میرا میانوالی- منور علی ملک کی   مئی   2016  کی فیس بک پر پوسٹ

گورنمنٹ کالج عیسی خیل

پروفیسر ایس ایم اے فیروز کے بعد پروفیسر محمد رمضان شاہ گورنمنٹ کالج عیسی خیل کے پرنسپل بن کر آئے- بہت سینیر ، سادہ اور خوش مزاج انسان تھے- جتناعرصہ رھے میرے روم میٹ رھے- بیڑی پیتے تھے- بیڑی بھی سگریٹ کی قسم کی چیز ھے ، جو کسی زمانے میں ھمارے ھاں بھی بہت مقبول رھی- مگر اب یہاں دیکھنے کو بھی نہیں ملتی ، کیونکہ اس میں تمباکو کاغذ کی بجائے پان جیسے پتےمیں لپٹا ھوتا ھے، جو انڈیا اور بنگلہ دیش میں ملتا ھے- ھمارے ھاں نہیں ھوتا- شاہ جی اپنے لیے بیڑی انڈیا سے منگواتے تھے- کبھی کبھی مجھے بھی پلایا کرتے تھے-

چند ماہ بعد شاہ جی ٹرانسفر ھوئے تو ان کی جگہ ڈاکٹر عبدالمجید قریشی صاحب کا تقرر ھوا- ڈاکٹر صاحب فارسی کے پروفیسر تھے – تہران یونیورسٹی (ایران) سے پی ایچ ڈی کر کے پروفیسر سے ڈاکٹر بن گئے- بہت شائستہ، نفیس مزاج ، زندہ دل اور مجلس باز آدمی تھے- سہ پہر سے شام تک ان کے ھاں ھم پروفیسروں کی محفل جمی رھتی تھی- انہوں نے کبھی اپنے پرنسپل ھونے کا مظاھرہ نہیں کیا- سب کو دوست اور اپنے برابر سمجھتے تھے- اس لیے ھم سب بھی ان سے محبت کرتے تھے-

دسمبر 1976 کےآخر میں ڈاکٹر صاحب ٹرانسفر ھوے تو مجھے انچارج پرنسپل بنا دیا- اس کی ایک اھم وجہ یہ تھی کہ دسمبر کی چھٹیوں کے باعث باقی دوست اپنے اپنے گھروں کوچلے گئے تھے- عیسی خیل میں موقع پر صرف میں ھی موجود تھا- چونکہ چوھدری رمضان صاحب مجھ سے سینیر تھے، اس لیے میں نے ڈاکٹر صاحب سے چارج رپورٹ میں یہ لکھوا دیا کہ دسمبر کی چھٹیوں کے بعد چارج چوھدری محمد رمضان صاحب کو دے دیا جائے، مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا-1 مئی 2016

ڈاکٹر عبدالمجید قریشی مجھے قائم مقام پرنسپل بنا کر چلے گئے، چھٹیوں کے بعد میں نے اپنی چارج رپورٹ میں لکھوائی ھوئی شرط کے مطابق پرنسپل کے عہدے کا چارج چوھدری محمد رمضان صاحب کے سپرد کر دیا- مگر تقریبا ایک ھفتہ بعد گورنرپنجاب کا جاری کردہ نوٹیفیکیشن موصول ھوا جس میں مجھے مکمل اختیارات کے ساتھ قائم مقام پرنسپل مقرر کرنے کا حکم صادر فرمایا گیا تھا- اس لیے چوھدری رمضان صاحب نے چارج مجھے واپس دے دیا-

دراصل ھوا یہ تھا کہ جس طرح سرکاری دفتروں میں مکھی پر مکھی مارنے کا رواج ھمارے ھاں ھمیشہ رھا ھے- میری چارج رپورٹ کا صرف پہلا فقرہ پڑھ کر میرے بطور پرنسپل تقرر کا حکم جاری کر دیا گیا- یہ دیکھنے کی زحمت کسی نے گوارا نہ کی کہ اس چارج رپورٹ میں آگے کیا لکھا ھے-

یوں مجھے پورا ایک سال پرنسپل کی کرسی پر بیٹھنا پڑا- بحمداللہ تعالے میرے لیے یہ کوئی مسئلہ نہ تھا ، کہ اس سے پہلے گیارہ سال تک ایک تعلیمی ادارے کا سربراہ رہ چکا تھا- میرا مزاج جمہوری تھا- دوستوں کو ھمیشہ اپنے برابر ، بلکہ اپنے بہتر سمجھا- ٹائیم ٹیبل وغیرہ کے معاملات میں کبھی مداخلت نہ کی- دوستوں نے بھی بھر پور تعاون کیا- اللہ نے عزت رکھ لی- وقت اچھا گذر گیا- اختیارات کے استعمال میں باھر سے کچھ رکاوٹیں راہ میں آئیں ، ان کا قصہ کل سناؤں گا-2 مئی 2016 

جولائی 1977 میں میں نے کالج کی لیباریٹریز کے لیے دو ملازم (لیب اٹینڈنٹ ) بھرتی کیے- چار  پا نچ درخواستیں موصول ھوئی تھیں- ایک دو آدمی کچھ صاحب رسوخ لوگوں کی سفارشیں بھی لے ائے تھے- مگر میں نے اپنے ذاتی علم کے مطابق دو سب سے زیادہ مستحق آدمیوں کو ملازم رکھ لیا-

ان میں سے ایک ریٹائرڈ فوجی تھا، جس کی معمولی سی پنشن اس کے چارپا نچ بچوں کو دو وقت کی روٹی بھی فراھم نہیں کر سکتی تھی- دوسرے کا مسئلہ بھی اتنا ھی نازک تھا- اس کے ھونے والے سسرال نے اسے یہ الٹی میٹم دے رکھا تھا کہ ایک ماہ کے اندر وہ برسرروزگار نہ ھوا ، تو شادی سے صاف انکار ھوگا-میں نے تو نیک نیتی سے دو مستحق آدمی ملازم رکھے تھے ، مگر جن کو سفارش کے باوجود ملازمت نہیں ملی تھی، ان میں سے ایک امیدوار نے ڈائریکٹر کالجز سرگودھا ڈویژن کو درخواست بھجوادی ، جس میں یہ لکھا تھا کہ پرنسپل نے میرٹ کا لحاظ کیے بغیر اپنی پسند کے آدمی رکھ لیے-

دوسرا جرم پرنسپل نے یہ کیا کہ مارشل لاء حکومت کی ملازمتوں پر پابندی کے باوجود ملازم رکھ لیے-آپ کو یاد ھوگا کہ جنرل ضیاالحق نے جولائی 1977 ھی میں مارشل لاء نافذ کیا تھا- اور فوری طور پر تمام سرکاری ملازمتوں کے لیے بھرتی پر پابندی لگا دی تھی- مگر میں نے جو کچھ کیا وہ قانون اور انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق تھا، اس لیے اللہ نے مجھے نقصان سے بچالیا- تفصیل کل کی پوسٹ میں عرض کروں گا-3مئی 2016

ملازمت کے ناکام امیدوار کی میرے خلاف شکایت پر انکوائری کے لیے ڈائریکٹر کالجز سرگودھا ڈویژن پروفیسر رفیع اللہ خان خود تشریف لائے – خان صاحب پروفیسر تو تارٰیخ کے تھے، مگر انگریزی بھی بہت خوبصورت لکھتےتھے- دفتری خط وکتابت کے حوالے سے وہ میری انگریزی کے بھی بڑے مداح تھے- مجھ پر بہت شفقت فرماتے تھے- مگرآج وہ خاصے ناراض نظر آتے تھے- آتے ھی برس پڑے – فرمایا-
“ پتر، مروا دتا ای آپنے آپ نوں وی تے نالے سانوں وی- اوئے ظالما، توں مارشل لاء دےے ban دے دوران دو بندے ملازم رکھ لئے نیں-“میں نے کہا “سر، ریکارڈ میں سب کچھ موجود ھے، میں آپ کو دکھا دیتا ھوں“-

میں نے متعلقہ فائیل کھول کر خان صاحب کے سامنے رکھ دی- اس میں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے تین لیٹرز تھے- پہلا لیٹر مارشل لاء کے نفاذ کے فورا بعد کا تھا، جو تمام ملازمتوں پر پابندی کا حکم نامہ تھا- اس لیٹر سے دس دن بعد کا دوسرا لیٹر پابندی ختم ھونے کا فرمان تھا- (شاید سرکار کو کچھ اپنے آدمی ملازم رکھنے تھے)- تیسرا لیٹر ملازمتوں پر دوبارہ پابندی کا حکم نامہ تھا، جو دوسرے لیٹر سے دس دن بعد جاری کیا گیا تھا-

میں نے ملازم ان دنوں میں رکھے تھے، جب پابندی اٹھا لی گئی تھی- خان صاحب یہ ریکارڈ دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑے- میرے کندھے پر تھپکی دیتے ھوے فرمایا-“ اوئے، میں تے پہلے ای کہندا سی میرا پتر بڑا پڑھا لکھا بندہ ھے- اوہ ایسراں دی غلطی نیں کر سگدا- اینہاں (گالی) ایویں ای رولا پایا ھویا اے- ھن میں کس کے رپورٹ لکھاں گا تے اینہاں ( حکمرانوں کو گالی) دا دماغ درست کر دیاں گا“4مئی 2016

جون کے آغاز میں سرکار نے معمول کے مطابق کالج کے لیے فرنیچر، لیباریٹریز کے سامان اور لائبریری کی کتابیں خریدنے کےلیے ایک لاکھ روپے کی گرانٹ عطا کی- اس زمانے میں ایک لاکھ روپے میں بہت کچھ خریدا جا سکتا تھا- اگرچہ کالج کی تمام ضروریات تو اس رقم سے پوری نہیں ھو سکتی تھیں ، پھر بھی جو مل گیا اسی کو غنیمت سمجھ لیا- کیونکہ جس ملک میں بجٹ کا صرف دو فی صد تعلیم کے لیے مختص ھوتا ھو وھاں جتنی رقم بھی مل جائے، اسی میں گذارا کرنا پڑتا ھے- دو فی صد تو زکوات سے بھی کم ھے کہ زکوات کی شرح اڑھائی فی صد ھے-
شرمناک بات یہ ھے کہ ھمارے منتخب نمائندے اپنی تنخواہیں اور مراعات تو ھر سال بڑھاا لیتے ھیں ، تعلیم کا بجٹ میں حصہ وھی دو فی صد رھتا ھے- اس سال پھر شور مچا رھے ھیں کہ ڈیڑھ دو لاکھ ماھوار میں ھمیں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ھوتی ، اس لیے ھماری تنخؤاھیں بڑھائی جائیں- ترس آتا ھے ان بچارے لینڈ کروزروں والے غریبوں پر- مزے کی بات یہ ھے کہ تنخواھوں میں اضافہ وہ واحد نکتہ ھے جس پر حکومت اور اپوزیشن ارکان اسمبلی ھمیشہ مکمل یک جہتی اور ھم آھنگی کا مظاھرہ کرتے ھیں- شرم کی بات ھے، مگر ھماری سیاست میں شرم کا کیا دخل ؟
تمہید خاصی طویل ھوگئی، مگردل کا بوجھ ہلکا کرنا بھی ضروری تھا- ملازمت کے چالیس سالل میں سرکار کے ھاتھوں تعلیم کا جو حشر نشر ھوتا دیکھا، اس کا تلخ ذائقہ اب بھی محسوس ھوتا ھے- انشاءاللہ کل یہ بتاؤں گا، کہ میں نے سرکار کا عنایت کیا ھوا ایک لاکھ روپیہ کس طرح خرچ کیا-5 مئی 2016

اس زمانے میں کالجوں کے سامان کی خریداری کے لیے پرچیز کمیٹی چار افراد پر مشتمل ھوتی تھی- متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر اس کمیٹئ کے سربراہ اور پرنسپل، ڈسترکٹ ایجوکیشن افیسر ، اور انڈسٹریل ڈویلپمنٹ آفیسر کمیٹی کے ارکان ھوتے تھے- فرنیچر، لیباریٹریز کے سامان اور لائبریری کی کتابوں کی خریداری کے لیے ٹینڈر کھولنے کی مقررہ تاریخ کو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اور انڈسٹریل ڈویلپمنٹ آفیسر اطلاع کے باوجود نہ آئے ، تو کمیٹی کے سربراہ نے کہا ان کو رھنے دیں- ھم نے قانون کے مطابق آج ھی کارروائی مکمل کرنی ھے- سو، ھم نے ٹینڈر کھول کر قواعد کے مطابق سامان کی خریداری کے لیے آرڈرز جاری کر دیئے-سامان خریدلیا گیا، تو اس کی چیکنگ کے بعد میں نے سامان کی قیمت کا بل منظوری کے لیے ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس بھجوایا- حسب معمول ادھر سے بل پر اعتراضات کی بوچھاڑ ھونے لگی- فلاں کاغذ بل کے ساتھ نہیں بھجوایا گیا، اور فلاں رسید پر کمپنی کی مہر نہیں لگائی گئی، وغیرہ وغیرہ-اعتراضات کا سلسلہ تیس جون تک چلتا رھا- تیس جون بل کی منظوری کی آخری تاریخ تھی- میں خود بل لے کر ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر کے دفتر گیا- اکاؤنٹس آفیسر صاحب نے ایک ترچھی نظر بل پر ڈالی اور کہا “جی بل تو نا مکمل ھے- اس کے ساتھ فلاں اتھارٹی لیٹر اور فلانی رسید بھی لگانی تھی-
میں نے کہا “ آپ اپنے قانون اپنے پاس رکھیں، اور یہ بل بھی – میں اپنے گھر جا رھا ھوں — سامان کی قیمت میں کسی طرح اپنی جیب سے ادا کر دوں گا-“ یہ کہہ کر میں بل اسی ٹیبل پر چھوڑ کر اپنے گھر داؤدخیل آگیا-شام کے قریب گورنمنٹ ھائی سکول داؤدخیل کا ایک کلرک منظور شدہ بل لے کر آیا ، اور ڈسٹرکٹ اکؤنٹس آفیسر صاحب کا یہ پیغا م بھی کہ آج رات بارہ بجے سے پہلے آپ کسی بھی وقت نیشنل بینک آف پاکستان کی عیسی خیل برانچ سے بل کی رقم وصول کر سکتے ھیں-6 مئی 2016

محلہ بمبرانوالہ کے جس مکان میں ًمیں پروفیسر عبدالستار جوئیہ اور پروفیسر اکبر خان کے ساتھ رھتا تھا، اس کے ساتھ والا جڑواں مکان خالی ھوا تو وہ میں نے کرائے پر لے لیا، اور اپنی فیملی کو بھی عیسی خیل لے آیا- میرا سب سے چھوٹا بیٹا پروفیسر ًمحمد اکرم علی ملک اسی گھر میں پیدا ھؤا- اسی گلی میں گورنمنٹ ھائی سکول عیسی خیل کے ھیڈماسٹر سید منور حسین شاہ مرحوم کا گھر بھی تھا، اس سے کچھ آگے بائیں جانب عتیل صاحب کا گھر تھا- گلی کے دائیں ھاتھ پہ آخری گھر کونسلر ھیبت خان کا تھا- ھیبت خان وغیرہ پانچ چھ بھائی تھے-

کونسلر ھیبت خان

بہت اچھے لوگ ھیں- اسی محلے میں ھماری گلی سے اگلی گلی میں لالاعیسی خیلوی کا آبائی گھر تھا- اس گھر کے آگے تقریبا دوکنال پر محیط چاردیواری میں ھمارا میکدہ تھا، جہاں ھر رات ھماری محفل موسیقی منعقد ھؤا کرتی تھی- اس محفل کے اکثر ارکان اس دنیا سے رخصت ھوگئے- سب سے پہلے نورمحمد دیوانہ اچانک چلا گیا- پھر چاچا اسلم نیازی ابوظہبی گئے تو روح وھاں چھوڑ آئے- جسم کو ھم نے تابوت میں سجا کر بابا عادل شاہ کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا-

کچھ عرصہ پہلے چاچا محمد احسن خان بھی یہ دنیا چھوڑ گئے- پھر عتیل رخصت ھوئے- ماسٹر وزیر لاھور جا بسے- میں ١٩٨٠ میں میانوالی آگیا تھا- عیسی خیل میں اب داغ فراق صحبت شب کی جلی ھوئی ایک ھی شمع باقی رہ گئی ھے، جسے شہر کے لوگ لالا شفا کہتے ھیں- آج کل عیسی خیل اڈے پہ ھوٹل چلارھا ھے-پچھلے دنوں عیسی خیل جانے کا اتفاق ھؤا تو پتہ چلا کہ میکدہ بھی فروخت ھو گیا — رھے نام اللہ کا !!!7مئی 2016 

عتیل صاحب اور مجبور صاحب کا ذکر چھڑا تو بعض دوستوں نے دوسرے شعراء کے بارے میں لکھنے کی فرمائشیں سامنے رکھ دیں- میری نظر میں سب شاعر قابل

 احترام ھیں- اگر ان کے بارے میں لکھنا شروع کر دوں تو میری کہانی کا تسلسل برقرار نہیں رھے گا- پھر یہ خدشہ بھی ھے کہ جن کا ذکر کروں گا ، وہ یہ شکوہ کریں گے کہ ھمارے بارے میں کم کیوں لکھا ، جن کا ذکر نہ کر سکا وہ تو باقاعدہ دشمن بن جائیں گے-میرا بنیادی مقصد اپنی داستان حیات میں سے ایسے واقعات اور شخصیات کا ذکر کرناھے جن سے میں نے کچھ سیکھا، تاکہ آپ بھی میری پوسٹس سے کچھ اچھی باتیں سیکھ لیں-
واقعات اور شخصیات کے انتخاب کا حق میرے پاس رھنے دیں- میں جانتا ھوں کہ کس کا ذکرر کہاں کرنا ھے- اسی لیے تو میں نے ابھی اپنے جگر ، لالا عیسی خیلوی کو بھی اس داستان کے ایک کونے میں بٹھا رکھا ھے-شعراء میں سے یہاں صرف ان شعراء کا ذکر ھوگا، جن سے میں عیسی خیل میں متعارف ھؤا- لوگ یونس خان کے بارے میں پوچھتے ھیں- مرحوم یونس خان غالبا ھماری پیدائش سے بھی پیلے فوت ھو جکے تھے- ان کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ انہیں کسی سے پیار تھا- دونوں نے قرآن پاک پر ھاتھ رکھ کر قسم کھائی تھی کہ ایک دوسرے کے بغیر شادی نہیں کریں گے- دوسری طرف سے تو وعدہ وفا نہ ھو سکا، مگر یونس خان نے اسی نوے سال کی طویل زندگی تنہا گذار دی- میں نے یونس خان کے بارے میں یہی سنا، واللہ اعلم بالصواب-
یونس خان پڑھے لکھے بھی نہیں تھے ، بس دل کی باتیں شعروں کے روپ میٰں کسی نہ کسی طرحح لکھ لیتے تھے- “کالا شاہ بدلا، کر کر منتاں یار دیاں اور شالا رج رج مانڑیں سجن میڈا’ ان کے مقبول ترین گیت ھیں -یونس خان کے بارے میں بس میں اتنا ھی جانتا ھوں- درد ان کی شاعری کی روح ھے-8 مئی 2016

ناطق نیازی عیسی خیل سے دو تین کلومیٹر جنوب میں واقع موضع سرور خیل کے رھنے والے تھے- مین بازارعیسی خیل کے مغربی سرے پر دائیں ھاتھ ان کا جنرل سٹور تھا، شاید اب بھی ھو- ناطق اپنے بڑے بھائی کے ساتھ اس کاروبار میں شریک تھے- دن بھر دکان پہ کام اور سرشام گھر کو واپسی کے باعث ناطق بہت کم کہیں آجا سکتے تھے- ھمارے میکدے پہ بھی سال بھر میں ایک آدھ دفعہ ھی آ سکتے تھے-ناطق نیازی نہایت سادہ ، شائستہ اور میٹھے مزاج کے انسان تھے- انکسار ان کے کردار کی سب سے نمایاں صفت تھی- شاعر کی حیثیت میں وہ درد سے لبریز ڈوھڑوں کی وجہ سے ھمیشہ یاد رھیں گے- بے پناہ درد ھوتا تھا ناطق کے ڈوھڑوں میں- بالعموم دو چاھنے والوں میں سے ایک کی موت ان کے ڈوھڑوں کا موضوع ھؤا کرتی تھی-
ناطق کوک معشوق دی سن کے وچ قبر دے لاش وی ھل گئی

ایک رات لالا خدا جانے کیوں بہت دکھی تھا- میکدے میں اس رات ماسٹر وزیر، عتیل اور میں موجود تھے- باقی دوست کسی وجہ سے نہیں آسکے تھے- لالا کچھ دیر سر جھکائے خاموش بیٹھا رھا- پھر ساتھ والے کمرے سے ھارمونیم اٹھا لایا ، اور راگ پہاڑی میں ناطق کے چند ڈوھڑے اور ماھیے اتنے درد بھرے انداز میں گائے کہ سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے- ایسے لگتا تھا کہ لالا نے اپنے اندر کاسارا درد اپنی آواز میں سمو کر ان ڈوھڑوں میں ڈال دیا ھے- لالا کو بارھا سننے کا موقع ملا، مگر اس رات والا لالا پھر کہیں نظر نہ آیا ، شاید کبھی کسی موڑ پر اچانک مل جائے- نت دل کوں آھدا ھاں کل ماھی آسی والے گیت میں اس لالا کی ایک ذرا سی جھلک نظر آئی تھی، پھر کہیں غائب ھو گیا-
انشاءاللہ اگلی ملاقات میں لالا سے اس کے بارے میں پوچھوں گا-9مئی 2016

کمر مشانی اڈے پر مسجد کے سامنے داتا جنرل سٹور کے مالک اظہر نیازی وھی اظہر نیازی ھیں جن کے کئی گیت لالا کی آواز میں منظرعام پر آ کر بہت معروف و مقبول ھوئے- لالا نے ٹی وی پر جو پہلا گیت پیش کیا تھا “بے پرواہ ڈھولا کیوں ڈتا ای ساکوں رول “ یہ اظہر نیازی ھی کا لکھا ھؤاتھا- اس کے علاوہ “شالا تیری خیر ھووے“ اور دوسرےا بہت سے مقبول گیت بھی اظہر نیازی ھی کی تخلیق تھے-
اظہر نیازی 1976-77 میں دس پنرہ دن کے بعد چند دوستوں کے ھمراہ لالا کے ھاں آیاا کرتے تھے- بہت خوبصورت گیت لکھتے تھے- اظہر نیازی کے کچھ گیت کمر مشانی کے گلوکار عطا محمد زرگر المعروف عطا سنارا کی آواز میں بھی منظر عام پر آکر بہت مقبول ھوئے- عطامحمد زرگر بہت سریلا گلوکار تھا-

استاد امتیاز خالق خان کا شاگرد تھا، اور انہی کے انداز میں گایا کرتا تھا- ایک دو کیسٹ بھی ریلیز ھوئے، پھر اچانک جوانی ھی میں اس دنیا سے رخصت ھو گیا- کہتے ھیں TB کا مریض تھا- اللہ مغفرت فرمائے-
اظہر نیازی کاروبار کے علاوہ مقامی سیاست میں بھی مشغول ھوگئے ،تو شاعری ترک کر دی– کونسلر بھی رھے- شاید اب بھی ھوں- بہت عرصہ ھؤا ایک دن ان کی دکان پر ملاقات کے لیے حاضر ھؤا – میں نے پوچھا شاعری کیوں چھوڑ دی- ہنس کر کہنے لگے “لالا وقت نی ملدا“ –11 مئی 2016

آپ کی فرمائشیں اپنی جگہ ، مجھے اپنی پوسٹس کے اس سلسلے کی ترتیب کو بھی مد نظر رکھنا پڑتا ھے- اس حوالے سے مجھے ابھی کچھ دن اور عیسی خیل میں رھناھے- اپنے کالج ، شہر ، اور لالا کی محفلوں کی کچھ باتیں بتانی ھیں- پھر عیسی خیل سے میانوالی آمد اور یہاں کے کالج، دوستوں اور واقعات کا ذکر کرنا ھے- عیسی خیل کے حوالے سے صرف ان شعراء کا ذکر کرنا ھے جو اس زمانے میں وھاں موجود تھے، بالخصوص ان شعراء کا جو ھماری محفلوں میں آیاجایا کرتے تھے- اس لیے میں آپ کی انگلی پکڑ کر نہیں چل سکتا –
پہلے بھی کہا تھا کہ میں سب شعراء کا بہت احترام کرتا ھوں ، فاروق روکھڑی میرے بہت پرانےے اور پیارے دوست تھے، منشی منظور میرے لیے بیٹوں کے برابر تھے، سونا خان بے وس کو اللہ سلامت رکھے میرے بہت مہربان دوست ھیں، افضل عاجز بھی میرا بیٹا ھے، لالا کے حوالے سے کئی اور شاعر بھی میرے عزیز دوست ھیں ، ان سب کا ذکر ھونا چاھیے، مگر یہ فیصلہ میں نے کرنا ھے کہ کس کا ذکر کب اور کہاں کرنا ھے- اس لیے فی الحال آپ کو میرے ساتھ عیسی خیل ھی میں رھنا ھوگا-
عیسی خیل میں اس زمانے کے سینیئر شعراء کا ذکر تو ھو چکا ، دو نوجوان شاعروں نے بھی اس زمانےے میں وادی سخن میں قدم رکھا، ایک ملک کلیم اللہ تھے، دوسرے رفیع اللہ مغل، دونوں میرے کالج کے سٹوڈنٹ تھے، اس لیے مجھ سے تو شرماتے، بلکہ گھبراتے تھے کہ کہیں شاعری سیکھنے کی بجائے، انگلش کا ٹیسٹ نہ دینا پڑ جائے- شاعری میں یہ دونوں عتیل صاحب سے استفادہ کرتے رھے- کلیم تو اپنے آئیڈیئل استاد محترم پروفیسر حسین احمد ملک کے نقش قدم پر چلتے ھوئے نفسیات کے پروفیسر بن گئے، آج کل کینیڈا میں ھیں، کہہ تو رھے تھے کہ اب بھی کھبی کبھار کچھ شعر کہہ لیتا ھوں-
رفیع اللہ مغل بنک میں ملازم تھے، اب پتہ نہیں کہاں ھیں -ضیاءالحق ضیا نامی نوجوان بھی اسیی زمانے میں منظرعام پر آئے- شاعری میں قدم رکھتے ھی گلوکاری بھی شروع کر دی، اچھا خاصا گا بھی لیتے تھے، پھر سنا ایجوکیشن آفیسر بن گئے ھیں ، اب پتہ نہیں کہاں ھیں اور کیا کر رھے ھیں-13 مئی 2016

گورنمنٹ کالج عیسی خیل کے پرنسپل کی حیثیت میں میرے لیے ایک اور آزمائش ایک انکوائری تھی، جس کا میرے منصب سے تو کوئی واسطہ نہ تھا، مگر یہ کام بہر حال کرنا پڑا-انکوائری میونسپل کمیٹی کے انسپکٹر چونگیات غلام یاسین خان کے خلاف تھی، جو میرے دوست بھی تھے اور ان کا ایک بیٹا ھمارے کالج کا سٹوڈنٹ بھی تھا- یاسین خان کے خلاف چونگیات کے تمام ملازمین نے مشترکہ درخواست دی تھی ، جس میں یاسین خان پر رشوت خوری کا الزام لگایا گیا تھا- اے سی عیسی خیل نے مجھے اس معاملے کی تفتیش کے لیے انکوائری افسر مقرر کر دیا- اے سی خواجہ شہاب انور میرے دوست بھی تھے اس لیے یہ ذمہ داری میں نے قبول کر لی اور اللہ کا نا م لے کر انکوائری کا آغاز کردیا۔
میں نے تمام درخواست دھندگان کو الگ الگ بلا کر ان کے بیانات قلمبند کیے- یاسین خان کاا بیان بھی لیا-عجیب بات تھی ، درخواست میں یاسین خان پر رشوت کا الزام لگایا گیا تھا، مگر انفرادی بیان میں ھرملازم نے کہا کہ یاسین خان نے مجھ سے تو کبھی رشوت نہیں لی، ویسے وہ اچھا آدمی نہیں ھے- بالآخر ایک ملازم نے اصل بات بتا دی – اس نے کہا “ سر جی، یاسین خان بہت بدمزاج ھے ، ذرا سی بات پر ھمیں گالیاں دینے لگتا ھے، آگے سے ھم بھی سب پٹھان ھیں، آخر کب تک اس کی گالیاں برداشت کرسکیں گے “میں نے انکوائری مکمل ھونے کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا کہ رشوت کا الزام تو ثابت نہیں ھو سکا، مگر چونکہ تمام ملازمین یاسین کے رویئے سے نالاں ھیں ، اس لیے کسی بھی وقت لڑائی جھگڑے کا امکان ھے، اور لڑائی جھگڑے میں کچھ بھی ھو سکتا ھے، اس لیے یاسین خان کو اسی گریڈ کی کسی دوسری پوسٹ پر منتقل کر دیا جائے- اے سی صاحب نے یاسین خان کو میونسپل کمیٹی کا آفس سپرنٹنڈنٹ مقرر کردیا-
بہت عرصہ بعد ایک دن یاسین خان سے عیسی خیل کے مین بازار میں اچانک ملاقات ھوئی– ہنس کر کہنے لگے —- “ملک صاحب ، واہ ٹکراایں میکوں َ“میں نے کہا کیا با ت ھے ؟یاسین خان نے کہا آپ کے فیصلے کے خلاف سروسز ٹریبیونل میں اپیل کی تھی- جج صاحبان کہتے ھیں ، انکوائری افسر کا فیصلہ بالکل درست ھے- انہوں نے یہ کہہ کر میری اپیل خارج کر دی- ویسے یار اب مجھے بھی احساس ھونے لگا ھے کہ آپ نے درست فیصلہ دیا تھا-14 مئی 2016

1978 میں پروفیسر جگن ناتھ آزاد کی آمد عیسی خیل کی ادبی تاریخ کا اھم واقعہ تھی – جگن ناتھ آزاد ، نامور اردو شاعر تلوک چند محروم کے فرزند ارجمند ، بین الاقوامی شہرت یافتہ ماھر اقبالیات اور بہت اچھے شاعر تھے- ان کا آبائی گھر عیسی خیل ھی تھا- قیام پاکستان کے وقت ان کا خاندان بھی دوسرے ھندو خاندانوں کے ساتھ بھارت منتقل ھو گیا تھا- منتقل ھونا تو ایک مجبوری تھا، وطن کی محبت میں جگن ناتھ اور ان کے والد عمر بھر بے قرار رھے- جگن ناتھ کا بچپن عیسی خیل کی گلیوں میں گذرا تھا-
تقریبا 32 سال بعد دوبارہ عیسی خیل آنا جگن ناتھ کے ایک دیرینہ خواب کی تکمیل تھا- شہر کیی گلیوں میں پھرتے ھوئے وہ اپنے بچپن، والدین بہن بھائیوں اور دوستوں کو یاد کر کے مسلسل آنسو بہاتے رھے- عیسی خیل مین بازار کے مشرقی سرے پر واقع اپنے گھر کو دیکھ کر تو وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے- گھر کا نقشہ اب کافی بدل چکا تھا، لیکن درودیوار وھی تھے- اسی گھر میں ان کی جواں سال بہن زندہ جل کر مر گئی تھی- اس المناک سانحے کو یاد کر کے جگن ناتھ بہت دیر تک روتے رھے-پروفیسر جگن ناتھ آزاد اب جموں یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ تھے- وہ سرکاری مہمان کی حیثیت میں پاکستان آئے تھے- اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین پروفیسر مسیح الدین صدیقی ، اور میانوالی سے ڈاکٹر اجمل نیازی چند دوسرے دوستوں کے ھمراہ جگن ناتھ آزاد کے ھم رکاب تھے-
عیسی خیل میں جگن ناتھ آزاد کے اعزاز میں دو خصؤصٰی تقریبات منعقد ھوئیں- ایک ادبیی تقریب کالج میں ھوئی، دوسری تقریب لالا کی خصوصی محفل موسیقی تھی – ان دو تقریبات کی کہانی کل سنا ؤ ں گا، انشاءاللہ -ترانہ پاکستان ، جگن ناتھ آزاد نے قیام پاکستان کے دن لکھا تھا – اس کا ایک بند ملاحظہ فرمایئے-
اپنے وطن کا آج بدلنے لگا نظام
اپنے وطن میں آج نہیں ھے کوئی غلام
اپنا وطن ھے راہ ترقی پہ تیز گام
آزاد، سربلند، جواں بخت ، شادکام
اب عطر بیز ھیں جو ھوائیں تھیں زھرناک
اے سرزمین پاک
15 مئی 2016 

 پروفیسر جگن ناتھ آزاد کے اعزاز میں ایک استقبالہ تقریب گورنمنٹ کالج عیسی خیل اور عتیل کی ادبی تنظیم کے زیراھتمام گورنمنٹ ھائی سکول کے انٹرنس ھال میں منعقد ھوئی- صدر تقریب اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین، پروفیسر مسیح الدین صدیقی تھے، مہمان خصوصی جگن ناتھ آزاد- نظامت (اسٹیج سیکرٹری) کے فرائض میں نے سرانجام دیئے- عتیل صاحب نے ایک خوبصورت استقبالیہ نظم پڑھی- ڈاکٹر اجمل نیازی اور چند دوسرے اھل علم و قلم احباب نے جگن ناتھ آزاد کی علمی و ادبی خدمات کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا-
علامہ اقبال کی شاعری اور فلسفہ حیات پر تحقیق کے حوالے سے جگن ناتھ آزاد کی خدمات کو دنیاا بھر میں قدرو منزلت کی نظر سے دیکھا جاتا ھے- ان کی لکھی ھوئی کتابیں دنیا بھر کی کئی یونیورستیوں کے ایم اے ،ایم فل او پی ایچ ڈی کے نصاب میں شامل ھیں- پروفیسر مسیح الدین صدیقی نے اس حوالے سے بہت سی قیمتی معلومات فراھم کر کے حاضرین کے علم اور جگن ناتھ آزاد پر اھل عیسی خیل کے فخر میں اضافہ کیا-دوسری استقبا لیہ تقریب محمد سعداللہ خان کے ھاں منعقد ھوئی- جگن ناتھ آزاد کے والد تلوک چند محروم ، سعداللہ خان کے بزرگوں کے دوست تھے، اس لیے انہوں نے اس تقریب کا اھتمام اپنا فرض سمجھا- یہ تقریب محفل موسیقی تھی جس میں لالا نے جگن ناتھ آزاد کی چند غزلیں اپنے مخصوص انداز میں پیش کیں تو جگن ناتھ آزاد بھی خوشی سے جھوم اٹھے- ایک غزل کا یہ شعر
میں اپنے گھر میں آیا ھوں ، مگر انداز تو دیکھو
کہ اپنے آُپ کو مانند مہماں لے کے آیا ھوں
جگن ناتھ آزاد نے لالا سے بار با ر پڑھوایا، اور مسلسل آنسو بہاتے رھے-اس تقریب میں بھیی سٹیج سیکرٹری میں تھا- جگن ناتھ آزاد کی فرمائش پر لالا نے
کالا شاہ بدلا ناں وس توں ساڈے دیس اور —— بوچھنڑاں میں توں یار ناں کھس وے
کے علاوہ اپنی پسند کے کچھ لوک گیت بھی پیش کیے- اس محفل نے جگن ناتھ آزاد کے دل سے غمم کا سارا زھر نچوڑ لیا، وہ خوش ھو گئے ، اور اگلی صبح ھمیں دعایئں دیتے ھوئے رخصت ھو گئے- کہہ گئے تھے پھر آؤں گا، لیکن تقدیر نے مہلت نہ دی – اب وہ اس دینا میں نہیں رھے-16 مئی 2016

نامور شاعر اور ماھر تعلیم، تلوک چند محروم یکم جولائی 1887 کو عیسی خیل کچہ کے موضع نورزمان شاہ المعروف گاجراں والا کے ایک ھندو گھرانے میں پیدا ھوئے- بیس پچیس گھروں پر مشتمل یہ چھوٹا سا گاؤں دریا کی تباہ کاریوں کے باعث باربار اجڑتے ھوئے بالآخر صفحہ ھستی سے ھمیشہ کے لیے مٹ گیا- اس کے مٹنے سے کچھ عرصہ پہلے تلوک چند محروم اپنے اھل خانہ کے ساتھ عیسی خیل شہر کے محلہ مرزوخیل میں مینتقل ھوگئے-محروم نے مڈل تک تعلیم عیسی خیل میں حاصل کی- میٹرک بنوں سے کیا اور پھر لاھور جا کر بی اے اور ایس اے وی (بی ایڈ) کرنے کے بعد انگلش ٹیچر کی حیثیت میں ملازمت کا آغاز ڈی آئی خان سے کیا- مڈل سکول عیسی خیل ، کلور کوٹ اور راولپنڈی کے آرمی پبلک سکول میں متعین رھے- آرمی پبلک سکول سے ھیڈماسٹر کی حیثیت میں ریٹائر ھوئے-شاعر کی حیثیت میں محروم طالب علمی کے زمانے سے ھی مشہورو معروف ھو چکے تھے- ملازمت کے دوران برصغیر کے نامور شعراء میں شمار ھونے لگے- مخزن اور بیسویں صدی جیسے معتبر ادبی رسالوں میں ان کا کلام باقاعدہ شائع ھوتا رھا- جگر مرادآبادی اور حفیظ جالندھری جیسے اساتذہ انہیں قدرکی نگاہ سے دیکھتے تھے-محروم بنیادی طور پرنظم کے شاعر تھے- منظر کشی، واقعہ نگاری اور نیرنگئی بیان کے لحاظ سے ان کی شاعری بے حد مؤثر ھے- اپنی اھلیہ کی وفات اور اپنی جواں سال بیٹی شکنتلا کی ناگہاں موت پر محروم نے جو نظمیں لکھیں وہ اپنی مثال آپ ھیں – محروم کے بارے میں کچھ نہایت اھم باتیں انشاءاللہ کل کی پوسٹ میں بتاؤں گا –17 مئی 2016

تلوک چند محروم سرکاری ملازمت سے ریٹائر ھوئے تو گارڈن کالج راولپنڈی میں انہیں اردو اور فارسی کے لیکچرر کی پوسٹ پر تقرر کی پیشکش کی گئی – محروم نے یہ پیشکش قبول کر لی – یادرھے کہ محروم صرف بی اے پاس تھے، اور لیکچرر کے لیے کم ازکم بنیادی تعلیم ایم اے ھونی چاھیئے- مگر محروم صاحب کی قابلیت اور شاعر کی حیثییت میں شہرت کی بنا پر گارڈن کالج جیسے وی آئی پی ادارے نے انہیں لیکچرر کھ لیا-

محروم صاحب کی جواں سال بیٹی شکنتلا جل کر مر گئی- ھندو عقیدے کے مطابق تو لاش کو جلا کر اس کی راکھ دریائے گنگا میں ڈال دی جاتی ھے- مگر محروم صاحب نے ایسا نہ ھونے دیا – انہوں نے بیٹی کی لاش کو دفن کروا یا اور اوپر قبر بھی بنوادی-

محروم 6 جنوری 1966 کو دہلی میں اس دینا سے رخصت ھوگئے- متعصب ھندو معاشرے میں وہ اپنی میت کی تدفین تو نہیں کروا سکتے تھے، تاھم انہوں نے اپنے بیٹے جگن ناتھ آزاد کو وصیت کی کہ میرے دسویں پر ھندوؤں کی مذھبی کتابیں پڑھوانے کے علاوہ قرآن خوانی بھی کرائی جائے- ھمارے چہلم کی طرح ھندوؤں کا دسواں ھوتا ھے جس میں وہ لوگ میت کی نجات کے لیے اپنی مذھبی کتابیں پڑھتے ھیں- محروم نے ان کتابوں کی بجائے قرآن حکیم کو وسیلہ بنانا زیادہ مناسب سمجھا- جگن ناتھ آزاد نے اپنے والد کی وصیت پر عمل کرتے ھوئے ان کے دسویں پر قرآن خوانی کا اھتمام بھی کر دیا-

میں سوچتا ھوں کہ محروم اور جگن ناتھ جیسے لوگوں کو اگر ھمارے علمائے کرام ذرا سی لفٹ کروادیتے تو یہ لوگ بہ خوشی مسلمان ھو جاتے- مگر ھمارے علمائے کرام تو الا ماشاءاللہ مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے فارغ کرنے سے فارغ نہیں ھوتے، کافروں کو کیوں لفٹ کرواتے-

محروم نے بہت سی خوبصورت نعتیں بھی لکھیں – افسوس کہ ان کی کوئی کتاب اس وقت میری دسترس میں نہیں- دوستوں سے گذارش کی تھی – جو کچھ مل سکا اس میں سے کچھ آج شام پوسٹ کر دوں گا-18 مئی 2016 

بشیرالدین Cook بھی یہ دنیا چھوڑ کر دوسری دنیا میں جا بسا – لوگ جوق در جوق یوں جا رھے ھیں جیسےوھاں کوئی میلہ لگا ھؤا ھے-بشیر میرا دوست تھا- گلی مسجد مہاجرین میں رھتا تھا- میانوالی کا بہترین باورچی تھا- میری اور اس کی دوستی ٰکا آغاز آج سے تقریبا تیس سال پہلے ھؤا- میں نے اسے چاول کی ایک دیگ بنانے کے لیے اپنے گھر بلوایا تھا-
کام ختم کر کے بشیر مجھ سے کہنے لگا “ملک صاحب، میں نے اپنی امی نہیں دیکھی- میرے پیداا ھوتے ھی وہ فوت ھو گئی تھیں- ان کی کوئی تصویر بھی نہ بن سکی- مجھے یہ حسرت چین سے نہیں رھنے دیتی کہ کاش میں اپنی امی کو ایک نظر دیکھ لیتا- ملک صاحب ، سنا ھے آپ شاعر ھیں – پلیز مجھے میری امی کے بارے میں کچھ شعر لکھ دیں، شاید اس طرح میرا یہ دکھ کچھ کم ھو جائے-“
میں نے دوسرے دن کچھ شعر لکھ دیئے – بشیر بہت خوش ھؤا- اس نے وہ شعر خوبصورتت فریم میں سجا کر اپنے کمرے میں لگا دیئے- ان پر پھولوں کے ھار وغیرہ بھی لگاتارھتا تھا- ایک دن ملا تو کہنے لگا “ملک صاحب ، اب جب مجھے امی یاد آتی ھے تو میں وہ شعر دیکھ لیتا ھوں- بس انہیں دیکھ کر میرے دل کو سکون آ جاتا ھے- یوں لگتا ھے جیسے امی میرے سامنے کھڑی ھیں “
بشیر نے اپنا جو تجربہ بیان کیا ، اس میں کمال میری شاعری کا نہیں ، کمال بشیر کی اپنی ماں سے محبت کا تھا– کہ ماں کے نام سے منسوب الفاظ میں بھی اسے اپنی ماں کا روپ نظر آتا تھا-
کل اچانک کسی نے بتایا کہ بشیر اب اس دنیا میں نہیں رھا، تو مجھے بہت دکھ ھؤا- اس سے دوستی کاحقق ادا کرنے کے لیے یہ پوسٹ اس کے نام کر دی- کل بھی اس کی کچھ باتیں لکھوں گا- میرے رب نے مجھے جو قلم عطا کیا ھے اس لیے نہیں کہ صرف بڑے لوگوں ، پروفیسروں ، شاعروں اور ادیبوں کا ذکر لکھتا رھوں – میرے قلم پر بشیر جیسے غریب دوستوں کا بھی حق ھے- اس لیے کل بھی بشیر ھی کا ذکر ھوگا، انشاءاللہ-

عید میلاد، والدین کی برسیوں اور دوسری ایسی تقریبات کے موقع پر بھائی بشیر سے ملاقات ھوتی رھتی تھی- بعض اوقات ایسا بھی ھؤا کہ بشیر کسی شادی کی تقریب میں تیس چالیس دیگوں کا کام کر رھا ھوتا تھا، اور میں فون پر اسے اپنے ھاں آنے کو کہتا تو وہ انکار نہیں کرتا تھا- بلکہ وھآں کچھ دیر کے لیے اپنے کسی نائب کو کھڑا کر کے میرے ھاں آکر میرا کام کر دیتا تھا-

ایک دن سٹیل کا ایک بڑا سا جگ آلو بخارے کی چٹنی سے لبالب بھر کر لے آیا- کہنے لگا “ ملک صاحب، آپ کو آلو بخارے کی چٹنی اچھی لگتی ھے، آج میں نے سپیشل بنائی تھی اس میں سے یہ آپ کا حصہ ھے- “

ایک دفعہ بشیر بھائی نے میرے ایک دوست کی بیٹی کی شادی کا کھانا بنایا- اٹھارہ ھزار کا بل تھا- میرے دوست نے کہا بشیر سے کہیں کچھ رعایت کر دے- سچی بات یہ ھے کہ مجھے رعایت مانگتے ھوئے شرم آتی تھی- بہر حا ل دوست کے ساتھ بشیر کے ھاں گیا، اور دوست سے اپیسے لے کر بشیر کے ھاتھ پہ رکھ دیئے- ابھی میں نے کچھ کہا بھی نہیں تھا کہ بشیر نے ان میں سے چار ھزارروپے نکال کر میرےدوست کو واپس دے دیئے- میرا دوست حیران رہ گیا- وہ اتنی بڑی رعایت کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا-

26 نومبر 2006 کو میرے بیٹے محمد اکرم علی کا ولیمہ تھا- میں نے کھانے کا آرڈر دینے کے بعد بشیر کو کچھ پیسے ایڈوانس دیئے تو اس نے پیسے مجھے واپس دیتے ھوئے کہا-“ملک صاحب، شادی بیاہ پر خرچ بعض اوقات اندازے سے زیادہ ھو جاتا ھے- ممکن ھے آپ کا ھاتھ تنگ پڑ جائے- اس لیے آپ یہ پیسے ابھی مجھے نہ دیں- بعد میں جب دل چاھے دے دینا- اور ھاں اگر مزید پیسوں کی ضرورت پڑ جائے تو کسی اور سے مانگنے کی بجائے مجھے حکم دے دینا مجھے خوشی ھوگی آپکی خدمت کر کے”-

اللہ اکبر! کتنا اچھا انسان تھا- میں نے اسے دیاکیا تھا، بیس سال پہلے چند شعر ھی لکھ کر دیئے تھے، مگر بشیر زندگی بھر میری اس معمولی سی نیکی کی قدر کرتا رھا-اکرم بیٹے کا ولیمے کا جو اس نے کھانا بنایا تھا وہ کھانے والے آج بھی یاد کرتے ھیں، بشیرنے مجھ سے کہا تھا “ملک صاحب، آج کے کھانے کی اگر آپ کے مہمان تعریف کر کے نہ جائیں تو میں یہ سمجھوں گا کہ میری آج کی کمائی حلال نہیں ، حرام ھے“-

کیابتاؤں کتنا پیارا انسان تھا- اللہ اسے جنت الفردوس میں مقام قرب عطا فرمائے — آمین –  20 مئی 2016

تلوک چند محروم اور ملک منظور حسین منظور ضلع میانوالی کے پہلے اردو شاعر تھے- محروم کا مفصل ذکر ھو چکا، آج کچھ باتیں ان کے ہمعصر ، دوست، اور ھم پیشہ شاعر منظور کی-ملک منظور حسین منظور میرے اکلوتے ماموں تھے- ایم اے فارسی میں گولڈ میڈلسٹ اور ایم او ایل تھے- ملازمت کا آغاز انگلش تیچر کی حیثیت میں کیا- واں بھچراں اور کندیاں میں ٹیچررھے- پھر گورنمنٹ ھائی سکول بھاگٹانوالہ ضلع سرگودھا کے ھیڈماسٹر مقرر ھوئے- بہت عرصہ وھاں رھے- قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد گورنمنٹ ھائی سکول ھڈالی ضلع خوشاب آگئے- یہاں سے 30 مارچ 1954 کو ریٹائر ھوئے، تو اے ڈی ماڈل ھائی سکول گوجرانوالہ کے پرنسپل مقرر ھوگئے-

ماموں فدائے اقبال تھے- انہوں نے اقبال ھی کے انداز میں شاعری کی- قومی موضوعات پر اقبال کے انداز میں بہت سی نظمیں لکھیں- بنیادی طور پر اقبال اور محروم کی طرح وہ بھی نظم کے شاعرتھے- غزل بھی لکھی تو اقبال کے انداز میں- تاھم ان کا شاہکار تین جلدوں پر مشتمل “جنگ نامہ اسلام“ ھے- حفیظ جالندھری کے “شاھنامہ اسلام“ کی طرز پر اسی بحر میں یہ اسلام کے ابتدائی دور کی جنگوں ، جنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق (غزوات ) کی پرجوش داستان ھے- جس کی پہلی جلد کا دیباچہ (تعارف) مجاھد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی نے لکھا- اس طویل منظوم داستان کا آغاز اس شعر سے ھوتا ھے-

تمنا ھے لکھوں تاریخ اسلامی جہادوں کی

الہی آبرو رکھنا مرے اونچے ارادوں کی

اللہ نے آبرو رکھ لی- تین جلدوں پر مشتمل یہی کتاب شعری ادب میں جناب منظور کا تعارف بن گئی- اس سلسلے کی مزید باتیں انشاءاللہ کل ھوں گی- – 21 مئی 2016

ملک منظور حسین منظور کا جنگ نامہ اسلام ، اردو ادب میں ایک سے زائد جلدوں پر مشتمل خالص رزمیہ شاعری کی واحد مثال ے- انیس و دبیر کے مرثیوں میں بھی رزمیہ شاعری کے بہت اعلی نمونے دیکھنے میں آتے ھیں- مگر مرثیے میں توجہ اور زور بیاں کا اصل مرکز المیہ ھوتاھے- اس لیے مرثیہ ، رزمیہ شاعری نہیں کہلا سکتا، انگریزی ادب میں رزمیہ اور المیہ کے حوالے سے خاصی دلچسپ پحث ھوتی رھی، جس کے نتیجے میں بالآخر رزمیہ کو شاعری کی ایک الگ صنف منوالیا گیا-
جنگ نامہ اسلام میں رزمیہ کی روایت کے مطابق جوش خطابت کی بہت اعلی مثالیں موجودد ھیں-
اقبال و غالب کی طرح منظور فارسی میں بھی لکھتے تھے- اس حوالے سے خانہ فرھنگ ایران کی شائع کردہ خوبصورت کتاب تذکرہ فارسی شعرائے ھندوپاکستان میں منظور کو ایک اھم فارسی شاعر قرار دیا گیا-
اقبال کے انداز میں لکھنے والوں پر تبصرہ کرتے ھوئے نامور نقاد، استاذالاساتذہ ڈاکٹروحیدد قریشی لکھتے ھیں کہ اقبال کے متبعین میں کامیاب ترین منظور حسین منظور ھیں-کل میں نے عرض کیاتھا نا کہ ماموں جان (ملک منظور حسین منظور) غزل بھی اقبال ھی کے انداز میں لکھتے تھے- ان کا یہ شعر دیکھیے –
کمند فکر فلک پر تو ڈال سکتا ھے
سکون قلب سے محروم ھے مگر الحاد
شعر کا مطلب یہ ھے کہ خدا کا منکر علم کے ذریعے چاند اور ستاروں تک تو پہنچ سکتاھے، مگر دل کاا سکون اس کے نصیب میں نہیں ھوتا-
ماموں جان ، تلوک چند محروم کے بہت گہرے دوست تھے- ان دونوں کے درمیان خطط وکتابت فارسی میں ھوتی تھی اور وہ بھی منظوم – محروم کے ایک خط کاپہلا شعر یاد آرھاھے- شعر یہ تھا-
آورد صبا پیا م منظور
بہر من نامرادو مہجور
(باد صبا مجھ بدنصیب ھجر کے مارے کے لیے منظور کا پیغام لائی ھے)
مجھے ماموں جان کو ان کی زندگی کے آخری دنوں میں بہیت قریب سے دیکھنے کا اعزاز نصیبب ھؤا- ان دنوں کی کچھ حسین یادیں انشاءاللہ کل آپ کے ساتھ شیئر کروں گا-  22 مئی 2016

اھلیہ کی وفات نے ماموں جان کو دنیا سے دل برداشتہ کردیا- ممانی جان تعلیم یافتہ تو نہ تھیں ، پھر بھی ایک مثالی خاتون خانہ تھیں- جب چاروں صاحبزادے اپنے اپنے ذریعہ معاش سے وابستہ ھو کر دوسرے شہروں میں جابسے ، تو زندگی کے آخری دس پندرہ سال گوجرانوالہ میں یہ میاں بیوی اکیلے رھتے رھے- اجنبی شہر، اہنوں سے سیکڑوں میل دور، اس زمانے میں رابظے کے لیے فون کی سہولت بھی موجود نہ تھی- پھربھی ممانی جان نے ماموں کو تنہائی کا احسا س نہ ھونے دیا- پھر اچانک چند دن بیماررہ کر ممانی جان اس دنیا سے رخصت ھو گئیں تو ماموں جان ملازمت چھوڑ کر ان کی میت کے ھمراہ اپنے گھر داؤدخیل آگئے- اب زندگی ان کی نظر میں بے معنی ھوگئی تھی- اھلیہ کی وفات پر انہوں نے بے ساختہ چند دردناک قطعات کی صورت میں اپنے دکھ کا اظہار کیا تھا، آخری قطعہ یہ تھا—
چلے گئے ھو مرے ھم سفر مگر پھر بھی
رہ وفا میں تمہارے ھیں نقش پا باقی
ملیں گے منزل مقصود پر تمہیں آ کر
سفر ھمارا بھی تھوڑا سا رہ گیا باقی
سفر واقعی جلد ختم ھوگیا- لیکن وقت مقررہ تک تو بہر حال جیناتھا-
مامون جان داؤدخیل میں ھمارے گھر سے ملحقہ اپنے وسیع و عریض گھر میں رھے- میریی چھوٹی خالہ غلام بانو ان کی دیکھ بھال کرتی تھیں- میری امی تو بہت پہلے اس دنیا سے رخصت ھو گئی تھیں –
بیٹوں نے بہت کہا کہ آپ ھمارے پاس آکر رھیں،مگر ماموں جان رو کر کہتے “صاحبب خاتوں کی قبر کو اکیلا کیسےچھوڑ دوں؟ َ“
گھر میں ماموں جان دن بھرتنہائی کا احساس دور کرنے کے لیے پڑھنے لکھنے کا کام کرتے رھتے– میں اس وقت ٹھٹھی سکول میں ھیڈماسٹر تھا- سکول سے واپس آکر سارا دن ، بلکہ رات کو بھی دیر تک ماموں جان کے پاس بیٹھ کر ان سے کچھ نہ کچھ سیکھتا رھتا تھا-
کبھی کبھی بہت اداس ھو جاتے- ایک دن کہنے لگے منوری تم مجھے اس لیے اچھے لگتے ھو کہ تمہیںں دیکھ کر مجھے “جنی“ یاد آتی ھے- (میری والدہ ان کی چھوتی بہن تھیں، نام غلام جنت تھا، مگر ماموں پیار سے انہیں “جنی“ کہا کرتے تھے، اور اسی نسبت سے مجھے بھی منور کی بجائے منوری کہتے تھے) –
آہ بھر کر کہنے لگے جنی ھوتی تو میرے دکھ کا احساس خاصا کم ھو جاتا، کیونکہ وہ مجھ سے ماں کا سا پیار کرتیی تھی‘ —
ان اداس محفلوں کی کچھ باتیں انشاءاللہ کل بتاؤں گا23 مئی 2016

ماموں جان کے قریب رھنے سے نہ صرف میرے علم میں اضافہ ھوا، بلکہ کردار کی تشکیل بھی ھوئی- آداب مجلس کی تربیت بھی ملی، شعر کہنے کا سلیقہ بھی انہی سے سیکھا-
اکثر کہا کرتے تھے، ‘ٰیار منوری، تمہیں دیکھ کر مجھے بہت دکھ ھوتا ھے،کہ تم جیسا لائق آدمیی سکول میں گل سڑرھا ھے- تمہیں تو کسی کالج یا یونیورسٹی میں ھونا چاھیئے تھا ‘ –
ماًموں کی اس حسرت کی تکمیل تو ھوگئی، مگر ماموں اس وقت اس دنیا سے جا چکے تھے-
ماموں اپنا فارسی کا پہلا مجموعہ کلام مرتب کر رھے تھے، مجھ سے کہا کہ مسودے کی ایک خوشخطط کاپی تیار کر دو- اللہ کے فضل سے خوشنویس تو میں تھا- ان کے حکم کی تعمیل کردی- ماموں جان بہت خوش ھوے، انے جانے والوں کو یہ مسودہ دکھاکر بڑے فخر سے کہا کرتے تھے ‘ یہ میرے بھانجے منورعلی ملک نے لکھاھے- مجموعہ کلام کا نام تھا گلبانگ عجم ،
کچھ دن بعد ماموں آنکھ کے آپریشن کے لیے لاھور گئے- ان کے تمام صاحبزادے بھی وھاںں پہنچ گئے- نامور آئی سرجن راجہ ممتاز ماموں جان کے سابق سٹوڈنٹ تھے- مگر وقت رخصت متعین ھو چکا تھا- آپریشن کے دوران بلڈپریشر یکلخت بڑھ گیا، پھر —- الٹی ھو گئییں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا-
اس سانحہ سے سنبھلنے میں ھم سب کو بہت وقت لگا- میرا فوری رد عمل چند قطعات کی شکل میںں ظاھر ھوا- ان میں سے آخری آپ کے ساتھ شیئر کرتا ھوں –
24 مئی 2016

لیجیئے ، آج ھم پھر عیسی خیل واپس آگئے-
عیسی خیل سے اپنے تعلق کی جو کہانی میں آپ کو سنا رھا تھا وہ تو اس زمانے کی داستان تھی جب میںں گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں لیکچرر تھا- مگر میرا عیسی خیل سے تعلق اس سے بہت پہلے کا تھا-
حقیقت یہ ھے کہ عیسی خیل سے میرا تعلق تین نسلوں پر محیط ھے- پہلے میرے دادا مولوی ملکک مبارک علی عیسی خیل سکول میں ٹیچر رھے- پھر میرے والد ملک محمد اکبرعلی 1930-40 کے دوران عیسی خیل سکول میں انگلش ٹیچر رھے- مولانا عبالستار خان نیازی اور نوابزادہ عبدالغفور خان میرے والد کے سٹوڈنٹ تھے-
پھر 1952-53 میں والد محترم گورنمنٹ ھائی سکول عیسی خیل کے ھیڈماسٹر مقررر ھوئے- میرے بڑے بھائی ملک محمد انور علی بھی وھاں انگلش ٹیچر متعین ھوئے-میں اس زمانے میں ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا- والد صاحب مجھے بھی اپنےساتھ عیسی خیل لے آئے- ھم مین بازار کےوسط سے دائیں طرف نکلنے والی گلی میں حکیم عمر خان کے وسیع و عریض مکان میں رھتے تھے-
گورنمنٹ ھائی سکول عیسی خیل اس زمانے میں شہر کے اندر کرنل محمد اسلم خان کے گھروالی گلیی میں واقع ھؤا کرتا تھا- بعد میں یہ عمارت گورنمنٹ گرلز ھائی سکول کو دے دی گئی-
سکول میں میری کلاس کے اساتذہ ماسٹر نورمحمد، ماسٹر عبدالرحیم ، ماسٹر غلام حسین شاہ اور ماسٹرر غلام دستگیر شاہ تھے- ھمارے انگلش ٹیچر ماسٹر فیض محمد خان نیازی تھے-
میرے کلاس فیلوز میں مرحوم پروفیسر نجیب اللہ ھاشمی ، سید امداد حسین شاہ، عطامحمد ھرایا (( پولیس کے ڈی ایس پی ریٹائر ھو کر شیخو پورہ میں آباد ھو گئے)- لالاعیسی خیلوی کے بہنوئی عبدالرزاق خان عرف کالاخان (رنگ دودھ جیسا سفید تھا ، لوگ پھر بھی کالا خان کہتے تھے- خدا جانے اس میں کیا حکمت تھی ؟) اور کلور کے محمد اکرم میرے قریبی دوست تھے
25 مئی 2016

ذکر ھو رھا ھے اس خوبصورت دور کا جب ھم گورنمنٹ ھائی سکول عیسی خیل میں ساتویں کلاس میں پڑھتے تھے- نجیب اللہ ھاشمی، عطاھرایا، عبدالرزاق خان عرف کالاخان ،امدادحسین شاہ بخاری اور کلور کے محمد اکرم صاحب پر مشتمل میرے حلقہ احباب نے ایک خوبصورت روایت یہ قائم کی کہ ھرماہ ھر دوست کے گھر پر چائے کی دعوت (ٹی پارٹی) ھوتی تھی – دن ھم پہلے سے طے کر لیتے تھے-
ٹی پارٹی میں چائے کے علاوہ بسکٹ ، مٹھائی اور پکوڑے ھؤا کرتے تھے- عیسی خیل میں کوئیی بیکری نہ تھی، اس لیے ڈبوں میں بند بسکٹ استعمال ھوتے تھے- رائل کریم اور بے بی کریم نام کے یہ بسکٹ بہت لذیذ ھوتے تھے، یا شاید ھمیں اسلیے بہت لذیذ لگتے تھے کہ ان کے علاوہ کبھی کچھ اور کھانے کو ملا نہیں تھا-
مٹھائی کی دودکانیں مین بازار میں تھیں – ایک تو چاچے چاچی کی دکان تھی ، یہ دونوں بزرگگ میاں بیوی برفی بناتے تھے- بچے تلاش معاش میں جاکر دوسرے شہروں میں آباد ھو گئے تھے- اس لیے چاچے اور چاچی کو اپنی روزی خود کمانا پڑتی تھی- دوسری دکان میں ًمختلف قسم کی مٹھائی ملتی تھی- کوالٹی بس گذارہ ھی تھی-
باقاعدہ ماھانہ ٹی پارٹیوں کے علاوہ ھم کبھی کبھی ایک اور عیاشی بھی کر لیا کرتے تھے- ھفتے میںں ایک آدھ بار لالا کالا خان اپنے گھر سے حلوے کی ٹکیاں چرا کر لے آتا تھا جو ھم سکول کی چھٹی کے بعد پیر عادل شاہ کے قبرستان میں بیٹھ کر کھایا کرتے تھے- قبرستان میں اس لیے کہ بابا عادل شاہ کے مزار کے ساتھ ھی امداد شاہ کا گھر تھا، چائے ادھر سے مل جاتی تھی-
آپ سب کالالا عیسی خیلوی اس وقت دوسال کا ھوگا (مجھ سے دس سال چھوٹا ھے) – اسس وقت پتہ نہیں کیا گایا کرتا تھا، کبھی پوچھ کر بتاؤں گا-
26 مئی 2016

گورنمنٹ ھائی سکول عیسی خیل میں اس وقت تعلیم کا معیار یہ تھا کہ لکی مروت کے بہت سے طلبہ بھی اس سکول میں پڑھتے تھے- اس کے علاوہ کمر مشانی اور داؤدخیل کے کچھ طلبہ بھی تھے، دوسرے شہروں کے یہ طلبہ سکول کے بورڈنگ ھاؤس (ھاسٹل) میں رھتے تھے- ھاسٹل کے سپرنٹنڈنٹ سکول کے عربی ماسٹر مولانا شیر محمد خان تھے ،جنہیں لوگ مولوی عربی کہا کرتے تھے-
ماسٹر صاحب بنوں کے علاقے کے پشتون پٹھان تھے- میرے والد صاحب کی ان سے دوستیی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ والد صاحب پشتو بہت روانی سے بول لیتے تھے، انہیں کبھی کسی پشتون سے اردو یا سرائیکی میں بات کرتے نہ دیکھا- ان کی دوستی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں بزرگ شکار کے بہت شوقین تھے- زیادہ تر نواب غلام قادر خان کے باغ میں تلیئر، کبوتر، فاختہ وغیرہ شکار کیا کرتے تھے-
ایک دن والد صاحب نے ماسٹر صاحب سے مرغابی کے شکار پہ جانے کا کہا تو ماسٹرصاحب ہنس کرر بولے، “ ملک صاحب ، مرغابی کا شکار کرنے کے لیئے پہلے ایک فائر ماسٹر صاحب علی قریشی کو مارنا پڑے گا، اس اللہ کے بندے کو کچھ دکھائی تو دیتا نہیں ، پھر بھی صبح سویرے بندوق لے کر گھر سے نکل جاتا ھے اور آٹھ دس فائر پھونک کرسارے علاقے سے مرغابیوں کو بھگا دیتا ھے
ماسٹر صاحب علی قریشی مولوی صاحب کے بے تکلف دوست تھے ، اس لیے ان کی باتوں کا براا نہیں مانتے تھے-
مولوی صاحب پرندوں کی نفسیات کے بھی ماھر تھے- ایک دن تلیئر کے بارے میں فرمایا ““ تلیئر ایسا پرندہ ھے کہ ایک کو گولی لگ جائے تو اس کے ساتھ تین چار اور بھی یہ سمجھ کر گر جاتے ھیں کہ شاید ھمیں بھی گولی لگ گئی ھے“ –
اللہ بخشے کیازندہ دل لوگ تھے- بہت یاد آتے ھیں سب -27 مئی 2016

عیسی خیل سے اپنے تعلق کی داستان میں سے کچھ منتخب واقعات آپ کو بتادیئے- اب صرف “پبلک کے پرزوراصرار پر” لالا سے اپنے تعلق کاذکر کرناھے- اس موضوع پر تو ایک پوری کتاب (دردکاسفیر) پہلے ھی لکھ چکا ھوں – وہ تمام باتیں پوسٹس کی شکل میں دہرانے کی نہ ضرورت ھے ، نہ فرصت ، نہ ھمت- کتاب کا تیسرا ایڈیشن انشاءاللہ عید کے بعد آجائے گا- فی الحال آپ کی مسلسل فرمائش کالحاظ کرتے ھوئے کل سے دو تین پوسٹس میں لالا کے حوالے سے کچھ باتیں لکھ دوں گا، پھر اس کے بعد آپ کو میانوالی لے چلوں گا- لیکن راستے میں میرا گھر داؤد خیل بھی آتا ھے- کچھ دیر دنیا کے اس سب سے خوبصورت شہر میں بھی رکنا ھوگا- مسکرائیے نہیں ، میرے لیئے تو یہ واقعی دنیا کا سب سے خوبصورت شہر ھی ھے- میں نے درد کا سفیر میں بھی یہی لکھا تھا-
ویسے تو میں داؤدخیل کے بارے میں اپنی آپ بیتی میں بہت کچھ لکھ چکا ھوں ، اور اب بھی لکھ رھاا ھوں- میری آپ بیتی “کوئی ھے“ کے عنوان سے معروف سہ ماھی ادبی رسالہ “سویرا“ میں قسط وار شائع ھو رھی ھے- دو قسطیں آ چکی ھیں، تیسری لکھ رھاھوں- وہ کتاب انشاءاللہ الگ شائع ھوگی، لیکن کچھ وقت لگے گا-
یہ پوسٹس والا سلسلہ تو میں نے ویسے ھی شغل کے طور پرشروع کیا تھا- پھرآپ کی دلچسپی دیکھ کرر اسے مسلسل کر دیا- سو سے زائد پوسٹس آ چکی ھیں- شاید اتنی ھی اور بن جائیں- پھر ان سب کو بھی ایک کتاب کی شکل میں چھپوا دوں گا، تاکہ آپ کی آئندہ نسلیں بھی میرے تجربات و مشاھدات سے کچھ اچھی باتیں سیکھ لیں- کچھ اور سیکھیں نہ سیکھیں ، کم ازکم اچھی اردو لکھنا تو سیکھ جائیں گی- اور آج کے دور میں یہ بھی کوئی معمولی بات نہیں۔ — اللہ خیر کرے -28 مئی 2016

لالا سے تعارف تو عیسی خیل میں تقرر سے ایک سال پہلے ھو چکا تھا- تقرر کے بعد تعارف پہلے رسم و راہ اور پھر مستقل دوستی میں بدل گیا، جو آج بھی برقرار ھے-
لالا کا ذریعہ معاش اس زمانے میں “الصدف“ نام کا چھوٹا سا جنرل سٹور تھا، جو عیسی خیل کے مینن بازار میں واقع تھا- گھر سے آنے جانے کے لیے سہراب سائیکل تھی- مگر لالا کو اس پر سوار ھوتےکبھی نہ دیکھا- گھر سے دکان تک آتے جاتے لالا اسے اپنے ساتھ “ٹور“ کر لایا کرتا تھا-
لاھور کی شاہ علم مارکیٹ سے دکان کا سامان خریدنے کے لیے لالا ھر ماہ بس پہ آیا جایا کرتا تھا- اتنیی سادہ اور غریبانہ زندگی پر بھی لالا نے کبھی تقدیر کا شکوہ نہیں کیا- وہ اس زندگی پر بھی خوش اور مطمئن تھا- اس نے کبھی بڑا آدمی بننے کا دعوی نہیں کیا – کبھی کوئی سنہرے مستقبل کا خواب نہیں دیکھا- یا کم از کم کبھی کوئی ایسا خواب اس نے ھم سے شیئر نہیں کیا- وہ دن بھر دکان پر رھتا، کاروبار ھو نہ ھو شام سے پہلے دکان بند نہیں کرتا تھا-
گلوکاری کا شوق تو لالا کو تھا ، ھر رات گھر پہ میکدے میں محفل لگایا کرتا تھا، مگر یہ بات اس کے خوابب وخیال میں بھی نہ تھی کہ یہی گلوکاری بہت جلد اس کے لیے عزت، دولت اور دنیا بھر میں شہرت کا ذریعہ بن جائے گی- گلوکاری تو وہ ایک پرندے کی طرح کسی لالچ کے بغیر اپنی فطرت سے مجبور ھو کر من کی موج کے طور پہ کرتا تھا- -29 مئی 2016

ادھر لالا اپنی غریبی پر صبر شکر کرکے “الصدف “ جنرل سٹور چلارھاتھا، اور ادھر اس کا رب رحیم و کریم اس کے لیئے عزت ، دولت اور عالمگیر شہرت کی راھیں ھموار کر رھا تھا- پھر دیکھتے ھی دیکھتے اچانک — یہ قصہ بعد میں سناؤں گا فی الحال کچھ احوال میکدے کا —–
ھمارا میکدہ سچ مچ کا میکدہ نہیں تھا- پینے کو تو وھاں عیسی خیل کے مشہور و معروف گھڑوں کا پانی ملتا تھا– میکدہ دراصل اس کمرے کا نام تھا جہاں ھر رات لالا موسیقی کی محفل سجایا کرتا تھا-
ان دنوں لالا یہ گیت گایا کرتا تھا
یونس خان کا “کالا شاہ بدلا،
کرکر منتاں یاردیاں
شالا رج رج مانڑیں سجن میڈا
جس ڈینہہ دا توں پننڑاں نکھڑ گیاایں
مجبور صاحب کے گیت ———
بوچھنڑاں میں توں یار نہ کھس وے
مار نہ چھنڈیاں
ڈھولا وے چانجھلا
ایہا داغ قبر گھن ویساں
قمر جلالوی کی غزل “ کب میرا نشیمن اھل چمن گلشن میں گوارا کرتے ھیں
ایک اور خوبصورت غزل “ انہیں قصہ غم جو لکھے کو بیتٹھے ——–
عدم کی غزل “ جو بھی تیرے فقیر ھوتے ھیں، آدمی بے نظیر ھوتے ھیں
ًمحمد رفیع کے گیت ———–
کوئی مجھ سے پوچھے کہ تم میرے کیا ھو
یاد میں تیری جاگ جاگ کے ھم
مجھے لے چلو آج پھر اس گلی میں
لتا منگیشکر کا گیت َ “ وہ دل کہاں سے لاؤں تیری یاد جو بھلادے“
میری غزل “ لوگ کہتے ھیں کہ گلشن میں بہار آئی ھے “
کچھ اور انڈین فلمی گیت بھی تھے، اب یاد نہیں آرھے30 مئی 2016

میکدہ کے مستقل حاضرین ماسٹر وزیر ، لالا کے قریبی رشتہ دار محمد احسن خان، ملک شفا اور عتیل تھے- فدا نام کا بہت مخلص بھولا بھالا سا نوجوان بھی تھا، بہت عرصہ سے نہیں دیکھا –
1975 سے میں اس محفل میں شامل ھؤا- پھر نورمحمد دیوانہ، چاچا اسلم نیازی اور موسی خیلل کے لالا یوسف خان بھی ھمارے مستقل ساتھی بن گئے- لالا یوسف خان نیشنل بنک کے مینیجر تھے- بہت عرصہ ھؤا ریٹائر ھو کر بھکر جا بسے تھے- پچھلے دنوں کسی نے بتایا کہ وہ بھی یہ دنیا چھوڑگئے- اللہ مغفرت فرمائے، بہت پیارے انسان تھے- نورمحمد دیوانہ اور چاچا اسلم نیازی تو بہت پہلے چلے گئے تھے-
ان مستقل حاضرین کے علاوہ لالا کے رشتہ دار آعجاز خان اور فیض خان بھی اکثر آیا کرتے تھے– خداداد نامی ڈرائیور بھی تھا- وہ تو میرے قیام کے دوران ھی اللہ کو پیارا ھو گیاتھا- یہ سب کے سب بہت زندہ دل لوگ تھے- عیسی خیل میں رات بسر کرنے والی دو چار بسوں کے ڈرائیور اور کنڈکٹر حضرات بھی کبھی آجایا کرتے تھے-
اس وقت لالا کو صرف مرحوم یونس خان ، مجبور عیسی خیلوی، اور ناطق نیازی کا کلام میسر تھا- یہہ تینوں شاعر عیسی خیل کے تھے- کچھ عرصہ بعد کمر مشانی سے اظہر نیازی صاحب نے بھی کبھی کبھی آنا شروع کردیا، اور ان کا خوبصورت کلام بھی ھماری محفلوں کی زینت بن گیا- میں نے اس وقت تک سرائیکی میں لکھنا شروع نہیں کیا تھا — اردو شاعری کبھی کبھار کر لیتا تھا- سرائیکی گیت نگاری لالا کی فرمائش پر شروع کی -31 مئی 2016

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top