منورعلی ملک کےاپریل 2021 کےفیس بک پرخطوط

میرا میانوالی

السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
مصروفیت کے بارے میں چند روز پہلے بتا دیا تھا کہ ان دنوں انگریزی ادب کی تاریخ لکھ رہا ہوں – الحمدللہ کام اب آخری مراحل میں ہے – لیکن کسی بھی کام کے آخری مراحل میں معمول سے بڑھ کر بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے – مکان کی چھت بن جانے کے بعد پلستر، چُونا سفیدی، رنگ روغن ، بہت سا نِک سُک اور بھی کرنا پڑتا ہے – آج کل میری کتاب کاکام بھی انہی مراحل میں ہے – اس لیئے دوچار چُھٹیاں ایک ساتھ کرنی پڑگئیں –
فیس بک سے چُھٹی کرنا اچھا نہیں لگتا ، 5000 فرینڈز ، 9190 فالوورز اور 838 فرینڈ ریکوئسٹس والے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ساتھیوں کا ہر لمحہ احساس رہتا ہے – اللہ آپ سب کو سلامت رکھے ، فیس بک سے چُھٹی کے دن بھی فجر کی دعاؤں میں آپ کو یاد رکھتا ہوں – آپ کی محبت اور دعائیں میرا بہت قیمتی سرمایہ ہیں – کبھی کبھی چھٹی تو کرنا پڑتی ہے ، فیض صاحب نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ ————–
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سِوا
——————- رہے نام اللہ کا ——-بشکریہ-منورعلی ملک-1      اپریل 2021

میرا میانوالی

اپریل کا مہینہ شروع ہو چکا – یہ عیسوی کیلنڈر کے مطابق سال کا چوتھا مہینہ ہے – موسم کے لحاظ سے یہ بہار کا وسط اور موسم گرما کا آغاز کہلاتا ہے – اس مہینے کا پہلا دن مغربی کلچر میں احمقوں کا دن کہلاتا ہے – لوگ عجیب و غریب جھوٹ گھڑ کر ایک دوسرے کو اپریل فُول بناتے ہیں اور اس پر قہقیے لگاتے ہیں – عیسایئوں کا مذہبی تہوار ایسٹر بھی اس مہینے میں ہوتا ہے – یہ تہوار چار دن کا ہوتا ہے ، عموما یہ اپریل کے آغاز میں آتا ھے – چاند کی چودھویں تاریخ کے بعد پہلے اتوار سے شروع ہوتا ہے – اس سال ایسٹر کا آغاز4 اپریل سے ھوگا –
4 اپریل ہماری تاریخ کا ایک المناک دن بھی شمار ہوتا ہے کیونکہ اسی دن (4 اپریل 1979) وزیراعظم پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دی گئی –
بھٹو کی سیاست سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن وزیراعظم کی حیثیت میں انہوں نے بعض بے مثال کارنامے سرانجام دیئے – پاکستان کا ایٹمی پروگرام ، موجودہ آئین ، اسلامی سربراہی کانفرنس کا پاکستان میں انعقاد ، مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا قانون بھٹوصاحب کی مستقل یادگاریں ہیں – بھٹو پاکستان کو عالم اسلام کا قائد بنانا چاہتے تھے – ان کا یہ عزم ہمارے دنیاوی آقاؤں (امریکہ وغیرہ) نے جرم قراردیا – اس لیے بھٹو صاحب کو منظرعام سے ہٹانا ضروری سمجھا گیا – قتل کے ایک مقدمے میں بھٹو کو سزائے موت دلوا کر 4 اپریل کو صبح 4 بجے بھٹو صاحب کو اڈیالہ جیل میں پھانسی دے دی گئی –
میرے کزن ملک اعجازحسین سپریم کورٹ میں اسسٹنٹ رجسٹرار تھے – وہ راولپنڈی صدر میں کچہری چوک کے قریب سرکاری مکان کی بالائی منزل پر رہتے تھے – نچلی منزل پر ایک مجسٹریٹ رہتا تھا – بھٹو صاحب کی سزائے موت کے وقت یہی مجسٹریٹ صاحب موقع پر مامور تھے – صبح سویرے انہوں نے بھائی جان اعجاز سے کہا–“Malik Sahib, Bhutto is no more.”(ملک صاحب ، بھٹو صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے) –
ہر سیاست دان کی طرح بھٹو صاحب بھی ایک متنازعہ شخصیت تھے۔ انسان کی حیثیت میں غلطیاں ان سے بھی بہت ھوئیں ، لیکن آج کے دن کے حوالے سے ان کا ذکر ضروری تھا
اپریل کا کچھ ذکر ان شآءاللہ کل بھی ہوگا –—————– رہے نام اللہ کا ——بشکریہ-منورعلی ملک-2      اپریل 2021

میرا میانوالی

سوتوں کو جگانے والی آواز خود ابدی نیند سوگئی –
مہان لوک گلوکار شوکت علی سرحد حیات کے اس پار جا بسے – ایک عجیب سی گونج تھی شوکت کی آواز میں – انگریزی میں تو اسے sharp tang کہتے ہیں ، اردو میں پتہ نہیں کیا کہتے ہوں گے –
صوفیانہ کلام، ہیر وارث شاہ اور سیف الملوک گانے میں شوکت علی اپنی مثال آپ تھے – گیتوں میں “کیوں دُور دُور رہندے او حضور میرے کولوں “ ان کی پہچان تھا – بہت اُونچے سُروں کے گلوکارتھے – ان کی آواز لاکھوں دلوں کی دھڑکنوں کی ہمراز تھی – 1990 میں انہیں صدارتی ایوارڈ بھی ملا – اور بھی کئی اعزازات ان کے حصے میں آئے- 2009 میں انڈیا کی فلم “لَو آج کل“ میں بھی شوکت کا نغمہ “کدی تے ہس کے بول وے“ شامل کیا گیا –
شوکت ملکوال ضلع منڈی بہاؤالدین کے ایک فن کار گھرانے کے چشم و چراغ تھے – کافی عرصہ سے دل جگر اور گردوں کے مختلف امراض میں مبتلا تھے – PPP کے چیئرمین بلاول بھٹو کی ہدایت پر سندھ حکومت ان کا علاج کرواتی رہی – کچھ عرصہ قبل آرمی چیف کی ہدایت پر انہیں سی ایم ایچ ہسپتال لاہور شفٹ کیا گیا – بیماریوں کا علاج تو ہوسکتا ہے ، موت کا کیا علاج – کل 2 اپریل کو شوکت علی اس دنیا سے رخصت ہو گئے –
پیار اور انکسار کا ایک حسین امتزاج تھی شوکت کی شخصیت – ان سے ایک ہی ملاقات ہوئی ، مگر ان کا پیار ہمیشہ کے لیے دل پر نقش ہو گیا – فلیٹیز ہوٹل لاہور میں لالا عیسی خیلوی کے ساتھ ایک شام منائی گئی – مجھے بھی لالا کے بارے میں اظہارخیال کی دعوت دی گئی – میانوالی سے منصورآفاق ، افضل عاجز ، نوجوان شاعر مرحوم عبدالمالک عبدل اور واں بھچراں سے ہمارے بہت پیارے ساتھی روشن ملک گھنجیرہ میرے ہمراہ تھے – لالا عیسی خیلوی اس زمانے میں علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے –
فلیٹیز ہوٹل کی تقریب میں شوکت علی بھی موجود تھے – لوگوں نے ان سے کچھ سنانے کی فرمائش کی تو شوکت علی نے ہاتھ جوڑ کر کہا
“ مّعافی چاہتا ہوں – کوئی اور موقع ہوتا تو ضرور گاتا ، مگر آج کی شام لالا کے نام ہے ، سب دادوتحسین لالا کو ملنی چاہیئے – میں درمیان میں اپنا لُچ تل کر اپنے لیے واہ واہ نہیں سننا چاہتا – آج سب واہ واہ لالا کے لیے ہونی چاہیئے “-
—————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-3     اپریل 2021

میرا میانوالی

انگریز کے دور میں اپریل کا سالم مہینہ سکول بند رہتے تھے – ان چھٹیوں کو “لَوواں آلیاں چھٹیاں“ کہتے تھے ، کیونکہ دراصل یہ چھٹیاں “ لَو“ —فصل کی کٹائی—- کے لیئے ہوتی تھیں – دیہآتی علاقے میں بچے بھی فصل کی کٹائی میں گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے تھے – اس لیے یہ چھٹیاں ضروری تھیں – انگریز ظالم سہی ، مگر علاقے کے رسم و رواج کا خیال رکھتے تھے –
دیہی علاقے کی معیشت سو فیصد زرعی تھی – پیسے کاکام بھی گندم سے لیا جاتا تھا – نقد پیسہ تو صرف ملازموں کو تنخواہ کی صورت میں ملتا تھا – باقی لوگ اپنی ضروریات زندگی گندم کے بدلے میں خریدتے تھے – دکان دار گندم تول کر مقررہ نرخ کے مطابق اس کی قیمت بتا دیتے اور پھر لوگ اتنی قیمت کی چیزیں خرید لیتے تھے – جب گندم ختم ہو جاتی تو اگلی فصل تک ادھار چلتا تھا –
فصل کی کٹائی کے بعد اپنے حصے کی گندم کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا تھا – سال بھر کھانے کے لیے گندم نکال کر بقیہ گندم پیسوں کی جگہ استعمال کی جاتی تھی –
یہی موسم شادیوں کا موسم بھی کہلاتا تھا – کیونکہ شادی کے اخراجات بھی گندم بیچ کر ادا کیے جاتے تھے -سیدھی سادی شادیاں ہوتی تھیں – اس لیے خرچ بہت کم ہوتا تھا –
شہری علاقوں میں لَووں کی چھٹیاں نہیں ہوتی تھیں – وہاں عیسائیوں کے تہوار ایسٹر کے نام پر اپریل کے پہلے دس دن چھٹیاں ہوتی تھیں – ان چھٹیوں کے بعد نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا تھا – اس لیے بچوں کو نئی کلاس کی کتابیں خریدنے کی مہلت بھی ان چھٹیوں کے باعث مل جاتی تھی –
قیام پاکستان کے بعد یہ نظام تبدیل ہو گیا – دیہات کی معیشت بھی زرعی کی بجائے کاروباری ہو گئی ، اس لیے لَووں کی چھٹیوں کی ضرورت ہی نہ رہی –
———————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-5      اپریل 2021

میرا میانوالی

لہور لہور اے ——- !
ایک رکشے والا کہہ رہا تھا “ او جی کوئی کرونا شرونا نئیں ہیگا – ایویں ای ڈراما بنایا ہویا ہے اینہاں نے ، لوکاں نوں تنگ کرن لئی “
دودھ دہی کی دکان پر ایک بابا جی کہہ رہے تھے “ یہ جو ماسک ہے، اسی سے کرونا ہوتا ہے – ماسک پہننے کی پابندی کروا کے سرکار چاہتی ہے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کرونا ہو تاکہ باہر سے امداد لی جا سکے – یہ سارا چکر مال سمیٹنے کا ہے –
فروٹ کی ریہڑی والا چاچا کہہ رہا تھا “ جس کی موت کرونا سے لکھی ہے ، کرونا صرف اسی کو ہوتا ہے “ –
اس کا ایک گاہک کہنے لگا “ دیکھ لینا ، جس طرح اچانک یہ کرونا آیا ہے اسی طرح ایک دن اچانک غائب بھی ہو جائے گا “-
ٹویٹر پر ایک بی بی کی بات نظر سے گذری کہ “ مجھے پڑوسن نے بتایا باہر پولیس والے مُرغا بنا رہے ہیں – میں معصوم بھی شاپر لے کر مرغے کا گوشت لینے کے لیے باہر نکلی تو دیکھا کہ پولیس والوں نے کچھ نوجوانوں کو ماسک نہ پہننے پر سڑک کے کنارے مُرغا بنا رکھا تھا“
کورونا بھی کیا یاد کرے گا کس قوم سے واسطہ پڑگیا –
بہر حال احتیاط ضروری ہے – کرونا کا جتنا چاہیں مذاق اڑا لیں ، چیز بہت خطرناک ہے – اللہ کریم ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے – جو لوگ اس کا شکار ہو کر چلے گئے ان کی مغفرت فرمائے ، جو اس میں مبتلا ہیں انہیں اس سے نجات دے اور جو اس سے محفوظ ہیں ان کی حفاظت فرمائے – جتنی ہوسکے احتیاط کریں – اللہ ہم سب کا حافظ و ناصر ہو –
——————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-6      اپریل 2021

میرا میانوالی

نہ ریڈیو تھا ، نہ ٹی وی ، دوراُفتادہ دیہاتی علاقوں میں افواہوں سے کام چلتا تھا – قیام پاکستان کے دنوں میں ہندومسلم فسادات ، بالخصوص سِکھوں کے مظالم کی ہولناک داستانیں جنگل کی آگ کی طرح تیزی سے پھیل رہی تھیں –
ہمارے علاقے میں تو ہندو مسلمان بھائیوں کی طرح مل جل کر رہتے تھے – مکمل امن تھا – سکھ اس علاقے میں آٹے میں نمک سے بھی کم تھے – ہمارے داؤدخیل میں ایک ہی چاچا سِکھ تھا ، اب تو اس کا نام بھی یاد نہیں آرہا – ہندو بہت تھے ، مگر وہ بھی مکمل طور پر امن پسند تھے – زیادہ خُون خرابہ مشرقی پنجاب میں ہوا ، جہاں سَکھوں کی اکثریت تھی –
ویسے تو ہمارا علاقہ پُرامن تھا، لیکن مشرقی پنجاب (امرتسر وغیرہ کے علاقے) سے آنے والی افواہیں سن کر یہاں بھی لوگوں کا خُون کھَولنے لگا – داؤدخٰیل کے ایک نوجوان ، قبیلہ داؤخٰیل کے خالق دادخان نمبردار نے دوہندو تاجروں کو بھری دوپہر کے وقت فائر مار کر قتل کردیا –
جب نوبت یہاں تک پہنچی تو ہندو راتوں کے اندھیرے میں اس علاقے سے رخصت ہونے لگے – وہ لوگ بھرے گھر چھوڑ کر چلے گئے تو ” لوٹی “شروع ہوئی – جس کے ہاتھ جو چیز لگی اٹھا کر لے گیا- فرنیچر، بستر، برتن ، سب کچھ لُٹ گیا – صرف نقد پیسہ اور زیور ہندو ساتھ لے گئے تھے-
ہم اس وقت پہلی کلاس میں پڑھتے تھے – سکول کے ساتھ والے گھروں میں لوٹی لگی تو میں ، میرے کزن ملک ریاست علی اور ہمارے بہت پیارے دوست محمد صدیق خان بہرام خیل ایک گھر میں داخل ہوئے – لوگ سامان اٹھا رہے تھے – ہم پہلی کلاس کے بچے کرسی، میز یا چارپائیاں تو اٹھا نہیں سکتے تھے – ایک کمرے میں چند رجسٹر پڑے تھے ، ہم نے وہ اٹھا لیے – وہ گھر ایک ہندو دکان دار کا تھا – رجسٹروں پر لوگوں کے ادھار کا حساب کتاب لکھا ہوا تھا – اپنے گھر آکر دیکھا تو ان رجسٹروں میں ایک بھی ورق خالی نہ تھا – بہت دنوں تک لوگ ہماری عقلمندی کا مذاق اڑاتے رہے –
—————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-7      اپریل 2021

میرا میانوالی

70 سالہ بوڑھا شخص بچوں کی طرح پھُوٹ پُھوٹ کر رو نے لگا –
وہ شخص 50 سال بعد صرف ایک دن کے لیے اپنے آبائی شہر داؤدخٰیل آیا تھا –
بات ہورہی ہے مشہورو معروف ہندو افسانہ نگار ہر چرن چاولہ کی – قیام پاکستان کے وقت دوسرے ہندوؤں کے ساتھ چاولہ کی فیملی بھی انڈیا منتقل ہو گئی تھی – چاولہ کا بچپن داؤدخیل میں گذرا ، جوانی میں قدم رکھا تو وطن چھوڑ کر پرائے دیس (انڈیا) جانا پڑا-
چاولہ کے والد ریلوے میں کلرک تھے – وہ داؤدخیل ریلوے سٹیشن پر ریلوے ریسٹ ہاؤس کے سامنے ایک چھوٹے سے کوارٹر (سرکاری مکان) میں رہتے تھے – چاولہ کا بچپن اس کوارٹر میں گذرا – ان کا آبائی گھر محلہ لمے خیل میں تھا — 50 سال بعد داؤدخٰیل آنا ہوا تو اس نے سب سے پہلے وہ کوارٹر دیکھنے کی فرمائش کی – اس کی اہلیہ پورنیما بھی اس کے ساتھ تھیں – پورنیما شہباز خیل کے ایک ہندو گھرانے سے تھیں – چاولہ اور اس کی اہلیہ داؤدخیل میں ہمارے مہمان تھے – پروفیسرمحمد سلیم احسن بھی میانوالی سے ہمارے ہمراہ آئے تھے –
کوارٹر میں قدم رکھتے ہی چاولہ بچوں کی طرح پُھوٹ پُھوٹ کر رونے لگا – برآمدے کے ایک کونے میں فرش کو چُومتے ہوئے کہنے لگا “ یہاں میری امی بیٹھ کر کھانا بناتی تھیں – مجھے لگ رہا ہے میں ان کے پاؤں چوم رہا ہوں”—- برآمدے اور کمرے کے فرش سےتھوڑی سی خاک اپنے ہاتھوں سے سمیٹ کر چاولہ نے جیب میں ڈالی اور کچھ دیر بعد ہم وہاں سے روانہ ہوگئے –
چاولہ اس وقت دنیا کے جدید ترین شہر ، ناروے کے دارالحکومت , اوسلو میں رہتے تھے – اوسلو جیسے بارونق شہر کا رہنے والا داؤدخٰیل کی ویرانی اور غریبی کا شیدائی تھا – حکومت نے صرف ایک دن کے لیے داؤدخیل آنے کی اجازت دی تھی ، اس لیے انہیں اسی شام واپس جانا پڑا – یہ ان کا آخری پھیرا تھا – چندسال بعد پہلے پورنیما ، پھر چاولہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے-
اس دورے کی رُلا دینے والی داستان چاولہ کی کتاب “تُم کو دیکھیں“ میں محفوظ ہے – یہ کتاب سنگ میل پبلشرز لوئر مال، لاہور سے مل سکتی ہے – چاولہ نے یہ کتاب مجھے بھی بھیجی تھی مگر کوئی لے کر غائب ہوگیا –
————————– رہے نام اللہ کا —اپنا شعر۔۔۔۔۔
چھوڑ تو دیا مجھ کو،
اب بھلا کے بھی دیکھو

بشکریہ-منورعلی ملک-8      اپریل 2021

میرا میانوالی

حاصلِ زیست لمحات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ لمحے جو مرا دل تیری محفل میں گذار آیا
3 دسمبر 2019

میرا میانوالی

داؤدخیل ریلوے سٹیشن کے بعد چاولہ نے اپنا پرانا سکول دیکھنے کی فرمائش کی – اس نے مڈل کا امتحان 50 سال پہلے اسی سکول سے پاس کیا تھا – اس زمانے میں میرے دادا جی مولوی ملک مبارک علی المعروف مولوی جی صاحب اس سکول کے ہیڈماسٹر تھے –
وہ دور تو کب کا ختم ہوچکا تھا ، لیکن سکول موجود تھا – چاولہ نے کہا اس سکول سے میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں – چاہتا ہوں کہ مرنے سے پہلے ایک بار پھر اپنی یادوں کا گہوارہ دیکھ لوں – راستے میں وہ اپنے ٹیچرز اور کلاس فیلوز کا ذکر کرتا رہا – دادا جی کی بہت تعریف کی کہ وہ ایک مثالی ایڈمنسٹریٹر تھے-
سٹیشن سے سکول کی طرف آتے ہوئے جامع مسجد سے ذراآگے بائیں ہاتھ چاچا دوسا کے گھر کے سامنے سے گذرے تو میں نے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا “یہ چاچا دوسا کا گھر ہے- افسوس کہ چاچا دوسا اور ماسی بختی اب اس دنیا میں موجود نہیں “- چاولہ کی آنکھیں بھیگنے لگیں –
50 سال پہلے جب چاولہ اپنی فیملی کے ساتھ داؤدخیل سے انڈیا روانہ ہوا اس وقت چاچا دوسا داؤدخیل کا مشہورو معروف نوجوان تھا – اس کے دونوں بازو کٹ گئے تھے – چاولہ نے یہی واقعہ ایک افسانے کی صورت میں لکھا تھا جو لاہور کے ایک رسالے “ادبِ لطیف“ میں شائع ہوا تھا – افسانے کا عنوان تھا “دوسا“ – یہی افسانہ چاولہ سے ہمارے تعارف کا وسیلہ بن گیا – میرے بڑے بھائی ملک محمدانورعلی کی چاولہ سے خط وکتابت بھی ہوتی رہی – اب بھائی جان بھی اس دنیا میں نہیں تھے – چاولہ نے ان کی قبر پر حاضری دے کر قبر کی پکچر اپنی کتاب میں شامل کی –
دن کا پچھلا پہر تھا – سکول تو بند تھا – ہم نے چوکیدار سے کہہ کر دروازہ کھلوایا – چاولہ ایک ایک کمرے کے دروازے کو بوسہ دے کر اپنی یادیں تازہ کرنے لگا – پھر کہا اگر ہو سکے تو مجھے وہ گھنٹہ بھی دکھا دیں جو سکول کی حاضری اور چُھٹی کے وقت بجایا جاتا تھا – وہ گھنٹہ ریلوے لائین کا دو اڑھائی فٹ لمبا ٹکڑا تھا جو لوہے کی ہتھوڑی سے بجایا جاتا تھا – بہت سُریلی آواز تھی اس کی – پُورے شہر میں سنائی دیتی تھی -وہ گھنٹہ اب بھی موجود تھا – چاولہ نے اس کو بوسہ دے کر بجایا بھی – بہت خوش ہؤا اس کی آواز سن کر –
سکول سے نکلنے لگے تو چاولہ نے بتایا کہ لمے خیل قبیلہ کا اکبر خان اس کا بہت پیارا دوست تھا – اتفاق سے اسی وقت چاچا اکبر خان ادھر سے گذرے تو ہم نے بتایا کہ یہ آدمی آپ سے ملنا چاہتا ہے – چاچا اکبر خان نے ہرچرن چاولہ کو بہت غور سے دیکھتے ہوئے کہا “ چرن ایں ۔۔۔۔ !!!!!
پھر دونوں طرف ضبط کے بند ٹُوٹ گئے – دونوں دوست گلے مل کر زارو قطار رونے لگے –
———————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-10      اپریل 2021

میرا میانوالی

چاولہ کے بارے میں میری گذشتہ پوسٹ پر کمنٹس میں کئی ساتھیوں نے اس کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرنے کی فرمائش کی ہے – کچھ لوگوں نے اس کے میانوالی اور داؤدخٰیل کے دورے کی داستان پر مبنی اس کی کتاب “تم کو دیکھیں“ کے بارے میں پوچھا ہے – کچھ نے اس کی پکچر مانگی ہے –
کتاب کے بارے میں میں نے بتا دیا تھا کہ سنگ میل پبلشرز لوئر مال لاہور سے مل سکتی ہے – چاولہ نے مجھے جو کتاب بھیجی تھی ، ایک صاحب نے گُم کر دی – عاصم شہزاد خان نے اُس پوسٹ پر کمنٹ میں لنک بھیجا ہے – اس لنک پر کتاب پی ڈی ایف میں دستیاب ہے – وہ لنک کاپی کر کے کتاب آپ پڑھ سکتے ہیں –
چاولہ کی پکچر اِس پوسٹ میں شامل ہے – چاولہ تو اب اس دنیا میں موجود نہیں – اس کے بارے میں جتنا کچھ میں جانتا تھا آپ کو پچھلی دو پوسٹس میں بتا دیا – مختصرا ایک بار پھر دہرا دیتا ہوں –
چاولہ داؤدخیل کے ایک ہندو گھرانے کا فرد تھا – قیام پاکستان کے وقت وہ بھی دوسرے ہندؤوں کے ساتھ انڈیا چلا گیا – اس وقت وہ داؤدخیل سکول سے مڈل کا امتحان پاس کر چکا تھا – انڈیا میں بی اے کرنے کے بعد وہ کچھ عرصہ ریلوے میں ملازم رہا – اسی دور میں اس کے لکھے ہوئے افسانے ملک بھر میں مشہور ہوئے – اس شہرت کی بنا پر اسے ناروے کے دارالحکومت اوسلو کی ایک بہت بڑی لائبریری میں لائبریرین کے منصب کی پیشکش ہوئی – اس نے بقیہ زندگی وہیں بسر کی – بیوی کی وفات کے بعد وہ انڈیا واپس آگیا -اور چند سال بعد دنیا سے رخصت ہوگیا –
چاولہ کے افسانوں کے بہت سے مجموعے شائع ہوئے – اردو کے علاوہ اس نے انگلش اور ہندی میں بھی افسانے لکھے –
اتنی شہرت اور اہمیت کے باوجود وہ داؤدخیل کا شیدائی رہا – داؤدخیل اس کی نظر میں ایک مقدس مقام رہا – اسے اس شہر کی ہوا ، پانی ، اور گلیوں کی خاک تک سے عشق تھا – اس کے داؤدخٰیل کے دورے کی داستان گذشتہ دو پوسٹس میں لکھ چکا ہوں – جن دوستوں نے نہیں پڑھی وہاں دیکھ لیں –
——————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-12      اپریل 2021

 

 

میرا میانوالی

گندم کی کٹائی کے بعد اسے بھُوسے سے الگ کر نے تک کا عمل اب تو بہت آسان ہوگیا ہے – ہارویسٹر ، تھریشر اور کمبائین کئی دنوں کا کام چند گھنٹوں میں کر دیتے ہیں – پرانا طریقہءکار اب شاید ہی کہیں دور افتادہ علاقوں میں استعمال ہوتا ہو –
اس طریقہء کار سے متعلق کچھ الفاظ ہوتے تھے – ان میں سے کئی الفاظ مر چُکے ہیں ، چند اب آخری سانس لے رہے ہیں – آج کچھ ذکر ان الفاظ کا جو فصل کی کٹائی کے بعد والے عمل میں استعمال ہوتے تھے –
اس عمل کو “گاہ“ یا “گاہیا“ کہتے تھے – جس جگہ گاہ کا عمل ہوتا تھا اسے “کھلواڑا“ کہتے تھے – کھلواڑا صاف ستھرا میدان ہوتا تھا – گندم کی “گَڈِیاں (گٹھے) کھلواڑے کے ایک کنارے پر ترتیب سے اُوپر نیچے رکھتے جاتے تھے -اس ڈھیر کو “پَسا“ کہتے تھے –
گاہ کا عمل بیل سرانجام دیتے تھے – گندم کی گَڈیاں ایک دائرے میں زمین پر بچھا کر ان کے اوہر پانچ سات بیل پھرائے جاتے تھے – دوچار گھنٹے میں گندم کے پودے پِس کر ان کے سِٹوں سے دانے الگ ہو جاتے تھے – پوَدے اس عمل کے دوران پِس کر بُھوسا بن جاتے تھے –
گندم اور بھُوسے کو الگ الگ کرنے کا عمل “اڈاری“ کہلاتا تھا – اس میں ترینگل ۔ کراہی یا چھاج استعمال ہوتے تھے – ترینگل یا کراہی پر گندم ملے بُھوسے کو اٹھاکر ہوا میں اُچھالتے تو ہوا کے زور سے بھوسا اُڑ کر الگ ہو جاتا تھا – تھریشر میں ہوا دینے کے لیئے پنکھا لگا ہوتا ہے – ہمارے ہاں صبح سویرے سے لے کر دوپہر تک اللہ تعالی کا پنکھا چلتا تھا – شمال سے آنے والی اس تیز ہوا کو “جابہ“ کہتے تھے،- بہت تیز زوردار ہوا ہوتی تھی –
آج کا سبق خاصا مشکل تھا – کوشش کی ہے کہ آپ آسانی سے سمجھ لیں – مقصد اپنی زبان کے مرتے ہوئے الفاظ کو محفوظ کرنا ہے –
————— رہے نام اللہ کا ——-رمضان المکرم مبارکبشکریہ-منورعلی ملک-13      اپریل 2021

میرا میانوالی

رمضان المبارک کا آغاز ہو گیا – اللہ نے ہماری عبادات ، دعاؤں ، صدقات اور خیرات کی قبولیت کا ایک اور موقع ہمیں فراہم کر دیا – اللہ کریم ہمیں اس موقع سے مستفید ہونے کی ہمت ، توفیق اور استطاعت عطا فرمائے— عمر بھر لوگوں کو راضی کرنے کی کوشش کرتے رہے ، ایک بار اللہ کے در پہ بھی دستک دے کر دیکھ لیں – خلوص دل سے مانگیں تو وہ خالی نہیں لوٹاتا –
روزہ تو فرض ہے ، اس مہینے میں اللہ کا سب سے پسندیدہ عمل یہی ہے – لیکن روزہ صرف کھانے پینے سے ہاتھ روکنا نہیں – گناہوں سے بھی پرہیز ضروری ہے ، یہ نہ ہو تو روزہ صرف بھوک پیاس سے زیادہ کچھ نہیں –
اس مہینے کے حوالے سے باتیں آپ سب لوگ جانتے ہیں – صرف جاننا کافی نہیں ، ان پر عمل کرنا بھی لازم ہے –
دعا ہے کہ رب کریم اس ماہ مبارک کے دوران آپ کی تمام عبادات ، صدقات اور خیرات قبول فرمائے – اپنے در پہ کسی کے آنے کا انتظار نہ کریں ، خود چل کر مستحق لوگوں تک جائیں اور انکی مدد کریں –
اور آخر میں یہ گذارش کہ وقت افطار کی دعاؤں میں میرے لیے بھی کچھ مانگ لیا کریں –
جزاک اللہ الکریم بِاَ حسَنِ الجزآء –——————— رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-14      اپریل 2021

میرا میانوالی

کتنا پیار ہے لوگوں کو اپنے ماضی سے —– !!!!
گندم کی کٹائی اور صفائی کے بارے میں پوسٹ پر ظفر نیازی، فیاض شاہ بخاری ، حفیظ اللہ ہمدانی ، محمد نواز، مظہر شادیہ ، ملک امیر محمد اعوان ، خورشید انور خٹک شکردرہ ، طیب جیلانی ، ڈاکٹر اشفاق احمد ، مظہر چکوالیہ ، ندیم خان قذافی ,ساجداللہ خان اور رفیع اللہ ملک نے اپنے کمنٹس میں بہت سی حسین اور دلچسپ یادیں بیان کی ہیں –
جی ہاں ، جب گندم کٹ جاتی تو بچے کھیتوں میں پھر کر گرے پڑے, بچے کُھچے سِٹے جھولیوں میں بھر کر دکانوں پر لے جاتے اور دکان داروں سے ان کی قیمیت کے مطابق گُڑ ، ٹانگری ، مرُنڈا اور کھانے پینے کی دوسری چیزیں لے لیتے –
جب گندم کی ڈھیری کو بوریوں میں بھر کر گھر لے جانے کا وقت آتا تو دیہاتی کارکنوں ، موچی ، درکھان، لوہار وغیرہ کے علاوہ بچو ں کی فوج بھی اپنا حصہ وصول کرنے پہنچ جاتی – سخی زمیندار کسی کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے — ہمارا گھر اللہ کے فضل سے اچھا خاصا کھاتا پیتا گھرانہ تھا ، لیکن مانگ کر کھانے کا ایک اپنا مزا ہے ، اس لیے دوسرے بچوں کے ساتھ ہم بھی قطار میں لگ کر لَپ بھر گندم وصول کر لیتے تھے –
ایک دوست نے کمنٹ میں بہت خوبصورت بات یاد دلائی ہے – اگر دکاندار کہتا تمہارے کچھ پیسے بچتے ہیں ، پیسے لوگے یا چیز ؟ تو بچہ کہتا “ ان پیسوں کی نِکی بہن کے لیے چیز دے دو “-
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
———————- رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-15      اپریل 2021

میرا میانوالی

افطاری میں تو لوگ مختلف چیزیں کھاتے تھے لیکن سحری میں صرف ایک ہی چیز ہمارے شہر کا دستور تھی – اسے وَشِلی کہتے تھے –
توے پر ذرا سا گھی ڈال کر اس پر پتلے گوندھے ہوئے آٹے کا لیپ کرکے روٹی کی شکل دے دیتے تھے – پکنے کے دوران اس پر اوپر سے بھی دوتین بار گھی ڈالتے تھے- یہ گھی میں تربتر ، ریشم جیسی نرم ملائم روٹی وَشِلی کہلاتی تھی –
گرما گرم وَشِلی کو پلیٹ میں رکھ کر اس پر رَتی (سُرخ) پشاوری شکر کی چھوٹی سی ڈھیری بناتے ، پھر اس ڈھیری کو انگوٹھے سے دبا کر پیالے کی شکل دے دیتے – اس پیالے میں گھی ڈال کر گھی شکر کے مکسچر میں وَشَلی کے نوالے ڈبو کر کھاتے تھے – کچھ لوگ اس کے ساتھ لسی پیتے تھے ، لیکن زیادہ تر لوگ چائے پیتے تھے- وَشِلی بہت لذیذ اور مقوی غذا تھی – سحری میں وَشِلی کھانے سے دن بھر نہ تو پیاس لگتی ، نہ کمزوری محسوس ہوتی تھی ٠
آٹا ، گھی اور شکر تو اب بھی مل سکتی ہے ، لیکن کیمیائی کھاد سے بالکل پاک گندم کا آٹا ، گھر کا خالص دیسی گھی اور شہد جیسی میٹھی پشاوری شکر اب کہاں – تاہم جو کچھ دستیاب ہے اسی سے وَشِلی بنانے کا تجربہ کر کے دیکھ لیں – ذائقہ تو تقریبا وہی ہے –
رمضان المبارک کے اختتام پر لوگ کہا کرتے تھے ————– لنگھ گئے روزے ، بہوں ارمان وَشِلیاں دا
—————— رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-17      اپریل 2021

میرا میانوالی

ہر سال رمضان المبارک کے ان رسم و رواج کے بارے میں لکھتا ہوں جو ہمارے بچپن کے دور میں ہمارے علاقے میں رائج تھے – ویسے تو ایک ہی بار لکھنا کافی تھا، لیکن اسی بہانے اپنے ان بزرگوں کی یاد بھی تازہ ہو جاتی ہے جو ان روایات کے امین تھے – لکھتے وقت وہ مہربان چہرے اپنے ارد گرد محسوس ہوتے ہیں –
کل وَشِلی کے بارے میں لکھا تو اپنی امی مسلسل یاد آتی رہیں – ان جیسی وشلی کوئی نہیں بنا سکتا – جب تک امی اس دنیا میں موجود رہیں ہمارا ناشتہ سارا سال چائے کے ساتھ وشلی ہی ہوا کرتی تھی – ناشتے والی وشلی اور رمضان المبارک والی وشلی میں صرف یہ فرق تھا کہ ناشتے والی وشلی کے لیے آٹا گوندھتے وقت سادہ پانی کی بجائے شکر کا شربت استعمال ہوتا تھا – بہت زبردست چیز ہوتی تھی میٹھی وشلی – سردیوں میں امی وشلی کا آٹا گوندھتے وقت ایک آدھ انڈہ بھی پھینٹ کر آٹے میں ملا دیتی تھیں ، اس وشلی کا ایک اپنا لطف تھا –
کل کی پوسٹ پر خورشید انور خٹک ، شکردرہ اور مصلی خان خٹک کے کمنٹس سے یہ بھی پتہ چلا کہ لفظ وشلی پشتو سے ہمارے ہاں آیا – انہوں نے بتایا کہ ان کے علاقے میں ایک خاص قسم کی روٹی بنتی ہے جسے “ وَشِلے، یا وَشِلئے“ کہتے ہیں – وہ اگر چہ ہمارے علاقے کی وشلی سے بہت مختلف ہوتی ہے ، تاہم لفظ وشلی یقینا اسی پشتو لفظ کی بدلی ہوئی شکل ہے – عیسی خیل سے پائی خیل تک ، اور پھر سوانس ، موسی خیل ، چھدرو کے علاقے کی زبان میں اسی طرح پشتو کے بہت سے لفظ شامل ہیں –
آج کی محفل میں تو وشلی کی وضاحت ہوتی رہی ، کل ان شآءاللہ افطار کا ذکر ہوگا –
—————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-18     اپریل 2021

میرا میانوالی

افطاری بالکل سادہ ہوتی تھی ، کھجور یا روٹی کا ایک لقمہ اور لیموں کا شربت ، پھر مغرب کی نماز کے بعد کھانا – دیہات میں شام کا کھانا ویسے بھی مغرب کے فورا بعد کھانے کا رواج تھا – رمضان المبارک میں بھی کھانا صرف روٹی اور سالن پر مشتمل ہوتا تھا – دیہات میں نہ کوئی فروٹ کی دکان ہوتی تھی ، نہ سموسوں پکوڑوں کی – گھروں میں پکوڑے بنانے کے چونچلے بھی نہیں ہوتے تھے – ہماری سیدھی سادی مائیں بہنیں بس روٹی سالن ہی بنا سکتی تھیں – یہ الگ بات کہ ان کے ہاتھ کا بنا ہوا سادہ سالن بھی سات کھانوں سے بہتر ہوتا تھا – ایک خاص برکت تھی ان کے ہاتھوں میں –
عصر کی نماز کے بعد افطاری کی تیاری شروع ہو جاتی تھی- خواتین تو معمول کے مطابق کھانا بنانے میں مصروف ہو جاتیں ، مرد حضرات لیموں کا شربت بنانے بیٹھ جاتے – پتیلے میں پانی بھر کر اس میں شکر یا چینی ڈال کر بہت آہستہ رفتار سے اس میں چمچ پھیرتے رہتے – آہستہ اس لیئے کہ وقت گذارنا ہوتا تھا – کچھ دیر بعد اس میں ایک دو لیموں نچوڑ دیتے – داؤدخیل میں میانوالی سے برف کے ایک دو بلاک آتے تھے- دوپہر سے ہی لوگ برف لینے کے لیے لائین میں لگ جاتے – پھر بھی ہر ایک کو منتوں ترلوں کے بعد دوچار آنے کی مٹھی بھر برف ملتی تھی –
بزرگ لوگ برف استعمال نہیں کرتے تھے – کہتے تھے (اور ٹھیک ہی کہتے تھے) کہ برف پیاس بجھاتی نہیں ، پیاس بھڑکاتی ہے – ہینڈپمپ کا تازہ پانی یا گھڑے کا پانی بھی خاصا ٹھنڈا ہوتا تھا – ایک ہی گلاس یا کٹورے سے سینے میں ٹھنڈ پڑ جاتی تھی – بزرگ لوگ لیموں کی بجائے املی آلو بخارا ، گوند کتیرا ، تخم ملنگا یا اسپغول کا چھلکا اور شکر پانی میں ملا کر اپنا الگ شربت بنا لیتے تھے –
افطاری کا اعلان مسجدوں میں نغارہ ( نقارہ) بجا کر کیا جاتا تھا – نقارہ ڈھول جیسی چیز تھا جو دو چھڑیوں سے بجایا جاتا تھا – نقارہ مولوی صاحب کی ہدایت پر مسجد کا پانی ہارا (پانی بھرنے والا) بجاتا تھا – سحری اور افطاری کا پورے ماہ کا ٹائیم ٹیبل کوٹ چاندنہ کے پیر فخرالزماں صاحب جاری کرتے تھے – اس کے مطابق مساجد میں سحری اور افطاری کے اعلانات ہوتے تھے –
——————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-19      اپریل 2021

 

 

 

 

میرا میانوالی

رمضان المبارک میں مسجدوں کی رونق دیکھنے کے لائق ہوتی تھی – بزرگ نمازیوں کے علاوہ نوجوان بھی بڑی تعداد میں نماز باجماعت ، بالخصوص نماز تراویح میں شریک ہوتے تھے –
نماز تراویح کو ہمارے ہاں “ترابیاں“ کہتے تھے – اکثڑ مساجد میں تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام کیا جاتا تھا – تراویح کی نماز پڑھانے کے لیے حافظ صاحبان کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں – روزانہ عشآء کی نماز کے بعد 20 رکعت نماز تراویح میں تقریبا ڈیڑھ سیپارہ قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی تھی – ختم عموما 27 رمضان المبارک کو ہوتا تھا – اس موقع پر جشن کا سماں ہوتا تھا – مسجد کی خصوصی ڈیکوریشن کی جاتی – ختم القرآن کے بعد مٹھائی بھی تقسیم کی جاتی تھی – مٹھائی کی وجہ سے وہ بھگوڑے نوجوان بھی اس رات عشآء کی نماز میں شریک ہو جاتے جو عام حالات میں سارا سال مسجد میں قدم ہی نہیں رکھتے تھے – نماز تراویح ختم ہونے کے بعد پہلے اجتماعی دعا کی جاتی ، پھر کاغذ کے لفافوں میں ملفوف مٹھائی تقسیم کی جاتی تھی –
اس موقع پر حافظ صاحب کو ہار پہنائے جاتے ، ایک جوڑا کپڑے اور کچھ نقد رقم بھی پیش کی جاتی تھی – ختم کی رات کا ماحول خاصا پُرجوش ہوتا تھا – بعض بزرگوں کو یہ کہہ کر روتے ہوئے بھی دیکھا “ پتہ نیں اساں اگلے سال اس دُنیا تے ہُساں کہ نئیں “-
اگرچہ لیلتہ القدر کے بارے مٰیں جناب رسول اکرم صلوا علیہ وآلہ نے تو صرف اتنا بتایا تھا کہ یہ رات رمضان المبارک کی آخری طاق راتوں 21, 23, 25, 27, 29 میں سے کوئی ایک ہوتی ہے ، تاہم لوگ 27 رمضان المبارک کی رات کو ہی لیلتہ القدر قرار دے کر یہ رات عبادت کے لیئے وقف کر دیتے تھے – صبح سحری کے وقت سب لوگ گھروں کی راہ لیتے تھے –
—————– رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-20      اپریل 2021

میرا میانوالی

رمضان المبارک کو قرآن حکیم سے خاص نسبت ہے – قرآن کریم کے نزول کا آغاز بھی اسی مہینے سے ہوا – اس مہینے میں تلاوت کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے – بہتر ہے کہ ترجمے کے ساتھ پڑھا جائے ، تاکہ یہ بھی پتہ چلے یہ کہہ کیا رہا ہے – قرآن پڑھنے کا فائدہ تب ہے جب آپ اس سے محبت کریں –
ایک دن جبرائیل علیہ السلام سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا عبداللہ بن مسعود کو بلائیں ، اللہ تعالی ان سے قرآن سننا چاہتا ہے –
اللہ اکبر – کیا آواز اور لہجہ ہوگا جس کے سامعین میں اللہ اور رسول اللہ دونوں شامل تھے –
آج سے کچھ عرصہ قبل مصر کے قاری عبدالباسط رحمتہ اللہ علیہ نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ ایک دفعہ میں مسجد نبوی میں سورہ الرحمن کی قراءت کر رہا تھا – سینکڑوں لوگوں کا مجمع سامنے موجود تھا – سورہ الرحمن کا تیسرا رکوع شروع کیا تو یوں لگا میں اس وقت جنت میں ہوں – جب قراءت ختم کی تو بہت سے حاضرین نے بھی بتایا کہ آج ہم نے اپنی آنکھوں سے جنت دیکھ لی ہے –
ہمارے ایک سابق فوجی دوست نے بتایا کہ ایک دفعہ ہماری چھاؤنی کی مسجد میں ایک حافظ صاحب نماز تراویح پڑھانے کے لیے آئے – بہت اچھے قاری تھے – ایک دن ہم نے ان سے کہا “
حافظ صاحب، ہم فوجی کھوتے لوگ ہیں ، ایک ڈیڑھ سیپارہ تراویح میں پڑھنے سے ہمیں تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی – آج اتنا پڑھیں کہ ہم کھڑے کھڑے تھک جائیں – حافظ صاحب نے کہا ٹھیک ہے ، نماز تراویح کے بعد دو نفل پڑھ لیں گے –
دو نفل کے لیے جماعت کھڑی ہوئی – حافظ صاحب نے پہلی رکعت میں ساڑھے ستائیس سیپارے پڑھ دیئے – چار پانچ گھنٹے مسلسل کھڑے کھڑے ہماری ٹانگیں بھی جواب دینے لگی تھیں، دوسری رکعت میں ایک مختصر سی سورت پڑھ کر نماز ختم کرتے ہوئے حافظ صاحب بے آہ بھر کر کہا “ہائے جوانی ، میں تو ایک رکعت میں پورا ایک ختم پڑھا کرتا تھا – اب اتنی ہمت نہیں رہی – یہ کہہ کر حافظ صاحب رونے لگے –
———————– رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-21      اپریل 2021

میرا میانوالی

گرمی کے موسم میں روزہ رکھنا خاصی سخت آزمائش ہے – لیکن جب نہ بجلی تھی ، نہ پنکھے، کُولر ، فریج ، اے سی ، کچھ بھی نہ تھا ، اس وقت بھی لوگ باقاعدگی سے پورا مہینہ روزے رکھتے تھے – روزہ نہ رکھنے کا تصور ہی نہ تھا – اِکا دُکا نوجوان اگر روزہ نہ رکھتا تو اُسے نہ گھر میں نہ باہر اچھا سمجھا جاتا تھا – والد صاحب بتایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ چاپری کے ایک بزرگ پٹھان سے کسی نے کہا “خان صاحب آپ کا بیٹا روزوں میں کھاتا ہے “ – بزرگ نے کہا “ ہاں ، روزروں میں میرا کُتا بھی کھاتا ہے – میری نظر میں میرا یہ بیٹا اور کُتا برابر ہیں “-
گرمی کے روزوں میں سب سے بڑا مسئلہ پیاس کا ہوتا تھا – اول تو اس زمانے میں خوراک ایسی خالص ہوتی تھی کہ بھُوک پیاس بہت کم لگتی تھی – دوپہر میں اگر زیادہ پیاس لگتی تو لوگ گھر میں ہینڈ پمپ پر یا کنوئیں پر جاکر نہا لیتے اور پھر گیلی چادر یا دھوتی لپیٹ کر چھپر یا کسی درخت کے سائے میں سو جاتے – ظہر کی نماز کے بعد ایک بار پھر نہا کر عصر تک سو لیتے – عصر کے بعد کچھ دیر گپ شپ لگا تے پھر افطاری کی تیاریوں میں مشغول ہو جاتے – گھڑی بھی بہت کم لوگوں کے پاس ہوتی تھی ، اس لیئے وقت کی فکر نہیں ہوتی تھی – اللہ نے بڑا حوصلہ دیا تھا ان لوگوں کو — پنکھے ، کُولر ، فریج ، اے سی کے بغیر زندگی آج کے دور سے زیادہ پُرسکون تھی – صبر ، تحمل ، سادگی اور قناعت اللہ کی وہ خاص نعمتیں ھیں جو اُن لوگوں کو میسر تھیں ، آج بہت کم دیکھنے میں آتی ہیں –
———————– رہے نام اللہ کابشکریہ-منورعلی ملک-23      اپریل 2021

میرا میانوالی

اللہ معاف فرمائے
کورونا جنگل کی آگ کی طرح بہت تیزی سے پھیل رہا ہے – اس ماہ کے پہلے 23 دنوں میں 2411 مریض جاں بحق ہوگئے – اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال “پمز“ میں کورونا کے مزید مریضوں کے داخلے کی گنجائش باقی نہیں رہی – لاہور میں مریضوں کے لیے صرف 18 فی صد گنجائش باقی رہ گئی – سرکار ابھی تک اس صورت حال سے نمٹنے کے لیئے کوئی دوٹوک فیصلہ نہیں کر پا رہی – فی الحال ساری توجہ تحریک لبیک اور جہانگیر ترین سے نمٹنے پر مرکوز ہے – ہر روز ایک نیا کٹا کھُل جاتا ہے –
کورونا سے نمٹنے کا سرکاری ادارہ NCOC ابھی تک صرف یئیں یئیں ، یئیں یئں کر رہا ہے – لاک ڈاؤن لگانا ہے یا نہیں لگانا ، ویکسین دستیاب نہیں ہو رہی ، باہر سے ویکسین منگوانے کے لیے پیسے نہیں ہیں ، مگر روزانہ اربوں روپے کے پروجیکٹس کا افتتاح ہورہا ہے – ایمرجنسی کی اس صورتِ حال میں تمام ترقیاتی منصوبے چند ماہ کے لیئے روک کر سارا پیسہ ویکسین کی خریداری پر خرچ ہونا چاہیے – کابینہ فن کاروں پر مشتمل ہے ، جو ناچ گانے کے سوا کچھ کرنہیں سکتے – باربار وزارتٰیں بدلنے سے کُچھ فرق نہیں ُپڑے گا – جووزیر ایک محکمے کا بیڑا غرق کرے آُسے کوئی دُوسرا محکمہ دینے کی بجائے فارغ کردیا جائے – کابینہ میں صرف کام کے آدمی ہوں تو یہ حال نہیں ہوگا –
اپنے ملک کی حالت سنوارنے کی بجائے اس بات پر فخر کیا جا رہا ہے کہ ہماری حالت انڈیا سے تو بہتر ہے – وہاں کورونا سے زیادہ لوگ مررہے ہیں – اللہ کے بندو ، ان کی آبادی بھی تو ہم سے کئی گنا زیادہ ہے – انڈیا تو سنا ہے ویکسین خود بھی بنانے لگا ہے – اور ہم اس آس پر بیٹھے ہیں کہ کوئی خیرات میں ویکسین دے دے –
انڈیا سے سوشل میڈیا پر آئے ہوئے ایک کلپ میں ایک ہندو پولیس کا سپاہی انڈیا کے کسی شہر میں بآواز بلند کہتا پھر رہا ہے “ مسلمان بھائیو ، آپ تو نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہو ، اللہ آپ کی بات سنتا ہے ، آپ کی دعائیں قبول کرتا ہے – دعا کرو کہ اللہ ہمیں اس وبا سے نجات دے “ –
—————– رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-24      اپریل 2021

میرا میانوالی

رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی عید کی تیاریاں شروع ہو جاتی تھیں – یہ مصروفیات رمضان المبارک کو آسان بنا دیتی تھیں – عید پہ سب لوگ نئے کپڑے پہنتے تھے – صرف جن گھروں میں کوئی رمضان المبارک کے ارد گرد فوت ہوا ہوتا، ان گھروں کے افراد عید پر نیا لباس نہیں پہنتے تھے –
بزرگ صرف سفید لٹھے کی چادر ، کُرتا اور سفید ململ کی پگڑی پہنتے تھے – شلوار کی بجائے وہ چادر ہی باندھتے تھے – لٹھا دوقسم کا ہوتا تھا ، ایک دودھ جیسا سفید جسے کھومبی (کلف والا) لٹھا کہتے تھے – دوسرا ذرا ہلکا سفید (off-white) اور سستا “کورا لٹھا“ کہلاتا تھا – گرمی میں کورا لٹھا زیادہ چلتا تھا کہ یہ ذرا پتلا ، ہوادار اور ٹھنڈا ہوتا تھا –
بچے اور نوجوان شلوار اور کالر والی قمیض پہنتے ھے – ایک ہی رنگ کا جوڑا پہننے کا رواج نہ تھا – کسی بھی رنگ کی قمیض کے ساتھ شلوار ھمیشہ سفید لٹھے کی چلتی تھی- سب سے اعلی لٹھا چابی والا لٹھا کہلاتا تھا ، وہ اس لیئے کہ بنانے والی کمپنی کا نشان چابی ہی تھا –
قمیض اپنی پسند کے رنگ کی لنن (linen) کی بنواتے تھے – لنن اس زمانے میں نیا نیا آیا تھا – یہ نیم ریشمی کپڑا ہر رنگ میں ملتا تھا – لِنَن linen انگلش کا لفظ ہے ، زبان کی ذرا سی لغزش سے یہ لفظ گالی بن سکتا تھا – اس لیئے عام بول چال کی خاطر لوگوں نے اس کے آیک دو آسان نام بنا لیئے – کچھ لوگ اس کپڑے کو نیلم کہتے تھے ، کچھ لِیلَنگ بولتے تھے – متوسط طبقے کا مرغوب لباس لنن ہی تھا-
عید کی تیاریوں کا ذکر دوتین دن جاری رہے گا –
——————— رہے نام اللہ کا ——–بشکریہ-منورعلی ملک-25      اپریل 2021

میرا میانوالی

یہ دن بھی آنے تھے – اب کی بار عید کورونا کے مہیب سایوں میں گھِری ہوئی ، ڈری سہمی، سُکڑی سِمٹی سی عید ہوگی – کورونا کے خوف اور ایس او پیز کی پابندیوں نے عید کی شاپنگ بھی خاصی محدود کر دی ہے – اس دفعہ عید کے دنوں میں گھومنا پھرنا ، ملنا ملانا ، دوستوں کو ٹھاہ کر کے سینے سے لگانا خطرے سے خالی نہ ہوگا –
سرکار تو لاک ڈاؤن کے بارے میں سوچتی ہی رہے گی – اسدعمر صاحب کے لیکچر جاری رہیں گے ، لیکن جس تیزی سے کورونا پھیل رہا ہے ، لگتا ہے کہ کورونا خود ہی لاک ڈاؤن لگا دے گا – لوگ گھروں میں بند ہو کر رہ جائیں گے – اللہ وہ وقت نہ لائے – صورتِ حال خاصی حوصلہ شکن ہے – خود ہی بچنا ہوگا – حسب توفیق ایس او پیز ( ماسک کا استعمال، کم سے کم چلنا پھرنا) پر عمل کرنا ہوگا –
کل پھر سنا ہے سخی بادشاہ چین نے بھاری مقدار میں ویکسین ہمیں عنایت کی ہے – اس کی تقسیم کا طریقہ کار شفاف نہ ہوا تو حکومت کی کارکردگی پر مزید انگلیاں اٹھیں گی –
ایک طرف کورونا کا ّعذاب ، دوسری طرف کمرتوڑ مہنگائی ، غریب لوگوں کی زندگی میں سال بھر میں عید کے ایک دو دن خوشی آیا کرتی تھی ، اس دفعہ وہ بھی ادھوری –
اے خاصہء خاصان رسل وقتِ دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے———————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-26      اپریل 2021

میرا میانوالی

ہم زندہ قوم ہیں ۔ ماسک کا یہ استعمال دنیا میں صرف ہم ہی کرسکتے ہیں

میرا میانوالی

پچھلے سال اپریل کا آخری عشرہ ہمارے لیئے قیامت سے کم نہ تھا – طویل بیماری کے بعد اہلیہ عصر کی نماز کے لیئے اٹھنے لگیں تو گِرگئیں – سر میں چوٹ لگی – انہیں میانوالی سے اسلام آباد اور پھر لاہور لے گئے – بچوں نے دن رات ماں کی خدمت کی – بہترین ڈاکٹروں سے علاج کرایا گیا ، مگر مقابلہ موت سے تھا -30 اپریل کی شام ہمارے گھر میں شامِ غریباں بن گئی – ہم راتوں رات لاہور سے داؤدخیل پہچے اور یکم مئی کی صبح زمین کی امانت زمین کے سپرد کر دی –
رمضان المبارک اور کورونا کے باعث برسی میں صرف گھر کے افراد شریک ہو کر مرحومہ کو ایصال ثواب کریں گے – آپ سب ساتھیوں سے بھی مرحومہ کے لیئے دعائے مغفرت و رحمت کی اپیل ھے –
مرحومہ کی زندگی کے آخری دنوں میں کہا ہوا اپنا ایک شعر جو حقیقت بن گیا ——————
میں نے کہا تھا پہلے مجھ کو جانے دینا
ہنس کر اُس نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے
——————— رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-28      اپریل 2021

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top