ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی
ممتاز دانشور ماہر تعلیم، سیرت نگار ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی جنہیں قدرت نے تحقیقی اور تخلیزی قوتوں کا ایک بیش بہا خزینہ عطا کیا مشاہیر قوم کے بارے میں آپ کا قلم دریا کی روانی رکھتا ہے۔ علاؤالدین خلجی پر ان مقالہ بزبان انگریزی چھپ چکا ہے جس پر انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی گئی۔ گورنمنٹ کالج میانوالی کے پرنسپل رہے سیرت نگاری پر خصوصی انعامات بھی حاصل کئے۔
سرور نیازی کا اسلوب نگارش ان کی تحریروں میں کچھ یوں جلوہ گر ہوتا ہے۔ ” بغداد اسلامی انیا کا ذہنی مرکز تھا۔ سترھویں صدی کے وسط میں اس کی تباہی ملت اسلامیہ کے لئے ایک شدید ضرب تھی۔ سیاسی زوال کے اس دور میں قدامت پسند مفکرین نے اپنی ساری کوششیں اس بات پر مر تکز کر دیں کی مسلمانوں کی حیات میں ایک ایک رنگ صورت اختیار کر لے اور ان میں مذید انتشار پید ا نہ ہو ۔ انہوں نے اس کا تدارک اس طرح کیا کہ فقہائے متقدمین نے قوانین شریعت کی تعبیر جس طرح کی تھی اس کو جوں کا توں برقرار اور ہو قسم کی بدعات سے پاک رکھ سکیں تا کہ اسلام کی ہیئتء اجتماعیہ محفوظ رہے۔
لیکن اقبال کہتے ہیں کہ قوموں کی تقدیر اور ہستی کا دارومدار اس اَمر پر نہیں کہ ان کا وجود کہاں تک منظم ہے بلکہ اس بات پر کہ افراد کی ذاتی خوبیاں کیا ہیں اور قدرت و صلا حیت کیا ہے۔ یوں بھی جب معاشرہ حد سے ذیادہ منظم ہو جائے تو اس میں فرد کی ہستی گردوپیش کے اجتماعی افکار کی دولت سے تو مالا مال ہو جاتا ہے لیکن اپنی روح کھو بیٹھتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ قوائے الخطاط کے سد باب کا اگر کوئی ذریعہ فی الواقع مؤثر ہے تو یہ ہے کہ معاشرے میں اس قوم کے افارد کی پرورش ہوتی رہے جو اپنی ذات اور خودی میں ڈوب جائیں۔کیونکہ ایسے افراد وہ نئے نئے معیار پیش کرتے ہیں جن کی بدولت اس امر کا اندازہ ہونے لگتا ہے کہ ہمارا ماحول سرے سے نا قابل تغیرو تبدیل نہیں اور نہ اس میں اصلاح اور نظر ثانی کی گنجائش ہے۔
یوں بھی ماضی کا غلط احترام۔ علیٰ ھذا ضرورت سے ذیادہ تنظیم کا رجحان جس کا اظہار تیرھویں صدی اور بعد کے فقہا کی کوششوں سے ہوتا ہے اسلام کی اندونی روح کے منافی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان تیمہ خود بھی اجتہاد کے دعویدار تھے ۔ اس لئے مذاہب اربعہ کی قطعیت کا انکار نہیں پھر اصول اولین (یعنی فقہ کے بنیادی ماخذ قرآن اور سنت) کی طرف لے گیا تاکہ اس سلسلے میں کوئی نیا قدم اُٹھا سکیں۔ (اندلسی) ابن خرم کی طرح انہیں بھی فقہء حنفی کے اصول قیاس اور اجماع سے جیسا کہ فقہائے متقدمین ان کی تعبیر کرتے چلے آئے ہیں۔ انکارتھا۔
پروفیسر ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی کی شخصیت — پروفیسر منور علی ملک کے الفاظ میں
ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی مرحوم ایک عظیم معلم، محقق اور منتظم
ابتدائی تعارف
ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی گورنمنٹ کالج میانوالی کے سابق پرنسپل تھے۔ اس سے پہلے وہ اسی ادارے میں بطور وائس پرنسپل خدمات انجام دے چکے تھے۔ آپ کا تعلق میانوالی کے معروف اور معزز قبیلے “خنکی خیل” سے تھا۔
علمی سفر اور تحقیقی خدمات
آپ شعبہ تاریخ کے بلند پایہ استاد اور محقق تھے۔ سلطان علاءالدین خلجی پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
ان کی مشہور کتاب “The Life and Works of Sultan Alauddin Khalji” کئی بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل رہی۔
آپ کا سب سے بڑا علمی کارنامہ سیرت النبی ﷺ پر تین تحقیقی مقالات ہیں، جن پر آپ کو تین مرتبہ “صدارتی ایوارڈ” دیا گیا۔
آپ کو حکومت پنجاب نے “میانوالی گیزیٹیئر” مرتب کرنے کی ذمہ داری دی، جو آپ نے نہایت خوش اسلوبی سے نبھائی۔
تدریسی خدمات
ڈاکٹر صاحب نے اپنے کیریئر کا زیادہ تر حصہ گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں گزارا۔ تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق سے بھی گہرا تعلق رکھا۔
سروس کے آخری آٹھ تا دس سال گورنمنٹ کالج میانوالی میں گزارے، جہاں آپ نے وائس پرنسپل اور پھر پرنسپل کے طور پر مثالی خدمات انجام دیں۔
بطور پرنسپل – نظم و ضبط کی مثال
ڈاکٹر صاحب سخت گیر منتظم تھے۔ کالج اوقات میں طلبہ کو کلاسوں سے باہر نکلنے کی اجازت نہ دیتے۔ تین سو کنال کے کالج کیمپس پر ان کی نگاہ ہر وقت رہتی۔
کلاس سے غیر حاضر طلبہ کو ہاسٹل، کینٹین، لائبریری حتیٰ کہ سائیکل اسٹینڈ سے بھی نکال کر کلاسوں میں لاتے۔
اگر کسی طالب علم کا گریبان کھلا دیکھتے تو کہتے:
“تم یہاں فلم میں اداکاری کے لیے نہیں، تعلیم کے لیے آتے ہو۔”
ان کی سخت گیری کے باعث کالج میں مثالی نظم و ضبط رہا، اور تعلیمی معیار بلند ہوا۔
طلبہ کی تربیت و فلاح
ڈاکٹر صاحب تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی زور دیتے۔ ایک بار ایک پروفیسر نے کہا:
“سر، اس کے والد کو بلا لیتے ہیں۔”
ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا:
“کالج میں تو ان کے والد ہم ہیں، تربیت ہماری ذمہ داری ہے۔”
آپ نے کئی نادار اور یتیم طلبہ کی مالی معاونت کی۔ داؤدخیل کے ایک طالب علم کو ایف ایس سی میں داخلہ دلوا کر اپنی جیب سے فیس، کتابیں اور ماہانہ خرچ بھی دیتے رہے، حتیٰ کہ راولپنڈی میڈیکل کالج میں بھی اس کی مدد جاری رکھی۔
جب ان کے بھائی ڈاکٹر محمد اسلم خان نیازی (ایم ایس، ڈی ایچ کیو ہسپتال، راولپنڈی) نے پیشکش کی کہ وہ طالب علم ان سے ماہانہ رقم لے لیا کرے، تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:
“میں نہیں چاہتا کہ وہ بچہ ہر ماہ کسی کے در پر جا کر ہاتھ پھیلائے۔”
یہ ان کی خودداری، رحم دلی اور آخرت کی تیاری کا عملی ثبوت تھا۔
دفتر میں بطور منتظم
ڈاکٹر صاحب دفتری معاملات میں بھی نہایت منظم اور خوش ذوق تھے۔ انگریزی زبان پر عبور رکھنے والے اساتذہ کو پسند فرماتے، اور دفتری خط و کتابت انہی کے سپرد کرتے۔
ان کا کہنا تھا:
“ریٹائرمنٹ کے بعد اچھی انگریزی سے لطف اندوز ہونے کے لیے تمہارے لکھے لیٹرز پڑھا کروں گا۔”
ایک استاد کے بقول:
“جو بھی لیٹر لکھتا، ڈاکٹر صاحب اس کی تین کاپیاں بنواتے – ایک اپنی ذاتی فائل کے لیے۔”
پرنسپل کی حیثیت میں رویہ
اساتذہ سے ان کا رویہ جمہوری اور مشفقانہ رہا۔ ہمیشہ مشورے سے فیصلے کرتے، اور ہر استاد کو یہ کہتے:
“اگر کوئی سٹوڈنٹ بات نہ مانے تو اس پھنے خان کو میرے حوالے کر دینا۔”
طلبہ ان کے رعب میں اتنے تھے کہ ان کے سامنے سر نہیں اٹھاتے تھے۔
ان کی زندگی کا اختتام
ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی 1990 میں ریٹائر ہوئے، اور چند ماہ قبل اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔ ان کی وفات پر یہ شعر صادق آتا ہے:
“وہ ساتھ لے گیا ہے وسائل نجات کے
کہتا ہے کون بے سروساماں چلا گیا”
ڈاکٹر صاحب کا دور گورنمنٹ کالج میانوالی کی تاریخ میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ایسے معلم اور منتظم کی حیثیت سے یاد رکھے جائیں گے جنہوں نے تعلیم، تربیت، تحقیق اور کردار سازی میں اعلیٰ معیار قائم کیا۔
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔–۔۔۔
پروفیسر ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی –تحریر : مہران حسن خان
طلباء کی نظر میں پروفیسر غلام سرور خان نیازی – میانوالی
پروفیسر غلام سرور خان نیازی مرحوم نہ صرف ایک ممتاز مورخ اور ماہرِ تعلیم تھے بلکہ وہ ایک ایسے مثالی استاد بھی تھے جنہوں نے اپنے علم، کردار، اور نظم و ضبط سے نسلوں کو سنوارا۔ ان کے شاگرد آج بھی ان کی شفقت، راست گوئی، اور علمی دیانت داری کو یاد کرتے ہیں۔ وہ تعلیم کو صرف مضمون کی تدریس نہیں بلکہ ایک اخلاقی، فکری اور عملی تربیت سمجھتے تھے۔
طلباء کے مطابق، پروفیسر صاحب کی تدریس میں ایک خاص وقار اور گہرائی ہوتی تھی۔ وہ تاریخ کو صرف واقعات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک زندہ تجربہ بنا دیتے تھے، جس سے طلباء کو نہ صرف ماضی کا شعور ملتا تھا بلکہ حال کو سمجھنے اور مستقبل کو سنوارنے کا جذبہ بھی پیدا ہوتا تھا۔
ان کی گفتگو میں ٹھہراؤ، لب و لہجہ میں نرمی، اور بات میں دلیل ہوتی تھی۔ وہ طلباء کے اخلاق، لباس، وقت کی پابندی اور عمومی رویے پر خاص توجہ دیتے، اور اپنی شخصیت سے ایک اعلیٰ معیار قائم رکھتے۔
ان کے کئی شاگرد آج مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات انجام دے رہے ہیں، مگر سب کا یہ کہنا ہے کہ جو تربیت، حوصلہ افزائی، اور فکری بنیادیں انہیں پروفیسر غلام سرور خان نیازی سے ملیں، وہ ان کی زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں۔
ہمیں انھی کے دور کے طالب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
جن کی یونیفارم ٹھیک نہیں ہوتی تھی انھیں ڈرانے کےلیے دوسرے لڑکے کہتے تھے ” ڈبے آلا آیائی”
ایک دفعہ ہمارے ایک دوست کی یونیفارم ٹھیک نہیں تھی۔ پرنسپل صاحب اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔ وہ بھی کالج کی عمارت کے گرد چکر لگاتا رہا۔ کافی چکر لینے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ پرنسپل صاحب تھک چکے ہوں گے تو وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپری منزل چلا گیا۔ چھٹی تک وہ اوپر ہی رہا کیونکہ لڑکے اسے جان بوجھ کر اشارہ کردیتے تھے کہ پرنسپل صاحب سیڑھیوں کے پاس کرسی لگائے بیٹھے ہیں۔
کمرشل کالج کے لڑکے ہمارے کالج سے گزرتے تھے۔ ایک دفعہ کمرشل کالج کے ایک خوش شکل طالبعلم کو روک کر کہا کہ تمھاری یونیفارم کیوں ٹھیک نہیں۔ اس نے لاپرواہی سے کہا کہ “میں تیڈے کالج دا ناں”
برجستہ کہا” وت اِتھے میڈے چھوراں دا ہاں کیوں کچا کریندا ودائیں” اس کے بعد کمرشل کالج والے ہمارے کالج سے دور و دور ہوکر جاتے تھے۔
ہم تین کزن موسیٰ خیل سے کالج جاتے تھے۔ سردیوں میں لکار وغیرہ کرکے جاتے تھے کیونکہ سٹوڈنٹس کو بس کی چھت پر ہی جگہ ملتی تھی۔ پرنسپل صاحب ہمیں فرنٹ پر روکتے ، خاموشی سے ہماری لکار اور چادر خود اتارتے ، اپنے ہاتھ سے تہ کرتے اور ہماری کتابوں کے بیچ رکھتے ہوئے کہتے ” یہ یہاں ٹھیک لگے گی”
مجھے دیکھ کر اکثر ہنس دیتے یا کم ازکم مسکراہٹ ضرور شیئر کرتے تھے کیونکہ میں سالانہ کھیلوں میں اساتذہ کی دوڑ کے وقت سر غلام سرور خان کی جگہ کمنٹری کا مائک پکڑ لیتا تھا اور ہنسی مزاح میں اساتذہ کی دوڑ پر تبصرے کرتا تھا۔
اللہ تعالیٰ ہمارے اساتذہ پر دونوں جہانوں میں اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
سر جی! سفید شلوار قمیض میں ملبوس اور سرخ رنگ کا کوٹ (گورنمنٹ کالج لاہور کی طرح کا) پہنے دیکھتے تو موصوف ب ساختہ یہی کہتے کہ: “گڈ
مُجھے ایسے ہی ویل ڈرسیڈ اسٹوڈنٹس چاہیں”
سر سر ۔ایک کیا چراغ جلا۔سو چراغ جل گئے سر سرور خان صاحب کو ھم سٹوڈنٹ ! ڈبے! والا کہتےتھے وجہ یہ تھی کہ ڈرائیور أن دنوں ٹریفک سارجنٹ کو ڈبے والا کہتے تھے اور أنے والی گاڑی کو بتاتے کہ ۔اگوں ڈبے ألہ کھلوتا ھے خیال کر۔ ھم سٹوڈنٹ کوڈ ورڈ مین ایک دوسرے کو انکی اطلاع اسی طرح کر کے موقع سے فرار ھونے کی کوششں کرتے ایک دن مختیار تلوکر ایڈووکیٹ۔میں۔ضیاءاللہ دی نیوز لاھور۔کرنل أفتاب۔ھاشم خان علامہ اقبال یونیورسی انکے بھائی طاھر ۔ملک سلطان مبارذ کینٹین کے ساتھ لان مین بیٹھے تھے انور موسیٰ خیل اے وی پی کوأپریٹو بنک نے ڈبے والے کا روٹ بتایا کہ وہ اور روٹ پہ ھیں انور خان اس والے روٹ سے بھاگ کے أۓ وہ گورے۔چتے۔ککے بالون والا گبھرو تھا سر سرور ھمارے اوپر أن پہنچےانھوں انور کو دیکھا تو کہا أپ منفرد شکل وصورت والے کو میں زمین کی تہہ سے بھی تلاش کر لونگا گورا داند سیدھے ھو جاؤ اور خود بھی ھنس پڑے اللہ مغفرت فرماۓ
انکے دور میں ھمارے ایک کلاس فیلو سفید یونیفارم کی بجائے نیلے کپڑے پہن کر آیا تو ڈاکٹر صاحب نے غصے سے کہا یہ سرکس والا لباس میں کیوں آئے ہو تو وہ کہنے لگا سر یونیفارم صاف نہیں تھا تو ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے بیٹا یونیفارم کالج لے آتے چچا بھتیجا مل کے دھو لیتے ہیں
سختی کرتے تھے لیکن ان کی باتیں بہت درست ہوتیں ..پڑھانے کا انداز بتاتا کہ کوئ سکالر بات کر رہا ہے..اور ی بھی پتہ چلتا کہ پی ایچ ڈی کس کو کہتے ہیں کبھی کس خالی پیرہڈ میں کلاس میں آجاتے تو کسی بھی موضوع پر بات شروع کرتے…انداز تکلم..دل پر اثر کرتا اور بات زہن نشیں ہوتی….اب کے کئ لوگ پی ایچ ڈی کر رہے ہیں یا ایم فل..اخلاقیات درست نہیں
ان کی کوئ حرکت عادت طور طریقہ ی وضاحت نہیں کرتا کہ مابدولت…پی ایچ ڈی کر رہے ہیں یا …مطلب ہے …داسے بس …گزارہ کئ….سر سرور نیازی صاحب سچی بات مزاجن بھی لائیک ایز فادر..خصوصیات کے حامل بزرگ تھے..ان کے اوقات میں کالج رواں دواں ماحول میں چل رہا تھا…اللہ تعالی اب بھی ہماری مادر علمی کی خیر رکھے
واہ کیا یاد دلا دیا سر آپ نے ۔۔87۔88 میں ڈگری کالج میانوالی میں گزرا وقت اب بھی یاد آ جاتا ہے جب کالج کے پاس سے گزر ہوتا ہے ۔۔۔اور پرنسپل صاحب کے ہمراہ افضل خان صاحب کا چہرہ بھی یادواشتوں میں محفوظ ہے ۔۔ہم سٹوڈنٹس ان کے احترام کی وجہ سے آگے آگے دوڑ رہے ہوتے ساتھ آگے کھڑے سٹوڈنٹس کو بتا رہے ہوتے تھے کہ۔۔ ڈبے آلا ۔۔اب یہ پتا نہیں کب اور کس نے پہلی مرتبہ کہا تھا مگر اس وقت معروف تھا ۔۔۔اللہ کریم مغفرت فرمائے ۔۔۔پتا نہیں کیوں ماضی کی یادیں دل کو بوجھل کر دیتی ہیں ۔۔۔
اللہ پاک غریق رحمت فرمائے ڈاکٹر صاحب کو۔ آمین ثم آمین ۔
ڈاکٹر صاحب کالج ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مصروف روٹین برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ کتب بینی اور نوٹس ٹیکنگ۔۔۔یہ سلسلہ صاحب فراش ہونے کے بعد بھی جاری رہا۔ دو ہزار گیارہ تک گاہے بگاہے ان سے ملاقاتیں جاری رہیں۔ بہترین حافظہ اور قابل قدر انداز بیان کا ہمیشہ قائل رہا۔ اللہ پاک درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین