“سابق ہیڈ ماسٹر حاجی عمرحیات خان مرحوم کی تعلیمی خدمات””

تحریر= امداد خان ترگوی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کائنات میں موجود ہر شے اپنی حثیت رکھتی ہے کچھ عام اور کچھ خاص اور کچھ بہت ہی اہم جب کہ کچھ نایاب اور انمول بھی ہوتی ہیں،انہی سہاروں پر چل کر انسان زندگی گزارتا ہے اور کسی مقصد کے تحت زندگی گزاری جائے تو وہ زندگی انمول اور امیزنگ کہلاتی ہے۔زندگی دو طرح سے لوگ گزارتے ہیں،ایک وہ جو بس صرف زندگی گزارتے ہیں اور کچھ وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو زندگی جینے کے لئے گزارتے ہیں،ان کا کوئی مقصد ہوتا ہے،اسی مقصد کے تحت وہ معاشرے میں اپنا کردار کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں،ایسے لوگ دنیا میں کچھ ایسا کر گزارتے ہیں،لوگ انہیں کبھی نہ کبھی یاد کر لیتے ہیں چاہے انہیں کئی دہائیاں ہی گزر گئی ہوں۔جو بغیر مقصد کے زندگی گزار جاتے ہیں انہیں دنیا تو کجا اپنے بھی بھول جاتے ہیں۔یاد کرتی ہیں دنیا ان کو جہنوں نے معاشرے کے لئے امیزنگ کام کیا ہو۔

بقول شاعر۔

اپنے لیے تو جیتے ہیں سبھی اس جہاں میں

ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

انسانوں کی فلاح کی بات کی جائے تو جو معاشرے کی تشکیل اور ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تو اس میں کوئی دورائے نہیں ہو سکتیں کہ ایک انمول شخصیت ایک استاد ہی کی ہوتی ہے اور اسے اس کے کردار کی خوبیاں عام انسانوں سے بلند کرتی ہیں،ایک استاد نہ صرف طلبہ و طلبات کو سکھاتا ہے بلکہ اپنی خوبیوں سے بھی متاثر کرتا ہے،مشہور فلسفی ارسطونے کہا تھا”جو لوگ بچوں کو اچھی تعلیم دیتے ہیں ان کی عزت کرو،ماں باپ تمہیں پیدا کرتے ہیں لیکن اساتذہ تمہیں اچھی زندگی گزارنے کا فن سکھاتے ہیں”

وہ اساتذہ جہنیں اپنے پیشے سے عشق اور مودت ہوتی ہیں وہ کبھی مرا نہیں کرتے،کسی نہ کسی شکل میں کردار میں،طلبہ میں عوام کےدلوں میں زندہ رہتے ہیں۔احسان مند افراد اپنے ان محسنوں کو کبھی فراموش نہیں کرتے۔

ترگ کی دھرتی بھی خوش نصیب ہے ایسے بیٹے رب نے عطا کیے جہنوں نے اس دھرتی کا حق ادا کیا۔انہی میں ایک کی  9مئی 1917ء سکندر خان (عمرخیل) کے گھر میں ایک بچے کی ولادت ہوئی۔ بچے کانام عمرحیات خان رکھا گیا۔سکندر خان نے دو شادیاں کیں تھیں،عمرحیات خان،سکندر خان کی پہلی بیوی بارو بی بی کی اکلوتی اولاد تھے جبکہ سکندر خان کی دوسری بیوی رحمتاں بی بی سے تین بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے،ان میں سے ایک بیٹا حیات اللہ خان مرحوم جن کا ھوٹل چائے والا تھا لاری اڈے ترگ پر ھائی سکول ترگ سٹی کے سامنے۔UBL کی جگہ پر۔۔ ترگ میں اس کی چائے کا اس دور میں طوطی بولتا تھا۔جبکہ دوسرا بیٹا امیر عبداللہ خان مرحوم تھے۔۔۔۔

عمر حیات خان مرحوم ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی والدہ کو تعلیم سے محبت تھی۔ انھوں نے اپنے بیٹے کو تعلیم دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سکول میں داخل کرایا۔ان کی تعلیمی ضرویات کا خاص خیال رکھا۔۔۔۔۔عمر حیات خان لائق تھے جلد ہی تعلیم کی طرف راغب ہوگئے۔ دل جمعی کے ساتھ علم حاصل کرنے لگے۔اس دور میں پرائمری اور مڈل پاس کی بڑی قدر تھی۔بہت ہی کم لوگ پرائمری اور مڈل پاس کر پاتے تھے،اول تو اس دور میں کوئی سکول داخل بچہ نہیں ہوتا تھا اگر داخل ہو بھی جاتا تو اول یا دوم جماعت میں ہی تعلیم کو چھوڑ دیتا تھا۔غربت و افلاس کے ڈیرے تھے۔تعلیم کی طرف کم لوگ ہی توجہ دیتے تھے۔ ریوڑ چرانا، کھیتی باڑی کرنا،مزرع بن کر زندگی گزارنا۔اس دور کی زندگی بڑی کھٹن تھے جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنا بہت مشکل تھا۔ کھانے پینے کی اشیاء ناپید تھی، زیادہ تر ہندووں کی دکانیں تھی روپیہ نہ ہونے کے برابر تھا۔لوگ اشیاء خوردونوش،جو اس دور میں گندم یا چنا کی پیداوار بہت کم ہوتی تھیں، دکانداروں کو وہی تھوڑا بہت چنا یا گندم دے کر اشیاء ضرورت خرید لیتے تھے۔پینے کے پانی کا الگ مسئلہ تھا لوگ دور دراز سے کنواں سے پانی بھر کر لاتے یا پھر وقت نے تھوڑی ترقی کی تو ریلوےاسٹیشن سے پینے کا پانی لینے جا تے تھے۔صحت و رہائش کے الگ مسائل تھے

ایسے میں لوگ کہاں سے تعلیم حاصل کرتے،سارا دن کھیتوں میں خوار ہوتے تب کہیں جا کر بڑی مشکل سے روٹی ملتی۔

بقول غالب۔۔

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب

ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے۔

اس دور میں علاقے کے لوگوں نے بڑے مشکل حالات میں زندگی گزاری۔آج کل کی نسل ان حالات سے ناواقف ہے کہ ہمارے آباواجداد نے کن مشکل حالات میں زندگی گزاری اور ہمارے لیے کتنے جتن کئے۔ہم نے وہ دور دیکھا نہیں۔ایسے میں بھی ان والدین کو سلام اور خراج تحسین ہے جہنوں نے اپنے بچوں کو مشکل دور میں بھی سکول داخل کرایا۔

عمرحیات خان نے مڈل پاس کرنے کے بعد ٹیچنگ کا کورس کیا اور پہلے ضلع میانوالی کی تحصیل پپلاں حافظ والا کے علاقے،ذمے والی،،چوڑی،،بھمباں والی میں بطور ٹیچر اپنے فرائض ادا کرتے رہے ،پپلاں کے ان علاقوں میں آپ نے علم کے فروغ کے لئے اہم کردار ادا کیا اور اپنے ٹیچر کے فرائض منصبی ہونے کا حق ادا کیا۔بتایا جاتا ہے کہ آج بھی ان علاقوں کے لوگوں کا کبھی تحصیل عیسی خیل سے گزر ہو تو حاجی عمر حیات خان مرحوم کے گھر ضرور آتے ہیں۔

بتایا جاتا ہے وہ ایک محنتی اور فرض شناس ٹیچر تھے۔ علم سے محبت تھی۔ ریاضی کے ماہر تھے انداز بیاں،پڑھانے کا انداز خوبصورت تھا۔بچوں کو ریاضی کے سوال اس طرح سمجھاتے کہ پھر دوبارہ بچوں کو کبھی پوچھنے کی نوبت ہی نہ آتی تھی۔کمزور سے کمزور طالبعلوں کو بھی پڑھانے کا فن انہیں خوب آتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ اس وقت کے کمزور طالب علم بھی پاس ہو جاتے تھے۔۔

میانوالی کی تحصیل پپلاں میں فرائض ادا کرنے کے بعد آپ نے تبادلہ اپنے آبائی شہر میں کرا لیا۔ترگ کے نصیب میں آپ کی خدمات لکھی تھیں،اس طرح کچھ عرصہ گونمنٹ پرائمری سکول ترگ(موجودہ گونمنٹ ھائی سکول ترگ سٹی) میں بطور ٹیچر کام کیا پھر بطور ہیڈ ماسٹر تعینات ہو گئے،مشکل حالات اور عوام کی تعلیم سے عدم دلچسپی کی بنا ہر کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا، لوگوں کو تعلیم کی طرف موٹیویٹ کیا،کہ تعلیم ہر مرد اور عورت کے لئے بہت ضروری یے،اگر کامیابی حاصل کرنی ہے،زندگی کو بہتر گزارنا ہے تو تعلیم حاصل کرنا ھو گی۔

تعلیم سے قومیں بنتی،پروان چڑھتی اور آگے بڑھتی ہیں۔

ہیڈ ماسٹر صاحب بہت محنتی اور فرض شناس تھے۔ اصول پرست اور سخت طبیعت کے مالک تھے۔تعلیم پہ کبھی کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔ ہمیشہ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے۔دوران سکول نہ کبھی خود سکول سے باہر نکلے اور نہ ہی کوئی ٹیچر باہر گیا۔انہی اصولوں پر چلتے ہوئے آپ نے اس سکول کو ایک مثالی اور درخشاں سکول بنا دیا۔ اگر کوئی ہیڈ اصول پسند نہ ہو تو معیار تعلیم بلند اور بہترین منتظم کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔ اور پھر سٹاف کی نظر میں بھی اس ہیڈ کی کوئی ویلیو نہیں رہتی۔۔۔۔۔بتایا جاتا ہے کہ 1960 سے 1970 تک پورے ضلع میں دو تعلیمی ادارے اس دور میں درخشاں ستاروں کی مانند جگمگاتے رہے ان میں نورنگا (میانوالی) اور ترگ۔تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل کے میدان،بزم ادب میں ہر سال مختلف انعامات و ایوارڈ حاصل کرتے رہے۔۔۔۔

اچھے ہیڈ کے ساتھ اس کی ٹیم یعنی سٹاف کا فرض شناس ہونا بھی بہت ضروری ہے تب کہیں جا کر تدریس کے فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔۔ہیڈ ماسٹر صاحب کو سٹاف بھی مثالی ملا۔اچھے سٹاف کے بغیر کوئی ادارہ پنپ نہیں سکتا۔

ہیڈ ماسٹر صاحب کے ساتھ جن اسٹاف نےکام کیا ان کے اسمائے گرامی جو مختلف ذرائع سے معلوم ہوئے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔۔

1.سر محمد یار پی ٹی مرحوم عیسی خیل۔2.سر احسن خان مرحوم ۔عیسی خیل,3..سر ملک اکبر مرحوم عیسی خیل ۔4۔ سر حاجی آحمد خان عمر خیل ترگ۔5۔۔سر فتح محمد مرحوم جھلار۔۔6سر شاہنوز خان مرحوم مہار،7۔۔سر شوکت عباسی،قرشی مرحوم۔۔8۔۔سر طاہر حسن عباسی مرحوم۔۔9سر محمد اکبر ترگ،10.سر غلام رسول مرحوم۔۔11.سرحاجی عالم خان مرحوم اکوال۔12..سر نور زمان شاہ قرشی۔ 13..سر ولی داد خان مرحوم اکوال۔۔۔۔۔۔وغیرہ۔۔۔

حاجی عمر حیات خان مرحوم ایک بہترین منتظم کے ساتھ ساتھ ریاضی (مضمون) کے ماہر ٹیچر بتائے جاتے ہیں۔وقت کے پابند تھے۔علم سے جنون کی حد تک لگاو تھا۔۔گھر پر فری پڑھاتے تھے، بتایا جاتا ہے کہ گھر میں انھوں نے دو کمرے مختص کر رکھے تھے بچوں کو پڑھانے کے لئے۔ سردیوں میں بچے امتحانات سے دو ماہ پہلے ہی اپنی اپنی رضائیاں سمیت 60سے70 طلبہ ان کے گھر پہنچ جاتے تھے۔بچوں کو ہوسٹل جیسی سہولیات مہیا تھیں۔ رات دیر تک پڑھانا ساتھ چیک اینڈ بیلنس کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔بچوں کو چائے بھی دی جاتی تھی۔اگر کوئی بچہ بیمار ہو جاتا تو دوائی کے ساتھ ساتھ دودھ بھی دیا جاتا کیونکہ گھر میں دودھ دستیاب تھا۔ عمر حیات خان مرحوم سخت طبیعت کے مالک اور اصول پسند تھے جبھی تو ایک کامیاب ہیڈ ماسٹر ثابت ہوئے ۔بتایا جاتا ہے کہ 1960 سے1970 تک ضلع میانوالی کے دو مقامات تعلیمی میدان میں نمایاں پہنچان اور حثیت رکھتے تھے ان میں نورنگا (میانوالی) اور اپنا ترگ۔۔بہت بڑی اور فخر کی بات ہے اہل ترگ کے لئے کہ ہمارا ترگ شروع سے ہی تعلیمی میدان میں ایک نمایاں مقام رکھتا رہا ہے۔ بے شک میرے خطے کی مٹی بڑی زرخیز ہے۔اس دور میں چاہے کھیلوں کی سرگرمیاں ہوں،تعلیمی یا بزم ادب ہر شعبہ میں ہر سال ایوارڈز اور انعامات حاصل کیے۔۔۔۔۔ٹیوشن پڑھنے والا کمزور سے کمزور طالب علم بھی پاس ہو جاتا تھا۔گھر میں تمام طلبہ کا خاص خیال رکھا جاتا تھا،گھر میں پڑھانا اور وہ بھی فری بہت ہی مشکل کام ہے،خواتین کو گھر بہت پیارے ہوتے ہیں وہ زیادہ گھر پر بوجھ،رش برداشت نہیں کرتیں مگر ہیڈ ماسٹر صاحب کی فیملی نے نہ صرف یہ بوجھ باخوشی قبول کیا بلکہ ان کی رہائش کا بھی انتظام کیا،یہ بہت ہی بڑی بات اور امیزنگ ہے۔اگر اللہ نے کسی سے کوئی بڑا کام لینا ہو تو اس کے اندر ایسی محبت ودیعت کر دیتا ہے کہ پھر ایسے لوگوں کو ایسا کام کیے بغیر چین نہیں آتا،مخلوق خدا کے لئے کچھ کر گزرتے ہیں۔جو لوگ اپنی زندگی کو نیک کام کےلئے مختص کر لیتے ہیں اصل میں وہی لوگ امیزنگ پاکستان کہلاتے ہیں،

بقول اقبال رح

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے

میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

کسی بھی ادارے کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے سربراہ کے ساتھ ساتھ ٹیم بھی مثالی اور فرض شناس ہو۔ مقاصد حاصل کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔یہاں بھی ایسا ہی ہوا ہیڈ ماسٹر صاحب کو سٹاف بھی زبردست ملا،جس نے علاقے کی تعلیمی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ مختلف ذرائع سے سٹاف کے جو اسمائے گرامی معلوم ہوئے وہ درج ذیل ہیں۔

 

1:سر محمدیار مرحوم عیسی خیل، 2=سر احسن خان مرحوم عیسی خیل،3= سر ملک اکبر مرحوم عیسی خیل،4=سر حاجی احمد خان۔عمر خیل۔5=سر فتح محمد مرحوم جھلار،6= رشاہنواز خان مرحوم مہار،7= سرشوکت عباسی،قرشی مرحوم۔8= سر طاہر حسن عباسی مرحوم۔9= سر محمد اکبر،،موچی11=سر مدد خان مرحوم ابراھیم خیل۔10= سر ولی داد خان مرحوم اکوال،۔۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو اساتذہ کرام رحلت فرما چکے ہیں اللہ پاک ان کو جنت میں اعلی و رفع مقام عطا فرمائے۔آمین۔۔۔۔۔۔

ہیڈ ماسٹر صاحب سے فارغ التحصیل طلبہ کہ تعداد بہت زیادہ ہے ان کا شمار کرنا مشکل ہے۔جو مختلف اداروں میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں،کئی ریٹائر ہو گئے ہیں۔۔ ان میں،پاک آرمی،پی اے ایف،نیوی،،بینکینگ،محکمہ تعلیم،محکمہ ہیلتھ،،،،وغیرہ

ہیڈ ماسٹر صاحب مرحوم سے فارغ التحصیل طلبہ مختلف اداروں میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔بہت سے ریٹائر بھی ہو چکے ہیں۔ان میں کثیر تعداد معزز اساتذہ کرام،پی اے،ایف،آرمی،محکمہ صحت کے اداروں وغیرہ کی ہے۔اگر معزز اساتذہ کرام،دیگر محکموں کے افراد کی تفصیل کی طرف جائیں تو ان پر ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔دامن پوسٹ گنجائش نہیں کہ اتنی لمبی فہرست کو سمایا جا سکے۔تاہم یہاں صرف ان شخصیات کا ذکر ضروری ہےجہنوں نے وطن عزیز کے مختلف اداروں میں اعلی عہدوں پر فائز ہو کر ملک و قوم کی خدمات سر انجام دیں یا ابھی تک خدمت کر رہے ہیں۔۔

مختلف ذرائع سے جو معلومات حاصل ہو سکیں،ان معزز شخصیات کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔۔

1= سرسابق کرنل ڈاکٹر دوست محمد خان۔۔۔محمد خیل۔ترگ۔2=سر سابق ونگ کمانڈر محمد خان۔آرائیں۔ترگ۔3= سرغلام شبیر خان۔ رشیدے خیل۔،ترگ۔سابق،Dy,D.E.O عیسی خیل۔4=سر پروفیسر نادر خان اکوال ترگ۔سابق۔پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج عیسی خیل۔5=سر غلام رسول خان . اکوال ۔سابق ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ مڈل سکول ترگ۔6=سر عبیداللہ خان مرحوم ۔عمر خیل۔ایکسین ھائی وے۔7=سر ڈاکٹر عطااللہ خان۔اکوال۔سابق۔ایم ایس سرگودھا۔8=سر ڈاکٹر عبدالستار خان۔عمر خیل۔سابق ایم ایس۔میانوالی٩    =سر ڈاکٹر میر خان۔ رانجھے خیل۔ترگ۔10=سر عنایت اللہ خان۔پنجے خیل۔سابق۔DY,D.E.Oعیسی خیل۔11=سر ڈاکڑ ولایت خان۔مرحوم۔رانجھے خیل۔12=سر طارق عالم خان اکوال۔معروف ایڈووکیٹ۔ھائی کورٹ  13=سر عنایت اللہ خان۔چاون۔۔مرحوم۔۔معروف ایڈووکیٹ ۔ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب۔ لاہور۔14=سر حبیب اللہ خان۔مرحوم۔رشیدے خیل۔ تحصیل دار سرگودھا۔15= سرحافظ محمد فیض خان۔گجری خیل۔سابقDY,D,E,O عیسی خیل۔16=سر پروفیسر شیر گل خان۔مرحوم۔عمرخیل۔گونمنٹ کالج میانوالی۔17=سر ملک محمد نزیر،S.Eانجینئرنگ بلڈنگ-18=سر ملک شیر محمد S.E.بلڈنگ ھاوسنگ۔19=سر محمد شریف۔ بھمب انجینئر ریلوے۔20=سرعصت اللہ خان سابق ہیڈ ماسٹر گونمنٹ مڈل سکول ترگ۔21=سر شبیر احمد خان۔پنجے خیل۔سابق پرنسپل۔گورنمنٹ ھائیر سکینڈری سکول کمر مشانی۔22=سر نزیر احمد خان۔باجے خیل۔سابق انچارج ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ھائی سکول چھینہ پوڑہ ترگ۔23=سرممتاز حسین شاہ قرشی۔بینک مینجر    24=سر ڈاکٹر ملک علم دین۔ترگ۔25=سرڈاکٹر محمد رفیق خان نیازی ۔ترگ ۔ایم ایس۔میانوالی۔26=سر محمد افضال ھاشمی،ترگ۔اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات راولپنڈی۔27=سرمحمد اقبال عباسی۔ ترگ۔ٹیکسٹائل ملز آفیسر فیصل آباد۔28=سر جاوید احمد عباسی مرحوم۔ترگ۔ٹیکسٹائیل ملز آفسیر فیصل آباد۔29=سر فاروق احمد عباسی،ترگ ٹیکسٹائیل ملز آفیسر،فیصل آباد۔30=سر زبیر احمد عباسی،ترگ۔ٹیکسٹائیل ملز آفسیر،فیصل آباد۔31=سر ملک خضر حیات۔ترگ۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر پولٹری ریسرچ پنجاب۔32=ملک حقنواز ایکس،پرنسپل۔33=سرملک نور محمد خان گجری خیل۔SHO سرحد۔34=سر عطااللہ خان ۔رانجھے خیل۔ سابق اسسٹنٹ ایجوکیشن آفسیر عسیی خیل۔35=سر سید رسول خان۔سالار۔سابق۔S.D.O واپڈا عیسی خیل36=سر عطاءاللہ خان۔جالندھرخیل۔۔ر۔میجر آفیسر۔37=سر منور حسین شاہ ھاشمی مرحوم۔تاحیات چیرمین زکوہ کمیٹی۔38=سرخورشید احمد شاہ ھاشمی۔ترگ۔۔سابق بینک منیجر-39=سر ھدایت اللہ خان ۔عمرخیل۔۔چیرمین یوسی ترگ۔۔۔۔۔وغیرہ۔

حاجی عمر حیات خان مرحوم علم کی شمع روشن کرتے ہوئے بلاآخر 16مئی 2005″ کو خالق حقیقی سے جا ملے۔۔

1=غلام شبیر خان سابق Dy,D,E,O عیسی خیل۔۔

اللہ ہمارے استاد محترم کے درجات بلند فرمائے،بہت ہی محنتی اور ریاضی کے ماہر ٹیچر تھے۔اصول پسند اور فرض شناس،ان جیسا پڑھانے والا آج تک نہیں دیکھا،گھر میں بچوں کو فری ٹیوشن کے ساتھ ساتھ قرآن پاک بھی فری پڑھاتے تھے۔امیزنگ لوگ ہمیشہ امیزنگ ہی کہلاتے ہیں۔

2 پروفیسر نادر خان سابق پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج عیسی خیل..

حاجی عمر حیات خان مرحوم ،اصول پسند اور سخت طبیعت کے مالک تھے،جس کی وجہ سے اساتذہ اور بچوں پر بھی کافی رعب دبدبہ رہا،ترگ میں تعلیم کے فروغ کے لئے ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ہمارے اچھے ریاضی کے ٹیچر تھے،وقت کے پابند تھے۔اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے۔

غلام رسول خان سابق ہیڈ ماسٹر H/S,ترگ سٹی۔۔

عمر حیات خان مرحوم بہت محنتی اور فرض شناس ٹیچر تھے،پڑھانے کا انداز منفرد اور دلکش ہوتا تھا،کمزور سے کمزور طالبعلم کو بھی پڑھانے کا فن خوب آتا تھا،ان سے فارغ التحصیل طلبہ مختلف اعلی عہدوں پر فائز ہو چکے ہیں۔۔

حافظ محمد فیض خان گجری خیل..سابقDY,D,E,O عیسی خیل۔۔۔

حاجی عمر حیات خان مرحوم میرے بہت اچھے ٹیچر تھے،علم سے محبت کرنے والے،اصول پسند اور سخت طبیعت کے مالک تھے،اس لئے اسے کامیاب ترین ہیڈ ماسٹر قراردیا جا سکتا ہے،گھر میں بچوں کو خصوصآ آٹھویں جماعت کے 60 سے70 طلبہ کو سردیوں میں فری ٹیوشن پڑھاتے تھے،گھر میں بچوں کے لئے انھوں نے دو کمرے مختص کر رکھے تھے۔ریاضی کے ماہر ٹیچر تھے،

ماسٹر عمر خان ترگ(میانوالی)..

ماشااللہ جن لوگوں نے ترگ کی تعلیم کے لئے کام کیا ہے ان کو خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ بہت ضروری ہے جو آپ احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں،اللہ پاک آپ کو اور ہمت دے آپ کی تحریر بھی ماشاءاللہ بہت خوب صورت ہے۔جہاں تک جناب محترم عمر حیات خان مرحوم کا تعلق ہے ایسے لوگ معاشرے میں گنے چنے ہوتے ہیں جو بغیر لالچ اور اپنے فائدے کے بغیر کسی دوسرے کا بھلا کرتے ہیں،استاد محترم بھی انہی میں سے ایک تھے۔وہ آٹھویں جماعت کے لڑکوں کو آخری تین ماہ اپنے گھر،رات کو امتحانات کی خوب تیاری کرواتے،پوری سروس ان کا یہی معمول رہا ۔معاشرے اور قوموں کا وقار ان جیسے مخلص اور پیارے لوگوں کی وجہ سے ہوتا ہےیہ نہ صرف ترگ بلکہ محکمہ تعلیم کے لئے بھی باعث فخر ہیں۔

ماسٹر محمد حسن خان۔ رانجھے خیلH/Sترگ۔۔

عمرحیات خان مرحوم ہمارے بہت اچھے ٹیچر اور ریاضی کے ماہر تھے۔سردیوں میں ساری آٹھویں کلاس کوگھر پر فری پڑھاتے تھےبچے رضائیاں سمیت ان کے گھر میں ڈیرے ڈال دیتے تھے،امتحانات کی خوب تیاری کرواتے،بہت محنتی اساتذہ کرام میں ان کا شمار ہوتا تھا۔اللہ استاد محترم کی مغفرت فرمائے۔

محمد شریف سابق ٹیچر و انچارج ہیڈ ماسٹرH/Sترگ سٹی۔۔۔ہ

مارےایس وی ٹیچر تھے۔ریاضی کے ماہر ٹیچر تھے۔ریاضی پر ان کو کمال کی دسترس حاصل تھی۔ساری عمر سکول ٹائم کے بعدجماعت ہشتم کو امتحان کی تیاری کراتے۔بہت سخت مزاج اور اصول پسند ہیڈ تھے ریاضی پڑھانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔اللہ پاک انہیں غریق رحمت فرمائے۔۔

نزیر احمد خان سابق انچارج ہیڈ ماسٹرH/S چھینہ پوڑہ (ترگ)۔۔۔۔۔

حاجی عمرحیات خان مرحوم میرے استاد تھے،بہت اچھا پڑھاتے محنتی اور اپنے پیشے سے مخلص تھے۔ترگ کے لئے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔سکول ٹائم کے بعد بھی بچوں کی دیکھ بھال کرتے،اگر کوئی بچہ کھوڑ یا کانچ کے گولیاں کھیلتے ہوئے پکڑا جاتا تو اس کی خیر نہ تھی اسے سزا ملتی،اللہ ان کی مغفرت فرمائے       

ملک الطاف کلو۔ سابق آفیسرN,B,P۔۔۔۔۔

حاجی عمر حیات خان مرحوم ہمارے بہت اچھے اور قابل ٹیچر تھے۔گھر میں امتحان سے پہلے تمام طلباء کاگھر میں رہائش کا بندوبست کرتے،رات دن پڑھاتے،ان کی مخلصانہ کاوش کی بنا پر کوئی طالبعلم فیل نہ ہوتا،بلکہ کمزور لڑکے بھی اچھے نمبروں سے پاس ہوتے،بہت اچھے منتظم تھے،دعا ہے اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے۔

جنید نیازی راولپنڈی…..

ترگ میں تعلیم کے فروغ کے لئے ان کی بہت زیادہ خدمات ہیں،یہ اس ٹائم کے ہیڈ ماسٹر تھے جب لوگ تعلیم کی طرف کم رحجان رکھتے تھے۔لوگوں کو تعلیم کی طرف راغب کرتے۔ان کی بے لوث خدمات کو سلام۔اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔۔

فوجی استاد۔۔ (محلہ مانجھی خیل).

اللہ پاک استاد محترم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔تدریس میں ان کا کوئی ثانی نہیں،دوسروں کو بھی انہیں اپنا آئیڈیل بنانا چائیے تاکہ عاقبت سنور جائے۔۔۔

نوٹ= آخر پر آپ سب احباب سے عمرحیات خان مرحوم کے لئے التماس فاتحہ کی درخواست ہے۔۔۔شکریہ۔۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top