تحریر-سید طارق مسعود کاظمی-مصنف کتاب سرزمین اولیا میانوالی
آپ مولانا غلام علی صاحب کے گھر 1843 میں ایک چھوٹی سی بستی گانگی میں پیدا ہوئے۔
گانگی شریف: یہ چھوٹا سا قصبہ دریائے سندھ کے کچہ میں آباد تھا اور بقول پروفیسر محمد فیروز شاہ صاحب، جہاں آج کل چشمہ بیراج کی جھیل کا وسیع و عریض پانی پھیلا ہوا ہے۔ یہاں گانگی کا چھوٹا سا قصبہ بھی آبادتھا۔ مٹی اور سرکنڈوں سے بنائے گئے گھر ہر سال نئے بنانے پڑتے تھے کیونکہ سیلاب آتا تو یہ کچے مکان بھی اس کی زد میں آ جاتے تھے۔ یہاں کی زبان میں سیلاب آتا تو لوگ کہتے کانگ آگئی ہے۔ کانگ سے متاثرہ گاؤں کا نام کانگی پڑا جو بالآخر کثرت استعمال سے گانگی بن گیا۔
خاندان: آپ خاندان سادات کے چشم و چراغ ہیں۔ آپ کے جد امجد میاں علی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ بانی میانوالی ہیں۔ آپ ان کے فرزند شاہ محمد اسحاق کی اولاد میں سے ہیں۔ شاہ محمد اسحاق حضرت سلطان زکریا کے بھائی ہیں۔حضرت شاہ محمد اسحاق کی اولاد سے بہت بڑے بڑے عالم ہو گزرے ہیں لیکن افسوس کہ اکثر کے حالات زندگی موجود نہیں ہیں۔اس خاندان کی روایت تھی حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قطعہ تحریری شکل میں نسل در نسل منتقل ہوا(ترجمہ) ہم خدائے جبار کی اس تقسیم پر راضی ہیں کہ اس نے ہمیں علم اور جاہلوں کو مال دیا ہے۔ مال عنقریب فنا ہونے وال
ہے لیکن علم باقی رہنے والا اور لازوال ہے۔ ہر مرنے والا باپ اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے یہی تحریر دیتا آیا ہے اسی وجہ سے اس خاندان میں بے شمار علماء و فضلاء ہوگزرے ہیں۔
ابتدائی تعلیم: آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی۔ اس کے بعد مولانا علی محمد ہاشمی کے درس واقع سیلواں میں حاضر ہوئے اور وہاں پڑھتے رہے۔ اس وقت سیلواں کا یہ مدرسہ بہت مشہور تھا اس کے بعد ضلع مظفر گڑھ مولوی غلام رسول سے جا کر علم حاصل کیا۔ ملتان میں مولانا عبدالرحمٰن کی قدم بوسی کر کے دین سیکھا۔اس کے علاوہ لکھنو کے علماء کی خدمت کرتے رہے اور ان سے علم کے موتی چنے۔ آخر کار 1865 میں دہلی سے سند تکمیل حاصل کی۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد آپ نے تدریس تبلیغ اور افتاء کا فریضہ سنبھالا اور63 سال تک اس فریضے کو سر انجام دیتے رہے۔
تذکرہ اکابر اہل سنت میں آپ کا ذکر خیر: حضرت علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری نے آپ کا ذکر خیر یوں فرمایا ہے۔ ”آپ حضرت خواجہ شمس العارفین سیالوی قدس سرہ کی زیارت سے مشرف ہوئے تھے لیکن حضرت ثانی خواجہ محمد الدین سیالوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے او ر بہت جلد صاحب کمال بن گئے۔ حضرت ثالث خواجہ محمد ضیا الدین سیالوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ کے فضل و کمال کے پیش نظر آپ کو آستانہ عالیہ سیال شریف کا مفتیئ اعظم مقرر فرمایا تھا اس عہدے کے فرائض کو آپ نے بڑی محنت اور قابلیت سے انجام دیا۔ آپ نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا اور حقِ تحقیق ادا کیامثلاً عشر و زکوٰۃ کے
موضوع پر اسلامی بیت المال اور مسئلہ سماع (قوالی) پر ضیائے شمس الانوار تالیف کیں جو طبع ہو گئی ہیں۔ان کے علاوہ مسئلہ علم غیب، حاضر و ناظر،ا ستغاثہ بحضور سید الکونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم، تین طلاقیں بیک لفظ دینے اور دیگر موضوعات پر آپ کی تصانیف تا ہنوز زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکیں۔حضرت مولانا احمد دین رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ صحیح معنوں میں علمائے سلف کی یادگار تھے۔کبھی خوف و لالچ آپ کو اظہار حق سے باز نہ رکھ سکا۔ 125 سال سے زائد عمر ہونے کے باوجود باقاعدگی کے ساتھ نماز با جماعت ادا کرنے خود چل کر مسجد میں تشریف لاتے۔ عالم جوانی سے آخر عمر تک نماز تہجد، اشراق اور سلسلہ عالیہ چشتیہ کے معمولات اہتمام سے اداکرتے رہے۔ آپ فی الواقع صاحبِ کرامت بزرگ اور علمی اعتبار سے مرجع خلائق تھے۔
آستانہ عالیہ سیال شریف سے محبت و عقیدت: آپ فرمایا کرتے تھے سیال شریف میں ”رنگن“ چڑھی ہوئی ہے (بڑا برتن جس میں کپڑوں کو رنگا جاتا ہے)جو بھی سیال شریف کا غلام بنتا ہے اس کو رنگ لگ جاتے ہیں اور پیر سیال کی غلامی دائمی خوش بختی کا رنگ لگا دیتی ہے جس سے دین و دنیا کی فلاح نصیب ہو تی ہے۔
انوار قمریہ میں آپ کا ذکر خیر: مولانا احمد دین گانگی والے کے صاحبزادہ کی شادی پر میرے حضرت غریب نواز تشریف لے گئے تو اس وقت مولوی صاحب کا صرف ایک (کوٹھا) کمرہ تھا جس میں رات کو حضور کو ٹھہرایا اور خود کچھ کانے (سرکنڈے) وغیرہ کے گٹھوں کو آس پاس جمع کرکے درمیان میں بال بچوں کو رات بھر سلا دیا۔ سردی کی رات اس حالت میں گزاردی صبح کو جب حضرت صاحب
نے استفسار فرمایا کہ مولوی صاحب تمہارے بال بچوں نے رات کہاں گزاری ہے؟ تو عرض کی یہیں آپ کے پڑوس میں۔ دوبارہ پوچھا کہ اور مکان تو تھا نہیں کہاں رات گزاری؟ تو عرض کیا کہ بال بچوں کے ارد گردکانوں (سرکنڈوں) کے گٹھے اکٹھے کردئیے تھے چونکہ آپ نے مولوی صاحب کو نوازنا تھا اس لیے رات کو کچھ نہ فرمایا صبح ان کی زبانی سننے پر پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ یہ واقعہ 1926 کا ہے کیونکہ حضرت صاحب غریب نواز نے سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ 1927 آنے والا ہے۔ جب دوسرے تیسرے سال ہم تونسہ شریف عرس سے واپس ہوئے تو اس وقت مولوی صاحب مذکورہ کے مکانات کا ایک محلہ بن چکا تھا۔ پختہ مکانات اعلیٰ پیمانہ پر تعمیرات کا مکمل محلہ بن گیا تھا۔ یہ صرف خاموشی ہی میں میرے حضرت غریب نواز نے نظرکرم سے نوازا۔
دینی علوم کی تدریس اور آپ کے تلامذہ: آپ کی خدمت میں دور دور سے طالب علم آتے اور علم دین سیکھتے۔ آپ کے شاگردوں میں بڑے نامی علمائے کرام شامل ہیں کچھ مشہور تلامذہ یہ ہیں۔
مولانا محمد اکبر علی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ میانوالی
مولانا نور الزمان شاہ کاظمی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کوٹ چاندنہ
مولانا فقیر محمد کابلی
مولانا نور محمد لائل پوری
مولانا دولت خان کابلی
مولانا محمد زاہد دریا خان
آپ کا وصال مبارک: آپ نے زندگی کے آخری چالیس روز میں کھانا، پینا بالکل بند کر دیا تھا۔ کھانے کے اوقات میں آسمان کی طرف ہاتھ بلند فرماتے اور ہاتھ کو منہ کی طرف لے جاتے جیسے کچھ تناول فرمارہے ہوں۔اس بارے میں آپ کے صاحبزادے حضرت علامہ غلام فخرالدین صاحب گانگوی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ آپ کا کھانادربار الٰہی سے آتا ہے جسے آپ تناول فرماتے ہیں۔4 رجب 1388 ھ بمطابق28 اکتوبر1968 بروز ہفتہ ایک بجے دن اللہ کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی روح انور اعلیٰ علیین کی طرف پرواز کر گئی۔ آپ کے وصال سے اہل سنت و جماعت ایک فاضل کامل صاحب دل ولی اللہ سے بظاہر محروم ہو گئی۔ آپ کے جنازہ میں کثیر تعداد میں دور دور سے لوگ شرکت کرنے آئے۔ آپ کو جامع مسجد و مدرسہ شمس العلوم گانگوی محلہ مولوی گانگوی صاحب میانوالی شہر میں دفن کیا گیا۔ آپ کے فرزند حضرت علامہ غلام فخرالدین صاحب گانگوی جو کہ بہت بلند پایہ عالم با عمل تھے۔
حوالہ جات:
۱۔ تذکرہ اکابر اہل سنت
۲۔ تحریر و انٹرویو پروفیسر محمد فیروز شاہ
۳۔ تحریر حضرت صاحبزادہ نعیم الدین شاہ گانگوی سجادہ نشین آستانہ عالیہ گانگویہ- جامع مسجد گانگوی میانوالی
۴۔ انوار قمریہ
۵۔ تحریر خیر محمد ہاشمی سلطان خیل
۶۔ رسالہ بادبان میانوالی نمبر
بشکریہ-سید طارق مسعود کاظمی-مصنف کتاب سرزمین اولیا میانوالی