منورعلی ملک کےاکتوبر   2022 کےفیس بک  پرخطوط

میرا میانوالی- 

کل ایک دوست نے کہا کمرمشانی کے میلے کا ذکر تو آپ نے کردیا، ہر ہفتے منگل کے دن ایک میلہ عیسی خیل میں بھی ہوتا ہے، اُس کے بارے میں بھی کچھ کہیں ——
سچی بات تو یہ ہے کہ کمر مشانی کے میلے کے مقابلے میں عیسی خیل کا منگل والا شو میلہ نہیں چھوٹی سی میلی ہے – بازار کے دکاندار منگل کے دن اپنا مال نیشنل بنک کے سامنے سڑک کے پار سجا دیتے ہیں – چیزیں بھی وہی قیمتیں بھی وہی ، مجھے تو اس میلے کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا – ہاں شاید ثوابِ دارین ملتا ہو ، کیونکہ ہمارے عربی کے پروفیسر بھائی اشرف علی کلیار صاحب اور اسلامیات کے پروفیسر منیر حسین بھٹی صاحب بڑے خشوع و خضوع سے میلے میں حاضری دیتے تھے – یہ معلوم نہیں وہاں سے خریدتے کیا تھے ،کیونکہ مجھے میلے میں حاضری کی توفیق کبھی نصیب نہ ہوئی –
میلے میں باقی سامان تو وہی بازار والا ہوتا تھا ، البتہ سبزی کی ایک کھوتا ریہڑی پتہ نہیں کہاں سے آجاتی تھی – اس کا مال خُوب بِکتا تھا —– میلہ جیسا بھی تھا ، عیسی خیل کے لوگ بڑے فخر سے کہا کرتے تھے “ منگل تے ویندے پئے ہاں“ مطلب میلے میں جا رہے ہیں – اُنہوں نے میلے کا نام ہی منگل رکھا ہوا تھا – بھولے بادشاہ لوگ ہیں اللہ سلامت رکھے-
عیسی خیل کے دوست ناراض نہ ہوں ، عیسی خیل صرف ان کا نہیں ، میرا بھی ہے – زندگی کا خاصا حصہ اسی شہر میں بسر ہوا – آج لکھتے وقت ہنسی مذاق کا مُوڈ بن گیا تو اس انداز میں لکھ دیا – کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے – ویسے جو کُچھ بھی لکھا ، ہے حقیقت – تھوڑا بہت مرچ مصالحہ پیار میں جائز ہے –
جس دور کا ذکر میں نے کیا اس وقت میلے کے حالات یہی تھے ، اب حالات شاید کچھ بہتر ہوں۔
———————– رہے نام اللہ کا ———————–—— منورعلی ملک ——١اکتوبر2022

میرا میانوالی- 

لو جی ، کوٹ چاندنہ والوں نے بھی فرمائش کر دی کہ خدوزئی اور جلالپور کا ذکر ہوا تو اس ترتیب کے لحاظ سے اگلا نمبر کوٹ چاندنہ بنتا ہے – کُچھ ذکر ہمارا بھی ہونا چاہیئے –
جناح بیراج کے راستے میانوالی سے عیسی خیل جائیں تو جناح بیراج سے آگے پہلا گاؤں کوٹ چاندنہ راہ میں آتا ہے – کوٹ چاندنہ کی شہرت کا اصل سبب یہاں کا پیِر گھرانہ ہوا کرتا تھا – پیر فخرالزماں شاہ صاحب علاقے کے برگزیدہ بزرگ تھے – علاقے کے ہزاروں لوگ اُن کے مرید تھے – علاقے کے علاوہ بھی مُلک بھر سے لوگ اس سرچشمہ ء رُوحانیت سے فیض یاب ہوتے تھے – پیر فخرالزماں صاحب تقوی اور سادگی میں اپنی مثال آپ تھے – ان کا نہ کوئی دربار تھا ، نہ شاہانہ کروفر – لباس اور بول چال میں پیر صاحب اور مریدوں کے درمیان کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا ، لیکن علم و تقوی کی بنا پر اُن کا قول سند سمجھا جاتا تھا – ریڈیو ، ٹی وی کی آمد سے پہلے علاقے کے لوگ رمضان المبارک اور عیدالفطر کے روئیت ِ ہلال (چاند دیکھنا) کی تصدیق کے لیئے کوٹ چاندنہ کے پیر صاحب سے فتوی لیا کرتے تھے جسے روئیت کہتے تھے –
کوٹ چاندنہ کی شہرت کا دوسرا سبب افغان مہاجرین کا کیمپ ہے – یہ پاکستان میں افغان مہاجرین کا اولیں کیمپ تھا جو 1970 -80 میں افغان جہاد کے دور میں قائم ہوا – کوٹ چاندنہ شہر کے شمال میں واقع یہ کیمپ ایک اچھا خاصا شاپنگ سنٹر ہوا کرتا تھا جہاں کلاشنکوف سے لے کر کپڑے تک رُوسی مصنوعات مناسب قیمتوں پر دستیاب تھیں – ہم پروفیسر لوگ بھی شاپنگ کے لیئےمیانوالی سے کوٹ چاندنہ جایا کرتے تھے –
افغان کلچر کے مطابق وہاں فرشی ہوٹل بھی تھے جہاں لوگ قالین پر بیٹھ کر کھایا پیا کرتے تھے- ایک دفعہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کے لیئے میں ڈرم کی ٹونٹی کھولنے لگا تو ہوٹل کا ملازم بھاگتا ہوا آیا اور کہنے لگا “صاب ، دا یَخنئے دا“ ( صاحب جی ، اس میں پانی نہیں یخنی ہے) – گائے کے گوشت کی وہ گرماگرم لذیذ یخنی کھانے کے ساتھ سُوپ کی طرح استعمال ہوتی تھی –
کوٹ چاندنہ کے ماسٹر دوست محمد صاحب میرے بابا جی کے بہت قریبی دوست تھے — ماسٹر عمر حیات خان میرے جگر تھے – بہت بھولے بھالے زندہ دل انسان تھے ۔ ہروقت ہنستے ہنساتے رہتے تھے –
گُذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
——————- رہے نام اللہ کا ——————-—— منورعلی ملک ——٢ اکتوبر2022

میرا میانوالی- 

ویسے تو آج سے چند سال پہلے اپنے علاقے کے ان سب شہروں اور دیہات کے بارے میں لکھ چُکا ہوں ، جن کا ذکر ایک بار پھر چھڑ گیا – میری پوسٹس کے پرانے قارئین شاید یہ کہیں کہ سر ، یہ تو وہی جگہ ہے گُذرے تھے ہم جہاں سے
مگر میرا جواب یہ ہے کہ وہ جو کسی شاعر نے کہا تھا ————
کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
مجھے تو ان دیکھی بھالی جگہوں اور جانے پہچانے لوگوں کے بارے میں بار بار لکھنا بُرا نہیں لگتا – فیس بُک کو شہرت کا وسیلہ بنانے کی مجھے ضرورت نہیں – الحمد للہ رب کریم نے دُوسرے حوالوں —— شاعری ، انگریزی میں کالم نگاری اور انگریزی ، اردو کی درجن سے زائد کتا بوں کی وجہ سے شہرت پہلے ہی اتنی عطا کر دی تھی کہ فیس بُک سے شہرت حاصل کرنے کی ضرورت ہی کبھی محسوس نہ ہوئی – یہاں تو میں اس لیئے لکھتا ہوں کہ اس کے بدلے میں مجھے دعائیں ملتی ہیں – ایک بات یہ بھی ہے کہ فیس بُک کی ان تحریروں کے ذریعے میں اپنے بچپن ، اپنے ماضی ، اپنے بچھڑے ہوئے دوستوں اور اپنے کلچر کی یادیں تازہ کرکے اپنا اور فیس بک کے ساتھیوں کا دل بہلا لیتا ہوں –
پارلی کندھی ( دریا پار) سے فرمائشوں کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا – ویسے تو کوٹ چاندنہ کے بعد کالا باغ کا ذکر ہونا تھا ، لیکن ترگ اور مکڑوال کے دوستوں نے یاد دلایا کہ ان دو شہروں میں بھی میری بہت آمدو رفت رہی ، اس لیئے ان کا ذکر بھی ہونا چاہیئے – مطالبہ جائز ہے –
بی ایڈ کا امتحان پاس کرنے کے بعد انگلش ٹیچر کی حیثیت میں میرا پہلا تقرر مکڑوال سکول میں ہوا – یہاں کشمیر کے شفیق الرحمن منہاس صاحب ہیڈ ماسٹر تھے – چکوال کے ملک اختر ، سلطان خیل کے ماسٹر عالم خان اور ماسٹر عجب شاہ ، اور ترگ کے سردار علی عباسی صاحب میرے ساتھی بھی تھے ، قریبی دوست بھی – ہیڈماسٹر صاحب نے اپنے آفس کے ساتھ والا کمرہ میری رہائش کے لیئے مختص کر دیا – سکول کے چپراسی چاچا عربستان خان ( عجیب سا نام ہے ، پنڈی کے رہنے والے تھے ) میری خدمت پر مامُور تھے – کھانے کا بندوبست میں نے مارکیٹ کے ایک ہوٹل پر طے کر لیا – پہلے ہی دن ناشتہ کرنے لگا تو داؤدخیل کے ماموں امیر قلم خان مجھے وہاں دیکھ کر سیدھے میری طرف آئے اور پُوچھا یہاں کیا کر رہے ہو ؟
میں نے بتایا کہ یہاں سکول میں میرا تقرر ہوا ہے اور کھانے کا بندوبست اسی ہوٹل پر کیا ہے – یہ سُن کر غصے سے دانت پیستے ہوئے بولے “ تمہیں شرم نہیں آتی ، اپنا گھر ہوتے ہوئے تم ہوٹلوں پہ دھکے کھاتے پھر رہے ہو- چلو میرے ساتھ — یہ کہہ کر وہ مجھے کالونی میں اپنے گھر لے گئے – اس کے بعد میں جب تک مکڑوال میں رہا ، کھانا پینا ماموں جان کے گھر پر ہی ہوتا رہا –
مکڑوال کے لوگ غریب ، سادہ مگر بہت مخلص اور خوش اخلاق تھے – میں تقریبا 6 ماہ وہاں رہا – ٹیچر اچھا تھا اس لیئے سٹوڈنٹس اور عام لوگ بھی بہت احترام کرتے تھے –
——————– رہے نام اللہ کا —-٣ اکتوبر2022

میرا میانوالی-  اپنا پرانا شعر۔۔۔۔
حبس آج ایسا تھا جیسے تیری خاموشی،
بادل اس طرح برسا تو ھو مہرباں جیسے-
٣ اکتوبر2022

میرا میانوالی-

اپنے شہروں اور دیہات کا تذکرہ تو ہوتا رہے گا ، آج ایک نہایت تشویشناک مسئلے پر بحث کا آغاز کرتے ہیں – مسئلہ ہے ہمارے میانوالی میں قتل کی وارداتوں میں ہولناک اضافہ –
ایک اخباری اطلاع کے مطابق اس سال یکم جنوری سے تیس ستمبر تک ہمارے ضلع میں قتل کے 60 واقعات ہو چکے ہیں – ستمبر میں 8 افراد قتل ہوئے –
یہ کیا ہورہا ہے ، کیوں ہو رہا ہے ؟؟ میرا میانوالی ایسا تو نہ تھا – بہت پرانے زمانے میں میانوالی قتل و غارت کے حوالے سے خاصا بدنام تھا ، لیکن رفتہ رفتہ لوگوں میں شعور پیدا ہوا تو قتل و غارت کے واقعات کی تعداد خاصی کم ہوگئی – بد قسمتی سے امن کا یہ دور عارضی ثابت ہوا – اور اب صورتِ حال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے – میرے خیال میں اس کی وجوہات یہ ہیں –
1. عدم برداشت
2. اسلحے کی فراوانی
3. دیرینہ دُشمنیاں
4. غربت
5. گھر، سکول اور مسجد میں تربیت کا فقدان
6. لُولا لنگڑا نظامِ انصاف
7. ناقص تفتیش
8. رشوت اور سفارش
9 . سیاسی درجہ ء حرارت میں اضافہ
ان نکات پر قارئین کو بحث کی دعوت دی جاتی ہے – خاص طور پر میرے قارئین میں شامل پولیس آفیسرز ، جج صاحبان ، ڈاکٹرصاحبان ، اساتذہ اور علمائے کرام سے
کارآمد تجاویز کی توقع ہے – ان شآءاللہ کل سے میں ان تمام نکات پر اپنی رائے کا اظہار کروں گا –
ویسے تو مُلک بھر میں امن و امان کی صورتِ حال نہایت تشویشناک ہے ،لیکن ہمیں سب سے پہلے اپنے گھر میں لگی آگ کو بُجھانا ہے –
——————— رہے نام اللہ کا ———٤ اکتوبر2022

میرا میانوالی- 

بڑھتی ہوئی قتل و غارت پر بحث میں کل بہت سے ساتھیوں نے حصہ لیا ، اس سے ظاہر ہوا کہ اس مسئلے کے بارے میں سب لوگ متفکر ہیں – میں نے اس سنگین مسئلے کے کُچھ اہم اسباب کی نشان دہی کی تھی- اُن کی تفصیل آج ہمارا موضوعِ بحث ہے –
عدم برداشت قتل جیسے گھناؤنے جُرم کا ایک بنیادی سبب ہے – اللہ جانے لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ، بیٹا باپ کی بات برداشت نہیں کرسکتا ، چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی بات نہیں مانتا ، بڑا بھائی چھوٹے بھائی کی غلطی نظرانداز نہیں کرتا – کبھی خبر آتی ہے بیٹے نے باپ کو قتل کردیا ، کبھی سُنتے ہیں بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کو موت کے گھاٹ اُتار دیا ، کبھی یہ خبر سُنائی دیتی ہے فلاں نے معمولی سی رنجش پر اپنے دوست یا قریبی رشتہ دار کو قتل کردیا –
باپ بیٹوں ، بھائیوں اور رشتہ داروں نے درمیان تنازعات پہلے بھی ہوتے تھے ، لیکن اس زمانے میں بات دست بدست لڑائی ( مُک چمیٹ) یا ڈانگ سوٹے سے آگے نہیں بڑھتی تھی – اب تو تقریبا ہر نوجوان پستول جیب میں ڈالے پھرتا ھے – ذرا بات بڑھی تو جیب سے نکال کر مخالف کو ( باپ ، بھائی ، دوست ، جو بھی ہو) ایک دو فائر کر کے فورا موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے – سوچنے کا وقت ہی نہیں ملتا – اسلحے کی اس فراوانی پر اگر قابو پالیا جائے تو قتل کی وارداتوں کی تعداد میرے خیال میں کم ازکم پچاس فی صد کم ہو جائے گی – کام آسان نہیں مگر عوام اور حکومت مل کر اس مسئلے پر غور کریں تو کوئی راہ نکل ہی آئےگی – لوگوں کو لڑنے سے تو نہیں روکا جا سکتا ، لیکن مرنے سے بچایا جا سکتا ہے –
ابھی اس موضوع کے کچھ پہلو غورطلب ہیں – اُن پر بات بعد میں ہوگی – فی الحال بحث عدم برداشت اور اسلحے کی فراوانی تک محدود رہنی چاہیئے –
——————— رہے نام اللہ کا —٥ اکتوبر2022

میرا میانوالی- 

سوشل میڈیا پہ آج اساتذہ کا دن TEACHERS DAY منایا جا رہا ھے، اس حوالے سے میرے سٹوڈنٹس کے محبت بھرے پیغام واٹس ایپ ، میسنجر اور فیس بُک کمنٹس کی صورت موصول ھو رہے ہیں۔ فردا فردا ہر پیغام کا جواب دینا ممکن نہیں، میری طرف سے میرے ان تمام بچوں کو وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔ اللہ کریم آپ کو سدا شاد و آباد رکھے۔
اس موقع پر میری طرف سے میرے تمام ٹیچرز کے لیئے یہ دعا کہ رب کریم آپ کو اپنی رحمت کا سایہ نصیب فرمائے۔میرے ٹیچرز میں سے صرف سر گل خان اس وقت دنیا میں موجود ہیں ، وہ سکندر آباد میں رہتے ہیں ، ان کے لیئے سلام اور یہ دعا کہ اللہ آپ کا حافظ و ناصر ھو٥ اکتوبر2022

میرا میانوالی- 

عدم برداشت کا جو علاج اللہ کریم اور رحمتہ للعالمین نے بتایا ہے اگر اس پر عمل کیا جائے تو قتل و غارت کی نوبت ہی نہ آئے گی — قرآنِ حکیم میں سؤرہ المزمل میں ارشاد ہوا “ جوکچھ وہ کہتے ہیں اس پر صبر کرو ، اور اچھے طریقے سے (لڑائی جھگڑے کے بغیر) اُن سے کنارہ کر لو“ –
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جو بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت نہ کرے وہ میری امت میں سے نہیں –
بہت سنہری اصول ہے – جب کسی سے جھگڑے کی نوبت آئے تو اگر مخالف آپ سے عمر میں بڑا ہے ، احتراما اُس پر ہاتھ نہ اُٹھائیں ، مخالف اگر آپ سے چھوٹا ہے تو یہ سوچ کر اُسے معاف کردیں کہ ہمارے آقا علیہ السلام نے چھوٹوں سے شفقت کا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے –
اگر قرآن حکیم اور رسولِ کریم کے ان ارشادات پر ایمان کامل ہو تو ان پر عمل کرنا مشکل نہیں – افسوسناک بات یہ ہے کہ اللہ اور رسول اللہ کے سامنے جواب دہی کا تصور ہمارے ذہن میں دُھندلا سا ہے – زیادہ تر لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ سے ہمارا لین دین صرف قیامت کے دن ہوگا ، “ آپے او وقت آسی تاں ڈیکھ گھِنساں“ — یہ بُھول جاتے ہیں کہ وہ چاہے تو اسی دُنیا میں عبرت ناک سزا دے سکتا ہے – ہمارے سامنے کئی لوگوں کو سزا ملتی بھی ہے ، مگر ہم اُس سے عبرت حاصل نہیں کرتے – اللہ قیامت کا پابند نہیں ۔ جب چاہے پکڑ لے –
سیدالانبیاء علیہم و علیہ السلام کا یہ ارشاد کہ جو بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت نہ کرے وہ میری امت میں سے نہیں ، کوئی معمولی بات نہیں – جو امت سے خارج ہوا دنیا اور آخرت میں تباہی اور بربادی اُس کا مقدر بن گئی – بزرگ صوفی شاعر نے کیا خُوب کہا
آکڑ خانی تے وڈیائی مُک جائے گی تیری
جس دن آکھیا پاک محمد ایہہ نئیں اُمت میری
پھر حساب کتاب نہیں ہوگا ، سیدھا جہنم جانا پڑے گا —- اللہ کریم ہمیں ان باتوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے –
————————– رہے نام اللہ کا —٦ اکتوبر2022

میرا میانوالی- 

قتل کی وارداتوں میں اندھا دُھند اضافے کی ایک بڑی وجہ ہمارا ناقص نظامِ انصاف ہے – جُرم ثابت ہونے کے بعد بھی یہ نظام مجرم کو سزا سے بچ نکلنے کے کئی مواقع فراہم کرتا ہے – سیشن جج کی عدالت سے سزائے موت کا حُکم جاری ہو بھی جائے تو اس کے بعد پہلے ہائی کورٹ ، پھر سپریم کورٹ میں اپیل کی گنجائش قانون مہیا کرتا ہے- سپریم کورٹ سے بھی اپیل مسترد ہو جائے تو صدرمملکت کے پاس معافی کا اختیار موجود ہے – ان تین چار مرحلوں میں سے کسی ایک پر زیادہ تر مجرم رہا ہو جاتے ہیں بمشکل دس پندرہ فی صد مجرموں کو سزائے موت ملتی ہے – بقیہ مجرم یا تو رہا ہوجاتے ہیں یا ان کی سزائے موت عُمر قید میں تبدیل ہوجاتی ہے –
مجرم رہا ہوجانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مقتول کے وارث خود انتقام لینے کے لیئے قاتل یا اُس کے باپ ، بیٹے یا بھائی کو قتل کر دیتے ہیں – یُوں نسل در نسل قتل در قتل کا سلسلہ کبھی ختم ہونے میں نہیں آتا –
سزا کا حُکم جاری ہونے کے بعد صُلح کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں ، مگر ایسی صلح اکثر پائدار نہیں ہوتی – صلح جھگڑے کے آغاز میں قتل کی نوبت آنے سے پہلے ہونی چاہیئے –
ایک غلط رواج ہمارے ہاں یہ بھی ہے کہ قتل کا مقدمہ درج کراتے وقت حقیقی قاتل کے علاوہ اُس کے باپ یا بھائیوں ، چاچوں ، ماموں کو بھی شریک جُرم لکھوا دیا جاتا ہے- اس طرح کیس کمزور ہوجاتا ہے – اتنے لوگوں کا عملی طور پر قتل میں ملوث ہونا ثابت نہیں ہو سکتا ، شک کی بنا پر سب بری ہو جاتے ہیں –
رشوت اور سفارش استعمال کرکے تفتیش ناقص بنا دی جاتی ہے- اس کے نتیجے میں بھی بہت سے مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں –
جہاں سزا سے بچنے کی اتنی سہولتیں موجود ہوں وہاں جُرم کرنا آسان ہوجاتا ہے – نظامِ تفتیش اور نظامِ انصاف میں انقلابی تبدیلیوں کے لیئے مؤثر قانون سازی بہت ضروری ہے ، ورنہ یہ آگ یوں ہی بھڑکتی رہےگی , گھر جلتے رہیں گے ، لوگ مرتے رہیں گے –
———————— رہے نام اللہ کا —-٧ اکتوبر2022

میرا میانوالی-

اپنا پرانا سرائیکی شعر۔۔۔۔۔۔
چھوڑ بھلا ہک وعدہ کر کے،
اجڑ ونجاں تاں جیونڑں ڈیسیں

میرا میانوالی-

طلع البدر علینا۔۔۔
یہ وہ استقبالیہ الفاظ ہیں جو مدینہ منورہ کی بچیوں نے سیدالمرسلین علیہ وعلی آلہ وسلم کی مدینہ آمد پر کہے تھے۔ ان کا مفہوم یہ ھے کہ ہمارے ہاں چاند نکل آیا ھے۔

٨ اکتوبر2022

میرا میانوالی-  –

مکہ مکرمہ کے اس مقدس گھر میں 12 ربیع الاول کو وہ چاند طلوع ھوا ، جس کی روشنی قیامت تک اور قیامت کے بعد بھی ہمیشہ قائم و دائم رہے گی۔
صلی اللہ تعالٰی علی رسولہ الکریم۔  ٨ اکتوبر2022

میرا میانوالی-

چلتے ہیں واپس اُن شہروں اور گلیوں کی طرف جن کا ذکر چند روز پہلے شروع کیا تھا – خدوزئی سے بات شروع ہوئی تھی ، پھر جلالپور اور کوٹ چاندنہ سے ہوتی ہوئی کمر مشانی کے راستے مکڑوال جا پہنچی تھی – آج ذکر ہوگا ترگ کا –
ہر شہر میں میرا حلقہء احباب اپنی فیلڈ کے لوگوں ( ٹیچر اور پروفیسر صاحبان) تک محدود رہا – ترگ پہلی بار 1970 میں ہیڈماسٹر عمر حیات خان صاحب کی دعوت پر سکول کی ایک تقریب میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے جانے کا موقع ملا –
ترگ ، میانوالی عیسی خیل روڈ پر کمر مشانی اور عیسی خیل کے درمیان واقع ہے – پارلی کندھی کی روایت کے مطابق ترگ کے لوگ بھی سراپا محبت ہیں – تقریب میں شمولیت ترگ میں کئی پائدار دوستیوں کا وسیلہ بن گئی – ٹیچرز میں سے ہیڈماسٹر صاحب کے علاوہ حاجی احمد خان صاحب ، امان اللہ خان صاحب ، دوست محمد شاہ صاحب اور ماسٹر عالم خان صاحب دوستوں کے شمار میں سرِفہرست ہیں –
کسی زمانے میں جب میں گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خیل کی ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا ترگ کے غلام دستگیر شاہ صاحب ہمیں سائنس پڑھاتے تھے – بہت نفیس مزاج اور قابل ٹیچر تھے – ترگ شہر سے میرے عیسی خیل اور میانوالی کالج میں سٹوڈنٹس کی تعداد تو بے شمار ہے – میرے سب سے پرانے سٹوڈنٹ ملک فیض تھے – گورنمنٹ کالج میانوالی میں ترگ سے نیاز محمد میری ایم اے انگلش کی کلاس کے نمایاں سٹوڈنٹ تھے – نمایاں ہونے کی ایک وجہ ان کی خوبصورت گلوکاری بھی تھی – آج کل کسی سکول میں ٹیچر ہیں – ٹبہ شریف کے صاحبزادہ بشیر احمد صاحب بھی گورنمنٹ کالج میانوالی میں میرے بی اے کے سٹوڈنٹ رہے – بہت مؤدب اور خوش اخلاق نوجوان ہیں –
حال ہی میں ظہوراحمد صاحب سے تعارف ہوا – باکمال خوشنویس ، بہت اچھے ٹیچر اور شاعر بھی بیں –
——————— رہے نام اللہ کا ———————-—— منورعلی ملک ——١٠ اکتوبر2022

میرا میانوالی-

بیٹری والا ریڈیو ———-
دیہات میں بجلی کی آمد سے پہلے بیٹری والا ریڈیو استعمال ہوتا تھا – یہ اچھا خاصا بھاری بھرکم ٹی وی کے سائیز جتنا ہوتا تھا – اس کی بیٹری بھی پانچ سات کلو وزن کا گتے کا بنا ہوا ڈبہ ہوتی تھی – بیٹری تقریبا تین ماہ چلتی تھی –
ہالینڈ کی کمپنی فلپس ، برطانیہ کی مرفی اور جرمنی کی کمپنی گرنڈگ کے ریڈیو بہت مشہور و مقبول تھے – ہمارے داؤدخیل میں سب سے پہلا ریڈیو ٹھیکیدار محمد زمان خان بہرام خیل نے خریدا تھا – دُوسرا میرے بڑے بھائی ملک محمد انور علی سرگودھا سے لائے تھے – شہر میں تیسرا ریڈیو حق داد خان نمبر دار کے ہاں تھا –
ریڈیو کا مقبول ترین پروگرام “آپ کی فرمائش“ تھا – فلمی گانوں پر مشتمل یہ پرگرام ہر اتوار کو دن بارہ سے ایک بجے تک چلتا تھا – یہ پروگرام سامعین کی طرف سے خط میں بھیجی گئی فرمائشوں سے مرتب کیا جاتا تھا – ہر گیت سے پہلے اُس گیت کی فرمائش کرنے والے افراد کے نام اور اُن کے شہروں کے نام بتائے جاتے تھے – اس پروگرام میں دس بارہ گیت ہوتے تھے – ان میں سے سات انڈین اور تین چار پاکستانی ہوتے تھے –
مدھر موسیقی اور سُریلی آوازوں کے لحاظ سے انڈین گیت زیادہ مقبول تھے – محمد رفیع ، طلعت محمود ، لتا منگیشکر اور شمشاد بیگم اس دور کے مقبول ترین انڈین گلوکار تھے – ہمارے ہاں نُورجہاں ، زبیدہ خانم ، سلیم رضا ، عنایت حسین بھٹی اور منیرحسین مقبول ترین پاکستانی فلمی گلوکار تھے – مگر پاکستانی موسیقی میں اتنی جان نہ تھی کہ انڈین موسیقی کا مقابلہ کر سکتی ، اس لیئے انڈین گیتوں کی فرمائشیں زیادہ ہوتی تھیں – “آپ کی فرمائش “ پروگرام سننے کے لیئے محلے بھر کے لوگ ہماری چونک پر جمع ہوجاتے تھے – عجیب بات یہ ہے کہ چِٹے اَن پڑھ لوگ اُردو کے گیت بڑے شوق سے سُنتے بھی تھے سمجھ بھی لیتے تھے –
ریڈیو پاکستان پشاور سے ہر پندرہ دن بعد شام پانچ بجے “میانوالی کے گیت “ کے عنوان سے پندرہ بیس منٹ کا ایک پروگرام نشر ہوتا تھا – یہ پروگرام ریڈیو پاکستان پشاور کے سٹیشن ڈائریکٹر سجاد سرور نیازی نے شروع کیا تھا – سجاد سرور نیازی بعد میں ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل کے منصب پر بھی فائز رہے – میانوالی کے گیت پروگرام میں عیسی خٰیل کے استاد امیتاز خالق ، داؤدخیل کے گُلستان خان اور مُوسی خٰیل کے گُل جہان خان میانوالی کے گیت پیش کرتے تھے – تینوں بہت سُریلے گلوکار تھے-
گُذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ———————– رہے نام اللہ کا –  –١١ اکتوبر2022

میرا میانوالی-

بڑی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں اس شہر سے – ہمارے بچپن اور جوانی کے دور کی حسین یادیں – دریائے سندھ کے ماتھے کا جھومر کالا باغ شہر ہمارے علاقے کا واحد شاپنگ سنٹر ہوا کرتا تھا ، داؤدخیل سے لے کر جلالپور اور شمال میں تبی سر تک چالیس پچاس مربع میل کے علاقے میں روزمرہ ضرورت کی چیزیں کالاباغ ہی سے دستیاب ہوتی تھیں –
ہر قسم کا کپڑا ، جُوتے ، چاندی کے زیورات ، ایلومینیئم ، مٹی اور چینی کے برتن کالاباغ کے مین بازار سے ملتے تھے – لوہاراں والے بازار میں گھریلو استعمال کا لوہے کا سامان توے ، کڑاہیاں ، شُپیتے (کڑاہی کا چمچ) ، تین ٹانگوں والے لوہے کے چُولہے ۔ چُھریاں ، چاقُو ، کلہاڑیاں ، زرعی اوزار درانتیاں ، رنبھے (کُھرپے) بیلچے ، ہل کے پھالے وغیرہ بنتے تھے۔ کھجور کے پتوں کے بنے ھوئے دستی پنکھے، چٹائیاں ، مصلے (جانمازیں) وغیرہ سب کُچھ کالا باغ میں بنتا تھا –
شادی بیاہ کے موقع پر جہیز کا مکمل سامان کالاباغ سے خریدا جاتا تھا – لوہے کا سامان میانوالی کے لوگ بھی یہیں سے خریدتے تھے – سادہ سا مین بازار پولیس چوکی سے شروع ہو کر تقریبا آدھاکلومیٹر مشرق کی سمت لوہاراں والے بازار سے جا ملتا تھا- نقشہ اب بھی وہی ہے ، مگر کاروبار اور لوگ بدل گئے –
چاچا اللہ وسایا کا ہوٹل ، محمد امین کی مٹھائی کی دکان ، چاچا پَشُو ، چاچا ابراہیم اور چاچا فقیرمحمد کی جُوتوں کی دکانیں ، عبدالرحیم پراچہ کا میڈیکل سٹور ، ہمارے جگر کرم اللہ پراچہ کے والد کے نام پر امان اللہ اینڈ سنز کا تیل کا کاروبار اور لیوربرادرز کی صابن اور ڈالڈا گھی وغیرہ کی ایجنسیاں ، حکیم سید منورحسین شاہ بخاری کا کلینک ، شفاءاللہ کا جنرل سٹور ، پی ٹی ماسٹر احمد بخش صاحب کا ہوٹل مین بازارکے اہم کاروباری مرکز تھے –
لوہاراں والے بازار میں ماما مظفر المعروف ماما مکھی کا چائے کا ہوٹل جس میں صرف دو گاہک پیڑھیوں پر بیٹھ کر چائے پی سکتے تھے – کیا زبردست چائے ہوتی تھی کوئلوں کی آگ پر تام چینی کی چینک ( چائے دانی ) میں بنی ہوئی –
اسی بازار کے مشرقی کنار ے پر اندھیری گلی کی نُکڑ پر محمد امین کی مشہورومعروف دودھی والے حلوے کی دکان ہوتی تھی —– سب کُچھ بدل گیا – اپنا شعر یاد آرہا ہے ۔۔۔۔۔
کہنا ، تیرے بعد وطن پردیس ہوا ہے
شہر وہی ہے لوگ پرائے ، اُس سے کہنا
——————- رہے نام اللہ کا  –١٣ اکتوبر2022

میرا میانوالی-

محترمہ بے نظیر بھٹو جب پہلی دفعہ وزیر اعظم بنیں تو کالاباغ کے دورے کے دوران انہوں نے کہا میں نے ساری دُنیا دیکھی ہے ، مگر کالاباغ جیسا خُوبصورت SUNSET (سُورج غروب ہونے کا منظر ) کہیں نہیں دیکھا –
بات سو فیصد درست ہے – کیا عجیب رُوح پرور منظر ہوتا ہے – جن لوگوں نے یہ منظر دیکھا ہو وہ سب اس بات کی تصدیق کریں گے – دریا کے کنارے کھڑے ہو کر دیکھیں تو کالا باغ پُل اور چند میل آگے جناح بیراج کے اُوپر سے ہو کر سُورج دریا میں اُترتا نظر آتا ہے – رنگ و نُور کا ایسا سماں ہوتا ہے کہ انسان بے ساختہ پُکار اُٹھتا ہے “سبحان اللہ“-
صرف غروبِ آفتاب نہیں ، طلوعِ آفتاب کا منظر بھی اتنا ہی دلکش ہوتا ہے – ایک دفعہ لوہاراں والے بازار کے جنوبی سِرے پر دریا کے کنارے مسجد میں فجر کی نماز ادا کرنے کےبعد میں مسجد کے صحن میں کھڑے ہوکر دریا کا نظارہ دیکھنے لگا – مشرق کی جانب کُکڑانوالہ کے عقب میں پہاڑ کے پیچھے سے سُورج پُورے جاہ و جلال کے ساتھ نمودار ہوا- یُوں لگتا تھا آسمان سے نُور کی مُوسلا دھار بارش دریا پر برس رہی ہے – پاگل کر دینے والا منظر تھا – دل بے ساختہ پکار اُٹھا “ سبحان اللہ! “
عید گاہ سے لوہاراں والے بازار تک مین بازار کے متوازی کالاباغ کی سبزی منڈی ہے – سبزیوں کے علاوہ بہار کے موسم میں خود رو جنگلی پھل میٹھے خوش ذائقہ بیر ۔ پیلُو اور پِیلُو جیسا ایک سیاہ رنگ کا پھل گُرگُرا ، سبزلمبے میٹھے شہتوت اور کُچھ دن بعد ٹولہ کے مشہورو معروف لذیذ ، خوشبودار ، شہد جیسے میٹھے خر بوزے بھی کالاباغ سبزی منڈی کی خاص سوغات ہیں – گلاب اور موتیئے کے پھولوں کے ڈھیروں ہار بچوں اور نوجوانوں کی خصوصی توجہ کا مرکز بنتے ہیں —- ہمارے بچپن کے دور میں جو بھی بچے اور نوجوان کالاباغ جاتے بڑے فخر سے گلاب اور موتیئے کے ہار گلے میں ڈال کر واپس آتے تھے – موتیئے کی ایک لڑی کلائی پر بھی گھڑی کی طرح لپیٹ لیتے تھے –
گُذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
———————– رہے نام اللہ کا  –١٤ اکتوبر2022

میرا میانوالی-

بعض چھوٹی چھوٹی بستیوں میں رہنے والے باکمال کاریگر ان بستیوں کی شہرت کا سبب بن جاتے ہیں – کالاباغ کے بالمقابل دریائے سندھ کے جنوبی کنارے پر ماڑی شہر بھی ایک ایسی ہی بستی ہے – یہ ہزارہاسال پُرانا شہر ضلع میانوالی کی قدیم ترین بستیوں میں شمار ہوتا ہے – کسی زمانے میں یہ ہندوؤں کا مقدس شہر ہوا کرتا تھا – پہاڑی کی چوٹی پر ہزاروں سال پُرانے مندر کے آثار اب بھی موجود ہیں – تقریبا ڈیڑھ سو سال پہلے سادات کا ایک گھرانہ یہاں آکر آباد ہوا تو بہت سے لوگ ہندو مذہب ترک کرکے دائرہ ء اسلام میں داخل ہوگئے – رفتہ رفتہ یہاں کی تقریبا تمام آبادی نے اسلام قبول کر لیا –
ماڑی شہر میں کھڈی پر بہت عمدہ قسم کا کھدر کا کپڑا بنتا تھا – اس کے علاوہ ماڑی شہر کے بنے ہوئے کھیس اور بزرگ خواتین کے سر کی چادریں (ٹِکرے) بھی بہت مقبول تھے –
ماڑی شہر کے کاریگر مساجد کی تعمیر کے لیئے ضلع بھر میں مشہور تھے – ضلع کی اکثر قدیم مساجد انہی کاریگروں کی مہارت کی گواہ ہیں –
ماڑی کے ایک خاندان کا ذریعہ معاش شادی بیاہ کے مواقع پر روٹیاں بنانا ہے – اس خاندان کے پانچ سات مرد چارپائی کے سائیز کی لوہے کی بھٹی پر روٹیاں پکاتے ہیں – دوتین فٹ لمبی چوڑی یہ نرم و ملائم روٹیاں ہمارے ہاں “دھراڑیاں“ کہلاتی ہیں – کٹوے کے سالن کے ساتھ ان روٹیوں کا ایک اپنا لُطف ہے – شادی والے گھر میں یہ کاریگر ولیمے والے دن صبح منہ اندھیرے سحر کے وقت اپنی کارروائی شروع کردیتے ہیں – دوپہر تک ضرورت کے مطابق دوچار سو روٹیاں بنا دیتے ہیں – ان روٹیوں کو ایک مخصوص طریقے سے لپیٹ کر چارپائی پر بچھا دیتے ہیں – کمال یہ ہے کہ صبح کی بنی ہوئی یہ روٹیاں شام تک گرم اور نرم و ملائم رہتی ہیں –
————————- رہے نام اللہ کا —  –١٥ اکتوبر2022

میرا میانوالی- 

اب تو وہ رونقیں ، وہ منظر یاد آتے ہی دِل سے اک ہُوک سی اٹھتی ہے — وہ چھوٹی بڑی ٹرینوں کی آمدورفت ، دونوں پلیٹ فارمز پر لوگوں کا ہجوم ، بچھڑنے والوں کی اشک آلُود آنکھیں ، آستینوں سے آنسُو پونچھتے ہوئے اُن کو الوداع کہنے والے – ریل کے انجن کی الوداعی کُوک – بے پناہ درد ہوتا تھا اس کُوک میں – اپنوں سے جُدائی کے زخم جاگ اٹھتے تھے- راتوں کے پچھلے پہر یہ کُوک سُن کر ہجر کے مارے لوگ اُٹھ بیٹھتے ، اور دیر تک آنسُو بہاتے رہتے تھے —– یہ اثر صرف کالے سٹیم انجنوں کی کوک میں ھوتا تھا۔ اب تو نہ وہ انجن ہیں، نہ وہ دردبھری کوک۔
بات بہت دُور نکل گئی – ذکر مقصود تھا ماڑی انڈس ریلوے سٹیشن کا – ہمارے بچپن اور جوانی کے دور کی بہت سی یادیں اس ریلوے سٹیشن سے وابستہ ہیں – کالاباغ جانے کے لیئے صبح سات آٹھ بجے لاہور سے آنے والی ٹرین پر ماڑی انڈس جانا – وہاں سے پیدل دریا کے پُل سے گذرکر کالا باغ پہنچنا – واپسی پر اسی راستے ماڑی انڈس ریلوے سٹیشن پہنچ کر لاہور ٹرین میں داؤدخیل تک کا سفر – ٹرین پانچ بجے جاتی تھی –
کئی بار ماڑی انڈس سٹیشن سے کھلونا نُما چھوٹی ٹرین پر بیٹھ کر عیسی خیل جانے کا اتفاق بھی ہوا – یہ ٹرین صبح نو ، دس بجے بنوں جاتی تھی –
عیدالفظر کے تیسرے دن ضلع کے سب سے بڑے تہوار میلہ شاہ گُل حسن میں شرکت کے لیئے ضلع بھر سے لوگ ماڑی انڈس سٹیشن پر آتے تھے – شاہ گُل حسن کا مزار سٹیشن کے قریب ہی واقع ہے – اس دن ٹرینوں کی حالت دیکھنے والی ہوتی تھی – ہزاروں لوگ اپنی جان خطرے میں ڈال کر مکھیوں کی طرح ٹرین سے چمٹے ہوئے ہوتے تھے- انجن کو بھی معاف نہیں کرتے تھے – انجن کے بھی اندر باہر جہاں بھی پاؤں جمانے کی جگہ ملتی لٹک جاتے تھے –
کُچھ سمجھ میں نہیں آرہا کیا لکھوں – یادوں کا ہجوم ہے – آگے پیچھے ، دائیں بائیں جانے پہچانے چہرے ، ان میں سے کئی اب اس دنیا میں موجود نہیں –
چچا غالب کے اس شعر پر بات ختم کرتا ہوں ——–
جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا
کُریدتے ہو جو اب راکھ ، جُستجو کیا ھے ؟
——————– رہے نام اللہ کا —١٦ اکتوبر2022

میرا میانوالی- 

بلوٹ (ضلع ڈی آئی خان) سے لے کر کشمیر تک دریائے سندھ کے کنارے بخاری سادات کی بستیوں کا ایک سلسلہ صدیوں سے آباد ہے – بلوٹ دریا کے مغربی کنارے پر واقع ہے – وہاں سے شمال کی جانب بستیوں کا یہ سلسلہ دریا کے مشرقی کنارے پر منتقل ہوجاتا ہے – ہمارے ضلع میانوالی میں نورنگہ ، کوٹ بیلیاں ، بخارا ، ڈھیر امیدعلی شاہ ، پکی شاہ مردان اور پیر پہائی سادات کی مشہور و معروف بستیاں ہیں – جنڈ ضلع اٹک کے شمال مغرب میں زیارت نام کی ایک بستی میں ہمارے کُچھ رشتہ دار بھی رہتے ہیں – پانچ دس دس میل کے وقفے سے بستیوں کا یہ سلسلہ کشمیر تک پھیلا ہوا ہے –
پکی شاہ مردان داؤدخیل کے شمال مغرب میں جناح بیراج کے قریب واقع ہے – دلکش مناظر میں گھرا ہوا یہ چھوٹا سا گاؤں دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے ایک معصوم بچے کی طرح مطمئن اور پُرسکون ہے – لوگ غریب ، سادہ ، ملنسار اور بلا کے مہمان نواز ہیں – ہمارے بچپن کے دور میں سید دوست محمد شاہ پکی شاہ مردان کی سب سے معروف و معتبر سیاسی و سماجی شخصیت تھے – سادات انہیں اپنا سردار مانتے تھے – اُن کے ایک صاحبزادے نسیم عباس شاہ اسلام آباد میں پروفیسر تھے – پتہ نہیں آج کل کہاں ہیں –
پکی شاہ مردان کے سید محمد رضا شاہ داؤدخیل سکول میں ہمارے فارسی کے استاد تھے – بہت سادہ مگر باوقار شخصیت تھے – اُن کے صاحبزادے گُلزار حسین شاہ میرے سٹوڈنٹ رہے – ہیڈماسٹر کے منصب سے ریٹائر ہونے کے چند سال بعد عدم آباد جا بسے – شہرہء آفاق معلم سید عطامحمد شاہ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد نورنگہ سے ہجرت کر کے پکی شاہ مردان منتقل ہوگئے – یہاں انہوں نے اپنا پرائیویٹ تعلیمی ادارہ بھی قائم کر لیا – آخری دم تک علم کا نُور بانٹتے رہے – معروف شاعر سید گُلزار بخاری بھی سادات پکی شاہ مردان کے قریبی رشتہ دار ہیں – پروفیسر سید عاصم بخاری کثیرالتصانیف شاعر بھی ہیں ادیب بھی – سید صادق حسین شاہ مستند مؤرخ ہیں –
سادات کے علاوہ پکی شاہ مردان کے اعوان اور قریشی خاندان کے کئی افراد بھی اہم عہدوں پر فائز رہے – سکندرآ باد سکول کے سابق پرنسپل ملک محمد مُوسی ، اور اُن کے بھتیجے ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر محمد اکبر خان سے میرے بہت قریبی مراسم رہے – اکبر خان عیسی خیل کالج میں کیمسٹری کے پروفیسر کی حیثیت میں میرے کولیگ رہے- بعد میں پی سی ایس ( پی ایم ایس) کرکے سول سروس میں چلے گئے – آج کل لاہور میں مقیم ہیں –
پکی شاہ مردان میرے بہت عزیز سٹوڈنٹ میجر میاں محمد قریشی کے عسکری خاندان کا مسکن بھی ہے – میجر صاحب کے تین صاحبزادے پاک فوج میں اہم عہدوں پر فائز ہیں- میجر صاحب اسلام آباد میں رئیل ایسٹیٹ ( پراپرٹی) بزنس کی اہم شخصیت ہیں — میجر میاں محمد قریشی کا مُجھ سے بہت قریبی تعلق بھی ہے ، رابطہ بھی رہتا ہے – لہذا کسی نہ کسی حوالے سے ان کا ذکر اکثر میری پوسٹس کی زینت بنتا رہتا ہے –
———————- رہے نام اللہ کا —١٧ اکتوبر2022

میرا میانوالی-

اب تو دیہات بھی شہر بن گئے ہیں – روزمرہ ضرورت کی ہر چیز ہر جگہ دستیاب ہے – ہر گلی میں دوچار دکانیں گلی کے رہنے والوں کی ضرورت کی چیزیں فراہم کرتی ہیں – لوگوں کے لباس ، زبان اور رسم و رواج پر بھی شہری معاشرے کے اثرات واضح نظر آتے ہیں –
دیہاتی ماحول میں شہری ماحول کا تڑکہ تقریبا ڈیڑھ سو سال پہلے ریلوے نظام کی آمد سے شامل ہوا – آمدورفت آسان ہوئی تو دیہات کے لوگ شہروں میں آنے جانے لگے – تجارت میں اضافہ ہوا ، شہروں سے روزمرہ ضرورت کی چیزیں دیہات میں آنے لگیں – چادر ، کُرتے اور پگڑی کی جگہ شلوار اور کالر والی قمیض پہننے اور ننگے سر رہنے کا رواج برپا ہوا – ریل ، انجن ، موٹر ، کار ، بس ، سائیکل ، کیس ، اپیل ، جج ، مجسٹریٹ جیسے انگریزی کے الفاظ دیہات کی زبان میں در آئے – یہ الگ بات کہ ان پڑھ دیہاتی لوگ مجسٹریٹ کو مُشٹریٹ اور سیشن جج کو شِیشُن جھج بولتے تھے –
1940- 1950 میں جناح بیراج کی تعمیر ہمارے داؤدخیل کی معاشرت میں شہری اثرات کی آمد کا ایک اہم سبب تھی – اس سے پہلے ہمارے ہاں دودھ ، مرغی انڈے بیچنے کا رواج نہ تھا – ضرورت پڑنے پر ہمسائے یہ چیزیں ایک دوسرے کو مہیا کر دیتے تھے – بیراج کی تعمیر کے سلسلے میں داؤدخٰیل کے شمال میں نہر کالُونی بنی تو شہری علاقوں کے ملازمین وہاں آکر رہنے لگے – یُوں ہمارے ہاں دُودھ دہی مرغی انڈے کی خرید و فروخت کا کاروبار شروع ہوا – بے روزگار لوگوں کو پُل کی تعمیر میں مزدوری اور ملازمت ملنے سے معاشرے میں کسی حد تک خوشحالی آگئی – اسی حوالے سے یہاں ایک بزرگ چاچا محمد نواز خان المعروف چاچا وازُو شادی بیاہ کے موقع پر ایک لوک گیت گایا کرتےے تھے جس کا ابتدائی بول یہ تھا –
اللہ سوہنڑاں بند نہ کریں ہا نہر والے روزگار کو
( اے ربِ کریم نہر کی تعمیر سے ہمیں ملنے والی روزی کو بند نہ ہونے دینا)——————— رہے نام اللہ کا –  –١٨ اکتوبر2022

میرا میانوالی-

پکی شاہ مردان سے مشرق میں کالاباغ روڈ کی طرف آئیں تو سڑک کے مغرب میں ٹوکانوالہ اور مشرق میں گلن خٰیل نام کی دو بستیاں راہ میں آتی ہیں – یہ بستیاں خیرآباد کے اعوانوں نے اپنی آبائی زمینوں پر آباد کیں – ٹوکانوالہ کے معروف معلم اور مورخ ملک تاج محمد اعوان نے اپنی کتاب تاریخ حیدرآل اعوان میں ان بستیوں کا جامع تعارف تحریر کیا ہے –
سابق ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ملک نورمحمد اعوان اور کرنل ملک عطا محمد اعوان ٹوکانوالہ کی معروف شخصیات ہیں — میرے بہت پیارے بیٹے ملک سیف اللہ اُتر خیل بھی داؤدخیل سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہیں – موصوف مین بازار کالاباغ میں کپڑے کا بزنس کرتے ہیں –
گلن خیل ٹھیکیداروں اور کاریگروں کا شہر ہے – یہاں کے آٹو مکینک اور دوسری ہر قسم کی مشینری کے کاریگر علاقے میں مشہور و معروف ہیں – آٹو مکینک حاجی مدد خان ہمارے بہت اچھے دوست تھے۔کسی زمانے میں گلن خٰیل کے ملک عزیز میرے بہت لائق سٹوڈنٹ ہوا کرتے تھے ، آج کل پتہ نہیں کہاں ہیں –
یہ جو کُچھ عرصہ سے میں نے اپنے علاقے کے شہروں اور دیہات کی داستان چھیڑی ہوئی ہے ، اس کی دلچسپی صرف ان علاقوں کے باشندوں تک محدود ہے – لیکن جب ایک بار یہ ذکر چھڑ گیا ہے تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہر چھوٹے بڑے شہر یا گاؤں کا ذکر ضرور کیا جائے – سو حسبِ توفیق چند روز مزید اس موضوع پر لکھتا رہوں گا – البتہ ذکر صرف ان مقامات کا ہوگا جن کے بارے میں میں کُچھ جانتا ہوں – داؤدخیل اور گردونواح کا ذکر بہت ہو چکا – اب صرف مُوسی خیل ، چھدرو ، واں بھچراں اور کُندیاں کے بارے میں کُچھ لکھنا باقی ہے – اس کے بعد ان شآءاللہ وسیع تر دلچسپی کے دوسرے موضوعات پر لکھوں گا۔——————– رہے نام اللہ کا —-  –١٩ اکتوبر2022

میرا میانوالی- 

میری نظر میں موسی خیل عِلم و قلم کا شہر ہے ، کیونکہ موسی خیل مرحوم کوثر نیازی جیسے صاحب ِعلم شاعر، ادیب صحافی، خطیب، مرحوم ڈاکٹراجمل نیازی جیسے مُلک گیر شہرت کے حامل شاعر ، منفرد انداز کے نثر نگار اور بے باک صحافی ، سعیدہ صبا نیازی جیسی منفرد و معتبر شاعرہ ، ظفر اقبال خان نیازی جیسے جدید لہجے کے سچے شاعر ، اکرم زاہد جیسے جواں سال جواں فکر شاعر اور شفقت نیازی جیسے صاحب ِ فکرونظر مضمون نگار کا شہر ہے –
شعروادب کے حوالے سے مُوسی خیل سے میر ا تعارف 1970 کی دہائی میں میانوالی کے مشاعروں میں ظفراقبال خان نیازی سے پہلی ملاقات سے ہوا – ظفرنیازی کا لب و لہجہ روایت کی بجائے ترقی پسند طرز کا تھا – ان کی شاعری میں غمِ جاناں کا ذکر کم ، غمِ دوراں پر دُکھ کا اظہار زیادہ نمایاں تھا – وسائل کی عدم دستیابی کے باعث اُن کی زندگی میں اُن کی شاعری کا کوئی مجموعہ منظر عام پر نہ آسکا – مُوسی خیل کے اہلِ ثروت و اہل قلم سے درخواست ہے کہ اپنی دھرتی کے اس انمول ہیرے کی چمک دمک کو خاک میں نہ ملنے دیں – ظفر کا مجموعہء کلام مرتب کر کے شائع کرانا آپ کا اخلاقی فرض بنتا ہے –
ڈاکٹر محمد اجمل نیازی گورنمنٹ کالج میانوالی میں میرے کولیگ رہے – ہمارے بہت پیارے دوست تھے – یہاں سے لاہور ٹرانسفر ہوگئے ، دیال سنگھ کالج لاہور سے شعبہ
اردو کے سربراہ کی حیثیت میں ریٹائر ہوئے – وحدت کالونی میں رہتے تھے – کُچھ عرصہ قبل میرے ایک عزیز اپنی کتاب کا تعارف لکھوانے کے لیئے اجمل نیازی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نیازی صاحب نے کہا ملک منور سے کہنا جب بھی لاہور آئے تو مجھ سے ضرور مل لے – پتہ نہیں کیسی جلدی تھی کہ میرے لاہور جانے سے پہلے ہی یہ دنیا چھوڑ کر عدم آباد جابسے – اللہ جانے مجھ سے کیا کہنا چاہتے تھے – ؟
حال ہی میں موسی خیل کے ریٹائرڈ پولیس افسر شفقت اللہ خان نیازی کے مضامین کا مجموعہ “ بولتی حقیقتیں “ کے عنوان سے شائع ہوا – شفقت نیازی بہت اچھے نثر نگار بھی ہیں ، صحافی بھی – کوثرنیازی اور اجمل نیازی کے کزن ہیں – ان کی کتاب میں ڈاکٹراجمل نیازی کا ایک یادگار مضمون بھی شامل ہے –
موسی خیل سے میرے بہت سے سٹوڈنٹ بھی ہیں – ان میں سے ملک سکندرحیات میرے بہت قریب رہے – مجھ سے اب بھی رابطے میں رہتے ہیں – ملک سکندرحیات ایف آئی اے میں اہم منصب پر فائز ہیں —- معروف ماہرِ تعلیم محمد عظیم خان بی ایڈ میں میرے کلاس فیلو اور بہت اچھے دوست تھے – اب جہاں بھی ہوں اللہ ان کا حافظ و ناصر ہو –
——————- رہے نام اللہ کا –٢٠ اکتوبر2022
میرا میانوالی- 
اپنے شہر سے باہر میری آشنائیاں اور شناسائیاں اساتذہ ء کرام ، اپنے سٹوڈنٹس اور شاعروں ادیبوں تک محدود رہیں – بھلا ہو فیس بُک کا جس نے گھر بیٹھے دُنیا بھر سے 15000 سے زائد دوست فراہم کر دیئے مختلف علاقوں کے رہنے والے زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ ان افراد کی محبت اپنے شہر بلکہ اپنے گھر کے لوگوں سے کم نہیں – اللہ کریم سب کو سلامت رکھے – فیس بُک پر آج کل جن شہروں اور دیہات کا ذکر چل رہا وہاں میری واقفیت ٹیچرز ، سٹوڈنٹس اور اہلِ قلم تک محدود ھے –
اس حوالے سے چھدرُو ضلع میانوالی میں بھی میرے بہت سے دوست ہیں – ان میں سے کُچھ اب اس دنیا میں موجود نہیں – اللہ کریم ان سب کی مغفرت فرمائے – میری نظر میں وہ آج بھی اتنے ہی محبوب و محترم ہیں جتنے زندگی میں تھے –
میرا سب سے قریبی تعلق چھدرو کے بدری خیل قبیلے کے نامور معلم مرحوم سیف اللہ خان سے رہا – سگے بھائیوں کی طرح پیار تھا اُن کا – ایک الیکشن میں پریزائیڈنگ آفیسر کی حیثیت میں میرا تقرر چھدرو کے علاقے سنگُو خیل میں ہوا ، جو چھدرو شہر سے دو چار کلومیٹر شمال مشرق میں پہاڑ کے دامن میں واقع ہے – خاصا مشکل کام تھا کیونکہ نہ مجھے یہ معلوم تھا سنگو خیل ہے کس طرف ، نہ وہاں کوئی جاننے والا تھا – بھائی سیف اللہ خان سے فون پر رابطہ کیا تو انہوں نے کہا آپ فکر نہ کریں – آپ بس میرے ہاں چھدرو پہنچ جائیں – رات میرے ہاں رہیں صبح میں خود آپ کو سنگو خٰیل پہنچا دوں گا – وہاں بھی آپ کے لیئے ہر سہولت کا بندوبست کر دوں گا –
چھدرو میں بھائی سیف اللہ خان نے میرے لیئے شاہانہ دعوت کا اہتمام کیا – صبح مجھے پولنگ سٹیشن پہنچا کر وہاں بھی میرے اور میرے سٹاف کے کھانے پینے کا بندوبست کردیا- سیف اللہ خان کے بھائی ایجوکیشن آفیسر امان اللہ خان اور امان اللہ خان کے صاحبزادے کلیم اللہ خان میرے سٹوڈنٹ بھی رہے –
چھدرو کے ممتاز خان بہت عرصہ پہلے ہمارے داؤدخٰیل سکول میں انگلش ٹیچر رہے – مشہور و معروف ٹیچر رہنما بھائی محمد شیر خان اور ریٹائرڈ پرنسپل حاجی سمند خان بھی میرے بہت پیارے بھائی ہیں – سنٹرل ماڈل ہائی سکول میانوالی کے پرنسپل مرحوم محمداسلم خان نیازی بھی میرے بہت محترم دوست تھے – ایک دفعہ کہنے لگے “ملک صاحب ، تعلیم کے میدان میں اللہ تعالی نے آپ کو وہ مقام دیا ہے کہ آپ ہمارے ادارے کے قریب سے بھی گذر جائیں تو ہم بڑے فخر سے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ملک صاحب آج ادھر سے گذرے تھے“ – یہ اُن کی محبت ہے ورنہ مجھ میں تو ایسی بات نہیں –
گورنمنٹ کالج میانوالی میں چھدرو سے جہان خان نامی بہت مؤدب اور مہذب نوجوان ہمارے کالج کے بہت نمایاں سٹوڈنٹ ہوا کرتے تھے – اس علاقے میں اور بھی بہت سے لوگ اپنے جاننے والے ہیں – فی الحال سب نام یاد نہیں آ رہے –
چھدرو موسی خیل سے واں بھچراں جانے والی سڑک پر واقع ہے – یہ کوئی باقاعدہ شہر نہیں بلکہ کئی میل پر بکھری ہوئی آبادیوں کا ایک سلسلہ ہے – یُوں کہنا مناسب ہوگا کہ چھدرو ایک شہر نہیں وسیع و عریض علاقہ ہے – لوگ بہت سادہ ، مخلص ، مہمان نواز اور دوست نواز ہیں – آخر دم تک دوستی نبھانے والے لوگ ہیں –——————— رہے نام اللہ کا —-٢١ اکتوبر2022

میرا میانوالی- 

محمد محمود احمد ہاشمی کے چاہنے والوں کے لیئے خوشخبری ۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد محمود احمد ہاشمی کی شاعری کا دوسرا مجموعہ “ واپسی ممکن نہ ہوگی “ کے عنوان سے حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے – محمود کی ناگہاں وفات کے بعد اس کا غیرمطبوعہ کلام عصمت بیٹی ( محمود کی بڑی بہن) نے مرتب کیا ہے – 199 صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں متعدد حمد ، نعت اور منقبت کے علاوہ محمود کی تمام غیر مطبوعہ غزلیں بھی شامل ہیں – محمود کی شخصیت کا مفصل تعارف میں نے لکھا ہے – اُس کی شاعری پر مختصر تبصرہ جلیل عالی ، منصورآفاق ، ملک سونا خان بے وس اور امام خمینی ٹرسٹ ماڑی انڈس کے چیئرمین سید افتخار حسین نقوی نجفی نے تحریر کیا ہے – ویسے محمود کو کسی تعارف یا تبصرے کی ضرورت نہیں –
کہ آپ آپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
کیا شخص تھا ———— ! ! ! وہ جو کسی شاعر نے کہا تھا
اپنے جینے کی ادا بھی ہے نرالی سب سے
اپنے مرنے کا بھی انداز نرالا ہوگا
محمود کی زندگی اور موت کا اس سے بہتر تعارف ممکن نہیں – زندگی قلندرانہ ، موت یُوں کہ ایک محفل مسالمہ میں جناب علی کرم اللہ وجہہ کی شان میں منقبت پڑھنے کے بعد اپنی نشست پر بیٹھا تو لوگوں نے دیکھا پنجرہ خالی پڑا ہے، رُوح کا پنچھی اُڑ کر اپنے اصل دیس کو واپس جا چکا –
جناب علی سے محمود کی والہانہ عقیدت اُس کی شاعری میں جابجا نظر آتی ہے – یہ شعر دیکھیئے
علی کے چاہنے والوں میں میرا نام بھی ہے
اسی لیئے تو زمانے میں احترام بھی ہے
اس کی مقبولیت کا راز شاید یہی تھا ——
یہ کتاب حق برادرز کچہری روڈ میانوالی سے دستیاب ھے۔۔۔ کوشش ہے کہ محمود کا سرائیکی کلام بھی یکجا کر کے کتاب کی صورت میں محفوظ کر دیا جائے – اس کام کی تکمیل کے لیئے بہت سی دعائیں درکار ہیں –
———————— رہے نام اللہ کا —٢٢ اکتوبر2022

میرا میانوالی- 

کُندیاں کئی حوالوں سے ضلع میانوالی کا ایک اہم شہر ہے – یہ ضلع کا سب سے بڑا ریلوے سٹیشن ہے – پنڈی ، پشاور ، ملتان، سرگودھا لاہور جانے والی راہیں اسی سٹیشن سے نکلتی ہیں – یہاں ریلوے کی بہت بڑی ورکشاپ بھی ہے ، جہاں سے پنڈی ، پشاور ، ملتان ، لاہور جانے والی ٹرینوں کو تازہ دم انجن ملتے ہیں – اب تو حکومتوں اور ٹرانسپورٹرز کی ملی بھگت سے اس علاقے میں ریلوے کا نظام تقریبا ختم ہو گیا ، اس لیئے ریلوے کے حوالے سے کندیاں کی اہمیت بھی پہلی سی نہیں رہی –
چشمہ بیراج کی تعمیر سے کندیاں میں معاشی اور سماجی ترقی کی راہیں ہموار ہو گئیں – بیراج کی تعمیر سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کو ملانے والا ایک شارٹ کٹ بھی بن گیا – تجارت میں بھی خاصی پیش رفت ہوئی – چشمہ بیراج کے قریب ایٹمی بجلی گھر ملک میں بجلی کی پیداوار میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوا – چشمہ جھیل کا علاقہ ایک خوبصورت سیر گاہ بھی ہے – یہاں سے دریائے سندھ کی تازہ مچھلی مُلک بھر میں جاتی ہے –
کندیاں میں زیادہ تر آبادی میکن ، کُندی اور کلیار قبائل پر مشتمل ہے –
ادبی حوالے سے کندیاں کے فاروق روکھڑی اور افضل عاجز ملک بھر ، بلکہ دنیا بھر میں کندیاں کی پہچان ہیں – نوجوان شعراء میں اصغر حسین اصغر ، ظفر اقبال برق ، سلیم مروت اور عطاءاللہ شاہین خاصے معروف ہیں – میانوالی سے ترک سکونت سے پہلے منصورآفاق کندیاں کے نوجوان شعراء کے ادبی گُرُو ہوا کرتے تھے – وہ میانوالی سے زیادہ وقت کندیاں میں گذارتے تھے – افضل عاجز ان کے خلیفہء مجاز تھے – مقبول و معروف شاعر پروفیسر عزیز فیصل بھی کندیاں کے لیے ایک منفرد اعزاز ہیں۔
ریڈیو پاکستان میانوالی کے سٹیشن ڈائریکٹر احمد آفتاب خان سے بھی میرے بہت مخلصانہ مراسم ہیں۔ ان کے والد محترم میرے بہت پیارے دوست اور کلاس فیلو تھے۔
کندیاں کے ملک محمد انور میکن گورنمنٹ کالج میانوالی میں ہمارے پرنسپل رہے – میرے لیئے وہ پرنسپل کم ، دوست زیادہ تھے – اچانک یہ دنیا چھوڑ کر سرحدِ حیات کے اُس پار جابسے – اللہ کریم مغفرت فرمائے قلندرانہ مزاج کی دلکش شخصیت تھے – پروفیسر خضر حیات کُندی گورنمٹ کالج میانوالی میں فزکس کے پروفیسر کی حیثیت میں ہمارے کولیگ رہے – پروفیسروں کی بائیں بازو کی تنظیم کے فعال رہنما تھے- پروفیسر ڈاکٹر غفور شاہ قاسم بھی کندیاں کی معروف شخصیت اور معاصر ادب کا ایک اہم نام ہیں ۔ ملک خدابخش صاحب داؤدخیل میں ہمارے سکول کے ہیڈماسٹر رہے – کُندیاں کے ایڈووکیٹ مرحوم منظور ہاشمی ، اور گورنمنٹ کنٹریکٹر فاروق ہاشمی بھی ہمارے بہت پیارے دوست تھے – ڈاکٹر غفور شاہ قاسم اور خضر حیات کُندی صاحب کے سوا ہمارے باقی تمام مہربان دوست اب عدم آباد میں آباد ہیں –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ———————- رہے نام اللہ کا —–٢٣  اکتوبر2022

میرا میانوالی-

کُندیاں کے ذکر والی پوسٹ پہ کمنٹس میں عزیزم تنویر شاہد محمد زئی اور زبیر ہاشمی صاحب نے یحیی امجد کے بارے میں کچھ بتانے کی فرمائش کی –
یحیی امجد مورخ ، محقق اور نقاد کی حیثیت میں بین الاقوامی سطح کی نامور شخصیت تھے – اُن کا اصل وطن کوٹ بیلیاں ضلع میانوالی کا علاقہ تھا – اُن کے والدِ محترم عبدالحکیم سرمد اُردو ، فارسی کے بہت قابل استاد اور روایتی انداز کے بہت اچھے شاعر تھے – ان کا قلمی نام سرمد مظاہری تھا – جب ہم چھٹی ساتویں کلاس میں پڑھتے تھے سرمد صاحب کُچھ عرصہ داؤدخیل سکول میں بھی رہے – وہاں سے کندیاں ٹرانسفر ہوئے تو کندیاں کا پانی ایسا راس آیا کہ ابائی وطن چھوڑ کر کندیاں کی مستقل سکونت اختیار کر لی – اسی حوالے سے یحیی امجد ابتدائی تحریروں میں اپنا نام امجد کُندیانوی لکھتے تھے-
یحیی امجد نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کیا – اردو میں یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن اور گولڈ میڈل ان کے حصے میں آیا – پھر پنجاب یونیورسٹی ہی سے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد سی ایس ایس میں کامیاب ہوکر کسٹمز کے محکمے میں افسر متعین ہوئے اور ڈائریکٹر ایکسپورٹس کے منصب تک پہنچے –
یحیی امجد بہت وسیع المطالعہ محقق اور مورخ تھے – متعدد کتابوں کے مصنف تھے – اُن کا یادگار علمی کارنامہ “تاریخ پاکستان“ کے عنوان سے دو جلدوں پر مشتمل کتاب ہے – پہلی جلد زمانہء قدیم کا احاطہ کرتی ہے ، دوسری جلد زمانہء وسطی کی داستان بیان کرتی ہے – موت نے تیسری جلد مکمل کرنے کی اجازت نہ دی – پہلی جلد میں یہ حیرت انگیز انکشاف بھی منظر عام پر آیا کہ
وادی ء سون ضلع خوشاب میں اڑھائی لاکھ سال پہلے بھی انسانی ابادی موجود تھی –
کتاب میں اس دور کے پتھر کے اوزاروں اور چند دوسری چیزوں کی پکچرز بھی شامل ہیں – وادیء سون کے بارے میں اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اڑھائی لاکھ سال پہلے بھی روئے زمین پر انسان آباد تھا – اللہ اکبر –
یہ کتاب پی ڈی ایف میں بھی دستیاب ہے – یحیی امجد کی تحقیق سے تاریخ میں تحقیق کی نئی راہیں کھلیں۔
یحیی امجد نے شہرہء آفاق چینی لیڈر ماؤزے تُنگ کے اقوال کا اردو ترجمہ بھی کیا – — “وارداتِ سرمد“ کے عنوان سے اپنے والد کا شعری مجموعہ بھی خوبصورت کتاب کی شکل میں شائع کیا – فن اور فیصلے کے عنوان سے ان کا تنقیدی مضامین کا مجموعہ بھی بہت معروف ہوا –
55 سال کی عمر میں کینسر کے مرض نے جنوری 1998 میں علم وادب کا یہ درخشاں چراغ گُل کردیا –
——————- رہے نام اللہ کا –٢٥ اکتوبر2022

میرا میانوالی-

ایک شاعر نے کہا تھا
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
آج کل مگر معاملہ اس کے برعکس ہے – لوگوں کو ہنسنے کا نہ موقع ملتا ہے نہ وقت – امیر ، غریب ، چھوٹے بڑے ، سب پریشان – اس لیئے اِس دور کے حوالے سے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ
ہر وقت کا رونا تُجھے برباد نہ کر دے
احباب کی محفل میں کبھی ہنس بھی لیا کر
آیئے آج ہم بھی ذرا ہنس لیں
١) – ایک دن ایک بادشاہ سلامت صبح سویرے سیر کے لیئے محل سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ایک ننھا سابچہ محل کی دیوار کے پاس بیٹھا سکول کا ہوم ورک کر رہا ہے – بادشاہ سلامت نے بچے کے پاس جا کر کہا “ لاؤ بیٹا ، تمہارا یہ کام میں کردیتا ہوں “
بچہ بہت خوش ہوا – بادشاہ سلامت نے اُس سے رجسٹر اور قلم لے کر کام مکمل کردیا –
اگلی صبح پھر بادشاہ سلامت باہر نکلے تو دیکھا کہ وہی بچہ آج بھی وہیں بیٹھا ہوم ورک کر رہا ہے – بادشاہ سلامت نے اُس سے کہا “ بیٹا ، لاؤ تمہارا کام آج بھی میں کر دوں“
بچے نے کہا “ چاچا معاف کر ، کل جو تُو نے کام کر کے دیا سارا غلط تھا – مجھے سکول میں بہت مار پڑی – میں اپنا کام خود کرلوں گا – تُوجا ، اپنا کوئی کام کر“-
٢) ۔ میرے پسندیدہ مزاح نگار شفیق الرحمن نے ایک بہت دلچسپ داستان لکھی – کہتے ہیں ایک بادشاہ کا درباری رومال میں لپٹی ہوئی کوئی چیز لے کر دربار میں حاضر ہوا- بادشاہ سلامت نے پوچھا یہ کیا ہے –
درباری نے کہا “ حضور یہ جلیبیاں ہیں – آج آپ کے کسی دُشمن نے یہ افواہ پھیلا دی کہ بادشاہ سلامت فوت ہوگئے ہیں – شہر کے لوگ اتنے کمینے ہیں کہ اس خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کر رہے ہیں – میں نے یہ جلیبیاں وہیں سے لی ہیں –
بادشاہ سلامت نے ایک جلیبی چکھ کر کہا “ اچھی ہیں ، جاؤ وہاں سے اور لے آؤ“
————————————————
میری شاعری تو رونے رُلانے والی ہے مگر اردو انگریزی دونوں زبانوں میں مزاحیہ ادب کا مطالعہ میرا پسندیدہ مشغلہ رہا – اب بھی ہے – اردو میں پطرس بخاری ، شفیق الرحمن اور ابنِ انشآء میرے پسندیدہ مزاح نگار ہیں – مشتاق احمد یوسفی ، شوکت تھانوی وغیرہ بھی بہت مشہور و مقبول ہیں – لیکن پسند اپنی اپنی – میری نظر میں پطرس بخاری ، شفیق الرحمن اور ابن انشآء سب سے آگے ہیں –
انگریزی میں مجھے Charles
Dickens, Lewis Carroll
PG Wodehouse, Evelyn Waugh,
Mark Twain, Stephen Leacock
سب مزاح نگاروں سے زیادہ پسند ہیں –
————————– رہے نام اللہ ک  –٢٦ اکتوبر2022

میرا میانوالی-

واں بھچراں اب تو ضلع میانوالی کا بہت بڑا کاروباری مرکز ہے – ہم نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب واں بھچراں میں سرگودہا روڈ کے آس پاس کاروبار تو کُجا ، آبادی کا نام و نشان بھی نہ تھا – شہر سڑک سے خاصا دُور تھا – شہر میں اگر کوئی رونق تھی بھی تو وہ ابھی سڑک تک نہیں پہنچی تھی – سنگل سڑک تھی جس پر دن بھر میں صرف تین بسیں سرگودہا آتی جاتی تھیں – اس کے علاوہ اس سڑک پر کوئی ٹریفک نہیں ہوتی تھی – کبھی کبھار دو چار دن بعد اِکا دُکا کار میانوالی سے سرگودہا جاتے ہوئے ادھر سے گذرتی تھی – یہ ذکر ہے 1950 – 51 کا – اُس وقت میں چھٹی کلاس میں پڑھتا تھا اور ہم کبھی کبھار اپنے ماموں جان کے ہاں ہڈالی جاتے ہوئے ادھر سے گُزرتے تھے –
کلچر کے لحاظ سے واں بھچراں ضلع میانوالی کی بجائے ضلع خوشاب کے زیادہ قریب ہے – زبان ، لباس ، مزاج ، سب کُچھ خوشابی ہے –
آج کا واں بھچراں ماشآءاللہ بہت بڑا کاروباری شہر ہے – جہاز چوک سے ریلوے پھاٹک تک سڑک بازار کا منظر بن گئی ہے – پکہ گھنجیرہ ، نانگنی اور چھدرو تک کے علاقے کے متعدد دیہات کا یہ اکلوتا کاروباری مرکز ہے –
ابتدا میں واں بھچراں جاگیرداروں کا شہر تھا – عوام بہت غریب تھے – اللہ مسبب الاسباب ہے – باز (شاہین ) کا شکار یہاں کی معیشت میں انقلاب کا سبب بن گیا – سردی کے موسم کے آغاز میں باز رُوس سے پاکستان میں آتے ہیں – واں بھچراں کے علاقے میں سکیسر پہاڑ کے گردو نواح میں بھی اِکا دُکا باز پھرتے دکھائی دیتے ہیں – عرب شیخ ایک باز لاکھوں روپے میں خریدتے ہیں – یُوں یہ سلسلہ یہاں بھی شروع ہوا – یہاں کے کئی لوگ تو اس شکار کے تعاقب میں سندھ تک جاتے ہیں ، اور سردی کا موسم اُدھر ہی بسر کرتے ہیں – بازوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے یہاں کے کئی لوگ اچھے خاصے سرمایہ دار بن گئے –
واں بھچراں کی داستان ابھی مکمل نہیں ہوئی – طبیعت ٹھیک نہیں ، اس لیئے بقیہ قصہ ان شآءاللہ کل –
————————- رہے نام اللہ کا —  –٢٧ اکتوبر2022

میرا میانوالی- 

‘واں‘ ہمارے ہاں ایک خاص قسم کے کنوئیں کو کہتے ہیں جس کے ایک طرف سے سیڑھیاں نیچے پانی کی سطح تک جاتی ہیں – اردو میں اس کو باؤلی کہتے ہیں – اس کنوئیں سے پانی پینے کے لیئے کسی برتن کی ضرورت نہیں پڑتی ، چُلو میں پانی بھر کر پیا جا سکتا ہے – شاہراہوں پر مسافروں کی سہولت کے لیئے شیر شاہ سُوری نے مناسب فاصلوں پر بہت سی باؤلیاں بنوائی تھیں – واں بھچراں کی باؤلی بھی اُسی دور کی یادگار ہے – ایسی ہی ایک واں ہڈالی ضلع خوشاب میں سکول کے جنوب میں واقع ہے – واں بھچراں میں واں کی موجودگی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ واں شہر تقریبا 500 سال پہلے بھی آباد تھا – یہاں کی واں کو واں بھچراں اس لیئے کہتے ہیں کہ یہاں بھچر قبیلہ آباد تھا – یہ وہی دور تھا جب نیازی قبائل افغانستان سے ہجرت کرکے ڈیرہ اسمعیل خان کے راستے ضلع میانوالی میں داخل ہوئے-
واں بھچراں کی سیاسی شخصیات میں ہمارے بچپن کے دور میں ملک مظفر پنجاب کے سرکردہ سیاسی رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے – اس حلقے کے موجودہ ایم پی اے ملک احمد خان بھی واں بھچراں سے ہیں –
واں بھچراں دینی علوم کا بھی اہم مرکز رہا – یہاں کے مولانا میاں حسین علی اور مولانا اللہ بخش بر صغیر کے نامور علماء میں شمار ہوتے تھے – مولانا حسین علی اتنی بڑی علمی شخصیت تھے کہ استادالاساتذہ دیوبند کے شیخ الحدیث علامہ انور شاہ کشمیری نے اپنے صاحبزادے کو واں بھچراں بھیج کر مولانا حسین علی صاحب سے تعلیم دلوائی- مولانا اللہ بخش کے شاگرد بھی ملک بھر میں موجود تھے –
فخرِ پاکستان ائیر فورس شہید ائیر مارشل میاں عبدالرزاق بھی مولانا حسین علی کے خاندان کے چشم و چراغ تھے – ان کے کزن میاں صفی الرحمن گورنمنٹ کالج میانوالی میں ہمارے کولیگ رہے –
واں بھچراں کے ماسٹر ملک اللہ داد صاحب میرے بڑے بھائی ملک محمد انور علی کے قریبی دوست تھے – ماسٹر صاحب کے صاحبزادے اعجاز ہمارے سٹوڈنٹ رہے –
حاجی ملک احمد نواز بھچر میرے بہت مہربان دوست ہیں – واں بھچراں میں دینی تعلیمات کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں – اللہ سلامت رکھے بہت مخلص اور خوش اخلاق انسان ہیں – میری دیارِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری میں ان کی دعاؤں کا بہت بڑا حصہ ہے –
واں بھچراں کی نوجوان علمی شخصیت میاں فہیم اقبال میرے بہت عزیز سٹوڈنٹ ہیں — یہاں کے بے باک صحافی مرحوم روشن ملک ہمارے بہت قریبی دوست تھے – تاریخ کے نامور محقق ڈاکٹر محمد اسلم ملک میانوالی کالج میں بہت عرصہ ہمارے کولیگ رہے – “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرعی منصوبہ بندی “ ان کی شاہکار تصنیف ھے –——————– رہے نام اللہ کا —-٢٨ اکتوبر2022

میرا میانوالی-

ضلع میانوالی 1901 میں وجود میں آیا – اس سے پہلے یہ ضلع بنوں کی تحصیل ہوا کرتا تھا – ابتدا میں یہ ضلع تحصیل عیسی خیل ، تحصیل میانوالی اور تحصیل بھکر پر مشتمل تھا –
1955 میں پاکستان کے چار صوبوں ( پنجاب ، سندھ، کے پی اور بلوچستان) کو ملا کر مغربی پاکستان نام کا ایک صوبہ بنا دیا گیا – یُوں پاکستان دوصوبوں ( مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان) پر مشتمل ریاست بن گیا – بعد میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سے آزاد ملک بن گیا –
مغربی پاکستان ون یُونٹ کہلاتا تھا – 1970 میں ون یونٹ کو توڑ کر پھر سے پنجاب ، سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان نام کے چار صُوبے بنا دیئے گئے – بلوچستان کو صوبہ بلوچستان کا نام بھی اس وقت دیا گیا۔
ون یُونٹ کے دور میں ضلع میانوالی ، ڈیرہ اسمعیل خان ڈویژن میں شامل رہا – اس سے پہلے یہ ضلع راولپنڈی ڈویژن کا حصہ تھا – ون یونٹ ختم ہونے کے کُچھ عرصہ بعد سرگودھا ڈویژن وجود میں آیا تو ضلع میانوالی کو سرگودہا ڈویژن میں شامل کر دیا گیا —- 1982 میں انتظامی ضروریات کے پیشِ نظر تحصیل بھکر کو الگ ضلع بنا دیا گیا – بننا بھی چاہیئے تھا کہ اس ایک تحصیل کا رقبہ دوضلعوں (پنڈی+ گجرات) سے بھی کُچھ زیادہ تھا – بھکر ضلع بننے کے بعد پپلاں کو ضلع میانوالی کی تیسری تحصیل بنا دیا گیا –
وطنِ عزیز میں یہ توڑ پھوڑ یوں ہی چلتی رہتی ہے – ہر تبدیلی کرتے وقت اُس کی کُچھ خوبیاں بیان کی جاتی ہیں، مگر حالات پہلے سے بھی بد تر ہو جاتے ہیں –
آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا
——————– رہے نام اللہ کا —  –٢٩ اکتوبر2022

میرا میانوالی-

مطمئن زندگی۔۔۔۔۔کچہ کا ایک منظر       –٣٠ اکتوبر2022

میرا میانوالی-

گندم کی کا شت کا موسم ہے – ہمارے بچپن کے دور میں گندم کی کاشت کا سارا عمل غیرمشینی manual تھا – ٹریکٹر ، ہارویسٹر ، تھریشر وغیرہ کا نام بھی کسی نے نہیں سناتھا – زمین میں بیلوں کی جوڑی کی مدد سے ہل چلا کر زمین کو نرم کیا جاتا اور پھر ہل کے ساتھ لکڑی کی نال باندھ کر اس میں سے گندم کا بیج زمین میں ڈالا جاتا تھا – زمین میں خالی ہل چلانے کو واہی اور بیج ڈالنے کے عمل کو راہی یا نالی کہتے تھے —- گندم کی فصل نقصان دہ کیمیائی اثرات سے پاک ہوتی تھی ،کیونکہ اس زمانے میں کھادوں کا وجود ہی نہ تھا –
اس زمانے میں داؤدخیل کی تقریبا 99 فی صد زمین بارانی ہوتی تھی – آبپاشی کا تمام تر دارومدار بارش پر ہوتا تھا – ساون کی بارشوں کا زیرِ زمین پانی (وتر) گندم کی فصل اگانے کے کام آتا تھا – ایک فی صد زمین کنوؤں سے سیراب ہوتی تھی ، اُس میں زیادہ تر سبزیاں کاشت کی جاتی تھیں –
گندم دو قسم کی ہوتی تھی جسے چِٹی کنڑک ( سفیدگندم ) اور رَتی کنڑک ( سُرخ گندم) کہتے تھے – سفید گندم تو آج کی گندم کی طرح تھی ، سُرخ گندم سُرخی مائل رنگ کی ہوتی تھی – اس کے سِٹے پر مُونچھوں جیسے بال نہیں ہوتے تھے – اس لیئے اسے روڈی (گنجی) گندم بھی کہتے تھے – ذائقے اور طاقت کے لحاظ سے یہ گندم سفید گندم سے بہت برتر تھی – اس گندم کی روٹی کی دلکش خوشبو اور مزے دار ذائقے کی وجہ سے اسے سالن کے بغیر بھی مزے سے کھایا جا سکتا تھا – اس کی پیداوار سفید گندم سے کم ہوتی تھی اس لیئے یہ زیادہ تر اپنے گھر کی ضرورت کے مطابق کاشت کی جاتی تھی – اس زمانے میں پیسوں کی بجائے گندم کے عوض روزمرہ ضرورت کی چیزیں خریدی جاتی تھیں ، اس لیئے سفید گندم زیادہ کاشت کی جاتی تھی –
گندم کی کاشت کے بعد کسان مارچ اپریل میں گندم کی کٹائی تک چار پانچ مہینے بالکل فارغ ہوتے تھے لیکن وہ یہ وقت سو کر یا بیٹھ کر گذارنے کی بجائے چلتے پھرتے رہتے تھے – خالص خوراک اور چلنے پھرنے کی وجہ سے اُن کی صحت آج کے لوگوں سے بہتر ہوتی تھی –
———————– رہے نام اللہ کا ————————-
پکچر۔۔۔ بشکریہ شعیب سید ، خوشاب۔٣١ اکتوبر2022

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top