چوہدری کی عدالت اور وچھیرا”

CHAUDHRI KI ADALT OR WACHER

پُرانے وقتوں کی بات ہے کہ کہیں دُور پہاڑوں کے دامن میں کُھڈاں والا کے نام سے ایک دیہات تھا۔ یہاں انصاف ایک خاص نسل کے لوگوں کے ہاتھ میں تھا جو برسوں سے گاؤں کے فیصلے کرتے آ رہے تھے۔ یہ لوگ نہ صرف قانون بناتے تھے بلکہ اس کی تشریح بھی خود کرتے اور جب دل کرتا ڈنڈے کے زور پر اُس قانون میں صرف چند گھنٹوں میں ترامیم کرا لیتے۔ اس ساری صورتحال کی وجہ سے اس گاؤں کا نمبردار اپنے انصاف کی وجہ سے پورے علاقہ میں بہت “مشہور” تھا۔ پھرا ہوا یوں کہ ایک دن ایک مسافر رات کے وقت اسی گاؤں آ پہنچا۔ اندھیری رات تھی سفر تھکا دینے والا اور ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہ ملی۔ آخر تھک ہار کر اُس نے ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا وہ گھر مراثیوں کا تھا۔ اُس مسافر نے اُن کے سامنے اپنا مُدعا پیش کیا تو انھوں نے مسافر کو پناہ دے دی۔ مسافر کو نہ صرف کھانا کھلایا، بستر دیا بلکہ عزت بھی بخشی۔ ان مراثیوں کی بڑی بڑی باتیں سُن کر اور رویہ دیکھ کر وہ مسافر بہت خوش فہمی میں مبتلا ہو گیا۔ رات کو مسافر کی گھوڑی نے بچہ دے دیا لیکن صبح جب وہ رخصت ہونے لگا تو میزبانوں نے اسے روک لیا اور کہا کہ یہ بچہ تو ہماری گائے کا بچھڑا ہے اور تمہارا تو نہیں!۔ یہ سُن کر مسافر ہکا بکا رہ گیا اور اُن سے عرض کی کہ بھائیو، یہ گھوڑی کا بچہ ہے، گائے کا کیسے ہو سکتا ہے؟” مگر چونکہ وہ اجنبی تھا، اکیلا تھا اور میزبان پرانے “قومی خدمت گزار” تھے اس لئے جب بات گاؤں والوں کے پاس پہنچی تو انھوں نے بھی میزبان کا ساتھ دیا۔ اس ساری صورتحال کو دیکھ کر مسافر نے اپنا کیس نمبردار کی عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ آخر معاملہ گاؤں کے چوہدری کے پاس پہنچا تو چوہدری نے داڑھی پر ہاتھ پھیرا، ماتھے پر سنجیدگی سجائی اور فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ میرے دادا مرحوم کہا کرتے تھے اِن کے خاندان کی گائے جب بچہ جنتی ہے تو وہ ‘وچھیرا’ ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا بچہ انہی کا ہے۔ مسافر انصاف کا ایسا اعلیٰ نظام دیکھ کر بے بسی سے اپنی گھوڑی کو تھامے چپ چاپ واپس لوٹ گیا کہ کہیں یہ گھوڑی بھی نہ چھن جائے۔ لیکن جب وہ مسافر چلا گیا تو مراثیوں نے رونا دھونا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر چوہدری نے حیرت سے پوچھا کہ اب کیوں رو رہے ہو؟ فیصلہ تو تمہارے حق میں ہوا ہے۔ اس پر میزبان بولے کہ چوہدری صاحب ہم اس لیے رو رہے ہیں کہ کل تُو مر گیا تو تیرے جیسا منصف کہاں سے لائیں گے؟ لہٰذا زیادہ رونے دھونے کی ضرورت نہیں چوہدریوں کے ہاں فیصلے قانون کی کتاب سے نہیں بلکہ دادا جان کی وصیت سے سنائے جاتے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top