یرا میانواورعلی ملک کی جولائی
میرا میانوالی-
عزیز دوستو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ —————-
چاردن مری میں گثارنے کے بعد ھم لوگ میرے بڑے بیٹے مظہرعلی ملک کی دعوت پر اسلام آباد آئے- دودن وھاں رھنے کے بعد کل رات ھم لاھور پہنچ گئے- اللہ کے فضل سے ھمارا یہ دورہ بہت پرلطف رھا-
اپنے بیٹے پروفیسرمحمد اکرم علی ملک کے ساتھ ھرسال جولائی کے آخر میں مری کا یہ دورہ ھمارا معمول ھے-
مری کو دیکھ کر اپنے پاک وطن پہ پیارآتا ھے ، کہ رب کریم نے تپتے تھلوں کے اس ملک کو یہ کیسا سرسبز ٹھںدا ٹھار جزیرہ عطا کردیا- موسم کی ٹھنڈک اپنی جگہ یہاں کے حسین و جمیل مناظر قدم قدم پربانہیں پھیلائے، آنے والوں کا استقبال کرتے ھیں- فلک بوس سرسبز پہاڑی چوٹیاں، آتے جاتے مسافروں کو سلیوٹ کرتی ھیں- چیل (چیڑ) کے تناور درخت مؤدب سیکورٹی گارڈز کی طرح سڑک کے دونوں جانب قطار اندر قطار کھڑے , آنے والوں کو خوش آمدید، جانے والوں کو الوداع کہتےنظر آتے ھیں-
٢٩جولائی کی شام ھم لوگ مری پہنچے- اگلی صبح کوھالہ کی سیر کو نکلے تو کچھ آگے جاکر معلوم ھؤا کہ لینڈسلائیڈنگ کی وجہ سے سڑک بند ھے- اس لیے واپس آکر مری شہر کی سیر کرتے ھوئے دن گذاردیا- شام کا کھانا مال روڈ کے ایک ھوٹل میں کھاکر ھم اپنی قیام گاہ پر واپس آگئے- رھائش کے لیے ایک دوست نے اپنا تمام آسائشوں سے مزین فلیٹ ھمار ے حوالے کر دیاتھا، یہ فلیٹ جی پی او چوک کے قریب واقع تھا، اس لیے ضرورت کی ھر چیزآسانی سے مل جاتی تھی-
اپنے اس دورے کا قصہ ابھی ایک دودن چلے گا، پھر حسب معمول “میرامیانوالی” کے عنوان سے گئے دنوں کی شاھراہ پر آپ کو آگے لے چلوں گا —–
——- رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک — 6 اگست 2017
میرا پاکستان —————-–
کوھالہ کا دورہ ھرسال ھمارے سیروتفریح کے پروگرام میں شامل ھوتاھے- کچھ ایسی کشش ھے اس حسین اور پرااسرار منظر میں کہ باربار یہاں آنے کو جی چاھتا ھے- بھاری بھرکم پتھروں سے سرٹکراتا، شور مچاتا بپھرا ھؤا دریا انتہائی تیز رفتارسے ھر وقت رواں دواں رھتا ھے- دریا کا جاہ و جلال دیکھ کر خوف سا محسوس ھوتا ھے- وھاں کے ایک مقامی باشندے سے پوچھا کبھی کسی نے اس مقام سے تیر کر بھی یہ دریا پار کیا ھے- ھنس کر کہنے لگا 147 جی نہیں، یہ تو موت ھے- اس کے منہ میں جانے کی جراء ت کون کر سکتا ھے ؟
پل سے مغرب میں دریا کے دائیں کنارے لوگ دریا کے تیزرفتار ٹھنڈے یخ پانی میں پاؤں لٹکا کر چارپائیؤں پر بیٹھ کر کھاتے پیتے اور پکچرز ، سیلفیاں وغیرہ بناتے میں مشغول نظر آتے ھیں- سرخ پلاسٹک کی چادروں کے سائبان بھی سرپہ سایہ فگن رھتے ھیں، لیکن یہ صرف ایک رسم سی ھے- گرمی نہ ھو تو سائے کی کیا ضرورت-
ھم ھر سال یہاں آکر ڈھیروں خوبصورت مناظر کی تصویریں اورحسین یادیں سمیٹ کر لے آتے ھیں-
کوھالہ صوبہ پنجاب ، خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر کے سنگم پر واقع ھے- پل کے پار سرسبز پہاڑ آزاد کشمیر میں واقع ھے- شمال مغرب میں پہاڑ کے پار خیبرپختونخوا کا علاقہ دھندلاسا نظر آتا ھے-
سوھنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد
رھے نام اللہ کا-– منورعلی ملک — 7 اگست 2017
میرا پاکستان —————-–
ھر سال کی طرح اس بار بھی نتھیا گلی کی سیر ھمارے پروگرام میں شامل تھی- نتھیا گلی وادئی کہسار کے خوبصورت ترین مقامات میں شمار ھوتاھے- مناظر کا حسن یہاں ایک نئے روپ میں جلوہ گر نظر آتاھے- آبادی زیادہ نہیں ھے ، مگر وی آئی پی لوگوں کی سیرگاہ ھونے کی وجہ سے یہاں رھائش اور ضرورت کی چیزوں کے نرخ آسمان کو چھوتے نظرآتے ھیں-
آب کی بار ھمارا نتھیاگلی کا دورہ بہت محتاط اور مختصر رھا- – چاروں طرف سیاہ بادلوں کے گھپ اندھیرے میں سڑک کے کنارے لگے ھوئے رھنما اشارات بھی نظر نہیں آتے تھے- کئی چوکوں پر متعین پولیس اھلکاروں اور آتے جاتے لوگوں سے رھنمائی لینی پڑی-
ھم نتھیا گلی پہنچے تو بارش تھم چکی تھی ، مگر موسم کا موڈ نہیں بدلا تھا- پہلے ھمارا ارادہ نتھیا گلی میں رات بسر کرنے کا تھا- مگر موسم کا جارحانہ انداز دیکھ کر سوچا کہ عین ممکن ھے ھم کل صبح بھی یہیں مقید ھو جائیں- اور کل کا طے شدہ پروگرم منسوخ کرنا پڑے- اس خیال سے ھم نے چند پکچرز بناکر ایک ھوٹل میں چائے پی اور نتھیا گلی سے واپسی کی راہ لی-
واپسی پر پھر وھی اندھیرا اور بارش مری شہر تک ھمارے ھمسفر رھے- ھمارا یہ دورہ مختصرمگر بلاشبہ یادگار تجربہ تھا-
——- رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک –8 اگست 2017
میرا پاکستان —————-–
مری کے نواح میں پتریاٹہ بھی ایک خوبصورت سیرگاہ ھے- بہت سرسبزوشاداب وادی ھے ، چیرلفٹ / کیبل کار پر علاقے کا دلکش منظر دیکھنے کے لیے یہا ں صبح سے شام تک لوگوں کا ھجوم رھتا ھے- شوقین مزاج لوگوں کی سواری کے لیے گھوڑے بھی موجود ھیں- مگر گھوڑے کی سواری کے لیے صرف شوق ھی کافی نہیں – گھوڑے کو قابو میں رکھنے کی مہارت بھی ضروری ھے-
ھم پتریاٹہ روانہ ھوئے تو کالے سیاہ بادلوں کا گھپ اندھیرا اور تیز بارش اس سفر میں بھی ھمارے ھمسفر بن گئے – ایسے موسم میں ڈرائیونگ کا ایک اپنا الگ مزا ھے-
ھم پتریاٹہ پہنچے تو بچوں نے حسب معمول چیرلفٹ پر وادی کی سیر کا پروگرام بنا لیا- میں نے تو اس بار یہ جھولا جھولنے سے معذرت کر لی- بچے چیئرلفٹ کے ٹکٹ لینے کے لیے گئے، مگر کچھ دیر بعد واپس آگئے- کہنے لگے وھاں اتنا رش تھا کہ کئی گھنٹے قطار میں لگ کر انتظار کرنا پڑتا- فی الحال تو چیرلفٹ کی سواری ممکن نظر نہیں آتی، انشاءاللہ اگلے سال سہی-
ھم کچھ دیر وھاں رکے، چائے پی کچھ تازہ فروٹ خریدا اور مری واپس آگئے- اگلی صبح مری سے واپسی کا پروگرام تھا- میرے بڑے بیٹے مظہر علی ملک کی دعوت پر دودن اسلام آباد میں بھی رھنا تھا رھے نام اللہ کا –منورعلی ملک – 9 اگست 2017
میرا پاکستان —————-–
سیروتفریح کے لیے آنے والے دوسرے لوگوں کی طرح ھمارا بھی مری میں نہ کوئی دوست رھتا ھے نہ رشتہ دار، نہ کوئی جاننے والا ، نہ سلام کرنے والا، پھر بھی ھم ھر سال اس موسم میں چنددن کے لیے یہاں ضرور آتے ھیں – یہاں پہنچ کر یوں لگتا ھے کہ یہاں کے حسین مناظر، فلک بوس پہاڑ ، سرسبزوادیاں ، تناور درخت، بانہیں پھیلائے ھمارے ھی منتظر تھے- جس طرح لوگ مری سے واپس جا کر اس خوشگوار ماحول کوmiss کرتے ھیں، شاید یہ ماحول بھی اپنے چاھنے والوں کو اسی طرح miss کرتا ھو—– یہاں پہنچ کر یہ احساس ھوتا ھے کہ ھم اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئے ھیں-
واپسی پر دکھ بھئ ھوتا ھے- دل چاھتا ھے یہیں رہ جائیں- مگر وہ جو فیض صاحب نے کہا تھا
اور بھی غم ھیں زمانے میں محبت کے سوا
یہاں آکر تو وہ سب غم کچھ دیر کے لیے بھول جاتے ھیں- مگر آھستہ آھستہ واپس آکر پھر ستانے لگتے ھیں ، ملازمت یا کاروبار کی مجبوریاں، کچھ ایسے کام جو ھم ادھورے چھوڑ آتے ھیں، ان کی خاطر واپس آنا ھی پڑتا ھے-
مری سے نکلتے ھوئے , اپنا یہ پرانا شعر مسلسل ذھن میں گونجتا رھتا ھے-
اگرچہ شہر کا موسم بڑا سہانا ھے
مسافروں کو سفر پر ضرور جانا ھے
——— رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک — 10 اگست 2017
میرا پاکستان ——————
اسلام آباد میں ھمارے قیام کے دوران بیٹا مظہرعلی ملک نےھمیں شہر کی سیر کے علاوہ ایک پراسرار منظر کی سیر بھی کرائی – یہ منظر گولڑہ شریف سے چند کلو میٹر شمال میں ایک بلندوبالا پہاڑ کے دامن میں ھزارھا سال پرانے پراسرار ، ھیبت ناک غاروں کا منظر ھے- آثار سے پتہ چلتا ھے کہ یہ غار اس زمانے کی یادگار ھیں جب انسان غاروں میں رھتا تھا— انسان تو ترقی کرتے کرتے بہت آگے نکل گیا، اب یہ غار شاید رات کی تاریکی میں جنوں بھوتوں کی آماجگاہ ھوتے ھوں- ایک عجیب پراسرار ھولناک سا ماحول ھے یہاں کا- بڑ (بوڑھ) کے صدیوں پرانے درخت شاید ھندو سادھؤوں نے لگائے ھوں- وہ بھی ایسی ویران جگہوں میں بسیرا کرتے تھے- بڑ کا درخت ان کا مقدس درخت تھا-
یہاں آنے والے اکادکا سیاحوں کے لیے ایک دوچھپر ھوٹل ھیں- جنوب مشرق میں ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ اور اس سے ملحق ایک چھوٹا سا جنرل سٹور بھی ھے- تاھم اس جگہ لوگوں کی آمدورفت بہت کم ھے- نام اس مقام کا شاہ اللہ ڈتہ ھے، مگر یہاں نہ تو کوئی مزار ھے نہ آبادی- بہر حال شاہ اللہ ڈتہ نام کے بزرگ سے اس علاقے کو کچھ نہ کچھ نسبت ضرور ھوگی-
ٹھنڈے شفاف پانی کا ایک چشمہ غاروں کے قریب سے ھوتا ھؤا ایک چھوٹے سے پختہ تالاب میں جاگرتا ھے- تالاب میں چاندی کے رنگ کی چند مچھلیاں بھی تیرتی نظر آتی ھیں-
شام کی اداس تاریکی چھانے لگی تو ھم وھاں سے واپس آگئے- مگر ذھن سے اس منظر کا پراسرار تاثر آسانی سے مٹ نہیں سکے گا — اس جگہ کے پس منظر سے کئی کہانیاں جھانکتی نظرآتی ھیں– بائیں جانب کے کسی درخت سے آتی ھوئی , کوئل کی اداس کوک اب بھی کانوں میں گونج رھی ھے-
—————- رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک — 11اگست 2017
میرا میانوالی–
کتنا سیدھا سادا، صاف ستھرا، پر سکون شہر ھؤا کرتا تھا – ریلوے سٹیشن سے نکل کر مین بازار میں داخل ھوتے تو دائیں طرف ملک ھوٹل المعروف “شیشاں آلا ھوٹل” بائیں طرف جالندھریوں کی دکان –“شیشاں آلا ھوٹل ” تو کب کا ختم ھو گیا- یہاں صرف چائے اور حلوہ ملتا تھا – جالندھریوں کی دکان اب بھی موجود ھے- گرمی کے موسم میں یہاں لسی شربت کاکاروبار ھوتا ھے، سردیوں میں ڈرائی فروٹ کا-
شیشاں آلا ھوٹل سے متصل آزاد ھوٹل ھؤا کرتا تھا- بہت آباد ھوٹل تھا- شاعروں ادیبوں کا مسکن بھی یہی ھؤا کرتا تھا- بالائی منزل کی بالکونی (چھجے) پر مرحوم شررصہبائی، انجم جعفری ، سالار نیازی اور ان کے حلقہ احباب کے کچھ دوسرے لوگ بیٹھ کر فکرسخن کیا کرتے تھے– کئی سرکاری ملازم دوپہر کا کھانا اسی ھوٹل سے کھاتے تھے، اور ھر مہینے کا کھانے کا بل تنخواہ ملنے پر ادا کیا کرتے تھے-
آزاد ھوٹل کے سامنے بازار کے بائیں کنارے پر میانوالی کا سب سے بڑا جنرل سٹور ھؤا کرتا تھا، نام غالبا حیات جنرل سٹور تھا- یہ ولیدھڑا قبیلے کے نوجوان محمد حیات خان اور ان کے بھائیوں کی ملکیت تھا- اس کے ساتھ ایک فروٹ کی دکان تھی- تازہ سیبوں کی مہک یہاں سے گذرنے والوں کا دور تک ساتھ دیتی تھی- سیب تو اب بھی ھر شہرمیں ھرجگہ بکتے ھیں، مگر وہ مہک خدا جانے کہاں گئی؟ اب تو سیبوں سے دوائیوں جیسی بو بلکہ بدبو آتی ھتے-
فروٹ کی دکان سے آگے عبداللہ کیمسٹ کے نام سے انگریزی دوائیوں کی دکان تھی- عبداللہ کیمسٹ عیسی خیل کے رئیس خاندان کے فرد عبداللہ خان کا میڈیکل سٹور تھا-
بازار میں ملک کلیم اللہ مرحوم کا چیپ میڈیکل سٹور اور اس سے کچھ آگے ملک عبدالرحمن کا مسلم میڈیکل ھال دیسی ولائتی دونوں قسم کی ادویات کے اھم مراکز تھے- یہ دونوں میڈیکل سٹور اب بھی رواں دواں ھیں— سلطان کیمسٹ کے نام سے چاچا سلطان محمد کندی کا میڈیکل سٹور بھی ھؤا کرتا تھا- یہ دکان کم بیٹھک زیادہ تھی -چاچا کے دوست وتہ خیل کے مشہورومعروف ھیڈماسٹر محمد خان نیازی اور کچھ دوسرے احباب دن بھر یہاں موجود رھتےتھے- اس دکان سے کچھ آگے حاجی محمد رمضان کی پنسار کی دکان تھی- رمضان اینڈ سنز کے نام سے یہ دکان آج بھی موجودھے-
آدھے بازار کا قصہ آپ نے آج سن لیا بقیہ انشاءاللہ کل-
————– رھے نام اللہ کا —–– منورعلی ملک — 12 اگست 2017
میرا میانوالی–
چاچاسلطان کندی کے میڈیکل سٹور کے قریب ھی روایتی مٹھائیوں کی دکان ھؤا کرتی تھی – یہ دکان آج بھی موجود ھے- یہاں دیسی مٹھائیاں، لاچی دانہ, ریوڑیاں – پتاسے، چاولوں اور چینی سے بنی ھوئی پھلیاں ، تلوں اور چاولوں کے مرنڈے ، ٹانگری ، توشے وغیرہ بنتے اور بکتےھیں- یہ سب چیزیں دکان سے ملحق کارخانے میں بنتی ھیں- یہ مٹھائیاں بنانے کافن مسلمانوں نے یہاں رھنے والے ھندوؤں سے سیکھا تھا- دیہات میں یہی مٹھائیاں چلتی تھیں- داؤدخیل میں ھمارے محلے کے دکان دار چاچا اولیاء بھی یہ مٹھائیاں بنانے کے ماھر تھے- اب تو یہ چیزیں صرف شادی بیاہ میں “بد” کے نام سے دلہن کے گھر بھجوائی جاتی ھیں-
برفی ، کھویا، گلاب جامن، رس گلے ، لڈو اور پتیسے جیسی جدید مٹھائیوں کی صرف ایک ھی دکان تھی- چاچا گل امام کی یہ دکان میانوالی شہر کی اکلوتی سویٹ شاپ تھی- کچہری روڈ پر ویٹرنری ھسپتال کے قریب “انگلش بیکری” میانوالی کی اکلوتی بیکری ھؤا کرتی تھی- یہاں عام ضرورت کی سادہ چیزیں ڈبل روٹی ، بن (بند) رسک (رس) اور بسکٹ وغیرہ بہت اچھے بنتے تھے-
لیاقت بازار / کچہری بازار کا”غریب ھوٹل” میانوالی کا وی آئی پی ھوٹل ھؤا کرتا تھا- یہ ھوٹل پروفیسر سلیم احسن کے والد محترم حافظ غلام حسن کا تھا- کھانا بنانے کاکام وہ خود کرتے تھے- یہاں خالص دیسی گھی کے کھانے بنتے تھے- عجیب برکت تھی حافظ صاحب کے ھاتھ میں- چکن ھو یا مٹن، سبزی ھو یا دال، غریب ھوٹل جیسی کوالٹی کی یہ چیزیں میانوالی میں پھر کوئی اور نہ بنا سکا-
مین بازار میں کریانے کی مشہورومعروف دکان چاچا پاکستانی کی دکان ھؤاکرتی تھئ- یہ دکان پرانی سبزی منڈی اور پرانے پوسٹ آفس کے درمیان واقع تھی- چاچا پاکستانی ، مہاجر تھے- بہت زندہ دل انسان تھے-
———————– رھے نام اللہ کا-– منورعلی ملک –13 اگست 2017
میرا پاکستان ——————–
والٹن ٹریننگ کیمپ ، لاھور میں ایک دن سکاؤٹنگ تنظیم کے سربراہ پروفیسر محمد اقبال قریشی ھمیں لیکچر دینے کے لیے آئے- انہوں نے کہا :
” جب پاکستان بنا تو اس وقت ھم بیرون ملک ایک یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ تھے- 12 اگست کو ریڈیو پر قائداعظم کا یہ حکم سنا کہ تمام پاکستانی 14 اگست کو اپنی رھائش گاھوں پر پاکسان کا پرچم لہرائیں- پرچم کا ڈیزائین بھی ریڈیو پر بتا دیا گیا— ھم چند پاکستانی ایک ھاسٹل میں رھتے تھے- قریب ھی ایک فرانسیسی خاتون گارمنٹس ( تیار شدہ ملبوسات) کا کاروبار کرتی تھیں — ھم نے انہیں پرچم کا ڈیزائین بتا کر پرچم بنوانے کا آرڈر دے دیا- کپڑے اور سلائی کی کل قیمت 15 پاؤنڈ طے ھوئی-
اگلی صبح جب ھم پرچم لینے کے لیے گئے ، تو ان خاتون نے پرچم بڑے سلیقے سے ایک ٹرے میں سجا کر ھمارے سپرد کرتے ھوئے کہا — ” کیا یہ آپ کا قومی جھنڈا ھے ؟”
ھم نے کہا ، جی ھاں –
انہوں نے کہا کیا یہ جھنڈا آپ پہلی بار لہرائیں گے ؟
ھم نے کہا ، جی ھاں
خاتون نے مسکرا کر کہا —– “Then take it as a gift from me”
(پھر اسے میری طرف سے گفٹ سمجھ کر قبول کر لیجیے )-
یہ کہتے ھوئے انہوں نے ھمارے 15 پاؤنڈ ھمیں واپس دے دیئے-
یہ ھوتی ھے آزادی کی قدر اور پرچم کا احترام – آزاد قوموں کے لوگ تو یوں ھماری آزادی کی قدر اور پرچم کا احترام کرتے ھیں- اللہ ھمیں بھی توفیق عطا فرمائے –
———— رھے نام اللہ کا —– منورعلی ملک –14 اگست 2017
میرا میانوالی–
ابادی اتنی کم تھی کہ بازار کے دکان دار اور وھاں آنے جانے والے خریدار سب ایک دوسرے کو جانتے تھے- کوئی کسی کے لیے اجنبی نہ تھا- ذاتی واقفیت کی وجہ سے دکان دار چیزوں کی قیمتیں بھی مناسب لگا تے تھے-
کتابوں اور لکھنے پڑھنے کے سامان کی اکلوتی دکان “قیوم دی ھٹی” تھی- یہ دکان شیخ عبدالقیوم کی ملکیت تھی- اس کی ایک شاخ مجید بک ڈپو کے نام سے کچہری روڈ پر بھی تھی – قیوم دی ھٹی بعد میں نفیس بک ڈپو کے نام سے معروف ھوئی- نفیس بک ڈپو کچھ عرصہ بعد دو الگ دکانوں میں بٹ گیا- ابتدائی دکان نیو نفیس بک ڈپو کے نام سے مین بازار میں ھے ، دوسری دکان نفیس بک ڈپو کے نام سے بلوخیل روڈ انڈرپاس کے قریب وقع ھے-
اعلی معیار کی کتابوں اور سٹیشنری کی ایک اور دکان “ادبی دنیا” بھی مین بازار میانوالی میں ھے – یہ دکان حاجی ملک نورمحمد اعوان نے تقریبا پچاس سال پہلے قائم کی تھی- یہ آج بھی قائم و دائم ھے-
مین بازار میں خواجگان کی منیاری کی دکانیں بھی بہت قدیم ھیں- خواجہ برادران کے مشہورومعروف جنرل سٹور بھی میانوالی کے ابتدائی جنرل سٹورز میں شمار ھوتے ھیں-
پرانی سبزی منڈی سے آگے بقیہ بازار کچے اور گردونواح کے دوسرے دیہات سے آنے والے لوگوں کی ضرورت کی چیزوں کا مرکزھؤا کرتا تھا- پنسار کی دیسی ادویات ، بی ڑا، (نسوار) ، مویشیوں کی ادویات، اونٹوں کی مہاریں، اور آرائش کا سامان، سادہ دیہاتی فرنیچر، چارپائیاں ، پیڑھے، چوکیاں (پیڑھیاں) رسیاں ، بانس، کھرپے (رنبھے) درانتیاں اور زراعت کا دوسرا سازوسامان یہیں سے دستیاب ھوتا تھا- یوں سمجھ لیجیے کہ سبزی منڈی سے آگے آدھا بازار دیہاتیوں کا بازار ھؤا کرتا تھا-
————————– رھے نام اللہ کا —– منورعلی ملک –15 اگست 2017
میرا میانوالی–
مین بازار کے جنوب میں اس سے متوازی آج کا مسلم بازار قیام پاکستان سے پہلے 147گروبازار147 کے نام سے معروف تھا، کیونکہ یہ سالم بازار ھندو تاجروں کا تھا- اس کا نام گروبازار ایسا مقبول ھؤا کہ زیادہ تر لوگ آج بھی اسے گروبازار ھی کہتے ھیں- قیام پاکستان کے وقت ھندو یہاں سے چلے گئے تو یہ بازار مکمل طور پہ ویران ھوگیا- پھر رفتہ رفتہ یہاں کے تاجر لوگوں نے اسے دوبارہ آباد کردیا- اب تو ماشاءاللہ یہاں کئی پلازے اور شاپنگ سنٹر بن چکے ھیں–
مین بازار پر تو مردوں کا مکمل قبضہ ھے، اس لیے خواتین وھاں جانا مناسب نہیں سمجھتیں- وہ اپنی ضرورت کی چیزیں مسلم بازار اور اس سے ملحقہ گلیوں کی دکانوں سے خریدتی ھیں- مسلم بازار میں بھی مرد تو آتے ھیں مگر وہ ھم جیسے یتیم مسکین مرد ھوتے ھیں- ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے اپنا سودا خرید کر چپ چاپ نکل جاتے ھیں-
1980 میں جب میرا تقرر گورنمنٹ کالج میانوالی میں ھؤا تو ابتدا میں ھم مسلم بازارسے ملحق محلہ موتی مسجد میں رھتے تھے- اس وقت مسلم بازار میں صرف پانچ سات دکانیں آباد تھیں- لال خان بلوچ کا ھوٹل، اس کے سامنے ایک کریانہ سٹور، کچھ آگے جا کر دائیں جانب ایک مٹھائی کی دکان، ایم سی ھائی سکول والی گلی کے سرے پر کامل میڈیکل سٹور ( میرے بھائی لالونورخان قتالی خیل دوپہر کے بعد اکثر یہیں بیٹھتے تھے) – کچھ اور آگے جا کر دائیں ھاتھ پہ سادات دواخانہ – یہ دواخانہ اور کامل میڈیکل سٹور ایک ھی خاندان کی ملکیت تھے— بس یہی تھی اس وقت گروبازار کی کل آبادی-
مسلم بازار لمبائی میں مین بازار کا تقریبا نصف ھے- مغرب کی طرف چلتے جائیں تو اعوان چوک پہ جاکر یہ بازار اچانک ختم ھو جاتا ھے-
مسلم بازار اور مین بازار کے متوازی بلوخیل روڈ بھی اب تو اچھا خاصا بازار بن چکی ھے—- گھنڈوالی وانڈھی میں گورنمنٹ ھائی سکول روڈ بھی لاری اڈے تک یک طرفہ بازار بن گئی ھے- یک طرفہ اس لیے کہ اس کے بائیں کنارے پر گورنمنٹ ھائی سکول، ایلیمنٹری کالج، ڈی ایچ کیو کی کچھ عمارات اور کچھ دوسری سرکار ی تعمیرات واقع ھیں —– اب تو خیر سے میانوالی کی ھر گلی بازار بنتی جارھی ھے-
آگے آگے دیکھیے ھوتا ھے کیا —- رھے نام اللہ کا – منورعلی ملک — 16 اگست 2017
میرا میانوالی–
15 اگست کی پوسٹ دیکھ کر کچھ دوستوں نے میانوالی کے روایتی لباس کے حوالے سے کچھ سوالات پوچھے تھے- اس لیے آج ذکر ھوگا میانوالی کے روایتی لباس کا-
ضلع میانوالی کا روایتی مردانہ لباس لمبا سفید کرتا (چولا) سفید تہمد (منجھلا یا چادر) اور سفید پگڑی پر مشتمل ھوتا تھا- جب ھم نے ھوش سنبھالا تو نوجوان طبقے میں سفید شلوار،اور ھلکے رنگ کی کالروں والی قمیض کا رواج آچکا تھا، مگر بزرگ صرف سفید روایتی لباس ھی پہنتے تھے- کبھی کسی بزرگ کو رنگین لباس پہنے نہ دیکھا- جب رنگین دھوتی کا رواج شروع ھؤا تو کچھ لوگ دھوتی کے ساتھ رنگین چولا بھی پہننے لگے- مگر معزز طبقے کے لوگوں نے یہ فیشن پسند نہ کیا- وہ سفید چولا، چادر اور پگڑی ھی پہنتے رھے- اسی لیے انہیں سفیدپوش (سفید لباس والا) کہا جاتا تھا- اور معاشرے میں ان کی بات حکم سمجھی جاتی تھی-
ننگے سر پھرنا بدمعاشی سمجھا جاتا تھا- اگر کوئی نوجوان ننگے سر پھرتا نظرآجاتا تو بزرگ اسے سختی سے ڈانٹ دیتے تھے- بعض اوقات تو پھینٹی بھی لگا دیتے تھے- ایک بہت پیارا رواج یہ تھا کہ اگر کوئی بزرگ کسی نوجوان کو ڈانٹتا یا پھینٹی لگاتا، تو لڑکے کے والدین اپنے بچے کی بجائے بزرگ کا ساتھ دیتے تھے- بزرگ سب کے سانجھے ھوتے تھے- ان سے گستاخی کا تصور ھی کوئی نہیں کر سکتا تھا —
تعلیم یافتہ نوجوان پگڑی باندھنے سے تو شرماتے تھے، اس لیے سر پہ ٹوپی پہن لیتےتھے- زیادہ فیشن ایبل نوجوان سر پہ رومال لپیٹ لیا کرتے تھے- گھر سے نکلتے وقت سر پہ کچھ نہ کچھ پہننا بہر حال ضروری تھا –
ابھی یہ قصہ ایک دودن مزید چلے گا-
—————————— رھے نام اللہ کا-– منورعلی ملک –17 اگست 2017
میرا میانوالی–
5 سال کی عمر تک لڑکوں کو شلوار نصیب نہیں ھوتی تھی- جب سکول جانا شروع کرتے تو مجبورا ایک دو شلواریں بنوادی جاتی تھیں- ورنہ 5 سال کی عمر تک تو صرف ایک لمبا سا چولا قمیض اور شلوار دونوں کا کام دیتا تھا- جوتے بھی سکول میں داخلے کے وقت لے کر دیئے جاتے تھے-
اس بے سروسامانی کی وجہ کنجوسی نہیں، غریبی تھی— بارانی زمین سے حاصل ھونے والی پانچ سات بوری گندم سے گھر کے سال بھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اس قسم کی کئی قربانیاں دینی پڑتی تھیں- کاشتکاروں کے پاس نقد پیسہ تو ھوتا نہیں تھا- گندم دے کر اس کے عوض ضرورت کی چیزیں خریدی جاتی تھیں- کبھی نقد رقم ضرورت پڑتی تو گندم کے عوض چیزوں کی بجائے اس کی قیمت کے برابر پیسے لے لیے جاتے تھے- مکان بنانے ، زمین آباد کرنے یا بچوں کے گھر بسانے کے لیے ھندو دکان داروں سے سودپر قرض لینا پڑتا تھا- سود کی لعنت کبھی ختم نہیں ھوتی تھی- اکثر لوگ مقروض رھتے تھے-
جب گندم ختم ھو جاتی تو گھر کا سودا بھی ادھار لیا جاتا تھا- ادھار کی رقم اگلی فصل آنے پر واپس دینی پڑتی تھی — بہت مشکل زندگی تھی دیہات کے چھوٹے کاشتکاروں کی-
آج یہ باتیں آپ کو بہت عجیب اور ناقابل یقین لگ رھی ھوں گی ، کیونکہ آپ نے غریبی دیکھی ھی نہیں- گھر میں ٹی وی ، فریج، موٹر سائیکل ، اور بہت کچھ موجود ھونے کے باوجود آپ اپنے آپ کو غریب کہتے ھیں- عجیب مذاق ھے— کیا کبھی ایسا ھؤا کہ سکول کی کتابوں کے پیسے نہ ھونے کی وجہ سے آپ کا بچہ تعلیم سے محروم رہ گیا ؟ — کیا آپ نے بزرگ خواتین کو اس لیے ننگے پاؤں پھرتے دیکھا کہ جوتے خریدنے کے لیے پیسے گھر میں موجود نہیں— ؟ ؟ ؟
ان سب باتوں سے عجیب بات یہ کہ لوگ پھر بھی خوش اور مطمئن رھتے تھے- کھانے کو ایک روٹی ملتی تو اس میں سے بھی آدھی اپنے غریب ھمسائے کو دے دیتے تھے- محبت، ھمدردی، تعاون اور ایثار کی ایسی مثالیں اب کہاں —
————————- رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک –18 اگست 2017
میرا میانوالی–
بارانی علاقے کے دیہات میں نہ تو پھلوں کے کوئی باغ ھوتے تھے نہ دکانیں- داؤدخیل میں کبھی کبھار کالاباغ سے ایک چاچا پھلوں کا ٹوکرا سرپہ اٹھائے آتا تھا، اور گلی گلی پھر کر پھل بیچتا تھا- دوآنے کا ایک کیلا (ایک روپے میں آٹھ) ، اور ایک آنے کا مالٹا ملتا تھا ، مگر یہ عیاشی بھی ھمیں مہینے میں ایک آدھ بار نصیب ھوتی تھی-
اس کا یہ مطلب نہیں کہ بارانی دیہات کے لوگ پھلوں جیسی نعمت سے بالکل ھی محروم تھے- اللہ تو سب کا رب ھے نا- ھمارے علاقے کے لیے اس نے کئی قسم کے جنگلی پھل پیدا کردیے- یہ پھل دیکھنے میں تو بہت سادہ بلکہ مسکین سے نظر آتے تھے، مگر ھوتے بہت مزیدار تھے- یقینا قدرت نے ان میں کئی قسم کی بیماریوں کا علاج بھی رکھ دیا ھوگا — آج کوئی ریسرچ کرے تو ان پھلوں کے بارے میں حیرت انگیز انکشافات منظرعام پر آ سکتے ھیں- – ھم تو بس اتنا جانتے ھیں کہ ھمارے بچپن کے زمانے میں بیماریاں بہت کم ھوتی تھیں- کیا پتہ اس کی ایک وجہ ان پھلوں کے اثرات بھی ھوں-
پکچر میں ھمارے علاقے کے تین جنگلی پھل آپ کے سامنے ھیں- ایک تو بیر ھیں ، جو آج بھی کئی گھروں میں بیریوں پر ھرسال بہار کے موسم میں لگتے ھیں، میانوالی میں ھمارے پڑوس کے چند گھروں میں اب بھی بیریاں موجود ھیں- وھاں سے ھمیں بھی ایک آدھ پلیٹ گفٹ کے طور پہ مل جاتی ھے- داؤدخیل میں تو ھمارے اپنے گھر میں بھی دوتین بیریاں ھیں- دو بیریاں ھماری امی نے لگائی تھیں- بہت لذیذ بیر ھوتے تھے ان کے- خدا کی شان دیکھیے کہ امی فو ت ھوئیں تو وہ تناور درخت بھی آھستہ آھستہ سوکھ گئے- ان پر پھل تو کیا پتے بھی باقی نہ رھے، اس لیے انہیں کاٹ دیا گیا-
پیلو اور ڈیہلوں کی ایک ایک پکچر بھی اس پوسٹ میں نظر آرھی ھے- ان دو پھلوں کا ذکر انشاءاللہ کل ھوگا-
——————————– رھے نام اللہ کا ——————————-
( سب سے اوپر والی پکچر بیروں کی ھے- نیچے بائیں طرف پیلو اور دائیں طرف ڈیہلوں کی پکچر ھے ) –– منورعلی ملک –19 اگست 2017
میرا میانوالی–
بیر کی گٹھلی سے جو بیج نکلتا ھے وہ پستہ کی طرح ایک بہت لذیذ ڈرائی فروٹ ھوتا ھے- بچے گرم توے پر گڑ پگھلا کے اس میں بیر کے بیج ڈال کر بہت لذیذ مرنڈا بنا کر کھایا کرتے تھے-
پیلو تھل کا پھل ھے- خواجہ فرید کے گیت”پیلوں پکیاں نی ، آچنڑوں رل یار” نے پیلو کا نام دنیا بھر میں متعارف کرادیا، پیلو ، بیر سے چھو ٹا بہت نرم اور میٹھا پھل ھے- یہ لال اور زرد ، دو رنگوں کا ھوتا ھے- اس کا درخت “جال” کہلاتا ھے- ضلع میاوالی کے پہاڑی علاقے میں بھی جال کے جنگل ھیں- وھاں سے تبی سر وغیرہ کے لوگ پیلو لاکر کالاباغ کی سبزی منڈی میں بیچتے ھیں- داؤدخیل میں بھی بہت درخت ھؤا کرتے تھے، اب ان کا نام ونشان بھی باقی نہیں رھا- میاں رمدی کے قبرستان میں بہت سے جال کے درخت تھے- مگر لوگ کہتے تھے یہ جنوں کی ملکیت ھیں- جنات کے ڈر سے ان درختوں کے پھل کو کوئی ھاتھ بھی نہیں لگاتا تھا- پیلو سے ملتی جلتی چیز “گرگرے” بھی تبی سر کے علاقے کی مشہور پیداوار ھیں- گرگرے سیاہ رنگ کا بہت میٹھا اور خوش ذائقہ رسیلا پھل ھے-
ڈیہلے “کریں” نام کی جھاڑیوں کا پھل ھے- یہ جھاڑی پانچ سات فٹ اونچی ھوتی ھے- اس کے پتے نہیں ھوتے- بہار کے موسم میں سبز شاخوں پر خوبصورت سرٍخ پھول لگتے ھیں- کچھ دن بعد پھولوں کی پتیاں جھڑ جاتی ھیں تو ان کی جگہ سبز رنگ کے کچے ڈیہلے نمودارھوتے ھیں ،جو چند روز بعد پک کر سرخ ھو جاتے ھیں – ڈیہلا بہت نرم اور رسیلا پھل ھے- اس کا گودا زرد رنگ کا ھوتا ھے – اس پھل میں میٹھے اور کڑوے ذائقے کا ایک عجیب امزاج قدرت نے سمو دیا ھے- اس کا ایک اپنا ذائقہ ھے جو کسی اور پھل سے ملتا جلتا نہیں- کچے ڈیہلوں کا اچار بازار میں ھرجگہ عام ملتا ھے-
تبی سر کے پہاڑی علاقے میں خودرو انجیر کے درخت بھی پائے جتے ھیں- مقامی زبان میں شاید اس پھل کو کھباڑی کہتے ھیں- انجیر وہ پھل ھے جس کی رب کریم نے قرآن حکیم میں قسم کھائی ھے- اسی بات سے اس پھل کی خوبیوں کا اندازہ لگا لیں—- کیا کیا نعمتیں رب رحیم نے ھمارے لیے پیدا کیں ،مگر ھم ان کی پروا ھی نہیں کرتے- اس ناشکری کی کچھ سزا اس دنیا میں بھگت رھے ھیں ، کچھ آگے جاکرملے گی- اللہ معاف فرمائے—– رھے نام اللہ کا —-
( پکچر — اوپر، بیر—- نیچے ، دائیں سے بائیں—– انجیر ، ڈیہلے ، پیلو )- منورعلی ملک — 20 اگست 2017
میرا میانوالی–
خدا جانے کہاں گئے ھمارے وہ دوست درخت جو کسی زمانے میں ھمارے علاقے کی پہچان ھؤا کرتے تھے- بارانی علاقے کےیہ درخت زیادہ سرسبز تو نہیں ھوتے تھے، لیکن ان کے کچھ فوائد تھے ، جو ان کے ساتھ ھی رخصت ھو گئے-
ایک تو 147رکھ147 ھوتے تھے- پنجابی میں تو ھردرخت کو رکھ کہتے ھیں- اس درخت کو کھگل کہتے ھیں، مگر داؤدخیل میں رکھ صرف اسی درخت کانام تھا- رکھ بہت روکھا پھیکا، بگڑا ھؤا، ناراض سا درخت ھوتا ھے- پتوں کی بجائے اس پر دھاگوں جیسا بور لگتا ھے- اس کا تنا بہت کھردرا، اور لکڑی روکھی سی ھوتی ھے- اس کی شاخیں کسی ترتیب کے بغیر جدھر منہ آئے پھیلتی چلی جاتی ھیں- رکھ کی لکڑی زیادہ تر ایندھن کے طور پہ استعمال ھوتی تھی- اس کے بور کا دھؤاں ، زخموں کے لیے طاقتور اینٹی بایوٹک دوا ھے- رکھ کا بور اونٹ کی بہت پسندیدہ غذا ھے-
کیکر تو اب بھی کہیں کہیں دیکھنے میں آتے ھیں- کیکر کی سبز شاخیں بہترین مسواک کاکام دیتی ھیں- پرانے کیکروں کے تنے سے گوند رستا رھتا ھے- بچپن میں ھم اس سے کاغذ چپکایا کرتے تھے- بلکہ ھم تو یہ گوند کھایا بھی کرتے تھے- بہت مزیدار ھوتا تھا- بہار کے موسم میں کیکر چھوٹے چھوٹے پیلے پھولوں سے لد جاتے تھے- پھولوں کا موسم گذرجاتا تو کیکروں پر پھلیاں نمودار ھوجاتی تھیں- یہ پھلیاں بکریوں کی مرغوب غذآ تھیں- ان پھلیوں میں کیکر کے کانٹے پرو کر ھم ان سے ایک کھیل بھی کھیلا کرتے تھے ، جسے تومبے کہا جاتا تھا- اس کھیل کے بارے میں لکھوں بھی تو آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گا- بہرحال وقت گذاری کے لیے بہت اچھا کھیل تھا-
ایک بہت خوبصورت درخت شریں بھی ھؤا کرتا تھا- خاصا پرسنیلیٹی والا درخت تھا- بہار میں اس کے پھولوں کی مست خوشبو لوگوں کو بے ساختہ اس درخت کی طرف کھینچ لاتی تھی- شریں بہت کم پایا جاتا تھا- لوگ یہ درخت اپنے گھروں میں یا زمینوں پر اس لیے نہیں لگاتے تھے کہ جو بندہ یہ درخت لگاتا اسے اس درخت کی جوانی دیکھنی نصیب نہ ھوتی- یہ عقیدہ غالبا ھندؤوں کا تھا، مگر سیدھے سادے ان پڑھ لوگ اس کو سچ ھی سمجھتے تھے-
———————————— رھے نام اللہ کا ——————————
( پکچر– رکھ / کھگل
کیکر —– دائیں جانب شریں)-– منورعلی ملک — 21 اگست 2017
میرا میانوالی–
بنجر زمینوں میں برسات کے موسم میں کئی قسم کی جھاڑیاں اگتی تھیں- ان میں سے اکثر جھاڑیاں بہت کام کی ھوتی تھی- اللہ کی قدرت دیکھیے کہ جن زمینوں پر مالک توجہ نہیں دیتے تھے ، وہ بھی مالکوں کو کچھ نہ کچھ دے ھی دیتی تھیں- یہ ھے زمین کی انسان سے وفاداری – زمین سے بے وفائی تو انسان کرتا ھے- زمین کبھی انسان سے بےوفائی نہیں کرتی-
ایک جھاڑی کھار کہلاتی تھی- یہ گاؤں کے باھر ویران کھیتوں بالخصوص ریتلی زمین میں بکثرت ھوتی تھی- خواتین یہ جھاڑیاں جڑوں سمیت اکھاڑ کر لے آتی تھیں- انہیں آگ میں جلانے کے بعد ان کی راکھ پانی میں ابال کر اس سے کپڑے دھویا کرتی تھیں- یہ راکھ اچھے خاصے واشنگ پاؤڈر (سرف وغیرہ) کاکام مفت میں کر دیتی تھی- غریب لوگوں کے پاس صابن خریدنے کے پیسے تو ھوتے نہیں تھے- اللہ نے ان کے لیے یہ مفت کا واشنگ پاؤڈر زمین سے پیدا کر دیا-
ایک جھاڑی ھرمل ھؤا کرتی تھی- یہ شاید ریتلے علاقوں میں اب بھی موجود ھو- اس کا بیج کلونجی کی طرح چھوٹے چھوٹے سیاہ دانوں کی شکل میں ھوتا ھے- ھرمل کے بیج کا دھؤاں خسرے میں مبتلا بچوں کے لیے بہترین علاج ھے- بعض لوگ ایک اور جڑی بوٹی گگل کا دھؤاں بھی استعمال کرتے تھے، مگر ھرمل اس سے کم مؤثر نہ تھی- ھرمل کا بیج پیٹ کی بہت سی بیماریوں کا بھی شافی علاج ھؤاکرتا تھا- ایک گلاس پانی کے ساتھ ایک چمچ ھرمل کا بیج عمومی خوراک تھی-
ایک بہت کارآمد جھاڑٰی وٰٰنڑاں ، ضلع میانوالی کے پہاڑوں کے دامن میں بکثرت ھؤاکرتی تھی- اس کے پتوں اور شاخوں کارس بہت کڑوا ھوتا تھا- سائنس کی زبان میں یہی ذائقہ اس کی بہت مؤثر اینٹی بایوٹک خاصیت تھا- ونڑیں کی شاخ کا مسواک دانتوں کی سو فی صد حفاظت کا ضامن سمجھاجاتا تھا- ونڑیں کے رس سے سیاہ رنگ کے آئی ڈراپس eye drops بھی بنتے تھے، جو آنکھوں کی اکثر بیماریوں کا کامیاب علاج ھؤا کرتے تھے- یہ ڈراپس سرکاری ھسپتالوں سے ملتے تھے–
——————- رھے نام اللہ کا ––
پرانی یادیں ———- جب ھم جوان تھے
بھکر کا ایک مشاعرہ ، صدارت پروفیسر محمد سلیم احسن ، نظامت ، سید نجف بخاری
( سلیم احسن صاحب کے بائیں جانب والے آدمی کو آپ نہ پہچان سکیں تو آپ کی مرضی )
منورعلی ملک — 22 اگست 2017
میرا میانوالی–
یہ موسم باجرے کا موسم کہلاتا تھا – باجرے کی لمبے چوڑے سبز پتوں میں ملبوس قد آور فصل سرسبزی اور شادابی کا ایک خوبصورت مظہر ھؤا کرتی تھی-
فصل پکنے سے پہلے باجرے کے خوشے (سٹے) مروڑ کر تازہ کچے دانے گڑ کے ساتھ کھانا ھمارا محبوب مشغلہ ھوتا تھا- یہ دانے عام طور پر چوری کا مال ھوتے ھے- کیونکہ کسان تو فصل پکنے سے پہلے ایک دانہ بھی ضائع نہیں ھونے دیتے تھے- جو لڑکے کھیت سے سٹے توڑتے ھوئے پکڑے جاتے، ان کی باقاعدہ مار کٹائی بھی ھوتی تھی- مگر ھم لوگ پھر بھی باز نہیں آتے تھے-
باجرا بٹیروں کی اتنی پسندیدہ غذا ھے کہ وہ بچارے ھزارھا میل کا فاصلہ طے کرکے روس سے ھمارے علاقے میں باجرا کھانے آتے تھے-
آج کل تو باجرا صرف چھوٹے پرندوں (چڑیوں، کبوتروں اور بٹیروں وغیرہ) کی خوراک کے طور پہ استعمال ھوتا ھے- ھمارے بچپن میں باجرے کی روٹی لوگوں کی پسندیدہ غذا ھؤا کرتی تھی- خالص دیسی گھی اور لسی کے ساتھ باجرے کی روٹی دوپہر کا بہترین کھانا سمجھی جاتی تھی- یہ روٹی پتلے آٹے سے بنتی تھی- خالص گھی اور شکر والی باجرے کی چوری choori اللہ تعالی کی ایک عجیب نعمت ھے- کبھی کھا کر دیکھیں-
باجرے کے دانے پانی میں ابال کر بھی کھائے جاتے تھے- انہیں بھنگور کہتے تھے- خشک دانے دانگی پر بھنوا کر کھانے کا رواج بھی عام تھا- یہ چھوٹے چھوٹے گرماگرم سفید پھول آپ کے پاپ کارن کا نعم البدل ھؤا کرتے تھے-
باجرے کے کھیت کی رکھوالی بھی بڑا دلچسپ شغل ھوتی تھی- سارادن چڑیوں کے ساتھ زبانی کلامی جنگ کا ایک اپنا لطف تھا- ایک طرف سے چڑیوں کو اڑاتے تو وہ دوسری طرف سے کھیت پر حملہ آور ھو جاتی تھیں- شام تک اپنا کام مکمل کر کے ھی واپس جاتی تھیں- ———- جانے کہاں گئے وہ دن – – –
———————- رھے نام اللہ کا-– منورعلی ملک — 23 اگست 2017
میرا میانوالی–
دیہات میں ٹرانسپورٹ کاکام اونٹوں سے لیا جاتا تھا- کھیت سے پیداوار کی بوریاں، عمارات کی تعمیرکا سازوسامان یا کوئی دوسرا بھاری سامان اونٹوں پر ھی لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا تھا- دس پندرہ میل سفر کے لیے اونٹ ھی کار یا ویگن کاکام دیتا تھا- بارات میں خواتین اونٹوں پر سوار ھو کر آتی جاتی تھیں – دلہن کو لے جانے کےلیے کار کا کام بھی اونٹ سے لیا جاتا تھا-
اوٹھی قبیلہ کے لوگوں کا ذریعہ معاش اونٹ تھے- اس قبیلے کا ایک اپنا کلچر تھا- داؤدخیل کے علاقے میں اوٹھی سحری کے وقت قریبی پہاڑ سے چونے کا پتھر اونٹوں پر لاد کر ریلوے سٹیشن پر پہنچایا کرتے تھے- آتے جاتے ھوئے ان میں سے کوئی نوجوان بہت دردبھری آواز میں ماھیے گایا کرتا تھا- ماھیے کی یہ طرز اوٹھیوں والی طرز کہلاتی تھی- گانے والا انتہائی اونچی آواز میں ماھیا الاپتا تو ماحول پر وجد طاری ھو جاتا تھا- اوٹھی کہا کرتے تھے کہ ماھیے کی یہ لے اونٹوں کو بھی متاثر کرتی ھے- – اونٹ ماھیے کی آواز سن کر ایسے مست ھو جاتے تھے کہ وقت اور فاصلہ ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے تھے-
ماھیے کی یہ درد بھری طرز وھی ھے جس میں بزرگ خواتین جوان بیٹوں کی موت پر بین کیا کرتی تھیں- ایک دفعہ میں نے لالا عیسی خیلوی سے اس طرز میں ماھیا سنانے کی فرمائش کی تھی- چند ماھیے سن کر لالا سمیت سب لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، اس لیے یہ پروگرام زیادہ دیر نہ چل سکا-
اونٹ کے بارے میں میں نے کہیں پڑھا ھے کہ یہ 65 کلو میٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے دوڑ سکتا ھے- مگر اس رفتار سے صرف چند کلومیٹر ھی بھاگ سکتا ھے- واللہ اعلم –
بعض لوگ کنؤاں جوتنے کا کا م بھی اونٹوں سے لیتے تھے- ٹرانسپورٹ کے جدید وسائل آگئے تو اوٹھیوں کا کلچر بھی ھمارے علاقے سے رخصت ھو گیا- کل انشاءاللہ اس کلچر کے بارے میں کچھ مزید باتیں بتاؤں گا-
————————— رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک –25 اگست 2017
میرا میانوالی–
اونٹ کی کچھ عادتیں انسان سے ملتی جلتی ھیں- انسان کی طرح اونٹ بھی سریلی آواز سے متاثر ھوتا ھے- چند مخصوص دھنیں ایسی ھیں جو اونٹ کے دل کی دھڑکنوں اور چلنے کی رفتار کو متعین کرتی ھیں- قدیم زمانے سے اونٹوں کی ان پسندیدہ دھنوں پر نغمے لکھے جارھے ھیں- عرب میں آمداسلام سے بہت پہلے اونٹوں کے لیے خصوصی نغمے تخلیق کیے جاتے تھے- یہ لوک شاعری ھوتی تھی- قافلے میں ایک یا ایک سے زائد ساربان (اوٹھی) حدی خوانی (اونٹوں کے لیے مخصوص گیت گانے) پر مامور ھوتے تھے- تاریخ و سیرت کے معروف محقق ڈاکٹر اشفاق احمد بتاتے ھیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی دو حدی خوان مقرر کر رکھے تھے-
147نغمہ ساربان147 کے عنوان سے علامہ اقبال نے بھی فارسی میں ایک بہت خوبصورت حدی لکھی ھے- یہ حدی مخصوص بحر میں لکھی گئی ھے- اس کا ردم Rhythm اونٹ کی چال والاھے— ابتدائی بول کچھ یوں ھیں-
تیز ترک گام زن ، منزل ما دور نیست
ناقہ سیار من
آھوئے تاتارمن
درھم و دینار من
اندک و بسیار من
تیز ترک گام زن ، منزل مادور نیست
———— ساربان اپنی اونٹنی سے کہتا ھے ، ذرا سی تیز چل، ھماری منزل اب دور نہیں ھے- اے میرٰی صبا رفتار ڈاچی، میری تاتاری ھرنی، میری دھن دولت تو ھی ھے، توھی میرا کل سرمایہ ھے- بس ذرا سی تیز چل، ھماری منزل دور نہیں ھے-
اوٹھیوں کے کلچر کی باتیں انشاءاللہ کل ھوں گی، آج کچھ علم کی باتیں یادآگئیں ، یہ بھی آپ کو بتانا ضروری تھیں— کبھی کبھی علم کی باتیں بھی سن لیا کیجیے ، کہیں کام آ سکتی ھیں-
——————————– رھے نام اللہ کا– منورعلی ملک — 26 اگست 2017
میرا میانوالی–
داؤدخیل کے محلہ امیرے خیل میں اوٹھیوں کا ایک قبیلہ آباد تھا- اس قبیلے کے دو بزرگ، چاچا عبداللہ اور چاچا علی یار اونٹوں کے معاملات میں مہارت کی وجہ سے پورے علاقے میں مشہور تھے- کسی وجہ سے ناراض ھو کر ایک اونٹ نے چاچا عبداللہ کا بایاں بازو چبا ڈالا، بازو بری طرح چکنا چور ھو گیا، ڈاکٹروں نے کاٹ دیا، مگر چاچا عبداللہ پھر بھی عمر بھر اوٹھیوں والا کام ھی کرتے رھے- کہا کرتے تھے ایک بازو جانے سے میں اپنے آباؤاجداد والا کام کیوں چھوڑ دوں- اللہ نے میرے لیے رزق کا یہی وسیلہ مقرر کردیا ھے، اس لیے جب تک زندہ ھوں یہی کام کرتا رھوں گا-
چاچا علی یار کی موت بہت دردناک تھی- شاید کسی وجہ سے اس نے کسی دن اونٹ پر اچھا خاصآ تشدد کیا تھا — اونٹ ویسے تو بہت صابر شاکر جانور ھے، بھوکا پیاسا رھنا پڑے تو رہ لیتا ھے- کام جتنا چاھو لے لو، یہ کبھی احتجاج نہیں کرتا، لیکن تشدد ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کرتا ، بدلہ ضرور لیتا ھے، اور اس کا انتقام بہت ھولناک ھوتا ھے-
ایک دن چاچا علی یار اپنے اونٹ پہ سوار ھوکر ٹھٹھی جا رھاتھا- جب شہر سے باھر نکلا تو اونٹ نے اچانک گردن موڑی اور چاچا علی یار کو بازوسے پکڑ کر زمین پر گرا دیا- پھر اپنے دونوں گھٹنے چاچا علی یار کے سینے پر رکھ کر بیٹھ گیا- اونٹ کے بھاری بھرکم وزن سے علی یار کی ھڈیاں پسلیاں چور چور ھوگئیں، اور وہ فورا مرگیا، مگر اونٹ کا غصہ پھر بھی ٹھنڈا نہ ھؤا- وہ اٹھا اور ایک پاؤں لاش کی ٹانگ پر رکھ کر لاش کی دوسری ٹانگ منہ میں پکڑ کر لاش کو چیرنا چاھتا تھا کہ ٹھٹھی کے ایک ریٹائرڈ فوجی جوان نے رائیفل کا فائر کر کے اس کاکام تمام کردیا- گولی اونٹ کے سر میں لگی اور وہ وھیں ڈھیر ھو گیا-
یہ چشم دید واقعہ ھے- میں ان دنوں ٹھٹھی سکول میں ھیڈماسٹر تھا- پورا شہر یہ ھولناک منظر دیکھنے کے لیے وھاں موجود تھا-
ھمار ی زبان میں کہتے ھیں “اتنا مار، جتنا سہہ سگیں”- کبھی اونٹ سے واسطہ پڑجائے تو یہ بات ضرور یاد رکھیں-
———————————– رھے نام اللہ کاالحمد-– منورعلی ملک — 30 اگست 2017
میرا میانوالی–
ھمارے ھاں عیدالاضحی کو بقرعید کہتے تھے- ھم ھر سال قربانی کے لیے دنبہ لیتے تھے- سینگوں والا دیسی دنبہ “چرڑا” کہلاتا تھا- اس کا گوشت صاف ستھرا، چربی سے پاک اور بےحد لذیذ ، مگر ذرا سا سخت ھوتا تھا ،اس لیے اسے پکانے میں ذرا زیادہ دیر لگتی تھی-
سرد ی کے موسم خانہ بدوش (پکھی واس ) افغان پاوندے دنبوں کے بڑے بڑے ریوڑ لے کر ھمارے علاقے میں آتے تھے- ان دنبوں کو “لاٹی دنبے” کہتے تھے- دیکھنے میں تو بہت خوبصورت ھوتے تھے، مگر ان کے گوشت میں چربی بہت زیادہ ھوتی تھی، اس لیے لوگ انہیں پسند نہیں کرتے تھے- تھل کے علاقے سے لمبے کانوں والے کجلے دنبے اب بھی آتے ھیں- گوشت کی مقدار اور لذت کے حساب سے یہ بہترین دنبے ھوتے ھیں-
ھمارے گھر میں عید سے تقریبا ایک ھفتہ پہلے دنبہ آجاتا تھا – اس کی دیکھ بھال اور خاطر تواضع کا کام میں ھی کرتا تھا- گھر کے دوسرے افراد کو اس کے نزدیک بھی نہیں جانے دیتا تھا- صبح شام دنبے کو چرانے لے لیے اپنے گھر کے پچھواڑے کھلی زمینوں میں لے جاتا – ان زمینوں میں کچھ کاشت نہیں ھوتا تھا- خودرو بارانی گھاس “تلہ” اور کچھ دوسرے پودے ھوتے تھے- دنبے بڑے شوق سے یہ نعمتیں کھاتے تھے-
ارد گرد کے گھروں کے بچے بھی اپنے دنبے بکریاں وغیرہ لے آتے تھے- جانوروں کو چرنے کے لیے چھوڑ کر ھم آپس میں گپیں لگاتے رھتے تھے- اپنے اپنے جانوروں کی آرائش اور نمائش بھی بہت کرتے تھے ھم لوگ – مہندی اور لال سبز رنگ لگانے کے علاوہ ان کے گلے میں منکوں کی مالا بھی ڈالی جاتی تھی- کچھ بچوں نے اس موقع کے لیے گھنگھرو بھی سنبھال کر رکھے ھوئے ھوتے تھے- یہ گھنگھرو کالابا غ کے بازار سے ملتے تھے-
دنبے کے ساتھ ایک ھفتے کی سنگت اچھی خاصی پکی دوستی بن جاتی تھی- ھم ایک دوسرے کی بات سمجھتے تھے- ایک دوسرے سے پیار کرتے تھے-
عید کی صبح دنبہ ذبح ھونے پر رونا دھونا بھی بہت ھوتا تھا- یہ رونا دھونا تقریبا ھر گھر میں ھوتا تھا- — رھے نام اللہ کا –– منورعلی ملک — 31 اگست 2017