سرزمین اولیا میانوالی-کتاب کے مصنف سید طارق مسعود کاظمی
پہلا انتساب
حضور سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے نام جن کے واسطے یہ کائنات سجائی گئی۔ جو رحمتہ العلمین بن کر تشریف لائے اور روز قیامت ہم گنہگاروں کی شفاعت فرمائیں گے۔
دوسرا انتساب
اس کائنات میں موجود تمام اولیاء اللہ کے نام کہ جن کی یہ ولایت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے ہے۔
تیسرا انتساب
میرے پیر و مرشد اوراس دور کے ولی کامل عاشق رسول حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کے نام جنہوں نے سنت مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی محبت کا درس دیا اور ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کی زندگیوں کو سنت کے مطابق بنا دیا۔
چوتھا انتساب
میرے والد محترم محمد رفیع اللہ شاہ (مرحوم) اور والدہ محترمہ (مرحومہ) کے نام کہ جنہوں نے مجھے دین کی محبت سکھائی۔
مصنف سید طارق مسعود کاظمی کی کتاب سرزمین اولیا میانوالی کا ابتدائیہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
کتاب سرزمین اولیا میانوالی کے بارے میں جائزے
تاثرات
گل بیگ خان قادری
تاریخ نویسی انتہائی مشکل اور بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔ مؤرخ دراصل اسلاف کی امانت اخلاف تک پہنچانے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ اپنے اسلاف کی تاریخ سے ہی قومیں اپنی راہیں متعین کرتی ہیں۔ دریائے نیلاب (سندھ) کے کنارے آباد میانوالی کا علاقہ (جو تاریخ میں کچھی کے نام سے جانا جاتا ہے) کی تاریخ پر تہہ در تہہ پردے پڑے ہوئے ہیں اور اس کی دو بڑی وجوہ ہیں (۱) شمال مغرب سے آنے والے حملہ آوروں کا راستہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ بارہا تاراج و برباد ہوانیز یہی علاقہ چونکہ پٹھانوں کے لئے اگلی چوکی کا کام دیتا تھا اس لئے پٹھانوں کی کامیابی سے آباد اور ناکامی کی صورت میں بربادی اس کا مقدر بن جاتی (۲) دریائے سندھ جیسے مہیب اور انتہائی تیز بہاؤ والے دریا کے کنارے پر ہونے کی وجہ سے اکثر دریائی کٹاؤ کا شکار ہوتا رہا۔
ڈاکٹر لیاقت علی نیازی صاحب کی تشکیل کردہ نیلاب اکیڈمی سے امید بندھ چلی تھی کہ شاید ضلع میانوالی کی گم شدہ تاریخی کڑیاں اندھیروں سے تحقیق کے اجالوں میں آجائیں مگر ابھی تک شایداس نہج پر کام نہیں ہوسکا جس کی امید کی جارہی تھی۔ اسی طرح محترم پروفیسر سلیم احسن سیفی نقشبندی صاحب نے بھی کچھ کام کیا ہے مگر تاحال ادھورا۔پڑھے لکھے اور تحقیقی کام کرنے والے فرزندانِ میانوالی پر میانوالی کا یہ قرض ہنوز باقی ہے۔
گو سیرت و سوانح کو تاریخ سے الگ نام دیا گیا ہے مگر یہ تاریخ کا شعبہ ہے حق یہ ہے کہ بہت اہم شعبہ ہے۔خدا بھلا کرے ہمارے محترم دوست سید طارق مسعود شاہ کاظمی مدظلہ العالی کا کہ آج سے کوئی دو ڈھائی سال قبل انہوں نے اسی شعبے پر کام کا آغاز کیا اور میانوالی کے علماء و مشائخ کی سوانح مرتب کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس کام میں انہیں جو مشکلات پیش آئیں اس کا اندازہ تو وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس قسم کے تحقیقی کام کا تجربہ رکھتے ہیں۔ہم تو اس عرصہ میں ان کی بے قراریوں اور جگر کاویوں کے چشم دید گواہ ہیں۔جب بھی ملاقات ہوئی انہیں اسی جستجو میں منہمک پایا، گھر گئے تو کتابوں کی ورق گردانی میں مصروف، سفر کی صعوبتیں برداشت کیں۔جہاں کہیں بھی کسی مزار کا پتہ چلا وہاں تک ضرور پہنچے۔ وہاں کے مقامی لوگوں سے معلومات اکٹھی کیں۔ صاحبِ مزار کے متعلق پرنٹ مواد ملا تو اس پر تحقیق کی۔ مجھے بھی چند اسفار میں ان کا ساتھ دینے کا اتفاق ہوا نہ موسم کی شدت آڑے آئی نہ بھوک پیاس سدِ راہ ہوئی، نہ پیدل چلنے کی گھبراہٹ محسوس کی۔ بس ایک ہی دھن تھی کہ جو کام شروع کیا ہے یہ احسن طور پر مکمل کرکے دم لیں گے۔مسودے مکمل ہونے پر مجھے پڑھنے کا موقع ملا تو شاہ صاحب کی اس محنت کا کامل ادراک ہوامؤلف کی یہ کوشش قابل صد تحسین ہے کہ کئی بزرگوں کے نام تک سے ہم نا آشنا تھے ان کے حالات زندگی ہمارے سامنے آگئے۔ کئی چھپے گوشے وا ہوئے۔
گو کہ بعض بزرگوں کے حالات زندگی انتہائی مختصر ہیں اور کچھ کے صرف نام ہی معلوم ہو سکے ہیں لیکن یہ بھی غنیمت ہے کہ میانوالی پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے اس سے کئی راہیں روشن ہوں گی۔
ضلع میانوالی نے کئی شہسوارانِ قلم و قرطاس پیدا کئے ہیں یہ کتاب ان کے راہوار قلم کے لئے مہمیز کا کام دے گی۔اس سلسلہ میں اہلیان میانوالی کی عموماً اور وابستگانِ سلاسل تصوف کو خصوصاً شاہ صاحب کا ممنونِ احسان ہونا چاہیے۔
کاش کہ میانوالی کے صاحبِ ثروت احباب اس کتاب کی طباعت کی ذمہ داری قبول فرما لیں تاکہ ہماری آئندہ نسلیں ان بزرگوں سے متعارف ہو سکیں۔ جنہوں نے دین کی خدمت و اشاعت کے لئے اپنی عمر عزیز کو وقف کئے رکھا۔
میرے جیسے کم علم اور مزدور پیشہ آدمی کا یہ مقام ہرگز نہیں کہ کسی تحقیقی کتاب پر اظہارِ رائے کر سکے الامرفوق الادب شاہ صاحب کے حکم کی تعمیل میں چند سطور لکھنے کی جسارت کی ہے ورنہ…. ایاز قدر خود رابشناس…..
واخردعوانا ان الحمدللہ رب العالمین –
الاحقر گل بیگ خان قادری سکنہ وانڈھا سلیم خیل (کھباڑانوالہ) یوسی شہباز خیل تحصیل و ضلع میانوالی-٭٭٭٭٭
تاثرات
الحمدللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
قرآن مجید خدائے عظیم و برتر کی مقدس کتاب ہے۔ اولیائے کرام کے ذکر خیر سے شروع اور انہی نفوس قدسیہ کے ذکر عظیم پر ختم۔محبوبانِ خدا کا ذکر کرنا، پڑھنا، سننا بہت بڑی سعادت و برکت کا باعث ہے۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب انسان اہل کمال کی صحبت اور عارفین کے دیدار جمال سے بہرور ہو جائے تو ان بزرگوں کے احوال سے باخبر رہنا بھی تاریکیوں کو دور کرتا ہے ان کے حالات و واقعات سے آگاہی میں وہی اثر انگیزی ہے جو ان کی صحبت اختیار کرنے سے ملتی ہے
حضرت امام سیوطی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ذکر الانبیاء عبادۃ و ذکر الاولیاء کفارۃ۔ انبیائے کرام کا ذکر عبادت ہے اور اولیائے کرام کا ذکر گناہوں کا کفارہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے میں بزرگوں کے اخلاق و عادات کو ضبط تحریر میں لا کر محفوظ کر لیا جاتا ہے اس سے طمانیت، روحانی تسکین، عبرت اور نصیحت کے علاوہ بے حد و بے شمار فوائد و فضائل حاصل ہوتے ہیں۔ اہل اللہ کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ مردہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور زندہ دلوں کومزید روشن و منور کرتا ہے۔
پیش نظر کتاب میں بھی یہی جذبہ کارفرما ہے۔ یہ کتاب کیا ہے ایک محب
صادق کی صدائے ”محبت“ ہے۔ کتاب کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مؤلف نے ایسی بے مثل شخصیات کے حالات و واقعات کی جستجو میں سعی عظیم اور جہد مسلسل سے کام لیا۔ اس پر طرہ یہ کہ ان تمام معاملات میں ان کا خلوص شامل ہے اسی وجہ سے تاثیر و فوائد سے بھر پور ہے۔
حقیقتاً یہ مشاہدات و واقعات کے گلہائے رنگا رنگ کا ایک حسین گلدستہ ہے جسے برادرم محترم سید طارق مسعود شاہ کاظمی نے ”اولیائے میانوالی“ کے نامِ اقدس سے سجا کر اہل محبت کو پیش کیا۔
محترم شاہ صاحب کو اپنے گلدستہ کے کسی گل کی خوشبو کا جھونکا جہاں کہیں سے بھی ملا، جس انداز سے میسر آیا ان سے ہمارے مشام جان کو معطر کیا۔ وہ عظیم ہستیاں جن کے حالات پر زمانہ کا کثیف حجاب پڑا ہوا تھا اپنی سعی عظیم و جہد مسلسل سے ان کو صرف آشکارہی نہیں کیا بلکہ اس حسین انداز سے متعارف کرایا کہ ان کے نقوش ذہن پر کندہ ہو گئے۔
یہ بھی قابل تحسین ہے کہ حضرت شاہ صاحب نے بنفس نفیس تمام مصروفیات سے کنارہ کشی اختیار کرکے ہرہر مقام، خانقاہ، آستانہ اور مزار پر حاضر ہو کر حالات و واقعات کا بنظرِغائر مشاہدہ کیا۔تاریخ و سوانح کی خوب تحقیق کی اور کئی پوشیدہ حقائق سے پردہ بھی منکشف کیا۔
حقیقتاً یہ موجودہ اور آئندہ نسلوں پر ایک عظیم احسان ہے جو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی جنبش قلم سے نکلے الفاظ نے ہمارے آباؤ واجداد کی سفری تاریخ و عظیم سوانح کو شگفتہ گلاب کی طرح ترو تازہ کر دیا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ان کی اس مخلصانہ و محبانہ کوشش کو قبول و منظور فرمائے اور ہم سب کو اولیائے کرام کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین ثم آمین)
(پروفیسر صاحبزادہ) سید محمد علم الدین شاہ الازہری –ایم۔ اے، ایم۔او۔ایل۔ فاضل جامعۃ الازہر (مصر)
پرنسپل جامعۃ القمر (طلباء و طالبات)متصل جامع مسجد مصطفی سیکٹر 4/H بسم اللہ چوک نئی آبادی سعید آباد بلدیہ ٹاؤن کراچی۔
منتظم اعلیٰ اسلامک یونیورسٹی (خواتین) گلشن اقبال کراچی۔
نائب سجادہ نشین آستانہ عالیہ خواجہ آباد شریف (ضلع میانوالی)٭٭٭٭٭
قرطاس سپاس
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسول الکریم امابعدقرآن کریم فرقان عظیم ایک ایسی کتاب مستطاب ہے جو ہر ایک کے ایمان کا ذریعہ ہے اور اسی سے مسلمان اپنی دنیاوی اور اخروی زندگی کو ڈھالنے کی سعی کرتا ہے۔ اسی قرآن پاک میں اولیاء اللہ کی کرامات ملتی ہیں انہی نفوس قدسیہ کے بارے میں رب العزت کا ارشاد گرامی ہے الا ان اولیا لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون الذین آمنوا و کانو ایتقون البشری فی الحیاۃ الدنیا و فی الاخرۃ لا تبدیل لکلمات اللہ ذلک ھو الفوز العظیم اس آیت کریمہ کی تفسیر میں سرور انبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے ھم توم تحابو ا فی اللہ علی غیرا رحام بینم ولا اموال یتعاطونھافو اللہ ان وجوھھم لنوروانھم لعلی منابر من نور لا یخانون اذا خاف الناس ولا یحزنون اذا حزن الناس حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ارشاد کی تشریح یوں کی کہ دنیا میں اللہ والوں کو غم نہ ہوگا اور نہ اولاد کا اور نہ اگلے جہاں کا ڈر۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے اولیاء اللہ کی پہچان کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ یاد آجائے، یہ حضرات قیامت کے روز نور کے منبروں پر فائز ہوں گے جب لوگ خوف زدہ ہوں گے تو انہیں خوف نہ ہوگا اور جب لوگ غمگین ہوں گے تو انہیں کوئی غم نہ ہوگا۔
(۲) اللہ تعالیٰ جل شانہٗ نے حضرت مریم رضوان اللہ علیہھا کا واقعہ/کرامت بیان فرمائی قولہ تعالیٰ کلما دخل علیھا ذکریا المحراب الی آخر۔ جب کبھی حضرت ذکریاعلیہ السلام حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے پاس محراب میں تشریف لاتے تو بے موسم پھل پاتے تو آپ (ذکریا علیہ السلام) ان (حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے پوچھتے یہ کہاں سے آئے؟ تو فرماتی عند اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ تو بی بی مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا ولیہ تھیں اوریہ ان کی کرامت قرآن سے ثابت ہے۔
(۳) اسی طرح حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بھی قرآن مجید میں مذکورہے اور یہ حضرت خضر علیہ السلام کی کرامات تھیں۔
(۴) سورہ الکھف میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب الکھف کا ذکر فرمایا یہ بھی اولیاء اللہ تھے۔ 900 برس غار کے اندر سوتے رہے حتیٰ کہ ان کے کتے نے بھی ان پر پہرہ دیا اور پھر جب انہوں نے رحلت فرمائی تو ان کی قبور پر مقبرہ بنایا گیا اور اسی سے ان کی کرامت بالقرآن ثابت ہے اور یہی اولیاء اللہ کے مزارات پر مقبرہ کا بھی ثبوت ہے۔
(۵) اسی طرح ذی القرنین کا قصہ بھی قرآن سے ثابت ہے۔
(۶) قرآن مجید فرقان مجید میں آصف بن برخیا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قصہ بھی موجود ہے جس نے آنکھ جھپکنے سے پہلے ملکہ بلقیس کا تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر دیا۔
(۷) صحیح بخاری و مسلم میں جریح راھب کی مشہور حدیث ہے کہ بچے نے پنگھوڑے میں کلام کیا جب اس سے پوچھا گیا کہ اے بچے تیرا باپ کون ہے؟ تو کہا
فلاں راعی۔
(۸) اسی طرح اصحاب غار کی حدیث بھی ہے کہ جب وہ غار کے داخل ہوئے تو ایک چٹان نے غار کا منہ بند کر دیا اور وہ اندر پھنس گئے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی نیکی کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ ان کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے انہیں نجات بخشی۔
(۹) صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشہور کرامت بیان ہوئی کہ آپ جمعہ کا خطبہ ارشاد فرمارہے تھے دورانِ خطبہ آپ نے فرمایا اے ساریہ! پہاڑ کی طرف۔ ساریہ رضی اللہ عنہ کو آپ نے کمانڈر بنا کر نہاوند بھیجا تھا اور فتح حاصل نہیں ہو رہی تھی یوں آپ رضی اللہ عنہ نے اس منظر کو مدینہ منورہ میں دیکھا اور ساریہ رضی اللہ عنہ کو ہدایت دی۔فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دیکھنا اور ساریہ و دیگراصحاب رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا سننا۔ یہ سب کرامات تھیں (رضوان اللہ عنھم)
(۰۱) حضرت العلا بن الحضرمی رضی اللہ عنہ کو آقائے دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ایک غزوہ (جنگ)کے لئے بھیجا۔ غزوہ والی جگہ کے درمیان ایک دریا تھا۔ حضرت العلا رضی اللہ عنہ نے اسم اعظم پڑھا اور دیگر لشکر کے ہمراہ دریا کے اوپر چلنے لگ گئے یہ بھی ایک کرامت ہے تلک کاملۃ عشرۃ۔ اسی طرح کی اور کرامات کتب احادیث میں موجود ہیں۔
جناب سید طارق مسعود کاظمی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ آپ نے انتہائی جانفشانی، عرق ریزی، گرمی و سردی اور سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے ضلع میانوالی کے دور افتاد قریہ قریہ امصارامصار تشریف لے گئے۔ اپنا زر کثیر اور قیمتی وقت کو صرف کرکے اولیاء ضلع میانوالی کے حالات سے واقفیت حاصل کی اور پھر اسے ضبط
31
تحریر میں لائے۔ واقعی یہ ایک کٹھن کام تھا مگر اولیاء اللہ کے فیضان سے وہ اپنے مقصدعلیا میں کامیاب و کامران ہوئے۔بقول علامہ محمد اقبال (علیہ الرحمہ)
یہ فیضان نظرتھا یا مکتب کی کرامت سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
میں نے کتاب مستطاب کا مطالعہ کیا۔ تحریر کو اعلیٰ سشتہ زبان اور عام فہم پایا۔موجودہ دور جو کہ مادی دور کہلاتا ہے روشن خیالی کا نام بھی اسے دیا جاتا ہے اور اولیا اللہ اور ان کی کرامات کا انکار کیا جاتا ہے حالانکہ یہ کرامات اور وجود سعود اولیا ء قرآن اور حدیث سے ثابت ہے اور اسی بنا پر میں نے آغاز میں آیات بینات قرآن اور احادیث نبویہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے حوالہ جات تحریر کئے ہیں نیز عقائد نسفی میں ہے کہ اہل سنت و جماعت کا مذہب مذہب ہے ”کرامات اولیاء حق“کرامات اولیاء حق ہیں۔
اللہ تعالیٰ جل شانہٗ طارق مسعو دکاظمی کی یہ سعی جمیلہ و جلیلہ بطفیل سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اپنی بارگاہ میں قبول ومنظور فرمائے اور کاظمی صاحب کو اجر جزیل عطافرمائے اور اولیاء اللہ کی فیوض و برکات سے انہیں ہمکنار فرمائے آمین بجاہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم
احقر البرایا محمد خلیل الرحمٰن ہاشمی غفرلہ-(پروفیسر گورنمنٹ کالج عیسیٰ خیل) –4 ربیع الاول 1429 ھ بمطابق 12 مارچ 2008 ء-٭٭٭٭٭
تاثرات عبدالکریم قاسم
محترم طارق مسعودشاہ کاظمی اکاؤنٹس آفس میں آفیسر ہیں۔ لیکن پڑھنے لکھنے کا شغف ان کی اضافی خوبی ہے یہی شوق اور لگن انہیں مہمیز عطا کرتا ہے انہوں نے بزرگانِ دین و علمائے کرام کا تذکرہ لکھنے کا کام عرصے سے شروع کر رکھا تھا اور وہ ناچیز سے مشاورت بھی کرلیتے تھے۔ تاریخی و تحقیقی نوعیت کے کام بڑھ کٹھن اور طویل المیعاد ہوتے ہیں۔ مذکورہ تذکرے کی پہلی جلد منظر عام پر آرہی ہے جس میں ضلع میانوالی اور مضافات کے اضلاع سے آئے ہوئے بزرگانِ دین و علمائے کرام کے حالات زندگی، ان کے علمی و دینی کارنامے، روحانی فیوض اورکرامات کا تذکرہ استسناد کے ساتھ کیا گیا ہے۔
ان برگزیدہ ہستیوں پر لکھتے ہوئے طارق شاہ کاظمی کی عقیدت اور خلوص کے ساتھ تحقیقی انداز، مستند معلومات کی جستجو کی عکاسی بھی ہوتی ہے، وقت کی گرد میں معدوم ہونے والے کئی اکابر اب نئی زندگی پائیں گے جب تک کاغذ و قلم اور علم کی روشنی دوسروں تک پھیلانے کا سلسلہ جاری رہے گا طارق شاہ کاظمی کا یہ کارنامہ آئندہ نسلوں کے اذہان و قلوب کو منور کرتا رہے گا۔ اس تاریخی، تحقیقی، علمی و دینی اور روحانی تالیف پر محترم شاہ صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔
عبدالکریم قاسم-پرنسپل گورنمنٹ کالج لیاقت آباد پپلاں (ضلع میانوالی)-18 مارچ2008 ء
تقریظ
از: صاحبزادہ ابوالبرکات محمد ارشد سبحانی نیری اویسی قادری (بزم فیضان سبحانیہ)
الحمد للہ و کفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفٰی اما بعد فاعوذ باللہ من الشطین الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون
حضرات گرامی! خالق کائنات عزوجل نے اس عالم رنگ و بو کو گو امام الانبیاء علیہ التحیۃ والثناء کے لئے پیدا فرمایا البتہ پیدا فرمانے کے بعد انسانوں کی رشد و ہدایت کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام کا سلسلہ شروع فرمایا۔ پہلے ابوالبشر حضرت سیدنا آدم صفی اللہ علیہ السلام سے شروع ہو کر امام الاولین و الاخرین نبی آخر الزمان صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تک یکے بعد دیگرے انبیاء کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے اس لئے ہر شہر، قریہ، علاقہ اور قوم کی جانب نبی آتے رہے اور اصلاح امت فرماتے۔ آخر میں امام الانبیاء علت کائنات حضرت سیدنا و مرشدنا و مولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو خاتم النبیین بنا کر عالم دنیا میں مبعوث فرمایا اب جبکہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم آخری نبی ہیں۔ ان کے بعد کسی نبی کی آمد ممکن ہی نہ رہی۔ مخلوق تو صبح ابد تک آتی رہے گی۔ اب ان کی رشد و ہدایت اور اصلاح کے لئے خداوند کریم جل مجدہ الکریم نے اولیاء کرام کی مقدس جماعت کو ولی، اوتاد، اغیاث، اقطاب، ابدال، اخیار، ابرار اور علماء ربانیین کی شکل میں دنیا میں محل رشد و ہدایت قراردیا اور قرآن مجید و
34
حدیث شریف کی نصوص سے کہیں دلالت مطابقی۔ کہیں تضخی، کہیں التزامی سے ان کی شان کو اجاگر کیا تاکہ مخلوق ان سے روحانی فیضان، اصلاح احوال و اعمال کر سکے۔جن روایات میں ان کی عظمت بیان کی گئی ہے ان میں ایک بحوالہ ابوداؤد شریف ملاحظہ ہو
عن عمر قال رسول اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ان من عباد اللہ لانا سا ما ھم بانبیاء ولا شھداء عغبطھم الانبیاو الشھداء یوم القیمۃبمکا نھم من اللہ تعالیٰ قالوا یار سول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تخبرنا من ھم قال ھم قوم تخابو الی اللہ من غیر ارحام بینھم و اموال یتعالو نھا فو اللہ ان وجوھھم لنور وانھم لعلی نور لا یخافونھم اذاخاف الناس ولا یحزنون اذا حزن الناس وقرء ھذہ الایۃ الاان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولاھم یحزنون (ترجمہ)حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ (عزوجل) کے بندوں میں ایسے بھی لوگ ہیں جو نہ پیغمبر ہیں نہ شہید ہیں اور پیغمبر اور شہید قیامت کے روز ان پر ان کے ایک خاص رتبہ کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ (عزوجل) کے نزدیک ان کو حاصل ہوگا، رشک کریں گے۔ لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہم کو خبر دیجئے کہ وہ لوگ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ ہیں کہ محض حق تعالیٰ (عزوجل) کے تعلق سے ان میں باہم محبت ہے نہ کچھ آپس
میں رشتہ ناطہ ہے اور نہ کچھ روپیہ پیسہ کا لین دین ہے۔ بخدا (عزوجل) ان کے چہرے نورانی ہوں گے او ر نور (کے مکانات) پر جلوہ گر ہوں گے۔ جب لوگ مبتلائے خوف ہوں گے وہ خائف نہ ہوں گے اور جب لوگ مغموم ہوں گے وہ مغموم نہ ہوں گے اور یہ آیت پڑھی الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔
خط کشیدہ الفاظ سے آپ اندازہ لگالیں کہ چہروں کا نورانی ہونا اور نورانی محلات پر جلوہ گر ہونا اور پھر شہداء اور انبیاء کرام علیھم السلام ان پر رشک کریں گے۔ اس سے بڑھ کر عظمت اور فضیلت اور تفوق کیا چاہیے۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ! یہ مقدس جماعت جس کی عظمتوں پر قرآنی آیات اور احادیث رسول اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم گواہ ہیں۔ ہم مسلمانوں میں قیامت تک آتی رہے گی۔ امام الانبیاء علیہ التحیۃ والثنآ کا جناب حضرت سیدنا عمر فاروق و حضرت سیدنا مولائے کائنات علی المرتضیٰ رضی اللہ عنھما کو امام العاشقین سہیل یمنی حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے ہاں بھیج کر ان سے اپنی امت کی بخشش کے لئے دعا کا کہلوانا بتاتا ہے کہ غالباً اشارہ ئرسول اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تھا کہ دنیا والو ہم دنیا سے بظاہر چلے جائیں گے صحابہ کرام علیہم الرضوان نیز ظاہراً روپوش ہو جائیں گے لہذا اس وقت اپنی مشکلات کے حل کے لئے دعاؤں کا مرکز اولیاء کرام، ان کے آستانے، ان کے مقابر، ان کی چلہ گاہیں قرار دیئے رکھنا۔ اس لئے ان سے تعلق برقرار رکھنے کی صورت میں خداوند قدوس جل مجدہ الکریم تمہاری مشکلات کو بھی آسان فرمائیں گے اور تمہیں سکون و اطمینان کی دولت ان کی معیت اور ذکری سے بھی مسیر آسکے گی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو ترمذی نے نقل کی ہے کہ سرکار عالی وقار صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ
بندگان خدا ایسے بھی ہیں کہ ”لو اقسم علی اللہ لابرہ“ کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ (عزوجل) کی قسم کھا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ (عزوجل) ان کی قسم سچی کردیں۔
حضرات گرامی! درجنوں آیتیں اور سینکڑوں حدثییں اس مضمون پر شاہد عادل ہیں۔ زیر نظر کتاب سرزمین اولیاء میانوالی، بھی انہی اولیاء کا تذکرہ ہے اس میں بہت محنت اور تحقیق سے علماء کرام و مشائخ عظام کے حالات، کرامات، واقعات مرتب کئے گئے۔ اللہ تعالیٰ عزیز مکرم حضرت قبلہ سید طارق مسعود شاہ کاظمی عطاری نیری القادری مدظلہ کی اس عظیم کاوش کو قبول فرمائے اور امت مسلمہ کی منشاء یزدی کے مطابق اولیاء کرام کے دروں سے وابستگی اور ان سے اکتساب فیض کی توفیق رفیق مرحمت فرمائے آمین ثم آمین
ایں دعا ازمن واز جملہ جہاں آمین باد
فقط والسلام-مدینے کا بھکاری-الفقیر القادری(حضرت علامہ مولانا) ابوالبرکات- محمد ارشد سبحانی نیری اویسی القادری غفرلہ-تلوکرانوالہ شریف (فاضل) ضلع بھکر-۲ ربیع الآخر ۹۴۲۱ھ بروز بدھ
Assalamualaikum wr wb
I am from England and I need this book as soon as possible. Please contact on my whatsapp +447375344721.