کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف–قسط پنجم
قسط نہم۔۔( کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف) ۔۔ملک مظفر خان کی وفات کے وقت سٹیٹ کی زمام اقتدار ملک محمد اسد خان نے سنبھالی جو دھیمے مزاج کے امن پسند انسان تھے ۔انہوں نے سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا اور طویل عرصے تک سیاست سے کنارہ کش ہوگئے ، صدر پرویز مشرف نے جب سیاست دانوں کے احتساب کا سلسلہ شروع کیا تو ملک محمد اسد خان اور ملک اللہ یار خان بھی نیب کی حراست میں کچھ عرصہ پابند سلاسل رہے لیکن کسی مقدمے میں سزا نہ ہوئی اور باعزت بری ہو گئے،جب کہ ان کے دوسرے بھائی ملک اللہ یار خان جو سابق صدر پاکستان فاروق احمد خان لغاری کے بہنوئ تھے نیب کی حراست میں ہی 24,جون 2000 کو وفات پا گئے ،یہ احتساب بھی شاید سیاست دانوں کو دباؤ میں لاکر حمایت حاصل کرنے کا ایک حربہ تھا کیونکہ کچھ عرصہ بعد وہی صدر پرویز مشرف کالاباغ بوڑھ بنگلہ میں تشریف فرما تھا اور میزبان ملک محمد اسد خان تھے ،،،اس محفل میں شریک ایک مہربان نے بتایا تھا کہ جب پرویز مشرف بوہڑھ بنگلہ میں دریا کی جانب سیڑھیاں اترے اور دریائے سندھ کے پانی میں میں ہاتھ ڈالا تو ملک محمد اسد خان نے کہا کہ” اس کا مطلب ہے کالاباغ ڈیم کا افتتاح ہو گیا ہے ” لیکن پرویز مشرف نے کچھ کہنے کے بجائے صرف مسکرانے پر اکتفاء کیا ۔ملک محمد اسد خان نے جبر و تشدد ،انا پرستی اور متشددانہ پالیسی کو خیر باد کہا اور عوام الناس کے ساتھ رابطے بحال کۓ ،کالاباغ شہر کے لوگ جو بغوچی محاذ کے دوران نواب آف کالاباغ فیملی سے نالاں ھو کر دور ہو چکے تھے،ان سے دوستانہ تعلقات قائم کئے ،ان کو سینے سے لگایا اور بوڑھ بنگلہ جسے طلسماتی محل سمجھ کر عام آدمی بغیر اجازت داخل ہونے سے گھبراتا تھا اب اس کے دروازے عام لوگوں کے کھول دیۓ گۓ ،بنی افغان کے خٹک قبائل کے ساتھ صلح صفائی کر لی گئی اور دشمنی کو دوستی میں تبدیل کر لیا ،لال مست خان جو بنی افغان مسلح تحریک کا سرگرم سربراہ تھا اور پولیس کی گرفتاری کے بعد جیل میں وفات پا گیا تھا اس کے بیٹے جمیل خان اور دیگر لوگوں کے ملک اسد خان کے بیٹوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم ھو گیۓ اس امن وامان اور عوام دوستی کا نواب آف کالاباغ کو یہ صلہ ملا کہ ملک اسد خان کے بیٹے ملک عماد خان نے 2008ء میں ھونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات میں دس ہزار ووٹوں کی برتری سے کامیابی حاصل کی اور اس نوجوان سیاست دان کی صلاحیتوں کو بھانپ کر پیپلز پارٹی کی قیادت نے وفاقی وزیر مملکت برائے امور خارجہ کا قلمدان سونپ دیا ۔جب اسمبلی کا دورانیہ مکمل ھوا تو ملک اسد خان کے بیٹوں کی سیاست کا سفر بھی مکمل ھو گیا اور انہوں نے سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی ,اور ملک محمد اسد خان نے بھی 22.8.2019 کو اپنی زندگی کا سفر مکمل کر لیا اور وفات کے دوسرے دن 23.8.2019کو 5.30بجے بوقت عصر نماز جنازہ ادا کی گئی اور آبائی قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے،لیکن ملک مظفر خان مرحوم کے بیٹے ملک عبدالوحید خان ابھی تک سیاست میں سرگرم حصہ لیتے ہیں ۔ان کے صاحبزادے ملک امیر محمد خان دوم اور ملک مزمل علی خان بھی اپنے والد کے ساتھ سیاست میں سرگرم ہیں سابقہ انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکے لیکن اپنی پارٹی کارکنان اور عوام کی خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں ۔جب تک ملک امیر محمد خان کے اخلاف میں اتفاق و اتحاد رہا ،ان کا سابقہ وقار اور تمکنت بھی برقرار رہی لیکن یہ اتفاق زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا اور چشم فلک نے دیکھا کہ ملک عماد خان پیپلز پارٹی کی حکومت کے وفاقی وزیر ہیں اور ان کی چچا زاد محترمہ عائلہ ملک بوڑھ بنگلہ میں تحریک انصاف کا جلسہ رچاۓ بیٹھی ہیں اور اس حلقے میں عمران احمد خان کی انتخابی مہم چلا رہی ہیں،2013,ء میں عمران احمد خان نیازی نے این اے 71 سے جیت کر یہ نشست چھوڑ دی تو ٹکٹ ملک عائلہ بی بی کوملا لیکن عائلہ ملک کی ڈگری جعلی ثابت ھوئی اور وہ الیکشن کی دوڑ سے باہر ھو گئیں،مرکز و صوبے میں مسلم لیگ نواز شریف کی حکومت بن چکی تھی عائلہ ملک کے الیکشن کی دوڑ سے باہر ھونے کے بعد یہ الیکشن ملک عبد الوحید خان نے لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے اور عبداللہ خان شادی خیل ممبر قومی اسمبلی منتخب ھو گیۓ۔
کالاباغ کے اعوان خاندان میں سیاسی اختلاف کے ساتھ ساتھ خاندانی رقابت بھی بڑھنے لگی ،خاندان کو متحد رکھنے والےبزرگ یعنی ملک امیر محمد خان کے سارے بیٹے فوت ہو چکے تھے اور پہلی بار یہ ھواکہ 24, جولائی 2012ءکو ملک عماد خان نے کچہری بوہڑھ بنگلہ کے بجائے قلعہ میں لگائی ،جولائ کو 2012ء صدیوں کی تاریخ کا وہ موڑ ثابت ھوا کہ نواب آف کالاباغ کی جاگیر کی تقسیم کا آغاز ہوا اراضی ،باغات،بنگلے، ڈیری فارم سب کچھ تقسیم ھو گیا ۔اب اس خاندان میں ملک مظفر خان مرحوم کے بیٹے ملک عبدالوحید خان اور اس کے بیٹے ملک امیر محمد خان دوم اور ملک مزمل علی خان جبکہ ملک اسد خان مرحوم کے بیٹے ملک عماد خان اور ملک فواد خان ہی خاندانی روایات کو نبھا رہےہیں لیکن اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں ،اب کالاباغ کے نواب خاندان کے ظلم وستم کے وہ قصے کہانیاں بزرگ ہی جانتے ہیں۔ان ظلم وستم کا حکم کون دیتا تھا،ان کے نوکر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کر کرتے تھے یا خود نوابزادگان ایسا حکم صادر فرماتے،اللہ ہی جانتا ھے گندم کی کٹائی کی بیگار،کچے میں بطورِ سزا یافتہ مجرم مشقت کروانا ساتھ ساتھ کارداروں کا گالیوں سے نوازنا،،کبھی ڈنڈوں سے مرمت کر دینا اور عوام کو ہر حکم پر سر تسلیم خم رکھنا،سبزی منڈی میں سب سے پہلے نواب صاحب کی سبزی و فروٹ کا فروخت کرنے کا حق اور اس طرح کی شکایات تاریک دور کی یادیں ہیں ،جن کا ذکر کبھی دبے الفاظ میں اور کبھی واشگاف الفاظ میں ھوتا رہا ہے ۔۔۔بالاج۔۔۔جاری ھے
Part 10
torenpdoSs57y5a0uf896 7cJ732 90ll66if6t4g61ihfgu44g4: 1t4f1c ·
قسط دہم ۔۔(کالاباغ کی مختصر تاریخ و تعارف):– گھنے سر سبز باغوں ،اعوان نوابوں اور انفرادی تہذیب و ثقافت کا حامل خوبصورت تاریخی قصبہ کالاباغ ،جو تنگ پہاڑوں سے نکلنے والے شیر دریا کو کشادہ دامنی کی خیرات دے کر خود اس قدر سمٹا ھوا ھے کہ پورے پنجاب میں اس جیسا کم رقبے پر گنجان آباد شہر شاید ہی کوئی اور ہو ،کالاباغ کے قدموں میں جنوبی جانب دریائے سندھ بہہ رہا ہے تو مشرق اور شمال کی اطراف سے کوہ نمک نے گھیر رکھا ہے ،کالاباغ کی کثیر آبادی کوہ نمک کی ڈھلوانوں پر آباد ہے اس لئے قدیم شہر کے اکثر مکانات دو چھتہ بلکہ سہہ چھتہ ہیں یعنی ایک مکان کی چھت دوسرے گھر کا صحن ہے تو دوسرے مکان کی چھت تیسرے گھر کا صحن ہے اور مکانات کی اس ترتیب کی خوبصورتی و دلکشی کا نظارہ کرنا ہو تو دریا کی دوسرے کنارے یا ریلوے پل پر کھڑے ھو کر کیا جا سکتا ہے اور سورج غروب ہونے کے بعد شہر کی ٹمٹماتے چراغ اور دریا میں پڑنے والا ان کا عکس دیکھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے ۔
سفید و گندمی رنگ مائل بغوچیوں کے اس قصبے کو کالاباغ کا نام کیوں دیا گیا اس وجہ تسمیہ کی یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ دریا کے کنارے بوہڑھ کے بڑے بڑے درخت اور گھنے جنگلات تھے ،جن میں جنگلی پھل دار درختوں کی بہتات تھی اور یہ درخت اس قدر گھنے اور سر سبز تھے کہ دور سے دیکھنے والے کو دن میں بھی اندھیرے کا گماں ہوتا ،دریا کے مسافر اور گردونواح کے لوگ انہیں کالے باغات کہتے تھے یہی کالے باغات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ” کالاباغ “۔ کے نام سے مشہور ہوۓ ۔..بالاج ۔
موجودہ تلواں (زیریں) پتن اور اتلا (بالائی) پتن کے درمیان اور چھن موری تک تنگ بازار کی آبادی ھے ۔روایات کے مطابق کالاباغ کی قدیم و اولین ابادی یہی ہے ۔نواب آف کالا باغ کے آباؤ اجداد کے قدیمی مسکن بھی یہی علاقہ تھا ،اب تک یہ علاقہ چار محلوں کے نام سے جانا جاتا ہے ،جن کے نام محلہ دارو کٹاں والہ،محلہ بیریاں والہ ،محلہ پراچگان اور محلہ سناراں والہ ہیں ۔کالاباغ کی قدیم ابادی کے اردگرد آٹھ منقش دروازے تھے جو شہر کو بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ رکھنے کے لیے بناۓ گۓ تھے ،جن میں سے چند ایک کے آثار کچھ عرصہ قبل تک موجود تھے ،اس علاقے کو تنگ بازار کا نام دیا ہے کیونکہ اس بازار کی گلیاں تنگ،مکان تنگ لیکن مکین کھلے دل کے مالک ہیں ،اس تنگ بازار کی گلیوں میں دن کے وقت بھی اندھیرا سا چھایا رہتا ہے ،کیونکہ سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی ۔کالاباغ کے قدیم باشندے انہی تنگ و تاریک گلیوں اور مکانات میں صدیوں سے مقیم ہیں ،۔
کالاباغ کا ذکر شاید ہی کسی قدیم تاریخی کتاب میں آیا ہو ،البتہ ڈھنگوٹ کا ذکر اکثر کتابوں میں مل جاتا ہے جو کالاباغ کی مشرقی جانب تقریباً چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ تاریخی قلعہ تھا ۔تاریخ فرشتہ میں محمد قاسم فرشتہ نے اس کا ذکر کچھ اس طرح کیا ھے کہ 1469ء میں جب سلطان حسین لنگاہ بن قطب الدین لنگاہ نے ملتان کی حکومت حاصل کی تو دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ کروڑ سے لے کر دین کوٹ (ڈھنگوٹ) تک کا علاقہ اس کی اس کی حکومت میں شامل تھا ،،سہراب خان دودائ نے اپنے قبیلے سمیت سلطان حسین لنگاہ کی مدد کی تو اس نے یہ علاقہ سہراب خان دودائ کو دے دیا ، اس دور میں دہلی پر خاندان سادات کی حکمرانی تھی ،،ایک اندازے کے مطابق کالاباغ کا قصبہ 1469ء سے پہلے معرضِ وجود میں آ چکا تھا ۔(اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے),۔ایک روایت کے مطابق یہ علاقہ ( ڈھنگوٹ) 1024 ء میں سلطان محمود غزنوی نے میر قطب شاہ کو بطورِ جاگیر عطا کیا،،کالاباغ میں مقام پر ہندو ملاحوں کی جھونپڑیاں بھی تھیں اور دریا کے پار پرانی ماڑی کے ساتھ پہاڑی پر مندروں کے آثار قدیمہ موجود ہیں اور یہاں تاریخ کے کسی نامعلوم دور میں سلاگر نامی ہندو راجہ بھی حکمرانی کرتا رہا ہے جس کی نسبت سے کالاباغ کے قریب پہاڑی کو سلاگر والا پہاڑ کہتے ہیں ۔شاید یہ راجہ کلک کے اسلاف و اخلاف میں سے ہو ،
شیخ عادو نے جب اس علاقے کو اپنا مسکن بنایا اور نمک دریافت ہوا تو اس قصبہ کی ابادی تیزی سے بڑھنے لگی ،کان کنی کے پیشے سے وابستہ افراد نے اس قصبے کا رخ کیا ،اب کالاباغ کی بستی ایک گاؤں بلکہ قصبے کی شکل اختیار کرنے لگی ،یہ آبی گذرگاہ تجارتی شاہراہ بن گئی ،،نمک کی سپلائی کے لئے کشتیاں اور اونٹ استعمال کیے جاتے ،تو اونٹ وال اور ملاح کثرت سے آباد ہوۓ ،روزگار کے مواقع ملنے لگے تو دور و نزدیک کے دیگر پیشہ ور افراد مثلآ موچی ،لوہار،سنار،ملاح اور دیگر ہنر مند اقوام نے اس قصبے کا رخ کیا ،لیکن اس قصبے کے کی طرف کثیر تعداد میں مکھڈ سے پراچوں نے اور پنجاب کے دیگر علاقوں سے آرائیوں نے نقل مکانی کی ،اور اب بھی ان دو اقوام کی کثرت ہے ، بالاج ۔۔۔۔جاری ھے
بالاج جیسل (محمد اقبال حجازی) راجپوت بھٹی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک تجربہ کار استاد، حساس قلمکار، اور تہذیبی ورثے کے سچے محافظ ہیں۔ انہوں نے تین دہائیوں تک تدریس سے وابستہ رہتے ہوئے علم کی روشنی پھیلائی، اور ساتھ ہی ساتھ کالاباغ، کوٹ چاندنہ اور میانوالی کی ثقافت، یادیں اور تاریخ اپنے سادہ مگر پُراثر انداز میں قلمبند کیں۔ ان کی تحریریں خلوص، سچائی اور دیہی زندگی کے جذبے سے لبریز ہوتی ہیں۔ وہ فیس بک پر فعال ادیب ہیں اور اپنی زمین، لوگوں اور ماضی سے جڑے تجربات کو محفوظ رکھنے کے لیے مسلسل لکھ رہے ہیں۔۔ اُن کا قلم مقامی زبان، محبت اور روایت کا ترجمان ہے.