کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف–قسط چہارم
کالاباغ کو حملہ آوروں سے محفوظ رکھنے کے لیے اعوان سرداروں نے جلال پور کے مقام دفاعی نوعیت کی ایک چوکی ملک جلال خان اعوان کی سرکردگی میں قائم کی ،جس کے نام پر موجودہ جلال پور کا قصبہ آباد ھے اور یہاں خالص اعوان قبیلہ کثرت سے آباد ہے ۔اس دفاعی چوکی نے یہ اثر دکھایا کہ جانب غرب سے ہجرت کرکے آنے والے نیازیوں نے کالاباغ کی جانب بڑھنے کے بجائے دریا پار کا رخ کیا ،موچھ داؤدخیل سے ہوتے ہوئے آگے تو پھیلتے گیۓ لیکن جلال پور ،کوٹ چاندنہ اور کالاباغ کو اپنا مسکن نہ بناسکے ۔
اب کالاباغ کا مکمل علاقہ اعوان قبیلہ کی سرداری میں تھا ، اس کے بعد کافی عرصہ امن و شانتی رہی ۔(بالاج )کتب تاریخ میں 1114ھجری میں شہزادہ بہادر شاہ ابن اورنگزیب کا ذکر ملتا ہے جو بنوں کے راستے کالاباغ آیا , اسے بنوں کے دفاع کے لئے ایک طاقتور سردار کی ضرورت تھی یہ ہامی حاکم دانگلی مبارز خان گھکھڑ نے بھر لی ،تو شہزادہ بہادر شاہ نے علاقہ کالاباغ کے محصول وصولی کی ذمہ داری مبارز خان گھکھڑ کو سونپ دی،چند سال گھکھڑ محصول وصول کرتے رہے پھر اس خدمت گزاری پر محمد افضل خان خٹک مامور ھوا مگر وہ کالاباغ میں دخل نہ پا سکا ،احمد شاہ ابدالی جب اس علاقے میں آیا تو اس جاگیر کے محصول وصولی کا اختیار ساٹھ تومان تبریزی جس کے ایک ہزار دو سو روپے سکہ رائج الوقت بنتے تھے کے عوض معاذ خان ساغری خٹک کو دے دیا ،معاذ خان اس آمدنی سے بیس تومان یعنی چار سو روپے براۓ دوستی و انتظام علاقہ کالاباغ ملک محمد اعظم خان اول کو دیتا تھا ،احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد کے بعد شہزادہ تیمور 1188ھجری میں کالا باغ آیا تو ملک اعظم خان نے تیمور شاہ کے مخالف چند سکھ سرداروں کے سر قلم کر کے بادشاہ کو نذرانہ کے طور پر بھیجے تو تیمور شاہ نے کالا باغ کا 1200 روپے کا محصول بنام ملک محمد اعظم خان اول کر دیا اور ملک اعظم خان کو علاقے کا سردار تسلیم کر لیا اس وقت ہر قسم کی جنس پر آٹھ ٹکے محصول تھا اور ایک روپیہ میں اڑتالیس ٹکے شمار کۓ جاتے تھے ،تیمور شاہ کے اس محصول کے عوض ملک اعظم خان اپنے علاقے سے گزرنے والی بنوں تا دہلی گزرنے والی شاہراہ کی حفاظت کرتا تھا اور دیگر خدمات شاہی بھی اس کے سپرد تھیں ،تیمور شاہ کے بعد اس کے جانشینوں آپس میں دست وگریباں ھو گۓ تو سکھ نئی طاقت کے طور پنجاب کے افق پر نمودار ہونے لگے تھے ( بالاج) لیکن خود ملک اعظم خان کو خانگی جھگڑوں نے الجھا لیا ،ملک اعظم خان کے والد ملک سرخرو خان کی تین بیویاں تھیں زوجہ اول سے ملک اعظم خان ،زوجہ دوم سے شاہ عالم خان اور زوجہ سوم سے تین بیٹے ملک امانت ،ملک ملک خلاص اور ملک غلام حسین پیدا ہوئے ،ملک سرخرو خان نے ملک اعظم کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔
ملک اعظم با صلاحیت سردار تھا اور اس نے پانچ شادیاں کیں جن سے بارہ بیٹے پیدا ہوئے ،جن میں سے ملک اللہ یار خان سب بھائیوں سے ہوشیار اور دانش مند تھا لیکن ملک اعظم خان نے اخیر عمر میں زوجہ دوم کے بیٹے حافظ محمد خان کو اپنا قائم مقام اور مختار دستار مقرر کر دیا یہ فیصلہ نہ ملک اعظم خان کے دیگر بھائیوں کو پسند نہ آیا اور بیٹے ملک اللہ یار خان کو بھی اس فیصلے سے دکھ پہنچا۔( بالاج) چنانچہ ملک اللہ یار خان اور اس کے دو چچوں ملک خلاص خان اور ملک امانت خان نے دغا بازی سے ملک اعظم خان کو قتل کردیا اسی روز حافظ محمد خان کے بھائی یاسین کو بھی مسجد میں پھرتے ھوتے قتل کر دیا گیا اب حافظ محمد خان کو سرداری کے بجائے جان بچانے کی فکر پڑ گئی اور وہ اپنے بھائی سلطان احمد کے ساتھ عیسیٰ خیل پناہ گزیں ھوا ،اس واقعہ کے بعد ملک اللہ یار خان نے ان دو بھائیوں کو مال و جائیداد تقسیم کرنے کے بہانے بلا کر تلوار کے گھاٹ اتار دیا اور ملک اللہ یار خان کے ملازمین نے تیسرے بھائی غلام حسین کو بھی باغ میں موت کے گھاٹ اتار دیا جب کالاباغ میں یہ خونریزی جاری تھی تو موقع غنیمت جان کر حافظ محمد خان کا ایک بھائی سلطان احمد خان نے مشانیوں اور عیسیٰ خیل کے خان زمان خیلوں کو اکٹھا کیا اور کر کالاباغ پر چڑھائی کر دی،لیکن اس کے ساتھیوں نے مکمل ساتھ نہ نبھایا اور سلطان احمد خود گرفتار ھو گیا ،اب حافظ محمد خان نے عیسیٰ خیل سے نکل کر لاوہ کا رخ کیا اور کچھ ہمدرد اکٹھے کۓ اور مسان کے علاقے پر قابض ہو گیا،ملک اللہ یار خان نے کمال ہوشیاری سے کام لیا محمد خان کے گرفتار شدہ بھائی سلطان احمد کو رہا کر دیا اور جب سکھوں کی اعانت پا کر مسان سے بھی حافظ محمد خان کو بیدخل کروا دیا حافظ محمد خان جان بچانے کے لیے ٹانک کے کٹی خیل سردار سرور خان کے پاس جا کر پناہ کا طالب ہوا،حافظ محمد خان سے مکمل جان چھڑوانے کے لیے ملک اللہ یار خان نے اپنے بھائی ملک نواب خان کو تعاقب میں ٹانک روانہ کیا جس نے ملک سرور خان کو بے خبر رکھ کر اس کے بیٹے سے حافظ محمد خان کے قتل کی ساز باز کی لیکن حافظ محمد خان کو کسی طریقے خبر ھو گئی اور وہ راتوں رات ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف نکل بھاگا مگر ملک نواب خان کے سوار دستے نے اسے موضع بٹ کے قریب پکڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیا اور سلطان احمد طبعی موت مر گیا اب حافظ محمد خان اور سلطان احمد کی اولادیں عداوت و کینہ تو سینوں میں پالتے رہے لیکن عملاً کچھ نہ کر سکے ۔ملک اللہ یار نے اپنے اقتدار و جاگیر کو اندرونی خطرات سے تو محفوظ کر لیا مگر بیرونی خطرہ سکھوں کی صورت اس کے سر پر منڈلانے لگا اور کچھ عرصہ بعد کالاباغ کے دروازے پر محکم چند کی سربراہی میں سکھ حملہ آؤر دستک دینے لگے۔
بالاج جیسل (محمد اقبال حجازی) راجپوت بھٹی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک تجربہ کار استاد، حساس قلمکار، اور تہذیبی ورثے کے سچے محافظ ہیں۔ انہوں نے تین دہائیوں تک تدریس سے وابستہ رہتے ہوئے علم کی روشنی پھیلائی، اور ساتھ ہی ساتھ کالاباغ، کوٹ چاندنہ اور میانوالی کی ثقافت، یادیں اور تاریخ اپنے سادہ مگر پُراثر انداز میں قلمبند کیں۔ ان کی تحریریں خلوص، سچائی اور دیہی زندگی کے جذبے سے لبریز ہوتی ہیں۔ وہ فیس بک پر فعال ادیب ہیں اور اپنی زمین، لوگوں اور ماضی سے جڑے تجربات کو محفوظ رکھنے کے لیے مسلسل لکھ رہے ہیں۔۔ اُن کا قلم مقامی زبان، محبت اور روایت کا ترجمان ہے.
[bdp_post design=”design-2″ grid=”5″ media_size=”thumbnail” show_date=”false” show_author=”false” show_tags=”false” show_category=”false” category=”1235″ orderby=”title”