منورعلی ملک کے نومبر 2023کے فیس بک پرخطوط
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معروف عالم دین مولانا طارق جمیل کے جواں سال صاحبزادے کی ناگہاں موت کا صدمہ ہر سطح پر محسوس کیا گیا۔ سیاسی اور دینی معاملات میں مخالف لوگوں نے بھی سوشل میڈیا پیغامات کے ذریعے اور براہ راست مولانا سے تعزیت کی۔
طرح طرح کی باتیں سننے میں آ رہی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں بچے نے خودکشی کی ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ بات درست بھی ہو تو دیکھنا یہ چاہیئے کہ وہ بچہ ذہنی مریض تھا اور ذہنی مریض اپنے کسی قول و فعل کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ اس کی موت پر اظہار افسوس بہرحال ایک اخلاقی تقاضا ہے۔
اللہ جوان اولاد کی موت کا دکھ کسی کو نہ دے۔ یہ ایسا زخم ہے جو کبھی نہیں بھرتا۔ مولانا طارق جمیل عالم دین ہیں۔ صاحب علم لوگ عام لوگوں کی نسبت زیادہ صابر و شاکر ہوتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہر حال میں صبر کا حکم دیا ہے۔
دعا ہے کہ رب کریم مرحوم کی مغفرت فرمائے اور مولانا طارق جمیل صاحب اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔1 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو علامہ اقبال نے اپنے استاد محترم داغ دہلوی کے بارے میں کہا تھا۔۔۔۔
آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں
کچھ ایسا ہی معاملہ اپنا بھی ہے۔ موضوع جو بھی ہو میری نظر اپنے بچپن پر رہتی ہے۔ یوں سمجھ لیجیئے کہ میں زندگی کو ایک بچے کی نظر سے دیکھتا ہوں ۔ اسی وجہ سے کسی موسم کا ذکر کرتے ہوئے اس موسم کے مخصوص پکوان بھی بڑی شدت سے یاد آ جاتے ہیں ۔
سردی کے موسم میں چنے کی دال کا حلوہ دو چار بار ہر گھر میں بنتا تھا۔ چنے کی دال کو پانی میں ابال کر پانی الگ کرنے کے بعد دال کو باریک گرائینڈ کر کے (پیس کر) دودھی بنا لیتے تھے۔ پھر گڑ اور خالص دیسی گھی کی پت (شیرہ) بنا کر دودھی اس میں ڈال دیتے تھے۔ چند منٹ میں حلوہ تیار ہو جاتا تھا۔
چنے کی دال کا حلوہ بہت نرم ہلکا پھلکا اور نہایت لذیذ چیز تھا ۔ یہ نزلہ زکام کا بہترین علاج بھی سمجھا جاتا تھا ۔ یہ حلوہ کھانے کے بعد کم ازکم ایک گھنٹہ پانی نہیں پینا چاہیے۔ اسی لیئے ہم تو رات کو سونے سے پہلے کھایا کرتے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔۔2 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
آپ میٹھے، آپ کے ذکر کردہ موسم خوشگوار، آپ کے لکھے الفاظ ذائقہ دار، آپ کے یاد کردہ لوگ بھلے، آپ کی بیان کردہ یادیں حسیں، آپ کو پڑھنے والے لوگ خوب صورت، آپ کا دیا گیا علم پائدار، آپ کی سوچ مثبت، آپ کا تخیّل منفرد، آپ کی مستقل مزاجی کمال۔ تو جب آپ پکوان کا ذکر کریں گے تو ضرور ہمارے منہ میں پانی بھر آئے گا۔
پیارے سر جی ہم تو آپ سے عقیدت کی حد تک محبت کرتے ہیں۔
Baba Jani !! MashaAllah one of the fantastic write up !! Once I have read Molvi Syed Mir Hassan was the teacher of Great poet Allama Iqbal !! MOHATARRAM Dagh Dehlvi Allama Iqbal k shaairee me USTAD they,,,,,,,,,,,,?, Zara ye baat wazih kijiyega…
اللہ جل و شانہ آپ کو ایک بار پھر اپنے مقدس اور بابرکت گھر خانہ کعبہ کی زیارت نصیب کریں ۔۔۔
اور مسجد نبوی شریف میں آقا کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور حاضری نصیب ہو ۔۔۔
اور آپ پڑھتے جائیں۔۔۔ “یہ تیرا چہرہ یہ تیری زلفیں” یہ صبح آقا یہ شام آقا درود آقا سلام آقا سلام خیرالعنام آقا
اسلام علیکم رحمتہ اللہ وبرکاتہ معزز سر آ پ کے ۔نایاب خالص دیسی کھانے کے اذکار خالص حسین زمانے کی یادیں تازہ ھو جا تیں ہیں نیک و صالح ماوں کے بناے ہوے خالص دیسی چنے کے حلوے لزیز ذائقے صحت افزا ہمارے مزاج خیالات کو فرحت وتسکین بخشتے اور صحت مند معاشرے پیدا ہوتےسب لوگ خوشیاں بانٹتے ہر طرف امن وسلامتی کی فضاء ھوتی مگر آ ج کے دور کے لوگ ہوٹلوں کےمصنوعی مصالحے دار چٹ پٹے کھانوں کے عادی ہو چکے ہیں جو ہماری نوجوان نسل کی صحت پر برے اثرات پڑ رہے ہیں فضول خرچی بھی بڑھ رہی ہے ن ہم اپنے بزرگوں کی ثقافت دیسی کھانے ترک کر دیے ہیں اپنے پرہیزگار بزرگوں روایات اور دین اسلام کی تعلیمات کو نظر انداز کردیاہے اس لیے ھم جسمانی روحانی امن سلامتی کی خوشیوں محروم ہو چکے ہیں ھماری کامیابی کی کنجی قرآن وسنت پر عمل کرنے سے ہے
ماشاءاللہ ماشاءاللہ سرجی !
خوبصورت دور کی دلبہار سوغات !
ایک لطیفہ حاضر خدمت ھے ۔
ایک مولوی صاحب کی نئی نویلی دلہن نے اپنی تعریف سننے کیلیے مولوی صاحب سے کہا !
مولانا !! کچھ میٹھا سا کچھ پیارا سا کچھ رسیلا سا میرے کان میں کچھ کہیں ۔
مولوی صاحب نے اپنی داڑھی پہ ہاتھ پھیرا اور اہلیہ محترمہ کے نزدیک ھوکر کان میں ہلکا سا کہا !!!!!!!!!!!
حلوہ
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیں ایک آدھ دن آپ کی اس دلچسپی کا سامان بھی فراہم کر دیتے ہیں۔
میں نے خود تو چائے کے سوا کبھی کچھ نہیں بنایا مگر بچپن کے دور کے سب کھانے بنانے کا طریقہ سیکھ لیا۔ وہ یوں کہ بچپن میں کھانے پینے کا بہت شوق تھا اس لیئے گھر میں اکثر کچن کے ارد گرد منڈلاتا رہتا تھا۔ اس طرح تاک جھانک کر مختلف کھانے بنانے کی ترکیبیں سیکھ لیں ۔
آج ذکر چلے گا موسم سرما کی سبزیوں کا۔
شلجم ، مولی، گاجر ، پھول گوبھی، مٹر اور پالک ہمارے ہاں اس موسم کی اہم سبزیاں شمار ہوتی تھیں۔ شلجم اور گاجر سرخ اور جامنی دو رنگوں کے ہوتے تھے۔ شلجم کے شوربے کے علاوہ گوبھی کی طرح شوربے کے بغیر والا سالن بھی بنتا تھا۔۔ مولی کے شوربے والے سالن کے علاوہ توے پر بہت لذیذ بھجیا بھی بنتی تھی۔ گوبھی اور گوشت ملا کر بھی پکاتے تھے۔
چتروں والی دیسی پالک اب تو نایاب ہے ، بہت لذیذ سبزی تھی ۔ پالک سادہ کے علاوہ گوشت ملا کر بھی بناتے تھے۔
بہت عرصہ ہوا ایک لاہوری دوست کے ہاں پالک چاول کھائے تھے۔ نہایت لذیذ کھانا تھا۔ پالک گوشت کا تیز مصالحے والا شوربہ ابلے ہوئے چاولوں میں ملا کر کھایا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں مولی گاجر شلجم مٹر اور آلو پر مشتمل مکسڈ سبزی اب بھی بنتی ہے۔ یہ بھی بڑا لذیذ combination ہوتا ہے۔
گاؤں میں سبزی دکانوں کی بجائے کنووں پر ملتی تھی۔ کنوئیں کے پانی پر پلی ہوئی سبزیوں کا اپنا منفرد ذائقہ ہوتا تھا۔
چیزیں تو اب بھی ملتی ہیں مگر نہ وہ ذائقے رہے نہ بنانے والے لوگ ، بس ۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔3 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
وااااااہ وااااہ سرجی واااہ !!!
ویسے تو اللہ پاک کی سبھی نعمتوں پر اس ذات ربانی کا بیحد شکر گذار ہیں ۔
لیکن میری من پسند سبزی ہمیشہ پالک رہی ہے ۔بچپن میں جس دن امی حضور پالک اور چنے کی دال بناتی تو اس روز میری عید ھوتی تھی ۔
اللہ کا مزید شکر یہ کہ میرے سسرالی گاؤں میں پہلے پہل لوگ جن کے اپنے کنوؤیں تھے ۔اپنی ساتھ والی زمین پہ پالک ، مولی ، گاجر میتھی شلغم اور پتوں والے شلجم کاشت کرتے تھے ۔میری مرحومہ خوشدامن صاحب وہاں سے تازہ پالک اور میتھی لیکر بہت اہتممام سے میرے لیے سپیشل طور پہ پکا کر بھجواتی تھیں ۔میں جب بھی گھر چھٹی آتا تو یہ میرے لیے ان کی طرف سے خصوصی تحفہ ہوتا تھا ۔دیسی پالک کی خوشبو سے بھوک چمک اٹھتی تھی ۔ناشتے میں اس لذیذ پالک کے پراٹھے الگ سے ھوتے تھے ۔جب تک وہ زندہ تھیں یہ سلسلہ چلتا رہا ۔اب ستمبر کے وسط میں گھر کے ایک طرف جو کچی جگہ ھے اس میں بغیر کسی یوریا کھاد کے صرف جانوروں کا دیسی پرانا گوبر ڈال کر ایک کیارا پالک کا بیج دیتا ھوں ۔ رمضان المبارک تک پکوڑوں کیلیے گھر سے ھی پالک دستیاب رہتی ھے ۔
ہوم منسٹر صاحبہ خصوصی طور پہ میرے لیے پالک گوشت بناتی ھے ۔
خیر !!! آپ سوچ رھے ھونگے کہ اور بھی سبزیاں ہیں زمانے میں پالک کے سواء ۔۔
تو یوں سمجھیے کہ پالک کے ساتھ مجھے ساری سبزیاں پسند ھیں ۔لیکن پالک پالک ھے ۔۔۔Love u
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردیوں میں لباس کے لیئے کوئی خاص تکلف نہیں کیا جاتا تھا۔ کوٹ ، سویٹر، جرسی، ٹوپی، مفلر وغیرہ کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ بزرگ لوگ لٹھے کی سفید چادر اوڑھ لیتے تھے۔ نوجوان دھوتی لپیٹ کر گذارہ چلا لیتے تھے۔ بزرگ خواتین کالے رنگ کی سفید دھاریوں والی چادر اوڑھ لیتی تھیں۔ اس مخصوص چادر کو ” ٹکرا” tikra کہتے تھے۔
دراصل اس زمانے کے لوگوں کو سردی لگتی بھی بہت کم تھی۔ خالص غذا ، دن کو دھوپ، رات کو آگ کا الاو ، ایسے لوگوں سے سردی کا کیا لینا دینا۔ سوتی چادر اوڑھ کر ہی سردی کا موسم مزے سے گذار لیتے تھے۔
سکول جانے والے بچوں کے لیئے بہینں سلائیوں پر سادہ سے اونی سویٹر بنا دیا کرتی تھیں۔ فوجی جوان بزرگوں کے لیئے سرکاری مال خانے سے خاکی رنگ کے بھاری بھرکم اوور کوٹ لے آتے تھے جنہیں برانڈی کہتے تھے۔۔ مگر اللہ لوک بزرگ یہ کوٹ شاذونادر ہی پہنتے تھے ۔
جب داودخیل میں سیمنٹ اور کھاد وغیرہ کے کارخانے بن گئے تو ان کارخانوں میں کام کرنے والے لوگ کوٹ جرسیاں، ٹوپیاں ، مفلر وغیرہ پہننے لگے۔ رفتہ رفتہ بچے بوڑھے اور جوان سب لوگ یہ چیزیں استعمال کرنے لگے۔ لباس کا کلچر ہی بدل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔4 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
عالی جناب
آپکی خدمت میں ایک شعر عرض ہے
جو بانٹ رہا ہے علم کی روشنی سانول
وہ شخص خود دل کا کتنا منور ہوگا
آپکی صحت تندرستی کے لیئے دعا گو
جاوید سانول
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الیکشن کی تاریخ مقرر ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی انتخابی سرگرمیوں کا آغاز ہوگیا ۔ بڑی بڑی ریلیاں اور جلسے ہوں گے۔۔
الیکشن پہلے بھی ہوتے رہے مگر اب کی بار صورت حال خاصی تشویشناک ہے۔ دلیل کی جگہ گالم گلوچ، مار کٹائی، کردار کشی کا خطرناک رجحان آج کا سیاسی کلچر بن چکا ہے۔ بے شک اپنے اپنے سیاسی لیڈر کی تعریف کریں، ان کی خوبیاں بتا کر لوگوں کو ان کا ہمنوا بنانے کی کوشش کریں، لیکن ایک لیڈر کو بڑا ثابت کرنے کے لیئے دوسروں کو گالی دینا ضروری نہیں۔ اس طرح تو جواب میں گالیاں ہی ملیں گی، نوبت ہاتھا پائی تک بھی جا سکتی ہے۔ لیڈروں کا تو کچھ نہیں بگڑے گا نقصان ہمارا ہی ہوگا کہ بھائی بھائی کا دشمن بن جائے گا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ سیاسی لیڈروں میں فرشتہ کوئی بھی نہیں۔ سب کی خوبیاں اور عیب ساری قوم جانتی ہے۔ ہم نے انہی میں سے کسی ایک کو ووٹ دینا اور دلوانا ہے۔ لیکن کسی ایک لیڈر کی حمایت میں اتنا آگے نہ جائیں کہ بھائیوں اور دوستوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔ کیونکہ جس لیڈر کی خاطر آپ اپنے بھائی کا گریبان پکڑتے ہیں مشکل وقت میں وہ تو آپ کے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا۔ آپ کے جنازے اور تعزیت میں بھی شریک نہیں ہوگا۔
سیاسی اختلافات پہلے بھی ہوتے تھے ، لیکن یہ بھی دیکھا کہ ایک ہی گھر میں ایک بھائی پی پی پی کا جیالا ہے ، دوسرا مسلم لیگ کا متوالا ، تیسرا جماعت اسلامی کا شیدائی مگر ان میں لڑائی جھگڑا کبھی نہ دیکھا۔ سب اپنے اپنے موقف پر قائم رہے۔
لیکن اب صورت حال بہت حساس ہے۔ پی پی پی، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے ورکرز تیر تلواریں لے کر ایک دوسرے کے مقابل میدان میں آ چکے ہیں۔ اللہ کرے الیکشن کا عمل صاف شفاف اور پرامن ہو۔ کوشش یہ کریں کہ صرف ایک دن کے الیکشن کی خاطر سالہا سال سے برقرار رشتے اور دوستیاں ختم نہ ہو جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔5 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
گالم گلوچ وہی کرتے ہیں جو جاہل ہوتے ہیں۔اِس معاشرے میں پڑھے لکھے باشعور لوگ بھی ہیں جو دلیل سے بات کرتے ہیں۔جو جاہل ہوتےہیں وہ سیاست سے ہٹ کر بھی جہالت سے باز نہیں آتے۔زمینوں اور جاٸیدادوں پر جھگڑے ، قتل و غارت سیاسی لوگ تھوڑی کرواتے ہیں۔
سرجی بالکل درست فرمایا آپ نے ۔
ھم نے 1989ء سے الیکشن ھوتے دیکھے ہیں ۔لیکن پچھلے پانچ سالوں میں پاکستانی سیاست میں جتنی گندگی اور غلاظت پیدا ھوچکی ھے ۔اور بالخصوص ایک فتنہ پارٹی کا وجود عمل میں آیا ھے ۔اس نے گالم گلوچ اور فساد کی فضاء پیدا کردی ھے ۔ھم عوام اتنے بیوقوف ہیں کہ ھم ان دو ٹکے کے لیڈروں کے پیچھے لگے ھوۓ ھیں ۔اور وہی ھماری کھال ادھیڑ کر جیلوں میں بھی دیسی مرغے اور بکرے کے گوشت دیسی گھی میں ڈکار رھے ھیں ۔ان لوگوں کو نہ اپنے سپورٹروں کی زبوں حالی کی فکر ھے نہ ملک کی ۔یہ سارے مفاد پرست لوگ ھیں ۔
اللہ کرے کہ یہ الیکشن صاف شفاف ھوں ۔ایسا نہ ھو کہ 25 جولائی 2018ء کی طرح رات کو بیلٹ پیپرز پہ ٹھپے لگا کر بیلٹ بکس بھرے جائیں ۔اور بدکردار فسادی لوگوں کو ھم پہ مسلط کیا جاۓ ۔
لیکن بحیثیت قوم ھمیں منظم ھونے کی ضرورت ھے ۔نہ کہ ھم انصافی ۔ن لیگی اور جیالے بنیں ۔قوم کو تقسیم کرکے خود سارے سیاستدان اندر سے ایک ھی ھیں ۔
پنجابی کی مثال ھے کہ کُتی چوراں نال رلی ھوئی اے ۔
بقول علامہ محمد اقبال رح
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست۔۔
یہ سارا جمہوری سسٹم ہی غلط ہے
اس گھٹیا اور فرسودہ جمہوری نظام سے عوام کو رتی برابر بھی کوئی ریلیف نہیں مل رہا بلکہ یہ سسٹم عوام اور ملک کا دشمن ہے۔۔
چند ایلیٹ کلاس لوگ پاکستان کی 25 کروڑ عوام پر زبردستی مسلط ہیں
اب اس گھٹیا اور فرسودہ جمہوری نظام کو ہی ختم کر دینا چاہیے جس میں عوام اور ملک پاکستان کا ہی کوئی فائدہ نہ ہو ۔۔!!
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا بچپن بھی کیا دلچسپ زمانہ تھا۔ کسی کاریگر کو جو کام کرتے دیکھتے ارادہ کر لیتےکہ بڑے ہوکر یہی کام کرنا ہے۔ چاچا شادی بیگ کمہار کو مٹی کے برتن بناتے دیکھا تو فیصلہ کر لیا کہ بڑے ہو کر کمہار ہی بننا ہے۔ چاچا غلام محمد درکھان کو منجی پیڑھی ٹھوکتے دیکھا تو سوچا اصل کمال تو یہی ہے۔ بڑے ہو کر درکھان ہی بننا ہے۔ ایک دن جوتا مرمت کروانے کے لیئے چاچا پھتن(فتح محمد) موچی کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا تو اسے کام کرتے ہوئے دیکھ کر سوچا کاریگری تو یہ ہے۔ ہم بھی موچی ہی بنیں گے۔
ایک دفعہ اپنے گھر میں ہینڈپمپ لگواتے ہوئے مقامی کاریگر چاچا آمدو مصلی کو کام کرتے دیکھ کر ہم نے فوری طور پر آمدو مصلی بننے کا پروگرام بنا لیا۔ میرے کزن غلام حبیب بھی میرے اس شوق میں شریک ہو گئے۔ لوہے کے پائیپ کا دو فٹ لمبا ٹکڑا ہتھوڑی کی مدد سے زمین میں گاڑتے ہوئے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی پتہ نہیں کس طرح پائیپ اور ہتھوڑی کے درمیان آکر بری طرح کچلی گئی۔ انگلی سے خون کا پرنالہ بہہ نکلا۔ ماموں غلام فرید اٹھا کر ہسپتال لے گئے وہاں ڈسپنسر نے مرہم پٹی کردی۔ اس زخم کو ٹھیک ہونے میں دس پندرہ دن لگ گئے۔ نشان اب بھی باقی ہے۔
کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔6 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
7 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیہات میں کھلونے دکانوں پر نہیں ملتے تھے۔ کھلونے ہم لوگ خود اپنے ہاتھوں سے بنایا کرتے تھے۔ مٹی کی موٹریں، کاغذ کی کشتیاں اور ہوائی جہاز ۔ پجیاں مٹی کے برتن اور کپڑے اور رنگ برنگے دھاگوں سے گڑیاں بنا لیتی تھیں۔
میں ، میرے کزن غلام حبیب اور ہمارے محلے دار دوست محمد اقبال ولد احمد یار باجوہ المعروف بالا یارو آلا نے مٹی کی بسیں بنا کر باقاعدہ بس سروس بھی چلائی ۔ ایک بس کا ڈرائیور میں تھا ، دوسری کا اقبال اور تیسری کا حبیب۔۔ پانچ کنال کے صحن میں یہ بس سروس صحن کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آتی جاتی تھی۔ سواریاں چھوٹی بہنوں کی گڑیاں ہوتی تھیں ۔ سارا دن رونق لگی رہتی تھی۔
یہ کھیل دو تین سال کی عمر تک چلتے رہے۔ جب ہم ذرا بڑے ہوئے تو کھیل بھی بدل گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔8 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
لوکاسٹ اور نو کاسٹ میٹیریل سے کھلونے بھی بن جاتے تھے اور تخلیقی صلاحیت بھی پروان چڑھتی تھی۔
کماد کی “چھل” سے گھوڑا
بوتل کے ڈھکن سے دھاگے والی “بھرکڑیں”
دوائی کی بوتل کا ربڑ کا ڈھکن سے لٹو نما پھرکنی۔
پرانے ہوائی چپل کے پیندے تراش کر ٹریکٹر کے پہیے۔
بہاری کے تیلے سے تیر کمان
ہم مٹی کے ٹریکٹر ٹرالی بناتے تھے ۔ہر کسی کا بچپن بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ اور زندگی کا سب سے حسین دور بچپن ہی ہوتا ہے۔اگر مجھے بچپن میں پتا ہوتا کہ یہ میری زندگی کا سب سے حسین دور ہے تو میں اسے بھرپور جیتا۔اور مجھے اپنا بچپن اس لیے بھی خوبصورت لگتا ہے کہ اس وقت موبائل اور کمپیوٹر نہ تھے اور ہم مل کر کھیلتے تھے اپنے روایتی کھیل کرکٹ ہاکی وغیرہ سے ہٹ کر مثلاً اچی جھکی جھاں،چنجی شئی،چھپری چھوت،چور پولیس،لسنڑ پلا وغیرہ جیسے کھیل مگر آج کل کے بچوں کو موبائل، کمپیوٹر،کرکٹ،ہاکی،فٹبال،کے علاؤہ کچھ پتا نہیں۔ درست کہا گزر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ
وہ زمانے چلےگئےبس افسانے ہی رہگئےاللہ اپکوخوش رکھے آپ نے اپنی قلم سےان کہانیوں کویادرکھاہواہے
سر انسان اس عُمر میں سامنے پڑی ہوئی عینک بھول جاتا ہۓ اور کافی دیر تک ادھر اُدھر ہاتھ مارتا رہتا ہۓ لیکن ماضی کی باتیں ہمیں یاد تو ہیں لیکن آپ کو لکھنے کا فن بھی ہۓ جو ہم 1953 کی مخلوق کو رُلا دیتا ہۓ۔ اللہ کریم آپ کو لمبی عمر اور کسی کی مُحتاجی نہ دے۔ آمین!!! آپ کی پوسٹ کو شدت سے انتظار رہتا ہۓ۔
گاؤں میں جہاں نیٹ جیسی نحوست نہی پوھنچی وہاں کے بچے آج بھی یہ سب کرتے ہیں کچھ مہینے پہلے پنجاب کے ایک شہر نواں کوٹ کے دور دراز کے گاؤں ٹاہلی والا جانے کا اتفاق ہوا جہاں ابھی تک موبائل نیٹ ورک بھی بہت مشکل سے ملتا ہے وہاں ایک دن شادی انجوے کی بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی جو گڈا گڈی کی تھی باراتیوں کو بھنے ہوے دانے کھلاے گے اور ولیمے میں بھنے دانوں کے ساتھ گڑ بھی شامل تھا
سر ہم تو مٹی کے ریڈیو بھی بناتے تھے اور ٹی وی بھی۔۔۔۔
لڑکیاں بہت سے دھاگے اکٹھے کرکے ان سے گڑیاں بناتی تھیں اور ان کے خوبصورت ترین کپڑے سیتی تھیں۔
شادیوں پر گھڑا تھالی پر بڑی عورتیں گانے گاتی تھیں جس میں دولھا اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے نام لے کر ان کے گیت گائے جاتے تھے۔۔۔۔
واو کیا زمانہ تھا سر جی محبت بھرا۔۔۔ اب تو سب کچھ خواب سالگتا ہے
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچپن میں ہمارا ایک کھیل پاک بھارت جنگ بھی ہوا کرتا تھا۔ جنگ کا آئیڈیا ہمارے دوست منظور نے تجویز کیا۔ (منظور بڑے ہوکر ڈاکٹر منظور کہلائے)۔
ہم نے دو فوجیں بنائیں۔ بھارتی فوج ڈاکٹر منظور اور ان کے چند کزنز پر مشتمل تھی۔۔ پاک فوج کے کمانڈر بھائی ممتاز تھے۔ سپاہی ، میں اور ہمارے کزن ریاست علی ملک، غلام حبیب ہاشمی، محمدصدیق خان بہرام خیل اور چند دوسرے ساتھی تھے۔
جنگ ہمارے گھر کے پچھواڑے وسیع و عریض میدان میں ہوتی تھی ۔ اسلحہ غلیلیں تھیں ، جن کے ذریعے مٹی کی بنی ہوئی گولیاں دشمن پر برسائی جاتی تھیں۔ ان گولیوں کو غنڈارے کہتے تھے۔ گیلی مٹی کی گولیاں بنا کر دھوپ میں خشک کرکے غلیل سے پھینکی جاتی تھی۔ ایک دن گولیاں بنانے اور خشک کرنے میں لگتا تھا۔ اس لیئےجنگ میں ہر دوسرے دن وقفہ کرنا پڑتا تھا۔
آمنے سامنے فوجوں کے درمیان فاصلہ اتنا رکھا جاتا تھا کہ گولی لگنے سے کوئی زخمی نہ ہو۔ زخم تو نہیں لگتا تھا ، ویسے سٹ پھر بھی بڑی ٹھیک ٹھاک لگتی تھی۔
جس فوج کے پاس گولیاں پہلے ختم ہو جاتیں وہ ہاتھ کھڑے کر کے شکست تسلیم کر لیتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔9 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
اللہ تعالٰی آپ کو صحت کاملہ سے نوازے اس لئے آپ علم و ادب کے محاذ پہ بہترین جنگجو واقع ہوئے ہیں۔ علم و ادب کے مورچہ نشیں، آپ ادب، ثقافت، علم، تاریخ، روایات کے تحفظ کی قسم خوب نبھا رہے ہیں۔
آپ جس قدر عظیم اور اونچے مقام پہ فائز سنائپر ہیں ہمارے ہاتھ آپ کے لئے بصد احترام ہمارے سینوں پہ بندھے ہیں۔ آنکھیں اور سر عقیدت میں جھکے ہوئے ہیں اور ہم نے آپ کی محبت میں خود کو کب سے سرنڈر کر رکھا ہے۔
چس آگٰی اے بابا جانی
ھم بھی کھیلتے تھے ۔مگر دوسرے محلے والوں کے ساتھ۔۔ ھماری شکست بھی غنڈارے ختم ھونے پر ھوتی تھی۔۔ کبھی ایسا نہی ھوا کہ میرے غنڈارے ختم ھوئے ہوں ۔کیوں کہ میرے بابا بھی میرے ساتھ غنڈارے بنواتے تھے ۔۔ اور میری سپیڈ بھی بہت تھی ۔۔۔مٹی میں چاچا صادق خان مرحوم کبیر خیل کے ٹیوب ویل سے لاتا تھا ۔۔ فٹ لال والی مٹی ھوتی تھی۔۔ اور شکار کیلیے غنڈارے میں آگ میں پکاتا تھا ۔۔ اس ٹائم میں کوئی ایسا پرندہ نہی تھا جس کا میں نے شکار ناں کیا ھو۔۔۔
سر۔جی۔۔ یہ غنڈارا کی سٹ بڑی سخت ہوتی تھی خاص کر منہ،آنکھ کو بچانا پڑتا تھا ۔۔ سرجی اللہ آپکو خوش رکھے
پہلے زمانے میں لوگ غلیل کیلئے “V” لکڑی جس پر ربڑ باندھا جاتا ہے ، کی تلاش کرکے درخت سے کاٹ کر کچھ دن خشک ہونے کیلئے رکھ دیتے تھے اور پھر غلیل بنائی جاتی تھی۔ بعد میں آرا مشینوں نے آسان کر دیا اور V درخت کے تنے سے آرے کی مدد سے بنائی جانے لگی۔اسی طرح ربر بھی بہت سے ذرائع سے حاصل کیا جاتا تھا۔زیادہ تر تو ربڑ سائیکل کے پئیے کی ٹیوب سے حاصل کیا جاتا تھا۔تیسرا آئیٹم( نام میں بھول گیا ہوں) وہ ہوتا تھا جس سے V پہ ربڑ باندھنے کے بعد ربڑوں کو اس چمڑے سے بنے چھوٹے سے ٹکڑے سے باندھا جاتا تھا جس پہ غنڈارا رکھ کر پھینکا جاتا تھا۔۔۔۔۔۔بہت خوب
10 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چائے ہم میانوالی کے لوگوں کی کمزوری ہے۔ گھر ہو یا بازار چائے پینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
بہت عرصہ ہوا ایک دن ہم گولڑہ شریف ریلوے سٹیشن پر کچھ دیر کے لییے رکے ۔ پلیٹ فارم کا ٹی سٹال بند تھا۔ سٹیشن کی عمارت کے اندر ریلوے کا ریفریشمنٹ روم کھلا تھا۔ اس وقت وہاں کوئی گاہک نہ تھا۔ سامنے ایک کرسی پر ایک چاچا جی بیٹھے اپنے بالوں کی سفیدی چھپانے کے لییے سر پہ خضاب لگا رہے تھے۔ وہی اس ریفریشمنٹ روم کے اکلوتے ملازم تھے۔
میں نے چاچا جی کے قریب جا کر کہا چاچا جی، چائے پینی ہے۔ کہنے لگے چائے تو میں پتر کو وہ پلاوں گا کہ ساری عمر یاد رکھو گے ، بس میرے سرکے پیچھے والے بالوں پر خضاب لگا دو تو ایک منٹ میں چائے بنا دوں گا۔
چائے تو میں نے بہرحال پینی تھی اس لیئے برش اور خضاب کی پیالی پکڑ کر چاچا جی کی فرمائش پوری کردی۔ پھر چاچا جی اٹھے اور میرے لییے چائے بنا دی۔ چائے واقعی لاجواب تھی۔ آج تک نہیں بھولی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔—————– 11 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
سر! آپ کی آج کی تحریر سے شرر صہبائی مرحوم کی مشہور نظم “میانوالی میں” کا ایک شعر یاد آگیا
روٹی کھانے کو ملے نہ ملے
چائے ملتی ہے مزیدار میانوالی میں
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹرین خاصی لیٹ جا رہی تھی اس لیئے اکثر مسافروں کا خیال تھا کہ آج جنڈ ریلوے سٹیشن پر ایک آدھ منٹ سے زیادہ نہیں رکے گی ، حالانکہ جنڈ ریلوے سٹیشن تو پانچ سات منٹ کا مستقل سٹاپ تھا ۔ مسافر کچھ کھا پی کر تازہ دم ہو جاتے تھے۔ لیکن آج حالات بظاہر مختلف تھے۔
جنڈ سٹیشن سے شاہ جی کے ٹی سٹال کی چائے پیئے بغیر سفر مجھے مصیبت لگتا تھا۔ جنڈ سٹیشن کے پکوڑے بھی بہت مشہور ہیں مگر میں جس زمانے کی بات کر رہا ہوں اس وقت وہاں پکوڑوں کا کاروبار نہیں ہوتا تھا۔ چائے کے ساتھ کیک پیس اور نمک پارے ملتے تھے۔
سٹیشن پر ٹرین رکی تو میں نے چائے پینے کے امکانات کا جائزہ لینے کے لیئے ٹرین کے گارڈ سے کہا چاچا جی چائے پی لیں ؟
گارڈ صاحب نے کہا ” بیٹا ضرور” ۔ یہ کہہ کر وہ ٹرین سے اترے اور میرے ساتھ چل کر شاہ جی کے ٹی سٹال پر آئے۔ میں نے سٹال کے ملازم سے دو کپ چائے بنانے کا کہا۔
وقت بچانے کے لیئے میں چائے تیزی سے پینے لگا تو گارڈ صاحب نے کہا ” بیٹا چائے آرام سے پی لیں ۔ میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میرے اشارے کے بغیر ٹرین نہیں جا سکتی” ۔
میں نے سوچا تھا گارڈ صاحب کی چائے کے پیسے بھی میں دے دوں گا۔ مگر گارڈ صاحب نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ ریلوے ٹی سٹال پر ریلوے ملازمین اور ان کے مہمانوں کو چائے مفت ملتی ہے۔ اس وقت آپ میرے مہمان ہیں۔ اس لیئے آپ سے بھی چائے کے پیسے نہیں لیئے جائیں گے۔
گارڈ صاحب کی شفقت ہمیشہ یاد رہے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔12 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
سر طیفے ہڈی نے مجھے بتایا تھا کہ میں جب بھی داود خیل سے پنڈی بذریعہ ریل کار جاتا تو قمیص الٹی پہن کر جاتا یعنی بٹن چولے کے عین ریڑھ کی ہڈی پہ۔ جنڈ پہ جب چھے کیک پیس مع تین کپ جونہی اندر ٹھونستا چلتی گاڑی پہ چپک جاتا اور بارہا ٹی سٹالیا پیچھے سے پکڑتا مگر بمشکل ایک یا دو بٹن ٹوٹتے اور میں ڈکارتا برتھ پہ۔
خوب سر۔۔۔ پرانی یادیں تازہ کرا دیں ۔۔۔۔جنڈ ریلوے اسٹیشن پر سرائیکی گلوکار منظور ملنگی مرحوم پکوڑوں کا سٹال لگاتا تھا ۔۔۔خود کو گلوکار شفیع وتہ خیلوی کا شاگرد بتاتا تھا بلکل ان پڑھ لیکن یاداشت بہت عمدہ تھی پکوڑوں کے ساتھ سرائیکی دوہڑے بھی خوب سناتا ۔۔۔ہارمونیم سٹال میں چھپا کر رکھتا تھا کہ ریلوے پولیس والے اسے اسٹشن پر ہارمونیم بجانے سے منع کرتے تھے مجبور عیسی خیلوی مرحوم جب ماڑی انڈس ریل کار پر بطور ٹکٹ چیکر (S.T.E) ٹرین کے ساتھ جنڈ رکتے تو وہ اپنے ذوق کی تسکین کے لیے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوۓ ان کے مقبول گیت ان کو سنا کر خوب داد وصول کرتا اس کے سٹال پر جب ہجوم اکٹھا ہوتا تو ریلوے پولیس اہلکار پہنچ جاتے لیکن مجبور عیسی خیلوی کے احترام میں خاموش کھڑے رہتے جوں ہی ٹرین چلتی تو پولیس اہلکار اس سے ہارمونیم چھین لیتے بعد ازاں اس شرط پر واپس کرتے کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرنی مگر وہ ۔۔۔۔اپنے شوق میں وعدہ خلافی کر جاتا –یہ 1994 / 1995 کے دلچسپ واقعات ہیں منظور ملنگی مرحوم جنڈ سے اٹک ریلوے اسٹیشن شفٹ ہو گیا اور یہاں بھی پکوڑوں اور چاۓ کا سٹال ا موسیقی۔۔۔ کا مشغلہ جاری رکھا ایک روز گردے میں شدید درد کی تکلیف ہوئی اٹک ھسپتال پہنچایا گیا ڈاکٹرز کے مطابق پتھری وین میں پھنس چکی ہے پیشاب کی بندش کا مسئلہ پیدا ہوا آپریشن تجویز ہوا اٹک سے راولپنڈی ھسپتال ریفر کردیا گیا مگر راستے میں ہی اللہ تعالیٰ کو پیارا ہو گیا اب منظور ملنگی کے بھائی اور بیٹے اٹک ریلوے اسٹیشن پر اس سٹال کو چلا رہے ہیں رب کریم منظور ملنگی کو غریق رحمت کرے آمین آپ کی یاداشت نے منظور ملنگی مرحوم کی بھی یاد تازہ کردی
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بزرگوں سے سنا کہ ایک دور وہ بھی تھا جب کسی نے چائے کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ ہم نے تو جب ہوش سنبھالا تو صبح شام دو وقت چائے ہر گھر میں بنتی تھی۔
ہماری اس دنیا میں آمد سے بہت پہلے ہمارے گھر میں چائے ہمارے چچا ملک محمد اصغر علی نے متعارف کرائی تھی۔ چچا جی دہلی میں حکیم اجمل خان کے میڈیکل کالج کے سٹوڈنٹ تھے۔ وہاں وہ چائے کے عادی ہو گئے۔ چار سال کا کورس مکمل کرنے کے بعد جب گھر واپس آئے تو بروک بانڈ چائے کی پتی کے پانچ سات ڈبے بھی ساتھ لے آئے۔ گھر والوں کو چائے بنانے کا طریقہ بھی انہوں نے سکھایا۔ یوں چائے ہماری زندگی میں ایسی داخل ہوئی کہ آج تک ساتھ چل رہی ہے۔
پہلے صرف چچا جی خود چائے پیتے تھے۔ رفتہ رفتہ سارا گھر چائے کا عادی ہو گیا۔
استاد ذوق نے ٹھیک ہی کہا تھا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
استاد ذوق نے تو کسی اور چیزکے بارے میں یہ بات کہی تھی لیکن چائے کے بارے میں بھی یہ بات سو فیصد درست ہے۔
ویسے اصل چائے تو وہ تھی جو ہمارے بچپن کے دور میں بنتی تھی۔ گھر کی گائے بھینس کا سو فیصد خالص دودھ ، بروک بانڈ چائے کی دلکش خوشبو والی پتی اور سرخ پشاوری شکر کی چائے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ اچھی چائے گھروں میں اب بھی بنتی ہے لیکن نہ وہ خالص دودھ ہے نہ وہ مست خوشبو والی پتی ، نہ وہ سرخ پشاوری شکر۔ وہ چائے جس نے پی ہے وہی جانتا ہے کہ وہ کیسی لذیذ چیز تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔13 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
میرے لڑکپن کے دور میں ہمارے محلے کے عبداللہ ولد شیر محمد موچی کی شادی پر اس کے اصل گاؤں نواں (جو تھانہ چکڑالہ میں ھے) سے آنے والی عورتوں نے گھڑا تھالی پر جو گیت گایا نصف صدی بیت گئی لیکن یاد ھے “اک مینڈا ویر تے دو بندے ہور ہن – بڑے چا خور ہن – لونگ تے لاچی، پتی چھٹاکی، سیر دودھے دا، چا ہووے – چا ہووے سدھا را ہووے” اس گیت میں کچھ ایسی چاشنی تھی کہ ہمیں بھی یہ لت پڑ گئی
“چاہ ھووئے نال کیک ھووئے
“دم جیوی دو وقتی ٹیک ھووئے
“چاہ ھووئے سدھا راہ ھووئے
“دم جیوی دو وقتی چاہ ھووئے
(سر! شادی بیاہ کے موقع پر بزرگ خواتین کا
ہر دلعزیز روایتی لوک گیت!)
ایک لوک گیت بھی ہے…اسی مناسبت سے…
دم جیوی ڈو وقتی چاہ ہووے…چاہ ہووے نالے کیک ہووے…دم جیوی…ڈو وقتی چاہ ہووے..
ی لوک گیت…شادی بیاہ پ بڑے بوڑھے گھڑے تھالی پر شغل کرتے ہیں…اور شغل کے بعد تاش پ شروع ہو جاتے ہیں…مینڈھی اور بارات کی درمیانی رات..شادی پ لوگ یوں گزارتے ہیں…چونکہ تاش آپس میں کھیلتے ہیں..تو آخری اعلان…نہ کوئ جتائے ت نہ کوئ ہارائے…ہوتا ہے
وہ پائی خیل کے مشہور و معروف دادا ورالی جی سرکار کی اولاد میں سے تھیں۔
سر میرے پردادا ملک گھیبہ خان اعوان آف پائی خیل کی آخری بیوی ( انہوں نے سات شادیاں کیں تھیں ) جو کہ چند سال پہلے ایک سو سال سے زیادہ عمر کی ہو کر فوت ہوئی ہیں وہ بتاتی تھیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی نہ چائے پی ہے نہ ہی پراٹھا کھایا ہے۔ ہم نے بھی انہیں کبھی نہ چائے پیتے دیکھا تھا نہ پراٹھا کھاتے دیکھا تھا
تلہ گنگ میانوالی پختہ سڑک دوسری جنگ عظیم کے دوران بنائی گئی تھی۔۔۔انگریز انجینئر کا کیمپ لگا تھا۔۔۔ان لوگوں نے مقامی معززین کے ساتھ تعلقات بنانے کے لیے اپنے کیمپ میں ان لوگوں کو مدعو کرتے اور چائے سے توازع کرتے اس طرح سے بھی لوگ چائے سے متعارف ہوئے تھے اس وقت لپٹن برانڈ کو استعمال کیا جاتا تھا
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزہ کی صورت حال پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ خبریں اور ویڈیو کلپس دیکھ کر آنکھیں بار بار بھیگ جاتی ہیں۔
11000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے۔ ان میں 5000 سے زائد بچے بھی ہیں۔ ان بچوں کا کیا قصور ؟ ان معصوموں نے اسرائیل کا کیا بگاڑا تھا ۔؟؟ ان میں صرف ایک دو دن عمر کے ایسے بچے بھی شامل ہیں جنہوں نے اس دنیا میں آنکھ کھولی تو یہاں موت ان کی منتظر تھی۔
غزہ کے تمام ہسپتال تباہ و برباد ہو چکے۔ سینکڑوں لاشیں چاروں طرف بکھری پڑی ہیں۔ کھانا ، پانی ، بجلی، گیس، سب کچھ ختم ہو گیا ۔ اوپر سے اسرائیل کی اندھا دھند بمباری ہر لمحہ جاری ہے۔
اس صورت حال پر بحث کے لیئے پچھلے ہفتے اسلامی ممالک کے سربراہوں کا اجلاس منعقد ہوا۔ مگر اس اجلاس کی کارروائی بھی ٹھنڈی ٹھار تقریروں تک محدود رہی۔ اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت اور جنگ بندی کی اپیلوں سے بات آگے نہ بڑھی۔ اس اجلاس میں اسرائیل کو تیل اور گیس کی فراہمی بند کرنے کی تجویز بھی زیر بحث آئی۔ مگر چند اسلامی ممالک کے “غیرت مند” سربراہوں نے یہ تجویز فی الفور مسترد کر دی کیونکہ اپنے کاروباری مفادات ان بزرگوں کو امت مسلمہ کے مفادات سے زیادہ عزیز ہیں۔
سفارتی سطح پر بھی جنگ بندی کے لییے موثر کوششیں نہیں کی جا رہیں۔ اسرائیل کے سرپرست امریکہ اور برطانیہ کو کوئی سخت پیغام دینا بھی ان “اہل ایمان” کے بس سے باہر ہے۔
اس صورت حال میں مظلوم اہل فلسطین مدد کے لیئے صرف آسمان کی طرف ہی دیکھ سکتے ہیں۔ آسمان والا بھی یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ امید ہے جلد ہی وہ اپنا قانون نافذ کرے گا۔ اگر ایسا ہوا تو صرف اسرائیل ہی نہیں بڑی بڑی اسلامی سلطنتوں کا نام و نشان تک باقی نہیں رہے گا۔ ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے۔ کہاں ہیں روم و فارس کی عظیم الشان سلطنتیں؟ کدھر گیئ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی سلطنت برطانیہ جس پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا ؟ ڈریں اس وقت سے جب آسمان والے کا قانون حرکت میں آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔14 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
“نہ جا اس کے تحمل پہ کہ ب ڈھب ھے گرفت اس کی
‘ڈر اس کی دیر گیری سے کہ سخت ھے انتقام اس کا
سر جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں مگر اسرائیل تو ظلم بربریت اور غیرانسانی سلوک کی تمام حدیں پار کرگیا ہے ،،،،، سمجھ نہیں آتی کہ جس مغربی دنیا میں جانوروں پر ظلم کرنے اور انہیں جان سے مارنے پر قانون اور سزائیں ہیں انکو روزانہ بلکہ ہر لمحہ کی بنیاد پر مارے جانے والے بے گناہ اور نہتے انسان اور معصوم بچے نظر کیوں نہیں آتے ۔۔۔۔ لیکن سب سے زیادہ افسوس اور شرمندگی تمام امت مسلمہ کی خاموشی پر ہے فلسطین والے تو شہادت کا رتبہ پا کر جنت میں پہنچ گئے مگر ہم مسلمان آخرت میں کیا منہ لے کے جائیں گے؟؟؟ اللہ کریم فلسطین کے تمام بچوں بھائیوں اور بہنوں کی غیبی مدد فرمائے آمین
14 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بی اے کا امتحان دے کر فارغ پھر رہا تھا ۔ ابھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ آگے کیا کرنا ہے۔ ٹیچر بننا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ مستقبل کا ایک دھندلا سا خاکہ ذہن میں تھا کہ ایل ایل بی کر کے وکیل بن جاوں گا۔
مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔
ایک دن میرے پرائمری اسکول کے ٹیچر ماسٹر نواب خان صاحب نے میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی ہیڈماسٹر سے کہا ملک صاحب منور فارغ پھر رہا ہے۔ میری چھٹی کلاس کا اس وقت کوئی انگلش ٹیچر نہیں ہے۔ کیوں نہ منور میری کلاس کو انگلش پڑھا دیا کرے ؟
سکول اور بچوں کے مفاد کی بات تھی اس لیئے بھائی جان فورا مان گئے۔ مجھے بلا کر کہا کل سے تم نے سکول جا کر ماسٹر نواب خان کی کلاس کو انگلش پڑھانا ہے۔
بھائی جان اور ماسٹر صاحب کے حکم کی تعمیل لازم تھی۔ یوں میں نے ایک ٹیچر کی حیثیت میں کام کا آغاز کیا۔
پہلے دن جب میں ماسٹر نواب خان صاحب کے ساتھ سکول جا رہا تھا تو راستے میں چاچا یاسین خان لمے خیل نے مجھے ماسٹر صاحب کے ہمراہ جاتے دیکھ کر ماسٹر صاحب سے کہا ” ماسٹر صاحب ، چھور کو کڈے گھدی وینے ہاو ۔ ؟”
(ماسٹر صاحب، لڑکے کو کدھر لے جا رہے ہیں ؟)
ماسٹر صاحب نے کہا یہ میری کلاس کو انگلش پڑھائے گا۔
چاچا یاسین خان نے کہا ” وت کمرے چو کرسی چوا گھنائے”
( پھر کمرے سے کرسی اٹھوا لینا) ۔
ماسٹر صاحب نے پوچھا وہ کیوں؟
چاچا یاسین خان نے کہا “کیوں جو اے ہک واری استاد نی کرسی تے بہہ گیا تاں وت ساری عمر استاد ای راہسی۔ لائق بچہ اے کوئی ہور کم کرے تاں بہتر اے”۔
(کیونکہ یہ ایک بار استاد کی کرسی پہ بیٹھ گیا تو ساری عمر استاد ہی رہے گا۔ لائق بچہ ہے، کوئی اور کام کرے تو بہتر ہوگا)۔
میرا خیال تھا یہ مصروفیت عارضی ہوگی۔ جب کوئی مستقل انگلش ٹیچر آگیا تو میں فارغ ہو جاوں گا۔ مگر بھائی جان نے ڈائریکٹر سکولز سے بات کر کے انگلش ٹیچر کی خالی پوسٹ پر میرا تقرر بھی کروا دیا ۔
چاچا یاسین خان کی بات سچی ثابت ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔15 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
استاد، ادیب، شاعر، موسیقی شناس، بطفیل عتیل دست شناس اور میانوالی جیسے معاشرے کا مثالی مسکین صفت انسان۔
سر! آپس کی بات ھے اجازت ھو تو عرضی گؤش گزار کروں؟
بات یہ کہ چاچا یاسین کی بات اس لیئے بھی سچی ثابت ھوئی ھے کہ:
اولاد کے معاملہ میں بھی پہلی اولاد “پہلی” ھوتی ھے
کسی بھی چیز کی پہلی آفر “پہلی” ھوتی ھے
لڑائی جھگڑا میں بھی پہلی وار “پہلی” ھوتی ھے
ملازمت وغیرہ میں بھی پہلی ملازمت “پہلی” ھوتی ھے
اور حتیٰ کہ میرے نزدیک تو:
بیوی کے بھی معاملہ میں پہلی بیوی پہلی ھوتی ھے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ مدعاء یہ کہ
بندہ کی زندگی کی یہ خلاء چار بیویاں مل کر کے بھی کبھی پورا نہیں کر سکتیں ۔
سر جی اسکا مطلب ہے کہ کچھ چیزیں اتفاقاً رو نما ہوتی ہیں اور اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جس چیز کے لئے جنون ہوتاہے وہ یا تو مل نہیں پا رہی یا بہت دیر سے مل جاتی ہے بہرحال کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں سر جی کہ وہ By nature teachers ہوتی ہیں اور ماشاءاللہ جس طرح آپ اپنا ایکپرینس شیئر کر کے آرہے ہیں آپ ہونا ہی ٹیچر چاہیے تھا سر جی پتہ نہیں ایسی کتنی نسلیں نکالی ہوں گی سر اللّٰہ آپ کو سلامت رکھے آمین
Sir. It was a wise decision by my very respected Headmaster Sir Anwar Ali Malik (late).
What I want to actually say today is…….Thanks ALLAH you did nt become an Advocate. You are not at all such a person. You are a teacher by birth and thosands of people are still benefiting from you.
اپ جیسے لوگ ہمارے علاقہ کا سرمایہ ہیں جو دلی طور پر اپنی جاب اپنے لوگوں سے ہمیشہ مخلص رهتے ہیں ۔
سلامتی کی دعا
سر مجھے تو چچا یاسین کی بات پہ افسوس ہورہاہے، وجہ یہ کہ ایک تو معلم ہونا پیغمبرانہ پیشہ ہے دوسرا استاد ہی تو سارے معاشرے کی بنیاد ہے، تمام لوگوں کو استاد ہی انسانیت سکھاتا ہے اس کے بعد وہ مختلف پیشوں میں چلے جاتے ہیں، اس لحاظ سے سب سے بہترین لوگ اساتذہ ہیں جبکہ ان کے الفاظ سے مجھے یوں لگتا ہے (ممکن ہے میں غلط بھی سمجھا ہوں) کہ استاد کوئی اچھا کام نہیں اسلئے لائق لڑکا ہونے کے ناطے کوئی اچھا پیشہ اختیار کرے
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاچا یاسین خان نے کہا ” وت کمرے چو کرسی چوا گھنائے”
( پھر کمرے سے کرسی اٹھوا لینا) ۔
ماسٹر صاحب نے پوچھا وہ کیوں؟
چاچا یاسین خان نے کہا “کیوں جو اے ہک واری استاد نی کرسی تے بہہ گیا تاں وت ساری عمر استاد ای راہسی۔ لائق بچہ اے کوئی ہور کم کرے تاں بہتر اے”۔
(کیونکہ یہ ایک بار استاد کی کرسی پہ بیٹھ گیا تو ساری عمر استاد ہی رہے گا۔ لائق بچہ ہے، کوئی اور کام کرے تو بہتر ہوگا)۔
چاچا یاسین خان کی بات سچی ثابت ہوئی
پہلی گزارش اللہ کا شکر ادا کریں کہ پیشہ وکالت میں نہیں آئے۔۔۔آپ ماشاء اللہ سمجھدار ہیں مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ۔۔
دوسری گزارش والد مرحوم 1931 میں مظفرگڑھ پولیس میں اے ایس آئی بھرتی ہونے استاد کی کرسی کے شوق میں استعفیٰ دے کر ٹیچر بنے جہانگیر ترین کے والد۔۔۔۔۔۔ والد مرحوم کے کولیگ تھے 1969 میں وہ ڈی آئی جی ملتان بن کر ریٹائر ہونے جبکہ والد مرحوم اسی سال ٹیچر ہی ریٹائر ہونے ۔۔۔۔چاچا یسین نے ٹھیک کہا تھا ۔۔۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گورنمنٹ ہائی سکول داودخیل میں انگلش ٹیچر کی حیثیت میں میں نے تقریبا 4 سال کام کیا۔ الحمدللہ جو محبت اور احترام اس حیثیت میں ملا اس کی بنا پر میں نے اسی شعبے سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ داودخیل سکول میں میرا تقرر عارضی تھا کیونکہ انگلش ٹیچر کے طور پر مستقل تقرر کے لیئے بی ایڈ ہونا لازم تھا۔ اس لیئے میں نے سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور کی بی ایڈ کلاس میں داخلہ لے لیا۔ یوں میں نے سینیئر انگلش ٹیچر کی پوسٹ کے لیئے مطلوبہ اہلیت حاصل کر لی۔
چند ماہ مکڑوال سکول میں متعین رہا، پھر گورنمنٹ مڈل سکول ٹھٹھی میں بطور ہیڈماسٹر تقرر ہوا۔ لیکن میری اصل منزل اور تھی۔ انگریزی زبان و ادب سے والہانہ دلچسپی کی بنا پر میں نے 1970 میں ایم اے انگلش کر لیا۔ 1971 کی جنگ کے باعث 1975 تک کالجوں میں لیکچررز کی بھرتی نہ ہوسکی۔ 1975 میں میں نے انگلش کے لیکچرر کی حیثیت میں کالج کی سروس کا آغاز کیا۔ یہی میری منزل تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔16 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
ماشاء اللہ ۔۔۔ اور پھر اللہ کریم نے اتنی عزت سے نوازا جو بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہوئی ۔حکم قرانی کی عملی تفسیر ۔۔۔۔۔ “جسے چاہے عزت دیتا ہے”
آپ کےآور محترم بھائی سرور خان کے حصہ میں آئی وہ آپ کی اپنے پیشہ سے لگن کا ثمر ہے سرور خان صاحب کچھ عرصہ بطور فیملی پلاننگ افسر موسی خیل تعنیات رہے ان کی علمی محفلوں سے مستفید ہونے کا بھرپور موقع ملا۔۔۔۔۔۔
میری ذاتی رائے میں یہ محکمہ تعلیم اور خاص طور پر ضلع میانوالی کی خوش قسمتی تھی کہ آپ جیسے ہیرے محکمہ تعلیم اور ہمارے ضلع کے مقدر میں آئے
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگلش کے لیکچرر کی حیثیت میں میرا تقرر گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں ہوا۔ میں تو گورنمنٹ کالج میانوالی میں تقرر چاہتا تھا ، مگر محکمہ تعلیم کی مجبوری یہ تھی کہ عیسی خیل کالج میں انگلش کا کوئی لیکچرر نہ تھا اور لڑکوں نے احتجاجا ہڑتال کر رکھی تھی۔ احتجاج کے طور پر عیسی خیل بنوں روڈ بھی بند کی ہوئی تھی۔ ان ہنگامی حالات میں وہاں انگلش کے لیکچرر کا فوری طور پر تقرر ضروری تھا۔
انہی دنوں دوسرے مضامین کے درجن بھر لیکچرر بھی آگئے۔ ہم سے پہلے صرف سیاسیات کے لیکچرر محمد سلیم احسن، تاریخ کے چوہدری محمد رمضان اور اردو کے سید افتخار حسین شیراز بخاری کام چلا رہے تھے۔
ہم نئے آنے والے لوگوں کی ٹیم عربی کے لیکچرر اشرف علی کلیار، اسلامیات کے منیر حسین بھٹی، اکنامکس کے ملک محمد یوسف چھینہ، نفسیات کے حسین احمد ملک ، ریاضی کے ملک عبدالستار جوئیہ، کیمسٹری کے محمد اکبر خان اور فزکس کے اکبرعلی رندھاوا پر مشتمل تھی۔ انگلش کا لیکچرر میں تھا۔
سچی بات یہ ہے اشرف علی کلیار صاحب کے سوا کوئی بھی عیسی خیل میں تقرر پر خوش نہ تھا۔ کلیار صاحب اس لییے خوش تھے کہ ان کا گھر عیسی خیل سے صرف چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ باقی لوگوں کو عیسی خیل میں ایڈجسٹ ہونے میں کچھ وقت لگا۔
دل بہلانے کے لیئے میں نے وہاں دو دلچسپیاں ڈھونڈ لیں۔ رات کو لالا عیسی خیلوی کی محفل میں حاضری اور دن کو کتابوں کا مطالعہ۔ لالا سے انہی دنوں تعارف ہوا تھا اور لالا نے مجھے اپنی محفل میں شرکت کی دعوت دی تھی جو میں نے بخوشی قبول کر لی۔۔
کالج میں میرے صرف دو ہی پیرئیڈ تھے۔ اس کے بعد دن بھر فارغ۔ اس فراغت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اردو، انگریزی ادب کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اردو ادب کی بہترین کتب اور رسالوں کا اچھا خاصا ذخیرہ عتیل عیسی خیلوی کی ذاتی لائبریری کی زینت تھا ، وہ میں نے سب کھنگال ڈالا۔ کالج لائبریری کے لیئے بہت سے انگلش ناول میں لاہور سے لے آیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اردو انگریزی ادب کا مطالعہ کرنے کا جو موقع عیسی خیل میں ملا ویسا موقع پھر کبھی نصیب نہ ہوا۔ اور میں نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ دن بھر پڑھتا رہتا تھا۔ دن کے پچھلے پہر عتیل صاحب کے ساتھ عیسی خیل لاری اڈے کے کسی ہوٹل میں چائے پینا بھی روزانہ کا معمول تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔——–17 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
بہت خوب سر جی
اور 1990 91 میں ڈگری کالج میانوالی اب پوسٹ گریجوایٹ ہمارے ایک تونسہ شریف کے سوشل ورک کے لیکچرر تھے شاید سعید احمد تونسوی صاحب آپ کو تو یاد ہوں گے آپ ہی کے دور میں تھے کبھی رابطہ ہوا سہی سلامت بھی ہیں یا۔ اللہ خیر کرے جی
آخری دنوں میں محمد نواز صاحب پرنسپل تھے، اعظم لاہوری بائیولوجی، شیخ گل محمد ریاضی، عمار جعفری آف علی پور کیمسٹری، غلام یسین افغانی اردو، صبح روتا ہوں شام روتا ہوں/عمر تمام روتا ہوں، اور اور گھمن صاحب۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیسی خیل نہ شہر ہے نہ قصبہ نہ گاوں۔ یہ اپنی طرز کا اکلوتا معاشرتی یونٹ ہے۔ کہنے کو تو یہ تحصیل کا ہیڈ کوارٹر ہے مگر سہولیات اور ضروریات کی دستیابی کے لحاظ سے کمر مشانی اور کالاباغ اس سے بہت آگے ہیں۔ بلکہ اب تو ترگ بھی اس سے آگے نکلتا نظر آتا ہے۔
کہنے کو تو عیسی خیل رئیسوں کا شہر بھی ہے۔ مگر رئیسوں کا اپنا الگ کلچر ہے ، عوام سے ان کا میل جول کم ہی نظر آتا ہے۔
عیسی خیل کا اکلوتا یتیم مسکین بازار بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ہر دوچار دکانوں کے بعد کسی گھر کی دیوار یا دروازہ پھر دو چار دکانیں اور ان سے آگے پھر دیوار یا دروازہ۔۔۔۔ لاری اڈے سے بازار میں داخل ہوں تو میاں میڈیکل ہال سے آگے بازار گلی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس بازار کو سمجھنا اور سمجھانا تحریر کے ذریعے ممکن نہیں۔
بازار میں دوچار چھوٹے موٹے جنرل سٹور ، دوچار کریانے کی دکانیں ، ایک دو ہیئر کٹنگ سیلون ایک دو کپڑے اور درزی کی دکانیں اور ایک آدھ میڈیکل سٹور ۔۔۔۔ بس۔۔۔ نہ کوئی بیکری ، نہ مٹھائی کی دکان نہ صاف ستھرا ہوٹل۔ سبزی فروٹ کی دوتین دکانیں بازار سے باہر لاری اڈے کی حدود میں واقع ہیں۔
ہر منگل کو لاری اڈے کے نواح میں میانوالی بنوں روڈ کے کنارے ایک میلہ بھی ہوتا ہے جسے منگل ہی کہتے ہیں۔ میلہ کیا ہے بازار کے کچھ دکان دار اپنا سامان باہر لا کر سڑک کے کنارے بچھا دیتے ہیں۔ وہی چیزیں وہی قیمت، اس تکلف کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
رب کریم نے اس ویران سی جگہ کو بھی اپنے فضل و کرم سے محروم نہیں رہنے دیا۔ تلوک چند محروم ، جگن ناتھ آزاد اور مجبور عیسی خیلوی جیسے بلند پایہ شاعر، استاد امتیاز خالق اور لالا عیسی خیلوی جیسے معروف و مقبول گلوکار اور مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی جیسے بلند قامت سیاست دان عالمی سطح پر عیسی خیل کا تعارف ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔18 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
ملک صاحب آپ نے عیسیٰ خیل کا سرکاری مطالعہ کیا ہے آپ اس کی اصل تصویر اجاگر نہیں کر سکے
یہ وہ شہر ہے جو برطانوی دور میں میونسپل کمیٹی تھا 1924 میں وہاں واٹر سپلائی تھی بازار کو ایک تنگ گلی بنا دیا یہ بازار اس وقت تھا جب ضلع میانوالی میں صرف دو بازار تھے میانوالی اور عیسیٰ خیل
دوسرے شیروں کا جو ذکر کیا ہے ان کی چکا چوند کے اسباب نہیں بتائے
کچھ ایسی کاروباری وجوہات ہیں جن کی وجہ سے وہ ترقی کرتے گئے
عیسیٰ خیل کے شہریوں کا جو رکھ رکھاؤ اور انداز نشست و برخاست ہے پورے ضلع میں حتئ کہ میانوالی شہر کا بھی نہیں ہے
جب سب لوگ نواب آف کالاباغ کے جبر سامنے نہ ٹھہر سکے کرنل محمد اسلم خان نے اس کو للکارا تھا
کمال تجزیہ فرمایا آپ نے محترمی ۔۔۔ استاذی مکرم نے تاریخ کے ایک پنے کا ذکر کیا ہے جو شاید ستر کی دہاٸی کا منظر نامہ پیش کرتا ہے ۔۔ اب تو شہر بہت تبدیل ہو چکا ہے ۔۔ گو کہ یہاں بڑے بڑے پلازے اور پیسے کی ریل پیل نہیں لیکن ہمارا شہر الحمد لله ادبی اور ثقافی لحاظ سے بہت زرخیز ہے۔
تبھہی تو شاعر نے کہا ھے کہ:
“پنڈی ت پشور چلا جاندائئیں؟
“عیسیٰ خیل دور تاں نہیں!
اس لئے تو پیر صاحب فرماتے ہیں
چاندنیاں راتاں وے ماہی
گلیاں عیسی خیل دیاں
میں نے کبھی عیسیٰ خیل نہیں دیکھا لیکن اس جگہ سے محبت ضرور ہے اس عجیب سی چاہت کشش اور دلی لگاؤ کی صرف اور صرف واحد وجہ یہ ہے کہ یہ جگہ لالہ جی عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی دھرتی ہے یہیں وہ پیدا، ہوئے بچپن اور جوانی گزاری اور پھر اپنے گیتوں کے ذریعہ اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں عیسیٰ خیل کیلئے بھی محبت پیدا کردی اور پوری دنیا مین عیسیٰ خیل کو مشہور کر دیا
استاد محترم میں 1988سے 1993 تک گورنمنٹ ھائی سکول عیسی خیل میں زیر تعلیم رہا
میرا تعلق کلور سے ھے اب گزشتہ 23 سالوں سے واہ کینٹ میں رہائش پزیر ھوں
اسی سال مئی کے مہینے میں ایک فیلمی جس کا تعلق کشمیر سے ھے ان کی بچی کے رشتے کی بات عیسی خیل کی ایک فیملی سے چل رہی تھی جو ہر لحاظ سے اچھی ھے میرے جاننے والے لوگ ہیں کشمیر ی فیملی بھی میری جان پہچان والی ھے اچھے لوگ ہیں
جب وہ میرے ساتھ عیسی خیل کے بازار میں داخل ہوئے تو بے ساختہ میری زبان سے نکل گیا کہ آج بھی وہی چھوٹا ساچائے والا ھوٹل وہی گاری ٹیلر کی دکان ،تقریبا تما م بازار اسی حالت میں ھے جس طرح اسی اور نوے کی دہائی میں ھوا کرتا تھا
بس بہی بات ان کے دل میں ایسی چبھی کہ ھر قسم کی تسلی اور ضمانت دینے کے باوجود انھوں نے بچی کا رشتہ دینے سے یہ کہ کر انکار کر دیا کہ یہ لوگ تبدیلی اور ترقی میں بہت سست رفتار ہیں
مجھے بہت افسوس ھوا
آپ سے درجواست ھے کہ اس کا تجزیہ کریں کمزوری کی نشاندہی کریں اور حل تجویز کریں
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریڈیو پر ایک انٹرویو میں ڈاکٹر غفور شاہ قاسم نے مجھ سے پوچھا آپ کے خیال میں لالا عیسی خیلوی کی مقبولیت کی وجہ کیا ہے؟
میں نے کہا پہلی وجہ تو یہ ہے کہ قدرت نے لالا کو پر سوز آواز عطا کی ہے۔ اس آواز میں ایک عجیب سا کرب ہے ڈار سے بچھڑی کونج کی آواز جیسا۔
لالا کی مقبولیت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ لالا اس وقت میدان میں آیا جب لوگ گھسی پٹی دھنوں اور گھٹیا درجے کی شاعری والے فلمی گیتوں سے تنگ آچکے تھے۔
سانوں نہر والے پل تے بلا کے
اور
میری ویل دی قمیض اج پاٹ گئی اے
جیسے بکواس گیتوں نے لوگوں کو موسیقی سے بیزار کر دیا تھا۔ اس صورت میں ایک نئی دردبھری آواز میں اداس گیت منظر عام پر آئے تو لوگ ادھر متوجہ ہوگئے۔ لالا کے گیتوں میں محرومیوں اور مجبوریوں کا ذکر تھا۔ لوگ ان گیتوں کو اپنی محرومیوں اور مجبوریوں کا ترجمان سمجھنے لگے۔
لالا کی آواز میں یہ کمال بھی ہے کہ صرف اس آواز کی بنا پر
بودی چھنگا ڑنگ ڑنگ
جیسے طربیہ گیت بھی دل میں اتر جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوتین دن پہلے میں نے عیسی خیل میں اپنے قیام کا ذکر چھیڑا تو یار لوگوں کان کھڑے ہو گئے۔ وہ لالا کے ذکر کا مطالبہ کرنے لگے حالانکہ میں تو کسی اور حوالے سے عیسی خیل کا ذکر کر رہا تھا۔ بہر حال ان دوستوں کی خواہش کا لحاظ کرتے ہوئے آج کچھ ذکر لالا کا بھی کر دیا۔ یہی کافی سمجھیں۔ کل سے کسی اور موضوع پر بات ہوگی ان شآءاللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔19 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
سر! سرائیکی زبان کو بھی بابا سائیں فرید الدین شکر گنج کی خصوصی دعاء بھی کہ دہڑا ماہیا
اور گیت ٹپہ کے علاؤہ نعتیہ کلام منقبت اور حتیٰ کہ عاشورہ کے دنوں میں شام غریباں بھی
سات سمندروں پار بی بی سی اردو بلٹن میں
خصوصی طور پر سرائیکی زبان ہی میں پیش
کیا جاتا رھا ھے۔
سرائیکی زبان کے الفاظ موقع کی مناسبت سے ادائیگی کے محتاج ھوتے ہیں۔
لھذاہ! تلفظ کی ٹھیک ٹھیک ادائیگی نے بھی لالا
کو دیگر درجنوں سرائیکی زبان میں گانے والوں سے منفرد مقام دیا ھے۔
اور یہی وصف محمد رفیع ،میڈم نور جہاں
سر سنگیت کی دیوی آنجہانی لتا منگیشکر کی گائیکی کی امتیازی خصوصیت ھے۔
برصغیر پاک و ہند میں عظیم گلوکار پیدا ہوئے جن میں کے ایل سہگل مکیش محمد رفیع مہدی حسن غلام علی اور نصرت فتح علی خان جبکہ گلوکاراوں میں نور جہاں شمشاد بیگم لتا منگیشکر منی بیگم وغیرہ شامل ہیں جو اپنے اپنے فن میں یونیورسٹی کا درجہ رکھتے یا رکھتی ہیں لیکن جس قدر عوامی مقبولیت اور پذیرائی عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی صاحب کے حصہ میں آئی وہ کسی کو نصیب نہیں ہوئی ملک صاحب آ پ یقیناً میری رائے سے اتفاق کریں گے
میرے خیال میں لالا کو شاعر بھی بہت عمدہ میسر رہے ہیں جنہوں نے خوبصورت گیتوں سے انہیں مالامال کیا، لالا کی آواز بلاشبہ دلوں میں گھر کرنے والی ہے۔
Bilkul durst farmaya Aap ney Respected Baba Jani !! Lala Essakhailvi ne Jo poetry select ki thi wo bhi baymisal thi, ” Dard he Dard” shaairee me Dard AUR awaz me Dard ne Lala Essakhailvi ko Bana dia Dard ka safeer !! Hum ne pehli Baar Jo Dadu Sindh me Lala Essakhailvi ka audio cassette suna tha wo tha Niki Jai gull toon rusdaayen, kukra dhami diya, Khan Charha day band way Khana,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,!! Us k bad hamari music library me koi singer aaya he nhi,Yani hum ne aaj tak Lala Essakhailvi k sath shirk karna jaaiz nhi samjha,hum mushrik nhi baney, hamarey chaaron taraf Lala he Lala rahey,,,,,,,,,,,,,,,,,,
سر میں سمجھتا ہوں کہ یہ پوری ایک چین ہے اور لالہ کی خوش قسمتی کہ لالہ کو پوری چین ہی اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہے ،،، سب سے پہلے لالہ کی خوبصورت اور درد بھری آواز اللہ کی خاص عطا ہے پھر لالہ کو جو محرومیاں ملیں،، عشق میں جو ناکامیاں ملیں ہر طرف سے ٹھوکریں ملیں نامساعد حالات ملے یہ سب عوامل اللہ کی خاص عطا تھے ان عوامل نے ملکر لالہ کی آواز کو پالش کیا لالہ کی آواز کو ایک خاص انداز،، سوز اور کرب عطا کیا پھر اس وقت کے شاعر اور لکھاری جو لالہ کو ملے وہ بھی اللہ کی خاص عطا تھی ان شاعروں میں ماشاءاللہ آپ بھی شامل ہیں ان شعراء کرام کے کلام کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے لالہ کی مقبولیت مین پھر لالہ جی کو جو سامعین ملے جن کی زندگیاں محرومیوں سے بھری تھیں تو ان سامعین نے لالہ کی درد بھری آواز اور گیتوں کی شاعری کو اپنے دل کی آواز اور ترجمانی سمجھا ان کے دل و دماغ میں لالہ فوراً کلک کر گئے اور لالہ عوامی گلوکار کے طور پر ابھرے پھر اس دور کی ٹیکنالوجی ٹیپ ریکارڈ اور کیسٹ لالہ کو میسر آگئی اور یوں لالہ ہر بس ، ویگن، رکشہ، ٹیکسی، ٹرک، ٹریکٹر تک پہنچ گئے اور پھر ہر گھر کے اندر تک لالہ کے گیتوں نے رسائی حاصل کرلی،، ،، لالہ کی خوبی یہ ہے کہ لالہ کی آواز اور گیتوں کی شاعری سیدھا لوگوں کے دل اور جذبات پر اثر کرتی ہے اور لالہ کی مقبولیت صرف اور صرف سب سے پہلے اللہ کے خاص کرم کی وجہ سے ہے اور دوسری وجہ ایک مکمل چین ہے جو لالہ کو ملی ،،، اگر صرف لالہ جی کی آواز ہوتی اور لالہ جی کی محرومیاں نہ ہوتیں ،،، لالہ جی کو اچھے شاعر اور کمپوزر نہ ملتے،،،، لالہ جی کو آڈیو کیسٹ اور ٹیپ ریکارڈز کا دور نہ ملتا یعنی اس چین میں سے کوئی بھی کڑی مس ہوتی تو شائد لالہ جی آج عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی نہ ہوتے
ھمارے ساتھ ایک لڑکی نرس عطا بھائ کی اعلی درجے کی فین تھی..جیل ہسپتال میں ملازم ہے اجکل میں نے ایک دن کہا کہ …سب مایا ہے … والا گیت فائن ہے توکہہ رہی..تھی.عطا بھائ کے سب گیت…اعلی نمونے کے ہوتے ہیں وہ جس ٹون میں بات کر رہی تھی…اس کا مافی الضمیر میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکا…بھائ عطا کمال ہیں…شنا بھرا اورابتدائ سنگت کرنے والا..شیدا مندا خیل کیمپ کوٹ چاندنہ ہسپتال اکٹھے رہے ہیں…آپ دونوں سلامت رہیں
سر مارکیٹ میں جو بکتا ہے وہی سودا بیچا کریں۔ آپکے سارے موضوعات اچھے ہیں ہم بادل ناخواستہ پھڑھتے ہیں مگر ہمارا اور آپکا اصل تعلق تو لالہ عطاءاللہ عیسی خیلوی کے سبب ہی ہے۔ انکا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی
,ملک صاحب آپ کی باتوں سے 100% اتفاق کرتے ہوئے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی وجہ شہرت ان عشروں میں سرائکی ہندکو موسیقی کی طرز کے گیتوں کا ایک ایسا خلاء تھا جو کہ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی نے آکر پر کیا کیونکہ میانوالی سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان ڈیرہ غازی خان بہاولپور بہاول نگر تونسہ ملتان تک علاقے جن کو آپ جنوبی اور وسطی پنجاب بھی کہہ سکتے ہیں اس پورے سرائیکی بیلٹ میں کسی فوک موسیقی اور گلوکار کا فقدان تھا لے دے کہ صرف عالم لوہار کی جگنی اور پٹھانے خان کے چھینڑا انج چھنڑیدا۔ یار کے علاؤہ ان سرائیکی علاقوں میں لوگوں کے دلوں کو آسودگی اور سکون مہیا کرنے کے لیئے ڈھنگ کی کوئی موسیقی اور پرسوز آواز نہ تھی اول تو عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی پر اللہ کی خصوصی کرم نوازی کی گئی دوسرا اتنے بڑے علاقہ میں لوگوں کی اندرونی کیفیت کو لفظوں میں ڈھال کر ایک درد بھری آواز میں اجاگر کرنے کا سہرا عطاء اللہ نیازی کے سر پر سجنا تھا جو مانشاء اللہ ابھی تک قائم و دائم ہے
سر لالا عیسیٰ خیلوی کے بعد آج کل پھر سرائیکی موسیقی کا بیڑہ غرق ہے سرائیکی گیتوں کی شاعری بھی اچھی ہے بعض موسیقاروں کی آواز بھی اچھی ہے مگر سرائیکی گانوں کے ساتھ طبلہ ہارمونیم بانسری اور ستار جیسے آلات ان گانوں کو خوبصورت بناتے ہیں مگر آجکل ان گانوں کے ساتھ پتا نہیں کیا کیا بجاتے ہیں اس کے علاؤہ پہلے لوک ورثہ اور دیگر محفلیں منعقد ہوا کرتی تھیں جن میں گلوکار سلیقے سے بیٹھ کر گاتے تھے اور سامعین سکون سے سنتے تھے آجکل سنگر ڈانس بھی کر رہے ہوتے ہیں اور گا بھی رہے ہوتے ہیں بہرحال اب ہماری موسیقی کو عطاء اللہ ،ملک حسین بندیال,منصور ملنگی جیسے درد کے سفیر کہاں نصیب ہوں گے۔
بلاشبہ آپکا تجزیہ نہایت خوبصورت ھے ۔لالہ عیسیٰ خیلوی ایسے گلوکار ھیں جنہیں ہر طبقہ پسند کرتا ھے ۔
لالہ جی کی آواز کیساتھ لالہ جی کے لیے گیت لکھنے والوں اور ان گیتوں کی دھنیں بنانے والوں کا بھی کمال ھے ۔اچھی آواز اور اچھی شاعری کیساتھ اچھا میوزک ہو تو سننے والے پہ سحر طاری ھوجاتا ھے ۔
بقول جگر مراد آبادی !!!
اک کلی اک مئے کا قطرہ اک زُلف !
جب اکٹھے ھوۓ تعمیرِ جنت ہوگئی !
بلاشبہ آپکا تجزیہ نہایت خوبصورت ھے ۔لالہ عیسیٰ خیلوی ایسے گلوکار ھیں جنہیں ہر طبقہ پسند کرتا ھے ۔
لالہ جی کی آواز کیساتھ لالہ جی کے لیے گیت لکھنے والوں اور ان گیتوں کی دھنیں بنانے والوں کا بھی کمال ھے ۔اچھی آواز اور اچھی شاعری کیساتھ اچھا میوزک ہو تو سننے والے پہ سحر طاری ھوجاتا ھے ۔
بقول جگر مراد آبادی !!!
اک کلی اک مئے کا قطرہ اک زُلف !
جب اکٹھے ھوۓ تعمیرِ جنت ہوگئی !
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اچھا وقت تھا۔۔۔۔۔۔ ٹیچر سکول ٹائیم کے علاوہ اپنے گھر پر بھی بچوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ نہ کوئی ٹیوشن فیس تھی نہ چندہ ۔ پوری کلاس کی حاضری لازم تھی۔ غیر حاضر سٹوڈنٹس سے باز پرس کی جاتی تھی ۔
چوتھی آٹھویں اور دسویں کلاس کے ٹیچرز یہ اہتمام کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔۔۔۔۔ ہمیں چوتھی کلاس میں ماسٹر عبدالحکیم صاحب، اور آٹھویں کلاس میں ماسٹر رب نواز خان صاحب سکول ٹائیم کے بعد بھی پڑھایا کرتے تھے۔ ماسٹر عبدالحکیم صاحب اپنے گھر پر کلاس لگاتے تھے، ماسٹر رب نواز خان سکول میں۔
دسویں کلاس میں تو ہیڈماسٹر ملک خدابخش صاحب المعروف کے بی ملک نے ہمارے بستر بھی سکول میں لگوا دیئے۔ امتحان سے دو ماہ پہلے رات کی کلاس شروع ہوجاتی تھی۔ سائنس ماسٹر حمید اللہ خان اور انگلش ٹیچر غلام مرتضی خان رات آٹھ سے دس بجے تک ہمیں پڑھایا کرتے تھے ۔ ہم لوگ گھر سے شام کا کھانا کھانے کےبعد سکول پہنچ جاتے تھے ۔ اس زمانے میں بجلی بھی نہیں تھی۔ لڑکے مٹی کے تیل سے جلنے والے لالٹین(لیمپ ) ساتھ لے جاتے تھے ۔ پڑھنے لکھنے کا کام انہی لالٹینوں کی روشنی میں کیا جاتا تھا۔
اضافی کلاسیں گرمی کی چھٹیوں میں بھی چلتی تھیں۔ میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی ہیڈماسٹر صاحب جب تک اس دنیا میں موجود رہے ہر سال گرمی کی چھٹیوں میں دسویں کلاس کو انگلش پڑھاتے رہے۔
اب نہ وہ ٹیچر ہیں نہ سٹوڈنٹ ۔ سب کچھ بدل گیا۔
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔—–20 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
بہت عمدہ ، ایک بات البتہ وضاحت طلب ہے کہ کہ اس دور میں یا شاید اب بھی یہ خدا بخش ملک صاحبان کے بی ملک کیوں ہو جایا کرتے تھے شاید انہیں والدین کے رکھے ہوئے نام پسند نہیں آتے تھے ؟اسی طرح شبلی بی کام ، نے حالانکہ ایم کام کر لیا تھا مگر وہ ہمیشہ خود کو بی کام لکھتے رہے یعنی اکثر لکھاری اس دور میں اپنی ڈگری کو اپنے نام کا حصہ بنا لیتے تھے خیر اب تو بات پروفیسر سے بڑھ کر ڈاکٹر تک جا پہنچی ہے ،،،،،
بلاشبہ اس دور میں اساتزہ کے ماہانہ مشاہرے اور آمدنی بھی کم تھی لیکن اپنے شعبے سے لگن لگاؤ نے لالچ تمع کو دور ہی رکھا۔
کمرشلز شاید تب آئ جب نمبروں کی دوڑ شروع ہوئ، اور پھر سب کچھ سامنے
اللہ پاک اپکو سلامت و شاد رکھے اور تمام اساتزہ کرام کے بے لوث خدمات کا نیک اجر عطا فرمائے آمین ثم آمین
بالکل ایسا ہی تھا 1988 سے 90 تک ہمارے قابل اساتذہ کرام محترم احسن خان اسکول میں چھٹی کے بعد کبیر خان گرمیوں کی چھٹیوں میں گل حسین صاحب ہائی اسکول میں ہمیں مفت ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے اللہ تعالیٰ مرحومین کی مغفرت فرمائے اور گل حسین صاحب کو صحت مند زندگی
پانچویں کلاس ماسٹر ضیاء الحق اور آتھویں فقیر محمد چوھدری صاحب نے پڑھائی بغیر کسی فیس اور لالچ کے میٹرک کے امتحانات ماسٹر انوارالحق صاحب کی نگرانی پاس کئے انھوں نے بھی آج تک کوئ فیس نہی لی اور کالج کا زمانہ بھی اچھا تھا صغیر قمر صاحب شبیر احمد افضال صاحب اور نزیر احمد صاحب کے ساتھ ساتھ صابر صاحب بھی گریٹ انسان تھے پھر ھم لاھور آ گئے اور کمرشل ازم شروع ھو گیا
اب سکول کے استاد سٹوڈنٹس سے مخلص نئی ہیں پہلے والے استاد سٹوڈنٹس کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے تھے اور ان کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کر دیتے تھے کحچھ استاد ہیں مخلص بچوں کے ساتھ آج بھی اللہ پاک آپ ان کو ہمیشہ سلامت رکھے آمین
اپنے وزن سے زیادہ بھاری بھرکم سکول بیگ پیٹھ پر لادے ننھے منے بچوں کو سکول آتے جاتے دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔
ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔ صرف دوتین کتابیں اور ایک سلیٹ بستے میں لپیٹ کر لے جاتے تھے۔ بستہ 2×2 فٹ کپڑے کا چوکور رومال سا ہوتا تھا۔ میٹرک میں تو ہم لوگ بستے کی بجائے کتابیں پتلون کی بیلٹ جیسی پیٹی سے باندھ کر لے جاتے تھے۔
سکول میں بچے کورس کی صرف وہ کتابیں لے جاتے تھے جو کلاس میں پڑھائی جاتی تھیں۔ اردو، انگریزی اور ریاضی کورس کی کتابیں کلاس میں پڑھائی جاتی تھیں۔ اس لیئے یہی تین کتابیں سکول لے جانا ضروری تھا ۔
تاریخ جغرافیہ شہریت اسلامیات فزکس کیمسٹری وغیرہ کی کتابیں کلاس میں نہیں پڑھائی جاتی تھیں۔ کلاس میں صرف ٹیچر کا لیکچر ہوتا تھا۔ سٹوڈنٹس لیکچر کی اہم باتیں رف کاپی میں نوٹ کر لیتے تھے اور گھر جا کر وہی باب کورس کی مقررہ کتابوں سے پڑھ بھی لیتے تھے۔ کتابیں کلاس میں لے جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔
ہوم ورک ہفتے میں دو دن چیک ہوتا تھا۔ ان دو دنوں میں کاپیاں( نوٹ بکس) بھی سکول لے جانی پڑتی تھیں۔ اب تو اللہ معاف کرے بچوں کو اپنے وزن سے زیادہ بوجھ کتابوں کا اٹھانا پڑتا ہے۔ نمائش ہی نمائش رہ گئی ہے۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔21 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
بچپن میں اپنے اساتذہ کرام سے یہی سنا کرتے تھے کہ:
“نا لائق طالبعم کا ہی بستہ بھاری ھوتا ھے۔
سر! اب تو سب طلباء و طالبات کے بستے بھاری ہیں
نتیجتاً! من حیث القوم ہمارا شمار نالائقوں میں کیا جانے لگا ھے
جہاں تعلیم کاروبار ہو تو وہاں یہی کچھ ہوتا ہے اور نتیجہ صفر۔۔۔۔۔ ترقی یافتہ ممالک میں علم زیادہ اور بستے کم بلکہ سکول میں ہی ہوتے ہیں نہ ہوم ورک نہ اساتذہ کے ڈنڈے۔۔۔۔ ایجادات وہیں ہو رہی ہیں یہاں تو ڈاکٹرز اور انجینیرز بھی ہاتھوں میں ڈگریاں لئے نوکریوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں
با با جانی
مینے آپکے پوتوں کا سکول اسی وجہ سے بند کر دیا تھا
سکول کے سامنے رش اور شور
کلاس میں ہیڈ ڈاؤن اور آ دھی کتاب کے ختم ھونے کے بعد نئی کلاس ۔۔۔۔گھر میں چار استاد ہیں اور تین کلاسز کی کتابیں ایک سال میں بچوں نے شوق کیساتھ پوری پوری ختم کرنی ھوتی ہیں ۔۔۔ہر بہتریں کتا ب پڑھ لیتے ہیں بچے اور بور بھی نہیں ھوتے ۔۔۔باقی انگلش کی کہانیاں میں اور میری بیگم پڑھاتی ہیں ۔۔۔نا کتابیں اٹھانے کی ٹینشن اور نا صبح بارہ سے پہلے اٹھنے کی فکر ۔۔ نا وین والے کی خوشامد ۔۔۔نا ٹھنڈا لنچ اور فضول کی یونیفارم ۔۔۔حالانکہ میرے دو ذاتی سکول بھی ہیں
بس کاروبار چلا ھوا ھے ۔۔۔
ایک سال سے بچے کو پہلے پانچ ہندسے اور اردو انگلش ورڈنگ نہیں آئ…یونیفارم ہاؤس کے مالک سےسکول کی منیجمنٹ میں اشتراک ہے…ہر تین چار ماہ بعد یونیفارم یا جرسی کوٹ تبدیل…فیس سال بعد پانچ صد اضافہ..اونچی دکانیں پھیکے پکوان…بچے اوپر سے تباہ…
اب تو مارکیٹ میں پچاس قسم کی تعلیم دستیاب ہے ہر سکول کا اپنا سلیبس،، ہر سکول کی اپنی کتابیں اپنی سٹیشنری ہر سکول کا الگ معیار اب تو تعلیم چوں چوں کا مربہ بن کر رہ گئی ہے اور مزے کی بات یہ کہ اتنی تعلیم کے باوجود بھی معاشرے مین تعلیم نظر کم ہی آتی ہے
عالی جناب
ہم نصاب میں کس کی پیروی کر رہے ہیں
بتاؤ تو سہی اسلام کی پا پھر اغیار کی
اتنا بھار نیئں بچے دا
جتنا بھار ھے بستے دا
دعا گو
جاوید سانول
21 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وطن سے محبت تو ہر انسان کو ہوتی ہے۔ اس محبت کا اظہار سب لوگ کسی نہ کسی انداز میں کرتے رہتے ہیں ، لیکن وطن کی محبت کے اظہار کا سب سے منفرد انداز کرنل شیر بہادر خان نیازی کا ہے۔ انہوں نے وطن کی تاریخ، کلچر، تاریخی مقامات، تاریخ ساز شخصیات کی پکچرز اور جامع تعارف اپنی ویب سائٹ میں یکجا کر کے ایک خوبصورت جہاں آباد کر رکھا ہے۔
کرنل صاحب یہ کام ایک مشن سمجھ کر سرانجام دے رہے ہیں۔
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
اسی سلسلے میں مجھ پر بھی بہت مہربان ہیں۔ میری تمام پوسٹس نہایت سلیقے سے “میرا میانوالی” کے عنوان سے اپنی ویب سائیٹ پر سجا رہے ہیں ۔2016 سے 2021 تک کی میری انگلش پوسٹس بھی اس ویب سائیٹ پر موجود ہیں۔
حال ہی میں کرنل صاحب نے میری مارچ 2023 کی پوسٹس خوبصورت نوری نستعلیق فونٹ میں اپ لوڈ کی ہیں۔ آگے کام جاری ہے۔
میانوالی سے محبت کرنے والے تمام دوستوں سے گذارش ہے کہ یہ ویب سائیٹ وزٹ کر کے کرنل صاحب کی بے لوث علمی و ادبی خدمات سے مستفید ہوں اور اس سلسلے میں اپنی تجاویز اور نایاب پکچرز کرنل صاحب کو ارسال کر کے اس کار خیر میں شریک ہوں ۔
رب کریم کرنل شیر بہادرنیازی کو بےحساب جزائے خیر عطا فرمائے۔ وہ میانوالی کے محسن ہیں ۔ زندہ قومیں اپنے محسنوں کی قدر کرتی ہیں۔
ویب سائیٹ کا لنک درج ذیل ہے—–https://mianwali.org/—–۔https://www.facebook.com/mianwalimianwalins
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔22 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
سر جی! آداب تسلیمات!
جس طرح اس انتہائی خوبصورت تصویر میں محترم و مکرم جناب کرنل شیر بہادر خان صاحب آپ کے ساتھ (مونڈھے نال مونڈھا) لگائے پوری طرح “جڑ” کے بیٹھے ہیں۔ پیار کے اس منفرد انداز ب تکلفی کو دیکھ کر آپ کے عقیدت مندوں دیوانوں، پروانوں، شیدائیوں کو حیرت کے ساتھ ساتھ پیٹ میں”میٹھا میٹھا مروڑ اور درد کے ساتھ “رقیبانہ حسد”
اور اپنی ب بسی و ب نصیبی پہ
ترس بھی آ رھا ھو گا۔ کہ غالباً مجھ سمیت ہر ایک کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ھے۔
(Smiles under the lips Sir, )
تاہم! میری تو یہی دعاء ھے کہ آپ دونوں کے درمیان عقیدت و احترام کا یہ لازوال رشتہ قائم و دائم رھے اور مزید پھلے پھولے پروان چڑھے۔
آمین یارب العالمین!
اللہ پاک آپ دونوں کو سلامت رکھے۔۔آپ کو دیکھ کر آپ کی پوسٹ پڑھ کر دل کو خوشی ہوتی ہے۔۔کرنل صاحب کی محنت اور وطن سے محبت پر سلام۔۔۔۔
ہوتے ہیں جو اپنے اسلاف کی ثقافت کے آمین
کوئی مٹا نہیں سکتا ان کی ثقافت کو سانول
دعا گو
جاوید سانول
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رب کریم نے تارا میرا کو بہت سی خوبیاں عطا کی ہیں۔ اس کےبیج سے سرسوں کے تیل جیسا تیل نکلتا ہے۔ لیکن اس تیل کے خواص سرسوں کے تیل سے بہت مختلف ہیں۔ اسے ہماری مقامی زبان میں کڑکا (کڑوا) تیل کہتے تھے۔ یہ تیل جسم کے کسی حصے پر لگ جائے تو شدید جلن محسوس ہوتی ہے۔ اس کی تیز مست بو خاصی ناگوار ہوتی ہے۔ مگر یہ کئی بیماریوں کا موثر علاج بھی ہے۔ اس کی مالش جوڑوں کے درد اور پٹھوں کے کھچاو کا شافی علاج ہے۔ سر کی خشکی اور جووں کے خاتمے کے لیئے اس تیل کی سر پہ مالش بہت مفید ہے۔
جسم اور جوڑوں کے دردکےلیے اس کا حلوہ بنا کر کھایا کرتے تھے۔ حلوہ بنانے کے لیئے کڑوے تیل کو میٹھا بنایا جاتا تھا۔ تیل میں آٹا ڈال کر کھولانے سے اس کی کڑواہٹ اور بو بہت کم ہوجاتی تھی ۔ میٹھا تو نہیں ہوتا تھا لیکن میٹھا ہی کہلاتا تھا۔ اس تیل میں سوجی اور گڑ ڈال کر حلوہ بنا لیا جاتا تھا۔ تیل کی مخصوص بو اور کڑواہٹ کی وجہ سے یہ حلوہ کھانا تھا تو خاصا مشکل مگر جسم اور جوڑوں کے دردوں کا یہ حلوہ بہترین علاج تھا اس لیئے بزرگ لوگ بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے۔
بیج سے تیل نکلنے کے بعد جو پھوگ بچتا تھا اسے کھل کہتے تھے۔ یہ کھل مویشیوں کی پسندیدہ غذا تھی۔ اس کے کھانے سے گایوں بھینسوں کے دودھ میں چکنائی کی مقدار بڑھتی تھی اس لیئے مکھن زیادہ بنتا تھا۔
اب تو بہت کم لوگ اس کے بارے میں جانتے ہوں گے کیونکہ
گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔23 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
.
بابا جانی
لوز موشن (پیچس ) میں بھی بہت مفید ھے یہ بیج
آدھا چمچ ہتھیلی پہ ڈال کہ اسے ہتھیلی سے مسل کر چھلکے وغیرہ صاف کرکے منہ میں ڈال کر پانی کے ساتھ پی لیں پیچس بلکل ٹھیک ھو جاتے ہیں
اسے ھمارے زبان میں جمہاں کہتے ہیں۔بہت فائدہ مند چیز ھے ۔اب بھی ھمارے علاقے میں جمہاں کا تیل کولہو پہ نکالا جاتا ھے ۔سردیوں میں اس تیل کی مانگ بڑھ جاتی ھے ۔اس میں خالص گندم کا آٹا ڈال کر تیز آگ پہ ابال کر میٹھا بنایا جاتا ھے ۔اس میٹھے تیل میں حلوہ کے علاوہ پکوڑے بھی بنتے ہیں ۔بزرگ خواتین کچھ تیل ماہ رمضان المبارک کیلیے الگ رکھ لیتی تھیں تاکہ رمضان المبارک میں پکوڑے تلے جاسکیں ۔اس میں بنے پکوڑوں کا الگ ھی سواد ھوتا تھا ۔
سعودی عرب میں اس کے پتوں کا بطور سلاد بہت ذیادہ کھایا جاتا ہے بلکہ شائد سلاد کے طور پر سب سے ذیادہ یہی پتے کھائے جاتے ہیں۔ وہاں ۔
تارا میرا کو اچھی طرح ابال کر نانیاں دادیاں “دوری” میں ڈال کر اس میں نمک اور کوٹی ہوئی سرخ مرچ ملا دیتیں جسے پنی pini کہا جاتا وہ مرچ نمک لگا ابلا ہوا جمیہاں بڑا مذیدار ہوتا جسے اب بھی میں بزرگوں کی یاد میں کھاتا ہوں کبھی ذائقہ بدلنے کیلئے آزمائیں
سر کنڈل تعیناتی میں اس پودے کے پتے توڑ لاتا اور بطور سلاد استعمال کرتا۔۔اوائل میں تو ساتھی ہنستے تھے۔۔جب ساتھ کھانا شروع ہوگئے تو خود تلاش میں نکل پڑتے تھے۔۔۔وہاں چنڑاکا سفید پھول والا اور جمہاں کافی خودرو ہے۔
لسی اور مکھن نکالنے کے بعد جو چیز باقی بچتی تھی اسے پھوگ کہتے تھے پھوگ کا ہم قافیہ لفظ یربوگ بھی ہوتا تھا اس کا مطلب ایسی چیزوں کو مکس کر دینا ہوتا تھا جو ملا کر عموماً نہ استعمال کی جاتی ہوں
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہرمل کو اردو میں پتہ نہیں کیا کہتے ہیں ہماری زبان اور انگریزی میں اسے ہرمل / ہرملہ harmala ہی کہتے ہیں۔ انگریزی میں اس کا پورا نام Peganum harmala ہے۔ انگریزی میں اسے Wild rue بھی کہا جاتا ہے۔
ہرمل ریتلے علاقے کا خود رو پودا ہے۔ ہمارے داودخیل تھل کے علاقے میں بہت ہوتا ہے۔ اس کے سفید پھول دوچار دن بعد ڈوڈیوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ان ڈوڈیوں میں ہرمل کا بیج ہوتا ہے ۔
ہرمل کے بیج کا دھواں کمرے کو مچھروں مکھیوں سے پاک کر دیتا ہے۔ اس دھوئیں کی تیز بو مچھروں مکھیوں اور کیڑے مکوڑوں کو بھگا دیتی ہے۔
خسرہ کی بیماری کے علاج میں بھی ہرمل کے بیج کا دھواں بہت کارآمد ثابت ہوتا ہے۔
پیٹ کے درد کے لیئے ایک چمچ ہرمل کا بیج پانی کے ساتھ لینے سے درد فی الفور ختم ہو جاتا ہے۔
ہرمل تو اب بھی اگتی ہے مگر اب انگریزی دواوں کی فراوانی میں ہرمل کو کون یاد رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔—————————-24 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
سر جی! کہتے ہیں کہ اونٹوں کا یہ پسندیدہ سبز چارہ ھے اور اس کا دھواں ویران پڑے مکانوں سے جنات بھوت پریت کو دور بھگانے کے لیئے بھی استعمال ھوتا رھا ھے۔
مائیں گھروں میں بتری صحت بنا کر رکھتی تھیں ہرمل جس کا لازمی جزو ہوتی تھی۔۔ خمجیرہ ایک کڑوی پہاڑی بوٹی ۔۔۔۔ کڑتما (غڑومبا) اس کا جزو ۔۔۔۔ اب طب کی دنیا میں ان کی تیزی سے واپسی ہو رہی ہے۔۔۔۔ سب سے اعلی ترین دوا ایسبغول ہمارے علاقے میں ایک جنگلی نباتات ۔۔۔ لیکن پیٹ کی لئے ایک اکسیری دوا۔۔۔۔۔۔
رب العالمین نے ہر زمانے میں خوراک و نباتات میں شفا پنہاں رکھی ۔ پرانے زمانے میں چیزیں کمیاب تھیں تو انسان کی برداشت زیادہ تھی۔ آج اچھے بھلے لوگ ہرمل اور گگل کے دھوئیں سے بھاگ پڑیں گے لیکن مختلف کیمیائی سپرے سے خوفزدہ نہیں ہونگے۔
صحت سلامتی کی بہت دعائیں محترم سر،
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غریبوں کا خیال کسی اور کو ہو نہ ہو غریبوں کا خالق ان کا خیال ضرور رکھتا ہے۔ ایک دور وہ بھی تھا جب اکثر لوگ کپڑے دھونے کا صابن خریدنے کی استطاعت سے بھی محروم تھے۔ اس دور میں صابن کی بجائے کھار کی راکھ واشنگ پاوڈر کے طور پہ استعمال
ہوتی تھی۔
کھار ایک خود رو پودا تھا۔ ننھے منے گول مٹول پتوں والا یہ پودا ریتلے میدانوں میں بکثرت اگتا تھا۔ کھار کے پودوں کو جلا کر ان کی راکھ واشنگ پاوڈر کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔ یہ راکھ بہت طاقتور میل کش (powerful detergent) ہے۔ کھولتے پانی میں مٹھی بھر راکھ ڈال کر میلے کپڑے اس پانی میں بھگو دیئے جاتے تھے۔ایک آدھ منٹ میں کپڑوں کا سارا میل کچیل اتر جاتا تھا۔
کھار کی راکھ آج کل کے سرف اور بونس وغیرہ سے کم موثر نہ تھی۔
کھار کے پودے اونٹوں کی پسندیدہ خوراک بھی تھے۔
شاید کھار کے کئی اور فوائد بھی ہوں۔ تحقیق کی ضرورت ہے ۔ مگر تحقیق کرے کون؟ ہم پکی پکائی کھانے والے اہل ایمان تحقیق کی زحمت کب گوارا کرتے ہیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔ —————–25 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
سر! مجھے اتنا یاد پڑ رھا کہ اگر کھار کے پودے کی ٹہنی توڑتے تھے تو خون کی طرح کا سرخ لعاب نکلتا تھا۔
کوئی بوٹے کھاراں دے
کدی کدی یاد آندن
ویلے لنگھی بہاراں دے
تازہ بتازہ ہے کوئی اور بھی گرہ لگائے۔
کھار کی راکھ دکانوں پہ دستیاب ہوتی تھی گھر پہ ہی صابن تیار کیا جاتا تھے جس سے صابن سے کپڑوں کی دھلائی کے علاوہ اپنی دھلائی بھی کی جاتی تھی ۔۔۔ کھار کو کپڑوں سمیت ٹین کے ڈبے میں ڈال دیا جاتا اور آگ پہ چڑھا دیا جاتا اور پھر صاف پانی سے کپڑوں کو دھویا جاتا تھا مغرب نے کیمیکل سے یہی کام لینا شروع کیا اور اللہ نے جو نعمتیں ہمیں گھر بیٹھے دی تھیں ہم نے ان کی کفران نعمت کی آج وہ چیزیں ڈوھنڈے سے بھی نہیں ملیں گی۔۔۔۔۔
پیارے سر جی اللہ پاک آپ کو سدا سلامت رکھے
جناب اس پودے کو ۔میں نے دیکھا ہے اور اس کو گڑھے میں جلاتے ہوئے بھی اس کی آگ بہت تیز ہوتی ہے اور راکھ پگھلے ہوئے لوہے کی مانند ہوجاتی ہے
کپڑے صاف کرتے ہیں اور پہلے تو کچھ مقدار کالا بی ڑا میں شامل کرتے تھے اور بربل دواؤں میں بھی استعمال ہوتا ہے اس کا
پیارے سر جی اتنی معلومات تو گوگل کو پتہ نہیں جو آپ ہمارے ساتھ شیئر کرتے ہیں
کھار ہٹی پر بکتی تھی..ٹین پانی کا بھاء پر بڑکاتے تھے استری کا زمانہ نہ تھا کھار ٹین میں اور سارے کپڑے بھی ٹین میں…ایک ڈنڈے سے کپڑوں کی خوب ماردھاڑ کی جاتی..دیکھا ہے تماشا .ی سارا.کھار ٹینے والے کپڑے جب سوکھتے تو.گھنڑجاں گھنڑجاں ہوتے…کچہری بھی وہی کہڑے پہن کے جانا ہوتے زمی داروں کو
بالکل درست۔ ہمارے تھل میں اس پودے کو لانڑیں کہتے تھے جس کا ذکر میں نے اپنی آپ بیتی *نگہبانی (ریت کے گھروندوں سے) میں کیا ہے۔
کلراٹھی زمینوں میں جنانوالہ گاءوں میں جھوٹی کھار(چھوٹے والی) اورسُچی کھاربڑے سائز اورسخت پتھرجیسی میں خالی جگہوں میں ہوتی ہے اورشُرکـا بھی مل جاتاہے بڑی نمکین چھوٹےچھوٹے پتوں والی بوٹی جس کا غربت کے دنوں ساگ پکایاجاتاتھا گندم کی قلت ہوتی تو تھوڑاسا بُک آٹا اس ساگ میں ڈال کرغڑوبا سا بنا لیا کرتے اورپیٹ پوجاہوجایاکرتی تھی خاص کر1951 میں اچھاخاصاقحط آیاتھا اورہمارے لوگ گنجی بارکے علاقے میں جابسے تھے
کھار کے بارے میں اکثر اپنی والدہ سے سنتے رہتے ہیں ۔
کھار کو دیکھنے کا بہت شوق ہے ، مگر شائد یہ شوق کبھی پورا ہو سکے۔
سر کالانمک بھی کھار سے بنتا ہے کھار کو لال نمک میں ملا کر ہائی ٹمپریچر پر پگھلاتے ہیں جس سے کالا نمک تیار ہوتا ہے
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماڑی انڈس، داودخیل، میانوالی اور کندیاں ہمارے علاقے کے سب سے با رونق ریلوے سٹیشن تھے۔۔۔ مگر اب۔۔۔۔۔۔۔ وہ رونقیں یاد کر کے بھی آنکھیں نمناک ہونے لگتی ہیں۔ نہ وہ انجنوں کی سیٹیاں ، نہ مسافروں کی بھاگ دوڑ ، نہ ٹی سٹالوں اور ریڑھی والوں کی سرگرمیاں ، نہ وہ اپنے پیاروں کو الوداع کہنے کے جذباتی مناظر ، نہ آنے والوں کے پرجوش استتقبال کی جھلکیاں ۔۔۔۔کچھ بھی باقی نہیں رہا۔۔ اکثر سٹیشن تو “جہازوں” کے اڈے بن گئے ہیں۔ راتوں کی تاریکی میں یہاں جہازوں ہی کا بسیرا ہوتا ہے۔
پندرہ بیس سال پہلے تک ہمارے داودخیل سٹیشن پر دن بھر میں تقریبا 8 ٹرینیں آتی جاتی تھیں۔ صبح ایک ٹرین لاہور سے آکر ماڑی انڈس جاتی تھی، ایک ملتان سے پشاور جانے والی ٹرین ، ایک کندیاں سے ماڑی انڈس جانے والی ٹرین جسے ڈبے کہتے تھے۔ تین بجے کندیاں سے پنڈی جانے والی ریل کار، پانچ بجے ماڑی انڈس سے لاہور کی ٹرین اس سے دس پندرہ منٹ بعد پنڈی سے ملتان جانے والی ٹرین ، رات دس بجے عطاءاللہ ایکسپریس۔ یہ ٹرین میاں عطاءاللہ نامی وزیر ریلوے نے جاری کی تھی ، لوگوں نے اس کا نام ہی عطاءاللہ ایکسپریس رکھ دیا۔ صبح 4 بجے ماڑی انڈس سے پنڈی جانے والی ریل کار بھی یہاں آتی تھی۔
اب تو 24 گھنٹے میں صرف 2 ٹرینیں آتی جاتی ہیں۔ سٹیشن ویران ، لوگ پریشان ، عجیب سی ویرانی چھائی ہوئی ہے۔
کہتے ہیں ریلوے سسٹم کی بربادی ٹرانسپورٹ مافیا اور ریلوے افسران کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔
ذمہ دار جو بھی ہو ایک عظیم الشان سسٹم کی بربادی نہایت افسوسناک قومی سانحہ ہے۔ احساس زیاں ہی نہ ہو تو الگ بات ہے۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔——27 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
سر! انگریز سرکار پاکستان میں کل فعال ریلویز ٹریک چودہ ہزار میل چھوڑ گئئ۔ جس میں سے
اب صرف آٹھ ہزار کلومیٹر بچی ھے جبکہ باقی کی چھ ہزار کلومیٹر ریلویز ترین درجنوں اسٹیم انجنز ہزاروں کی تعداد میں مال بوگیاں ریلوے اسٹیشنز ورکشاپس اور دیگر قیمتی انفرااسٹرکچرز 1985 میں بحساب اسی پیسہ فی کلو اتفاق فاؤنڈری لاھور کی نظر ھو گیا ھے۔
موٹر ویز سرمایہ دار ارکان اسمبلی جن کی اپنی ٹرانسپورٹ ہیں ان کے لیئے بنایا گیا ھے جس کا ہم عوام مجبوراً استعمال کرنے ہیں۔ جبکہ دنیاء بھر میں سامان کی ترسیل اور نقل و حمل کے لیئے ریلویز کے نظام کو جدید تکنیکی بنیادوں پر استوار کیا جا چکا ھے جس کا براہ راست فایدہ وھاں کی عوام کو ملا ھے۔
یہی حال دیگر قومی اداروں بشمول پی آئی اے اور اسٹیل ملز وغیرہ کا بھی کر رکھا ھے۔
“اے دل دی مسجد ویران پیئئی اے
“نمازی کوئئ نہی، امام کوئئ نہی!
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1950 تک عیسی خیل سے میانوالی صبح کی بس سروس دستیاب نہ تھی۔ اس لیئے عدالتوں میں پیش ہونے والے لوگ داودخیل سے صبح 4 بجے کی ٹرین سے میانوالی جایا کرتے تھے۔ واپسی ملتان سے 5 بجے بعد دوپہر آنے والی ٹرین کے ذریعے ہوتی تھی۔ کاروبار کے سلسلے میں میانوالی جانے والے لوگ صبح دس بجے ماڑی انڈس سے کندیاں جانے والی لوکل ٹرین سے سفر کیا کرتے تھے۔
1950 میں میانوالی عیسی خیل روڈ پر باقاعدہ بس سروس شروع ہوئی۔ دو بسیں میانوالی ٹرانسپورٹ کالا باغ گروپ ، 2 میانوالی ٹرانسپورٹ عیسی خیل گروپ کی اور ایک بس تلہ گنگ بس سروس کی اس روٹ پر چلتی تھی۔
اس دور میں پاکستان کی سڑکوں پر صرف امریکی، برطانوی اور جرمن گاڑیوں کا راج تھا ۔ جاپانی گاڑیوں کی یلغار بہت عرصہ بعد شروع ہوئی۔
امریکی ساخت کی فورڈ ، شیورلیٹ ، ڈاج اور سٹوڈی بیکر بسیں، برطانیہ کی آسٹن اور بیڈفورڈ اور جرمنی کی مرسیڈیز بسیں ہوا کرتی تھیں۔ یہ بسیں نیلام شدہ فوجی ٹرکوں پر بس کی باڈی لگوا کر بنائی جاتی تھیں۔ یہ پٹرول پر چلتی تھیں۔ ایک روپے میں چار پانچ لیٹر پٹرول ملتا تھا اس لیئے سودا مہنگا نہیں پڑتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔28 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے
سر-شائد بسوں میں فیول کے طور پر کوئلہ بھی استعمال ھوتا تھا ۔اگر بھول نہیں رھا تو ۔۔۔
اسلام علیکم جی
سنا ہے کسی بزرگ سے کہ کوئلہ سے بس چلتی رہی ہے جیسے کالا ریلوے انجن چھک چھک کر کے چلتا رہا ہے
بنوں سے میانوالی کیلئے حیات اللّٰہ اور حاجی شیر زمان بسیں بھی چلا کرتیں
1980 تک سر اس روڈ پرنیلے رنگ کی سرکاری سرحد ٹرانسپورٹ بھی بنوں سے میانوالی چلتی رھی اس سے پہلے تو پورے دن میں تین یا چار لاریاں ھی گزرتی تھیں
ہریش چند نکڑہ نے کیا اپنی انگریزی میں لکھی گئی کتاب وچھڑا وطن میں جس سیرکاں والی گاڑی یعنی رضائیوں والی گاڑی کا ذکر کیا تھا وہ یہی ریل گاڑی تھی ؟ میں نے جناب سلیم احسن اور ان کے ایک دوست نے جو اس کتاب کا اردو ترجمہ کیا تھا وہ پڑھا تھا ،،،،
عالی جناب
داؤد خیل نوں بس جاوئے
اوندے ہتھ کپ چھوڑاں جیڑا سجنڑاں نوں ہتھ لاوئے
دعا گو
جاوید سانول
سر جی سلام
1950 میں ایک پاکستانی روپے میں چار 5 لٹر ماشاءاللہ کیا شاندار دور تھا آج 73 سالوں میں دور ہی بدل گیا رویپہ کہاں تین سو کے قریب صرف ایک ہی لٹر ظالموں نے ظلم ہی برسا دیا ہے جی
بس ساڈے کالج دی بھاوں لیٹ پہچاندی اے
او سجناں جدائ تیری سانوں مار مکاندی اے
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سامان کمرے میں رکھنے کے بعد ہم چائے پی کر نماز تہجد اور نماز فجر ادا کرنے کے لیئے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے۔
مسجد کے احاطے میں قدم رکھا تو دائیں ہاتھ عین سامنے سبز گنبد پر نظر پڑتے ہی قدم بے اختیار رک گئے۔ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور ہاتھ دعا کے لیئے اٹھ گئے۔ دعا میں اپنے رب سے پتہ نہیں کیا مانگا۔ سینے میں ٹھنڈ سی پڑ گئی۔ یوں لگا جیسے کسی نے سر پہ ہاتھ رکھ دیا ہو۔ ایسا محسوس ہوا جیسے میرے آقا میرے آنے پر خوش ہوئے ۔ وہی لمحہ حاصل زیست تھا۔ لاکھ کوشش کروں وہ کیفیت الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی۔
یہی کیفیت ایک بار پھر محسوس ہوئی جب ہم مدینہ منورہ سے واپس روانہ ہوئے۔ ہم ٹیکسی میں بیٹھ کر مسجد نبوی سے ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ تقریبا ایک کلومیٹر آگے جاکر ٹیکسی بائیں جانب مڑی تو اچانک اپنی بائیں طرف گنبد خضری بہت قریب نظر آیا جیسے میرا الوداعی سلام لینے آیا ہو۔ جیسے میرے مہربان آقا اپنے مہمان کو الوداع کہہ رہے ہوں۔ ایک بار پھر آنکھیں بھیگ گئیں اور ہاتھ بے اختیار دعا کے لیے اٹھ گئے۔۔۔۔۔
میں اس کرم کے کہاں تھا قابل–۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔—————-28 نومبر 2023 –منورعلی ملک۔۔۔
===========================================================================================================================