پتھر ،قدرتی نقش
ضعیف الاعتقادی
مجھے پتھر اچھے لگتے ہیں ، میں نے پتهروں پمجھے پتھر اچھے لگتے ہیں ، میں نے پتهروں پر کچھ اشعار بھی کہے ہیں ، لیکن مجھے حسن اختر جلیل مرحوم کی غزل کا ایک شعر جس کی ردیف ھی پتھر ھے ، بہت پسند ھے – شعر ھے
تیری سوچوں کی قسم اے میرے خاموش خدا
مجھ سے کرتے ہیں اطاعت کا تقاضا پتھر
ویسے تو وہ ساری غزل لاجواب ھے ، لیکن اس موقع پر ان کا صرف ایک شعر اور سنانے کو جی چاہتا ھے –
کس کے پیکر میں سماتا میرے احساس کا لوچ
میں نے انساں سے خجل ھو کے تراشا پتهر
نفیس طبع ، حسن اختر جلیل ، میانوالی میں تحصیلدار تھے – سن 70 میں میانوالی میں ایک مشاعرہ کرایا تھا اور اسیی مشاعرے کو سننے کے بعد مجھے بھی شاعری کا مرض لاحق ھوا تھا – لیکن اس وقت میرا موضوع سخن وہ پتھر ھیں جو قیمتی اور پر اسرار سمجھے جاتے ہیں –
میں نے اپنی ایک میموری پوسٹ آپ لوڈ کی جو دانہء فرنگ کی پک کے ساتھ تھی – اور ساتھ میں دوستوں کو عرض کیا تھاا کہ اس کو غور سے دیکھ لیں – یہ بظاہر ایک معمولی قیمت کا پتھر ھے لیکن یہی پتھر گردوں کی پتھری کیلئے آپ کے کام آسکتا ھے – میں نے یہ بات اپنے درجنوں بار کے مشاہدے کی بنا پر لوگوں کی سہولت کیلئے لکھی تھی – کوئٹہ میں ھمارے اسٹیشن ڈائریکٹر جناب یوسف بنگش کو گردے کی تکلیف ھوئی تھی ، انہیں یہ پتھر پہنایا گیا تو انہیں افاقہ ھو گیا تھا – راولپنڈی میں پروڈیوسر ساتھی ریاض قریشی کو یہی شکایت ھوئی ، انہیں میں نے دانہء فرنگ کا مشورہ دیا – ان کو بھی افاقہ ھوا – پھر تو جانے کتنے لوگوں کو یہ بات بتائی اور اس کا ریزلٹ مثبت دیکھا – کتابیں بھی اس پتھر کے طبی خواص کے بارے میں یہی کہتی ہیں – اور آپ فٹ پاته پر بیٹهے کسی انگوٹهی فروش کو کہیں مجهے گردے کی تکلیف هے ، پتهر دو ، وہ آپ کو دانہء فرنگ جسے Malakite کہتے ہیں ، اٹها کر دے گا – بہت ہی سستا پتھر ھے – میں نے دوستوں کے استفادے کیلئے یہ بات پہنچانے کی کوشش کی – میری اس پوسٹ پر ایک نہایت پیارے دوست صحافی جبار مرزا نے شاید اسے ضیعف الاعتقادی سمجھا اور کمنٹ کرتے هوئے مذاق میں لکھا کہ مجھے ایک نجومی نے کہا تھا کہ میں گورنر بنوں گا ، مجھے بتائیں میں کون سا پتھر پہنوں کہ گورنر بن جاوں – اب جبار مرزا مزاجا” واقعی ایک درویش انسان هیں – میں ان کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا اور یوں تو ھما ، اقتدار کا پرندہ ، لگتا ھے اندھا ھے ، کیسے کیسے لوگوں کے سروں پر بیٹهتا رہا هے ، لیکن حقیقت یہ ھے کہ اقتدار کی موجودہ لوٹ سیل میں اگر کوئی جرنلسٹ آج گورنر نہیں بن سکا تو اسے آئندہ کیلئے بھی کوئی امید نہیں رکھنا چاہیئے –
70 کی دہائی میں میں کوئٹہ میں تھا – اس وقت وہاں مارکیٹ میں اور عام لوگوں کے هاتھ میں سب سے زیادہ جو پتھرر دیکھا ، وہ فیروزے کا تھا – میری اس وقت تنخواہ بارہ سو روپے تھی اور خوبصورت عام فیروزہ وہاں اس وقت سو دو سو سے لے کر تین چار ہزار روپے تک بکتے سنا – اعلے فیروزے زیادہ تر ایران سے لائے جاتے ہیں – میرے دانشور دوست ، کہانی نویس خادم مرزا مرحوم قیمتی پتهروں کے بہت شوقین تھے – اس کے علاوہ اسحاق ہزارہ ، مرزا صاحب کی دوستی کے حوالے سے ھمارا بھی دوست تھا جس کی پتهروں انگوٹهیاں کی شاپ جناح روڈ کوئٹہ کے اختتام پر صدر اور شہر کے سنگم پر حبیب نالے کے قریب بلکہ اوپر تھی – میرا قیمتی پتهروں سے پہلا تعارف انہی کی معرفت هوا تھا – خادم مرزا صاحب کے پتھر لے کر پہن لیتا تھا – باقی تو کچھ نہیں یاد لیکن کبھی ان دنوں کوئی سا فیروزہ لے کر پہنا تو دوسرے دن تک مجھے سخت ٹمپریچر ھو جاتا تھا – یہ کیفیت مجھ پر اتنی دفعہ گزری کہ آخر میں نے فیروزے کا نام لینا ھی چهوڑ دیا – لیکن کوئٹہ کے دوستوں کی صحبت سے میں پتھروں کا شوق لے کر 1981 میں رالپنڈی آگیا – وہاں کئی دلچسپ واقعات سنے تهے جو لوگوں پر پتھر پہننے پر گزرے تھے اور سب سے دلچسپ روایت تو شہر میں تنور والی تھی – کوئٹہ میں اگر کسی تنورچی کا تنور یک لخت اتنا ٹهنڈا ھو جائے کہ تنور میں لگی روٹیاں گر پڑیں تو وہ لوگوں کے ہاتهوں میں انگوٹهیاں تلاش کرنے لگتا ھے – وہاں یہ خیال عام ھے کہ ایک خاص قسم کا فیروزہ تنور کی ساری گرمی جذب کر لیتا ھے جس کی وجہ سے تنور یک لخت ٹهنڈا ھو جاتا ھے – ویسے میں نے خود ایسا فیروزہ نہیں دیکھا –
وہ پتھر جن کے گہرے منفی اثرات کی باتیں تواتر سے سنیں وہ نیلم اور فیروزہ تھے – اور یہی دو پتھر سحری خواص کے اعتبارر سے زیادہ تیز اور زود اثر سمجھے جاتے ہیں –
کوئٹہ میں فیروزے کے ماہرین نیلی رنگت کے فیروزے کو قیمتی سمجھتے ہیں – اور اگر اس کا رنگ تبدیل ھو کر سبز ھو جائےے تو وہ سمجھتے ہیں یہ زندہ پتھر مردہ ھو ریا ھے – اس لئے وہ فیروزے کو سبز ھونے سے بچانے کیلئے سرسوں کے تیل سے بچاتے ہیں – آئل فیروزے کی رنگت کو سبزے میں بدلنا شروع کرتا ھے – جبکہ پنڈی اور پنجاب کے شہروں میں سبز رنگت میں بدلتے فیروزے پر خوشی کا اظہار کیا جاتا هے – مکمل سبز فیروزے کی قیمت پنڈی میں دگنی دگنی ھوتی دیکهی ھے –
میرے ایک سینئر براڈکاسٹر ساتھی سید غلام حسین جعفری صاحب جن کے حسن ذوق کا اندازہ ان کے کمنٹس سےے ھی ھوتا ھے ، پتهروں کے سحری خواص کے حوالے سے کہتے هیں :—
” میر صاحب ( میر تقی میر) ایک دفعہ نواب صاحب سے ناراض ہوگئے تھے ۔ کچھ دن گھر میں پڑے رہنے کی وجہ سےے شدید بیمار ہوگئے۔ان کی بیماری کا علاج سنگ یشعب بتایا گیا۔ نواب صاحب کو بیماری کا علم ہوا تو انہوں نے خادم کے ذریعہ کچھ تحفہ تحائف کےساتھ سنگ یشعب بھجوایا۔ میر صاحب نے سنگ یشعب دیکھ کر فے البدیہہ شعر کہہ کر نواب صاحب کو بھجوایا،
دیوانہ پن ہمارا آخر کو رنگ لایا
وہ دیکھنےکو آیاہاتھوں میں سنگ لایا
پتھروں کے خواص کے بارے میں کئی مستند کتابیں نظر سے گزری ہیں۔اس سلسلے میں بارہا لوگوں سے گفتگو بھیی ہوئی ہے۔کچھ لوگ تو اس پر اندھا یقین رکھتے ہیں لیکن بات صرف ایک ہی ہے ،
“مانو تو دیوتا ورنہ پتھر “
راولپنڈی میں میرا فارغ وقت پرانی کتابوں کی تلاش کے ساتھ ساتھ فٹ پاتھ پر بیٹھے انگوٹھی فروشوں سے پتهروںں اور سیکنڈ هینڈ واچز کو دیکھنے میں خرچ ھوتا تھا – لیکن میں پتهروں اور ستاروں کے آپس کے تعلق کے بارے میں نہ تو کچه جانتا هوں اور نہ ھی شوق ھے البتہ مجھے ایسے پیٹرن والے پتھر بہت اچھے لگتے تھے جن پر مقدس ناموں کے نقش بنتے هوں – میرے پاس ایسے چند ایک پتھر ہیں – یہ پک جو آپ دیکھ رھے ہیں ، یہ میری ذاتی کولیکشن میں ھے – بہر حال کوئٹہ سے یہاں آنے کے بعد میں نے پھر فیروزہ پہننے کی کوشش کی اور مجھے اس پر حیرت ھوئی کہ اب مجهے بخار نہیں هوتا تها اور یہ پتھر میرے پاس آکر اپنا رنگ گہرا کر لیتا تھا – فرق یہ تھا کہ کوئٹہ میں میں تهروآوٹ بے وضو اور بے نمازی رہا ، یہاں وضو میں رهنے اور کچی پکی نماز پڑھنے کی عادت پڑگئی –
میرے ایک بہت قریبی ساتھی نے میری پچھلی ایک پوسٹ پر طنز کرتے ھوئے مجھے لکھا کہ تم نشریات میں بھی توھمم پرستی پھیلاتے رھے ھو اور اب بھی یہی کام کر رھے ھو – سو پتهروں کے موضوع پر بات کرتے ھوئے میں بہت محتاط تھا – اور اس پوسٹ کو بند کر ریا تھا کہ ایک سینئر دوست رشید صدیقی نے کمنٹس میں لکھا کہ میں اس کا شوق نہیں رکھتا لیکن ایک عجیب واقعہ یہ ھوا کہ میری بیگم نے فیروزے کا ایک سیٹ بنویا اور وہ جب بهی یہ پہنتی تھیں کوئی تکلیف دہ حادثہ هو جاتا تھا ، جس پر تنگ آکر وہ سیٹ ھم نے بیچ ڈالا –
اس پر میں نے جو بات جواب میں عرض کی وہ اس قابل ھے کہ آپ کے گوش گزار بھی کر دی جائے شاید کسی کے کام آجائےے —-
رشید صدیقی صاحب ! آپ نے جو بات لکھی ھے وہ بہت اہم ھے اور اس سے پہلے بھی میں کئی اس نوعیت کی کہانیاں سنن چکا هوں اور مزے کی بات ھے کہ ان کا عام خیال بھی آپ جیسا تھا – میں بوجوہ اس موضوع پر مزید کہانیاں نہیں سنانا چاہتا – میرے سنجیدہ دوستوں نے اس خیال کا مذاق اڑایا ھے – اور سچی بات تو یہ ھے کہ پتھر پہننے والے حضرات عام طور پر پتهروں کی محبت میں کچھ زیادہ گرفتار ھو کر ضیعف الاعتقادی کا شکار ھونے لگتے ہیں – اس لئے بھی میں اس موضوع کی تفصیل میں جانے سے گریز کرتا هوں لیکن یہ حقیقت ھے کہ پتھر پہننے پر آپ کی طبیعت اور مزاج میں ایک تبدیلی آسکتی ھے ، جو مثبت بھی ھو سکتی ھے اور منفی بھی – عام دوستوں کیلئے صرف ایک مشورہ عرض کرتا هوں –
آپ جب بھی کوئی نئی انگوٹھی پہنیں جس میں سٹون ھو ، دو ایک دن تک اپنے مزاج میں تبدیلی پر ضرور نظر رکهیں ، کیونکہہ اصلی پتھر آپ کے گرد آپ کے شخصی ھالے Aura پر اس طرح اثرانداز ھوتا ھے کہ آپ کے گرد رنگوں کے غیر مرئی دائرے کے رنگوں کو فلٹر کر کے ان میں کمی بیشی لا سکتا هے جس سے آپ کے مزاج پر اچھا یا برا اثر پڑ سکتا ھے –
یہ موضوع بہت طویل ھے لیکن یہاں اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ھے –
اب آخری بات –
ذرا پہلے میری حیثیت کا آدمی بڑی آسانی سے فیروزہ خرید سکتا تها – اڑھائی تین سال پہلے میں اور بھا ء ظہیر جاوید راجہ بازارر گئے اور فیروزے کی قیمت پوچھی – عام دانہ چھ ہزار سے شروع ھو کر ایک لاکھ تک کی قیمت کا نظر آیا – میں نے بادشاہ انگوٹھی فروش سے حیرت سے پوچھا تو اس نے میری انگوٹھی کو دیکھا اور پوچھا ، یہ آپ نے کتنے کا لیا تھا – میں نے کہا، فیروزہ پانچ سو کا اور ہزار روپے انگوٹھی پر لگے تھے –
اس نے مجھے کہا – اگر آپ اب بیچنا چاہیں تو تئیس ہزار روپے میں اسی وقت اس کے دے سکتا هوں –
میں پریشان ھو گیا –
بعد میں پتہ چلا کہ سلیمان خان نے کسی فلم میں فیروزے کا ایک کڑا کلائی میں پہنا هے جس سے نوجوانوں میں فیروزے کاا شوق چل پڑا ھے اور درویشوں کا شوق بھی خطرے کی زد میں ھے —
واللہ اعلم بالصواب
ظفر خان نیازی – 9اپریل2016