منورعلی ملک کی فروری 2017 کی فیس بک پرپوسٹ-میرا میانوالی
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ————————- ھمارے بچپن کے زما نے میں بہت کم لوگوں کے پاس نقد رقم ھوتی تھی- زیادہ تر لوگ اپنی ضرورت کے مطابق ا ندازہ لگا کر گندم دکان پر لے جاتے تھے- دکان دار گندم کو تول کر اس کی جوقیمت بنتی ، بتا دیتے تھے- لوگ ا تنی رقم کی چیزیں لے لیتے تھے- یہ کام ھم بھی کبھی کبھی کرتے رھے- گندم گھر کی تھی- جب پیسے ختم ھو جاتے تو پھر گندم بیچ کر اپنی ضرورت کی چیزیں خریدتے تھے-
نقد رقم صرف سرکاری ملازموں کو ھر مہینے تنخواہ کے طور پر ملتی تھی- وہ بھی مہینے کے آ خر تک دکان داروں کی جیب میں چلی جاتی تھی- دکان دار اس رقم سے دکان کا سامان خرید لاتے تھے-
اس زما نے میں روپیہ 64 پیسے کا ھوتا تھا- دو پیسے کا سکہ ٹکہ کہلاتا تھا- چار پیسے کا سکہ آنہ، آٹھ پیسے کا سکہ دوانی، 16 پیسے کا چوانی اور 32 پیسے کا سکہ اٹھانی کہلاتا تھا- روپے کا بھی نوٹ کی بجائے سکہ ھوتا تھا-
مجھے جیب خرچ کے لیے ایک آ نہ روزا نہ ملتا تھا- ا س میں اچھی خاصی عیا شی ھو جاتی تھی- ایک پیسے کی چار کھٹی میٹھی گولیاں (چوپنڑیاں)، ایک پیسے کا ھا تھ جتنا چنے یا چاول کا مرنڈا، اور دوپیسے کی ایک پاؤ مونگ پھلی لے لیتا تھا- عیا شی یہ نہیں تو اور کیا ھوتی ھے ؟
— منورعلی ملک —–
( پکچر میں دیئے ھوئے سکے اس دور کے نہیں، یہ بعد کے ھیں- صرف تصور واضح کرنے کے لیے پکچر دی ھے- شکل پرانے سکوں کی بھی یہی ھوتی تھی- چار کونوں والا ٹکہ اور بہت سے کونوں والا سکہ آنہ ھوتا تھا )- 1 فروری2017
میرامیانوالی / میرا داؤدخیل —-
بیماریاں اور جرائم بہت کم ھوتے تھے- اکا دکا چوری کی واردات کبھی کبھار سننے میں آتی تھی- پرا نی دشمنیوں کی بنا پر دوچار سا ل میں ایک آدھ قتل بھی ھوجا تا تھا- رفتہ رفتہ پرا نی دشمنیاں بھی ختم ھوگئیں-
کینسر، ھارٹ ا ٹیک، , ھیپاٹاءیٹس، شوگر وغیرہ جیسی بیماریوں کا نام و نشان تک نہ تھا- لوگ مرتے تو تھے، مگر زیادہ تر بڑھا پے اور کمزوری کی وجہ سے- 80, 90 سال عمر کے لوگ ٹھیک ٹھاک چلتے پھرتے نظر آتے تھے-
بیماریوں میں سے ایک تو ھمارا پرا نا مہربان ملیریا تھا، ستمبر اکتوبر میں ھر آدمی کو یہ بخار ھوتا تھا- ( یوں سمجھیے کہ ملیریا ھمارا قومی بخار تھا- ملیریا کے موسم میں جس آدمی کو ملیریا نہ ھوتا، اس کے گھر والے پریشان ھو جاتے تھے کہ پتہ نہیں بچارے کو کیا ھو گیا ھے) – ملیریا کو ھماری زبان میں “سی آلا تاپ“ (سردی والا بخار) کہتے تھے- اس سے کبھی کوئی مرا تونہیں، بس آدمی تھوڑا سا کھجل خوار ضرور ھوتا تھا-
اللہ کی شان دیکھیے، انگریز جب تک ا س ملک میں رھے، اکثر ملیریا ھی سے مرتے تھے- ان کے لیے یہ بخار مہلک تھا، ھمارےلیے با لکل نہیں- ڈاکٹر لوگ کہتے ھیں کہ انگریزوں کے ا س مرض سے مرنے کی وجہ آب و ھوا کا فرق تھا- یہ ان کے علاقے کا مرض نہیں تھا، اس لیے ان کا جسم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا—- واللہ اعلم –
ملیریا کی طرح سردی کے موسم میں نمونیا کا مرض بھی ھوتا تھا- بچوں کے لیے تو خطرناک تھا- ویسے یہ بھی تقریبا بے ضرر سا ھوتا تھا- ٹائیفائیڈ بھی تھا، مگر بہت کم، اکثر یہ مرض ملیریا کا بروقت علاج نہ ھونے سے ھوتا تھا- TB سب سے خطرناک مرض تھا، یہ اس وقت لاعلاج تھا- مگر موروثی مرض تھا، بہت کمزور لوگ اس مرض کا شکار ھوتے تھے-
ان چند یتیم مسکین بیماریوں کے علاوہ کسی اور بیماری کا نام بھی کبھی نہ سنا – ٹریفک نہ ھونے کی وجہ سے حا د ثا ت بھی نہیں ھوتے تھے- یوں سمجھ لیجیے کہ موت کے اسباب بہت کم تھے، اس لیے لوگ کم مرتے تھے- آج والاحال نہیں تھا- ———- منورعلی ملک- 2 فروری2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل —
سادہ طرز زندگی، اور سادہ مگر خالص غذا کی وجہ سے لوگ بہت سی پریشانیوں اور پیماریوں سے محفوظ رھتے تھے- خورا ک میں زیادہ تر خالص دیسی بلکہ گھر کا بنا ھؤا گھی اور اپنی بارانی زمین کی گندم مختلف کھانوں کی شکل میں استعمال ھوتی تھی- اس گندم کی روٹی کی دلکش خوشبو اور گائے کے گھی کی مخصوص مہک ھوتی تھی-
صبح کا ناشتہ توے پر بنی ھوئی موٹی سی خوشبودار روٹی پر گائے کا گھی یا مکھن لگا کر لسی کے ساتھ نوش جان کیا جاتا تھا- اس ناشتے کے بعد دوپہر کے کھانے کی حاجت نہیں رھتی تھی- اکثر لوگ ظہر کے وقت تازہ بھنے ھوئے مٹھی بھر گرماگرم کالے چنے کھا کر اوپر سے پانی پی لیا کرتے تھے- اس عمل کو ھماری زبان میں “پچھائیں“ کہتے تھے-
شام کے کھانے کے لیے سالن بنتا تھا، عام طور پر دال ، سبزی یا گائے کے گوشت (بیف) کا سادہ سا مگر بہت لذیذ سالن ھر گھر میں بنتا تھا- سالن میں خالص گھی اور سادہ مصالحہ ھوتا تھا- دیہات کی ان پڑھ خواتین ایسا چٹ پٹا سالن بناتی تھیں کہ آپ کھائیں تو فرائی چکس اور KFC کے کھانے بھول جائیں- اس فن میں ھر خاتون ماھر تھی- ان کے ھاتھ میں برکت ھوتی تھی- کھانا دل کو بھی اچھا لگتا تھا، جسم کو بھی چارج کر دیتا تھا-
کاش کبھی آپ کو وہ کھانے اسی خالص شکل میں نصیب ھو جائیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ میں کیا کہہ رھا ھوں- اب تو کیمیکل کھاد والی گھاس پر پلی ھوئی گائے بھینسوں کے دودھ گھی سے دلفریب خوشبو کی بجائے دوائیوں جیسی بو آتی ھے- گندم کی روٹی میں بھی یوریا کھاد کا ذائقہ محسوس ھوتا ھے-
ا س دور کے کھانوں کا ذکر ابھی ایک آدھ دن جاری رھے گا— توں نئیں تے تیریاں یاداں سہی “——- منورعلی ملک- 3 فروری2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل –
صرف گھی، آ ٹا اور گڑ/ شکر سے بھی کھا نے کی بہت سی چیزیں بنتی تھیں- دوقسم کے حلوے، ایک سادہ دوسرا دودھی والا تو اب بھی چل رھے ھیں ، مگر اب نہ وہ خالص دیسی گھی ملتا ھے ، نہ بارانی گندم کا آٹا، نہ وہ چینی سے زیادہ میٹھا پشاوری گڑ – یہ گڑ بنتا تو مردان میں تھا ، کہلاتا پشاوری گڑ تھا-
سردیوں میں بارش والے دن کرکنڑاں بنتا تھا- گڑ اور گھی کا شیرہ بنا کر اس میں آ ٹا ڈا ل دیتے تھے- کچھ دیر بعد یہ پک جاتا تھا- پکنے کے چند منٹ بعد اچھا خاصا سخت بھی ھو جاتا تھا۔ دانتوں کی آزمائش تو ھوتی تھی ، مگر چیز بڑی مزیدار تھی— کرکنڑاں واحد چیز تھی جو مرد خود بڑے شوق اور فخر سے بنایا کرتے تھے—- شاید اس لیے کہ اس میں کچھ کرنا نہیں پڑتا- اپنے آپ ھی بن جاتا ھے-
ھمارے داؤدخیل میں پرا ٹھا اس مسکین سی چپاتی کو نہیں کہتے جو آپ ناشتے میں کھاتے ھیں-
ھمارا پرا ٹھا ا وپر نیچے دو تگڑی روٹیوں کو جوڑ کر بنتا تھا- توے پر ا یک روٹی ڈال کر اس کے ا وپر مٹھی بھر گڑ کوٹ کر ڈال دیتے تھے- پھر اس کے ا وپر ا یک اور روٹی لگا دیتے تھے- جب پراٹھا دونوں طرف سے پک جا تا تو ا تا ر کر اسے پلیٹ ( چھکور تو آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گا) میں رکھ دیتے اور تربوز کی ٹاکی کی طرح درمیان سے تھوڑا سا ٹکڑا کاٹ لیتے- اس سوراخ کے اندر پگھلے ھوئے گڑ پر پگھلاھؤا خالص گھی اور ذرا سی ھلدی ڈال دیتے تھے- کہتے تھے ھلدی گوڈوں گٹوں کے دردوں کے لیے لاجواب علاج ھے- پھر پگھلے ھوئے گڑ اور گھی میں نوالے ڈبو کر مزے سے کھایا کرتے تھے-
رمضان المبارک میں سحری کے لیے پتلے آ ٹے کی خالص گھی میں فرائی کی ھوئی ریشم جیسی نرم روٹیاں بنتی تھیں ، جنھیں وشلیاں کہتے تھے- ان کے اوپر گھی شکر ڈال کر کھاتے تھے- وشلی سے سحری کرنے کے بعد دن بھر بھوک پیاس نہیں لگتی تھی- داؤدخیل میں رمضان المبارک کے بعد وشلیوں کے ھجر فراق میں ایک ماھیا بھی گا یا کرتے تھے ——– لنگھ گئے روزے وڈا ارمان وشلیاں ناں — منورعلی ملک —– 4 فروری2017
میرا میانوالی
—– المناک خبر —
عہد حاضر میں اردو کی سب سے اھم ناول نگار محترمہ بانو قدسیہ آج اس عالم فانی سے رخصت ھوگئیں- مرحومہ کا ناول “راجہ گدھ“ اردو کے بہترین ناولوں میں شمار ھوتا ھے- مرحومہ صف اول کی افسانہ نگار اور ڈراما نگار بھی تھیں- گورنمنٹ کالج (اب یونیورسٹی) لاھور کی گریجوئیٹ تھیں- اردو ، پنجابی ، دونوں زبانوں میں لکھتی تھیں- ان کی مطبوعہ کتابوں میں “حاصل گھاٹ“ اور “آسے پاسے“ بھی بے حد مقبول ھوئیں- ان کا لکھا ھؤا ڈراما “ آدھی بات“ کلاسیکس میں شمار ھوتا ھے-
محترمہ بانوقدسیہ نامور افسانہ نگار، ڈراما نگار اور صوفی دانشورمرحوم اشفاق احمد کی اھلیہ تھیں- دونوں میاں بیوی سچے مسلمان اور محب وطن پاکستانی تھے- اللہ کریم ان کی مغفرت فرما کر انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے- 4 فروری2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل —
کھانا بنانا میرے فرائض میں شامل نہیں– اس لیے مجھے اس فن کا ماھر خصوصی نہ سمجھا جائے- ھر بندہ حاجی اکرام اللہ خان تو نہیں ھو سکتا نا — بچپن کی یادوں میں کھانے کی چیزوں کا ذکر آ یا تو چند چیزیں یاد آگئیں- بچوں کو میٹھی چیزیں اچھی لگتی ھیں- اس لیے کچن میں تاک جھانک کرکے ان چیزوں کو بنتے ھوئے باربار دیکھا تو ان کے بنانے کا طریقہ یاد رہ گیا- وھی معلومات آپ کے ساتھ شیئر کر رھا ھوں، شاید کہیں آپ کےکام آجائیں- کم از کم جس دن گھر سے کھانا نہ ملے تو خود ھی ھاتھ پاؤں ھلا کر کچھ نہ کچھ کر سکیں-
گھی آٹے اور گڑ سے بننے والی چیزوں کا ذکر چھڑا تو ھمارے محترم داؤدخیلوی دوست ظفرخان نیازی نے وسننڑں یاد دلادیا- کیا زبردست چیز ھے یہ بھی -!!! اس کا ھلکا سا ترش مست ذائقہ اس کی نمایاں خاصیت ھے- کھاتے ھوئے بھی توانائی کا احساس ھوتا ھے-
جب مکھن کو پگھلا کر گھی بناتے ھیں، تو اس کے اوپر لسی کا جھاگ سا آجاتا ھے- اس جھاگ کو جذب کرنے کے لیے گھی میں تھوڑا سا آٹا اور گڑ یا شکر ڈال دیتے ھیں – گھی کے بنتے ساتھ یہ حلوہ سا مفت میں بن جاتا ھے- اسی کو وسننڑں کہتے ھیں- وہ پہلے جیسا خالص آٹآ ، گڑ اور گھی تو نہیں ملتا، مگر وسننڑں کے شوقین اب بھی حسب توفیق جیسا تیسا وسننڑں بناتے رھتے ھیں-
روٹ بھی ھمارے علاقے کی خاص چیز ھے- گڑ کے شربت میں آٹآ بھگو کر موٹی سی روٹی معمولی سا گھی لگا کر توے پر بنائی جاتی ھے- اسے روٹ یا روٹا کہتے ھیں- بہت مزیدار اور قوت بخش غذا ھے- عام طور پر پیروں کے مزاروں پر روٹ د ینے کی منت مانی جاتی تھی- جب منت د ینے والی خواتین گھر سے نکلتیں تو محلے کے بچوں کا جلوس روٹ کے لالچ میں ان کے ھمراہ جاتا تھا- اس جلوس میں شمولیت کا شرف ھمیں بھی کئی با ر نصیب ھؤا-
کھانے پینے کی باتیں بہت ھو چکیں- کل سے انشاءاللہ کسی اور موضوع پہ بات ھوگی- منورعلی ملک- 5 فروری2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل —–
جناح بیراج کی تعمیر داؤدخیل کی معیشت اور معاشرت میں ایک بہت بڑے انقلاب کا سبب بنی- اس سے پہلے داؤدخیل ایک چھوٹا سا ‘ دور افتادہ , گمنام سا گاؤں تھا- بارانی زمینوں کی کاشتکاری کے سوا یہاں کوئی ذریعہ معاش میسر نہ تھا- نقد رقم کی بجائے گندم کے بد لے ضرورت کی چیزیں خریدی جاتی تھیں-
1939 میں جناح بیراج کی تعمیر کا آغاز ھؤا تو لوگوں کو یومیہ نقد اجرت پر مزدوری ملنے لگی- داؤدخیل کے بہت سے لوگ بیراج پہ کام کرنے لگے- بیراج کے کام سے متعلقہ انجینیئرز’ افسران ‘ کلرک اور دوسرا عملہ سب داؤدخیل سے باھر کا تھا- شروع میں یہ باھر سے آ ئے ھوئے لوگ خیموں میں رھتے تھے- کچھ عرصہ بعد ان کی رھائش کے لیے کینال کالونی (نہر کالونی) بن گئی- یہ لوگ انڈے ، دودھ گھی، آٹا وغیرہ نقد پیسے دے کر خریدتے تھے- یوں داؤدخیل کے لوگوں کو ایک معقول ذریعہ معاش مل گیا- وہ اپنی ضرورت سے زائد دودھ ، گھی ، آٹا ، انڈے اور مرغیاں وغیرہ محکمہ نہر کے ان ملازمین کو سپلائی کرنے لگے- اسی حوالے سے داؤدخیل کے ایک لوک شاعر محمدنوازخان عرف چاچا وازو ایک لوک گیت گا یا کرتے تھے ، جس کا پہلا مصرعہ یہ تھا – —– اللہ سوھنڑاں بند نہ کریں ھا ھیڈ والے روزگار کو ——( اے اللہ، نہر والے کام کو کبھی بند نہ ھونے دینا )
چاچا وازو ان پڑھ تھے- یہ گیت لکھا تو نہ جا سکا، چاچا وازو کو یہ گا تے ھوئے کئی بار سنا- خاصا لمبا اور دلچسپ گیت تھا–
جناح بیراج کی تعمیر1939 سے 1946 تک جاری رھی – داؤدخیل میں جناح بیراج کو “ھیڈ آلا پل “ اب بھی کہتے ھیں- دریا سے نہر نکلنے کے نظام کو ھیڈورکس (Headworks) کہتے ھیں- داؤدخیل میں اسے مختصر کر کے ھیڈ کہا جاتا ھے- منورعلی ملک- 6 فروری2017
میرا میانوالی / میراداؤدخیل —-
جب میں گورنمنٹ ھائی سکول داؤدخیل میں ٹیچر تھا تو ھم تین نوجوان ٹیچرز کا ایک گروپ ھؤاکرتا تھا- میرے ساتھ اس گروپ میں میرے دوسرے دو ساتھئ غلام مرتضی خان انگلش ٹیچر اور غلام سرورنیازی ڈرائنگ ماسٹر تھے- ھمارا گروپ کوئی سیاسی یا باغی گروپ نہیں تھا۔ بس ھم مزاجی کی بنا پر گہرے دوست بن گئے-
ھمارا ایک مشغلہ سکول کی چھٹی کے بعد بے تحا شا پید ل چلنا پھرنا تھا- جناح بیراج بھی ھماری پسندیدہ سیرگاہ تھی- ذرا اندازہ کیجیئے , داؤدخیل سے جناح بیراج تک تقریبا 5 کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرنا، واپسی بھی پیدل، کل فاصلہ ملاکر10 کلومیٹر بنتا ھے- ھم 10 کلومیٹر کا یہ سفرروزانہ پیدل طے کرکے بھی تھکتے نہیں تھے- ھم کوئی سپورٹس مین بھی نہیں تھے، بس ایک جنون سا تھا-
غلام مرتضی خان کا بات کرنے کا ایک اپنا انداز تھا- جونہی ھم روانہ ھوتے وہ کوئی نہ کوئی قصہ چھیڑ دیتے، اور ھنسا ھنسا کر ھمارا برا حا ل کرد یتے- ایک کما ل یہ تھا کہ مرتضی خان جس موضوع پر بھی بات شروع کرتے، آ تے جا تے تمام سفر میں موضوع وھی رھتا-
ھم جناح بیراج کے دریا پاروا لے سرے تک جاکر چاروں طرف کے دلکش منظر سے لطف اندوز ھؤا کرتے تھے- سامنے وسیع وعریض بپھرا ھؤا دریا جو لوھے کے بھاری بھرکم دروازوں کی قید سے نکل کر شور مچاتا ھؤا اپنی منزل کی جانب رواں دواں رھتا ھے- دریا کا یہ شور را توں کے سناٹے میں 5 کلومیٹر دور داؤدخیل شہر میں بھی سنا ئی د یتا ھے- دریا کے دونوں کناروں پر گھنا پراسرار جنگل ھے، دریا کے عین درمیان میں ایک جزیرہ ھے- جھا ڑیوں سے ڈھکا ھؤا یہ جزیرہ آ بی پرندوں کا مسکن ھے- دن کے وقت قسم قسم کے رنگ برنگے پرندے رزق کی تلاش میں دریا پر پرواز کرتے نظر آتے ھیں- نہایت روح پرور منظر ھے- اس منظر کو دیکھنے کے لیے 10 کلومیٹر کا سفر ھمیں تو کبھی مہنگا نہیں لگا- بیراج کے گردونواح پر نظر پڑتے ھی زبان بے ساختہ پکار ا ٹھتی ھے “سبحان اللہ “- منورعلی ملک-10 فروری2017
میرامیانوالی / میرا داؤدخیل —
ھمارے بچپن کے زمانے میں ھمارے بزرگ ھر سال گرمی کی چھٹیوں میں جناح بیراج پر پکنک منایا کرتے تھے- پکنک جناح بیراج کے جنوبی سرے پر کینال ریسٹ ھاؤس کے سامنے شیشم کے سر سبز درختوں کے ایک جھنڈ میں گھرے ھوئے لان میں ھوتی تھی- راشن ، مرغیاں ، آٹا، گھی ، چینی ، پتی وغیرہ ھم گھر سے ساتھ لے جاتے تھے- کھانا بنانے کاکام ریسٹ ھاؤس کے ملازمین کرتے تھے-
ھمیں یہ سہولت میرے بڑے بھائی ملک محمد انور علی کے قریب ترین دوست بھائی فتح خان سالار نیازی کی وجہ سے حاصل تھی- بھائی فتح خان محکمہ نہر میں اکاؤنٹنٹ تھے، ان کے حسن کردار اورقابلیت کی وجہ سے محکمہ نہر کے چپراسی سے لے کر ایکس ای این تک سب ان کا احترام کرتے تھے- پکنک کا اھتمام بھائی فتح خان ھی کرتے تھے- کالاباغ کا سپیشل حلوہ بھی وھی فراھم کرتے تھے- کھانے پینے سے پہلے بزرگ تو دریا کے حفاظتی بند کے قریب دریا میں اتر کر نہایا کرتے تھے- ھم بچہ لوگوں کو نہانے کی اجازت نہ تھی- اس لیے ھم ادھر ادھر گھوم پھر کر برج اور دریا کے حسین مناظر کو مختلف زاویوں سے دیکھ کر حیرتوں اور مسرتوں کے خزانے لوٹتے رھتے تھے- دریا کا جاہ و جلال، غیظ وغضب ، بیراج سے نکلتے ھوئے جھاگ کے فوارے، بیراج کے شمال میں جھیل پر اترتی مرغابیوں کی ڈاریں ، دریا پرشکار کی تلاش میں منڈلاتی ٹٹیریاں، بگلے، ٹوکے، ککوئے (یہ سب بہت خوبصورت آبی پرندے ھیں)، لفظ تو کیا، مووی کیمرہ بھی ان مناظر کے حسن کو مؤثراندازمیں پیش نہیں کر سکتا، اس حسن کو سمجھنے کے لیے وھاں جا کر گھومنا پھرنا ضروری ھے- ھماری پکنک چارپانچ بجے تک جاری رھتی- دریا کے حفاظتی بند کے جنوبی سرے پر دریا کے یخ بستہ پانی میں پاؤں ڈبو کر چائے پینے کا ایک اپنا مزا ھوتا ھے، اللہ توفیق دے تو کبھی وھاں جا کر دیکھیں، دریائے سندھ کا ذکر چھڑ ھی گیا ھے تو اب چند روز انشاءاللہ یہی ذکر چلے گا کہ ھمارے لیے تو یہ ذکریارھے- منورعلی ملک —
( پکچرمیں جو درخت نظر آ رھے ھیں یہ وھی درخت ھیں جن کے سائے میں ھم پکنک منایا کرتے تھے)8 فروری2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل —–
ضلع میانوالی کی تاریخ، جغرافیہ، معیشت اور معاشرت ، سب کچھ دریائے سندھ سے وابستہ ھے- اگر یہ دریا نہ ھوتا تو یہاں آباد ھونے والے قبائل خدا جانے کہاں جا بستے- پھر میانوالی، داؤدخیل وغیرہ شاید دریائے جہلم یا چناب کے کناروں پرآباد ھوتے-
صرف میانوالی ھی کیا ، پورے پاکستان کا نقشہ کچھ اور ھوتا- یہ 3180 کلومیٹر لمبا دریا پاک چین سرحد کے نواح سے نکلتا ھے، اور صوبہ سندھ کے شہر ٹھٹہ کے قریب سمندر میں جا گرتا ھے- کروڑوں لوگوں کی زندگی اس سخی دا تا دریا سے کسی نہ کسی صورت میں وابستہ ھے-
حیرت ، بلکہ افسوس کی بات یہ ھے کہ اس دریا کے کناروں پر آباد ھم لوگ اس دریا کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے- جبکہ امریکہ کی ریاست پینسیلوانیا کی رھنے والی خاتون جین فیئرلی Jean Fairley نے اس دریا کے ساتھ چین سے لے کر صوبہ سندھ کے شہر ٹھٹہ تک قدم بہ قدم چل کر اس دریا اور اس کے کناروں پر آباد لوگوں کی تاریخ ،معیشت اور معاشرت کے بارے مین قیمتی معلومات اپنی کتاب The Lion River : Indus میں فراھم کر دی ھیں- یہ کتاب 1975 میں شائع ھوئی- میں اس وقت گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں تھا- میں نے بھی کالج کی لائبریری کی لیے یہ کتاب خریدی تھی- وھاں اب بھی موجود ھوگی-
جین فیئرلی 2013 میں یہ دینا چھوڑ کر قبر میں جا سوئیں- جین فیئرلی کی کتاب اور رضاعابدی کی کتاب ایک دوسری کا ترجمہ نہیں، بالکل الگ کتا بیں ھیں-
اس پوسٹ میں دوسری پکچر بی بی سی رٰیڈیو کے نامور صحافی رضا علی عابدی کی کتاب “شیردریا“ کی ھے- یہ کتاب 1994 میں شائع ھوئی-
ان دونوں کتابوں کے حوالے سے مزید اھم باتیں انشاءاللہ کل ھوں گی منورعلی ملک-9 فروری2017
میرا میانوالی / میراداؤدخیل —–
دریائے سندھ اور اس سے جنم لینے والی تہذیب کے حوالے سے میرے علم کے مطابق 10 کتابیں منظرعام پر آچکی ھیں- ان میں سے 9 کتابیں مغربی مصنفین کی ‘ انگلش میں لکھی ھوئی ھیں- اردو میں واحد کتاب پاکستانی مصنف اور بی بی سی کے مقبول و معروف صحافی رضاعلی عابدی کی کتاب “شیردریا” ھے
جین فیئرلی کی کتاب The Lion River اس لحاظ سے منفرد ھے کہ مصنفہ نے سائنسی انداز میں مشاھدہ کر کے اس دریا اور اس سے وابستہ تہذیب کے بارے میں قیمتی معلومات نہات سلیقے سے یکجا کردی ھیں- انداز تحریر سادہ اور دلچسپ ھے- Jean Fairley معروف شاعرہ بھی ھیں ، کہیں کہیں ان کی تحریر خوبصورت نظم جیسی لگتی ھے- بڑی بات یہ ھے کہ مصنفہ نے معلومات گھر بیٹھ کر گوگل وغیرہ سے حاصل نہیں کیں ، بلکہ دریا کے ساتھ ساتھ 3180 کلومیٹر کا سفر طے کر کے آنکھوں دیکھی معلومات فراھم کی ھیں- راستے میں آباد لوگوں سے بھی بہت کام کی باتیں حاصل کرکے کتاب کی زینت بنائی ھیں- کلچر اور زبان کے فرق کے باوجود یہ سب کچھ کر لینا بہت بڑا کمال ھے-
رضاعلی عابدی کی کتاب “شیردریا“ بھی دریا کے ساتھ قدم بہ قدم چل کر لکھی گئی- یہ کتاب جناب رضاعلی عابدی نے بی بی سی ریڈیو کے ایک خصوصی پروگرام کے لیے دریائے سندھ پر ایک ڈاکیومنٹری کی صورت میں مرتب کی- یہ نہایت مقبول پروگرام قسط وار چلتا رھا- عابدی صاحب دریا کے ھمراہ اپنے روزانہ سفر کی داستان سناتے رھے- بی بی سی ریڈیو سے یہ منفرد سفر نامہ 1991-92 میں نشر ھوتا رھا –
1994 میں، عابدی صاحب نے اھل ذوق لوگوں اور ایک معروف پبلشر کے اصرار پر اپنی اس داستان کو کتاب کی شکل دے کر شائع کرادیا- کتاب سنگ میل پبلشرز لوئر مال لاھور سے مل سکتی ھے- یوٹیوب میں عابدی صاحب کی اپنی آواز میں بھی یہ داستان آپ سن سکتے ھیں-
عابدی صاحب اپنے سفر کے دوران گورنمنٹ کالج میانوالی بھی تشریف لائے تھے- ھم پروفیسر حضرات اور صدر ًفضل الرحمن کی قیادت میں طلبہ نے بھی عابدی صاحب کو بہت سی دلچسپ معلومات مہیا کی تھیں- یہ سب باتیں اس کتاب میں شامل ھیں- داؤدخیل کے لوگوں کی باتیں بھی اس کتاب کی زینت ھیں-عابدی صاحب کی دریائے سندھ کے پانی جیسی پاکیزہ ، شیریں نثر کا ایک اپنا لطف ھے ، جو اور کہیں نہیں ملتا– منورعلی ملک- 10 فروری2017
اللہ دی امان ھووی ——
سرائیکی کے بزرگ درویش شاعر احمد خان طارق آج دنیا سے رخصت ھو گئے- بہت نرالے رنگ کے شاعر تھے- ان کی شاعری اپنی مٹی ، اور دنیا بھر کے انسانوں سے محبت کی شاعری ھے- دیکھنے میں بات بہت سادہ، مگر معانی میں ایک جہان آباد نظر آتا ھے-
میں خود بھی شاعر ھوں , تھوڑا بہت پڑھا لکھا بھی ھوں، جب میں اس درویش شاعر کا معتقد ھوں تو کوئی بات تو ھوگی- میری نظر میں مرحوم احمد خان طارق اپنے رنگ میں سرائیکی کے سب سے بڑے شاعر تھے-
احمد خان طارق سے صرف ایک ملاقات بہت عرصہ پہلے بھکر کے ایک مشاعرے میں ھوئی تھی، ان سے بات کرنے کا اعزاز تو نصیب نہ ھؤا، مگر ان کی شخصیت کا نقش آج بھی میرے تصور میں دمک رھا ھے- مرحوم ضلع ڈیرہ غازی خان کے رھنے والے تھے-
دوچار سال پہلے مرحوم کی ایک کتاب اسلام آباد میں اپنے بیٹے علی عمران کے ھاں نظر سے گذری – کتاب کی پشت پر آ ن کی ایک نظم دل میں اتر گئی- مجھے اپنا کلام بھی یاد نہیں رھتا، مگر احمد خان صاحب کی یہ نظم آج بھی یاد ھے- نظم میں شاعر چڑیوں سے مخاطب ھے٠ اس نظم کے یہ تین شعر دیکھیے-
چڑیاں اٹھو کوئی دھاں کرو
چپ ناں کرو، چپ ناں کرو
تن بے کفن ڈیکھو جتھاں
ونج کے پراں دی چھاں کرو
طارق صبا حیں شام آ
ویہڑے میڈے چگیاں کرو
“سچی ڈس وے ڈھولا کل کیوں نئیں آیا” کو اعلی درجے کی شاعری سمجھنے والے دوست تو شاید احمد خان طارق کی اس نظم سے متا ثر نہ ھوں۔ مگر میری نظر میں ببت بڑی بات کہہ دی ھے بابا احمد خان طرق نے-
اللہ تبارک وتعالی اس درویش صفت انسان کی مغفرت فرما کراس کی اگلی منزلیں آسان فرمائے— منورعلی ملک- 10 فروری2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل –
آج سے ڈیڑھ دوسوسال پہلے تک , جب دریائے سندھ پر پل، ڈیم اور بیراج نہیں بنے تھے، یہ دریا کشمیر سے کراچی تک موٹروے کاکام دیتا تھا- تجارتی کشتیوں اور جہازوں کی آمدو رفت ھر وقت جاری رھتی تھی-
کالاباغ سے نمک ، دستی پنکھے ، مٹی کے برتن اور لوھے کا سامان (توے، کڑاھیاں، چھریاں چاقو وغیرہ) شمال میں کشمیر اور جنوب میں اندرون سندھ تک جاتے تھے- کالاباغ کے بعض بزرگ ان تجارتی سرگرمیوں کا آنکھوں دیکھاحال سنایا کرتے تھے- کشمیر سے کراچی تک تقریبا ایک ھفتے کا سفر ھوتاتھا٠اتنا وقت اس لیے لگتا تھا کہ دریا کے کنارے مختلف شہروں میں مال سپلائی کرنا اور وھاں سے خریدا ھؤا مال لوڈ کرنا پڑتا تھا- — کالاباغ، کمرمشانی، عیسی خیل ، میانوالی ، کندیاں اور پپلاں بھی ان تجارتی کشتیوں اور جہازوں کے اھم سٹیشن تھے- ان میں کالاباغ سب سے قدیم بھی تھا، اھم بھی-
اس تجارتی آمدورفت کے ذریعے صرف مال ھی ایک سے دوسری جگہ نہیں جاتاتھا، بلکہ زبان اور کلچر کا لین دین بھی خودبخود ھوتا رھتا تھا – اگر تحقیق کی جائے تو ھماری زبان میں کئی لفظ سندھی ، پشتو اور کشمیری زبانوں سے آئے ھوئے ملیں گے- اس طرح ان زبانوں میں ھمارے کئی الفاظ بھی رائج ھوئے ھوں گے- کئی رسم ورواج بھی اسی طرح دونوں طرف منتقل ھوئے ھوں گے-
ایک اچھی خبر یہ ھے کہ کالاباغ سے ا ٹک تک تجارت کا یہ سلسلہ پھر سے شروع ھو گیا ھے- اس مقصد کے لیے ایک جہاز کالاباغ سے اٹک تک آجارھا ھے–
– اگر کسی دوست کے پاس کالاباغ سے اٹک آنے جانے والے اس جہاز کی اچھی سی پکچر ھو تو ازراہ کرم مجھے بھیج دیں-
میری اپیل کے جواب میں داؤدخیل سے عبدالغفارخان نیازی اور ضیاء نیازی نے جہاز کی تازہ ترین پکچرز ارسال کی ھیں- دونوں کا بہت شکریہ- اس پوسٹ کے ساتھ عبدالغفار خان کی بھیجی ھوئی پکچر لگا رھا ھوں- ضیاء نیازی سے موصول ھونے والی پکچر انشاءاللہ کل صبح کی پوسٹ میں لگاؤں گا- 11 فروری2017
میرا میانوالی
عزیز دوستو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ —— کل میرے برتھ ڈے پہ بچوں کی بنائی ھوئی چند پکچرز دیکھیں- “ میرا میانوالی میرا داؤدخیل” انشاءاللہ کل سے دوبارہ شروع کروں گا- —— منورعلی ملک
عزیز دوستو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ ——
دعاؤن کے وسیلے سے میرے برتھ ڈے میں آپ کی شرکت نے میرے اس برتھ ڈے کو بھی یادگار بنا دیا- اللہ کریم آپ کو بے حساب اجر خیر عطا فرمائے- پچھلے سال اپنے برتھ ڈے پر آپ سے ایک گذارش کی تھی- پتہ نہیں کتنے لوگوں نے اس پر عمل کیا ؟ یاد دھانی کے لیے اپنی پچھلے سال کی پوسٹ کے الفاظ پھر دہرا دیتا ھوں —— “ اگر آپکے والدین بفضل اللہ اس دنیا میں موجود ھیں ۔ توان کا برتھ ڈے ضرور منایا کریں- آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ ایسی چھوٹی چھوٹی خوشیاں والدین کے لیے کتنی اھم ھوتی ھیں- کرنا کیا ھوتا ھے، ایک چھوٹا سا کیک یا کچھ مٹھائی لے آئیں- ان کی پسند کی کوئی چیز یا کپڑوں کا ایک جوڑا ان کو گفٹ دے دیں- انہیں اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلا دیں- اس ذرا سی خدمت کے بدلے میں والدین آپ کو جو دعائیں دیں گے، ان سے آپ کی تقدیربدل سکتی ھے- آپ کے تمام مسائل حل ھو سکتے ھیں- اس لیے والدین کو یہ چھوٹا سا سرپرائیز ضرور دیتے رھا کریں– اللہ سب کو اس کار خیر کی توفیق عطا فرمائے- منورعلی ملک- 13 فروری2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل –
دریائے سندھ کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ تبت کی جھیل مانسرور میں سے نکلتا ھے- مگر بعد کی تحقیق سے یہ معلوم ھؤا کہ اس دریا کا آغاز جھیل مانسرور سے بھی آگے ایک دائمی چشمے کی صورت میں ھوتا ھے جسے تبتی زبان میں سینگی زینگبو کہتے ھیں- یہ چشمہ شیر کے سر جیسی ایک چٹان سے نکلتا ھے- اسی لیے دریائے سندھ کو شیر دریا بھی کہا جاتا ھے- بعض سیاح کہتے ھیں کہ وہ چٹان مور کے سر جیسی ھے، بہرحال دریائے سندھ کا آغازاسی چشمے سے ھوتا ھے ،جو اس چٹان سے نکلتا ھے –
اللہ جانے یہ دریا کب سے یونہی بہہ رھا ھے- بعض آثار سے پتہ چلتا ھے کہ آج سے 15000 سال پہلے بھی مردان میں دریائے سندھ کے کنارے لوگ آباد تھے- وہ لوگ غاروں میں رھتے تھے-
3180 کلومیٹر کے سفر میں اور بہت سے ندی نالے اور چھوٹے بڑے دریا اس میں شامل ھو جاتے ھیں— دائیں کنارے سے دریائے کابل ، اٹک کے قریب دریائے سندھ سے آملتا ھے، عیسی خیل کے قریب دریائے کرم بھی اپنا سب کچھ اس پیرومرشد دریا کے سپرد کردیتا ھے۔ آگے چل کر پجناب کے پانچوں دریا، جہلم، چناب، راوی ، ستلج اور بیاس بھی اس سمندر جیسے دریا میں گم ھو جاتے ھیں- ستلج اور بیاس میں تو اب ریت اڑتی دکھائی دیتی ھے- مگر برسات میں کبھی کبھی یہ بھی غیرت کا مظاھرہ کرتے رھتے ھیں-
دریائے سندھ کے کناروں پرآباد علاقہ “کچہ“ کہلاتا ھے- کچے کا اپنا خوبصورت کلچر ھے- اس کا ذکر انشاءاللہ کل کروں گا- دریا کے اتار چڑھاؤ کے مطابق کچہ کا علاقہ باربار اجڑتا بستا رھتا ھے- میں نے یہ شعر اسی حوالے سے کہا تھا-
دریا نے رخ بدلا تو اک گاؤں اجڑا
مل نہ سکے پھر دوھمسائے اس سے کہنا
کوئی دوست کچے کے علاقے کی اچھی سی تصویر بھیج دیں تو بہت بڑی مہربانی ھوگی- منورعلی ملک- 14 فروری2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ——
کل کی پوسٹ میں میں نے کچے کی پکچرز کی فرمائش کی تھی – اس کے جواب میں جناب عبدالغفارخان نیازی- ضیاءنیازی، جنیدخان ممکزئی ، انجییئر رمضان شاھین، مبین اشرف اور رمضان نوید نے کچے کے علاقے کی بہت سی خوبصورت پکچرز ارسال کی ھیں، اس تعاون کے لیے ان سب دوستوں کا ممنون ھوں- میرا موضوع چونکہ کچے کی معاشرت (رھن سہن) ھے ، اس لحاظ سے ضیاءینازی کی بھیجی ھوئی پکچر میرے موضوع کے عین مطابق ھے- اس لیے وھی پکچر اس پوسٹ میں شامل کی ھے- بقیہ پکچرز بھی ڈاؤن لوڈ کر لی ھیں، جہاں ضرورت ھوگی ، استعمال کرلوں گا- کچہ ھمارے داؤدخیل کے لیے بہت سی ضروریات زندگی کی سپلائی لائین تھا، سوفیصدخالص دیسی گھی ، دیسی انڈے , دیسی مرغیاں ، گھریلوایندھن کے لیے لئی کی لکڑیاں- لئی عجیب پودا ھے، یہ سبز بھی ھو تو دھڑادھڑجلتا ھے- کھانا اسی کی آگ پر بنتا تھا- سردی کے موسم میں آگ تاپنے کے لیے بھی لئی کی آگ کام آتی تھی- چھپر اور جھونپڑیاں (جھگیاں) بنانے کے لیے سرکنڈے (کانے) کی قسم کی جھاڑی (کانہہ) بھی کچے سے آتی تھی- کانہہ ا ینٹیں اور مٹی کے برتن پکا نے کی بھٹیوں میں ایندھن کے طور پر بھی استعمال ھوتی تھی- کچے کے لوگ یہ سارا مال اونٹوں یا بیلوں پر لاد کر لاتے تھے- دوچار گلیوں کےپھیرے میں ان کا تمام مال بک جاتا تھا- جو پیسے ملتے ان سے وہ اپنی ضرورت کی چیزیں،گڑ، چینی، چائے کی پتی، کپڑا، جوتے, حقے کا تمباکو وغیرہ خرید لیتے تھے- گویا داؤدخیل ان کا شاپنگ سںتر بھی تھا- ضرف داؤدخیل ھی نہیں، عیسی خیل، کمر مشانی ، موچھ اور میانوالی کا بھی اپنا اپنا ملحقہ کچہ تھا، ان شہروں میں بھی اس طرح کا لین دین ھوتا تھا- میانوالی میں کچے کے لوگ اتوار کے میلے پہ آتے تھے، کچھ لوگ اب بھی آتے ھیں- ان کی شا پنگ کا مرکز مین بازار میں پرانی سبزی منڈی کے سامنے خواجگان کی منیاری کی دکانیں تھیں، وھاں اب بھی ان کی ضرورت کی چیزیں ملتی ھیں- کچے کے لوگ بہت سادہ، مہمان نواز، مخلص اور بھولے بھالے ھوتے ھیں- میں نے بھولے بھالے کہا ھے، بیوقوف نہیں- بھولے بھالے اور بیوقوف کا فرق آپ نہ سمجھ سکیں تو آپ کی قسمت – ذھانت میں کچے کے لوگ کسی اور علاقے کے لوگوں سے کم نہیں — منورعلی ملک- 15 فروری2017
میرا میانوالی میراداؤدخیل —————– اس پوسٹ میں شامل پکچر داؤدخیل نہر کے پل کی ھے- مئی سے اکتوبر تک یہاں دن بھر یہی منطر برپا رھتا ھے- سارے شہر کے لڑکے اور نوجوان دن کے بارہ بجے سے لے کر شام تک نہرمیں نہاتے رھتے ھیں- صرف نہاتے ھی نہیں، نہرکے پل سے الٹی سیدھی چھلانگیں اور قلابازیاں لگا کر اپنے کمالات کا بھرہور مظاھرہ بھی کرتے رھتے ھیں- یہ منظر صرف داؤدخیل ھی نہیں، پورے ضلع میں نہر کے ھر پل پر دیکھنے میں آتا ھے- جب میں ٹھٹھی سکول میں ھیڈماسٹر تھا تو کچھ بچوں کے والدین میرے پاس یہ شکایت لے کر آئے کہ ان کے صاحبزادے سکول سے چھٹی کے بعد گھر جانے کی بجائے سارادن نہر میں نہاتے رھتے ھیں- میں نے سکول کے بچوں کے نہر میں نہانے پر سخت پابندی عائد کر دی اور شہر کے لوگوں سے کہا کہ اگر کوئی بچہ نہر پہ نہاتا نظر آئے تو مجھے بتا دیا کریں- بچوں سے میں نے کہہ دیا کہ جو نہر پہ نہائے گا اسے سخت سزا ملے گی- یہ پابندی اللہ کے فضل سے سو فی صد کامیاب رھی- مجھے کبھی کوئی بچہ نہر کے گرد پھرتا نظر نہ آیا-
بزرگوں کے نہانے کا ایک اپنا انداز تھا- اس انداز کی وجہ سے وہ بچوں کی طرح مل کر نہیں نہا سکتے تھے- ھوتا یہ تھا کہ جو صاحب نہانا چاھتے، وہ نہرکے پل سے دور کسی جگہ نہر کنارے کھڑے ھو کر پہلے ادھر ادھر دیکھ لیتےکہ کوئی دیکھ تو نہیں رھا- اگر کوئی دیکھ نہ رھا ھوتا تو کپڑے اتار کر کسی درخت کی اوٹ میں رکھ دیتےاورپھر نہر میں چھلانگ لگا دیتے- باھر نکلتے وقت بھی پہلے ادھر دیکھ لیتے- میدان صاف ھوتا تو باھر آکر کپڑے پہن لیتے تھے- منورعلی ملک- 16 فروری2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ——–
داؤدخیل کے پا نی کو ھم جنت کا پا نی کہا کرتے تھے- یہ صاف شفاف صحت بخش پانی بہت سی بیماریوں کا علاج بھی تھا ، تدارک بھی- خوشحال گھروں میں پانی کے لیے ھینڈ پمپ نصب تھے- جن سے ارد گرد کے گھروں میں رھنے والے لوگ بھی مستفید ھوتے تھے- شہر میں دس بارہ کنوئیں بھی تھے- کچھ لوگ گھریلو استعمال کے لیے ان کنوؤں سے پانی لاتے تھے- ان کنوؤں کے پانی سے پلی ھوئی تازہ سبزیاں بھی ملتی تھیں- بچپن میں ھم لوگ نہاتے بھی کنوئیں کے پانی سے تھے-
پھر ترقی کے نام پرھونے وا لی تباھی نے داؤدخیل کے پانی کو بھی زھر بنا دیا- شہر کے مشرق میں ریلوے لائین کے متوازی آبپاشی کے لیے نہر تھل پروجیکٹ ے ایک نالہ نکالا گیا- اس نالے سے پیدا ھونے والی سیم سے شہر میں پینے کا پانی کڑوا ھو گیا- ھینڈ پمپ اور کنوئیں زھر اگلنے لگے- پینے کے لیے لوگ نہر سے پانی لانے لگے- سرکار نے نہر کے کنارے ایک ادھورا سا واٹر سپلائی سسٹم بھی بنا دیا- مگر گھر گھر پانی کی دستیابی ایک خواب ھی رھی- یہ واٹر سپلائی سسٹم کبھی کبھار چلتا ھے تو اس سے چند گھروں کو تھوڑا بہت پانی مل جاتا ھے- اسی موضوع پر کچھ مزید باتیں انشاءاللہ کل ھوں گی ——- منورعلی ملک – 20 فروری2017
امیرا میانوالی / میرا داؤدخیل ———-
داؤدخیل میں پینے کے پانی کی نایابی کے باعث کچھ لوگ تو پینے کا پانی سکندرآباد سے لاتے ھیں، مگر زیادہ تر لوگ بلال مسجد کے نلکے کا پانی استعمال کرتے ھیں- یہ برف کی طرح ٹھنڈا، صاف شفاف، صحت بخش پانی نہر کے کنارے بلال مسجد کے ھینڈ پمپ کا پانی ھے، یہ وھی “جنت کا پانی“ ھے جو کسی زمانے میں داؤدخیل شہر کے ھر ھینڈ پمپ اور کنوئیں سے برآمد ھوتا تھا- سارے شہر کا پانی آلودہ ھو گیا مگر مسجد بلال کا پانی اب بھی وھی ھے- شاید اللہ کی یہ خصوصی عنایت اس نام کی وجہ سے ھے، جس نام سے یہ مسجد منسوب ھے- یہ وہ نام ھے جسے صحابہ کرام بھی سیدنا بلال (ھمارے سرداربلال) کہا کرتے تھے-
بلال مسجد کے بارے میں لوگ میری پوسٹس پر کمنٹس میں اکثر پوچھتے رھتے ھیں- اب یہ ذکر چھڑ ھی گیا ھے تو انشاءاللہ کل کی پوسٹ بلال مسجد کے بارے میں ھوگی- اس مسجد کے حوالے سے بہت کچھ تو میں پہلے ھی جانتا ھوں- پھر بھی داؤدخیل کے دوستوں سے گذارش ھے کہ اس مسجد کی پکچرز اور اس کے بارے میں معلومات مجھے آج ھی بھجوادیں- مسجد بلال داؤدخیل کا بہت قیمتی ، قابل فخر اثاثہ ھے-
اس لیے اس کا مفصل ذکر کرنا ضروری ھے- — منورعلی ملک — 21 فروری2017
فیس بک سے دوستی ———-
میرے اولیں فیس بک فرینڈز میں ایک اھم نام راحت امیر نیازی تری خیلوی ھے- راحت امیر تری خیلوی صاحب میانوالی کے اھل قلم کے محسن ھیں، کیونکہ یہ کسی ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر میانوالی کے شاعروں اور ادیبوں کی کتابیں شائع کرتے رھتے ھیں- اب تک میانوالی کے اھل قلم کی 150 کتابیں شائع کر چکے ھیں- اگر یہ نہ ھوتے تو میانوالی کے بہت سے تخلیق کار ھمیشہ گمنام ھی رھتے-
کتاب لکھنا آسان کام نہیں، مگر کتاب چھپوانا بھی اتنا ھی مشکل کام ھے- اکثر پبلشر گمنام لوگوں کی کتابیں چھاپنے سے گریز کرتے ھیں- اللہ بھلا کرے راحت امیر صاحب کا ، کہ ان کے دروازے سب کے لیے کھلے ھیں- راحت امیر کتابوں کی اشاعت کاکام اپنی زندگی کا مشن سمجھتے ھیں- بتا رھے تھے کہ اب تک سات سو کتابیں شائع کر چکے ھیں- پہلے ان کے ادارے کا نام “صدق رنگ پبلیکیشنز“ تھا- اب اس ادارے کو اپنے صاحبزادے اویس کے نام سے منسوب کردیا ھے- راحت صاحب ایک ماھوار ادبی جریدے نوید صبح کے ایڈیٹر بھی ھیں-
راحت امیر نیازی صاحب بہت عرصہ سے ملتان میں مقیم ھیں- چندروز قبل میانوالی میں مجھ سے ملنے کے لیے تشریف لائے- ان کے دوست نامور نعت خواں اور نعت کے شاعر حاجی ظفراقبال قادری بھی ان کے ھمراہ تھے- ظفر اقبال قادری کے والد محترم میرے بہت پیارے دوست ھیں، اس لیے ظفر میرے بہت پیارے بھتیجے بھی ھیں- راحت امیر صاحب نے اپنی شائع کی ھوئی بہت سی کتابیں اور اپنے رسالے کے دو شمارے بھی مجھے عنایت کیے- ان سے ملاقات ایک یادگار ملاقات تھی- اللہ انہیں سلامت رکھے- ایسے مخلص لوگ آج کل بہت کم ملتے ھیں- ——- منورعلی ملک – 21 فروری2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ———
میانوالی سے عیسی خیل جاتے ھوئے، داؤدخیل بس سٹاپ سے ذرا آگے سڑک کی بائیں طرف نہر کے کنارے یہ مسجد آنے جانے والوں کی توجہ کا مرکز بنتی ھے- بلال مسجد کے نام سے موسوم یہ چھوٹی سی مسجد حسن تعمیر کا ایک ایسا شاندار نمونہ ھے جسے دیکھنے کے لیے قدم بے اختیار رک جاتے ھیں- سکندرآباد کی فیکٹریز کا دورہ کرنے کے لیے آتے جاتے غیر ملکی مہمان بھی اس کی پکچرز اپنے کیمروں اور موبائیل فونز میں محفوظ کر کے اپنے ھمراہ لے جاتے ھیں- اس لیے یہ کہنا مبالغہ نہ ھو گا کہ پکچرزکے وسیلے سے بلال مسجد دنیا بھر میں متعارف ھو چکی ھے- اس مسجد کی تعمیر کا سہرا داؤدخیل کے ان نوجوانوں کے سر ھے، جو ھر شام سڑک کے دائیں کنارے والی بال کھیلا کرتے تھے- والی بال کھیلنا داؤدخیل کے نوجوانوں کا بہت پرانا مشغلہ ھے- ھمارے بچپن میں بھی داؤدخیل میں دو چار جگہ والی بال کھیلا جاتا تھا- سب سے مضبوط ٹیم محلہ لمے خیل کی تھی- یہ ٹیم ھر شام موجودہ گرلز ھائی سکول کے صحن میں دوسرے محلوں کی ٹیموں سے میچ کھیلا کرتی تھی- شداخان لمے خیل، مظفرعرف مچھر سنار، باڈا سنار اور محمد خان عرف خانی لمے خیل اس ٹیم کے نمایاں کھلاڑی تھے- داؤدخیل کی معروف سیاسی اور سماجی شخصیت عبدالغفار خان نیازی کے والد محترم بھی والی بال کے بہت اچھے کھلاڑی تھے- ھمارے استاد محترم ماسٹر رب نواز خان لمے خیل دائیں بازو سے جوانی ھی میں محروم ھو گئے تھے، مگر ایک ھاتھ سے بھی والی بال کھیلنے سے باز نہ آئے- وہ بھی بہت زبردست کھلاڑی تھے- یہ کہنا غلط نہ ھوگا کہ والی بال لمے خیلوں کا قومی کھیل تھا- نسل در نسل چلتا ھؤا یہ شوق آج بھی برقرار ھے- سکول کی چاردیواری بن گئی تو وھاں کھیلنا ممکن نہ رھا٠ اس لیے شہر سے باھر سڑک کےکنارے کھیل کا میدان بنا لیا گیا، اسی میدان کے عین سامنے سڑک کی بائیں جانب مسجد بلال تعمیرھوئی- تعمیر کی وجہ اور باقی داستان انشاءاللہ کل بتاؤں گا-
Picture sent by Zia Niazi , Daudkhell.
— منورعلی ملک – 22 فروری2017
میانوالی / میراداؤدخیل ——————–
سڑک کے کنارے والی بال کھیلنے والے نوجوان صرف کھلاڑی ھی نہیں، پکے نمازی بھی تھے- کھیل عصر سے مغرب تک جاری رھتا- عصر اور مغرب کی نمازیں ادا کرنے کے لیے انہوں نے نہر کے کنارے ایک صاف جگہ منتخب کر لی- پھر آپس میں کچھ رقم جمع کرکے مسجد کی بنیاد رکھ دی اور اللہ پر توکل کر کے وھاں نمازیں ادا کرنے لگے- مسجد کا نام بلال مسجد تجویز کر کے وھاں اس نام کی تختی بھی لگا دی –
اللہ کو ان کی یہ کاوش پسند آگئی- ادھر سے گذرنے والی گاڑیوں کے ڈرائیور اور مسافر دل کھول کر اس مسجد کی تعمیر میں تعاون کرنے لگے- والی بال ٹیم کے کھلاڑی بھی حسب توفیق ماھانہ چندہ دیتے رھے- یوں جلد ھی اتنی رقم ھوگئی کہ ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر ھو سکتی تھی- مسجد کی تعمیر کے لیے داؤدخیل کے مقامی کاریگروں کے علاوہ ماڑی انڈس کے مشہور و معروف مسجد سازوں کی خدمات بھی حاصل کر لی گئیں-
1985/86 میں اللہ کے فضل سے یہ مسجد مکمل ھوئی تو لوگ حسن تعمیر کا یہ خوبصورت نمونہ دیکھ کر حیران رہ گئے- جب اس علاقے میں کچھ مکانات تعمیر ھوئے تو والی بال کا گراؤنڈ یہاں سے کچھ فاصلےپر منتقل ھوگیا- مسجد کی دیکھ بھال نوجوانوں کی ایک کمیٹی کرتی ھے-
شہر کے اکثر لوگ پینے کا پانی بلال مسجد ھی کے نلکے ( ھینڈ پمپ) سے لے جاتے ھیں- اس پوسٹ کے ساتھ پکچر میں اکثر وھی لوگ ھیں جو بلال مسجد سے پانی لینے آتے ھیں- اللہ کرے خیر کا یہ وسیلہ قیامت تک قائم رھے ——– منورعلی ملک – 23 فروری2017
میرا میانوالی
وگا
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ———
1950- 1960 کے دوران پاکستان صنعتی ترقیاتی کارپوریشن (PIDC) نے داؤدخیل میں چار کارخانے قائم کیے- کھاد، سیمنٹ، رنگ سازی اور پنسلین کے ان کارخانوں کا قیام ایک بہت بڑا انقلاب تھا- اس انقلاب سے پہلے داؤدخیل ایک چھوٹا سا، بہت غریب سا گاؤں تھا- انقلاب کے بعد داؤدخیل ایک اچھا خاصا خوشحال شہر بن گیا- ھر انقلاب کی طرح اس انقلاب سے کچھ فائدے بھی ھوئے، نقصانات بھی-
کارخانوں کے قیام کا ایک فائدہ تو یہ ھؤا کہ جن لوگوں کی آبائی زمینوں پر کارخانے قائم ھوئے، انہیں اچھی خاصی نقد رقم مل گئی- یہ رقم اگرچہ زمینوں کی اصل قیمت سے کم تھی، مگر اس سے پہلے تو ان ویران زمینوں سے ایک روپے کی آمدنی بھی نہیں ھوتی تھی- نقد پیسوں سے بہت لوگوں نے کاروبار شروع کردیا-
دوسرا اھم فائدہ یہ ھؤا کہ یہاں کے بہت سے بے روزگار نوجوانوں کو ان کی اھلیت کے مطابق ملازمتیں مل گئیں- تقریبا ھر گھر کا ایک آدھ آدمی کسی نہ کسی فیکٹری میں ملازم ھوگیا- یوں داؤدخیل کے لوگوں کی مالی حالت پہلے سے بہت بہتر ھوگئی-
کارخانوں کے ملازمین کے لیے ھاؤسنگ کالونی اسکندرآباد کے نام سے ایک اچھا خاصا شہر آباد ھو گیا- پاکستان کے ھر علاقے سے آئے ھوئے لوگ یہاں مل جل کر رھنے لگے تو ایک نئی معاشرت وجود میں آئی- زبان ‘ لبا س اور رھن سہن میں بہت سی تبدیلیاں آگئیں- راولپنڈی اور اسلام آباد کی طرح، داؤدخیل اور سکندرآباد بھی دو جڑواں شہر بن گئے- بہت سی روایات اور رسم و رواج تبدیل ھوگئے- یہ داستان ابھی آگے چلے گی- انشاءاللہ —– منورعلی ملک 24 فروری2017
میرا میانوالی
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل —————– PIDC ایک نیم سرکاری ادارہ تھا، ااس لیے اس کے زیرانتظام تمام اداروں میں حکومت کا عمل دخل بہت زیادہ تھا- ھر حکومت نے داؤدخیل کے کارخانوں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا- صدر ایوب خان کے دور میں داؤدخیل کے کارخانوں کی لیبر یونین نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ھڑتال کی تو PIDC کے چیرمین / گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان نے تمام کارکنوں کو ملازمت سے بر طرف کرکے ان کی جگہ اپنے کالاباغ کے لوگ بھرتی کر لیے- یہ غیر تربیت یافتہ لوگ کام تو نہیں کر سکتے تھے، بس حاضری لگا کر تنخواہ لیتے رھے- فیکٹریزکاکام انجینیئر اپنی نوکری بچانے کے لیے خود ھی چلاتے رھے- بعد میں عدالت نے برطرف ملازمین کو بحال کردیا، مگر کالاباغ کے بھرتی شدہ لوگوں کو بھی حکومت نے برقرار رکھا- یوں فیکٹریز کو مقررہ تعداد سے دوگنا ملازمین کامالی بوجھ برداشت کرنا پڑا جس کے نتیجے میں فیکٹریز کا منافع خسارے میں تبدیل ھوتا رھا-
بھٹو صاحب اپنے کارکنوں پر بہت مہربان تھے- ان کے دور میں بھی بہت سے لوگ ان فیکٹریز میں بھرتی ھوئے- یہ لوگ بھی صرف حاضری لگا کر تنخواہ ھی وصول کرتے رھے- بھٹو صاحب کے دور میں ایک کمال یہ بھی ھؤا کہ 1977 کے الیکشن میں ضلع میانوالی کے حلقہ NA-71 میں ان فیکٹریز کے انجینیئر صاحبان کوپریزائیڈنگ افسر لگا دیا گیا- ایکشن کا نتیجہ آپ خود سمجھ لیں- یہ کارنامہ اس حلقے کی سیاسی قیادت کی ایجاد تھا-
Picture ! Courtesy 786mianwali.com
——– داؤدخیل کی فیکٹریز پر سیاسی ظلم و ستم کی عبرت ناک داستان کی اگلی قسط انشاءاللہ کل منظرعام پہ لاؤں گا ——- منورعلی ملک – 25 فروری2017
میرا میانوالی / میراداؤدخیل ———-
یہ پکچر داؤدخیل / سکندرآباد کی پنسلین فیکٹری کی ھے- اب اس فیکٹری کا نام ونشان بھی باقی نہیں رھا- عمارت کی اینٹیں بھی بک گئیں- موجودہ حکومت نے اپنے پچھلے دور میں اس فیکٹری کو ایک سرمایہ دار کے ھاتھ فروخت کردیا- سالہاسال کی بد انتظامی کے باعث یہ فیکٹری مسلسل خسارے میں جارھی تھی- بینکوں سے لیا ھؤا قرضہ واپس کرنا تو کجا، مزدوروں کو کئی ماہ سے تنخواہ بھی نہیں مل رھی تھی- کام مکمل طور پر بند تھا- سرمایہ دار نے یہ فیکٹری چلانے کے لیے نہیں، پیسہ کمانے کے لیے خرید لی- پہلے مشینری بیچ دی، پھر عمارت گرا کر ملبہ فروخت کر دیا- آخر میں سیکڑوں کنال پر مشتمل رقبہ پلاٹس کی شکل میں ٹھکانے لگا دیا- سناھے کچھ ورکرز کو ان کی کئی ماہ کی تنخواہ کی بجائے پلاٹ دے دیے گئے- اس ساری سودے بازی میں فائدہ صرف سرمایہ دار کو ھؤا- اس نے ملبے کے بھاؤ یہ فیکٹری خریدی اور مکمل فیکٹری کی قیمت پر بیچ کراپنے خرچ سے کئی گنا زیادہ منافع کمالیا- دوسال پہلے میں ادھر سے گذرا تو پنسلین فیکٹری کی جگہ ایک چٹیل میدان دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے- یہ توسکندرآباد کی چاروں فیکٹریز میں سب سے خوبصورت اور صاف ستھری فیکٹری تھی- اس کی خوبصورت سرخ اینٹوں کی عمارت پر نظرپڑتے ھی دل خوش ھو جاتا تھا- بہت خوبصورت جگہ تھی- اس فیکٹری کی کمائی سے داؤدخیل کے بہت سے گھروں کے چولھے جلتے تھے- ان گھروں کے سینکڑوں بچوں نے اسی فیکٹری سے ھونے والی آمدنی سے تعلیم اور روزی کمانے کی اھلیت حاصل کی- بہت سے گھروں کا مقدر سنوارنے کے بعد یہ فیکٹری اھل اقتدار کی سیاست کا شکار ھو کر روئے زمین سے یوں مٹ گئی کہ ایک اینٹ بھی باقی نہ بچی- میں کافی دیر وھاں رک کر آنسو بہاتا رھا- ان دوستوں کو یاد کرتا رھا جو یہاں ملازم تھے- موبائیل فون سے اس ویرانے کی کچھ پکچرز بھی بنائیں- یہ پوسٹ لکھے وقت بھی دل میں درد سا محسوس ھورھا ھے- ایک ھنستی بستی دنیا کو اجڑا دیکھ کر جذبات پر قابو برقرار رکھنا آسان نہیں ھوتا – تباھی کا یہ منظر بیان کرنے کے لیے الفاظ بھی ساتھ نہیں دے رھے——- منورعلی ملک –26 فروری2017
میر ا میانوالی / میرا داؤدخیل —
سکندرآباد کا ذکر کرتے ھوئے اپنے دو دوست یاد آگئے، جن کی وجہ سے ھمارا سکندرآباد سے گہرا رشتہ اب بھی سلامت ھے- ان دوستوں میں سے ایک ڈاکٹرمحمدآصف مغل ھیں-
ان کے تعارف میں اور کچھ بھی نہ کہوں تولوگ پھر بھی انہیں بہت اچھی طرح جانتے ھیں- داؤدخٰیل ، بلکہ ضلع میانوالی کے ادبی اور سماجی حلقوں میں یکساں مقبول، یاروں کے یار، ایسی Three-in-One شخصیت کم ھی دیکھنے میں آتی ھے- لاھور کی باغ وبہار طبیعت میں میانوالی کے خلوص کی میٹھی گلابی خوشبو کی ایسی کوئی اور مثال میں نے نہیں دیکھی-
ڈاکٹر صاحب بہت اچھے شاعر بھی ھیں معالج بھی- ان کا قلم جسمانی علاج کے نسخے بھی لکھتا ھے- دلوں کے روگ کے لیے خوش ذائقہ، خوشبودار اشعار بھی- ان کے کچھ اشعارPain killer کاکام کرتے ھیں ، کچھ Tonic کا – ڈاکٹر آصف کی شاعری کے بارے میں اپنی مفصل رائے ان کی شاعری کے اولیں مجموعے “ اک تشنہ سمندر“ میں لکھ چکا ھوں-
ڈاکٹر صاحب کی شاعری کی طرح ان کا شعرپڑھنے کا انداز بھی منفرد ھے- آواز کی گھن گرج اور لہجے کے تنوع سے سماں باندھ دیتے ھیں- ان کا انداز علامہ رشید ترابی اور زیڈاے بخاری کی یاد تازہ کردیتاھے-
ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ ڈاکٹرلبنی آصف شاعرہ بھی ھیں، بہت اچھی نثرنگار بھی- میانوالی میں خواتین کی ادبی تنظیم “ارباب سخن“ کی بانی اور سربراہ بھی ھیں-
ڈاکٹر آصف مغل کی طبی خدمات سے ھم بھی کبھی کبھی فون کے وسیلے سے استفادہ کرتے رھتے ھیں- ماشااللہ بہت قابل ڈاکٹر ھیں- فیس بک پر بھی ان سے اکثرملاقات ھوتی رھتی ھے- میری کاوشوں کی بہت حوصلہ افزائی کرتے ھیں-
سکندرآباد میں اپنے دوسرے دوست کاذکر انشاءاللہ کل کروں گا – منورعلی ملک –27 فروری2017
میرا میانوالی
شعر میرا ———
آرا ئش ——- یونیورسٹی آف انجینیئرنگ ٹیکسلا سے ملک عامر سہیل — 27 فروری2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ———-
ا ٹھ کر سلام کیجیے، اور ان کی دعائیں لیجیے- یہ ھیں میرےاستاد محترم ، داؤدخیل کے سر گل خان نیازی- اللہ انہیں سلامت رکھے، میرے بچپن کے ٹیچرز میں سے اب صرف یہی اس دنیا میں موجود ھیں-
سرگل خان گورنمنٹ ھائی سکول داؤدخیل میں ھمارے انگلش ٹیچر تھے- میں اس وقت چھٹی جماعت (Class Six) میں پڑھتا تھا- بہت باکمال ٹیچر ھیں- آپ یہ سن کر حیران ھوں گے کہ سرگل خان اب بھی بچوں کو پڑھارھے ھیں- داؤدخیل سکول میں ان کا تقرر عارضی تھا- کچھ عرصہ بعد انہیں سکندرآباد کی فرٹیلائیزر فیکٹری کی انتظامیہ میں مستقل ملازمت مل گئی٠ رزق کی خاطر وہ ملازمت تو کرتے رھے ، مگر عشق تدریس کے کام سے تھا، اس لیے فیکٹری سے چھٹی کے بعد اپنے گھر پہ روزانہ ٹیچنگ کاکام بھی کرتے رھے- اس لیے ماسٹر گل خان کہلاتے تھے- مالزمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد یہ شغل آج بھی جاری ھے-
تقریبا دوسال پہلے کی بات ھے، میں انہیں سلام کرنے کے لیے سکندرآباد ان کے گھر گیا، خاصی دیر گفتگو اور چائے وغیرہ کا دور چلتا رھا ، میں رخصت ھونے لگا تو سر بھی میرے ساتھ گھر سے باھر آگئے – مین نے کہا “سر، آپ یہ زحمت کیوں گوارا فرمارھے ھیں،؟
سرگل خان ھنس کر بولے “ یار، اس وقت میری ایک کلاس ھوتی ھے- پڑھانے جا رھا ھوں“ –
انگریزی زبان سے میرے عشق کا آغاز بچپن میں سر گل خان کا پڑھانے کا انداز دیکھ کر ھؤا تھا- یہ عشق اتنا منہ زور تھا کہ اس نے مجھے بھی انگلش ٹیچر ھی بنا دیا-
سکندرآباد جب بھی جاتا ھوں سرگل خان کو سلام کر لیتا ھوں- بہت پیار کرتے ھیں مجھ سے- بہت جان دار قہقہہ لگاتے ھیں- کہتے ھیں یار تم بہت آگے نکل گئے ھو – میں کہتا ھوں، سرآخر سٹوڈنٹ کس کا ھوں -؟ بہت خوش ھوتے ھیں یہ سن کر- اللہ بچوں جیسی اس معصوم شخصیت کو سلامت رکھے، اور ھم دونوں مل کر یونہی قہقہے لگاتے رھیں-
سر گل خان کے صاحبزادے اکرم نیازی معروف صحافی ھیں٠ سر سے میری ملاقاتیں انہی کی وساطت سے ھوتی ھیں——— منورعلی ملک —- 28 فروری2017