب اپنے محلہ کنوارے خیل واپس پہنچ جاتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔25 مارچ 2024 
بچوں کو آٹھ آنے ( آدھا روپیہ) اور نوجوانوں کو ایک دو روپے عیدی ملتی تھی۔ ایک روپیہ اس زمانے میں بڑی چیز ہوا کرتا تھا۔ ایک روپے میں آٹھ کپ چائے یا سوڈا واٹر کی ٹھاہ کر کے کھلنے والی بوتلیں ملتی تھیں۔ جلیبیاں ایک روپے کلو اور پکوڑے آٹھ آنے کلو ملتے تھے۔ نوجوان لوگ اپنی پسند کے مطابق یہی چیزیں خریدتے تھے۔ خود بھی کھاتے پیتے اور دوستوں کو بھی کھلاتے پلاتے تھے۔
بچے آٹھ آنے میں ریوڑیاں، ٹانگری ، چاول کا مرنڈا یا چوسنے والی کھٹی میٹھی گولیاں( چوپنڑیاں) وغیرہ لے کر عیاشی کرتے تھے۔
اکثر بچے بزرگ اور نوجوان عید پہ زیادہ پیسے خرچ کرنے کی بجائے عید کے تیسرے دن ماڑی انڈس میں میلہ شاہ گل حسن میں خرچ کے لییے پیسے بچا لیتے تھے۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔26 مارچ 2024 
ٹی وی تو بہت بعد میں آیا ، ہمارے بچپن کے دور میں ہمارے علاقے میں ریڈیو کا بھی نام و نشان تک نہ تھا۔ عید کا چاند نظر آنے کا اعلان مقامی سطح پر علمائے کرام کرتے تھے۔
داودخیل کالاباغ اور گردونواح کے علاقے میں چاند نظر آنے کا اعلان کوٹ چاندنہ کے پیر فخرالزمان شاہ صاحب تحریری فتوے کی صورت میں جاری کیا کرتے تھے۔ اس فتوے کو لوگ روایت کہتے تھے۔ نواحی علاقے کے کچھ لوگ شام سے ذرا پہلے پیر صاحب کے ڈیرے پر پہنچ جاتے تھے۔ ان کے لیئے افطاری کا بندوبست بھی پیر صاحب کرتے تھے۔ علاقے میں جہاں بھی چاند نظر آجاتا وہاں سے پیر صاحب کے مرید فورا پیر صاحب کو اطلاع دیتے تھے۔ پیر صاحب ان شہادتوں کی شرعی تحقیق کے بعد تحریری فتوی جاری کرتے تھے کہ ہمارے علاقے میں چاند نظر آگیا ہے۔ فتوے کی ایک ایک کاپی نواحی دیہات سے آئے ہوئے لوگوں کو دے دی جاتی جس کے مطابق وہ لوگ اپنے اپنے گاوں کی مساجد میں اعلان کروا دیتے تھے۔
مساجد میں اعلان یوں ہوتا تھا کہ کوٹ چاندنہ کے پیر فخرالزمان شاہ صاحب نے روایت جاری کی ہے کہ ہمارے علاقے میں چاند نظر آگیا ہے، لہذا کل عید ہوگی۔
یوں عید مقامی سطح پر ہوتی تھی ۔ یہ نہیں ہوتا تھا کہ چاند کوئٹہ میں نظر آئے تو میانوالی میں بھی عید منائی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔27 مارچ 2024 
ٹر گیا ڈھولا رونق مک گئی گلیاں دی
عید کے حوالے سے ہر سال غلام حسین خان ولد رنگی خان شکور خیل کے بارے میں الگ پوسٹ لکھتا ہوں کیونکہ عیدمنانے کا اس کا انداز سب سے نرالا تھا۔
شہر میں سب سے مہنگا اور خوبصورت لباس عید کے دن غلام حسین خان کا ہی ہوتا تھا۔ وہ کوئی امیر آدمی نہ تھا۔ اس نے کبھی کوئی ملازمت یا کاروبار نہ کیا۔ تھوڑی سی آبائی زمین کی پیداوار میں اس کا حصہ ہی اس کا واحد ذریعہ معاش تھا۔ عید کا خرچ وہ ماہ رمضان میں کچی اینٹیں بنا کر کما لیتا تھا۔ پورا مہینہ دن بھر اس مشقت میں لگا رہتا تھا اور جو کچھ کماتا اپنی عید کی تیاریوں پر خرچ کر دیتا تھا۔ دو گھوڑا مارکہ جاپانی بوسکی کی قمیض، چابی والے لٹھے کی شلوار ، سر پہ نائیلون یا آرکنڈی ویل کی طرے دار سیفد پگ، پاوں میں سفید یا زری والی فرمے والی کھیڑی ، ایک ہاتھ میں ریشمی رومال، دوسرے ہاتھ میں بید کی پتلی سی چھڑی ، سرخ و سفید رنگت والا یہ نوجوان اس سج دھج کے ساتھ شہر کا چکر لگاتا تھا اور راہ چلتے لوگ رک رک کر اسے دیکھا کرتے تھے۔
تین سال پہلے میرے بیٹے رضوان نے اس کے بارے میں میری پوسٹ پڑھ کر اسے سنائی تو غلام حسین خان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کہنے لگا
ہا جی ۔۔۔ ملک صاحب تاں میڈا بھرا جو ہے ، او میکو یاد نہ رکھیسی تاں ہور کونڑں میکو یاد کریسی۔
کچھ دن بعد خبر ملی کہ غلام حسین خان یہ دنیا چھوڑ کر عدم آباد جا بسا ۔ غلام حسین خان کا مان رکھنے کے لیئے میں اب بھی ہر سال اس کے بارے میں لکھتا ہوں ۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔28 مارچ 2024 
عید ہمارے کلچر کا بھرپور اظہار ہوا کرتی تھی۔ علاقائی لباس ، روایتی کھانے ، سر راہ چلتے لوگوں کا ایک دوسرے کو گلے لگا کر عید چن مبارک کہنا۔ واقفیت ہو نہ ہو ہر شخص سے گلے ملنا اور عید ملن کا مخصوص جملہ عید چن مبارک کہنا فرض سمجھا جاتا تھا۔
عید ملن کے لیئے رشتہ داروں کے ہاں آنا جانا بھی مستقل رواج تھا۔
عید کے دن گھر کی دیسی مرغی کا سالن بھی ہر گھر میں بنتا تھا۔
گلیوں میں دن بھر چہل پہل رہتی تھی۔ دیہات میں بازار تو ہوتے نہیں تھے، محلے کی دکانوں پر رونق لگی رہتی تھی۔
ہر طرف خوشیاں بکھری نظر آتی تھیں۔ چلتے پھرتے، کھاتے پیتے، دن گزرنے کا پتہ ہی نہ چلتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔29 مارچ 2024 
A SAD LOSS
Mianwali loses a richly talented young Engish Teacher, Mr Muhammad Fayyaz. He was also known for his letters on various social and educational issues which frequently appeared in English newspapers.
He was a brilliant product of Government College Mianwali. Doing his MA English from this college he joined the Education Department as an English Teacher. At present he was working as a Subject Specialist at Comprehensive High School Mianwali. May his noble soul rest in Eternal Peace.
He was a precious asset of Mianwali. 29 March 2024 
ہفتے میں ایک آدھ بار کالاباغ سے ایک لمبی لمبی مونچھوں والا چاچا پھلوں کا ٹوکرا اور ترازو سر پر رکھے داودخیل آتا تھا ۔ اس کے پاس بالکل تازہ رسیلے خوشبودار پھل ہوتے تھے جو وہ گلی گلی پھر کر بیچا کرتا تھا۔
اس زمانے میں افطاری میں پھل کھانا بڑی عیاشی ہوا کرتا تھا۔ چونکہ اس زمانے میں پھلوں کو محفوظ رکھنے کے لیئے فریج کی سہولت دستیاب نہ تھی ، اور ویسے بھی لوگ غریب تھے ، اس لیئے لوگ صرف ایک دن کی افطاری کے لییے پھل خرید لیتے تھے۔
چاچا دوچار گھنٹے شہر میں پھر کر پھل بیچنے کے بعد 5 بجے کی ٹرین سے واپس کالاباغ چلا جاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔30 مارچ 2024 
عید کے موقع پر شہر سے باہر کے دوستوں اور رشتہ داروں کو ڈاک سے عید کارڈ بھیجنے کا رواج بھی ختم ہو گیا۔
رمضان المبارک کے آخری دنوں میں کتابوں کی دکانوں پر رنگ برنگے ، چھوٹے بڑے ،مہنگے سستے عید کارڈوں کے ڈھیر لگ جاتے تھے۔ لوگ اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق عید کارڈ خرید کر ان پر کوئی پیغام لکھ کر لفافے میں بند کرکے لفافے پر پتہ لکھنے کے بعد پوسٹ آفس سے ٹکٹ خرید کر لفافے پر چسپاں کرکے لیٹر بکس میں ڈال دیتے تھے۔ دوتین دن میں عید کارڈ منزل مقصود پر پہنچ جاتا تھا۔
کتنی خوشی ہوتی تھی اپنے کسی چاہنے والے کا عید کارڈ وصول کر کے۔۔!! والدین کی طرف سے آئے ہوئے عید کارڈ کو بچے ، اور بچوں کی طرف سے آئے ہوئے عید کارڈ کو والدین بار بار چوم کر آنکھوں سے لگاتے تھے۔ دوستوں کے عید کارڈوں میں لکھی ہوئی دلچسپ باتوں پر لوگ قہقہے لگاتے تھے۔
دیہات میں کتابوں کی دکانیں نہیں ہوتی تھیں اس لییے وہاں عید کارڈ کریانے کی دکانوں پر بکتے تھے۔
لوگ اپنے پیاروں کے عید کارڈز کے منتظر رہتے تھے۔ محکمہ ڈاک کو ٹکٹوں کی فروخت سے اچھی خاصی آمدنی حاصل ہوتی تھی۔
عید کارڈ بنانے اور چھاپنے کی صنعت سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔ اب وہ سب کاروبار ختم ہو گیا۔
اب تو لوگ فون پر براہ راست آپس میں بات کر لیتے ہیں۔ عید کارڈ خریدنے ، لکھنے ، ٹکٹ چسپاں کرنے اور لیٹر بکس میں ڈالنے کی مشقت بھی نہیں کرنی پڑتی۔ لیکن پھر بھی عید کارڈوں کا دور یاد بہت آتا ہے۔ اچھا بھلا شغل ہوتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔31 مارچ 2024 –منورعلی ملک۔۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top