MERA MIANWALI- FEBRUARY-2021

MERA MIANWALI- FEBRUARY-2021

منورعلی ملک کے فروری 2021 کےفیس بک پرخطوط

میرا میانوالی

کالاباغ کا ذکر مختلف حوالوں سے پوسٹس میں ہوتا رہتا ہے، کیونکہ ہم داؤدخیل کے لوگوں کو بہت سی ضروریات زندگی یہی شہر فراہم کرتا رہا ہے – کپڑا ، جوتے ، مٹی اور جست کے برتن، لوہے کا سامان ، چھریاں ، کلہاڑیاں ، کسیاں (ہوولے) کڑاہیاں ، شُپَیتے (کڑاہی میں حلوہ بنانے کا مخصوص چمچ ، جسے اردو میں کفگیر کہتے ہیں ) ، لوہے کے تین ٹانگوں والے چولہے جنہیں ہم “چُلھ“ کہتے تھے ، کھجور کے پتوں کے بنے ہوئے مصلے ، دستی پنکھے، میک اپ کا سستا سامان ، اس قسم کی روزمرہ استعمال کی بے شمار چیزیں خریدنے کے لیے لوگ کالا باغ جایا کرتے تھے –
داؤدخیل سے کالاباغ کا فاصلہ تقریبا نودس میل بنتا ہے – اکثر لوگ صبح لاہور سے آنے والی ٹرین پر ماڑی انڈس جاکر وہاں سے پُل پیدل کراس کرکے کالاباغ شہر پہنچتے تھے – کچھ لوگ بنوں کو جانے والی چھوٹی ٹرین پر بیٹھ کر پُل کے پار جاتے تھے ، مگر یہ صرف تکلف تھا ، پُل سے پیدل گذرنے کا ایک الگ لطف ہے –
مغرب میں مندہ خیل اور جنوب میں داؤدخیل تک کے نوجوان سائیکلوں پر سوار ہو کر کالاباغ جاتے تھے – جوانی میں ہم تو ایک آدھ بار داؤدخیل سے پیدل بھی کالاباغ گئے ، اور وہاں اندھیری گلی میں محمد امین کی دکان سے مشہور و معروف دودھی والا حلوہ کھا کر پیدل ہی واپس داؤدخیل آئے – ہمارا قافلہ تین افراد پر مشتمل تھا ، ہمارے بہت پیارے دوست ًماسٹر غلام مرتضی خان ہمارے قافلہ سالار تھے – میں اور ڈرائنگ ماسٹر غلام سرورخان نیازی (سرورخٰیل) قافلے کے ارکان تھے – ہم اس قسم کے ایڈونچر (پنگے) اکثر کرتے رہتے تھے –
کالاباغ ضلع میانوالی کا قدیم ترین شہر ہے – ہندوؤں کی تین چار ہزارسال پرانی کتابوں میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے – اس زمانے میں اس شہرکا نام “کارا پاتھا“ تھا ، جو بعد میں بگڑ کر کالاباغ بن گیا – کچھ لوگ کہتے ہیں نواب صاحب نے یہاں آم کا باغ لگوایا تھا ، آم کے گہرے سبز رنگ کے پتے دور سے کالے نظر آتے تھے – اس لیے یہ شہر کالاباغ کہلانے لگا – واللہ اعلم بالصواب –
ہم داؤدخیل والے تو کالاباغ کو “باغیں“ کہتے تھے – وہاں جانے کا پروگرام بتا تے ہوئے لوگ کہا کرتے تھے “ اج باغیں وینے پئے ہاں“-
اب تو ہر گاؤں شہر بن گیا ہے ، کالاباغ جانے کی ضرورت بہت کم پیش آتی ہے ، مگر وہاں جا کر گھومنے پھرنے کی ایک اپنی چَس تھی –
—————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-  1 فروری 2021

میرا میانوالی

کچھ مصروفیات کی وجہ سے آج پوسٹ نہ لکھ سکا۔ اپنا یہ پرانا شعر آپ کی نذر:

اداس ہیں درودیوار تو خطا کس کی ؟
تمہارے کہنے پہ میں نے وہ شہر چھوڑا تھا

 

بشکریہ-منورعلی ملک-2فروری 2021

میرا میانوالی

کالاباغ صدیوں پرانا تجارتی شہر ہے – جب دریائے سندھ پر پُل اور ڈیم نہیں بنے تھے تو یہ دریا کشمیر سے کراچی تک کشتیوں کا موٹروے ہوا کرتا تھا – کشمیر سے عمارتی لکڑی ، کشمیری شالیں ، سیب اور ڈرائی فروٹ کراچی تک جاتا تھا — کشتیوں کے اس موٹروے پر کالاباغ ایک اہم سٹاپ تھا – یہاں سے نمک ، مٹی کے برتن ، جوتے ، لوہے کا گھریلو سامان ، کھجور کی چٹائیاں ، مصلے ، دستی پنکھے وغیرہ شمال میں کشمیر تک اور جنوب میں کراچی تک جاتے تھے – کشتیوں کے ٹرانسپورٹر موہانڑاں قبیلے کے لوگ تھے ، یہ کشتیاں بناتے بھی تھے – کالاباغ میں موہانڑاں قبیلے کے بہت سے لوگ رہتے تھے –
ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ کالاباغ شہر میں تو تجارت پر ہندوؤں کا تسلط تھا ، مگر دریا کے راستے کشمیر اور سندھ تک تجارت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی – قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل پراچہ قبیلے کے چند خاندان مکھڈ سے ہجرت کر کے کالاباغ میں منتقل ہوئے تو اندرون شہر تجارت میں مسلمانوں کا عمل دخل شروع ہؤا – پراچہ قبیلہ تجارت کے میدان میں خداداد صلاحیت کا حامل ہے – کراچی کی صنعت و تجارت میں بھی پراچوں کا کردار بہت نمایاں ہے – ہندوؤں کے جانے کے بعد کالاباغ شہر میں پراچہ فیملی کے لوگ تجارت کی روح رواں بن گئے –
کالاباغ کی تاریخ اور تجارت کے بارے میں وسیع معلومات مجھے بہت پیارے دوست مرحوم کرم اللہ پراچہ سے حاصل ہوئیں – بھائی کرم اللہ پراچہ خود تو تعلیم کے شعبے سے وابستہ تھے ، ان کا باقی تمام خاندان تجارت پیشہ تھا – لیور برادرز کی مصنوعات ، لکس ، رکسونا ، لائف بوائے ، سن لائیٹ صابن ، ڈالڈا گھی اور کئی دوسری ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات کی ایجنسیاں ان کے پاس تھیں – تحصیل عیسی خٰیل مٰیں ان مصنوعات کےتقسیم کار ( ڈسٹری بیوٹر) امان اللہ اینڈ سنز کرم اللہ صاحب کے والد اور بھائیوں کی فرم تھی –
کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کے لیے امن اہم شرط ہے – تقریبا 40 سال پہلے مقامی سیاست میں طوفان بپا ہوا تو کالاباغ سے بہت سے تجارت پیشہ لوگ ڈی جی خان، فیصل آباد اور دوسرے شہروں میں منتقل ہوگئے – ان میں کرم اللہ صاحب کے بھائی ثناءاللہ اور حلوے والے محمد امین بھی شامل تھے –
اب وہ پہلی صورت حال تو باقی نہیں رہی تاہم کالاباغ اب بھی خٹک بیلٹ اور نواحی دیہات کا کاروباری مرکز ہے –
—————— رہے نام اللہ کا ——–
میانوالی
کالاباغ سے اپنا تعارف اس زمانے میں ہؤا جب میں نے ابھی سکول میں داخلہ نہیں لیا تھا – والد محترم ملک محمداکبرعلی حلقہ کالاباغ کے ایجوکیشن آفیسر (AEO) تھے –
جہاں آج کل کالاباغ کا بس سٹینڈ ہے وہاں ان کا آفس اور چند مقامی لوگوں کے گھر تھے – سڑک کے جنوبی کنارے پر چار سرکاری گھر تھے – ان میں سے پہلا محکمہ معدنیات کے افسر کا تھا ، جو کالاباغ میں نمک کی کانوں کا نظام چلاتے تھے – ان کا عہدہ تو سینیئرمائیننگ انجینیئر (Senior Mining Engineer) کا تھا ، مگر لوگ انہیں لُون (نمک) کے حوالے سے “لُونی صاحب“ کہتے تھے – دلچسپ بات یہ ہے کہ انگلش میں لُونی loony پاگل کو کہتے ہیں – مگر اس لفظ کے یہ معنی نہ عوام کو معلوم تھے، نہ ہی صاحب کو ، اس لیئے لُونی صاحب کہنے پر کسی کو اعتراض نہ تھا –
لُونی صاحب کے ساتھ والے گھر میں ہم رہتے تھے – ہمارے گھر سے مشرق میں ملحقہ گھر کالاباغ ہائی سکول کے ہیڈماسٹر شیخ عبدالکریم صاحب کا تھا ، شیخ صاحب کا آبائی گھر لیہ میں تھا ، یہاں ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے – ان کے صاحبزادے سلیم اور فیروز مجھ سے دوتین سال بڑے تھے – ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی فیملی لیہ منتقل ہوگئی –
شیخ صاحب کے گھر سے ملحق چوتھے گھر میں کالاباغ ہائی سکول کے سینیئر ٹیچر موسی خان صاحب مقیم تھے – ماسٹر موسی خان صاحب موچھ کے رہنے والے تھے –
ہم تقریبا ایک سال کالاباغ میں رہے – اس وقت میں یہ سمجھتا تھا کہ کالاباغ بس اتنا ہی ہے – یہ پتہ نہ تھا کہ اصل شہر تو ریلوے لائین کے پار ہے –
تین چار سال کی عمر میں انسان بس اتنا کچھ ہی یاد رکھ سکتا ہے —- اکثر لوگ میری قوت حافظہ (یادداشت) پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں – اصل بات یہ ہے کہ سچ ہمیشہ یاد رہتا ہے – جھوٹ بھول جاتا ہے – میں نے جو کچھ دیکھا سنا پوسٹ میں وہی لکھ دیتا ہوں – اپنے پاس سے اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں کرتا – مثال کے طور پر یہ دیکھیئے کہ آج کالاباغ کے بارے میں صرف اتنا لکھا ہے جتنا تین چار سال کی عمر میں دیکھ اور سمجھ سکتا تھا —– واللہ اعلم بالصواب –
———————– رہے نام اللہ کا –بشکریہ-منورعلی ملک-  4 فروری ٢٠٢١–

میرا میانوالی

زندگی دُکھ اور سُکھ کا تسلسل ہے – یہ تسلسل ماہ و سال کا پابند نہیں – لیکن اللہ جانے کیوں کچھ ماہ و سال کے دوران دُکھ بارش کی طرح برسنے لگتے ہیں – سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک سال کو “عام الحزن“ (غم کا سال) قرار دیاتھا – یہ وہ سال تھا جب حضور کے جاں نثار مربی و سرپرست چچا جناب ابو طالب اور حضور کی اولیں اہلیہ محترمہ ام الموءمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا اس دنیا سے رخصت ہوگئے — ان مسلسل سانحات کی بنا پر سرکار نے اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال کہا –
کچھ اسی قسم کا سال 2020 بھی تھا – بے تحاشا اموات ہوئیں اس سال – دین ، علم ، ادب ، صحافت کی کئی بلند پایہ شخصیات کے علاوہ گلیوں محلوں گھروں اور شہروں سے کئی ایسے پیارے لوگ بھی دنیا سے اُٹھ گئے جن کے جانے سے کئی گھر ، گلیاں ، محلے اور شہر اُجڑ گئے – آپ سب لوگ جانتے ہیں ایسا ہی ایک سانحہ میری ذاتی زندگی میں بھی اس سال ہؤا – اس سانحے نے بہت کچھ بدل دیا –
بیوی ہو یا ماں ، باپ ، بہن ، بھائی ، شوہر ، بیٹی یا بیٹا ، اللہ کرے کِسے دا یار ناں وچھڑے –
2020 میں فیس بک کے News Feed والے پیج پر جب بھی نظر پڑی کسی نہ کسی بہت پیاری شخصیت کی موت کا اعلان دیکھ کر آنکھیں بھیگ گئیں – تنگ آکر میں نے New Feed دیکھنا ہی چھوڑ دیا – کچھ پتہ نہیں اس عرصے میں کیا کیا قیامتیں گذر گئیں – اللہ ہم سب کو ایسے سانحات سے محفوظ رکھے ، اور اگر کسی کے جانے کا اٹل فیصلہ ہوچکا تو اس کی مغفرت فرما کر اسے اپنی رحمت کی امان میں جگہ دے , اوراس کے اہل خانہ کو صبرجمیل عطا فرمائے –
ان شآءاللہ کوشش کروں گا کہ آئندہ News Feed بھی باقاعدہ دیکھتا رہوں –
————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-  5 فروری 2021

میرا میانوالی

باباجی (ہمارے والد محترم ملک محمد اکبرعلی) پشتو بہت روانی سے بول لیتے تھے – میں نے انہیں کبھی کسی پشتون سے اردو یا پنجابی میں بات کرتے نہیں دیکھا – پشتو پر عبور کی وجہ سے وہ حلقہ کالاباغ کے ایجوکیشن آفیسر کی حیثیت میں بہت مقبول و محترم رہے – اس حلقے کے خٹک بیلٹ میں بہت سے ٹیچرز اور بزرگوں سے ان کی دوستی تھی- یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شاید ہی کوئی افسر اس علاقے میں والدصاحب جتنا مقبول رہا ہو –
انگریز کی حکومت کی ایک پالیسی تھی کہ صوبہ کے پی میں تعین کے لیے پنجاب سے ان افسروں کو ترجیح دی جاتی تھی جو پشتو بول سکتے تھے – پٹھان ویسے بھی بہت دوست دار، مہمان نواز لوگ ہیں ، لیکن اگر آپ کو پشتو آتی ہو تو پھر آپ ان کے جگر ہیں – آپ کو خصوصی پروٹوکول ملے گا –
کبھی کبھی خیال آتا ہے کاش والد صاحب سے پشتو بھی سیکھ لیتا – اپنی سروس کے آخری دنوں میں یہ خواہش کچھ زیادہ شدت اختیار کر گئی -باباجی تو بہت عرصہ پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے , پروفیسر شاہ ولی خان خٹک سے بات کی توبہت خوش ہوئے ، وہ تو مائل بہ کرم تھے ، مگر مجھے وقت ہی نہ مل سکا – انگریزی ، اردو ، فارسی پر عبور اپنی جگہ ، پشتو میرے لیے ہمیشہ محبوب و مقدس رہے گی کہ یہ باباجی کی پسندیدہ زبان تھی –
———————- رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-  6 فروری 2021

میرا میانوالی

ایک دفعہ باباجی (والدمحترم) خٹک بیلٹ کے علاقہ چاپری ، کوٹکی ، ٹولہ مَنگَلی وغیرہ میں اپنے دوستوں سے ملنے کے لیے گئے تو مجھے بھی ساتھ لے گئے – میں اس وقت پانچویں کلاس کا سٹوڈنٹ تھا – والدصاحب اس وقت راولپنڈی ڈویژن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایجوکیشن تھے – خٹک بیلٹ میں ان کی دوستیاں اس زمانے میں قائم ہوئی تھیں جب وہ حلقہ کالاباغ کے ایجوکیشن آفیسر تھے – اب بہت عرصہ بعد وہاں جانے کا موقع ملا تھا –
عیسی خٰیل روڈ پر جلال پور سے شمال میں چار پانچ میل پیدل جانا پڑتا تھا – جلال پور سکول کے ہیڈماسٹر (مندہ خیل کے ماسٹر عبدالعزیز) نے ہمیں سائیکلیں فراہم کر دیں – ہم اس علاقے میں دودن رہے – پہلے دن ٹولہ مَنگَلی میں والدصاحب کے دوست افضل خان کے گھر جانا تھا –
شام ہونے کو تھی – افضل خان کے سالے نے بتایا کہ افضل خان تو چندسال پہلے فوت ہوگئے تھے – وہ ہمیں اپنے گھر لے گئے – افضل خان کی بیوی کو پتہ چلا تو وہ فورا وہاں پہنچیں – اپنے بھائی کو ہمارے کھانے کا بندوبست کرتے دیکھ کر بہت ناراض ہوئیں – بھائی سے کہنے لگیں “تم کون ہوتے ہو افضل خان کے مہمانوں کو کھانا کھلانے والے – افضل خان اس دنیا میں نہیں تو کیا ہوا ، اب میں افضل خان ہوں – افضل خان کے مہمان میرے بھائی ہیں – ان کا کھانا میں بناؤں گی “-
ان خاتون نے اسی وقت مرغی ذبح کرواکر بہت پرتکلف کھانا ہمارے لیئے بھجوا دیا – مہمان داری کے لحاظ سے پختون لوگ بے مثال ہیں – دودن اس علاقے میں قیام کے دوران ان لوگوں نے جس خلوص سے ہماری خدمت کی وہ ہمیشہ یاد رہے گا –
———————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-  8 فروری 2021

میرا میانوالی

ٹولہ مَنگَلی سے دوسرے دن صبح ہم کوٹکی بیرونی (کتکی بھی کہتے ہیں) پہنچے – یہاں ہمارے میزبان , باباجی کے دیرینہ دوست صوبیدار شمعون خان تھے – بہت باوقار ، خوش اخلاق بزرگ تھے – پختون روایات کے مطابق انہوں نے بھی مہمان نوازی کا حق خوب ادا کیا – والد صاحب اور ان کی دن بھر اور رات گئے تک گفتگو کا تو میں ایک لفظ بھی نہ سمجھ سکا ، کیونکہ تمام تر گفتگو پشتو میں ہوتی رہی – ان کے قہقہوں سے پتہ چلتا تھا کہ خاصی دلچسپ گفتگو ہورہی ہے –
میں اس وقت پانچویں کلاس کا سٹوڈنٹ تھا – اپنی عمر کے مطابق میری توجہ گفتگو کی بجائے کھانے پینے پر رہی – وہاں پہلی بار “ نَغَن“ بھی کھایا – نغن بہت لذیذ سادہ روٹی ہوتی ہے جو لسی میں آٹا گوندھ کر بنائی جاتی ہے – ڈبل روٹی کی طرح اندر سے پھولی ہوئی ہلکی پھلکی نرم روٹی ہوتی ہے –
وہاں کی ایک اور سپیشل خوراک پانچ دس سال پرانا گھی بھی ہوتا تھا – گائے کے مکھن کا بناہوا خالص دیسی گھی جست کے برتن (تمبالُو) میں سربمہر کرکے زمین میں دفن کر دیتے تھے – کہتے تھے اس طرح محفوظ کیا ہؤا گھی طاقت کا خزانہ ہوتا ہے – جتنا پرانا ہو اتنا بہتر ہوتا ہے – ہمیں دوپہر کے کھانے میں جو گھی دیا گیا وہ دس سال پرانا تھا – اس کا رنگ تقریبا سیاہ اور ذائقہ اچھا خاصا کڑوا تھا – مجھ سے تو دوچار نوالے سے زیادہ نہ کھایا گیا ، بزرگوں نے بڑے شوق سے کھایا – میں نے دیسی مرغی کے سالن اور تازہ گھی شکر پہ گذارہ کر لیا –
اگلی صبح ہم وہاں سے جلالپور تک صوبیدار شمعون خان کے گھوڑے پر سوار ہوکر گئے – والد صاحب گھوڑے کے بہت اچھے شہسوار تھے – صوبیدار صاحب کا ایک ملازم ہمیں بس پر سوار کروانے کے لیے ہمارے ساتھ تھا – صوبیدار صاحب نے ٹولے کے خربوزوں کی ایک بوری بھی گھوڑے پر رکھوادی تھی – ٹولے کا خربوزہ اس علاقے کی مشہور و معروف سوغات تھا – ہلکے زرد رنگ کے لمبوترے خربوزوں کی دلکش مہک اور شہد جیسا شیریں ذائقہ اپنی مثال آپ تھا – کمرے میں ایک خربوزہ پڑا ہوتا تو پورا کمرہ اس کی خوشبو سے مہک اٹھتا تھا – سچ پوچھیے تو الفاظ اس نعمت کی خوبیاں بیان کرنے سے قاصر ہیں ، جس نے کھایا ہو وہی جانتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے – ہمارے فیس بک کے ساتھی ماحی خان نے ایک دفعہ بتایا تھا کہ ان کے علاقے توحید آباد المعروف گندا میں یہ خربوزہ اب بھی کاشت ہوتا ہے – اب موسم آرہا ہے ، کسی دن چھاپہ ماریں گے –
———– رہے نام اللہ کا ——بشکریہ-منورعلی ملک-  9 فروری 2021

میرا میانوالی

اچھے لوگ ہر ادارے میں ہوتے ہیں – دنیا اتنی بری نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں –
میں نے انٹرمیڈئیٹ (FA) کا امتحان دینا تھا — اس زمانے میں شہریت (Civics)کے مضمون کا پریکٹیکل بھی ہوتا تھا ، جس کے لیے کسی عدالت کی کارروائی دیکھ کر یا جیل کا معائنہ کر کے رپورٹ تیار کرنی پڑتی تھی – پریکٹیکل امتحان میں اسی رپورٹ کے بارے میں زبانی سوالات پوچھے جاتے تھے – (کیا زبردست نظام تعلیم دے گیا تھا ہمیں انگریز کم بخت — !!!!)
پریکٹیکل کی تیاری کے لیے میں نے کسی عدالت میں مقدمے کی کارروائی دیکھ کر رپورٹ تیار کرنے کا فیصلہ کیا – میانوالی کی ضلع کچہری میں آکر ADM صاحب کو درخواست دی – اس زمانے میں تمام مجسٹریٹوں کا افسراعلی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہوتا تھا ، جسے ADM کہتے تھے –
میری درخواست پر صاحب نے یہ لکھ کر اجازت دے دی
May watch the proceedings in any open court.
یہ اجازت نامہ لے کر میں ایک مجسٹریٹ صاحب کے کمرہء عدالت میں حاضر ہوا – مجسٹریٹ صاحب کا نام تھا خواجہ محمداقبال – انہوں نے میری درخواست پر ایک نظر ڈال کر میرے لیئے کرسی منگوائی اور مجھے اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا –
عدالت کی کارروائی کا آغاز ہوا – ملزم ، مدعی ، وکیل استغاثہ ، وکیل صفائی اور گواہ حاضر ہوئے – اس کیس میں وکیل استغاثہ میانوالی کے مشہورقانون دان مرحوم میاں دوست محمد تھے – میاں صاحب داؤدخیل سکول میں ہمارے سائنس ٹیچر رہ چکے تھے – مجھے جج کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر مسکرائے – میں نے اُٹھ کر سلام کیا – مجسٹریٹ صاحب نے کہا آپ انہیں جانتے ہیں – ؟ میں نے بتایا کہ یہ میرے سابق ٹیچر ہیں –
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو میں بیانات لکھنے لگا ، مجسٹریٹ صاحب نے کہا “بیٹا ، آپ کو کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں – میرا ریڈر کارروائی کا ایک ایک لفظ لکھ رہا ہے – آج کی سماعت مکمل ہونے کے بعد ہم آپ کو کارروائی کی ایک کاپی دے دیں گے ، اس سے آپ رپورٹ تیار کر لیں – فی الحال آپ صرف سماعت کے طریقہ کار کو سمجھنے کی کوشش کریں –
خواجہ محمداقبال صاحب یہاں سے ٹرانسفر ہو کر گجرات چلے گئے – کچھ عرصہ بعد سنا کہ راہ چلتے کسی بدبخت انسان نے چاقو مار کر انہیں قتل کر دیا –
جب بھی یاد آتے ہیں ان کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے – بلاشبہ ایک عظیم انسان تھے –
گذر گیا وہ زمانہ ، چلے گئے وہ لوگ
——————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-  11 فروری 2021

میرا میانوالی

میرا میانوالی

رب کریم آپ سب کو شاد و آباد رکھے کل میری سالگرہ کے حوالے سے آپ کا اظہار محبت اور دعائیں زندگی کے سفر میں میرا زاد راہ ہیں – محبت انسان کو زندہ رہنے کا حوصلہ دیتی ہے – یہ احساس بہت ہمت افزا ہے کہ نفسانفسی کے اس دور میں بھی لوگ محبت کرتے ہیں ، دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں – فیس بک کو تو میں اپنی فیملی سمجھتا ہوں – جب سے اس میدان میں وارد ہؤا ، اتنی بے حساب محبت اور احترام ملا کہ بیان نہیں کر سکتا – کئی مشکلیں اللہ کے فضل و کرم سے یوں آسان ہوئیں کہ کسی شاعر کا یہ بے مثال شعر ذہن میں گونج اٹھا
یہ کون اپنی دعاؤں میں یاد رکھتا ہے
میں ڈوبتا ہوں تو دریا اُچھال دیتا ہے
کل کی پوسٹ پر دعائیہ کمنٹس کے علاوہ موبائیل فون میسینجر اور واٹس ایپ پر بھی بے شمار لوگوں نے دعائیں ارسال کیں –
چکوال سے وسیم سبطین ، میانوالی سے حاجی اکرام اللہ خان، اظہر نیازی ، ایڈووکیٹ اقبال احمد خان ‘ شفیع اللہ خان اور کچھ دوسرے ساتھیوں نے فیس بک پر پوسٹس لکھ کر محبت کا اظہار کیا – سینیئر صحافی زبیر ہاشمی نے واٹس ایپ پہ پوسٹ لکھی –
اللہ کریم آپ سب کو بے حساب عزت اور نعمتوں سے مالا مال کردے ، اور ہماری سب مشکلات آسان فرمائے – بہت شکریہ –
—————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-  13 فروری 2021

میرا میانوالی—-

اللہ معاف کرے ، پرسوں رات کا زلزلہ خاصا شدید تھا – اللہ کا کرم ہوا کہ جانی مالی نقصان نہ ہوا –

اکتوبر 2005 کا زلزلہ ایسا تھا کہ اس کے تصور سے بھی انسان لرز جاتا ہے – وہ زلزلہ جنوبی ایشیا کی تاریخ کا سب سے ہولناک زلزلہ تھا – اس زلزلے سے 70 سال پہلے ایسا ہی زلزلہ 31 مئی 1935 کو کوئٹہ میں آیا تھا – بہت ہولناک زلزلہ تھا – اس زلزلے میں 30 ہزار سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے – اس زلزلے کے حوالے سے ہمارے علاقے کی مائیں ایک بد دعا دیا کرتی تھیں – بچے جب بہت زیادہ تنگ کرتے تو مائیں کہتی تھیں “ اے شالا کوئٹے آلی پووی “ ( تمہیں کوئٹے کے زلزلے والی موت جیسی اچانک موت آئے ) – مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بددعا پُورے علاقے میں رائج تھی – گھر میں کوئی نانی دادی ہوں تو ان سے پُوچھ لیں – وہ یہی بتائیں گی –
ہمارے بچپن کے دور میں دیہاتی مائیں بددعائیں بڑی فراخ دلی سے دیا کرتی تھیں – ایک بددعا یہ بھی تھی “ وے شالا ڈھائی گھڑیاں دی پووی “ – ڈھائی گھڑیاں والی موت طاعون plague کا دیہاتی نام تھا – طاعون کا مریض دو ڈھائی گھنٹے سے زیادہ زندہ نہیں رہتا تھا – یہ بھی کورونا کی طرح ایک وبا تھی –
اور بھی بہت سی لچھے دار بددعائیں ہوتی تھیں – ان سے ماؤں کا غصہ تو ٹھنڈا ہوجاتا تھا ، اور کچھ نہیں ہوتا تھا – عذاب کے فرشتے ماں کے منہ سے نکلی بد دعائیں سُن کر یقینا مسکرا دیتے ہوں گے –
لفظ زلزلہ قرآن حکیم میں بھی آیا ہے – ایک مکمل سُورت بھی زلزلے کے بارے میں ہے – ایک اور سُورت “القارعہ“ میں بھی زلزلے کی کیفیت بیان کی گئی ہے ، اللہ محفوظ رکھے – کلمہ طیبہ زلزلے کے نقصان سے بچنے کا بہترین وسیلہ ہے –
————– رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-  14 فروری 2021

میرا میانوالی

والدین کے بعد مجھے والدین جیسا پیار دینے والے ممتاز بھائی کی آج 11 ویں برسی ہے —- بھائی ممتاز حسین ملک میرے ماموں زاد تھے – عمر میں مجھ سے ڈیڑھ دوسال بڑے تھے – اگر وہ نہ ہوتے تو میں نہ شاعر ہوتا ، نہ ادیب ، کسی پرائمری سکول میں الف آم ، ب بِلی پڑھاتے ہوئے زندگی گذار دیتا – ممتاز بھائی نے لڑجھگڑ کر مجھے قلم پکڑنے پر مجبور کیا – کہا کرتے تھے “کمینے ، اللہ کا شکر ادا کرو جس نے تمہیں اتنی اعلی صلاحیتوں سے مالامال کر رکھا ہے – تمہارے والا ٹیلنٹ talent اگر میرے پاس ہوتا تو سارے پاکستان کو آگے لگا لیتا “-
ممتاز بھائی بہت اعلی ادبی ذوق سے متصف تھے – اقبال ، فیض ، ساحر، ندیم ، سیف ، فراز ، پروین شاکر وغیرہ کے سینکڑوں اشعار انہیں یاد تھے – شعر پڑھنے کا انداز ایسا تھا کہ سننے والے جھوم اٹھتے تھے – اچھی شاعری کا مطالعہ اور اچھے شعر کی پہچان میں نے ان سے سیکھی –
مقرر ایسے تھے کہ سامعین کے دلوں کی دھڑکنیں ان کے الفاظ کا ساتھ دیتی تھیں – جب ہم سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں پڑھتے تھے ایک دن آوارہ گردی کرتے ہوئے اسلامیہ کالج سول لائینز کے سامنے سے گذرے تو وہاں آل پاکستان مباحثہ debate ہو رہا تھا – لاہور ، پشاور ، کراچی کوئٹہ کے کالجوں کے بہترین مقرر اس مباحثے میں شریک تھے – ممتاز بھائی نے اپنا نام بھی لکھوا دیا – اس مباحثے کے جج تھے ہائی کورٹ کے جج جسٹس انوار اور نامور سیاسی لیڈر خواجہ صفدر ( خواجہ آصف کے والد ) –
ممتاز بھائی سٹیج پر آئے ، ایسے بولے کہ سماں باندھ دیا – Best Speaker کا انعام انہی کے حصے میں آیا –
اس دور میں ممتاز بھائی نے مارپیٹ کر مجھ سے بہت کچھ لکھوایا – مجھے کئی انعامات بھی ملے – مختصر یہ کہ بھائی نے مجھے کالج کی ایک مشہور شخصیت بنا دیا – مجھے نغمہ نگاری اور اردو انگریزی نثر نگاری کی بنا پر جو کچھ ملا اس کا کریڈٹ ممتاز بھائی کو جاتا ہے –
اپنا یہ شعر اپنے اس محسن کی نذر ——————-
شکر ہے آپ مل گئے ورنہ
شہر میں کون جانتا تھا ہمیں
—————— رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-  15 فروری 2021

میرا میانوالی

میں باباجی (والد محترم ملک محمد اکبر علی) کے کمرے میں عشآء کی نماز ادا کر رہا تھا
بابا جی کئی ماہ سے نیم بیہوشی کی حالت میں تھے – جگر کا مسئلہ تھا -DHQ کے میڈیکل بورڈ کا تجویز کردہ علاج جاری تھا ، مگر86 سال کی عمر میں جسم میں بیماری کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ تھی —
نماز میں سورہ الرحمن کی چند آیات پڑھتے ہوئے اچانک میری زبان لڑکھڑانے لگی – سورہ الرحمن مجھے اچھی طرح یاد تھی – بارہا پڑھ چکا تھا – آج بھی روزانہ پڑھتا ہوں ، لیکن اس رات اچانک زبان رکنے لگی – ایک آیت دوتین بار پڑھی ، ہربار غلط – اچانک دل پہ ہول سا طاری ہو گیا – میں نے نماز توڑ دی – دائیں جانب بابا جی کی طرف دیکھا تو ان کے آخری سانس تھے – میں جانماز سے اُٹھ کر بابا جی کے سرہانے بیٹھ گیا اور ان کا سر اپنی گود میں لے لیا – بابا جی کی آنکھیں کھلی تھیں – انہوں نے ایک نظر مجھے دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں – انا للہ و انآالیہ راجعون-
بابا جی کی بیماری کے آغاز میں میں اکثر ہفتے میں ایک بار داؤدخٰیل جاتا رہا – ایک ہفتے نہ جا سکا – اگلے ہفتے گیا تو بابا جی نے فارسی کا ایک شعر پڑھا ، شعر یہ تھا :
بہ لبم رسیدہ جانم ، تو بیا کہ زندہ مانم
پس ازاں کہ من نہ مانم ، بہ چہ کار خواہی آمد
( میری زندگی کا سفر ختم ہونے کو ہے – تو آجا کہ میں زندہ رہوں – جب میں نہ رہا تو تیرے آنے کا کیا فائدہ )-
لکھنا مشکل ہو رہا ہے – بابا جی کے بارے میں کچھ باتیں ان شآءاللہ کل لکھوں گا –
—————- رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-  16 فروری 2021

 

میرا میانوالی

بابا جی نے1921 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فرسٹ ڈویژن میں بی اے کیا – فلسفہ اور ریاضی (Philosophy & Mathematics) ان کے اختیاری مضامین تھے – یہ وہ مضامین ہیں جن کے نام سُن کر ہی پسینہ آجاتا ھے –
6 فٹ سے زائد قد کے اس فرسٹ ڈویژن بی اے نوجوان نے فوج میں بحیثیت لیفٹننٹ بھرتی ہونے کے لیے درخواست دی – اس زمانے میں اعلی ملازمتوں کے لیے انگریز کے پروردہ ذیلداروں کی سفارش ضروری ہوتی تھی – ہمارے علاقے کے ذیلدار کو ایک ٹیچر کے بیٹے کا افسر بننا گوارا نہ ہوا – اس لیئے اس نے سفارش بھیجنے میں اتنی تاخیر کردی کہ مقررہ وقت گذر گیا –
داداجان نے بابا جی کو تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہونے کی ہدایت کردی – یوں بابا جی نے انگلش ٹیچر کی حیثیت میں ملازمت کا آغاز کیا – بے مثال قابلیت اور کارکردگی کی بنا پر ان کی زیادہ تر سروس محکمہ تعلیم کے انتظامی عہدوں میں صرف ہوئی – کچھ عرصہ گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خیل اور گورنمنٹ ہائی سکول اٹک میں ہیڈماسٹر بھی رہے – راولپنڈی ڈویژن کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن کی حیثیت میں ریٹائر ہوئے –
دیانت اور قابلیت کی بنا پر باباجی پورے پنجاب میں مشہور تھے – انگریزوں کی طرح روانی سے انگریزی بول بھی لیتے تھے ، لکھ بھی لیتے تھے – انگریزی زبان اور ادب میں دلچسپی مجھے باباجی سے ورثے میں ملی – کچھ خون سے منتقل ہوئی کچھ ان کی رہنمائی سے – انگریزی ادب کے بہت سے شاہکار ناول ان کی ذاتی لائبریری کی زینت تھے –
باباجی کا مزاج اور وضع قطع افسرانہ تھی – ملازمت کے دوران ہمیشہ پینٹ شرٹ یا پینٹ کوٹ پہنتے رہے – سر پہ کبھی ہیٹ ، کبھی طُرے دار پگڑی پہنتے تھے – کوٹ پینٹ پر طُرے دار پگڑی اس دور کا خاص فیشن تھا – بندہ خوبصورت ہو تو جو کچھ پہن لے خوبصورت ہی لگتا ہے – بابا جی کو تو اللہ کریم نے وہ حسن عطا کیا تھا کہ لوگ انہیں دیکھنے کے لیے رُک جاتے تھے –
افسرانہ لباس اور کلین شیو کے باوجود بابا جی نے زندگی بھر نہ کبھی نماز قضا کی نہ روزہ – کسی کاغذ پر اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا نام لکھا نظر آتا تو اسے باربار چُومتے رہتے تھے –
بہت صفائی پسند اور سلیقہ شعار تھے – اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے – سکولوں کے دورے پر جاتے تو صابن ، تولیہ ، ٹوتھ پیسٹ ، برش ، بوٹ پالش اور شیو کا سامان ساتھ لے جاتےتھے – ایک دفعہ ان کے سامان میں سُوئی اور دھاگے کی رِیل اور بٹن دیکھ کر میں نے پوچھا یہ کس لیے – ؟ ہنس کر فرمایا کبھی قمیض کا بٹن ٹوٹ جائے تو یہ چیزیں ضرورت پڑتی ہیں –
—————– رہے نام اللہ کا —–بشکریہ-منورعلی ملک-  17فروری 2021

میرا میانوالی

کل کی پوسٹ پر داؤدخیل کے کفایت اللہ خان ایڈووکیٹ نے کمنٹ میں بابا جی کی قائداعظم سے مشابہت کا ذکر کیا – بات بہت درست ہے – قد کاٹھ ، شکل و صورت میں بابا جی قائداعظم سے بہت مشابہہ تھے – ایک دفعہ راولپنڈی کے سی بی پبلک سکول کے معائنے کے لیئے گئے تو پانچ سات سال کے ایک بچے نے قریب آکر ڈرتے ڈرتے پوچھا “ سر، آپ قائداعظم ہیں نا ؟“
قائداعظم سے باباجی کی مشابہت صرف شکل و صورت تک محدود نہ تھی – شخصیت اور کردار بھی بابائے قوم جیسا تھا – نہایت بااصول اور حق گو انسان تھے –
ایک دفعہ گورنمنٹ ہائی سکول میانوالی کے ہیڈماسٹر صاحب کے خلاف کسی شکایت کی انکوائری کے لیے راولپنڈی سے میانوالی آئے – میں اس وقت گارڈن کالج پنڈی کا سٹوڈنٹ تھا – بابا جی نے ایک دودن کے لیے داؤدخیل بھی جانا تھا ، اس لیے مجھے بھی ساتھ لے آئے –
میانوالی میں ہمارا قیام لیاقت بازار میں گورنمنٹ ہائی سکول کے بورڈنگ ہاؤس (ہاسٹل) میں تھا – ہم شام کے قریب وہاں پہنچے تو ہیڈماسٹر صاحب ، ملک شیر بہادر ( مشہور ومعروف گلوکار مسعودملک کے والد) بابا جی سے ملنے کے لیے آئے – بابا جی کے پرانے ساتھی اور بہت قریبی دوست تھے – حال احوال پوچھنے کے بعد انہوں نے کہا “ ملک صاحب ، آپ کا کھانا میرے گھر سے آئے گا “-
بابا جی نے کہا “ معاف کیجیئے گا بھائی صاحب ، میں اس وقت انکوائری آفیسر ہوں – میرا ضمیر آپ کا کھانا کھانے کی اجازت نہیں دیتا — میں نے قانون کے مطابق فیصلہ دیناہے – ممکن ہے فیصلہ آپ کے خلاف ہو -.—– ویسے آپ میرے بھائی ہیں ، آپ سے دیرینہ برادرانہ تعلق تو بہر صورت برقرار رہے گا – آپ کے ہاں کھانا پھر کبھی آکر کھالُوں گا ، اِس وقت نہیں –
شام کے بعد باباجی نے اپنے ملازم چاچاجلال کو بھیج کر ہوٹل سے کھانا منگوالیا –
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
——————– رہے نام اللہ کا ——–بشکریہ-منورعلی ملک-  18 فروری 2021
بہادر جنجوعہ کا تبصرہ
  • ٹاٹ والا سکول۔۔۔۔۔۔ استاد محترم ملک غلام حسین اعوان :
    چھ فٹ سے بھی نکلتا قد ، کاٹھ ایسا کہ لگے جیسے رب نے بانس کے سانچے میں رکھ کر ڈھالا ہو ، ڈھال کے دیکھا ہو اور دیکھ کے پھر ڈھالا ہو ۔ سر نہ تو بالوں سے ایسا اٹا ہوا تھا کہ سیاہ جنگل کا گماں گزرے اور نہ ایسا کہ انگلیوں سے سر کو سہلاتے ہوئے جو دو چار بال ہاتھ میں آئیں تو ہاتھ پیر ہی پھول جائیں کہ جانے کب چمڑی کا چٹیل میدان سورج کا منہ چڑانے پہ اتر آئے ۔ ہاں البتہ سر کی پچھلی جانب کے آخری حصے پر گلاس کے پیندے کے برابر کا مقام بالوں سے خالی تھا جسے بے خیالی میں کبھی کبھی دایاں ہاتھ کی انگشت شہادت سے کھجلاتے نظر آتے تھے ۔ مونچھیں ہمیشہ پست اور سر کے بال چھوٹے رکھتے تھے کبھی جو ہلکے سے بڑھ جاتے تو انکا گھنگریالہ پن بہت بھلا دکھتا ۔ خشک اور بڑھے ہوئے بالوں سے سخت نفرت کرتے تھے ہم میں سے جسے بھی اس حالت میں دیکھ لیتے تو اسکی خوب درگت بناتے۔ انکے نزدیک اوائل عمری میں ایسے بال انسانی کردار کو آوارگی کے قریب اور شرافت سے دور کرتے تھے ۔ سر پہ ہمیشہ تیل لگا کر بالوں کو دائیں سے بائیں سنوارتے ۔ دونوں طرف کنپٹی پہ بال کم ہونے کیوجہ سے نیچے کو آتی انکی قلمیں زیادہ لمبی دکھتی تھیں ، انکی جڑوں کے آس پاس کے کچھ سفید بالوں کے علاوہ اس چاندی نے سر کے کسی اور حصے پر ابھی اپنے قدم نہیں جمائے تھے ۔پہلی تاریخوں کے چاند کے بیرونی کناروں کی سی گولائی لیکر باہرکو نکلتی کشادہ پیشانی ، سر کے سامنے کے حصے پر نسبتا کم بالوں کی وجہ سے آسماں کی سی کشادگی اپنے دامن میں سمیٹے نظر آتی تھی۔ اس فلک کے عین بیچ گزرتے وقت نےدائیں سے بائیں دو لکیریں کھینچ دی تھیں ۔ پیشانی سے نکل کر آنکھوں کی زیارت کا شوق لئے نیچے کو اترتے پسینے کے قطرے دوران سفر تھوڑی دیر ادھر سستا بھی لیتے تھے ۔ بھنویں سر کے بالوں کی نسبت زیادہ سیاہ اور گھنی تھیں ۔ آنکھوں کے دونوں دیئوں سے نکلتی لو کو زمانے کی ہواؤں سے بچا کر تا دیر روشن رکھنے کے لئے قدرت نے انہیں بدن کے چلمن میں تھوڑا اندر سجا کے رکھا تھا خوبصورت ناک کے دونوں طرف سے چہرے کی ہڈیاں قدرے ابھری ہوئی تھیں جسکی وجہ سے سرخی مائل گندمی رنگت والے چہرے کے دونوں گال باہر کی نسبت تھوڑے اندر کو جاتے محسوس ہوتے۔ نچلے ہونٹ اور ٹھوڑی کے بیچ پرانے زخم کا ہلکا سا نشان تھا جسے بچپن کی کسی شرارت کا شاخسانہ فرماتے تھے ۔ لمبے قد کے اوپر سجے متناسب سر کے نیچے لمبی گردن ایسے دکھتی تھی جیسے کھلنے کو بے تاب کلی اٹھائے گلاب کی پتلی مگر توانا سی کوئی شاخ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    میرا میانوالی
خالقِ کائنات رازقِ کائنات بھی ہے – زمین سے فصلوں ، پھلوں اور سبزیوں کی صورت میں بے حساب رزق فراہم کرتا ہے – قسم قسم کی سبزیاں اور پھل صرف خوراک ہی نہیں اپنے اپنے موسم کی بیماریوں کی دوا اور کئی امراض کے خلاف دفاع بھی ہوتی ہیں – یہ الگ بات کہ کیمیائی کھادوں اور اندھا دُھند زہریلے سپرے کی برسات سے ہم نے پھلوں اور سبزیوں کو ان کے کئی فوائد سے محروم کردیا ھے – بلکہ کچھ کھادیں اور سپرے تو ایسے ہیں جو طرح طرح کی بیماریوں کا سبب بن رہے ہیں –
کھادوں اور سپرے کا مقصد بڑھتی ہوئی آبادی کے مطابق زرعی پیداوار میں اضافہ ہے – لیکن ریسرچ کرکے ایسی کھادیں اور زرعی ادویات تو تیار کی جاسکتی ہیں جن سے پیداوار بڑھے مگر بیماریوں کا باعث نہ بنیں –
سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریسرچ کرے کون – ہم مسلمان تو پکی پکائی کھانے کے عادی ہیں – ترقی یافتہ مغربی ممالک کی زرعی ادویات کی کمپنیاں جو کچھ بناتی ہیں ہم وہی استعمال کرتے ہیں – ان ادویات ساز کمپنیوں کو پیسہ کمانا ہے ، ہم مریں یا جیئیں انہیں اس کی کیا پروا – اب تو صورت حال یہ ہے کہ اپنے رِسک risk پہ کھانا پینا پڑتا ہے – غذا فائدہ دے یا نقصان پیٹ تو بھرنا ہے –
کیا زمانہ تھا جب زرعی کیمیکلز کا نام نشان بھی نہ تھا – تب اناج ، پھلوں اور سبزیوں کا رنگ ، خوشبو اور ذائقہ بھی اور ہوتا تھا – روٹی ٹھنڈی بھی ہوجاتی پھولوں کی طرح نرم رہتی تھی – روٹی کی اپنی بہت پیاری سی خوشبو ہوتی تھی – ہم لوگ بعض اوقات کسی سالن وغیرہ کے بغیر شوقیہ رُوکھی روٹی بھی کھالیتے تھے – زندگی بہت سادہ مگر پُرسکون تھی –
گذر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ———————- رہے نام اللہ کا بشکریہ-منورعلی ملک-  19 فروری 2021

میرا میانوالی

آج پھر بجلی نہیں ہے — لگتا ہے میانوالی شہر، بالخصوص شہر کے جنوبی حصے پر واپڈا کی خاص نظرِ کرم ہے – ہر دوسرے تیسرے دن صبح سے دوپہر تک بجلی کا ناغہ ہوتا ہے – سنا ہے معمول کی مرمت (maintenance) کا کام ہورہا ہے –
وہ بھی کیا دن تھے جب ہمارے علاقے (داؤدخیل اور گردو نواح میں) بجلی کا نام و نشان بھی نہ تھا – اے سی اور فریج تو کیا ، پنکھے اور بلب ٹیوبیں وغیرہ بھی نہیں ہوتی تھیں – گرمی میں دن کو ہاتھ سے چلنے ، بلکہ جَھلنے والے پنکھے اور رات کو روشنی کے لیے مٹی کے ڈِیوے ، چِمنیاں اور لالٹین ہؤا کرتے تھے – ڈیوے میں کڑکا تیل (تارامیرا کا تیل) جلتا تھا ، چِمنی اور لالٹین میں مٹی کا تیل – شام ہوتے ہی اندھیرے کی وجہ سے گلیاں سنسان ہو جاتی تھیں – صرف بچوں اور کُتوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں – رات کو دیر تک جاگتے رہنے کا کوئی بہانہ (ٹی وی ، موبائیل فون وغیرہ) بھی دستیاب نہ تھا ،اس لیے لوگ جلد سو جاتے تھے – جلد سونا اور صبح جلد اُٹھنا صحت کا ایک سنہری اصول تھا جو اب بھی کام آسکتا ہے – انگریز بھی کہا کرتے تھے
Early to bed, and early to rise
Keeps you healthy, wealthy and wise.
فریج کی بجائے پانی ٹھنڈا رکھنے کے لیے مٹی کے بنے ہوئے گھڑے استعمال ہوتے تھے- ٹھنڈک کی تاثیر کے لیے عیسی خیل کے گھڑے مشہور تھے – اب تو کچھ بھی باقی نہیں رہا – زندگی بجلی کی محتاج ہو کر رہ گئی ہے – اس وقت چونکہ بجلی نہیں ہے اس لیئے یہ پوسٹ لکھتے ہوئے بھی لیپ ٹاپ کی چارجنگ پہ نظر ہے – فون گھر کے دوسرے حصے میں یو پی ایس سے چارجنگ پہ لگا رکھا ہے –
—————— رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-  20 فروری 2021

میرا میانوالی

بتی والا فقیر ———
داؤدخٰیل میں رات کے پچھلے پہر ایک اللہ کا بندہ بتی (لالٹین) ہاتھ میں لیے ریلوے لائین کے ساتھ ساتھ شمال کی جانب جاتا نظر آتا تھا – ریلوے لائین شہر سے تقریبا آدھا کلومیٹر مشرق میں ہے – اس لیے اس بندے کی شکل وصورت نظر نہیں آتی تھی – اکثر لوگوں نے کئی بار اُسے جاتے دیکھا – قریب جاکر دیکھنے اور اُس سے بات کرنے کی ہمت کوئی نہ کر سکا , کہ ایسے لوگوں کو چھیڑنا مناسب نہیں سمجھا جاتا – یہ خدشہ بھی اس کے قریب جانے میں حائل تھا کہ اگر وہ کوئی جِن ہؤا تو لینے کے دینے نہ پڑ جائیں – کئی سال وہ ہررات یونہی جاتا نظر آتا رہا – شاید اب بھی کسی نے دیکھا ہو –
خدا جانے وہ کون تھا ، کیا تھا —– ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ وہ ہمیشہ شمال کی جانب ریلوے سٹیشن کی طرف جاتا دکھائی دیتا تھا – واپس جاتے کبھی کسی نے نہیں دیکھا – یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ آتا کہاں سے تھا —– شہر کے جنوب مشرق میں ریلوے لائین کے قریب ویرانے میں ایک چھوٹا سا قدیم قبرستان ہے جسے زینی والا قبرستان کہتے ہیں – وہاں جال (پِیلُو) کے درختوں میں گھری ہوئی ایک قبر بھی زینی فقیر کے نام سے منسُوب ہے – کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ راتوں کے پچھلے پہر نظر آنے والا بندہ زینی فقیر ہی تھا – جو خدا جانے کون سی ڈیوٹی پر مامُور تھا کہ راتوں کے پچھلے پہر قبر سے نکل کر یُوں چلتا پھرتا رہتا تھا — واللہ اعلم بالصواب –
——————- رہے نام اللہ کا —بشکریہ-منورعلی ملک-  21 فروری 2021

میرا میانوالی

ہم لوگ اس جگہ کو چَہانڑِیاں کہتے تھے – وہاں کوئی عمارت نہ تھی ، تقریبا 100 فٹ لمبا چوڑا چوکور صاف ستھرا میدان تھا – اس میدان کے شمال مشرقی کونے پر ایک ویران کنؤاں تھا ، جسے اَنہی ڈَل کہتے تھے – لوگ کہتے تھے یہ کنواں بھارا ہے – بھارا اس جگہ کو کہتے تھے جہاں جِن بھُوت رہتے ہوں – ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ جِن مسلمان ہوتے ہیں ، بھُوت ہندو – اَنہی ڈَل نامی کنواں بھُوتوں کا مسکن تھا کیونکہ یہ ہندوؤں کی چہانڑیوں سے ملحق تھا –
چہانڑیاں ہندوؤں کے مُردے جلانے کا مقام تھا — ہندو اپنے مُردوں کو دفنانے کی بجائے جلا دیتے ہیں – داؤدخٰیل میں جب کوئی ہندو مرجاتا تو اسے چہانڑیاں میں لاکر جلاتے تھے – ایسے موقعوں پر مذہبی رواداری ( دوسروں کے مذہب کا احترام) کی وجہ سے مسلمان اُدھر نہیں جاتے تھے —- قبر جتنی جگہ پر لکڑیاں بچھا کر میت کو لکڑیوں کے اس بستر پر رکھ دیتے ، اُس کے اُوپر اتنی ہی اور لکڑیاں رضائی کی طرح بچھا دیتے تھے – لکڑیوں کو جلد آگ لگنے کے لیے ان پر گھی (خالص دیسی گھی) چھڑک کر آگ لگا دیتے تھے – جب تک میت جل کر راکھ نہ ہوجاتی ہندو آگ کے گرد کھڑے اپنے مذہب کے کوئی منتر (اشلوک) وغیرہ پڑھتے رہتے تھے – جب آگ بجھ جاتی تو میت کی راکھ کو گٹھڑی میں باندھ کر ساتھ لے جاتے تھے – جب کبھی کوئی ہندو قافلہ دہلی جاتا وہ گٹھڑیاں اس کے سپرد کردیتے تھے تاکہ راکھ دریائے گنگا میں ڈال دی جائے – عجیب مذہب تھا –
یہاں کوئی دانشور یہ سوال پُوچھ سکتا ہے کہ جی اسلام تو کہتا ہے قیامت کے دن سب مردے زندہ ہو جائیں گے ، پھر دریا میں ڈالی ہوئی راکھ کس طرح انسان کی شکل میں زندہ ہوگی-
اسی قسم کا سوال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی پوچھا گیا تھا – ایک آدمی قبرستان سے ایک بوسیدہ گلی سڑی ہڈی اٹھا لایا اور کہا آپ کہتے ہیں اللہ مُردوں کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرے گا ، کیسے ممکن ہے , اس ہڈی کو دوبارہ انسان کی شکل میں کون زندہ کرے گا ؟-
اس سوال کا جواب اللہ تعالی خود دیا – اسی وقت سورہ یس کی یہ آیات نازل ہوئیں جن میں ارشاد ہوا “ اس شخص نے کہا ہے کہ ایسی گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا – اس سے کہہ دو کہ ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے پہلی بار انہیں زندہ کیا تھا –
سبحان اللہ العظیم –
——————– رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-  22 فروری 2021

میرا میانوالی

سادہ لوگ —– سادہ بیماریاں —— سادہ علاج
کیا اچھا زمانہ تھا ، جانی پہچانی پانچ سات بیماریاں ہوتی تھیں – ان کی دوائیں سرکاری ہسپتال سے مفت ملتی تھیں – داؤدخیل کے چھوٹے سے ہسپتال میں بھی ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوتا تھا – ڈاکٹر فیس نہیں لیتے تھے – کوئی ٹیسٹ وغیرہ بھی نہیں کروانے پڑتے تھے- کچھ باتیں مریض سے پوچھ کر ، تھرمامیٹر اور سٹیتھوسکوپ (بم ٹُوٹی کہتے تھے) کی مدد سے مرض کی تشخیص کرکے سرکاری پرچی پر دوا لکھ دیتے تھے –
دوا ساتھ والے کمرے میں کمپاؤنڈر سے لینی پڑتی تھی – ڈسپنسر کی بجائے اس وقت کمپاؤنڈر ہوتے تھے جنہیں اپنی زبان میں لوگ کمپوٹر کہتے تھے – کمپاؤنڈر کے کمرے میں لمبی لمبی شیلفوں پر دواؤں کی بھاری بھرکم بوتلیں رکھی ہوتی تھیں –
پانی کے رنگ کی دوا کونین مکسچر (Quinine Mixture) تھی ، ملیریا کا شرطیہ علاج – ایک دو خوراکیں لینے سے ملیریا دفع ہو جاتا تھا – دوا اتنی کڑوی تھی کہ پینے کے بعد ناک اور کانوں سے دھؤاں نکلتا محسوس ہوتا تھا – اور آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے تھے – بچوں کو یہ دوا پلانے کے لیے تھوڑا بہت تشدد بھی کرنا پڑتا تھا کہ شرافت سے اتنی کڑوی دوا پینے پر کوئی بچہ آمادہ نہیں ہوتا تھا – سمجھدار مائیں بچے کے منہ میں چینی یا شکر ڈال کر اوپر سے دواکا ایک چمچ ڈال دیتی تھیں –
لال رنگ کا شربت ہاضمے کی ہر بیماری کا علاج تھا – اس کا ذائقہ بھی بڑا مزیدار تھا – بچے بڑے شوق سے پی لیا کرتے تھے – پیچش وغیرہ کے لیے دودھ کے رنگ کا پھیکا شربت Kaolin Suspension ہوتا تھا –
ہرقسم کے درد کے لیئے اے پی سی APC پاؤڈر کی پُڑیاں ہوتی تھیں – دوا کی مقدار اور اوقات کمپاؤنڈر بتا دیتا تھا – چھوٹے سائز کی خالی بوتلیں مریضوں کو گھر سے لے جانی پڑتی تھیں –
دوائیں اتنی مؤثر تھیں کہ دوسری بار ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا پڑتا تھا – اگر مزید دوا لینی ہوتی تو کمپاؤنڈر کو ڈاکٹر کی پرچی دکھا کر لے لیتے تھے –
——————- رہے نام اللہ کا ——-بشکریہ-منورعلی ملک-  23 فروری 2021

میرا میانوالی

پرندے موسموں کے رازداں ہیں
اللہ تعالی نے پرندوں کو یہ خصوصٰی صلاحیت عطا کی ہے کہ وہ آتے جاتے موسموں کو ہم سے پہلے محسوس کر کے موسم کے مطابق عمل کرتے ہیں – مرغابیوں ، کونجوں اور بٹیروں کی شمال سے جنوب کو پرواز سردیوں کی آمد کی خبر دیتی ہے – جنوب سے شمال کو پرواز ان کی واپسی کا سفر ہوتی ہے – یہ پرندے بہت دور (رُوس) سے آتے جاتے ہیں – سردی کے موسم میں ان کے وطن کی جھیلیں برف بن جاتی ہیں ، اس لیے وہ رزق کی تلاش میں ہمارے دریاؤں اور جھیلوں کا رخ کرتے ہیں – اس موسمی ہجرت کی وجہ سے انہیں مہاجر یا مسافر پرندے بھی کہا جاتا ہے –
گرمی کے موسم میں ہمارے داؤدخیل میں صبح نو دس بجے سینکڑوں جنگلی کبوتروں کے جھار ( قافلے) ہمارے گھروں کے اوپر سے ہوتے ہوئے جنوب مغرب میں کچے کے علاقے میں اتر جاتے تھے- یہ کبوتر پہاڑ کے درہ جابہ سے آتے تھے جو داؤدخٰیل سے پانچ سات کلومیٹر شمال مشرق میں ہے –
میانوالی شہر میں کووں کے بڑے بڑے جھار صبح فجر کے وقت شمال مشرق کی سمت جاتے اور چار پانچ بجے واپس جاتے ہیں – ان کا مسکن کہیں وتہ خیل کچہ میں ہے – یہ صرف اسی موسم میں (فروری سے اپریل تک) آتے جاتے رہتے ہیں – سردی اور گرمی کے موسم میں کبھی نہیں دیکھے –
ان بڑے پرندوں کے علاوہ بہت سے چھوٹے پرندے بھی اس موسم میں چرتے چُگتے دکھائی دیتے تھے – بُلبُلیں اور لالڑیاں تو اب بھی دیکھنے میں آتی ہیں – ایک آدھ سویڑ (لمبی دُم والا خاکستری رنگ کا پرندہ) اور ایک دو کالی چڑیاں بھی ہمارے گھر سے ملحق ڈاکٹر پرویزاختر کے باغیچے سے آتی جاتی ہیں –
داؤدخٰیل میں اس موسم کے پرندوں کی بڑی ورائیٹی ہوا کرتی تھی- ممولے جنہیں ہم شیخ ممولہ یا شیخُو کہا کرتے تھے – یہ چڑیا جتنا ہلکے نیلے ، سفید اور سیاہ رنگ والا بہت خوبصورت پرندہ یے – ایک منٹ آرام سے نہیں بیٹھ سکتا بڑی تیز رفتار سے ادھر ادھر بھاگتآ رہتا ہے – چڑیاسے ذرا چھوٹے دوتین رنگ کے دِدُو بھی ہوتے تھے – چاں چاں کرتے نیل کنٹھ (ہم انہیں نیل چاں کہتے تھے – میانوالی میں شاید چاں بچاں کہتے ہیں ) اور چِڑی درکھان ( ھُد ھُد) بھی اس موسم میں آیا کرتے تھے – پتہ نہیں اب بھی آتے ہیں یا نہیں – چڑیا سے ذرا بڑا لاٹا ، بہت بدمعاش پرندہ ہے ، ہر پرندے کی بولی بول لیتا ہے ، پیلے سینے والی چڑیاں جنہیں پِیچی یا پِیل غُڑا کہتے تھے ، اور بھی بہت سے دوست تھے ہمارے – خدا جانے کدھر چلے گئے –
————————- رہے نام اللہ کا –

میرا میانوالی

مُرغی کی مامتا اپنی مثال آپ ہے – اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے شیر سے بھی ٹکرا سکتی ہے – بلیوں کو ماربھگا تے تو ہم نے کئی دفعہ دیکھا ہے – بلیاں تو معمولی چیز ہیں کسی انسان کو بھی اپنے بچوں کے قریب نہیں آنے دیتی – جب تک بچے اپنی حفاظت خود کرنے کے قابل نہیں ہوجاتے مُرغی سائے کی طرح ان کے ساتھ رہتی ہے – عموما تیس چالیس دن بعد بچے بڑے ہو کر خودمختار ہو جاتے ہیں – ایسے نمک حرام ہوتے ہیں کہ پلٹ کر ماں کو ایک نظر دیکھتے بھی نہیں –
انڈوں سے بچے نکلنے کا قدرتی عمل 21 دن کا ہے – مرغی ایک خاص جذباتی کیفیت میں 21 دن انڈوں پر بیٹھتی ہے تو اس کے جسم کی حرارت سے انڈوں میں سے بچے نکلتے ہیں – مرغی کی اس کیفیت کو کڑُنگ کہتے ہیں – اس کیفیت میں مرغی کا مزاج بہت چڑچڑا ہو جاتا ہے – کسی کو نزدیک نہیں آنے دیتی – اسی لیے چڑچڑے مزاج کے لوگوں کو بھی کڑُنگ کُکڑی سے تشبیہ دی جاتی ہے – بزرگ اور ہر عمر کی خواتین میں اس مزاج کے لوگ پائے جاتے ہیں ٠
دیسی مُرغی کی بات ہو رہی ہے – برائلر (جس کو آپ چِکن کہتے ہیں) کی تو ولدیت ہی مشکُوک ہوتی ہے — دیہات کے ہر گھر میں دوچار دیسی مُرغیاں ہؤا کرتی تھیں – ہمارے گھر میں بھی ہوتی تھیں- بہت خوبصورت رنگ برنگی مرغیاں ہوتی تھیں – کوئی دُودھ کی طرح سفید ، کوئی کوئلے کی طرح سیاہ ، کوئی ملے جلے سیاہ سفید رنگ کی ( ایسی مرغیوں کو ہم تِتری کہتے تھے) کوئی چائے کے رنگ کی — گھر میں رونق لگی رہتی تھی – کسی گھر میں کڑُنگ مرغی انڈوں پر بٹھائی جاتی تو ساتھ والے گھروں کی خواتین بھی ایک آدھ انڈا گھر سے لاکر مُرغی کے نیچے رکھے انڈوں میں شامل کر دیتی تھیں – ان انڈوں سے نکلے ہوئے چوزے ان کی امانت ہوتے تھے –
کبھی کبھار مُرغی بچوں کے ساتھ کھلی جگہ پر پھر رہی ہوتی تو کوئی ہِل (چِیل) جھپٹ کر ایک بچہ اٹھا لیتی – مُرغی اڑ نہیں سکتی ورنہ آسمان تک اس کا پیچھا کرتی – غم وغصے کا اظہار دن بھر کٹ کٹاک کے نعروں کی صورت میں کرتی رہتی تھی –
کسی زمانے میں لالا عیسی خیلوی یہ ماھیا بڑے شوق سے گاتا تھا ———
چُوچا ہِل چایا
اِیہا ساڈی غلطی ہے ناسے سوچ کے دِل لایا
—————– رہے نام اللہ کا ——بشکریہ-منورعلی ملک-  26 فروری 2021

بجلی آج پھر نہیں ہے ، لیکن آپ نے گھبرانا بالکل نہیں ہے – عمرایوب خان جیسا بجلی کا وزیر ہو تو گھبرانے کی کیا ضرورت ؟ وہ آج کل کچھ دوسرے کاموں میں مصروف ہیں فارغ ہوتے ہی بجلی کا مسئلہ منٹوں میں حل کر دیں گے – ایسے قابل انسان ہیں کہ کوئی بھی حکومت ان کے بغیر نہیں چل سکتی – ق لیگ میں بھی وزیر تھے ، ن لیگ میں بھی اور اب پی ٹی آئی میں بھی وزیر ہیں –
سیاست پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھتا ، لیکن جب سیاست جینا حرام کرنے لگے تو کچھ نہ کچھ کہنا ہی پڑتا ہے – جنرل ضیاء کے دور میں انگلش میں کالم لکھا کرتا تھا – ایک کالم سنسر بھی ہوا تھا ، اس پر شاید کچھ اور ایکشن بھی ہوتا لیکن اخبار کے ایڈیٹر اقبال جعفری صاحب ڈٹ گئے – جنرل مشرف کے بارے میں ایک غزل لکھی تو رسالے کے ایڈیٹر بے کہا یار کیوں ہمیں مروانے لگے ہو – پی پی پی کے طرز حکمرانی پر بھی تنقید کرتا رہا ، ن لیگ کی بعض حماقتوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ، اس حکومت کی بھی کبھی کبھی کلاس لگانی پڑتی ہے – یہ سوچ کر کہ شاید کہیں کوئی جاگ رہا ہو – جاگ تو سب رہے ہیں لیکن فی الحال سینیٹ کے الیکشن میں مصروف ہیں – دوچار دن بعد ادھر سے فارغ ہوں گے تو عوام کے مسائل سے بھی نمٹ لیں گے – عوام کون سا بھاگ کر کہیں جارہے ہیں ، وہ بھی ادھر ہم بھی ادھر ، بس گھبرانا نہیں ہے –
———————– رہے نام اللہ کا —-بشکریہ-منورعلی ملک-  27 فروری 2021

میرا میانوالی

قتل کی وارداتوں میں اضافہ تشویشناک ہے – اس کی بنیادی وجوہات دو ہیں ، پہلی وجہ برداشت کی کمی – لوگ ذرا سی بات پر مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں – باپ بیٹوں کے ہاتھوں اور بیٹے باپوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں – تمام اچھی روایات کی طرح رشتوں کا تقدس بھی آخری سانسیں لے رہا ہے – قتل کسی بھی وجہ سے جائز نہیں ، مگر اب تو معمولی تُوتُو ، مَیں میں پر بھی قتل ہو رہے ہیں – وہ جو اللہ اور اس کے رسول نے قتل کی ممانعت کی ہے ، اس کا بھی خیال نہیں کیا جاتا – لوگ اتنے تیز مزاج کیوں ہو گئے ہیں ؟ یہ بھی نہیں سوچتے کہ قتل کرنے سے گھر تو دونوں اُجڑ جاتے ہیں –
قتل کی وارداتوں میں اضافے کی دوسری وجہ خودکار اسلحے کی فراوانی ہے – کوئی پوچھنے والا نہیں – لائسنس اور قانون مذاق بن کر رہ گیا ہے – پہلے یہ حال نہیں تھا – اور وہ اسلحہ بھی ایسا تھا کہ دور سے نظر آتا تھا – اس لیے قانون کی گرفت میں بھی جلد آجاتا تھا – اب تو ہر بندہ پستول جیب میں لیئے پھرتا ہے – ذراسی تُوتکار کا فیصلہ بھی اب پستول سے کیا جاتا ہے – اکثر قتل پستول ہی سے ہورہے ہیں – ڈاکُو بھی یہی استعمال کرتے ہیں – افغان جہاد کے صدقے میں کلاشنکوف ، کلاکوف ، کاربین اور پتہ نہیں کیاکیا کُچھ سرِعام دستیاب ہوگیا – اسلحے کی بھرمار کا کوئی علاج ؟ کوئی نیا قانون ؟ ——– قانون دان عدالتوں سے تاریخیں لینے اور قانون ساز ایک دوسرے کو چور چور کہنے کے علاوہ کچھ کر ہی نہیں رہے –
اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر روزی کمانے والے علمائے کرام بھی اس موضوع پر قرآن حکیم اور حدیث پاک میں دیئے ہوئے احکام کی بات نہیں کرتے – حالانکہ یہ تو جمعہ کے خطاب کا مستقل موضوع ہونا چاہیے – قرآن حکیم تو صاف سیدھے لفظوں میں کہتا ہے کہ جس نے کسی مسلمان کو جان بُوجھ کر قتل کیا اُس کی جزا جہنم ہے –
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا “ مؤمن وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچے “-
قانون دانوں، قانون سازوں اور علمائے کرام سے زیادہ مجھے اپنے نوجوان بیٹوں پر اعتماد ہے کہ وہ مل بیٹھ کر اس مسئلے کا کوئی حل نکال سکتے ہیں – کام ناممکن نہیں ، طریقہ کار دریافت کرنا ہوگا – آگے بڑھیں اللہ کی نصرت یقینا آپ کا ساتھ دے گی – اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو –
——————- رہے نام اللہ کا –

بشکریہ-منورعلی ملک-  28 فروری 2021

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top