MERA MIANWALI  – DECEMBER 2023

منورعلی ملک کے دسمبر          2023کے فیس  بک   پرخطوط

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعر نے کہا تھا۔۔۔۔۔۔
اسے کہنا دسمبر آگیا ہے
شاعر کا مسئلہ تو پتہ نہیں کیا تھا ، شاید کسی کو وعدہ یاد دلانا چاہتا تھا۔ مگر اس میں دسمبر کا کیا قصور ؟ اگر جانے والے نے نومبر میں واپسی کا وعدہ کیا ہوتا تو پھر شاعر یقینا کہتا
اسے کہنا نومبر آگیا ہے
ویسے کہتے ہیں دسمبر اداس مہینہ ہے۔ بچھڑے ہوئےلوگ اس مہینے میں بہت یاد آتے ہیں ، خاص طور پر شام کے وقت۔ اسی حوالے سے ایک شاعر نے یہ بھی کہا تھا۔۔۔۔۔۔
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں،
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
اس طرح کے کام تو ہم نے کبھی نہیں کیئے پھر بھی دسمبر اپنی زندگی میں کئی حوالوں سے اہم رہا ہے۔ کچھ جان سے پیارے لوگ اسی مہینے میں ہمیشہ کے لیئے بچھڑ گئے۔ ان کا ذکر متعلقہ تاریخوں کو ہو گا۔
گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں اپنا تقرر بھی 1975 میں دسمبر کے آخری دن ہوا ۔ ٹھیک 5 سال بعد گورنمنٹ کالج میانوالی میں تقرر بھی اسی مہینے کے اسی دن ہوا۔
دوسرے مہینوں کی طرح کئی اچھے برے واقعات ہر انسان کی زندگی میں اس ماہ میں بھی ہوتے رہتے ہیں۔ دوسرے مہینوں کی طرح دسمبر بھی بس ایک مہینہ ہے۔ عام لوگ تو دسمبر کی پروا ہی نہیں کرتے۔ ہم پڑھے لکھے لوگ شاعروں کی باتوں میں آکر اس مہینے کو زیادہ سیریس لیتے ہیں۔
ہمیں تو بچپن میں دسمبر اس لیئے بہت اچھا لگتا تھا کہ اس ماہ کے آخری دس دن سردیوں کی چھٹیاں ہوتی تھیں جنہیں بڑے دنوں کی چھٹیاں کہتے تھے۔ بڑے دن اس لیئے کہ 22 دسمبر کے بعد دن بڑے راتیں چھوٹی ہونے لگتی ہیں۔
عیسائی ان دنوں کو بڑے دن 25 دسمبر کو حضرت عیسی علیہ السلام کی دنیا میں آمدکے حوالے سے بھی کہتے ہیں۔ اسی بنا پر ان چھٹیوں کو کرسمَس کی چھٹیاں بھی کہا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں یہ چھٹیاں رائج بھی انگریز حکومت نے کی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔—————-    دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

Shahid Iqbal Khan

سر واقعی دسمبر بہت ظالم ھے ، ذرا بھی ترس نہیں کرتا ، میرے دادا ماسٹر ممریز خان 30 دسمبر 1976 کو بچھڑ گۓ، چاچا فیاض خان 15 دسمبر 2021 کو بچھڑ گۓ، غالباً چاچا اقبال خان اور چاچا ممتاز خان بھی دسمبر کو بچھڑے ، البتہ سن اور تاریخ یاد نہیں ، اللہ تعالیٰ مرحومین کی مغفرت فرمائے آمین

Ashraf Kalyar

آڑڈرز ہمارے ایک دن پروفیسر ظل حسنین اللہ صحت سے رکھے کے دستخطوں سے جاری ہوئے تھے میں نے چاردسمبرکوجوائن کیا تھااورآپ نےبعد میں جوائن کیا دن تھےعنفوان جوانی تو نہ تھی مگرہم پکے گھبروجوان تھےکیا دورتھابھائی اللہ آپ کو صحت وسلامتی سے رکھے

Ghulam Mustafa

اور…یکم دسمبر …میری. سالگرہ…آئ مین …برتھ ڈے… ہے…طبیعت میں …مری بھی اک کہرام مچا رہتا ہے…خبرے کیوں…شاعر کی زبانی..
ہلکی ہلکی ہوا ہلکا ہلکا درد دل…
دسمبر انداز اچھا ہے ترے آنے کا..

Zafar Iqbal

سر دسمبر کی راتیں لمبی ہوتی ہیں آدھی رات بندہ سوتا ہے آدھی رات جاگتا ہے۔
جب جاگتا ہے تو ماضی کی یادیں تنگ کرتی ہیں کسی کے وعدے کسی کی بیوفائی کسی کے جھوٹ کسی کی غداری کسی کے دھوکے کسی کی وفا کسی کی جفا کسی کا ساتھ کسی کی جدائی سب یاد آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ظالم دسمبر۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پردیسیوں کے نام ۔۔۔
آج کی پوسٹ ان ساتھیوں کے نام جن کا رزق رب کریم نے وطن سے دور بیگانے دیسوں میں مقرر کر رکھا ہے ۔ یہ لوگ میری پوسٹس کو گھر سے آیا خط سمجھ کر بہت شوق سے پڑھتے اور کمنٹس کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو کمنٹس تو نہیں کرتے لیکن میری پوسٹس باقاعدہ پڑھتے ہیں۔
کمنٹس کے ذریعے ہماری محفل میں شرکت کرنے والوں میں پیرس سے منوراقبال خان، آسٹریلیا سے اویس کاظمی، ریاض (سعودی عرب ) سے سید شعیب شاہ، مدینہ منورہ سے ان کے عزیز فاروق سید، مکہ مکرمہ سے معظم عباس سپرا، کینیڈا سے پروفیسر محمد کلیم ، امریکہ سے میری بھتیجی ساجدہ ببلی، ابوظہبی سے عبدالجبار خان ، اور بھی بہت سے لوگ ہیں ، سب کے نام یاد نہیں رکھ سکتا۔ رب کریم ان تمام ساتھیوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ان کی ہر مشکل آسان فرمائے ، ان لوگوں کی محبت میرا بہت قیمتی سرمایہ ہے۔ میری فجر کی دعاوں میں ان تمام ساتھیوں کے لیئے خصوصی دعا بھی شامل ہوتی ہے۔
ان دوستوں میں سے اکثر سے تاحال ملاقات بھی نہیں ہوئی پھر بھی محبت کا تعلق سالہا سال سے برقرار ہے۔
2019 میں شعیب سید اور معظم عباس سپرا سے مکہ مکرمہ میں ملاقات ہوئی تھی۔شعیب سید تو مجھ سے ملنے کے لیئے تقریبا 1000 کلومیٹر سفر کر کے مکہ مکرمہ پہنچے تھے۔ عشآ کے بعد حرم پاک میں ملے تھے۔ صبح ڈیوٹی پہ جانا تھا اس لییے کچھ دیر بعد واپس چلے گئے۔ اسی رات سپرا صاحب بہت سے خوبصورت گفٹ لے کر ہماری قیام گاہ پر آئے تھے۔
پروفیسر کلیم اور اویس کاظمی صاحب میرے سابق سٹوڈنٹ ہیں ان سے ملاقاتیں کلاسوں میں ہوا کرتی تھیں۔
فاروق سید مدینہ منورہ میں رہتے ہیں ۔ یہ اس لحاظ سے میرے محسن ہیں کہ دربار رسالت مآب میں اکثر میرے سلام پہنچاتے رہتے ہیں۔ گذشتہ جمعہ کو بھی ان کا پیغام ملا کہ اس وقت روضہ رسالت مآب کے سامنے کھڑا آپ کا سلام عرض کر رہا ہوں۔ اللہ سلامت رکھے ایسے بے لوث ساتھی آج کل کہاں ملتے ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔————————————  دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

Attaullah Niazi

سر واللہ! ہماری دعاء بھی گویا “اسپن باؤلر” کی بہت محنت و ریاضت سے نکالی گئی گیند ہی سمجھیں، جارح مزاج بلے باز کو “غچہ” دینے
میں کامیاب ہوتی ھوئی آپ کی صحت کی راہ میں رکاوٹ وکٹوں کو اڑا کر رکھ دے گی!..
اللّٰہ سبحان اللہ العظیم آپ کو تندرست و توانا رکھے اور مزید عزت عطاء فرمائے! آمین یارب العالمین!

Haroon Ashraf

اسلام علیکم استاد محترم
اللہ تعالٰی آپ کا سایہ ہم پر ہمیشہ قائم رکھے، آپ کو صحت تندرستی دے میں اور میرے بہت سے بھائی رزق کی تلاش میں دنیا کے مختلف ممالک میں زندگی گزار رہے ہیں اور ہمیشہ ہر وقت ہم پردیسی لوگ اپنے گھروں اور پاکستان کی سرزمین کی محبت میں تڑپتے ہیں۔اور گزار ے لمحات کو یاد کرتے ہیں
آپ کی تحریریں پڑھ کر خوش ہو جاتے ہیں ، اس تحریر میں آپ جو پرانے کلچر کا منظر پیش کرتے ہیں قابل تحسین ہے،۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بزرگ کہا کرتے تھے کوا بہت سیانا پرندہ ہے۔ آج اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیں۔
صابن کا تو یہ ازلی دشمن تھا ۔ کسی گھر میں کہیں بھی صابن پڑا نظر آتا اٹھا کر بھاگ جاتا تھا۔ پتہ نہیں صابن کا کرتا کیا تھا ؟
دنیا نے ترقی کی تو کوے مزید سیانے ہو گئے۔ آج کے کوے صابن جیسی فضول چیزوں کی بجائے نقد رقم چرانا پسند کرتے ہیں۔
یہ سو روپے کا نوٹ اس کوے نے پتہ نہیں کہاں سے لیا۔ معلوم نہیں یہ مردود اس رقم کا کیا کرے گا؟ بہر حال اتنا تو پتہ چل گیا کہ اسے بھی نقد رقم اچھی لگتی ہے۔
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔___-دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

M M Tariq

Dear Sir Ji….
کوا کا پوزیٹیو پہلو ۔۔۔
قابیل اور ہابیل حضرت آدمؑ کے بیٹے تھے۔قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا۔دنیا کا یہ پہلا قتل تھا،پہلی لاش تھی۔۔ اور پہلی تدفین بھی ہونی تھی۔قابیل اپنے بھائی کی لاش کو اپنی پیٹھ پر لاد کر ٹہلتا رہا۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ کہ اس لاش کاوہ کیا کرے۔۔؟ تبھی انہوں نے دو کووں کو لڑتے ہوے دیکھا۔اس لڑائی میں ایک کوا مرگیا۔تو دوسرے کوے نے اپنی چونچ سے ایک کڈھا کھودا اور مرے ہوئے کوے کو اس گڑھے میں ڈال کر مٹی سے ڈھک دیا۔قابیل نے بھی ایسا ہی کیا اوراپنے بھای کو دفن کر دیا۔ اس طرح سے کوے نے ابن آدم کو تدفین کا طریقہ سکھایا۔۔۔!!

Ghulam Mustafa

کوے کے حوالے سے مولا علی علیہ السلام کا کوئ خوبصورت سا واقعہ ہے یاد نہیں اگر کوئ بھائ اہل تشیع سے مہربانی ہو سکے تو شیئر فرمائیں…
کاواں والی سرکار…کا مشہور واقعہ بھی ہم سب جانتے ہیں وہ کووں کو چوری چوگ اس سوچ میں ڈالتے تھے کہ اس پرندے کی عمرلمبی ہوتی ہے اور ان کووں میں سے کسی کے جد امجد نے شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہو اور کہتے ہیں
ظرف کے فرق پ آواز بدل جاتی ہے…والی بات…اس بزگ کو رب تعالی کا قرب صرف اسی بنا پر نصیب ہوا…
ایک فریش واقعہ..تری خیل کا ایک مشہور نام ہے طفراللہ مسیری پر مشہور ہے…سود کا کاروبار تھا ..کہیں بابا مظہر صاحب کو دیکھ لیا.ملا…ندامت ہوئ اپنے کاروبار پ..توبہ تائب ہوا…ہدایت مل گئ…کروڑوں کا اصل زر سود سمیت لگوں کو اعلان کرا کر پاسے ہو گیا…گھر داری کو دس روپےبھی نہ تھے..آٹا دال کچھ نہ تھا..ایک کوا سونے ایک زیور چونچ میں لیئے اسکے بنیرے آن بیٹھا زیور اس کے گھر گرا کر چلا گیا…
ی کواجو پیسے اٹھاتا ہے اس کی ی ڈیوٹی لگا ئ گئ ہے..مولا علی علیہ السلام کا واقعہ اور بھی اعلی درجے کا پیارا واقعہ ہے بہت چھوٹی عمر میں کسی ذاکر یا مولوی سے سنا تھا ذہن سے محو ہوگیا ہے..اللہ ہماری لغزشیں کوتاہیاں معاف فرمائے

Awais Kazmi

صابن اُس امید میں چراتا ہوگا کہ شاید میں نہا کر گورا ہو جاؤں، جب صابن سے کام نہیں چلا تو اب سو روپے کی فیئر اینڈ لولی خریدتا ہے۔
ویسے ذرا سوچیں کہ جس ملک کے کوے ایسے ہوں وہاں سیاستدانوں کے چوری کرنے پر بندہ کیا روئے

Malik Ahmed

سر کوے نے مشاہدہ کیا ہوگا نوٹوں کیلئے بھائی بھائی کو مار رھا ھے بہنوں کے حقوق چھین رھا ھے افسران انکے لئے اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن بنا رھے ہیں تو یہ چیز کوئی خاص ھے تو اس سے لذت آشنا ہوا جائے ۔ ورنہ یہ اسکے کام کے نہیں تھے

Muhammad Saeed

اس کم بخت کی ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ آپ صاف شفاف کپڑے پہن کے کہیں جا رہے ہوں اور یہ گلی کے اوپر سے گزرتی بجلی کی تاروں پر تشریف فرما ہو اور آپ اپنی دھن میں اس کے نیچے سے گزرنے کی گستاخی کر بیٹھیں تو نہایت سرعت سے اتنا شافی اور راست نشانہ لے کر آپ کے کپڑوں پر فائر کرتا ہے کہ. سارا پروگرام…….جاتا ہے.
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
31 دسمبر 1980 کو میں گورنمنٹ کالج میانوالی کے انگلش ڈیپارٹمنٹ میں شامل ہوا۔ میرے آنے سے کالج میں انگلش کے لیکچررز کی تعداد 4 ہوگئی۔
میرے ذمے سیکنڈ ایئر میڈیکل گروپ کو انگلش پڑھانا تھا۔ سابق ایم پی اے ڈاکٹر صلاح الدین خان بھی میرے سیکنڈ ایئر سٹوڈنٹس میں شامل تھے۔
سیکنڈ ائیر کے علاوہ تھرڈ ایئر کا ایک گروپ بھی مجھے دے دیا گیا۔
تعلیمی سال ختم ہونے میں صرف 2 ماہ باقی تھے۔ سٹوڈنٹس نے بتایا کہ بہت سا کورس ابھی باقی ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر میں نے کوشش کی کہ کورس بھی مکمل ہو جائے اور سٹوڈنٹس کم ازکم اتنی انگریزی سیکھ لیں کہ امتحان میں پاس ہو جائیں ۔ اللہ نے مدد کی ، انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں میری کلاس کا ریزلٹ 95 فی صد رہا۔
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ٹیچر کی کارکردگی کا اندازہ اللہ تعالی اور سٹوڈنٹس کے سوا اور کسی کو نہیں ہوسکتا۔ میں ٹیچر تو جیسا بھی تھا بحمداللہ سٹوڈنٹس میں ہمیشہ مقبول رہا۔
ٹیچر کی حیثیت میں میری بعض عادتیں خاصی عجیب تھیں۔ مثلا میں نے کلاس کی حاضری کبھی نہیں لگائی۔ رجسٹر حاضری ہی نہیں بنایا۔ مگر مجھے یقین تھا کہ میری کلاس کا کوئی بچہ بلا وجہ غیر حاضر نہیں ہوگا۔ بلکہ دوسری کلاسوں کے بعض بچے بھی میری کلاس میں آبیٹھتے تھے۔
ایک دفعہ مجھے کالج پہنچنے میں کچھ دیر ہو گئی تو کالج کے پرنسپل ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی نے میری فرسٹ ایئر کلاس سنبھال لی۔ میں پہنچا تو پرنسپل صاحب نے پوچھا ملک صاحب آپ کی کلاس میں کتنے سٹوڈنٹس ہیں۔
میں نے کہا سر حاضری تو میں نے کبھی نہیں لگائی اس لیئے سٹوڈنٹس کی صحیح تعداد کا تو مجھے علم نہیں البتہ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جتنے سٹوڈنٹس آپ کے کاغذات میں درج ہیں ان سے کچھ زیادہ ہی میری کلاس میں موجود ہوں گے ۔
پرنسپل صاحب ہنس کر بولے مجھے یہ بھی پتہ ہے بس ویسے ہی مذاق میں پوچھ لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

احمد خلیل جازم 

استاد محترم ہم بھی سلطان محمود صاحب کو چھوڑ کر آپ کی کلاس میں آ دھمکتے تھے، اس وقت منور علی ملک ایک سحر انگیز کردار کے طور پر شہرت رکھتے اور ہم اس طلسم کدے(کلاس) میں جا شامل ہوتے، جب سے اس شہزادے کی محبت میں گرفتار ہوئے اور آج تک نہیں نکل پائے.. خدا اس طلسمی شہزادے کا فسوں جاری رکھے جب تک ہم زندہ ہیں.. بعد میں معلوم ہوا کہ اس شہزادے کا فسوں خواتین کالج تک پھیل گیا اور وہاں یہ فسوں لڑکیوں کا جنون جا بنا..

Attaullah Niazi

سر! پرنسپل غلام سرور خان نیازی صاحب
ان اسٹوڈنٹس کی خوب سرزنش کرتے تھے
جنہوں نے کلاس میں بوسکی کی قمیض اور تلے والی “جتی” پہن رکھی ھوتی تھی!

Ahmad Nawaz Niazi

ان تمام طلبہ کو سلام جنہوں نے سر غلام سرور خان نیازی و ملک منور علی ملک کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے ہیں۔ میں بھی ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہوں۔

Zafar Ustad 

قابل صد احترام ۔۔۔۔۔ھماری خوش نصیبی کہ ھم بھی آپ کی کلاسز سے مستفید ھوئے !
اسلام اباد میں افتخار ھاشمی کی محفل میں اپ کا ذکر خیر رھا۔
فیس بک کے سوشل میڈیا یوزر کا ایج کے حوالے سے بزرگ ترین یوزر کا اعزاز مجھے ہقین ھے اپ کو ہی ملے گا۔۔۔۔ماضی کی جزئیات کی یاد اور اس کا بیان۔۔۔۔۔دلکشی۔۔۔۔۔۔یہ ایک اور منفرد انداز۔۔۔۔۔۔۔اہنے چاہنے والوں کے ساتھ جڑے رہیں سلامت رہیں۔۔۔۔۔۔

Muhammad Aslam

سر اِک دفعہ میں بھی اپنی کلاس مس کر کے آپکی کلاس میں بیٹھ گیا تو اس دن آپ The Snare پویم پڑھا رھے تھے۔ آج تک وہ لب و لہجہ یاد ہےحلانکہ 28 سال گزر گے۔ اللہ پاک اپکو صحت دے۔

شامیر وڑائچ

وہ کون ہے جسے آپ سا کہیں سر جی آپ جیسا کوٸی بھی نہیں آپ دو شخصیات ہیں جن کے چاہے کچھ لفظ ہی پڑھوں میرا معمول ہے ایک آپ اور دوسرے مستنصر حسین تارڑ صاحب خداۓ بزرگو برتر آپکو صحت تندرستی والی لمبی زندگی دے
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹیچر کی حیثیت میں میری ایک اچھی یا بری عادت یہ بھی تھی کہ میں اکثر پیریئڈ ختم ہونے سے دوچار منٹ پہلے کلاس چھوڑ دیا کرتا تھا۔ صرف پیریئڈ کا ٹائیم پورا کرنے کے لیئے میں نے کلاس میں گپ شپ کبھی نہیں لگائی جو کچھ پیریئڈ میں پڑھانا ہوتا تھا وہ پڑھا کر میں کلاس سے نکل جاتا تھا۔ گھنٹی بجنے کا انتظار نہیں کرتا تھا۔ اکثر ٹیچر یہ دوچار منٹ پورے کرنے کے لیئے پیریئڈ کے آخر میں کلاس کی حاضری چیک کر لیا کرتے تھے مگر میں نے تو رجسٹر حاضری بھی کبھی نہ بنایا اس لیئے مجھے حاضری چیک کرنے کے تکلف کی ضرورت ہی نہ تھی۔
اس طرح جو دوچار منٹ بچ جاتے تھے ان کے دوران میں پروفیسرز ٹی کلب میں چائے پی کر اگلی کلاس کے لیئے تازہ دم ہو جاتا تھا۔
سٹوڈنٹس کو وقت سے پہلے کلاس ختم کرنے پر کوئی اعتراض کبھی نہ ہوا کیونکہ ان کا کورس بہرحال مکمل ہوجاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔۔دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

جاوید سانول

عالی جناب
پہلے ہم شاگرد اپنے استاد محترم کو دور سے دیکھ کر احترم”رک جاتے تھے جب تک استاد محترم گزر نہ جاتے ہم کھڑے رہتے تھے ان کے احترام میں جن شاگردوں نے اپنے استادوں احترام کیا آج وہ جس مقام پر ہیں خوش ہیں
جو اپنے استاد کا احترام کرتا ہے
زمانہ بھی اس کا احترام کرتا ہے
جاوید سانول

Nasar Khan

آپ ایک اچھے اور سادہ پروفیسر ہیں ۔جو حضرات کلاس میں پیریڈ گزارنے کے لیے گپ شپ کر کے ٹائم پورا کرتے ہیں وہ استاد نہیں بلکہ سور کے بچے ہیں ایسے ٹائم پاس استاتذہ کی کوئی عزت نہیں ھوتی ۔سر آپ صرف داؤد خیل کا ہی نہیں بلکہ ہر طالبعلم کا سرمایہ ہیں ۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سٹوڈنٹس کا اعتماد اور اطمینان ٹیچر کا بہت قیمتی اثاثہ ہوتا ہے۔ یہی ٹیچر کی
عزت اور مقبولیت کا پیمانہ ہے۔
یہ اعتماد اور اطمینان ٹیچر کی اپنے مضمون میں مہارت سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کا اظہار کلاس میں سٹوڈنٹس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک سے ہوتا ہے۔
اللہ کریم کے فضل سے مجھے اپنے مضمون انگریزی پر مکمل عبور حاصل تھا۔ یہی میری مقبولیت کا سب سے بڑا سبب تھا۔ میں مکمل اعتماد سے پڑھاتا تھا۔ سٹوڈنٹس کے ممکنہ سوالات کے جوابات بھی میرے لیکچر میں شامل ہوتے تھے اس لیئے سٹوڈنٹس کو پوچھنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی تھی۔
سبق کی وضاحت کے لیئے میں عالمانہ فاضلانہ زبان کی بجائے روزمرہ کی سادہ زبان استعمال کرتا تھا لہذا سٹوڈنٹس میرا لیکچر آسانی سے سمجھ لیتے تھے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ قابل ٹیچر کا سب سٹوڈنٹس غیر مشروط احترام کرتے ہیں۔ کمزور اور تعلیم سے بیزار کبھی کبھار کالج آنے والے بھگوڑے سٹوڈنٹس بھی ایسے ٹیچر کا احترام ضرور کرتے ہیں۔ اسے آپ قابلیت کا رعب کہہ سکتے ہیں۔
یہ سب کچھ کہنے کا مقصد اپنی تعریف کرنا نہیں بلکہ ٹیچر حضرات کو یہ سمجھانا ہے کہ حقیقی عزت اور مقبولیت اپنے مضمون میں مہارت ہی سے ملتی ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی شارٹ کٹ نہیں۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔—-دسمبر    2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

Muhammad Shafqat Rehman

سر!
لائق آدمی کی ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہمیشہ سے اور آج بھی عزت ہے، ٹیچنگ کے شعبہ کو ہم ٹیچرز نے خود چنا ہوتا ہے، مقابلے کا امتحان یعنی پبلک سروس کمیشن کا ٹیسٹ پاس کرنا، میرے ذاتی acquired نالج پر منحصر ہے، جبکہ اُسی acquired نالج کی ترسیل مَیں کیسے کر پاوں گا،یا کیا مَیں واقعی میں اُتنا قناعت پسند ہوں کہ ٹیچر ہو پاوں! یہ شائید نہیں جانچا جاتا۔
بنیادی نالج، ڈگری کی صورت تمام ٹیچرز کا ایک سا ہی ہوتا ہے، فرق پڑتا ہے تو معلمی کی استعداد اور اُس ماحول کا پڑتا ہے جہاں سے کوئی آیا ہوا ہوتا ہے، بمطابق ایک سعودی کہاوت کہ “انسان اپنے ماحول کا بیٹا ہوتا ہے”۔اسی وجہ سے میانوالی کالج میں دوسری سیکشنز کے ہم طلبأ آپ کی کلاس کا رخ کرتے تھے، گو ہم سائنس کے طالب تھے اور آپ آرٹس کے ماسٹر، ہم انجوائے ضرور کرتے تھے، دوسری اہم وجہ، آپ کی توجہ کلاس روم مینجمنٹ کی بجائےطلبأ کی soul management کی جانب ہوتی تھی، جس سے آپ کی گفتگو (جو کہ انگریزی کا سبق ہوتا تھا) دل و دماغ کے ساتھ ساتھ روح میں بھی حلول ہو جاتی، یعنی حلول الروح فی البدن!!

Attaullah Niazi

What do both; the people and the pupils listen to?
Well, both; the people and even the pupils too listen to nothing but only adventures. Hence other than his subject an experienced teacher is usually esteemed with different kinds of stuff and adventures.
Sir, Professionally well learned and skilled teacher or even a professor too acts in the classroom neither like a “King”  and nor as a “Master” too but a magician or something else like an interesting juggler too, keeping and even focusing on delivering continuously and attracting the students attention with full concentration to his lecture until the bell is rung and the period time is over Or ended; but both the students and even their teacher is quite unconscious about the  bell.
A true and a qualified teacher provided he or she have a tight grip on his subject or lecture possesses the God gifted talented qualities to transform his knowledge to his students through his beautiful eyes 
The teachers eyes are the real “spring of knowledge” to feed their students with different stuff.
It’s my firm and concrete faith that “None can STOP  a teacher by nature to enter into any part of Jannah! Because it’s only a teacher who fulfills God’s command by saying “Read” Iqra to his number of students even in one day.
Inshallah ❤️❤️
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگریزی زبان پر گرفت مجھ پر رب کریم کا خصوصی احسان ہے۔ اس نادر و نایاب وصف سے مجھے بہت فائدہ ہوا۔ ایک طرف تو ٹیچر کی حیثیت میں مجھے بہت عزت اور مقبولیت ملی , دوسری طرف انگریزی میں خصوصی مہارت کے باعث میں پرنسپل صاحبان کا لاڈلا رہا۔ تمام سرکاری خط و کتابت میرے قلم سے ہوتی رہی۔ مختلف قسم کی رپورٹس، آڈٹ اعتراضات کے لمبے لمبے جوابات ، محکمہ تعلیم کے سوالات کے جوابات سب کچھ میں ہی لکھتا تھا۔
دفتری خط و کتابت کی زبان روزمرہ بول چال سے خاصی مختلف ہوتی ہے۔ اس میں مخصوص اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ بات مختصر مگر جامع لکھنی پڑتی ہے ۔ میرے لیئے علمی و ادبی انگریزی کے علاوہ دفتری انگریزی لکھنا بھی مشکل نہ تھا۔ اس لیئے ہر پرنسپل صاحب کو میری خدمات کی ضرورت رہتی تھی۔ سرگودہا ڈویژن کے ڈائریکٹر کالجز پروفیسر رفیع اللہ خان بھی میری انگریزی کے مداح تھے۔ ہمارے پرنسپل ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی صاحب تو میرے لکھے ہوئے ہر لیٹر کی ایک زائد کاپی ٹائیپ کروا کر اپنی ذاتی فائل میں محفوظ کرتے رہے۔ کہا کرتے تھے ریٹائرمنٹ کے بعد خوبصورت انگریزی سے لطف اندوز ہونے کے لییے میں اس فائل کا مطالعہ کرتا رہوں گا۔
پرنسپل صاحبان کو میری ضرورت تو ہر وقت رہتی تھی مگر کبھی کبھار میں فورا حاضر خدمت ہونے سے معذرت بھی کر لیتا تھا۔ ایک دفعہ میں ایم اے انگلش کی کلاس کو پڑھا رہا تھا تو کالج کے ملازم یاسین خان نے آکر کہا “سرجی، آپ کو صاحب(پرنسپل صاحب) یاد کر رہے ہیں”۔
میں نے کہا ” صاحب کو بتاو کہ ملک صاحب اس وقت یونان گئے ہوئے ہیں۔ ایک گھنٹے تک واپس آئیں گے”
یاسین نے ہنس کر کہا “سر ، سمجھ لیا۔ صاحب سے کہوں گا آپ کلاس کے بعد آئیں گے”۔
ویسے یونان والی بات کچھ زیادہ غلط بھی نہ تھی کہ میں اس وقت کلاس کو یونانی ڈراما نگار Sophocles کا ڈراما Oedipus Rex پڑھا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔—-7 دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

Abdul Aziz Mummak Zai

السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہ
سر جی آج سکول میں وقفہ کے دوران آپ کی پوسٹ پڑھ رہا تھا تو میرے ساتھی ٹیچر محمد عارف صاحب آ گئے تو میں نے ان کو آپ کی پوسٹ دکھائ اور پوچھا ۔ آپ ان کو جانتے ہیں۔؟
تو وہ کہنے لگے ان “آپ ” کو کون نہیں جانتا۔ انہوں نے کہا کہ آپ پروفیسر ،شاعراور ،نعت خواں ہیں۔ اور یہ بھی کہ آپ نے انہیں بتایا تھا کہ آپ شبینہ پڑھنے گئے تھے۔
وہ کالج میں پڑھتے تھے اور ان کا انگریزی کا پیریڈ سرور خان نیازی کے پاس ہوتا تھا لیکن آپ کے پاس انگریزی کا پیریڈ اٹینڈ کرنے آتے تھے۔ اور یہ بھی کہا کہ آپ پندرہ دن آتے تھے لیکن ان پندرہ دنوں میں پڑھائ کا “وٹ کڈھ” دیتے تھے۔ “باقی پندرہ دنوں میں کوئ نہ فنکشن کی آپ صدارت کرتے تھے۔ عارف صاحب کی سروس کو 27 سال ہو گئے ہیں۔
سر اللّٰہ پاک آپ کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے اور صحت اور ایمان والی زندگی عطا فرمائے آمین
سر باقی سب باتوں کا تو علم ہے لیکن حافظ قرآن مجید والی بات کا پتہ نہیں تھا

Shafqat Niazi

انگریزی ادب پر دسترس بھی کوئی کوئی کرتا ہے۔ منور علی ملک ہر فن مولا ہیں۔ سرائیکی ملتانی، میانوالی کی سرائیکی ہندکو، وغیرہ پر بھی ملک جی کی بڑی گرفت ہے۔ ملک جی آپ لیجنڈ آف میانوالی ہیں ۔آپ جیسا کہاں؟

Mohammad Hanif

Ma Sha’a Allah, Sir no doubt about your English, I had been your student from 6th to 8th class (1969 to 1971) Govt. Middle School Thathi. Stay blessed, Aameen Suma Aameen.
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالج میں دو بڑے ٹی کلب تھے جہاں فارغ وقت میں ہم پروفیسر لوگ چائے پیتے اور گپ شپ لگایا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک ٹی کلب کیمسٹری کی لیبارٹری میں تھا دوسرا بیالوجی کی لیبارٹری میں۔ یہ کلب لیبارٹریز میں اس لیئے قائم کیئے گئے کہ لیبارٹریز میں سائیڈ روم اور چائے بنانے کے لیئے ملازم (لیبارٹری اٹینڈنٹ) کی سہولت دستیاب تھی۔
پروفیسر ملک محمد انور میکن کی سربراہی میں کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کا کلب بہت بڑا کلب تھا۔ کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر حضرات کے علاوہ تاریخ کے پروفیسرز ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی صاحب، احمد حسن خان ، محمد اقبال قاسمی ، جغرافیہ کے پروفیسر عطاءاللہ خان نیازی، اسلامیات کے ڈاکٹر ملک غلام حیدر، فارسی کےمیاں اشرف علی صاحب بھی اس کلب کے ممبر تھے۔ لیبارٹری اٹینڈنٹ احمد خان المعروف مولوی احمد خان چائے بنانے کی خدمت سرانجام دیا کرتے تھے۔
ہم انگلش کے لوگ بیالوجی ڈیپارٹمنٹ ٹی کلب کے ممبر تھے۔ ہمارے علاوہ اردو ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر محمد فیروز شاہ ، پروفیسر رئیس احمد عرشی اور ایجوکیشن کے پروفیسر عبدالقیوم خان بھی اس کلب کے ممبر تھے۔ اس ٹی کلب میں چائے لیبارٹری اٹینڈنٹ اقبال خان بناتے تھے۔ اقبال خان جوانی
ہی میں اللہ کو پیارے ہو گئے تو ان کی جگہ ان کے والد چاچا یارن خان نے سنبھال لی۔ یارن خان بھی بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے لیبارٹری اٹینڈنٹ تھے۔
بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر محمد فاروق میرے بچپن کے کلاس فیلو تھے۔ ان سے میری گفتگو خاصی دلچسپ ہوتی تھی ۔
ٹی کلب میں چائے کے ساتھ پکوڑوں سموسوں کی جگہ پروفیسر صاحبان کی بہت کراری بات چیت چلتی تھی۔
کالج میں جب ایم اے انگلش کی کلاسز کا آغاز ہوا تو ہم انگلش کے لوگوں نے انگلش ڈیپارٹمنٹ میں اپنا ٹی کلب بھی بنا لیا ، یہاں ڈیپارٹمنٹ کے ملازم حبیب اللہ خان چائے بناتے تھے۔ اپنا کلب ہونے کے باوجود ہم انگلش ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں نے بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے کلب کی ممبر شپ ختم نہ کی۔
بہت سی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں ان ٹی کلبوں سے۔۔۔ اب پتہ نہیں وہاں کیا ہوتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔—–دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

ڈاکٹر محمد سخی خان

سر ایک نام پر کنفیوژن ہوئی: اقبال کاظمی یا اقبال قاسمی ؟
دوسرا یہ کہ آپ کی چائے بنانے والے کلاس فور ملازمین میں ایک خدابخش (یا شاید اللہ بخش) بھی تھا اس کا ذکر نہیں آیا

Munawar Ali Malik

ڈاکٹر محمد سخی خان اقبال کاظمی صاحب اردو کے پروفیسر تھے اقبال قاسمی صاحب ہسٹری کے۔ خدابخش ہماری آمد سے پہلے ریٹائر ہو گئے تھے۔

Malik Mubashar Khan 

واہ سر کیا خوب سلیس اردو لکھتے ہیں اور یادوں کو موتیوں کی لڑی کی طرح پرو کر قاری کو مسحور کردیتے ہیں ❤️
پروفیسر فاروق صاحب سے ہم بھی بائیالوجی پڑھتے تھے اور شام کو ان کی رہائش گاہ پر ٹیوشن پڑھنے بھی جایا کرتے تھے۔ ❤️
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گورنمنٹ کالج میانوالی میں ایم اے انگلش اور ایم اے سیاسیات کی کلاسز کا اجراء میانوالی کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا ۔ ایک دفعہ وفاقی وزیر مولانا عبدالستار خان نیازی کالج میں تشریف لائے تو ہم نے انہیں اس مطالبے سے آگاہ کیا۔ مولانا باعمل سیاستدان تھے۔ انہوں نے فورا وزیراعظم سے بات کی اور اگلے ہی دن وزیراعظم نے براہ راست چیف سیکریٹری پنجاب کو فون پر گورنمنٹ کالج میانوالی میں ایم اے انگلش اور ایم اے سیاسیات کی کلاسز کے فوری اجراء کا حکم دے دیا۔ اسی دن سیکریٹری ہائر ایجوکیشن نے فون پر پرنسپل صاحب کو فوری طور پر ایم اے کی کلاسز میں داخلہ شروع کرنے کی ھدایت کر دی۔
ادھر صورت حال یہ تھی کہ یہاں انگلش ڈیپارٹمنٹ میں ہم صرف 6 ٹیچر تھے۔ بی اے تک کی 4 کلاسز کے علاوہ ایم اے کی دو کلاسز کا بوجھ بھی اٹھانا پڑ گیا۔ ابتدا میں ہر ٹیچر کے حصے میں 5 پیریئڈ روزانہ آئے۔ خاصا مشکل کام تھا۔ مگر علاقے کے مفاد کی خاطر ہم نے یہ بوجھ بخوشی گوارا کر لیا۔
ایم اے کی کلاسز کے اجراء کے لیئے یونیورسٹی کی شرائط خاصی سخت تھیں ۔ انگلش ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ کا پی ایچ ڈی ہونا، اور گریڈ 19 کےکم از کم 5 ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی موجودگی لازم تھی۔
ہمارے پاس صرف 2 اسسٹنٹ پروفیسر اور 4 لیکچررز تھے۔ مگر وزیراعظم کا حکم تھا اس لیئے یونیورسٹی نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ اور یوں دھکے سے ایک ناممکن کام ممکن بن گیا۔ ۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔____دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

Awais Kazmi

سر، میں ایم اے انگلش کے تیسرے batch میں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ آپ نے اور غلام سرور خان نیازی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی کی دورہ کے لئے آئی ہوئی ٹیم کے انتہائی offending comments سُنائے تھے ۔ اور بعد میں پتہ چلا کہ پوری پنجاب یونیورسٹی کتاب محل پر چل رہی ہے ۔ اور پرچے چیک کرنے والے پروفیسرز کو خود کتاب محل stuff سے آگے کچھ معلوم نہیں تھا ، لہٰذا جس نے کتاب محل سے دائیں بائیں ہونے کی کوشش کی اُس کی سپلی پکی۔
اس پنجاب یونیورسٹی اور اس کے دو سو سالہ پرانے تعلیمی نظام نے ہمارا بہت بیڑا غرق کیا ہے ۔
تاہم کالج پرنسپل کی کوٹھی میں بنے ایم اے انگلش کیمپس کی خوبصورت یادیں اب بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ ہمیں چند ماہ بعد پتہ تو چل ہی گیا تھا کہ ایم اے انگلش ہم جیسے نکموں کے بس کی بات نہیں لہٰذا اُس دور کو جتنا انجوائے کر سکتے تھے کیا ۔ صرف ایک حسرت رہ گئی ، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے بیٹے آصف اعوان ، ہدایت اللہ خان نیازی ، میرا اور گروپ میں شامل چند مزید دوستوں کا ٹانگہ کرائے پر لے کر شہر میں گھمانے کا پروگرام تھا جو رہ گیا ۔ باقی ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ایم اے انگلش ڈیپارٹمنٹ کا ماحول خراب کرنے میں ۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے ایم اے انگلش اور سیاسیات کی کلاسز کا آغاز کردیا تو معلوم ہوا کہ
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اب ان کلاسز کا پنجاب یونیورسٹی سے الحاق (affiliation) کروانا تھا۔ دوسرے لفظوں میں ایم اے کی کلاسز کے لیئے پنجاب یونیورسٹی سے منظوری لینی تھی۔ یہ بھی خاصا مشکل پراسیس ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کی ٹیم کالج آکر دستیاب سہولتوں کا جائزہ لیتی ہے۔ اور اگر مطلوبہ سہولتیں دستیاب ہوں تو الحاق ہو جاتا ہے ورنہ معاملہ لٹک جاتا ہے۔
ادھر 1993 میں حکومت تبدیل ہو گئی۔ ہمارے ہاں بدبختی یہ ہے کہ ہر نئی حکومت پچھلی حکومت کے منصوبوں کو کھڈے لائین لگا دیتی ہے۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہونا تھا ۔ تاہم کالج سٹوڈنٹس یونین کے صدر فضل الرحمن خان المعروف صدر نے بروقت اسلام آباد جا کر ہمارے ایم این اے گل حمید خان روکھڑی سے اس معاملے میں مدد کی درخواست کی۔ گل حمید خان نے محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار کو اس سلسلے میں مدد پر آمادہ کر لیا ۔ اس معاملے میں میانوالی کے ڈپٹی کمشنر رانا محمد افضل خان نے بھی بہت تعاون کیا کیونکہ ان کی دو صاحبزادیاں بھی ہمارے ہاں ایم اے انگلش کی سٹوڈنٹ تھیں۔
یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ہمارے انگلش ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ پروفیسر سلطان محمود اعوان کے دوست تھے ۔ انہوں نے بھی اس سلسلے میں خصوصی تعاون کیا۔ یونیورسٹی کی ٹیم نے کالج کا دورہ کرکے تسلی بخش رپورٹ دے دی۔
یوں بالآخر گورنمنٹ کالج میانوالی میں ایم اے کی کلاسز کو مستقل حیثیت مل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔_______10 دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

Aziz Khan Niazi

آ پ لوگوں نے میانوالی کو انگریزی کے مضمون کی روح سمجھائی ۔۔۔بعد میں ٹیوشنی ہیڈ نے بیڑا غرق کیا
با با جانی اگر بی ایس شروع نا ھوتا تو آ پ لوگوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ درخت جسکو آ پ ہرا بھرا چھوڑ کر گئے تھے ٹیوشنی سرکار نے اسکو خشک کردیا تھا اور میانوالی کی خوشبختی ھے کہ یہاں یونیورسٹی آ گئی ورنہ اسکی کاروباری ذھنیت اور نقصان کرتی۔۔۔
ٹیوشنی ہیڈ ھے آ پ لوگوں کا شاگرد مگر پیسے سے محبت نے اسکی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر پانی پھیر دیا ھے ۔۔۔۔ابھی تو وہ پرنسپل بننے کے خواب دیکھتا ھے

Baggay Khail 

سر نہ یاد کرایا کرو
ڈاٹسناں دے پچھو لڑک کے ونجڑاں
بس دی چھت تے چڑھ کے ونجڑاں
روز کنڈیکراں دے ڈرائیواراں نال رولے ہوووڑیں
نہ اوو ویلے رائے نہ او گلاں رائیاں تے نہ او لوک رئے
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایم اے انگلش میں 10 پیپرز ہوتے تھے ۔ ہر پیپر کے لیئے پانچ سات نصاب کی کتابیں مقرر تھیں۔ کل ملا کر تقریبا 60 کتابیں بنتی تھیں۔ دوسال میں 60 کتابوں کا مطالعہ خاصا اوکھا کام تھا۔ پھر بھی لوگ مر کھپ کر ایم اے انگلش کر ہی لیتے تھے۔ یہ الگ بات کہ اکثر ایم اے انگلش شاہینوں کو انگریزی پھر بھی نہیں آتی ۔ انگریزی ہو یا کوئی اور زبان ، عبور حاصل کرنے کے لیئے زبان سے عشق ضروری ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتاہے۔
پہلے سال ایم اے کی کلاس کا پہلاپیپر کلاسیکل پوئٹری میرے حصے میں آیا۔ دوسرا پیپر ڈراما پروفیسر سلطان محمود اعوان پڑھاتے رہے۔ تیسرا پیپر ناول پروفیسر سرور خان پڑھاتے تھے۔ چوتھا پیپر پروز (نثر) پروفیسر محمد حنیف شاہ اور پانچواں پیپر امریکن لٹریچر پروفیسر طاہر جہان خان پڑھانے لگے۔ ایم اے کے علاوہ ہم سب لوگ انٹرمیڈیٹ اور بی اے کی کلاسز بھی پڑھاتے تھے۔
اگلے سال پروفیسر سلطان محمود اعوان صاحب نے خرابی صحت کی وجہ سے ایم اے کی کلاس کو پڑھانا چھوڑ دیا تو پہلے پیپر کی کلاس پروفیسر خٹک صاحب نے سنبھال لی اور دوسرا پیپر ڈراما میں نے سنبھال لیا۔ میری پسند کا اصل پیپر یہی تھا۔ اگلے دس سال میں ایم۔اے پارٹ ون کو ڈراما اور پارٹ ٹو کو ناول پڑھاتا رہا۔
ہماری مسلسل منت سماجت کے نتیجے میں محکمہ تعلیم نے ہمیں تین اور پروفیسر( پروفیسر محمد سفیر اعوان ، پروفیسر ملک غلام حسین اور پروفیسر ناصر اقبال) بھی دے دیئے۔۔۔ یوں ہمارا کام کا بوجھ کچھ ہلکا ہو گیا۔
ان باتوں سے قارئین کو دلچسپی ہو نہ ہو میرے لیئے یہ باتیں بہت اہم ہیں کہ اس سارے عمل سے میری بہت سی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں۔ کل سے ان شآءاللہ کسی اور موضوع پر بات ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔__11 دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

Muhammad Ali Niazi

Aoa Sir, chcha ziaullah aur abu jan ki pic. Aap k liay. ❤️❤️

Kifayat Khan

ڈرامہ سے آپ کی دلچسپی کا ہمیں علم ھے جب ہم پرائمری سکول میں تھے تو آپ نے ہائی اسکول میں ڈرامہ سٹیج کرایا گیا جس میں رحمت اللہ خان بابر بادشاہ اور اس کا چچا زاد بھائی حبیب اللہ خان نے ہمایوں کا رول ادا کیا تھا

جاوید سانول

عالی جناب
یادیں انسان کی زندگی کے وہ انمول خزانے ہوتے ہیں جب بھی یاد آتے ہیں شدت سے یاد آتے ہیں ان یادوں میں آپ کی کامیابیاں اور ناکامیاں ہوتی ہیں
یادیں حسیں بھی ہوتی ہیں یادیں تلخ بھی
زندگی یادوں کے گرد گھومتی ہے سانول
دعا گو
جاوید سانول

Haq Nawaz Awan

Reverend Malik Sb.You are living Legend of English subject in the Millwall Distt.You rendered meritorious services for the college and students alike. You are a role model for college teachers.

Abdul Aziz Mummak Zai

السلام علیکم ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہ ۔
سر جی ہمیں آپ کی باتوں سے بالکل بھی بوریت نہیں ہوتی۔ میں نے 2006 میں میٹرک کی۔ پھر آئ سی ایس، بی اے ڈگری کالج میانوالی میں کی۔ جب سرگودھا یونیورسٹی کا سب کیمپس بنا تو میں اس کے پہلے بیج میں شامل تھا۔ ایم اے انگلش کے دو سمسٹر کلئیر کر لیے تھے لیکن شومئی قسمت گردوں کا مسئلہ بن گیا جس کی وجہ سے پڑھائ چھوڑنی پڑ گئ۔ بعد میں ایم اے اردو کمپوزٹ کیا۔
سر ساری تفصیل لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کی پوسٹ پڑھنے سے کالج کی یادیں تازہ ہوتی ہیں

Sharjeel Jillani

کالج کے بارے میں آپ کی پوسٹس پڑھ کر ۲۰ سال پہلے کے کالج کی تصویر آنکھوں میں گھوم جاتی ہے۔
بہت اچھی پوسٹ سر۔
میری عرض یہ تھی کہ کبھی پروفیسر غلام حسین صاحب کے بارے میں بھی لکھیں۔ بہت کمال شخصیت اور اعلٰی استاد تھے۔ ۴ سال ان سے پڑھنے کا شرف حاصل رہا۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے جو عشق کو کام سمجھتے تھے۔۔۔۔
ایم اے انگلش ڈیپارٹمنٹ کے قیام اور پھر روزانہ کی بنیاد پر کلاسز اور انکے ساتھ انٹرمیڈیٹ ، ڈگری کلاسز۔۔۔۔یہ سب ایک جملے میں کہنے کی باتیں ہیں لیکن ان تمام کلاسز کی کامیابی کے پس منظر میں آپ اور دیگر محترم اساتزہ کی ان تھک محنت ہے۔ ہمیشہ شکر گزار ہیں آپ کے۔
صحت سلامتی کی بہت دعائیں محترم سر
میرا خیال تھا میرے قارئین علمی ادبی باتوں سے اکتا گئے ہوں گے اس لیئے اب کسی اور موضوع پر بات کروں گا۔ مگر کل کی پوسٹ پر کمنٹس میں کئی ساتھیوں نے یہی علمی ادبی باتیں جاری رکھنے پر اصرار کیا۔ کچھ لوگوں کو گورنمنٹ کالج میانوالی کی یادوں سے دلچسپی ہے۔ ایک صاحب نے کہا ایک ادارے کی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ یہ سلسلہ ٹوٹنا نہیں چاہیئے۔
ہمارے محترم ساتھی ڈاکٹر محمد سفیر اعوان نے بھی یہی مشورہ دیا۔ ڈاکٹر سفیر اعوان آج کے ادبی منظر نامے کی اہم شخصیت ہیں۔ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز میں ڈین فیکلٹی آف انگلش سٹڈیز کے منصب پر فائز ہیں۔ ان کا مشورہ بہت اہم ہے۔
چلیں یوں ہی سہی۔ بقیہ موضوعات پر باتیں بعد میں ، فی الحال اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے اکثر سٹوڈنٹس بلکہ ٹیچرز بھی انگریزی بولنے سے کتراتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اعلی ملازمتوں کے لیئے انٹرویوز میں مار کھا جاتے ہیں۔ اس کمزوری کے علاج کے لیئے میں نے حتی الوسع انگریزی بولنے کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ایم اے کی ہر نئی کلاس سے کہہ دیا کرتا تھا کہ انگلش کی کلاس میں صرف انگلش ہی چلے گی۔ نہ میں خود انگلش کے علاوہ کسی دوسری زبان میں بات کروں گا، نہ آپ کو کرنے دوں گا۔ میں نے آپ کو ڈراما پڑھانا ہے۔ مجھ سے ترجمے کی توقع نہ رکھیں۔ تشریح تبصرہ سب کچھ انگلش میں ہوگا۔
ڈراما پڑھانے میں میں نے دو باتیں مد نظر رکھیں۔ پہلی یہ کہ ڈراما پڑھتے ہوئے سٹوڈنٹس یہ محسوس کریں کہ وہ کلاس روم میں بیٹھ کر ڈراما پڑھ نہیں رہے بلکہ تھیٹر میں بیٹھ کر ڈراما دیکھ رہے ہیں۔ آواز کے زیروبم اور مناسب لہجے سے یہ تاثر پیدا کرنا مشکل نہیں۔
میرے پیش نظر دوسری بات یہ رہی کہ سٹوڈنٹس کو کنفیوز نہ ہونے دیا جائے۔ تشریح اور تبصرہ روز مرہ کی عام فہم زبان میں کیا جائے۔
بحمداللہ ان دو مقاصد کے حصول میں میں خاصا کامیاب رہا۔ ۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔___12  دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

Ghulam Mustafa

ڈاکٹر سفیر اعوا ن ہمارے جونیئر تھے کالج…ضیاءاللہ خان جیالوجی کے شعبے سے ان کے دوست تھے قاسم خان آج کل ڈی ایس پی اسلام آباد ایکس جنرل سیکرٹری کالج یونین..صدر جہان خان چھدرو…عنران خان کے ساتھ سیلفی وائرل ہوئ پچھلے دنوں…سب ٹولی فیلو سفیر اعوان سے میل جول تھا …چائے بعض دفعہ کنٹین پ رل کے پیتے

Sami Niazi Nayab Niazi

سر آپ نے بہت اہم نکتہ اٹھایا ہے کہ ہم انگریزی بولنے سے کتراتے ہیں اسی لیے ہماری انگریزی گفتگو میں روانی بھی نہیں ہوتی ۔
ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ اگر پڑھے لکھے لوگ بیٹھے ہوں اور ایک شخص اگر بولنے لگے تو اسے کہا جاتا ہے کہ ” توں وڈا انگریز ہیں ہر ویلے انگریزی بولدایں “
اور وہ بیچارا خاموش ہو جاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ پڑھا لکھا شخص انگریزی بولے تو کس سے بولے اور اگر بولے گا نہیں تو روانی کیسے آئے گی یا پھر سب خاموشی سے سنتے رہتے ہیں اور اس شخص کے جانے کے بعد کہتے ہیں کہ ہمیں impress کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
خدارا مہربانی کیا کریں اگر آپ پڑھے لکھے انسان ہیں تو خود بھی انگریزی بولا کریں اور اپنے دوستوں کی بھی حوصلہ افزائی کیا کریں ۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگلش ڈیپارٹمنٹ کی اپنی الگ لائبریری کا قیام بھی یونیورسٹی کے قوانین کے مطابق لازم تھا۔ اس مقصد کے لیئے سرکار نے ہمیں ایک لاکھ روپیہ دیا۔ لائبریری کی ضروریات کے لیئے یہ رقم بہت کم تھی۔ مگر فی الحال اسی پہ گذارہ کرنا تھا۔ میں کتابوں کے انتخاب کے لیئے کالج لائبریرین حاجی محمد اسلم خان صاحب کے ہمراہ لاہور گیا۔ ایک لاکھ روپے میں جتنی کتابیں مل سکیں ہم نے لے لیں۔ ان کتابوں میں تاریخ انگریزی ادب کی چند معروف و مستند کتابیں اور کچھ تنقید کی کتابیں شامل تھیں۔ پیسے کم تھے اس لیئے ہم نے text کی کتابوں کے پاکستانی ایڈیشن بھی خرید لییے۔ ان کی قیمت خاصی معقول تھی۔
یونیورسٹی کی معائنہ ٹیم نے اس پر اعتراض کیا تو میں نے کہا یہ بھی تو دیکھیں کہ شیکسپیئر کے کسی ڈرامے کا برطانیہ میں شائع ہونے والا Arden ایڈیشن 4000 روپے میں ملتا ہے جبکہ اسی کا پاکستانی پرنٹ صرف 300 روپے میں ملتا ہے۔ اعتراض کرنے والے صاحب نے مسکرا کر کہا بات تو ٹھیک ہے۔
میں ہر سال حاجی محمد اسلم خان صاحب کے ہمراہ لاہور جاکر کتابیں خریدتا رہا۔ الحمدللہ میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری میں انگلش اور امریکن لٹریچر کی بہترین کتابیں موجود ہیں ۔ اگر سرکار آٹھ دس لاکھ روپے دے دیتی تو بات ہی کچھ اور تھی۔ سالانہ چالیس پچاس ہزار روپے میں تو یہی کچھ ہو سکتا تھا۔
ہماری لائبریری میں انگریزی ادب کی تاریخ کی نصف درجن مستند کتابوں کے علاوہ Critics Debate series , Cambridge Companiom اور Harold Bloom کی تنقید کی بہترین کتابیں بھی موجود ہیں۔
کتابوں کی تعداد کے لحاظ سے یہ لائبریری غریب سہی مگر کتابوں کے معیار کے حساب سے خاصی امیر ہے۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔13  دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

Karam Elahi Jhammat

سر آپ طلبہ کی سہولت کیلئے امتحانی نقظہ نظر سےآسان قسم کے نوٹس پرنٹ فارم میں تیار کرتے جو صرف اہم سوالات پر مشتمل ہوتے ۔ اس سے طلبہ کو آسانی رہتی ۔ اکثر طلبہ ہینڈ رٹن نوٹس کی فوٹو کاپیز کی تلاش میں لگے رہتے ہیں کیونکہ کتاب محل والی بکس کافی مشکل لینگویج میں ہوتی ہیں اور طلبہ کو بہت مشکل پیش آتی ہے ۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ایم اے انگلش پارٹ ٹو کو ناول پڑھاتا تھا۔ ایک دفعہ یونیورسٹی نے کورس میں کچھ ردو بدل کرکے Margaret Drabble کا ناول The Ice Age بھی کورس میں شامل کر دیا۔
ناول اور ناول نگار خاتون دونوں کے بارے میں معلومات تک رسائی آسان نہ تھی کیونکہ پاکستان کی مارکیٹ میں کوئی ایسی کتاب دستیاب نہ تھی۔ ایم اے کی سطح پر تو کتاب اور مصنف دونوں کے بارے میں خاصی چھان بین کرنی پڑتی ہے۔ میں نے پنجاب یونیورسٹی انگلش ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو ڈیپارٹمنٹ کے چیئر مین صاحب نے کہا
” ملک صاحب، سونہہ رب دی ساڈے کول وی کج نئیں ہیگا۔۔۔۔ یار ، او کنیئرڈ کالج دیاں بی بیاں کہندیاں سن اچھا ناول اے۔ تے اسیں کورس وچ لا دتا۔”
میں نے کہا ” سر پھر اس کے بارے میں معلومات کہاں سے لیں ؟ کوئی ایسی کتاب تو ہونی چاہیئے”۔
چیئرمین صاحب نے مسکرا کر کہا ” فیر تسیں خود ای لکھ دیو ایسی کتاب۔ سارے لوکاں دا بھلا ہو جائے گا”۔
مزا آگیا۔ کچھ دینے کی بجائے یونیورسٹی نے الٹا مجھ سے کچھ مانگ لیا۔ یہ ایک قسم کا چیلنج تھا جو میں نے قبول کرلیا۔ وقت بہت کم تھا۔ صرف ایک ماہ میں کتاب مارکیٹ میں لانی تھی۔
میں نے کچھ میٹیریل Harold Bloom کی کتاب سے لیا۔۔ سنگ میل پبلشرز نے دوچار دن پہلے برطانیہ سے جو کتابیں درآمد کی تھیں ان میں Margaret Drabble کے بارے میں بھی 80 ، 90 صفحات کی ایک مختصر سی کتاب شامل تھی۔ میں نے وہ اٹھا لی۔ اس کتاب میں بھی اس ناول کے بارے میں صرف 8، 10 صفحات کا ایک ہی مضمون تھا۔ وہ بھی دیکھ لیا۔ پھر سٹوڈنٹس کی سہولت کے لیئے ناول کے بارے میں تکنیکی بحث شامل کر کے مختصر سی کتاب لکھ دی ۔ اللہ نے توفیق دے کر عزت رکھ لی۔
میرے پبلشر سید سردار جاوید صاحب نے اس سلسلے میں بہت تعاون کیا۔ کتاب وقت پر شائع ہو گئی۔ بہت سے لوگوں کا بھلا ہو گیا۔
ایک دفعہ میں سرگودھا یونیورسٹی میں انگلش ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر الیاس اختر صاحب کے پاس بیٹھا تھا تو یونیورسٹی کی ایم اے انگلش کلاس کا ایک سٹوڈنٹ کسی کام سے آفس میں آیا۔ میں نے پوچھا Margaret Drabble کے ناول The Ice Age کے بارے میں کون سی کتاب پڑھ رہے ہو؟
اس نے کہا ” سر میانوالی کے ایک پروفیسر ہیں سر منورعلی ملک ، انہی کی کتاب کا مطالعہ کر رہے ہیں” ۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔14  دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایم اے انگلش کے نصاب سے متعلق میں نے 12 کتابیں لکھیں۔ یہ سلسلہ یوں شروع ہوا کہ میں کالج لائبریرین حاجی محمد اسلم خان صاحب کے ہمراہ کالج لائبریری کے لیئے کتابوں کی تلاش میں ہر سال لاہور جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ کتاب محل پبلشرز اردو بازار لاہور کے بانی سید سردار جاوید صاحب نے مجھ سے کہا ” ملک صاحب، آپ انگریزی اخبارات میں کالم تو لکھتے رہتے ہیں تھوڑا سا کام ہمارے لیئے بھی کر دیا کریں ۔۔ یہ جو ایم اے کے کورس میں Christopher Marlowe کا منظوم ڈراما The Jew of Malta شامل کیا گیا ہے اس کا سلیس انگریزی نثر میں paraphrase کردیں۔ اس کام کا جو معاوضہ آپ کہیں ہم دے دیں گے” ۔
کام میری پسند کا تھا میں نے یہ ذمہ داری قبول کرلی اور چند دن میں کام مکمل کر دیا۔ اس کے بعد تو کتابوں کی لائین لگ گئی۔ شاعری ، ڈراما ، ناول، نثر اور امریکی لٹریچر کی بہت سی کتابوں پر میرا کام الگ الگ کتابوں کی صورت میں شائع ہوتا رہا۔ اس طرح درجن بھر کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
چند سال قبل شاہ جی(سید سردار جاوید صاحب ) تو دنیا سے رُخصت ہوگئے مگر ان کے ادارے کتاب محل سے میرا تعلق اب بھی برقرار ہے۔ ان کے صاحبزادے سید محمد علی جاوید مجھے اپنا بزرگ سمجھتے ہیں۔ ابھی پچھلے سال میری کتاب تاریخ انگریزی ادب شائع ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔15  دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

Zafar Iqbal

سر دو سوال ہیں میرے نہایت ادب سے ہاتھ جوڑ کر۔
ایک بات کی سمجھ نہیں آئی آج تک کہ ایم اے انگلش میں مسٹر چپس پر بہت زیادہ پڑھایا گیا لیکن اسلامی شخصیات پر پاکستان میں انگریزی زبان میں خاطر خواہ نصاب کیوں شامل نہیں ہوا۔
دوسرا سوال یہ کہ انگریزی زبان کو اگر ہم ایک زبان سیکھنے تک ہی رہتے تو کیا ٹھیک نہیں تھا۔۔
عربی زبان جو کہ بہت سے اسلامی ممالک کی زبان بھی ہے اور بطور مسلمان ہمیں لازمی آنا چاہیے لیکن نہ تو حکومت کی واضح دلچسپی ہے نہ ہماری۔ اگر ہم سب انگریزی سے جان چھڑا کر عربی کو فروغ دیں تو کیا ہمارے لیے ہر لحاظ سے بہتر نہیں ہو گا۔

Munawar Ali Malik

جی انگریزی ادب میں تو صرف انگریز شخصیات کا ذکر ہی ملتا ہے۔ اگر ہم انگریزی میں اسلامی شخصیات کے بارے میں لکھیں تو وہ انگریزی ادب میں شمار نہیں ہو گا ۔
عربی زبان کی ترویج حکومت کا کام ہے۔ یہ کام ہونا چاہیے۔

Zafar Iqbal

جزاک اللّہ خیرا کثیرا سر۔
اجکل ماحول ایسا بن گیا ہے کہ اگر بچے مہمانوں کے سامنے انگلش میں بات کریں تو مہمان سمجھتے ہیں بہت بہترین پرورش ہو رہی ان کی امی بہت توجہ دیتی ہوں گی۔
اور اگر بچے مہمانوں کے سامنے پیور میانوالی زبان میں باتیں کریں تو تاثر جاتا ہے کہ بچے پڑھ لکھ نہیں رہے اور نہ ہی ان کی امی پڑھی لکھی ہے یا اس کی پڑھائی پر توجہ ہے ۔۔۔
میری زاتی رائے ہے کہ ہمارے بچوں کو مادری زبان سب سے پہلے آنا چاہیے۔۔۔ اردو انگریزی تو بعد میں بھی سیکھی جا سکتی ہے۔
آپ کی شخصیت ہم سب کے لیے مثال ہے کہ انگریزی ہم اتنی سیکھ سکتے ہیں کہ انگریزوں سے بھی زیادہ۔۔۔ لیکن مادری زبان اگر بچپن میں نہ سیکھی تو پھر ساری عمر لہجہ درست نہیں ہو سکتا ۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعارف کرایئے۔۔۔۔۔۔۔۔
فیس بک کی سرزمین پر ہم لوگ تقریبا 8 سال سے ہمسفر ہیں ۔ بہت سے ہمسفر ایسے ہیں جن سے آج تک ملاقات نہیں ہو سکی۔ اکثر لوگوں کے بارے میں معلوم نہیں کہاں رہتے ہیں ، کیا کرتے ہیں۔ تعارف اس لیئے ضروری ہے کہ اگر کبھی ہمارا ایک دوسرے کے شہر میں آنے جانے کا اتفاق ہو تو ملاقات ہو سکے۔ بعد میں یہ نہ کہتے پھریں کہ
مرے پاس سے وہ گذرے ، مرا حال تک نہ پوچھا
میں یہ کیسے مان جاوں کہ وہ دور جا کے روئے
میانوالی کے دوستوں کو تو تعارف کی ضرورت نہیں، ملاقات ہو نہ ہو ہم ایک دوسرے کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔
رہا میرا تعارف تو اپنے بارے میں اپنی پوسٹس میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں۔
تعارف میں زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں۔ کمنٹس میں صرف نام ، فون نمبر اور پتہ ہی دے دیں۔ شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔16  دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

Sabir Sabir Ali 

جی السلام علیکم منور علی ملک صاحب اپ کا میں نے اتنا اچھا سونگ کمپوز کیا جو ساری زندگی لوگوں کو یاد رہے گا نت دل کو ادھا کل ماہی اسی بس اجدا ڈی اںے کوئی دکھ نہ راسی عیسی خیلوی کی کتاب تو اپ نے لکھ دی جو تخلیق کار تھا اس کا اج تک اپ نام نہیں لیتے میں اپ کا بھائی موسیقار صابر علی لاہور سے

Suleman Malik

محمد سلیمان ملک
کمپیوٹر انچارج
سیکنڈری بورڈ سرگودہا۔ میری رہائش سرگودہاہے۔
میرے والد حاجی نور محمد سینئر ہیڈ ماسٹر ریٹائرڈ ہو ۓ۔ قریب اپکے ہم عمر ہیں۔انکی ساری سروس بھکر کی ہے۔اور اب وہ بھکر ہی رہائش پذیر ہیں۔
ہمارا أبائ علاقہ ڈیرہ ٹوکاںوالہ داؤد خیل ہے۔ أپکی تحریر پڑھ کر اپنے علاقے کی یادیں اور محبت دل میں اٹھتی ہے۔ اللہ اپکو اپنے حبیب کے صدقے ایمان اور صحت عطا فرماۓ

Suleman Malik

محمد سلیمان ملک
کمپیوٹر انچارج
سیکنڈری بورڈ سرگودہا۔ میری رہائش سرگودہاہے۔
میرے والد حاجی نور محمد سینئر ہیڈ ماسٹر ریٹائرڈ ہو ۓ۔ قریب اپکے ہم عمر ہیں۔انکی ساری سروس بھکر کی ہے۔اور اب وہ بھکر ہی رہائش پذیر ہیں۔
ہمارا أبائ علاقہ ڈیرہ ٹوکاںوالہ داؤد خیل ہے۔ أپکی تحریر پڑھ کر اپنے علاقے کی یادیں اور محبت دل میں اٹھتی ہے۔ اللہ اپکو اپنے حبیب کے صدقے ایمان اور صحت عطا فرماۓ

Asim Khan 

میرا نام محمد عاصم خان نیازی ہے، بنیادی طور پر چھدرو کے نواح میں واقع موضع سلطان والا شرقی کے گاؤں چاہ ہاتھی خانوالہ کا رہائشی ہوں۔
۱۹۸۹ تا ۱۹۹۳ گورمنٹ کالج میانوالی میں زیر تعلیم رہا، اگرچہ آپ سے باضابطہ طور پر انگریزی کا مضمون نہ پڑھ سکا، تاہم آپ کی شاعری کا دلدادہ ہونے کے ناطے آپ سے محبت کبھی کبھار سردیوں کی دھوپ میں جاری آپ کے لیکچر میں کھینچ کر لے جاتی اور آپ سے سیکھنے کا موقع مل جاتا۔ بی اے کے دوران آپ کے نوٹس سے بھی استفادہ کرنے کا موقع ملا جن کے طفیل میری کامیابی کی راہ ہموار ہوئی۔ کالج کی علمی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے دوران پروفیسر سلیم احسن، رئیس احمد عرشی اور سید فیروزشاہ کے ہمراہ آپ کو سننے کا بھرپور اشتیاق رہتا اور آپ کی شرکت کے باوجود آپ کو زیادہ سننے کی پیاس کبھی نہ بجھ پاتی، آپ سے ملاقات کی تشنگی کئے ہمیشہ ہی تہی دامن لوٹ کر جانا پڑتا۔
آج کل راولپنڈی میں مقیم ہوں اور وفاقی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں پر مرکزی حکومت کے ترجمان اور پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈیولپمنٹ کمیونیکیشن کا فریضہ انجام دے رہا ہوں۔
آپ سے پہلی مرتبہ عشق عطاءاللہ عیسی خیلوی کے گائے اس گیت کو سن کر ہوا جو آج بھی میرے دل میں جادو کی صورت سر چڑھ کر بول رہا ہے
؀
رت ولی پکھواں دے جوڑے آ گئے
آ تیڈے آؤنڑن دے ویلے آگئے
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعائے مغفرت کی درخواست۔۔۔۔۔۔
16 دسمبر 1987 کو آج کے دن میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی ہیڈماسٹر ایک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے۔ ان کے لیئے دعائے مغفرت کی گذارش ہے
16  دسمبر    2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیس بُک پر اچانک یہ پکچر نظر سے گذری تو
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں
دونوں حضرات میرے مہربان دوست ، میرے جگر ۔ دائیں طرف حاجی محمد اسلم خان غلبلی کالج لائبریرین ہیں، بائیں طرف ضیاء اللہ خان نیازی آفس سپرنٹنڈنٹ گورنمنٹ کالج میانوالی۔ دونوں حضرات اپنے اپنے مقررہ وقت پر اس دنیا سے رُخصت ہو کر سرحد حیات کے اُس پار جابسے۔
حاجی صاحب کا ذکر تو کسی نہ کسی حوالے سے میری تحریروں میں بار بار آتا رہتا ہے۔ ان کے بارے میں چند مفصل پوسٹس بھی لکھ چکا ہوں۔ کالج لائبریری سے لے کر لاہور کی سڑکوں تک پھیلی ہوئی ہماری رفاقت کی کئی داستانیں ہیں۔ کچھ لکھ چکا، کچھ لکھتا رہوں گا۔
ضیاء اللہ خان نیازی سے بھی خلوص اور محبت کا بڑا مضبوط رشتہ تھا ۔ بہت دبنگ انسان تھے۔ بہت اچھے سپورٹس مین بھی۔ کالج کی سالانہ سٹاف ریس میں ہمیشہ اول آتے رہے۔ الٹے پاوں دوڑنے میں بھی پہلی پوزیشن ہمیشہ ضیاء اللہ خان ہی کے حصے میں آتی رہی۔ مجھ سے بہت پیار تھا۔ کبھی میں کوئی کام کہہ دیتا تو باقی سارے کام چھوڑ کر پہلے میرا کام کر دیتے تھے۔
ایک دفعہ محکمہ تعلیم نے مجھ سے اپنی پرانی سروس کا ریکارڈ طلب کیا۔ پچیس تیس سال پرانا ریکارڈ تلاش کرنا خاصا مشکل کام تھا۔ ضیاء اللہ خان نے اتوار کے دن آفس کھول کر دوچار گھنٹے کی محنت سے ریکارڈ برآمد کر کے مرتب کر دیا۔ اگلے دن میں نے ریکارڈ وصول کرتے ہوئے کہا ضیاء اللہ خان آپ نے اتنی زحمت کیوں اٹھائی۔۔ کوئی ایسی خاص ایمرجنسی تو نہیں تھی۔ یہ کام دوچار دن بعد کر لینا تھا۔
ضیاء اللہ خان نے مسکرا کر کہا ملک صاحب آپ کا ہر حکم ہم ایمرجنسی سمجھتے ہیں۔
ایک آدھ بار یوں بھی ہوا کہ میرا کوئی کام کرتے ہوئے پرنسپل صاحب نے بلایا تو ملازم سے کہہ دیا صاحب سے کہو میں ملک صاحب کا کام کر رہا ہوں۔ ادھر سے فارغ ہو کر آوں گا۔
ایسا کہاں سے لاوں کہ تم سا کہوں جسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پکچر مرسلہ۔۔۔۔۔ محمد علی نیازی ابن حاجی محمد اسلم خان نیازی-17  دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

Muhammad Ali Niazi

Ma sha Allah bht zbrdast. Picture credit men mujhy mention karty AP to bht khushi hoti ap ny facebook ko mention kr k uncle zingerburger ko khush kr dia 
Lekin apki ba kamal yaddasht dad ki mustahiq hy❤️❤️

Naeem Sajjad

حاجی اسلم صاحب علم کا خزانہ تھے تقریباً سات سال صفہ کالج اکٹھے کام کیا

Aamir Kazmi 

اسلم خان صاحبِ سے تو کافی تعلق رہا چچا جان اسلم خان صاحبِ ک پاس ایک ڈائری ھوتی تھی کوئی بھی اخباری دلچسپ خبر یا کالم اُس پے چسپا کر دیتے یہ باٹ میں نے اُن سے سیکھی حضور پاک کی زندگی مبارک کا کوئی واقعہ سناتے ٹو بچوں کی طرح رو دیتے ضیاء صاحبِ کو آج دیکھا سنا کافی
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یادیں۔۔۔۔۔۔۔
1980 میں جب میں گورنمنٹ کالج میانوالی میں آیا تو اکثر پروفیسر صاحبان بائیسکل ( سائیکل) پر کالج آتے تھے۔ ابھی موٹرسائیکلوں کا سیلاب نہیں آیا تھا۔ سابق پرنسپل ملک محمد انور میکن اور انگلش کے پروفیسر سرور نیازی صاحب تو اکیسویں صدی میں بھی سروس کے آخری دن تک سائیکل پر کالج آتے جاتے رہے۔ ملک انور صاحب کندیاں سے ٹرین پر میانوالی آتے اور مین بازار میں ملک ثناءاللہ کی دکان سے اپنی سائیکل پہ سوار ہو کر کالج آتے تھے۔
کچھ دن میں نے بھی سائیکل استعمال کی پھر بھائی محمدسلیم احسن نے کہا سائیکل کو دفع کرو ۔ میرے ساتھ سکوٹر پہ آیا جایا کرو۔ یوں تقریبا 20 سال میں اور پروفیسر سلیم احسن سلیم صاحب کے لال رنگ کے ویسپا سکوٹر پر کالج آتے جاتے رہے ۔
ایک دن سلیم صاحب کہیں گئے ہوئے تھے۔ میں اپنے ساتھی پروفیسر محمد حنیف شاہ کاظمی سے سائیکل مانگ کر اس پہ کالج گیا ۔ واپس آکر سائیکل حنیف شاہ صاحب کے حوالے کی تو انہوں نے کہا بھائی صاحب، یہ کیا ؟ میری سائیکل تو سبز رنگ کی تھی، یہ کالے رنگ کی سائیکل تو کسی اور کی ہوگی۔۔
دوسرے دن پتہ چلا کہ وہ سائیکل ایک سٹوڈنٹ کی تھی۔ حنیف شاہ صاحب کی سائیکل کالج کے سائیکل سٹینڈ کے نگران لالا محمد خان نے سنبھال کر رکھ دی تھی۔
اس دن کے بعد میں نے سائیکل کبھی استعمال نہ کی۔ اگر کسی دن سلیم احسن صاحب چھٹی پہ ہوتے تو میں بھی چھٹی کر لیتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔18  دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یادیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہنے کو تو کالج کا سٹاف روم بھی تھا، مگر سٹاف اس میں کم ہی جاتا تھا۔ کبھی کبھار سٹاف میٹنگ ہوتی تو سب لوگ یہاں جمع ہو جاتے تھے۔ ورنہ اکا دکا لوگ ملحقہ واش روم میں آتے جاتے رہتے تھے۔
فارغ وقت گذارنےکے لیئے سب کے اپنے اپنے ٹھکانے تھے۔ کچھ لوگ کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کے ٹی کلب میں کچھ بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ٹی کلب میں کچھ پرنسپل صاحب کے آفس میں اور کچھ کینٹین پر جا بیٹھتے تھے۔
جب ایم اے انگلش اور سیاسیات کی کلاسز شروع ہوئیں تو پرنسپل صاحب کی رہائش گاہ ایم اے انگلش کی کلاسز کا کیمپس قرار پائی۔ یہاں دو کلاس رومز کے علاوہ تین سائیڈ رومز بھی تھے ۔ ایک سائیڈ روم بچیوں کو الاٹ کر دیا گیا۔ دوسرا چیئرمین صاحب کا آفس بن گیا۔ سینیئر سٹاف ممبر ہونے کی بنا پر تیسرا سائیڈ روم میرے حصے میں آیا۔ لیکن ہم لوگ یہاں کم ہی بیٹھتے تھے۔ زیادہ تر فارغ وقت ہم بیالوجی ٹی کلب میں گذارتے تھے۔ بہت دلچسپ محفل ہوتی تھی۔ پروفیسر فاروق صاحب، پروفیسر مقصود صاحب اور پروفیسر پیراقبال صاحب کی دلچسپ نوک جھونک ، پروفیسر سرور خان صاحب کے خالص مردانہ لطیفے ، کمرشل کالج کے پرنسپل محمداکرم شاہ صاحب بھی کبھی کبھار اس محفل کی زینت بنتے رہتے تھے۔
میں کچھ وقت لائبریری میں اپنے جگر حاجی محمد اسلم خان غلبلی کے پاس بیٹھ کر کتابوں کے حسب نسب پر بحث کر لیتا تھا۔ حاجی صاحب بہت خوش ہوتے تھے ، میرے لیئے کینٹین سے سپیشل چائے منگوایا کرتے تھے۔
کیا اچھے دن تھے ، کتنے اچھے لوگ۔۔۔۔۔
کچھ ریٹائر ہو گئے، کچھ یہ دنیا ہی چھوڑ گئے۔ بس یادیں باقی رہ گئیں۔ ہماری جگہ نئے لوگ آگئے۔ ان کی مصروفیات اور مشاغل پتہ نہیں کیا ہیں۔ کسی دن جا کر دیکھیں گے۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔19  دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یادیں۔۔۔۔۔۔۔۔
کالج میں پہلے اور دوسرے پیریئڈ میں فرسٹ ایئر اور سیکنڈ ایئر کی انگلش کی کلاسز ہوتی تھیں۔ پروفیسر سرور خان اور میں خالص دیہاتی کلچر کے لوگ تھے۔ اس لیئے سردیوں میں ہم یہ کلاسز کالج گراونڈ کی چٹی سفید دھوپ میں لگاتے تھے۔ ہمیں دیکھ کر بعد میں دوسرے لوگوں نے بھی دھوپ میں کلاسز لینی شروع کردیں۔
بی اے کی کلاسز سرور خان صاحب اور میں کالج کے مین بلاک کی چھت پر (روم نمبر 25 کے مشرق میں ) صحن نما ٹیریس terrace میں لیتے تھے۔ جب سردی ذرا کم ہو جاتی تو میں اپنی فرسٹ اور سیکنڈ ایئر کی کلاسز آفس بلاک کی چھت پر لگایا کرتا تھا۔ کچھ عرصہ فرسٹ ایئر کی کلاس سائنس بلاک کے سامنے بھی لگاتا رہا۔ مجھے ٹھکانے بدلنے کا شوق تھا اس لیئے میں نے کالج کے ہر پلاٹ میں کلاسز لیں ۔
گرمی کے موسم میں کلاسز کمروں کے اندر ہوتی تھیں ۔ فرسٹ اور سیکنڈ ائیر کی 80/90 سٹوڈنٹس پر مشتمل لمبی لمبی کلاسز ہوتی تھیں۔ لیکن بحمداللہ ڈسپلن کا مسئلہ کبھی پیدا نہ ہوا۔ کلاس میں بچوں کی نظریں کتاب پر یا ٹیچر کے چہرے پر رہتی تھیں۔ بہت اچھے بچے تھے ہمارے ، اللہ سب کو سلامت رکھے ۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔20 دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یادیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ماہ کی پہلی اور پندرہ تاریخ کو کالج کا خبرنامہ (college bulletin) شائع ہوتا تھا۔ پروفیسر محمد سلیم احسن اس کے ایڈیٹر تھے۔ یہ خبرنامہ میانوالی پرنٹنگ پریس میں طبع ہوتا تھا۔
بڑے سائیز کے 4 صفحات پر مشتمل خبرنامہ میں اداریئے کے علاوہ کالج کی اہم خبریں، تقریبات کی رپورٹس، کلاسز کا ٹائیم ٹیبل، سٹوڈنٹس کے بھیجے ہوئے لطیفے ، سبق آموز واقعات ، بزرگوں کے اقوال زریں ، اشعار، اور پروفیسر صاحبان کی ایک آدھ نظم یا غزل شامل ہوتی تھی۔
تعلیمی سال کے آغاز میں مفصل ٹائیم ٹیبل شائع ہونے کی وجہ سے پہلا شمارہ 6 صفحات کا ہوتا تھا۔
خبرنامہ تمام سٹوڈنٹس کو مفت ملتا تھا۔ اس کی اشاعت کے اخراجات کالج کے فنڈ سے ادا کیئے جاتے تھے۔
یہ ایک بہت اچھی روایت تھی۔ اس سے سٹوڈنٹس کو معلومات کے علاوہ پڑھنے لکھنے کی ترغیب بھی ملتی تھی۔
ہمارے دور میں تو یہ روایت برقرار رہی۔ بعد میں خبر نہیں اس کا کیا بنا؟۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔21  دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

پوسٹ پر وزیٹر کے تبصرے

S U Awan

سر جو “سہیل” یا اسی طرح کے نام سے ایک ماہانہ رسالہ نکلتا تھا گورنمنٹ کالج میانوالی کا، آپ اسی کی بات کر رہے ہیں یا خبرنامہ الگ سے شائع ہوتا تھا اور ماہنامہ الگ سے؟

Munawar Ali Malik

خبر نامہ الگ تھا

Muhammad Shifa

S U Awan
اُس رسالے کا نام “سُہیلین” تھا اور اُس کے غالباً تیسرے ورق پر اکثر محترم سر
صاحب کی غزل “ شام ڈھلی پنچھی لوٹ آئے ، اُس سے کہنا” لکھی ہوتی تھی اور جمعرات کے دن اکثر طلباء بزم ادب کے پیریڈز میں طرز کیساتھ یہ غزل سُنا کر داد و تحسین سمیٹا کرتے تھے
اُس کے کہنے پر تو ، ہم نے صبر کیا ہے
اپنے دِل کو بھی سمجھائے اُس سے کہنا
Muhammad Shifa
وہ رسالہ ماہنامہ ہے اور ہر ماہ نیا چھپتا تھا اور ابھی تک چل رہا ہے، ایک بار نہیں چھپا، آپ خاید کسی اور پمفلٹ کی بات کر رہے ہوں گے، یہ سہیل نامی ماہنامہ مجلہ ہے جس کا میں نا ذکر کیا ہے۔

AbuBakr RMdani

محترم سر! آپ میں اور مسٹر چپس میں قدرے مشابہت معلوم ہوتی ہے۔
جیسا کہ وہ بروک فیلڈ سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد اپنی بقیہ زندگی سکول کی یادوں میں گزارتے بالکل اسی طرح آپ بھی کالج کی یادوں کو بُھلا نہیں پا رہے۔
ایک چیز یہ کہ مسٹر چپس تو مسز وکٹ کے گھر رہتے تھے، نہیں معلوم آپ کن مسز کے ہاں رہتے ہیں۔

Maqbool Ahmed

سر جی مجھے یاد پڑتا ہے کہ 1991 یا 1992 میں ایک رسالہ بھی شائع ہوا تھا سہیل کے نام سے تو, اس میں بھی بہت اچھی اچھی تحریر تحریر کہانیاں افسانے ہیں اور نعتیہ کلام شائع ہوئے تھے, اس رسالہ کی روداد بھی اگر شامل پوسٹ ہو جائے تو بہتر ہے

Muhammad Shifa

بہت خوبصورت سلسلہ تھا بزمِ ادب کے پیریڈ ہوتے تھے آج کل تو علامہ اقبال کے شعر
تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور
کے مصداق اکثر تعلیمی اداروں میں اور ہی سماں بندھ چکے ہیں

Gul Nawaz

سر بعد میں سالانہ رسالہ شائع ہوتا جبکہ ٹائم ٹیبل رزلٹ ڈیٹ شیٹ سپورٹس اور اسی نوع کی دوسری خبروں کے لیئے نوٹس بورڈ پہ جاتے تھے ہم نوٹس بورڈ پر ایک الگ سا تختہ ہوتا جس پر کسی طالبعلم کے نام کوئی ڈاک ہوتی تو وہاں سے مل جاتی
یہ 2003 کی بات ہے

Muhammad Shifa

سر لالا امجد علی ملک ایم اے انگلش کے امتحانات کے دوران جب اقبال ہاسٹل کے روم نمبر 1 میں عارضی طور پر سکونت ہوئے تو اکثر کینٹین سے چائے لانے کا کہا کرتے اور یہ آپ جیسے مہربان و علم دوست باپ کی شفقت کا اثر تھا کہ جب ہم چائے لاتے تو ساتھ بٹھا کر چائے بھی پلاتے اور اسی دوران کچھ نہ کچھ انگلش کا سبق بھی پڑھا دیتے جو آج ہماری عملی زندگی میں ہمارے کام آ رہا ہے تو دل سے آپ کے لئے اور آپکے گھرانے کیلئے دعائیں نکلتی ہیں
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے قائد اعظم ترا احسان ھے ، احسان
آپ پاکستان نہ بناتے تو متعصب ہندو اکثریت کے ہاتھوں ہمارا بھی وہی حشر ہوتا جو کشمیریوں کا ہو رہا ھے ۔

25 دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبتیں۔۔۔۔۔۔۔
23 دسمبر کو دامن کوہ اسلام آباد کی سیر کے دوران میں دھوپ میں ایک بینچ پر بیٹھا تھا تو پانچ نوجوان اُدھر سے گذرتے ہوئے میرے سامنے رک گئے۔ ان کے ساتھ آٹھ دس سال کا ایک بچہ بھی تھا۔ ایک نوجوان نے مجھ سے پوچھا ” سر ، آپ پروفیسر منورعلی ملک ہیں نا؟
میں نے کہا جی ہاں۔۔۔۔۔ میرے خیال میں یہ ہماری پہلی ملاقات ہے۔ آپ نے مجھے کیسے پہچانا؟
عامرنواز خان نامی نوجوان نے کہا ” سر، ہم آپ کو فیس بک پر دیکھتے رہتے ہیں۔ یوں آپ سے غائبانہ تعارف پہلے سے ہے، اچھا ہوا آج آپ سے ملاقات بھی ہوگئی۔ہمارے یہ ساتھی پرویز سلطان خان بھی فیس بک پر پوسٹس لکھتے رہتے ہیں۔
میں نے کہا آپ لوگ لگتے تو میانوالی کے ہیں۔ پرویز خان نے مسکرا کر کہا جی سر، ہم سب غنڈی تری خیل سے ہیں۔
ان نوجوانوں نے اصرار کیا کہ سر، آئیں آپ کی کچھ خدمت کردیں۔ کچھ چائے پانی ہو جائے۔
میں نے بتایا کہ میں فی الحال تو ان کے ساتھ نہیں جاسکتا کہ بچوں کے ساتھ یہاں آیا ہوا ہوں۔ ان شآءاللہ پھر کبھی ملاقات ہوئی تو کچھ دیر کے لیئے مل بیٹھیں گے۔
اللہ کریم میرے ان بیٹوں کو سلامت رکھے بہت شائستہ اور مہذب نوجوان ہیں۔
میری شہرت کا لطف اپنی جگہ، لیکن ایک میانوالین کی حیثیت میں جو محبت مجھے ملتی ہے اس کا ایک اپنا ہی لطف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔30 دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔
میرا میانوالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ یاد رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔
ایک دفعہ میں اپنے بیٹے ارشد کے ساتھ سرگودہا سے میانوالی آرہا تھا۔ اس دن بسوں قلت اور سواریوں کی کثرت تھی۔ ہم سرگودھا بس سٹینڈ کے باہر ایک ہوٹل میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ نیو خان بس سروس کی لاہور سے میانوالی جانے والی ایک بس سامنے پٹرول پمپ پر آکر رکی۔ بس کا کنڈکٹر کسی کام سے ہوٹل میں آیا تو ہمیں دیکھ کر سیدھا ہمارے پاس آکر کہنے لگا ” سر ، آپ میانوالی جا رہے ہیں؟” میں نے کہا “جی ہاں”۔
یہ سن کر اس نے ہمارا بیگ اٹھا لیا اور کہنے لگا “سر آپ اطمینان سے چائے پی کر آجائیں، میں جاکر آپ کے لیئے سیٹوں کا بندوبست کرتا ہوں”۔
ہم چائے پی کر پہنچے تو ہمارے لیئے دو سواریوں کی سیٹ کا بندوبست ہو چکا تھا۔ میں کرایہ دینے لگا تو اس نوجوان نے کہا ” سر، یہ کیا؟ آپ میرے مہمان ہیں۔ آپ سے کوئی کرایہ نہیں لیا جائے گا”۔
نوجوان کی یہ مہربانیاں دیکھ کر میں نے کہا ” بیٹا میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔ کیا آپ مجھے جانتے ہیں ؟”
اس نے کہا ” سر، آج سے چند سال پہلے ایک دفعہ میں کچھ کاغذات کی تصدیق کے لیئے آپ کے پاس آیا تھا۔ آپ مجھے جانتے بھی نہیں تھے، پھر بھی آپ نے فورا میرا کام کر دیا تھا۔ آپ کا یہ احسان میں کیسے بھول سکتا ہوں ؟”
اللہ اکبر ! کیا احسان شناس شخص تھا وہ نوجوان۔ میں نے تو صرف اس کے کاغذات پر دستخط کر کے مہر لگا دی تھی۔ ایک آدھ منٹ کا کام تھا۔ مگر اس نے یہ چھوٹی سی مہربانی بھی یاد رکھی اور موقع ملتے ہی اس احسان کا صلہ ادا کر دیا۔
جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے کام آیا کریں۔ لوگ معمولی سا احسان بھی یاد رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔31دسمبر          2023 –منورعلی ملک۔۔۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top