لوک داستانیں ، شاعری ، علامت
اکبر ساحر چھدرو کی ٹوبهڑی

هیر وارث شاہ یوں تو بہت طویل نظماتی شاہکار ھے اور اس کا کوئی سا بند بھی آپ سنیں یا پڑهیں تو دل کو کھینچتا ھے لیکن اکثر گلوکاروں نے گانے کیلئے ” ڈولی چڑهدیاں ماریاں هیر چیکاں” ھی چنا ھے – اس کی کئی وجوہات ھو سکتی هیں – اس کو سنتے هوئے والدین کو اپنی بیٹیوں کی رخصتی بھی یاد آسکتی ھے ، بیٹیوں کو اپنے میکے سے جدائی کا تصور ، کسی نامراد عاشق کو اپنی محرومی اور بہت کچھ – ساتھ میں هیر کی ادائیگی کے مخصوص انگ میں اس کی سماعت دل پر مزید اپنا رنگ جماتی ھے لیکن تمثیل کے حوالے سے دیکھا جائے اور هیر کو روح کی علامت اور اس کی جسم سے نکلتے هوئے پکار سمجھی جائے تو ایک اور ھی منظر سامنے آتا ھے – یہ باتیں مجهے لتا منگیشکر کی مدھر آواز ، وارث شاہ کا کلام اور هیر کی مخصوص دھن سنتے یاد آئیں اور میں نے یہ گیت شیئر کیا تو ایک سینئر ریڈیو انجنئیر ، نہایت باذوق ساتهی براڈ کاسٹر ، سید غلام حسین جعفری نے اپنی سماعت کی کیفیت بیان کرتے ھوئے بتایا ،
“.سناٹا چھاگیا، دل ابل پڑا، آواز گلے میں گھٹنے لگی، آنکھیں چھلک گئیں اور مجھ پر سکتا سا ہوگیا۔ لتا کے گلے کی صلاحیت کا اندازہ اس سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ مہدی حسن کے گلے میں لتا کے مطابق بھگوان بولتا تھا لیکن اس کے گلے میں تو بھگوان براجمان ہے۔ ایسی آواز کسی کو نصیب نہیں۔سبحان اللہ”
لوک گیتوں کو اس پس منظر میں سمجھنے کا سبق مجھے ایسے بزرگوں سے ملا تھا جو کبھی کسی سکول بھی نہیں گئے تھے – چن کتهاں گزاری اے ای رات کا معنی مجھ سے پوچھا گیا تھا اور یہ بھی کہ ، یہ کوٹھے تے پڑ کوٹهڑا کا مطلب کیا ھے – ظاہر ھے میرے پاس اس کا جواب نہیں تھا – میں اس وقت بی ایس سی کا سٹوڈنٹ تھا اور یہ گفتگو محلہ زادے خیل میں چاچا جیلانی جلد ساز کی دکان پر ھو رھی تھی جہاں محلے کے بوڑھے جوان بچے سب مل کر گپیں لگاتے تھے – میرے جواب نہ دینے پر
نانا محمد نے ، جو مستری تھے اور اب ضعیف العمری کی وجہ سے کام کاج سے رہ گئے تھے ( ھمارے معاشرتی ادب میں اسی طرح کے رشتوں سے بزرگوں کا نام لیا جاتا تھا ، یہ 1966 کے دن تھے ) مجھے کہا تھا ، یہ کوٹهے تے پڑ کوٹهڑا ، آسمان در آسمان کی بات ھے اور معراج کی رات زمین پکار رھی ھے ، اے میرے چاند کل رات تم نے کہاں گزار دی ، میرا دل بہت پریشان اور وسوسوں میں گھرا رھا –
اس میں ایک بول ھے ،
کوٹھے تے پڑ کوٹهڑا وے کوئی کوٹھے سکدی ریت بھلا
اساں گندهائیاں مینڈهیاں سانوں اسے بہانے دیکھ بھلا ( ھم نے زلفیں گوندھیں هیں کہ کسی طریقے سے ھم آپ کی نگاہ میں آجائیں ) – یعنی آسمان پر حوریں معراج کی رات اپنی زلفیں سنوار کے آپ صلے اللە علیہ و آلہ وسلم کی نظر التفات میں آنے کی تمنا کر رھی هیں –
نانا محمد ممک زئی کی اس وضاحت پر میں لاجواب ھوگیا – اس دن کے بعد سے میں نے لوک گیتوں کو کبهی سرسری انداز میں نہیں لیا ، بہت سنجیدہ اور معاشرے میں گندھی ھوئی جڑیں سمجھا ھے – میرے اس رویے نے مجھے لوک دانش کو سمجھنے اور سیکھنے کا مفید شوق عطا کر دیا ھے – آپ سوچئے کیا آپ نے چن کتھے گزاری اے کے گیت پہلے کبهی کو اس طریقے سے سوچا ھے –
میانوالی کی زبان کا سب سے کامیاب کلاسیک شاعر اکبر گزرا ھے – اکبر چھدرو کا رهنے والا تھا – چاچا جیلانی کی دکان پر بزرگ کبھی کبھار اس کا ذکر کرتے تھے – یہ ذکر بہت نامکمل تھا لیکن ایک گیت ان سب کو ازبر یاد تھا اور لگتا ھے کہ اکبر ساحر کا وہ گیت ھی اس کی اصل پہچان تھی – میانوالی کے پرانے لوگ شاعر کو اپنی زبان میں ساحر کہتے تھے – اکبر ساحر کا وہ گیت کچهه یوں تھا –
شالا توں نہ سکے آ ٹوبهڑی ،
تیڈے وسیاں یار دے نت میلے
ٹوبها تالاب کو کہتے هیں اور ٹوبهڑی اسم تصغیر ھے یعنی چهوٹا تالاب –
اس میں شاعر تالاب کو دعا دے رھا ھے کہ اللە کرے تو کبھی خشک نہ ھو – تو ھے تو یار پانی بھرنے آتا ھے اور ملاقات کی سبیل نکلتی هے -تو سوکھ گیا تو یار کے ملن کا امکان ھی ختم ھو جائے گا –
پانی بهرنے کے گیتوں اور محبوب کے ملن کے موضوع پر برصغیر کی ساری علاقائی زبانیں بهری پڑی هیں – پرانے وقتوں میں کنواں ، رهٹ ، تالاب ، جوہڑ ، چشمے ، جهیلیں دریا وغیرہ ھی پن گهاٹ ھوتے تھے – پانی بهرنا گھر کی خواتین کی ذمے داری تھی – پانی بهرنا پیشہ بهی تها اور پانی بهرنے والی عورتوں کو پنهاریاں کہا جاتا تها – سو پن گهاٹ عشاق کے نزدیک مقدس مقامات تھے جہاں عشق محبت کی نت نئی داستانیں جنم لیتی تهیں –
موهے پن گهٹ پہ نند لال چهیڑ گیو رے —
اس موضوع پر ایک انتہائی درد ناک کہانی میرے ذاتی علم میں هے جو میرے آبائی قصبے داود خیل کا واقعہ ھے – ایک لڑکی کا محبوب قتل ھوگیا جو اس کے مخالف خاندان سے تھا – اس لڑکی نے مویشی کھولے اور پانی پلانے کے بہانے اپنے محبوب کا آخری دیدار کر آئی تھی –
لیکن اکبر ساحر کی ٹوبهڑی کے بارے میں ان بزرگوں کا خیال تھا – یہ اس نے دل کیلئے استعمال کیا ھے اور دل جب تک آباد رھتا ھے ، سب سے بڑے محبوب ، اللە سوهنے سے ملاقات کی آس رھتی ھے –
اکبر ساحر کا مکمل مجموعہ کلام تو سامنے نہیں آسکا لیکن اس پر واں بهچراں کے ولی محمد انجم نے اپنا تھیسز لکها ھے – محترم اجمل نیازی نے اکبر ساحر کا اجمالی خاکہ لکھا ھے – اس کا ایک مصرع اس کی زندگی بھر کے دکھوں کا آئینہ دار ھے اور وہ ھے –
مینوں ماء ڈکهاں کنڑ جایا
(میری ماں نے مجھے دکهوں کیلئے جنم دیا هے )
کہتے هیں اکبر چھدرو کو چیچک کا مرض لاحق ھوا تھا جس سے اس کا چہرا اور بینائی بری طرح متاثر ھوئی تھی – اس کی محرومیوں نے اس کے طنز میں انتہائی کاٹ رکھ دی تھی – ایک بار موسے خیل کے غورنی قبیلے کی کسی اور قبیلے سے لڑائی ھوئی – اکبر ساحر نے اس لڑائی پر ایک نظم لکھی –
رناں دیاں گلاں چا منیاں
بھیڑ چا کیتی غورنیاں
( عورتوں کی باتیں مان کر – غورنی قبیلے کے لوگوں نے لڑائی کر دی )
اس نظم کے بعد دوبارا لڑائی چهڑ گئی اور بہت خون خرابہ ھوا – اکبر ساحر کی ضلعی سطح پر ڈپٹی کمشنر آفس سے زبان بندی کر دی گئی – حکومت وقت کی جانب سے زبان بندی کے اعتبار سے اکبر ساحر میانوالی کا پہلا شاعر ھے – خوبصورت بانسری بجانے پر بھی نقص امن کے خطرے کے پیش نظر ضلع زبان بندی کے قصے سنے هیں که بانسری سن کر کئی لڑکیاں گھر سے بھاگ ( ادھل ) گئی تھیں لیکن کسی مخصوص بانسری نواز کا نام یاد نهیں هے –
علاقائی گیتوں میں علامت کی ایک اور دلچسپ مثال یاد آگئی – کوئٹہ کی بات ھے – سن 1976/7 میں ریڈیو پاکستان کے اکاونٹ کلرک سلیم نے مجھے کہا تها کہ آپ ایک گیت کبھی کبھار ضرور اپنے صبح کے پروگرام گلدستہ میں نشر کیا کریں – میرا ایک پڑوسی بابا مجھ سے اکثر فرمائش کرتا رهتا ھے – اور وہ سنتا ھے تو بے اختیار روتا رھتا ھے – وجہ پوچهی تو حیران رہ گیا – گیت تھا –
چنگا بنایا ای سانوں کهڈونا
آپے بناونا تے آپے مٹاونا
اور وہ بابا اس گیت میں اللە میاں کے تخلیقی کھیل میں خود کو کهلونا سمجه کر گیت کا لطف لیتا تھا –
قصہ مختصر میں یہی سمجھا هوں کہ لوک کہانیوں اور گیتوں کے کرداروں کو تاریخ کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے ان کے مخصوص کلچرل بیک گراونڈ میں سمجھنے کے ضرورت ھوتی ھے – اور یه بات تو آپ پہلے کہیں سن چکے هوں گے کہ لوک داستانوں اور گیتوں سے اس زمانے کی عوامی تاریخ تک آشکار ھوتی ھے – تاریخ دان سچ کے نام پر بادشاهوں کی جھوٹی تاریخ لکھتے هیں لیکن شاعر اور فنکار جهوٹ کے پردے یعنی فکشن و نظم (داستانوں اور گیتوں) کے پردے میں اپنے دور کے عوام اور معاشرے کی باطن کی سچی تصویر پینٹ کرتے هیں –
میرا مشاہدہ ھے دیہی پس منظر کے لوگ خاص طور پر سندھی شاعری کے قارئین شاہ لطیف بهٹائی ، پشتون عوام رحمان بابا اور پنجابی و سرائیکی اپنے کلاسیک صوفی شعرائے کرام کے کلام کو علامتی اور تمثیلاتی طور پر اسی انداز میں انجائے کرتے ہیں اور علامت کا استعمال کوئی جدید عمل نہیں ، ھمارے لوک ادب کی پرانی روایت ھے —–

ظفر خان نیازی –5 مارچ2016

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top