ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی
پیدائش میانوالی
(29 نو مبر1930)

ممتاز دانشور ماہر تعلیم، سیرت نگار ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی جنہیں قدرت نے تحقیقی اور تخلیزی قوتوں کا ایک بیش بہا خزینہ عطا کیا مشاہیر قوم کے بارے میں آپ کا قلم دریا کی روانی رکھتا ہے۔ علاؤالدین خلجی پر ان مقالہ بزبان انگریزی چھپ چکا ہے جس پر انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی گئی۔ گورنمنٹ کالج میانوالی کے پرنسپل رہے سیرت نگاری پر خصوصی انعامات بھی حاصل کئے۔
سرور نیازی کا اسلوب نگارش ان کی تحریروں میں کچھ یوں جلوہ گر ہوتا ہے۔ ” بغداد اسلامی انیا کا ذہنی مرکز تھا۔ سترھویں صدی کے وسط میں اس کی تباہی ملت اسلامیہ کے لئے ایک شدید ضرب تھی۔ سیاسی زوال کے اس دور میں قدامت پسند مفکرین نے اپنی ساری کوششیں اس بات پر مر تکز کر دیں کی مسلمانوں کی حیات میں ایک ایک رنگ صورت اختیار کر لے اور ان میں مذید انتشار پید ا نہ ہو ۔ انہوں نے اس کا تدارک اس طرح کیا کہ فقہائے متقدمین نے قوانین شریعت کی تعبیر جس طرح کی تھی اس کو جوں کا توں برقرار اور ہو قسم کی بدعات سے پاک رکھ سکیں تا کہ اسلام کی ہیئتء اجتماعیہ محفوظ رہے۔
لیکن اقبال کہتے ہیں کہ قوموں کی تقدیر اور ہستی کا دارومدار اس اَمر پر نہیں کہ ان کا وجود کہاں تک منظم ہے بلکہ اس بات پر کہ افراد کی ذاتی خوبیاں کیا ہیں اور قدرت و صلا حیت کیا ہے۔ یوں بھی جب معاشرہ حد سے ذیادہ منظم ہو جائے تو اس میں فرد کی ہستی گردوپیش کے اجتماعی افکار کی دولت سے تو مالا مال ہو جاتا ہے لیکن اپنی روح کھو بیٹھتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ قوائے الخطاط کے سد باب کا اگر کوئی ذریعہ فی الواقع مؤثر ہے تو یہ ہے کہ معاشرے میں اس قوم کے افارد کی پرورش ہوتی رہے جو اپنی ذات اور خودی میں ڈوب جائیں۔کیونکہ ایسے افراد وہ نئے نئے معیار پیش کرتے ہیں جن کی بدولت اس امر کا اندازہ ہونے لگتا ہے کہ ہمارا ماحول سرے سے نا قابل تغیرو تبدیل نہیں اور نہ اس میں اصلاح اور نظر ثانی کی گنجائش ہے۔
یوں بھی ماضی کا غلط احترام۔ علیٰ ھذا ضرورت سے ذیادہ تنظیم کا رجحان جس کا اظہار تیرھویں صدی اور بعد کے فقہا کی کوششوں سے ہوتا ہے اسلام کی اندونی روح کے منافی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان تیمہ خود بھی اجتہاد کے دعویدار تھے ۔ اس لئے مذاہب اربعہ کی قطعیت کا انکار نہیں پھر اصول اولین (یعنی فقہ کے بنیادی ماخذ قرآن اور سنت) کی طرف لے گیا تاکہ اس سلسلے میں کوئی نیا قدم اُٹھا سکیں۔ (اندلسی) ابن خرم کی طرح انہیں بھی فقہء حنفی کے اصول قیاس اور اجماع سے جیسا کہ فقہائے متقدمین ان کی تعبیر کرتے چلے آئے ہیں۔ انکارتھا۔

PERSONALITY OF PROFESSOR DR. GHULAM SARWAR KHAN NIAZI  IN THE WORDS OF PROFESSOR MUNAWAR ALI MALIK

Prof Ghulam Sawar Khan Niazi is an erudite scholar, an excellent teacher an impressive public speaker and a respectable social figure of Mianwali. He is held in high esteem at every level of  Mianwalian  society. He is polite, humble, sociable and dependable, a friend to all, ready to help everybody who needs his help. In short he is one of the most popular figures in Mianwali.

 پروفیسر ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی کی شخصیت

پروفیسر منور علی ملک کے الفاظ میں

غالب نے کہا تھا
ذکر اس پری وش کا ، اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
ذکر آج میں بھی ایک پری وش کا کرنے لگا ھوں ، مگر یہ پری وش غالب کے محبوب جیسا بے وفا نہیں- اس لیے مجھے یقین ھے کہ اگر کوئی میرا رقیب بننے بھی لگا تو یہ اسے رد کردے گا-
کچھ پلے نہیں پڑرھا ؟ ——- چلیں ، سادہ الفاظ میں بتا دیتا ھوں کہ آج ذکر ھو رھا ھے ایک معتبر عالم، شعلہ بیان خطیب، انگریزی زبان و ادب کے نامور ٹیچر، میانوالی کی ایک ایسی ھمہ جہت شخصیت کا جس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ایک آدھ پوسٹ میں ممکن نہیں،-
میانوالی کی یہ مقبول و محترم شخصیت ھیں پروفیسر غلام سرور خان نیازی – میرا ان سے تعارف آج سے 45 سال پہلے اس زمانے میں ھؤاجب میں ٹھٹھی سکول میں ھیڈماسٹر تھا، اور یہ حلقہ موچھ کے فیملی پلاننگ آفیسر- سرکا ر نے انہیں حلقے کے دورے کے لیے ایک نئی نکور سفید جیپ بھی دے رکھی تھی ،
ایک دفعہ ٹھٹھی کے دورے پر آئے تو لوگوں نے بتایا کہ ھمارے سکول کے ھیڈماسٹر نے ایم اے انگلش کر لیا ھے- یہ گاؤں سے سیدھے سکول آپہنچے- میں نے حسب توفیق چائے وغیرہ بنوائی- ادھر ادھر کی باتوں کے بعد سرورخان صاحب نے انگریزی ادب کی بات چھیڑی تو میں ان کے علم اور مطالعہ کی وسعت دیکھ کر حیران رہ گیا- پھرکہنے لگے “ملک صاحب سنا ھے آپ نے ایم اے انگلش کر لیا ھے؟“
میں نے کہا “ جی ھاں ، الحمدللہ “
سرورخان نے کہا “یار، دل تو میرا بھی چاھتا ھے کہ ایم اے انگلش کرلوںَ“
میں نے کہا “دل چاھتا ھے ، تو سوچنے کی کیا ضرورت ھے، کرڈالیں“
کہنے لگے فلاں فلاں کتابیں تو میں نے پڑھ لی ھیں- ان کے علاوہ اور کون کون سی کتابیں ھیں؟“
میں نے کتابوں کے نام بتا دیئے، اور ساتھ ھی یہ بھی بتا دیا کہ بیشتر کتابیں گورنمنٹ کالج میانوالی کی لائبریری سے مل سکتی ھیں-
اگلے سال ایک دن اسی سفید جیپ پر ٹھٹھی سکول آکر سرور خان نے کہا “لوجی، ھم نے بھی ایم اے انگلش کرلیا“—-
اپنی کل کی پوسٹ پر پروفیسر سرور نیازی صاحب کے بارے میں ان کے سابق سٹوڈنٹس کے کمنٹس دیکھ کر دل خوش ھوگیا- محبت، عقیدت اور تشکر سے لبریز کمنٹس میں ان بچوں نے اپنے مہرباں ، لائق اور محنتی ٹیچر کو بہت خوبصورت انداز میں خراج تحسین پیش کیا ھے-
کہاں ھیں وہ لوگ جو یہ کہتے ھیں کہ جی اس معاشرے میں ٹیچر کی عزت نہیں ھوتی- افسوس کی بات یہ ھے کہ کئی ٹیچر بھی یہی بات کہتے سنائی دیتے ھیں- مجھے ایسے لوگوں سے ھمیشہ شدید اختلاف رھا ھے- میں آج بھی ان سے یہی کہوں گا کہ ذرا سرور نیازی بن کر دکھائیں، یہی معاشرہ آپ کے پاؤں چھوئے گا، اور آپ کے ھاتھ چومے گا-
فرض شناسی میں سرور نیازی اپنی مثال آپ ھیں- جیسا کہ کل ایک بچے نے اپنے کمنٹ میں کہا، 30 میں سے صرف دو سٹوڈنٹ ھی حاضر ھوتے ، پھر بھی سرور صاحب پورے زوروشور سے پورا پیریئڈ لیکچر دیا کرتے تھے- کبھی کلاس کو ایک منٹ فارغ نہیں بیٹھنے دیتے تھے- میری ایک بری عادت یہ بھی تھی کہ کلاس میں سٹوڈنٹس کی تعداد کم ھوتی تو میں کلاس نہیں لیا کرتا تھا-
پڑھانے میں ایسے مگن ھوتے تھے کہ پیریئڈ ختم ھونے کا انہیں پتہ ھی نہیں چلتا تھا- جب تک اگلے پیریئڈ کا ٹیچر سامنے نہ آتا، یہ کلاس نہ چھوڑتے تھے- کبھی میرا پیریئڈ ان کے بعد ھوتا تو میں جونہی کلاس روم کے دروازے کے سامنے آتا، سرور صاحب ہنس کر کلاس سے نکل جاتے-
سرور صآحب کے علم کی وسعت کے بارے میں یہ کہوں گا کہ یہ ایک چلتا پھرتا سمندر ھیں- موضوع مرغیوں کی پرورش ھو یا امریکہ کا صدارتی انتخاب، یہ ھر موضوع پر کسی بھی وقت خطاب کر سکتے ھیں- اپنے علم کی وسعت کا راز انہوں نے ایک دن یہ کہہ کر بتایا کہ میں بہت عرصہ سے فجر کی نماز کے بعد بلاناغہ بی بی سی ریڈیو سے خبریں سنتا ھوں – ان سے مجھے ھر موضوع پرتازہ ترین معلومات ملتی رھتی ھیں-
سرورنیازی صاحب ایم اے سال اول (پارٹ – ١) کو ناول پڑھاتے تھے- کورس میں شامل پانچ ناولوں میں ان کا سب سے پسندیدہ ناول Jane Austen کا شاھکار ناول Pride and Prejudice تھا- –ناول نگاروں میں Jane Austen کو نمبر ون قراردیتے تھے- ان کے سٹوڈنٹس بتایا کرتے تھے کہ سر کلاس میں کہتے ھیں اگر جین آسٹن زندہ ھوتی تو میں اس سے شادی کر لیتا-
افسوس کہ جین آسٹن تو آج سے ٹھیک 199 سال قبل اس دنیا سے رخصت ھوگئی، ورنہ یہ شادی ھم ھر حال میں کرا دیتے-
لوگ میری ظاھری سادگی کی تعریف کرتے ھیں ، حالانکہ اندر باھر سے سادہ تو میرا یہ بھائی ھے- اللہ کا بندہ پانچ سات سال سے موبائیل فون جیب میں لیئے پھر رھا ھے، مگرSMS کرنا نہیں سیکھا- پچھلے سال تک تو یہی حال تھا، اب شاید سیکھ ھی لیا ھو-
ویسے SMS نہ کرسکنے کا ایک فائدہ بھی ھے، کہ بندہ بہت سی کھپ سے بچ جاتا ھے- ًلوگ جانتے ھیں کہ میں میسیج کا جواب دے سکتا ھوں- اس کی سزا مجھے اس قسم کے سوالات کی شکل میں ملتی رھتی ھے-
سرجی، لالا عیسی خیلوی اس وقت کہاں ھے ، اور کیا کر رھا ھے؟
سر، کیا آپ لالا سے ھماری ملاقات کروا دیں گے ؟
سر جی آپ اس وقت کیا کر رھے ھیں؟
سر، کل سے میرا ایم اے انگلش کا امتحان شروع ھو رھا ھے، کچھ اھم سوالات تو بتا دیں
(30 کتابوں کی تیاری ایک رات میں !!! استغفراللہ)
سرور نیازی صاحب جب تک میسیج کرنا نہیں سیکھ لیتے ، اس قسم کے اوٹ پٹانگ سوالات سے تو بچے رھیں گے-
( کسی تیکنیکل پرابلم کی وجہ سے آج میرا لیپ ٹاپ تصویریں اپ لوڈ نہیں کر رھا- کسی سے پوچھوں گا-
الحمدللہ، سرور نیازی صاحب اور میرے درمیان محبت اور احترام کا رشتہ آج بھی برقرار ھے- انہوں نے کبھی میری سفارش رد نہیں کی- کسی بات پہ ڈٹ جائیں تو پہاڑ کی طرح اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ھوتے- ایسی صورت حال میں بھی میری بات رد نہیں کرتے-
ایک دفعہ کسی سٹوڈنٹ کی مائیگریشن کا مسئلہ تھا- کالج کے پرنسپل مرحوم ملک ًمحمد انور میکن نے بھی اس سٹوڈنٹ کی سفارش کی، مگر سرور خاں نہیں مانے- دوسرے دن میں کالج پہنچا تو پرنسپل صاحب نے کہا “ملک صاحب، آپ کا بھائی میری بات نہیں مان رھا، آپ کوشش کر کے دیکھیں، میں نے لڑکے کے والدین سے وعدہ کر رکھا ھے “-
میں انگلش ڈیپارٹمنٹ پہنچا، تو سرور خان کلاس سے فارغ ھو کر آرھے تھے- میں نے کہا “سرور خان، فلاں سٹوڈنت کی مائیگریشن کا کیا مسئلہ ھے؟“
ابھی میں نے بات مکمل نہیں کی تھی کہ ہنس کر بولے “ اچھا ؟ ٹھیک ھے“
جب بھی میں نے کوئی سفارش کی ، سرورخان نے یہی ایک جملہ “اچھا؟ ٹھیک ھے “ کہہ کرقبول کر لی-
سرورخان صاحب بعض اوقات عجیب و غریب قسم کے سرپرائیز دیا کرتے تھے- ایک دفعہ تو انہوں نے میرے پاؤں تلے سے زمین ھی کھینچ لی- کالج کے شمالی ونگ کی چھت کے مشرقی سرے پر ایک ٹیریس (چوکوراحاطہ ) سا ھے- اس کے ایک کونے میں یہ کلاس پڑھا رھے تھے، دوسرے میں میں- اچانک سرور صاحب کی آواز فضا میں گونجی
“ملک صاحب، کسی کو دیوتا بنا کر پرستش کرنا کے لیئے انگلش کا ایک لفظ ھے، مجھے اس وقت یاد نہیں آ رھا – آپ کو یاد ھو تو بتادیں“
شکر ھے لفظ مجھے یاد تھا۔ میں نے بتا دیا- کلاس سے میں نے کہا “سر سرور کی اس بات میں آپ کے لیے یہ سبق ھے کہ علم کے معاملے میں پوچھنا عیب یا شرم کی بات نہیں- میں اس عظیم ٹیچر کی عظمت کو سلام کرتا ھوں- اگر میں ان کی جگہ ھوتا تو شاید دو کلاسوں کے سامنے پوچھنے سے شرما جاتا- مگر سرور خان تو سرورخان ھیں “
میرا بیٹا پروفیسر امجد علی ملک سرورخان کا بہت چہیتا سٹوڈنٹ رھا- میری پرسوں کی پوسٹ پر اس کا کمنٹ ضرور دیکھ لیں-
سرور صاحب کا تذکرہ ابھی کچھ دن اور چلے گا- اگر دوسری بہت سی مصروفیات نہ ھوتیں تو میں سرورخان کے بارے میں “درد کا سفیر“ جیسی، اتنی ھی دلچسپ کتاب “علم کا سفیر“ لکھ دیتا، مگر کیا کروں —
اور بھی غم ھیں زمانے میں محبت کے سوا
اس لیے چند مختصر پوسٹس پر ھی اکتفا کروں گا-  منورعلی ملک

Dr. Ghulam Sarwar Khan Niazi

قیام پاکستان سے پہلے تجارت زیادہ تر ہندوؤں کے ہاتھ میں تھی – گورنمنٹ کالج میانوالی کے سابق پرنسپل مرحوم ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی بتایا کرتے تھے کہ ان کے بچپن کے دور میں میانوالی کے مین بازار میں مسلمانوں کی صرف دو دکانیں ہوا کرتی تھیں – ہندو تاجر دیانت دار تھے – چیزیں بہت مناسب قیمت پر بیچتے تھے – قیام پاکستان کے بعد جب مسلمانوں نے کاروبار سنبھالا تو ان میں سے اکثر وہ لوگ تھے جو ہندوؤں کی دکانوں پر ملازمت کرتے رہے – انہوں نے کاروبار ہندوؤں سے سیکھا – ہمارے داؤدخٰیل میں حاجی سلطان محمود عرف حاجی کالا دکان کا حساب کتاب ہندی میں لکھتے تھے – ویسے تو وہ چِٹے اَن پڑھ تھے، مگر ایک ہندو دکان دار کی دکان پر کام کے دوران ہندی زبان سیکھ لی تھی – عجیب زبان ہے – ہمیں تو حاجی کالا کی تحریر مکھی مکوڑوں جیسی لگتی تھی ، لیکن حاجی کالا فرفر لکھ بھی لیتے تھے ، پڑھ بھی لیتے تھے – ہندسے ( 1, 2, 3, 4 وغیرہ) بھی ہندی میں لکھتے تھے – ہندسے تو ہمارے محلے کے دکان دار چاچا محمد اولیا بھی ہندی میں لکھتے تھے ، آدمیوں اور چیزوں کے نام ٹوٹی پھوٹی اُردو میں لکھ لیتے تھے –

صرف داؤدخٰیل ہی نہیں ہر جگہ ایسا ہی ہوتا ہوگا – مسلمان تجارت کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے – قیام پاکستان تک تو وہ سُکے دے نواب بنے پھرتے رہے – ہندوؤں کے جانے کے بعد جب ذمہ داری سر پہ آپڑی تو کاروبار کی طرف متوجہ ہوئے – کاروبار میں آکر وہ وہ ہاتھ دکھائے کہ عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا – اصول کی بجائے وصول کا پیمانہ استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنا مقصدِحیات بن گیا- والدین نے کلمہ پڑھا کر جنت میں تو حصہ دار بنا دیا تھا ، اس لیے اُدھر سے بے فکر ہو کر اپنی دُنیا سنوارنے لگے – سب لوگ ایک جیسے نہیں ، تاجروں میں ایمان دار لوگ بھی ہیں ، وہ احترام کے مستحق ہیں – اللہ کریم سب کو ہدایت دے تو لوگوں کی زندگی آسان ہو سکتی ہے –

——————- رہے نام اللہ کا —

ڈاکٹر رشید احمد کے بعد ڈاکٹر غلام سرورخان نیازی گورنمنٹ کالج میانوالی کے پرنسپل مقرر ھوئے – ڈاکٹر سرورخان نیازی میانوالی کے معروف قبیلہ خنکی خیل کے چشم وچراغ تھے- تاریخ کے پروفیسر بھی تھے , بلند پایہ محقق بھی – سلطان علاؤالدین خلجی (1267-1316) کی زندگی اور کارناموں کے بارے میں ان کی کتاب The Life and Works of Sultan Alauddin Khalji دنیا کی کئی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ھے-

وزارت مذھبی امور کے زیر اھتمام سیرت النبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و سلم کے مختلف پہلؤوں پر تحقیقی مقالہ جات کے انعامی مقابلوں میں ڈاکٹر نیازی صاحب نے مسلسل تین دفعہ اول انعام حاصل کیا – ضلع میانوالی کی تاریخ ، معاشرت اور ثقافت کے بارے میں مستند معلومات پر مبنی کتاب District Gazetteer بھی ڈاکٹر صاحب کا ایک اھم علمی کارنامہ ھے – یہ کتاب حکومت پنجاب نے شائع کی –

پرنسپل کی حیثیت میں ڈاکٹر صاحب کا پروفیسر صاحبان سے رویہ ھمیشہ دوستانہ رھا – بہت زندہ دل انسان تھے- انہیں کبھی ٹینشن میں نہ دیکھا – ھروقت ھنستے ھنساتے رھتے تھے-

سٹوڈنٹس کے لیے خاصے سخت گیر تھے- کالج کے اوقات میں کسی سٹوڈنٹ کو کلاس سے باھر نہیں رھنے دیتے تھے- تقریبا تین سوکنال کے کیمپس کے چپے چپے پر نظر رکھتے تھے- کینٹین ، ھاسٹل ، سائیکل سٹینڈ سے سٹوڈنٹس کو ھانک کر کلاسوں میں لے جاتے – کسی سٹوڈنٹ کے گریبان کے بٹن کھلے ھوئے دیکھتے تو اسے گریبان سے پکڑ کر کہتے یہ سینیما ھال نہیں ، کالج ھے، بٹن بند رکھا کرو – ڈاکٹرصآحب کی اس سخت گیری کے خوف سے سٹوڈنٹس کی جان جاتی تھی – سٹوڈنٹس کا مثالی ڈسپلن ان کے دور کی سب سے نمایاں خصوصیت تھی – ڈسپلن کی وجہ سے تعلیم کا معیار بھی بلند رھا –

ڈاکٹر صآحب 1990 میں ریٹائر ھوئے – آج سے چند ماہ قبل اس عالم فانی سے رخصت ھو گئے – اللہ مغفرت فرما کر اپنی رحمت کا سایہ نصیب فرمائے – میرے بہت مہربان دوست تھے-

ان کے اکلوتے صاحبزادے پروفیسر احمد حسن خان نیازی آج کل گورنمنٹ کالج میانوالی میں شعبہءتاریخ کے سربراہ ھیں – پروفیسر احمد حسن خان نیازی میرے سٹوڈنٹ بھی رھے –

——————————————- رھے نام اللہ کا —

 

ہمارے ٹی کلب ۔۔۔۔۔۔۔

چائے ہم پروفیسر لوگوں کا پسندیدہ مشروب ہے۔ گورنمنٹ کالج میانوالی میں ہمارے دو ٹی کلب تھے۔ کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کا کلب ممبرز کے لحاظ سے بڑا ٹی کلب تھا۔ کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر صاحبان کے علاوہ ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی صاحب، تاریخ کے پروفیسر اقبال قاسمی صاحب اور احمد حسن خان نیازی ، جغرافیہ کے پروفیسر عطاءاللہ خان نیازی، اردو کے پروفیسر احمد خان نیازی اور فارسی کے پروفیسر حافظ محمد عبدالخالق بھی اس کلب کے ممبر تھے۔ لیبارٹری اٹینڈنٹ مولوی احمد خان چائے بنایا کرتے تھے۔

بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر محمد فاروق کی سربراہی میں قائم ٹی کلب کے ممبران میں بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر صاحبان کے علاوہ انگلش ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر سلطان محمود اعوان صاحب، پروفیسر سرور نیازی صاحب اور میں شامل تھے۔ سیاسیات کے پروفیسر محمد سلیم احسن، اردو کے پروفیسر محمد فیروز شاہ صاحب اور جغرافیہ کے ملک محمد اسلم صاحب بھی اس کلب کے ممبر تھے۔ اس ڈیپارٹمنٹ میں چائے بنانے کی خدمت لیبارٹری اٹینڈنٹ چاچا یارن خان سرانجام دیتے تھے۔

فزکس ڈیپارٹمنٹ کا کوئی ٹی کلب نہ تھا۔ وہ لوگ چائے پیتے ہی نہیں تھے۔ عجیب لوگ تھے۔

کنٹرولر امتحانات پروفیسر اقبال کاظمی صاحب شوگر کے مرض کی وجہ سے چینی کے بغیر چائے پیتے تھے۔ اس لیئے وہ اپنے آفس ہی میں اپنے لییے پھیکی چائے بنواتے تھے۔

کچھ پروفیسر صاحبان کالج کینٹین سے چائے پیتے تھے۔ لائبریرین حاجی محمد اسلم خان غلبلی اپنے آفس میں کینٹین سے چائے منگوایا کرتے تھے۔

جب کالج میں ایم اے انگلش کی کلاسز کا اجراء ہوا تو ہم نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کا الگ ٹی کلب بھی بنا لیا۔ یہاں ڈیپارٹمنٹ کے ملازم چاچا حبیب اللہ خان چائے بناتے تھے۔ مگر اپنا کلب ہونے کے باوجود ہم انگلش ڈیپارٹمنٹ کے لوگ بیالوجی ڈیپارٹمنٹ ٹی کلب کے ممبر بھی رہے۔ کیونکہ ہم بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے کلب کی کراری گپ شپ سے محروم نہیں ہونا چاہتے تھے۔

بڑی رونقیں ہوا کرتی تھیں۔ اب پتہ نہیں وہاں کیا سسٹم چل رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔

 

 ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی صاحب گورنمنٹ کالج میانوالی کے پرنسپل متعین ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب اس سے پہلے اسی کالج میں وائس پرنسپل تھے۔

ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی میانوالی کے معروف قبیلہ خنکی خیل کے بزرگ تھے۔ تاریخ کے پروفیسر تھے۔ سلطان علاءالدین خلجی پر ریسرچ کر کے پی ایچ ڈی کیا اور ڈاکٹر بن گئے۔ ان کی سروس کا زیادہ تر عرصہ گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں گذرا ۔ سروس کے آخری آٹھ دس سال میانوالی میں بسر کیئے۔

ڈاکٹر صاحب کھلے ڈلے دبنگ انسان تھے۔ بڑا جان دار قہقہہ لگاتے تھے۔ سٹوڈنٹس کے ڈسپلن کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ کالج کے اوقات میں کسی سٹوڈنٹ کو کلاس سے باہر نہیں رہنے دیتے تھے۔ تقریبا 300 کنال کے کالج کیمپس کے ہر کونے پر ان کی نظر رہتی تھی۔ کالج کے اوقات میں مسلسل راونڈ کر کے بھگوڑے سٹوڈنٹس کو ہاسٹل ، کینٹین اور لائبریری سے ہانک کر کلاسوں میں لے جاتے تھے۔

اگر کسی سٹوڈنٹ کی قمیض کے گریبان کے بٹن کھلے دیکھتے تو اسے گریبان سے پکڑ کر کہتے تم یہاں کسی فلم میں اداکاری کے لیئے نہیں، پڑھنے کے لیئے آتے ہو۔ آئندہ اس فلمی ہیروز والے سٹائل میں نظر آئے تو کالج سے نکال دوں گا۔

ڈاکٹر صاحب کی اس سخت گیری کی وجہ سے سٹوڈنٹس کی ان سے جان جاتی تھی۔ ان کے دور میں کسی قسم کی ہنگامہ آرائی کالج میں دیکھنے میں نہ آئی۔

ایک دفعہ ایک سٹوڈنٹ پر گرج برس رہے تھے تو ایک پروفیسر صاحب نے کہا سر، اس کے باپ کو بلا لیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کون سا باپ ؟ کالج میں تو ان کے باپ ہم ہیں ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی ہم نے کرنی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کا دور خاصا طویل تھا۔

ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی بہت حساس انسان تھے۔

بھلوال سے تاریخ کے ایک لیکچرر ٹرانسفر ہوکر گورنمنٹ کالج میانوالی آئے۔ یہاں حاضری دے کر چلے گئے۔ پندرہ دن بعد پھر آئے اور اسی دن واپس چلے گئے۔ دو چار مرتبہ انہوں نے ایسا ہی کیا تو ایک دن ڈاکٹر صاحب نے ان سے سختی سے باز پرس کی۔ وہ صاحب بگڑ گئے ۔ کہنے لگے ڈاکٹر صاحب میں آپ کا ذاتی ملازم نہیں ، گورنمنٹ کا ملازم ہوں۔ آپ میرے خلاف جو کارروائی چاہیں کر لیں، میں اپنی مرضی سے ہی کالج آوں گا۔

ڈاکٹر صاحب نے مجھے بلایا۔ بہت غصے میں تھے۔ کہنے لگے ملک صاحب، رانا شوکت نے مجھ سے سخت بدتمیزی کی ہے۔ اس کے خلاف ایکشن کے لیئے سیکریٹری ایجوکیشن کو لیٹر لکھنا ہے کہ یہ بندہ کالج سے غیر حاضر رہتا ہے اور جواب طلبی کرنے پر بدتمیزی بھی کرتا ہے۔

میں نے لیٹر لکھ کر ڈاکٹر صاحب کو دکھایا۔ لیٹر پڑھ کر ڈاکٹر صاحب کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ کہنے لگے نہیں یار، مارا جائے گا بچارا ۔ اس کی نوکری چلی جائے گی۔ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہوں گے۔ ان کی روزی کا وسیلہ چھن جائے گا۔۔۔ میں یہ ظلم نہیں کر سکتا۔ میں نے اسے معاف کر دیا۔ بچارے کی کوئی مجبوریاں ہوں گی جن کی وجہ سے باقاعدہ کالج نہیں آسکتا۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب نے وہ لیٹر پھاڑ کر پھینک دیا۔۔۔۔

پرنسپل کی حیثیت میں ڈاکٹر سرور نیازی صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے سٹوڈنٹس کی کلاسز میں حاضری یقینی بنادی۔ کالج کے اوقات میں پورے کیمپس کا مسلسل راونڈ کر کے باہر پھرنے والے اکا دکا سٹوڈنٹس کو کلاسوں میں لے جاتے تھے۔ ہاسٹل ، کینٹین اور لائبریری کے علاوہ سائیکل سٹینڈ پر اور کالج گیٹ کے باہر سے بھی سٹوڈنٹس کو ہانک کر کلاسوں میں لے جاتے تھے۔

اگر کوئی ٹیچر چھٹی پر جاتا تو وہ اپنی کلاس کسی دوسرے ٹیچر کے سپرد کر کے جاتا تھا۔ جس ٹیچر کے سپرد کلاس کی جاتی وہ باقاعدہ لکھ کر دیتا تھا کہ فلاں صاحب کی عدم موجودگی میں ان کی کلاس میں سنبھالوں گا۔

اگر کوئی ٹیچر کسی وجہ سے وقت پر کالج نہ پہنچ سکتا تو اس کے آنے تک اس کی کلاس ڈاکٹر صاحب خود سنبھال لیتے تھے۔

ایک دفعہ مجھے کالج پہنچنے میں کچھ دیر ہوگئی۔ فرسٹ ایئر کی کلاس تھی۔ سردی کے باعث ان دنوں ہم کلاسز کالج گراونڈ میں دھوپ میں بٹھاتے تھے۔ میں پہنچا تو ڈاکٹر صاحب میری کلاس میں کھڑے تھے۔۔۔ کہنے لگے ملک صاحب، آپ کی اس کلاس میں کتنے بچے ہیں؟

میں نے کہا سر، سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے کبھی کلاس کی حاضری ہی نہیں لگائی ، بلکہ حاضری رجسٹر بھی نہیں بنایا ، البتہ مجھے یقین ہے کہ اس کلاس کی جو تعداد آپ کے کاغذات میں درج ہے اس سے کچھ زیادہ ہی بچے اس کلاس میں بیٹھے ہوں گے۔

ہنس کر کہنے لگے مجھے یہ بھی پتہ ہے ، ویسے ہی مذاق میں آپ سے پوچھ لیا۔

اللہ کریم ان کی اگلی منزلیں آسان فرمائے مجھ پر بہت مہربان تھے۔

Dr. Ghulam Sarwar Khan Niazi was appointed as the Principal of Government College Mianwali. Dr. Sahib was previously the Vice Principal of the same college.

Dr. Ghulam Sarwar Khan Niazi was an elder of the famous Khankikhel tribe of Mianwali. He was a professor of history. He did his PhD research on Sultan Alauddin Khilji and became a doctor. Most of his service was spent in Government College Faisalabad. He spent the last eight to ten years of his service in Mianwali.

Dr. Sahib was an outspoken and domineering person. He used to laugh a lot. He was very strict in the matter of student discipline. During college hours, he did not allow any student to stay out of class. He kept an eye on every corner of the college campus of about 300 kanals. During college hours, he would constantly make rounds and chase away the runaway students from the hostel, canteen and library and take them to classes.

If I saw a student’s shirt with the buttons unbuttoned, I would grab him by the collar and say, “You are not here to act in a film, you are here to study.” If you are seen in this film hero style again, I will expel you from the college.

Due to this strictness of Dr. Sahib, the students knew about him. During his tenure, no kind of commotion was seen in the college.

Once, a student was being thunderstruck, so a professor said, “Sir, call his father.” Dr. Sahib said, “Which father?” In college, we are his fathers. Along with his education, we also had to train him.

Dr. Sahib’s tenure was very long.

Dr. Ghulam Sarwar Khan Niazi was a very sensitive person.

A lecturer of history from Bhalwal came to Government College Mianwali after being transferred. He attended here and left. He came again after fifteen days and returned the same day. He did this two or four times, then one day Dr. Sahib questioned him severely. That gentleman became upset. They said, “Dr. Sahib, I am not your personal employee, I am a government employee. Take whatever action you want against me, I will come to college of my own free will.”

Dr. Sahib called me. He was very angry. He said, “Malik Sahib, Rana Shaukat has misbehaved with me. To take action against him, I have to write a letter to the Secretary Education that this person is absent from college and is also misbehaving when asked for an answer.”

I wrote the letter and showed it to Dr. Sahib. After reading the letter, Dr. Sahib’s eyes got wet. He said, “No, my friend, Bachara will be killed. He will lose his job. He will have small children too. His source of livelihood will be taken away… I cannot do this injustice. I have forgiven him. Bachara must have some compulsions due to which he cannot come to college regularly.” Saying this, Dr. Sahib tore up the letter and threw it away.

Dr. Sarwar Niazi Sahib’s greatest achievement as a principal was that he ensured the attendance of students in classes. During college hours, they would constantly go around the entire campus and take the odd students who were roaming around to classes. Apart from the hostel, canteen and library, they would also pick up the students from the bicycle stand and outside the college gate and take them to classes.

If a teacher went on leave, he would hand over his class to another teacher. The teacher to whom the class was handed over would regularly write that he would take care of his class in the absence of so-and-so.

If a teacher could not reach the college on time for some reason, the doctor himself would take care of his class until he arrived.

Once, I was a little late in reaching the college. It was a first-year class. Due to the cold, those days we used to hold classes in the college grounds in the sun. When I arrived, the doctor was standing in my class… He asked Malik, how many children are there in this class of yours?

I said, Sir, the truth is that I have never taken attendance in a class, nor have I even made an attendance register, however, I am sure that there must be a few more children in this class than the number listed in your papers.

He laughed and said, “I know that too, I asked you in jest.”

May Allah make his future journey easy. He was very kind to me.

The Life And Works Of Sultan Alauddin Khalji

by Ghulam Sarwar Khan Niazi

https://www.google.com.pk/books/edition/The_Life_and_Works_of_Sultan_Alauddin_Kh/nbZgnqfXjnQC?hl=en&gbpv=1&printsec=frontcover

https://books.google.mn/books?id=nbZgnqfXjnQC&printsec=frontcover#v=onepage&q&f=false

 

 

تحریر : مہران حسن خان

ڈاکٹر خان غلام سرور خان نیازی(phd)، خان غلام حسن خان خنکی خیل کے فرزند ارجمند تھے۔۔۔ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کے بھانجے تھے۔۔ اور میانوالی کے ایک نامور درویش  بابا جی ڈاکٹر نور محمد خان نیازی (بابا جی ضرورت مندوں میں آسانیاں پیدا کرنے والے کو کہتے ہیں) کے داماد تھے۔۔ ڈاکٹر سرور خان ایک بہت عظیم انسان تھے، ان کی تعریف میں الفاظ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔۔ آپ کو پڑھ کر حیرانی کہ وہ پرائمری سکول کے وظیفہ خار تھے۔۔۔ موضع شہباز خیل سکول سے آٹھویں جماعت میں ہندوستان کی تقسیم سے پہلے صوبہ پنجاب میں اول پوزیشن حاصل کی۔۔۔ جب کا پنجاب دہلی سے شروع ہوکر سبی اور ڈی-آئ-خان تک ہے۔۔۔ ایک دیہاتی علاقے سے اتنی بڑی پوزیشن حاصل کر نے پر اس سکول کا نام ان سے منسوب ہونا چاہئے۔۔۔

گورنمنٹ کالج لاہور سے تاریخ کے مضمون میں ماسٹر کی ڈگری میں اول پوزیشن حاصل کی۔۔ اس کے بعد فیصل آباد گورنمنٹ ڈگری کالج حالیہ یونیورسٹی میں تدریس کا سفر شروع کیا۔۔ جب انکی پروموشن ہوئ تو میانوالی ڈگری کالج کی حالت ناگفتہ بہ دیکھ کر  انھوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ میانوالی ڈگری کالج میں پرنسپل کے طور پر خدمات سر انجام دیں گے۔۔

یہ واحد پرنسپل تھے جن کے زمانے میں کوئ طالب علم کلاس سے باہر نظر نہیں آتا تھا۔۔ کسی کی جرات نہیں ہوئ کہ آپس میں لڑآئ جھگڑے کرے۔۔

اور ان کی موجودگی میں یہ ریکارڈ رہا کہ بہت سے طالب علم میڈیکل، انجینئرنگ کے کالجز میں گئے اور کچھ فوج  میں شامل ہوئے۔۔۔

بہت اعلی گفتگو کرتے تھے۔۔ کوئ بڑا، کوئ عالم ، کوئ پروفیسر ان سے بات کر کے محضوظ ہوتے تھے۔۔۔  ملازمت کے دوران انھوں نے کبھی کسی کی شکایت نہیں کی۔۔عمران خان اکثر سرور بھائ سے میانوالی کے تاریخی حالات اور فلسفہ پر بات کرتے تھے۔۔۔

۔ علاودین خلجی پر ریسرچ کرنے پر انھیں   Phd کی ڈگری سے نوازا گیا۔۔ میانوالی کے پہلے PhD تھے۔۔ اس لیئے ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگایا جاتا ہے۔۔ کئ دفعہ انھیں باہر کے ممالک سے مزید ریسرچ کے لئے بلایا گیا لیکن انکی اپنے اہل و عیال کی محبت کی وجہ سے انکار کرنا پڑا۔۔

بطور پروفیسر وہ بی-اے، ایم-اے اور سی-ایس- پی  کے لئے ابھی تک پیپر بناتے رہے۔۔۔

نماز، روزہ کے پابند  اور  عاشق رسول تھے۔۔۔ کوشش ہوتی تھی کہ ہر امیر، غریب کے جنازے میں شمولیت کریں۔۔ سیرت النبی پر اسلام آباد انٹرنیشل تقریب میں مکالمہ پڑھنے پر چار سال تک گولڈ میڈل لیتے رہے۔۔ ایک پر اثر تقریر فرماتے اور انکی تقریر کو مختلف اداروں میں بڑی اہمیت دی جاتی۔۔۔

وہ سیرت النبی پر ایک کتاب ترتیب دے رہے تھے۔۔۔ اس کے علاوہ مشرقی پاکستان کے کمانڈر جنرل امیر عبداللہ خان پر لکھی جو پبلش ہونے کے مراحل میں ہے۔۔

ان کی تدفین اپنے آبائ قبرستان قبیلہ خنکی خیل میں ہوئ ہے۔۔ اس قبرستان میں ڈاکٹر، انجینئر، شہید اور بہادر انسان مدفن ہیں۔

Adeel Abbâs

Dr. Khan Ghulam Sarwar Khan Niazi: A Beacon of Knowledge and Leadership

Written by: Mehran Hassan Khan


Meta Description:
“Explore the life and legacy of Dr. Khan Ghulam Sarwar Khan Niazi, a leading educator, historian, and the principal who shaped the educational landscape of Mianwali.”


Introduction

Dr. Khan Ghulam Sarwar Khan Niazi (PhD) was a towering figure in Mianwali’s educational and cultural history. A teacher, scholar, and the first PhD holder from Mianwali, his contributions continue to inspire generations. Known for his discipline, academic excellence, and deep commitment to his students, Dr. Sarwar Khan left an indelible mark on his community and the field of education.


Early Life and Family Background

Dr. Ghulam Sarwar Khan Niazi hailed from the prominent Khankikhel tribe of Mianwali. His family had a strong tradition of public service and scholarship, with notable figures such as General Ameer Abdullah Khan Niazi in his lineage. His father, Khan Ghulam Hassan Khan, and his father-in-law, Baba Ji Dr. Noor Muhammad Khan Niazi, were revered figures in Mianwali. From a young age, Dr. Sarwar Khan exhibited remarkable academic abilities.


Academic and Professional Journey

Dr. Sarwar Khan’s academic journey was marked by excellence and dedication. After completing his education in History, he went on to complete his PhD research on Sultan Alauddin Khilji, making him Mianwali’s first PhD holder. His academic rigor and discipline earned him respect across the province.

He was appointed as the Principal of Government College Mianwali, having previously served as Vice Principal. His career included significant stints at Government College Faisalabad, where he spent a substantial portion of his service, before returning to Mianwali to serve in the last years of his career.


Leadership as Principal of Government College Mianwali

Dr. Sarwar Khan’s leadership at Government College Mianwali was transformative. Known for his strict approach to discipline, he ensured that students were always present in class, maintaining a keen eye on the 300-kanal college campus. During college hours, he would routinely patrol the campus, chasing students away from the hostel, canteen, and library to bring them to their classrooms.

His philosophy was simple:
“You are not here to act in a film; you are here to study.”

Students were aware of his strictness, yet they respected him immensely. Under his leadership, there was never any commotion, and the college remained a hub of discipline and academic pursuit.


A Teacher With a Heart

Dr. Sarwar Khan’s strict nature was tempered with kindness. He would go out of his way to show compassion for his students and staff. For instance, when a history lecturer from Bhalwal was frequently absent, Dr. Sarwar Khan considered the lecturer’s situation carefully. Despite the lecturer’s apparent misbehavior, he chose not to take severe action, showing great empathy by tearing up a letter of reprimand and forgiving the lecturer.


Student Mentorship and Teaching Philosophy

Dr. Sarwar Khan was known for his personal touch in teaching. He was constantly involved with his students’ academic growth. He never hesitated to step in and teach when a colleague was absent, and he always ensured that lessons were delivered without compromise, even if only a handful of students attended.

Dr. Khan once famously said:
“In college, we are the students’ fathers. We have to educate them, guide them, and ensure their discipline.”

His passion for teaching extended beyond the classroom, and he always encouraged students to excel in their academic endeavors, as well as in life.


Legacy and Cultural Contributions

Dr. Sarwar Khan’s dedication to his students and the community went beyond the classroom. He was an eloquent orator and Seerat-ul-Nabi scholar, often receiving awards for his moving speeches on the life of Prophet Muhammad (PBUH). He also wrote extensively about General Ameer Abdullah Khan Niazi, and his research papers continue to inspire.

Before his death, he was working on books about the Seerat of Prophet Muhammad (PBUH) and General Ameer Abdullah Khan Niazi, which continue to be published. His academic and spiritual legacy has left an indelible mark on Mianwali.


A Life Well-Lived

Dr. Ghulam Sarwar Khan Niazi passed away leaving behind a lasting legacy of knowledge, discipline, and love for his homeland. He was laid to rest in the ancestral graveyard of Khanki Khel, alongside many other martyrs and leaders from his family. His life remains a shining example of selfless service, scholarship, and dedication.


Conclusion

Dr. Khan Ghulam Sarwar Khan Niazi’s contributions to the field of education and his role as an iconic leader in Mianwali will forever be remembered. His legacy serves as a guiding light for future generations, not only in Mianwali but across Pakistan.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top