پشاوری چپل-میانوالی کی کهیڑی
ہلے عمران خان کی پسند تهی اور اب اس پر نواز شریف کی نظر التفات جا پڑی ھے تو یہ پشاوری چپل جسے ہم میانوالی میں کوہاٹی چپل یا کهیڑی کہتے ییں 4600 روپے تک جا پہنچی ھے – مجھے میانوالی کی ثقافت کی اچھی بری ساری چیزیں پیاری لگتی ہیں – اسے آپ میری عصبیت کہہ سکتے ہیں اور اس پیار کی کبھی کبھار قیمت بھی چکانا پڑ جاتی ھے – میرے وارڈ روب کے کسی کونے میں ایک آدھ کهیڑی یا بلوچی چپل ضرور پڑی تو ھوگی لیکن سچی بات یہ ھے کہ میں اس میانوالی کی اس کهیڑی کی تصویر بهی دیکهوں تو مجھے لڑکپن میں یہ جوتے پہننے سے اپنے گٹے پر بننے والے زخم اور پیروں کی پور پور کی وہ ساری دردیں اور پیڑیں یاد آجاتی ہیں جو گائے کے نئے چمڑے یعنی کرم kurum کے کاٹنے سے میں نے جھیلی ہیں – ان دنوں اعلے درجے کی کهیڑی یعنی پشاوری چپل کرم سے بنائی جاتی تھی – یوں تو اس چپل کے بہت سے اعلے کاریگر میانوالی میں تھے لیکن غلامسن ( غلام حسن) موچی جو مین بازار میں دلی دوا خانہ کے کہیں سامنے چوبارے پر بیٹھتا تھا ، ٹاپ کا موچی تھا – ملک امیر محمد خان نواب آف کالاباغ کی چپل بھی اسی سے بنوائی جاتی تھی – پیر کا ماپ لے کر موچی سائی یعنی ایڈوانس مانگتے تھے – دس بارہ روپے شاید اس بھی کم پر عام جوتی مل جاتی تھی – پندرہ بیس روپے کی قیمت میں سب سے اعلے چپل مل جاتی تھی -لیکن سائی کے نام پر اکثر موچی میانوالی کے ہر شوقین سے سال میں بیس تیس روپے مار لیتے تھے اور چپل کیلئے اتنے پھیرے لگواتے تھے کہ آخر تنگ آکر صبر کا گهونٹ بهر لیا جاتا تها اور ریڈی میڈ پر ہی گزارا کر لیا جاتا تھا – بڑے کاریگر لارا دینے اور پھیرے لگوانے میں اتنے ماہر تھے کہ بڑے بڑے طرم باز خان جو بات بات پر گولی مارنے پر تل جاتے تھے ، ان کاریگروں کی باتوں میں آجاتے تھے – ایک کاریگر تو بہت خصوصی جوتے کا کہہ کر اس کے سول کیلئے جہاز کے ٹائر ڈهونڈنے کے جهانسے میں دو اڑهائی سال تک پھیرے لگوا لیتا تھا – چپل کے کاریگر کالاباغ میں بھی بہت کمال کے تھے اور طلے چاندی کا کام تلہ گنگ اور چمڑے پر رنگین دھاگے کی کڑھائی کا کام سبی بلوچستان کا مشہور تھا – میانوالی کی چپل کی ایک خاص نشانی یہ بھی تھی کہ چلتے وقت چمڑے کے رگڑ سے جوتی چاں چاں کرتی سنائی دیتی – پروفیسر محمد اسلم گهنجیرا کہتے ، اس چاں چاں میں لوگوں کی انا بول رھی ھوتی ھے کہ مجھے دیکھو ، میں آرہا هوں – کچھ شوقین تو اس میں مزید اہتمام سے اس میں بچھو رکھواتے – شور پیدا کرنے والی ایک خاص شے کو بچھو کہتے تهے جو منیاری والی دکانوں سے مل جاتی تھی جسے جوتے کے سول میں رکھتے تو اس کی چاں چاں کا والیوم تین گنا ھو جاتا – گل بہار بانو بعد میں تو اردو غزلوں کی مغنیہ کے طور پر مشہور هوئی لیکن اس کا پہلا والیوم سرائیکی لوک گیتوں پر مشتمل تها جسے لعل محمد اقبال کی جوڑی نے ترتیب دیا تها ، اس میں ایک گیت تها —
جتی تیڈی چیک مچیکاں، وچ طلے دی دهار وے
نکیاں نکیاں ٹوراں ٹردی هاں کلیجیوں پار وے
چپل کے بارے میں یہ اہتمام کیا جاتا کہ بڑی تو ہر گز نہ هو ، نہ ہی زیادہ چهوٹی ھو – جوتے سے ایڑی کا تهوڑا سا باہر آنا بانکپن سمجھاا جاتا تھا اور اس چکر میں نسبتا” تنگ چپل لے کر پیروں کو زخمی بهی کر لیا جاتا تھا – چمڑا ویسے بھی سوکھ کر پیر کو کاٹتا تھا -اس لئے کئی خواتین تو شہر سے نکلنے کے بعد چپل ، خاص طور پر کهسے اتار کر دوپٹے میں لپیٹ کر سر پر رکھ لیتی تهیں اور ایک گاوں سے دوسرے گاوں تک پیدل ہی راستہ طے کر لیتیں – ٹهنڈی ریت پر ننگے پیر چلنے کا ایک الگ نشہ تھا – آج کل زیادہ تر جوتوں کے تلوے ٹائر یا ربر وغیرہ کے ھوتے ہیں ، ان دنوں میں جوتوں کے سول عموما” بهینس کے سخت چمڑے کے ھوتے تھے – تھانے کے مشہور زمانہ چهتر بھی اسی سے بنائے جاتے تھے ، ستم ظریف پلسیئے اس پر ایک فقرا بهی لکهوا لیتے ، چن کتهے گزاری اے ای رات وے – گهروں میں سخت مزاج بزرگ کبھی کبھار یہی کام اپنے جوتوں سے لیتے تھے – ان کے جوتے کبھی کبھار بچوں اور نوجوانوں کو پڑ بھی جاتے تھے – قابو میں نہ آنے والے بھاگتے مجرم بچوں کو دور سے ہی چپل کا نشانہ بنایا جاتا – آپ اس اڑتی چپل کو بزرگوں کا ڈرون بهی کہہ سکتے ہیں – کئی شریر لڑکے تو تنگ آکر اڑتی چپل اٹھا کر ہی بھاگ جاتے اور بابا لوگ ایک چپل کی کمی سے خاصی دیر تک چلنے پھرنے سے ہی رہ جاتے – ڈرون البتہ چپکے سے آ دھمکتا ھے ، وہ چپل گالیوں کے ساز پر اڑتی تھی – رائج الوقت گالیوں میں بھوتنی دا ، سوہری دا یا کھوتی دا ٹاپ پر تهیں جو سارا محلہ سنتا تھا بلکہ یہ اتنے تواتر اور فراخدلی سے دی جاتیں کہ ان کو بجائے گالی کے ، باباوں کی سوغات اور دعا سمجھا جاتا تھا – بستی کا ہر بابا بستی کے ہر لڑکے یا نوجوان کو ڈانٹنے یا یہ خطاب دینے کا استحقاق رکھتا تھا – میانوالی کے بزرگوں کے قد کاٹھ اور ان کے جوتوں کے سائز کے بارے میں اتنا ہی کہنا کافی ھے کہ ایک خنکی خیل نیازی بابے کے کھسے میں گنجائش دیکھ کر ایک بلی نے اس میں بچے دے دئیے تھے – ان کے گهر میں جب دال پکی ھوتی تو انہیں جلدی سے تھالی ختم ھونے سے پہلے دال بھر کر دے دی جاتی – تاکہ وہ اپنی آواز میں سپلی نہ مانگ لیں – ان کی آواز اتنی بلند تھی کہ وہ جب کہتے دال لاو تو پڑوس کے تین گهروں تک آواز جاتی اور پٹهان گھرانے کو شرمندگی اٹھانا پڑتی کہ سب جان گئے آج خان صاحبان کے ہاں گوشت نہیں پکا ، دال چل رھی ھے – لیکن اس بات کا جوتیوں میں دال بٹنے سے کوئی تعلق نہیں – یہ محاورا دور پار کا ھے – جوتے ہمارے لئے بہت قیمتی تهے – ان دنوں مالی حالت اور عام رواج بھی یہ تھا کہ پم جیسوں کو عید الفطر پر ھی چپل کا نیا جوڑا ملتا تھا جسے اگلی عید تک چلانا پڑتا – عموما” وہ آخری روزے کو خریدا جاتا اور ہم بچے لوگ چاند رات کو نئے جوتے اپنے سرہانے کے ساتھ رکھ کر دیکھتے ، خوش ھوتے اور صبح جلد پہننے کے انتظار میں جلد سو جاتے – جس دن سے ھماراا نئے جوتے سرہانے کے ساتھ رکھنے کا شوق ختم ھوا ، ہماری عیدیں ہی پھیکی پڑ گئیں –
میانوالی کی چپل میانوالی کے گرم موسم کو سوٹ کرتی تھی – مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ کهیڑی کیا پولیس کے باقاعدہہ یونیفارم کا حصہ ھے کہ نہیں لیکن 1961/62 میں میرے ایک بزرگ ( نانا کے بهائی )نے جو اس وقت اٹک پولیس میں هیڈ کانسٹیبل تھے ، ایک کهیڑی جو ان کو یونیفارم کے ساتھ ملی تھی ، مجھے تحفے میں دی تھی ، اس نئے جوتے نے بھی حسب معمول میرے پاوں بہت کاٹے تھے – شاید میانوالی کے گرم موسم کے پیش نظر کهیڑی پولیس کے یونیفارم کا حصہ ھے کیونکہ گرمیوں میں یہاں لمبی ڈیوٹی پر بوٹ پہننا عذاب سے کم نہیں اور کهیڑی پہننے اتارنے میں بھی بہت سہل ھے – مجھے کسی بزرگ کی بات یاد آگئی – وہ کہتے تھے ہم نے انگریز سے جو چیز قبول کر لی وہ بوٹ پے جو ہمارے موسم کے مزاج کے خلاف ھے حالانکہ ہمیں انگریزی فیلٹ ہیٹ Hat لینا چاہیئے تھا جو گرمیوں کی دھوپ کیلئے بہترین پہناوا ھے –
کهسہ جس کی لمبی نوک ھو خالص برصغیر کا پہناوا ھے اور یہ طلے یا چاندی کی تار وغیرہ سے مزین ھو تو سلیم شاهی جوتا کہلاتا ھے — سلیم ، جہانگیر بادشاہ کا شہزادگی کے دنوں کا نام تھا –
گٹے والی جوتی خالص میانوالی یا ارد گرد کی ایجاد ھے ، بہت سادہ ، ھلکی پھلکی ، اور گرمیوں کا لاجواب پہناوا ھے – اس میں ایکک میخ بهی نہیں لگتی – اس میخ کے نہ ھونے سے اندازہ لگایا جاسکتا ھے کہ یہ کهیڑی یا دیگر جوتوں سے یہ قدیم پہناوا ھے – بلوچستان میں اسی انداز کے چمڑے کی بجائے گھاس کے بنے ھوئے جوتے میں نے دیکھے ہیں جو دیہی اور پہاڑی علاقوں کے غریب بلوچ بہنتے تھے – یہ گٹے والی جوتی ، پیر گورے هوں تو سبحان اللہ – اس زمانے میں نظر باز اور شوقین مزاج مرد ، خواتین کے پیروں کو دیکھ کر ھی ٹھرک پوری کر لیتے تھے اور ان کی رنگت اور نرمی سے ھی برقعے میں لپٹی خاتون کے حسن کے خیالی نقشے بناتے رہتے – پیروں کی مہندی اور پائل شاید ایسے ہی حالات کی پیداوار هے – ویسے ان ٹھرکی حضرات کی تعداد بہت ھی کم تھی اور انہیں انتہائی گٹهیا خطابات سے نوازا جاتا – گٹے والی کهیڑی کے مخصوص کاریگر ھوتے تھے اور اس کی تیاری آسان اور قیمت نسبتا” کم تھی اور یہ صرف گرمیوں کا پہناوا تھا – مجھے لگتا ھے ھماری قدیم جوتی کی پہلی شکل یہی تھی – عام کهیڑی دیدہ زیب هونے کی وجہ سے بہت دور دور تک مشہور تھی – میانوالی سے کئی بار میں اپنے کوئٹہ کے پشتون دوستوں کیلئے چپل بنوا کر لے گیا جو وہ بہت شوق سے پہنتے – لیکن ایک بار کیا ھوا کہ بهٹو صاحب وزیر اعظم کی حیثیت سے کوئٹہ آئے تو ایک بلوچ صحافی دانشور نے جو بعد میں جنرل ضیا کی مجلس شورے میں بھی شامل رھے ، کوئٹہ ایئر پورٹ پر انہیں بلوچی چپل تحفے میں دیئے – بهٹو صاحب نے وہ چپل اس کے ہاتھ سے لے کر واپس اسی کے سر پر رکھ دیئے – وہ اس تحفے کو توہین سمجھے تھے – اس دن سے چپل کا تحفہ دینا میری زندگی سے خارج ھوگیا –
اس پوسٹ کوآپ دوستوں نے انجائے کیا ھے یا نہیں ، مجھے ایک فائدہ ضرور ھوا ھے – یہ پوسٹ پڑھ کر میرے پڑوسی ،، معروف صحافی ناصر میر نے جن کے ساتھ مل کر نماز فجر کی ادائیگی سے میرے دن کا آغاز ھوتا ھے ، کهیڑی کی پوسٹ پڑھ کر بتایا تها کہ راولپنڈی پنڈی گھیب روڈ پر واقع ایک گاوں ڈھرنال میں اکرم موچی کا بڑا نام ھے جو کپتان چپل بناتا ھے اور سائی پر ایک ماە کے انتظار کے بعد 6000 روپے میں کهیڑی تیار کرکے دیتا ھے -اور وہ اس کا آرڈر دے آئے ہیں – کئی دن گزر گئے –
آج 15 اپریل 2016 ناصر میر نے بتایا کہ وہ وہاں سے کپتان چپل لے کر آئے ہیں – چپل دیکھی ، واقعی بہت دیدہہ زیب تھی لیکن بہت بھاری لگی –
کہنے لگے ایک لائٹ ویٹ کی بهی خریدی ھے اس کی قیمت 4000 روپے هے – نرم شو اور پہننے میں اچھا ھے لیکنن کپتان چپل کی زیبائش کے مقابلے میں کم – مجهے وہ پسند نہیں آئی – اچانک کہنے لگے ، کوئٹہ سے بھی کهیڑی کا تحفہ آیا ھے – لیکن وہ سائز میں بڑی ھے ، آپ ٹرائی کریں ، مجھے آپ کا نمبر لگتا ھے – میں نے کهیڑی دیکھی تو وہی میانوالی والی چپل – اس پر نوروز کی مہر نہ ھوتی تو میں کبھی یقین نہ کرتا کہ یہ کوئٹہ کی بنی ھے – دیدہ زیب ، مضبوط کرم – میں نے ٹرائی کی تو میرے ماپ کی نکلی – شکریے کے ساتھ تحفہ قبول کیا –
نوروز کا نام مجھے یاد رہ گیا تھا – اس کی خاص وجہ ھے –
1974 میں کوئٹہ میں پرنس روڈ پر بلوچی چپل کی کئی دکانیں تهیں – میں جب ادھر سے گزرتا تو ایک دکان کو خاصص طور پر اس لئے غور اور دکھ سے دیکھتا کہ اس دکان میں ایک چارٹ پر پنسل کی ڈرائنگ سے بنا ایک سکیچ تھا جس میں پانچ چھ بلوچوں کو پھانسی لگتے دکھایا گیا تھا – یہ نوروز بلوچ کا گروپ تها جس نے 1959 میں قلات سٹیٹ کے پاکستان میں انضمام پر مزاحمت کی تهی اور ایوب خان کے دور میں گرفتار ھو کر سزا ھوا تھا – ان بلوچوں کے ساتھ بد عہدی یہ کی گئی تھی کہ ان لوگوں نے مذاکرات میں قرآن کی قسم پر جان بخشی کے وعدے پر ہتھیار ڈالے تھے لیکن بعد میں حکومت وقت نے اپنا وعدہ بھلا کر ان لوگوں کو پھانسی دے دی تھی – نوروز کو زیادہ عمر کی وجہ سے پهانسی کی معافی تو دی گئی تهی لیکن اس کے پانچ عزیزوں کو دار پر لٹکا دیا گیا تھا – نوروز زرکزئی جیل کے اندر قید کے دوران مرا تھا – اس کے بعد نوروز بلوچ مزاحمت کی علامت بن گیا – اس ایک واقعے نے پاکستان کی یک جہتی کو جتنا نقصان پہنچایا کسی اور واقعے سے نہیں ھوا – اس وقت ٹکا خان کرنل تھا جس نے بعد میں مشرقی پاکستان میں بجائے مصلحت و سیاست کے جو سخت کاروائی کی تھی اس کے اثرات بہت دور تک گئے – ٹکا خان نے تو بعد میں پیپلز پارٹی کے عہد میں گورنر بن کر زندگی کی بہاریں دیکهیں لیکن رسوائی جنرل نیازی کی راە دیکھ رہی تھی –
سو مجھے اس دکهی بیک گراونڈ کے ساته نوروز کی دکان یاد تھی – شاید اب نوروز کے نام سے کوئی اور شو شاپ ھو –
چپل کے حوالے سے کئی اور دلچسپ یادیں میرے ماضی کا حصہ ہیں ، شادی پر تو میں جوتے کی چوری سے بچ گیا تھا لیکن مسجدد سے جوتے چوری ھونے سے نہ بچا – ایک وقت تھا میں مسجد میں اپنے جوتے سنبھال کر نہیں رکھتا تھا – چار پانچ بار میرے جوتی چوری ھوئے اور یہ ایک دلچسپ حقیقت هے ہر چوری کے بعد فوری طور مجھے اس سے زیادہ قیمتی شوز گفٹ میں ملے – اس سے مجھے پکا یقین ھوگیا کہ اس کے گھر میں اگر آپ کا کوئی نقصان ھوا ھے تو اس گھر والے نے آپ کے اس نقصان کو فورا” پورا کر دیا ھے – وہ اپنے مہمان کا نقصان نہیں ھونے دیتا –
جوتے اور چپل کے حوالے سے تایخ کے اوراق پر کئی دلچسپ واقعات بکهرے پڑے ہیں – سردار داود خان ، امیرر افغانستان کے اٹالین جوتے سے لے کر فلپائن کی خاتون اول مسز امیلدا مارکوس کے تین ہزار سینڈلز تک کی کہانیاں اب تاریخ کا حصہ ہیں – سردار داود خان کو افغانستان کے انقلاب کے موقع پر قتل کر کے دیگر لاشوں کے ڈھیر کے ساتھ ایک گڑھے میں دفن کر دیا گیا تھا – کمیونسٹ گورنمنٹ کے خاتمے پر اٹھارہ بیس سال بعد وہ گڑھا کھودا گیا اور اٹالین بوٹ جو سردار داود خان نے مرتے وقت پہن رکھے تھے ، وہ محفوظ تھے – ان بوٹوں کی مدد سے سردار داود خان کی نعش کی شناخت ھوئی –
لیکن مجھے جو محاورا یا بات دلچسپ ، عجیب اور وقت کی ضرورت لگتی ھے وہ ھے جوتے چلنا – یعنی بندے کے چلے بغیرر جوتے چلنا – اب پشاوری چپل پر دو بڑے لیڈروں کا اتفاق ھے تو فیشن کی دنیا میں یہ چپل چل پڑے گی – ویسے بهی انڈیا تک تو اس کی ابھی سے مانگ بڑھ گئی هے – اسے وہاں پٹھانی چپل یا پشاوری چپل کہا جاتا ھے اور شلوار قمیض سمیت بہت بڑا تحفہ سمجھا جاتا ھے – اس کے علاوہ بقول میڈم ایس اے پاشا ، یورپین لیڈیز کیلئے بھی اسی ڈیزائن میں نرم نازک کهیڑی تیار کی جا رهی هے – بصراللہ مروت کہتے ہیں ایک غیر ملکی انجنیئر کی فرمائش پر میں نے بنوں سے کهیڑی تیار کرائی تھی – جبکہ حبیب اللە خان نیازی نے بتایا ھے کہ یورپ میں یہ کهیڑی رابرٹ سینڈل کے بام سے آگئی ھے – اور منصور آفاق نے بتایا ھے کہ وہ انگلینڈ میں ابھی تک یہی کهیڑی پہنتے ہیں – یعنی دنیا بهر میں یہ جوتا چل پڑا ھے – لیکن پاکستانی عوام خوشحالی کی منزل تک اس وقت پہنچیں گے جب ھمارے ہاں کے بڑوں میں بهی جوتے چل پڑیں خاص طور پر جن میں باریاں لینے پر مک مکا ھو چکا ،
ورنہ بقول جالب — پاوں ننگے ہیں بے نظیروں کے ، والا معاملہ ہی چلتا رھے گا اور قوم یا تو قیامت تک ان سیاستدانوں کیی جوتیاں ہی سیدھی کرتی رہ جائے گی یا پھر فوجی بوٹوں کی دهمک کے انتظار میں ہلکان ھوتی رھے گی ——–کنے والی طلے کی کهیڑی – اب عام طور طلائی دھار کی بجائے نائلون کی تار استعمال ھونے لگی ہے اور یہ زیادہ مضبوط بھی ھے اور اس کی چمک بھی کم نہیں هوتی – گرمیوں اور شادی بیاہ کے موقع پر میانوالی کا پسندیدہ پہناوا چاندی کے تار والی کنے کی کهیڑی – کچھ لوگ گولڈن کی بجائے سفید لباس کے ساتھ اسے استعمال کرنا پسند کرتے ہیں – اس میں بھی اب عام طور پر اب چاندی کے تار کی بجائے نائلون کی تار استعمال کی جاتی ھے –
طلائی اور چاندی کے تاروں کی کڑھائی تلہ گنگ کے کاریگروں کا اور رنگین دهاگوں کا کام سبی بلوچستان کے کاریگروں کاا خاص فن تھا
ظفر خان نیازی –2فروری2016