منورعلی ملک کی جنوری 2017 کی فیس بک پرپوسٹ
میرا میانوالی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ —– اللہ کرے یہ نیا سال آپ کی دعاؤں کی قبولیت کا سال ھو- جومانگیں مل جائے-
میرا میانوالی/ میرا داؤدخیل/ میرا لاھور —
پسند کی وجہ تو رب جانے ھرن مینار میری ایک بہت پسندیدہ جگہ ھے – اکرم بیٹا جگہوں کے حوالے سے میری پسند ناپسند کا خیال رکھتے ھوئے اتوار کی سیروتفریح میں کبھی کبھار ھرن مینار کو بھی شامل کرلیتا ھے-
ھرن مینار خود تو بالکل سیدھا سادہ سا بے رنگ ا ینٹوں کا تقریبا سو فٹ اونچا مینار ھے- جو مغل شہزادے جہانگیر نے اپنے محبوب ھرن کی یادگار کے طور پربنوایا تھا- اس میں دیکھنے کے لائق کوئی خاص بات مجھے تو نظر نہیں آتی – شاید مینار کے اندر کوئی نقش و نگار ھوں- مگر مینار کے اکلوتے دروازے کو سرکار نے موٹا سا تالا لگا رکھاھے- یہ تالا خودکشی کے شوقین خوا تین و حضرات سے معذرت کے لیے ھے- میناروں سے چھلا نگ لگا کر خود کشی کرنے کا فیشن بہت پرانا ھو چکا، پھر بھی احتیاط ضروری سمجھ کر سرکار نے مینار کو تالا لگا دیا- اس کی چابی پتہ نہیں کس کے پاس ھے ؟
ھرن مینار کی شہرت اور مقبولیت کی اصل وجہ وہ کاریگری ھے جو جہانگیر کے صاحبزادے شہنشاہ شاہ جہان المعروف انجینیئر بادشاہ نے کردی- تصویر میں وھی نظرآرھی ھے- اس کا کچھ ذکر انشاءاللہ کل ھوگا ——1 جنوری 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل / میرالاھور —-
اس پوسٹ میں شامل پکچر میں بائیں طرف ا ینٹوں کے بھٹے کی چمنی جیسی جو چیز نظر آرھی ھے، یہی ھے ھرن مینار- دائیں جانب کی عالیشان ھشت پہلو (آٹھ کونوں والی) عمارت بادشاہ سلامت کی آرام گاہ ھؤا کرتی تھی- یہ عمارت شنہشاہ جہانگیر کے صاحبزادے شہنشاہ شاہ جہان نے بنوائی تھی- شہنشاہ معظم اس علاقےمیں شکار کے لیے آتے تو یہیں قیام فرمایا کرتے تھے -( شکارپتہ نہیں کس چیز کا ھؤا کرتا تھا )-
یہ خوبصورت عمارت ایک 750×895 فٹ رقبے پر محٰیط پختہ تالاب کے عین درمیان واقع ھے- عمارت تک پہنچنے کے لیے تالاب کے مشرقی کنارے سے ایک پل عمارت تک جاتا ھے- اس پل کا آغاز ایک عالیشان گیٹ سے ھوتا ھے، جہاں بادشاہ کے سیکیورٹی گارڈ لوگوں کی جبیں خالی کرکے انہیں بادشاہ کے حضور میں حاضری کی اجازت دیتے تھے- اجازت صرف ان لوگوں کو ملتی تھی جنہیں بادشاہ کسی کام کے لیے طلب فرماتے تھے-
تالاب کی لمبائی چوڑائی اتنی رکھی گئی کہ کناروں پر کھڑے عوام کی گا لیا ں شاہ سلامت کے کا نوں تک نہ پہنچ سکیں- وزراء بادشاہ حضور کو یہ بتایا کرتے تھے کہ حضوریہ سب لوگ آپ کو دعائیں دے رھے ھیں-
دنیا بدل گئی، بادشاھت کی جگہ جمہوریت اور آمریت کا دور آگیا، مگر وزراء کے فرائض آج بھی وھی ھیں- آج بھی وزراء حکمرانوں کو یہی بتا تے ھیں کہ حضور عوام آپ سے بہت خوش ھیں – دن رات آپ کو دعائیں دیتے ھیں-
سیرگاہ کی حیثیت میں ھرن مینار ایک بہت خوبصورت جگہ ھے- اب یہاں تعمیرومرمت کا کام جس تیزی سے ھو رھا ھے، اسے دیکھ کر یہ توقع کی جاسکتی ھے کہ بہت جلد یہ جگہ سیاحت کا ایک اھم مرکز بن جائے گی- — منورعلی ملک – 2 جنوری 2017
— ا حتسا ب –
عزیزدوستو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ —
اللہ کے فضل سے میری اردو پوسٹس کے سفر کا پہلا سال بخیروعافیت مکمل ھؤا- آپ لوگوں نے میری پوسٹس پر جو مثبت ردعمل دیا اس کے لیے آپ کا ممنون ھوں-
میں نے تو ویسے ھی حاضری لگوانے کے لیے ایک پوسٹ لکھی تھی- بحمداللہ اتنی پسند کی گئی کہ میں حیران رہ گیا- بہت سے دوستوں نے فرمائش کی کہ یہ سلسلہ جاری رھنا چاھیے- سو، میں مصروفیات اور بعض اوقات بیماری کے باوجود روزانہ ایک پوسٹ لکھنے لگا- کچھ لوگوں نے میرے تجربات اور مشاھدات کی تحسین کی ، کچھ نے اندازتحریر کو سراھا-
پوسٹس کا سلسلہ آگے بڑھا تو دوستوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ھونے لگا- بہت جلد فیس بک کی مقررہ تعداد5000 پوری ھوگئی، تو فیس بک نے ھاتھ کھڑے کر دیے کہ مزید دوستوں کی گنجائش نشتہ — پھر لوگ فالوورز کی راہ سے آنے لگے- اس کھاتےمیں مسلسل اضافہ ھورھاھے- ا اس وقت تک 2426 مہربان شامل ھوچکے ھیں – 54 فرینڈشپ ریکوئسٹس (Friendship requests) بھی خالی نشستوں کی منتظر ھیں-
کبھی کبھار کوئی دوست کسی بات سے ناراض ھوکر ساتھ چھوڑ دیتا ھے ، تو اس کی جگہ کوئی نیا دوست لے لیتا ھے- دس پندرہ لوگ اس وقت تک جا چکے ھیں- ان کی جگہ نئے لوگ آگئے ھیں-
چار لوگوں کو بلاک (- Block) بھی کرنا پڑا ، کراچی کے ایک صاحب پاک فوج کے بارے میں بکواس میری ٹائیم لائین پہ لگانے لگے- منع کیا، نہ مانے تو انہیں بلاک کر دیا- دوسرے تین لوگ مجھ سے سیاسی سوالات پوچھنے لگے- میں نے عرض کیا میں ٹیچر ھوں، کلاس میں سیاست پر بات نہیں کرسکتا- وہ لوگ پھر بھی بضد رھے تو بادل ناخواستہ انہیں بلاک کردیا-
حساب تو میں نے بتا دیا- احتساب آپ نے کرنا ھے- کوئی شکوہ، شکایت، مشورہ یا تجویز ؟؟؟ —– منورعلی ملک —–3 جنوری 2017
میرا میانوالی / میراداؤدخیل —
موسیقی سننے کا شوق بچپن سے تھا- اس زمانے میں داؤدخیل میں نہ ریڈیو تھا نہ کوئی لوک گلوکار- کچھ شوقین مزاج نوجوانوں نے “وا جے“ رکھے ھوئے تھے- “وا جا“ داؤدخیل کی زبان میں گراموفون کو کہتے تھے- اب تو گراموفون کا تصوربھی ختم ھوگیا- اس پوسٹ کے ساتھ گراموفون کی پکچر دینا اس لیے ضروری سمجھا-
پکچر میں بائیں طرف گراموفون ھے- گراموفون کے بائیں طرف گراموفون ریکارڈ ھے- جسے ھمم “رکاٹ“ کہا کرتےتھے- پنجابی میں “ توا “ بھی کہتے تھے، کیونکہ یہ توے کی طرح گول اور سیاہ کاربن کی پلیٹ ھوتی تھی- ایک ریکارڈ کے دونوں طرف تین تین منٹ کا ایک گانا ریکارڈ کیا ھؤا ھوتا تھا- ریکارڈ کو گراموفون کی پلیٹ پررکھ کر پہلے گراموفون کے دائیں طرف لگی ھوئی سلائی کی مشین جیسی چابی گھمانی پڑتی تھی- اس کے بعد گول سے ساؤنڈ بکس میں لگی ھوئی سوئی ریکارڈ کے کنار ے پر رکھنے سے ریکارڈ میں محفوظ گانا سنائی دینے لگتا تھا-
یہ تفصیل تو شا ید آپ کے سر کے اوپرسے گذر گئی ھو، بہرحال آگے چل کر کہانی خاصی دلچسپپ ھو جائے گی- بہت بڑے گلوکاروں، موسیقاروں اورھردور کے مقبول ترین گیتوں سے آپ کا تعارف ھوگا- وہ گیت انٹرنیٹ پر آج بھی ملتے ھیں- وہ بھی سن کر دیکھیں-
میں تیسری کلا س میں تھا تو میرے بڑے بھائی ملک محمد انور علی جو ا س وقت سرگودھا کالج میں پڑھتے تھے، گراموفون لے آئے٠ میں نے رونا دھونا شروع کر دیا کہ مجھے بھی گراموفون چاھیے- امی کی منہ بولی بہن محترمہ عالم خاتوں نے میری آہ و زاری سن کر اپنے بھائی (نامور ریڈیو سنگر گلستان خان نیازی امیرے خیل ) کا گراموفون لاکر مجھے دے دیا ——— منورعلی ملک —4 جنوری 2017
—————- معذ ر ت ——–
دوتین دن سے میرا لیپ ٹاپ چارجنگ نہیں کر رھا- بجلی ھو تو چلتا ھے- کسی کو دکھانا پڑے گا-
ادھر صورت حال یہ ھے کہ جب سے چشمہ کے تیسرے ایٹمی بجلی گھر نے کام شروع کیا ھے،، میانوالی میں لوڈشیڈنگ تین چار گنا بڑھ گئی ھے- اپریل میں جب چوتھا ایٹمی بجلی گھر چالو ھوگا تو امید ھے میانواللی میں بجلی کا کام ھمیشہ کے لیے ٹھپ ھو جائےگا- اس کا ایک فائدہ یہ ھوگا کہ کھمبوں پر لگے ھوئے بجلی کے تاروں سے رسیاں لٹکا کر بچے ، دونوں طرف والے ارکان اسمبلی اور واپڈا کے افسران جھولا جھول سکیں گے- عقلمند لوگ کھمبوں سے تاریں اتار کر گھروں میں دھلے ھوئے کپڑے بھی آسانی سے خشک کر سکیں گے-
صبح سے گئی ھوئی بجلی اب واپس آئی ھے- تین بجے دستیاب ھوئی تو انشاءاللہ آج کی پوسٹٹ “میرامیانوالی“ لکھ دوں گا- دعا فرمائیں ——- منورعلی ملک ——-
میرامیانوالی / میراداؤدخیل ——————
گراموفون کے ساتھ پانچ سات رکاٹ (ریکارڈ) بھی تھے- دوتین اس وقت کے سب سے مشہورگلوکار سہگل کے تھے- ان میں سے مجھے صرف یہ ایک نغمہ اچھا لگتا تھا
غم دیئے مستقل کتنا نازک ھے دل یہ نہ جانا ، ھائے ھائے یہ ظالم زمانہ
فلم انمول گھڑی کے گیت ———
آجا مری برباد محبت کے سہارے
اور دوچار اور نغموں کے رکاٹ بھی تھے-
تیسری جماعت کے طالب علم کو غم اور برباد محبت جیسی باتوں کی سمجھ تو ککھ نہیں آتی تھی- بس آواز اور دھن اچھی لگتی تھیں—-
بھائی جان کے پاس اس وقت کے بہترین فلمی نغموں کے ریکارڈ تھے- مثال کے طور پر نورجہان اور سریندر کا سدا بہار گیت “ آواز دے کہاں ھے“ – محمد رفیع اور نورجہاں کا لاجواب نغمہ “ ٰیہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ھے“ —- اس گیت پر تو میں نے داؤدخٰیل کے بعض بزرگوں کو روتے ھوئے بھی دیکھا—- اسی فلم کا گیت “ ھمیں تو شام غم میں کاٹنی ھے زندگی اپنی“—— نورجہاں کی قیادت میں خواتین کی ایک قوالی بھی تھی، جس کا ابتدائی بول تھا “ آھیں نہ بھریں ، شکوے نہ کیئے کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا“ بھائی جان سرگودھا سے جب بھی آتے کچھ نہ کچھ نئے ریکارڈ لے آتے تھے — منورعلی ملک 5 جنوری 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل —-
بھائی جان تو گراموفون گھر کی بجائے باھر ھماری بیٹھک پر چلاتے تھے، جہاں ان کے ھمنشین چاچاھدایت اللہ خان نمبردار، چاچا مقرب خان بہرام خیل ، ماسٹرنواب خان، ماسٹر محمد حسین آزاد ، بھائی فتح خان سالار اور کچھ دوسرے لوگ اس دور کے مقبول ترین فلمی نغموں اور غیرفلمی گیتوں پر جھومتے رھتے تھے- ناچنے کا رواج اس زمانے میں نہیں تھا- آہ اور واہ کہہ کر داد دی جاتی تھی-
کیا گیت ھوتے تھے- فلم انمول گھڑی کے گیت “آواز دے کہاں ھے“ ، “جواں ھے محبت حسیں ھے زمانہ“ طلعت محمود کا “تصویر بناتا ھوں تصویر نہیں بنتیََ“ طلعت محمود اور شمشاد بیگم کاا خوبصورت گیت “ملتے ھی آنکھیں دل ھؤا دیوانہ کسی کا“ ‘ ً محمد رفیع کا رلا دینے والا دکھی گیت “ میری کہانی بھولنے والے تیرا جہاں اباد رھے“ اور “اک دل کے ٹکڑے ھزار ھوئے“ کلن خان کی قوالی “جب دل میں مکیں ھے تو میرے صنم پھر تجھ کو ڈھونڈا کون کرے “
طلعت محمود بھائی جان کو خاص طور پہ بہت پسند تھا- اس کا گیت “ ھے یہ وھی آسماں اور ھےے وہ ھی زمیں “ بھی اس زمانے میں بہت مقبول تھا، بھائی جان سرگودھا سے یہ بھی لے آئے-
یہ تمام مقبول گیت اردو میں تھے، پھر بھی دیہات کے چٹے ان پڑھ لوگ بھی انہیں بڑے شوق سے سنتے تھے اور سمجھ بھی لیتے تھے- بلکہ لہر میں آکر گنگناا تے بھی رھتےتھے-
بھائی جان کا گراموفون تو بیٹھک پہ چلتا تھا- میں گھر ھی میں شوق پورا کرتا رھتا تھا- گھر والوں نے بہت شور مچایا کہ یہ کیا مصیبت ھے، مگر میں نے کسی کی نہ سنی،تو سب نے مجھے پاگل سمجھ کر میرے حال پہ چھوڑ دیا ——— منورعلی ملک —6 جنوری 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ——————
گراموفون کا ایک استعمال شادیوں کی تقریبات میں بھی ھوتا تھا- گراموفون کے آگے لاؤڈسپیکر کا مائیک رکھ کر مقبول فلمی گیت رات دن پورے شہر کوزبردستی سنوائے جاتے تھے- “لٹھے دی چادر اتے سلیٹی رنگ ماھیا“ جیسے گیتوں پر رقص بھی کیا جاتا تھا-
پھر ریڈیو کا دور آگیا- داؤدخیل میں پہلا ریڈیو محمد زمان خان بہرام خیل لائے- دوسرا میرے بھائی ملک محمدانورعلی لے کر آئے، تیسرا حق داد خان نمبردار کی بیٹھک کی زینت بنا- لوگ بڑے شوق سے ان ریڈیوز کو دیکھتے اور حیران ھوتے کہ بندہ یا بندی لاھور، کراچی پنڈی یا پشاور میں بیٹھ کر بولتے ھیں تو ان کی آواز یہاں تک کیسے سنائی دیتی ھے-
ریڈیو پاکستان کا سب سے مقبول پروگرام “آپ کی فرمائشَ “ تھا – یہ پروگرام اتوار کو دن کے بارہ سے ایک بجے تک ھوتا تھا- اس میں سامعین کے فرمائشی خطوط کے جواب میں مقبول فلمی نغمے نشر کیئے جاتے تھے- ھر نغمے سے پہلے اس کی فرمائش کرنے والوں کے نام اور ان کے شہروں کے نام بھی بتائے جاتے تھے-
ریڈیو بجلی یا بیٹری سے چلتا تھا- داؤدخیل میں بجلی تو تھی نہیں ، بیٹری والا ریڈیو ھی استعمال ھوسکتا تھا- بعد میں سیل سے چلنے والے چھوٹے ریڈیو آگئے جنھیں ٹرانزسٹر کہتے تھے –منورعلی ملک-7 جنوری 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ————-
صدر ایوب خان کے دور میں ٹیلی ویژن (ٹی وی) آگیا تو ریڈیو پس منظر میں چلا گیا- ابتدا میں ٹی وی پر تصویریں صرف سیاہ و سفید ھوتی تھیں- اشتہارات بھی بہت کم ھوتے تھے- ریڈیو دو تین سو روپے میں آتا تھا، ٹی وٰ ی تین چار ھزار کا، دیہات میں بہت کم لوگ ٹی وی خرید سکتے تھے-
داؤدخیل کے محلہ امیرے خیل میں ماما حمید اللہ خان کی دکان میں محمد نواز خان سالار نے ھوٹلل بنا یا ھؤا تھا- شام کے بعد اس ھوٹل کے صحن میں بہت سے لوگ ٹی وی ڈراما دیکھنے کے لیئے جمع ھوتے تھے- رنگین ٹی وی ابھی داؤدخیل میں نہیں آیا تھا- پی ٹی وی کا شاھکار ڈراما “وارث“ لوگوں نے بلیک انیڈ وائیٹ صورت میں محمد نواز خان کے ھوٹل پر ھی دیکھا- ایک آدھ دفعہ ادھر سے گذرتے ھوئے ھم بھی کچھ دیر کے لیے وھاں رکے- ڈرامے سے بھی زیادہ دلچسپ وھاں بیٹھے ھوئے لوگوں کی آپس میں چھیڑ چھاڑ ھؤا کرتی تھی-
پہلے صرف سرکاری چینل پی ٹی وی ھوتا تھا- اب بے شمار پرائیویٹ چینل بھی میدان میں آگئےے ھیں- ڈراموں کی جگہ ڈراما بازی آگئی ھے- لوگ ٹاک شوز کے نشئی ھو گئے ھیں- بعض بزرگ اشتہارات بھی بڑے شوق سے دیکھتے ھیں- زندگی تماشا بن کر رہ گئی ھے- ——- منورعلی ملک ——–8 جنوری 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل —
موسیقی کے فروغ اور لوگوں کے ذوق کی تربیت کے لیے ریڈیو کی خدمات قابل قدر ھیں- ریڈیو پر عوام کی فرمائشوں پر مبنی فلمی نغمے باقاعدہ نشر کرنے کے علاوہ بھی کلاسیکل اور لوک موسیقی کے پروگرام پیش کیے جاتے تھے- فیروز نظامی، جی اے چشتی اور خواجہ خورشید انور جسے لیجنڈ موسیقار ریڈیو سے وابستہ رھے- ان کی تربیت نے بہت سے گلوکاروں کو بھی لیجنڈ بنا دیا۔ ضلع میانوالی سے امتیازخالق خان , گلستان خان اور گل جہان خان جیسے مقبول و معروف گلوکار انہی بڑے موسیقاروں کے تربیت یافتہ تھے- امتیازخالق صاحب کے حسن تربیت ںے لالاعیسی خیلوی جیسے لیجنڈ گلوکار کو ھارمونیم بجانے کا منفرد انداز عطا کیا-
ٹیلی ویژن نے موسیقی کے فروغ اور عوام کو ذھنی سکون فراھم کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا- — اب تو یوں لگتا ھے کہ ٹی وی کاکام صرف عوام کی ٹینشن (tension) میں اضافہ کرنا,اور انہیں آپس میں لڑانا ھے- —- منورعلی ملک —–10 جنوری 2017
میرامیانوالی/ میرا داؤدخیل —————–
اللہ کا شکر ھے آج لیپ ٹاپ کی نئئ بیٹری لاھور سے آگئی ھے- اس کے لیے دو عزیزوں کا شکریہ ادا کرتا ھوں- اکرم بیٹا تو اسلام آباد میں انٹرنیشنل ادبی کا نفرنس اٹیںد کر رھا تھا- کیو موبائیل والے حاجی اکرام اللہ خان سے کہا میانوالی کے کسی کمپیوٹر ڈیلر کا فون نمبر بتا دیں – انہوں نے سیفیہ کمپیوٹرز کے سمیع خان کا نمبر دے دیا- سمیع خان سے بات کی تو انہوں نے ایک ھی دن میں لاھور سے بیٹری منگواکر دے دی- اس تعاون کے لیے حاجی آکرام اور سمیع خان کا ممنون ھوں- ایسا تعاون بھی میانوالی کے لوگوں کی اک منفرد خوبی ھے-
کل سے انشاء اللہ باقاعدہ پوسٹس کا سلسلہ پھر شروع کروں گا- کچھ نہ کچھ ریسرچ کا کام بھی کرتاا رھتا ھوں- اسلام ، انگریزی زبان ، ادب اور موسیقی وغیرہ کے بارے میں معلومات دیکھتا رھتا ھوں- یہ سب کام رکے پڑے تھے کہ بجلی کے بغیر لیپ ٹاپ کام نہیں کرسکتا تھا–اب انشاءاللہ یہ سب کچھ بھی کرسکوں گا——منورعلی ملک —11 جنوری 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل —
1970 سے فلمی موسیقی کا زوال شروع ھؤا- لڑائی مارکٹائی والی فلمیں منظرعام پر آنے لگیں ، تو لوگوں کی توجہ کا مرکز فلم میں مار کٹائی کے مناظر بن گئے- فلم ساز محض رسم پوری کرنے کے لیے فلم میں پانچ سات گانے بھی شامل کرلیتے ، مگر سستی شاعری اور تیسرے درجے کی گھٹیا موسیقی والے سستے گیت سینما ھال کے باھر سننے کے قابل نہیں ھوتے تھے- بڑے موسیقار فارغ ھو کر گھروں میں گوشہ نشین ھو گئے-کچھ اس دنیا سے رخصت ھوگئے- ان کی جگہ طبلے اور ڈھولک بجانے والے پیشہ ور میراثی موسیقار بن بیٹھے- ایک آدھ گھسی پٹی دھن پر درجنوں گیت ریکارڈ ھونے لگے-
پاکستا نی عوام سادہ اور کم تعلیم یافتہ سہی ، مگر موسیقی کے ذوق سے محروم نہیں- اچھی اور بری موسیقی کا فرق خوب سمجھتے ھیں- گھٹیا درجے کی فلمی موسیقی سے تنگ آکر لوگوں نے موسیقی سننا ھی چھوڑ دیا- ریڈیو کو فرمائشی گیتوں کے پروگرام بند کرنے پڑگئے-
اسی دور میں ٹیپ ریکارڈر منظرعام پر آیا تو موسیقی کے شوقین لوگ پرانے اچھے نغمے کیسیٹس میں ریکارڈ کرا کے سننے لگے- مگرابتدا میں ٹیپ ریکارڈر زیادہ عام اور مقبول نہ تھا- ٹیپ ریکارڈر بسوں۔ ٹرکوں اور ھوٹلوں میں زیادہ استعمال ھوتے تھے-
1977 میں ایک نئی درد بھری آواز ٹیپ ریکارڈرز کی وساطت سے فضا میں گونجنے لگی تو سب لوگ ادھر متوجہ ھوگئے- سب لوگ اس کے شیدائی بن گئے- — باقی قصہ انشاءاللہ کل – منورعلی ملک –12 جنوری 2017
میرا میانوالی / میراداؤدخیل ——————
جی ھاں ، آپ لوگوں کا اندازہ درست تھا- وہ درد بھری آواز ھمارے لالا عطاءاللہ خان عیسی خیلوی کی تھی جس نے موسیقی کے ذوق کو ایک نیا رخ دیا —–
1977 سے لوک موسیقی لوگوں کی سب سے پسندیدہ صنف موسیقی بن گئی- چنگچی رکشہ ڈرائیور سے لے کر جرنیل تک سب لوگ لالا کی آواز کے شیدائی بن گئے- بے شمار لوگ جو موسیقی سننا پسند ھی نہیں کرتے تھے، وہ بھی اس آواز کو بڑے شوق سے سننے لگے- لاکھوں لوگوں نے ٹیپ ریکارڈر صرف لالا کی آواز سننے کے لیے خریدلیے– ان میں بعض تلہ گنگ کے قریبی گاؤں بلال آباد کے فیصل جیسے سر پھرے لوگ بھی تھے-
فیصل نے ایک دفعہ میرے نام ایک خط میں لکھا ——- “سرجی، اسلام آباد کے ایک کیسیٹ ھاؤس میں لالا کی پرانی میکدے کے زمانے کی کیسیٹ نظرآئی- قیمت پوچھی تو دکان دار نے کہا پانچ سو روپے- سرجی میں نے اپنا ٹیپ ریکارڈر بیچ کر وہ کیسیٹ خرید لی کہ محنت مزدوری کر کے نیا ٹیپ ریکارڈر تو بعد میں خرید لوں گا، یہ کیسییٹ پھر شاید ملے نہ ملے-
لوک موسیقی کی بے پناہ مقبولیت کو دیکھ کر مرحومہ نازیہ حسن جیسی مقبول ترین پاپ سنگر بھی “ ٹاھلی دے تھلے بہہ کے ” جیسے گیت گانے پر مجبور ھوگئیں- استاد امانت علی خان کے صاحبزادے اسد امانت علی خان بھی “ پباں بھار نچدی پھراں“ گانے لگے-
اب اس گلی میں آھی گئے ھیں- تو ایک دودن ادھر ھی قیام کرلیں، پھر واپس داؤدخیل جائیں گے- چلنا تو آپ کو بہر حال میری انگلی پکڑ کر ھوگا- جدھر لے جاؤں میری مرضی ——– منورعلی ملک-13 جنوری 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ——————
میں لالا کو درد کا سفیر ایسے ھی نہیں کہتا – درد محبوب سے بچھڑنے کا ھو، یا وطن سے جدا ھونے کا، دکھ کسی ماں کو جواں بیٹے کی موت کا ھو یا کسی بچے کو اپنا کھلونا ٹوٹ جانے کا، لالا کی آواز ھر دکھ درد کو چھیڑ کر آنسؤوں کی شکل میں دل کا بوجھ ھلکا کردیتی ھے- اسی لیے 1974 میں لالا سے پہلی ملاقات میں اس کے درد بھرے گیت سن کر میں نے اپنی تازہ غزل کے آخری شعر میں کہا تھا-
اس کی آواز نمک ھے مرے زخموں کے لیے
آہ، ساجد سے مری کیسی شنا سا ئی ھے
یاد رھے کہ ساجد اس زمانے میں لالا کا تخلص ھؤا کرا تھا – لالا ایک ماھیا بھی گایا کرتا تھا-
سجدہ ساجد دا شالا رب منظور کرے
لگتا ھے رب کریم نے اس کا سجدہ منظور کرکے اسے زمانے بھر کا محبوب بنا دیا-
میری کل کی پوسٹ پر کمنٹ میں سمیع خان نے کہا —- “سر میں نے اپنے کمرے کی ایک الماری میں لالا کے 285 کیسیٹ بہت سلیقے سے محفوظ کر رکھے ھیں- پہلے 317 تھے، کچھ میرے مہربان دوستوں نے غائب کر دیئے- آج میر ے بھتیجے کہتے ھیں ، چاچو، یہ کون سی چیزیں ھیں ، جو آپ نے اس طرح سنبھال کر رکھی ھوئی ھیں ؟ “
میرے بہت پیارے سٹوڈنٹ میجر میاں محمد قریشی نے اپنے کمنٹ میں کہا “ سر، میں 1992-93 میں اقوام متحدہ کے مشن پر کمبوڈیا میں متعین رھا – وھاں اقوام مٹحدہ کی جتنی گاڑیاں پاکستانیوں کے پاس تھیں سب میں لالا ھی کے کیسیٹ چلتے تھے “یوں سمجھ لیجیے کہ جس طرح علامہ اقبال ھمارے قومی شاعر ھیں، لالا ھمارا قومی گلوکار ھے- ھے نا یہی بات –؟
حضور تو خوب جانتے ھیں فقیر کے پاس اور کیا ھے ؟
یہ چار آنسو جو آنکھ میں ھیں یہ خاک میں مل نہ جائیں آقا — منورعلی ملک —14 جنوری 2017-
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ———————
دل بہت دکھتا ھے ان لوگوں سے مل کر , جو لالا سے ملنے کی حسرت دل میں لیے پھر رھے ھیں – ایک طرف ان کی بے قراری، دوسری طرف لالا کی مصروفیات اور مجبوریاں ، کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ان مخلص , معصوم لوگوں کے سوالات کا کیا جواب دیا جائے-
لالا کے دوسرے قریبی دوستوں کی طرح مجھ سے بھی کہا جاتا ھے کہ لالا سے ملاقات کرادیں- مگر مسئلہ یہ ھے کہ لالا کا کچھ پتہ ھی نہیں چلتا کہ وہ اس وقت کہاں ھے- صبح عیسی خیل، شام لاھور ، دوسرے دن بیرون ملک- بعض اوقات یہ ظلم بھی ھوتا ھے کہ ایک آدمی صرف لالا سے ملنے کے لیے کوئٹہ ، پشاور یا بہاولپور سے لاھور یا عیسی خیل پہنچ تو جاتا ھے، مگر سیکیورٹی والے اسے اندر نہیں جانے دیتے، اور وہ بچارا وھیں سے واپس لوٹ جاتا ھے-
ایک آدھ مرتبہ یوں ھؤا کہ کوئی صاحب عیسی خیل یا لاھور لالا کی رھائش گاہ پر پہچے تو سیکیورٹی والوں کے روکنے پر انہوں نے فون پر مجھے بتایا کہ یہ صورت حال ھے- میں نے فون پر لالا سے کہہ کر انہیں ملاقات کی اجازت دلوا دی- یہ بھی ان کی خوش قسمتی تھی کہ لالا فون پر مل گیا- اگرلالا کا فون بند ھوتا تو ان کی ملاقات بھی نا ممکن تھی-
ایک دفعہ لالا سے بات کی تو اس نے اپنی مجبوریاں بتاتے ھوئے کہا “ منور بھائی، آپ جانتے ھیں کہ میں کسی انسان تو کیا، کسی کتے کا دل بھی نہیں دکھا سکتا ,-مگر ھر انسان کی طرح میری بھی کچھ مجبوریاں ھیں- اللہ ان سب دوستوں کو بہت عزت اور سکون عطا فرمائے جومجھ سے اتنی محبت کرتے ھیں- اللہ نے چا ھا تو کبھی ملاقات بھی ھو جائے گی –
اسی موضوع پر ایک اور پوسٹ انشاءاللہ کل ھوگی، پھر کسی اور گلی کی سیر کو نکل جائیں گے – —— منورعلی ملک —–
گاؤں کی قومی اسمبلی کا اجلاس ——- بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کےخلاف گالیوں سے بھر پور قرارداد پر غور–15 جنوری 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ———–
ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد لالا کے والد محترم نے لکڑی چیرنے کی آرا مشین لگا کر کاروبار شروع کیا- مشین کاکام لالا ھی کرتا تھا- یہ کاروبار کچھ زیادہ نفع بخش ثابت نہ ھؤا تو لالا کے والد نے کپڑے کاکاروبار شروع کردیا- یہ کاروبار بھی راس نہ آیا تو لالا کے مشورے پر عیسی خیل کے مین بازار میں ایک چھوٹا سا جنرل سٹور بنا لیا- اس جنرل سٹور کا نام “الصد ف“ عتیل صاحب نے تجویز بھی کیا، دکان کی پیشانی پر خوبصورت انداز میں لکھ بھی دیا- عیسی خیل جیسی ویران جگہ پر جنرل سٹورتو کیا چلناتھا، بس گذارہ ھی تھا-
لالا ان دنوں عطاءاللہ خان شاھین کے نام سے تحصیل عیسی خیل میں پیپلز پارٹٰی کی یوتھ آرگنائیزیشن کا صدر بھی تھا- ذوالفقار علی بھٹو ورکرز کا بہت خیال رکھتے تھے- جب وہ وزیر اعظم بنے تو انہوں نے پیپلز یوتھ / پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے عہدیداروں میں سائیکلیں تقسیم کیں- یوں ایک نئی نکور سہراب سائیکل لالا کو بھی مل گئی- لالا کو اس پر سوار ھوتے تو کبھی نہ دیکھا (شایدچلانا نہیں آتا تھا) ،البتہ دکان پر اسے اپنے ساتھ ٹور کر (چلاکر) لے جاتے بہت دیکھا-
بھٹو صاحب نے اصل مہربانی یہ کی کہ لالا کے والد صاحب کو گھی، چینی وغھیرہ کا راشن ڈپو الاٹ کر دیا- اس طرح انہیں ایک معقول آمدنی والا باعزت ذریعہ معاش مل گیا-
کچھ باتیں باقی ھیں ، وہ انشاءاللہ کل ھوں گی، اس کے بعد داؤدخیل جانے کا پروگرام فائینل ھوچکا- آپ کو ساتھ چلنا ھوگا ——- 16 جنوری 2017
میرا میانوالی/ میراداؤدخیل ——————
روزانہ کالج سے واپسی پر ھم (مرحوم پروفیسر چوھدری محمد رمضان، پروفیسر منیر حسین بھٹی ، پروفیسر ملک محمد یوسف چھینہ اور پروفیسر حسین احمد ملک) مین بازار سے گذرتے – باقی دوست لالا سے علیک سلیک کے بعد آگے چلے جاتے، میں کچھ دیر وھاں رک جاتا- لالا دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے گھر جاتا تو میں بھی اس کے ساتھ اپنے گھر کو روانہ ھو جاتا-
ھر دوسرے تیسرے مہینے لالا الصدف جنرل سٹور کا سامان خریدنے کے لیے بس پہ بیٹھ کر لاھورر جایا کرتا تھا- موٹروے تو اس وقت تھی نہیں، چنیوٹ کے راستے نو دس گھنٹے کا سفر ھوتا تھا-
1977-78 میں رحمت گراموفون کمپنی نے لالا کے پہلے چار والیوم (کیسیٹ) ریلیز کیے- اس کے بعد کاحال آپ جانتے ھیں- دیکھتے ھی دیکھتے لالا دنیا بھر میں معروف و مقبول ھوگیا- اللہ کے فضل سے اس کا ایک عالیشان گھر عیسی خیل میں ھے، ایک لندن میں ، دو لاھور میں—- اسی لاھور میں جہاں لالا کسی زمانے میں بس پہ بیٹھ کر آتا ، لاری اڈے سے رکشے میں بیٹھ کر شاہ عالم مارکیٹ (شاہ عالمی) آتا- وھاں سے دکان کا سامان خرید کر رکشے یا تانگے میں واپس لاری اڈے پپہنچتا ، اور وھاں سے بس پہ عیسی خیل روانہ ھو جاتا—– آج لالا کے پاس اپنی لینڈ کروزر گاڑی ھے-
قرآن حکیم میں ھے کہ اللہ جسے چاھے بے حساب رزق دے دیتا ھے- “جسے چاھے“ والی لسٹ وہ خود بناتا ھے، سفارش یا کوشش سے کوئی انسان اس لسٹ میں اپنا نا م نہیں لکھوا سکتا- بحمداللہ لالا کا نام اس لسٹ میں درج ھو گیا- یہ شاید لالا کے صبر تحمل اور محنت کا صلہ ھے- ایک اھم بات یہ ھے کہ عالمگیر شہرت کے باوجود سادگی اور عاجزی آج بھی لالا کے کردار کے نمایاں اوصاف ھیں-
کل سے انشاءاللہ کوئی اور قصہ شروع ھوگا- لالا کا ذکر بھی کبھی کبھار موقع کے مطابق ھوتا رھے گا- فی الحال ھم کچھ اور گلیوں کی سیر کریں گے کہ ادھر بھی بہت سے لوگ ھمارے منتظر بیٹھے ھیں – منورعلی ملک –17 جنوری 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل —————-
چند روز پہلے یہی پکچر ایک اور حوالے سے پوسٹ کی تھی- وہ حوالہ بھی درست تھا ، مگر دراصل یہ پکچر مجھے داؤدخیل میں اپنی چوک کا منظر یاد دلاتی ھے- چوک دیہات میں بزرگوں کے مل بٰیٹھنے کی جگہ کو کہتے ھیں-
ھماری چوک ھمارے گھرکی چارکنال پر محیط چار دیواری کے باھر، گیٹ کے سامنے چار کنال کاا میدان ھے- یہ میدان ھمارے خاندان کی مشترکہ ملکیت ھے- میدان کے شمالی سرے پر ایک کمرے اور برآمدے پر مشتمل بیٹھک ھؤاکرتی تھی- گیٹ کے بائیں جانب دو کمروں پر مشتمل مہمان خانہ تھا- میدان کے جنوبی سرے پر بالکل ایسا ھی چھپر ھوتا تھا جیسا اس پکچر میں نظر آرھا ھے- گرمی کے موسم میں لوگ اس چھپر کے سائے میں بیٹھتے تھے- سردی میں سامنے کھلی دھوپ میں ، جیسے اس پکچر میں لوگ نظر آرھے ھیں – بیٹھنے کے لیے چارپائیوں کے علاوہ ، چارچارپائیوں کے برابر ایک چارپایہ بھی ھؤا کرتا تھا، جسے ماچہ کہتے تھے- ایک دو کرسیاں بھی تھیں- ٹھنڈے پانی کے دو چار گھڑے اور گلاس یا مٹی کے بادیئے بھی ایک گھڑونجی پر رکھے ھوتے تھے- مندہ خیل کے دادا خدا یار ھماری چوک کی دیکھ بھال کا کام کرتےتھے—-
داداجی کے حوالے سے ھماری چوک آج بھی مولوی خیلاں والی چوک کہلاتی ھے، کیونکہ دادا جی کو لوگ مولوی جی صاحب کہا کرتے تھے-
یہ سارا بندوبست ھمارے داداجان مرحوم مولوی ملک مبارک علی نے کیا ھؤا تھا- داداجان پورے شہر کے متفقہ بزرگ تھے- چوک پر بیٹھنے والے ان کے مستقل ساتھیوں میں سے ، دادا عالم خان مشانی، چاچا ھدایت اللہ خان نمبر دار اور چاچا مقرب خان بہرام خیل کے نام اس وقت یاد آرھے ھیں – ھماری چوک داؤدخیل کی عدالت بھی تھی- چھوٹے موٹے تنازعات کے فیصلے دادا جان اور چاچاھدایت اللہ خان نمبردار مل کر کردیا کرتے تھے- دادا جان داؤدخیل کے لوگوں کا بنک بھی تھے- لوگ اپنے پیسے ان کے پاس امانت رکھتے تھے- دادا جی کے حوالے سے ھمارا محلہ بھی مبارک آباد کہلاتا ھے — ٰ کچھ باتیں انشاءاللہ کل ھوں گی-
ایک سال سے آپ میرے ساتھ پھر رھے ھیں- ابھی تک میں نے اپنے خاندان کے بارے میں آپ کو کچھ نہیں بتایا تھا- بات سے بات نکل آئی ھے تو اب دو تین دن یہ داستان بھی سن لیجیے —18 جنوری 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ———–
جس زمانے کا ذکر میں اپنی چوک کے حوالے سے کر رھا ھوں یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کے قیام کے لیے جدوجہد زوروشور سے جاری تھی- چوک پر بیٹھنے والے بزرگوں میں سے صرف داداجان اور چاچا ھدایت اللہ خان نمبردار تعلیم یافتہ تھے- باقی سب بزرگ چٹے ان پڑھ تھے، لیکن قیام پاکستان سے ان کی دلچسپی اور اس مقصد کے لیے ان کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا-
اس وقت داؤدخیل میں ریڈیو اور ٹیلیفون تو دستیاب نہ تھا- خبروں کے حصول کا واحد زریعہ اخبار تھا- وہ بھی ڈاک سے دوسرے دن پہچتا تھا- دادا جی نے اس دور کا اکلوتا اخبار“زمیندار“ اپنے نام جاری کرا رکھا تھا- اخبار پہنچتے ھی سب بزرگ خبریں سننسے کے لے لیے بے چین ھو جاتے تھے- پڑھ تو وہ سکتے نہیں تھے، صرف سن ھی سکتے تھے- داداجی اور چاچا ھدایت خبریں پڑھ کر سنایا کرتے تھے- بابا جناح کا نام سنتے ھی ان بزرگوں کے سر فخر سے بلند ھو جاتے- وہ بڑے خلوص سے بابا جناح کو دعائیں دیتے، اور اتنے ھی جوش و خروش سے ھندوؤں کے لیڈر گاندھی کو گالیاں بھی ضروردیتے- بڑی کراری گالیاں ھوتی تھیں ، مگر وہ لکھی نہیں جا سکتیں-
داداجی تو اپنے خوابوں کی تعبیر نہ دیکھ سکے، قیام پاکستان سے ایک سال پہلے اس دنیا سے رخصت ھوگئے- باقی تمام بزرگ جب تک زندہ رھے مولوی جی صاحب کی چوک پہ روزانہ حاضری دیتے رھے- بہت روتے تھے دادا جی کو یاد کرکے- 19 جنوری 2017
میرا میانوالی / میراداؤدخیل —————-
ھماری چوک پہ بیٹھنے والے بزرگ پڑھے لکھے تو نہیں تھے، مگر ان کی بعض باتیں بہت گہری ھوتی تھیں- خاص طور پر طنز اس انداز میں کرتے تھے کہ انسان ان کی بات سن کر حیران رہ جاتا تھا-
داداعالم خان مشانی ایک دن کہنے لگے، “ پتر تمہیں پتہ ھے گھر کے لوگ گھر کے بوڑھے آدمی کی خدمت کیوں کرتے ھیں ؟“
میں نے کہا جی نہیں-
دادا عالم خان نے کہا “ بیٹا، گھرکے لوگ اپنے بابے کی خدمت اس لیے کرتے ھیں کہ بابا تین کام کرتا ھے- اس کا پہلاکام تالے کا ھے- جب گھر کے لوگ گھر سے باھر کہیں جائیں تو انہیں گھر کو تالا نہیں لگانا پڑتا- بابے کا دوسرا کام کتے کا ھے کہ جب گھر میں کوئی نہ ھو تو بابا گھر کی رکھوالی کرتا ھے- کسی اجنبی کو گھر میں داخل نہیں ھونے دیتا- بابے کا تیسراکام گھر کے مالک کا ھے- جب گھر میں کوئی اور نہ ھو تو بابا ھی گھر کا مالک ھوتا ھے-
دادا عالم خان کی اس بات میں طنز کی دھار تلوار سے بھی زیادہ تیز ھے- طنز ان لوگوں پر ھے جو اپنے بزرگوں کی قدر نہیں کرتے — دادا کی بات کا اصل مطلب یہ ھے کہ بزرگوں کو بے کار نہ سمجھا جائے، کیونکہ وہ کم از کم یہ تین کام تو بہرحال کرتے ھی ھیں- اس لیے وہ کچھ نہ کچھ خدمت کے مستحق ضرور ھیں –
کل انشاءاللہ ان بزرگ دانشوروں کی کچھ اور دلچسپ باتیں آپ کے ساتھ شیئر کروں گا- ——– منورعلی ملک ——–20 جنوری 2017
میرا میالوالی / میرا داؤدخیل ———-
چاچا مقرب خان بہرام خیل کا ا ایک اپنا انداز گفتگو تھا- بہت دلچسپ شخصیت تھے- ایک دن مجھ سے پوچھا “آج ساون کی کون سی تاریخ ھے؟“
میں نے کہا “چاچا، آج ١٥ جولائی ھے“
چاچا نے غصے سے کہا “ جولائی کیا بلاھے- یہی توتم پڑھے لکھے لوگوں کا مسئلہ ھے کہ تمم لوگ کچھ بھی نہیں جانتے- ایویں ای چٹے کپڑے پہن کر معتبر بنے پھرتے ھو- کیا فائدہ تمہاری اس تعلیم کا، جو تمہیں ساون کی تاریخ بھی نہیں بتا سکتی ؟“
ایک اور بزرگ نے ساون کی تاریخ بتا کر میری جان چھڑائی-
ایک دفعہ داؤدخیل میں ایک سیاسی جماعت کاجلسہ ھؤا- ھمارے محلے کا ایک نوجون اس سیاسی جماعت کا سرگرم کارکن تھا- وہ جلسے میں حاضری دے کر واپس آیا تو چاچا مقرب خان نے پوچھا “ کیسا رھا تمہارے لیڈر کا جلسہ ؟“
نوجوان نے کہا “ چاچا زبردست جلسہ تھا“
چاچا نے کہا “ بندے کتنے تھے اس جلسے میں؟“
اس نے کہا “ ایک سو کے قریب بندے ھے“
چاچا مقرب خان نے مایوس لہجے میں کہا “ یہ تو کوئی خاص بات نہ ھوئی- اتنے بندےتوپاگل کتے کو مارنے کے لیے بھی اکٹھے ھو جاتے ھیں “
اسی طرح ، واقعہ کوئی بھی ھو اس پر چاچا مقرب خان کے کمنٹس سن کر ھر طرف قہقہے گونج اٹھتے تھے– کیا نرالے لوگ تھے یہ بزرگ بھی ! منورعلی ملک –21 جنوری 2017
عزیز دوستو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ –
“فیس بک سے دوستی“ کے حوالے سے چند پرانےے مستقل فیس بک فرینڈز کا تعارف رہ گیا تھا- مصروفیات اور آنکھ کے آپریشن کی وجہ سے یہ سلسلہ بند کرنا پڑا- مگر ضمیر پہ ایک بوجھ سا تھا، کہ ان دوستوں کا حق ادا نہیں کیا- اب ان دوستوں سے رابطہ کرکے ان کی پکچرز اور معلومات لے رھا ھوں- انشاءاللہ ھفتے میں دودن “فیس بک سے دوستی “ کی پوسٹس بھی آپ کی خدمت میں پیش کروں گا-
اس سلسلے کی پہلی پوسٹ انشاءاللہ کل ھوگی- اس پوسٹ کے لیے اپنے بہت پیارے سٹوڈنٹ اور فیس بک فرینڈ میجر میاں محمد قریشی سے رابطہ کیا، تو انہوں نے کہا “سر، میں چاھتا ھوں کہ پہلے آپ میرے والد محترم کے بارے میں لکھیں ، جو چند ماہ پہلے یہ دنیا چھوڑ کر عدم آباد میں جا بسے- میجر صاحب نے اپنے والد گرامی کے بارے میں کچھ معلومات بھی فراھم کر دی ھیں- سو کل کی پوسٹ ان کے بارے میں ھوگی – —- منورعلی ملک
فیس بک سے دوستی ——
میرے بہت عزیز سٹوڈنٹ اور اولیں فیس بک فرینڈ میجر میاں محمد قریشی نے اپنے والد محترم مرحوم سراج الدین قریشی کے حوالے سے بتایا کہ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران والد محترم پاک فوج کی پنجاب رجمنٹ میں سپاھی کی حیثیت سے مشرقی پاکتان میں موجود تھے- جنگ کا انجام تو سب جانتے ھیں- موصوف سراج الدین صاحب بھی جنگی قیدیوں میں شامل تھے- دوسال دوماہ بعد قیدیوں کو رھائی ملی تو وہ بھی وطن واپس آئے، ان کے صاحبزاد ے میاں محمد قریشی انہیں ھمراہ لے کر ماڑی انڈس ٹرین پرلاھور سے میانوالی پہنچے تو ریلوے سٹیشن پر بہت سے لوگ پھولوں کے ھار لے کر ان کے استقبال کے لیے موجود تھے- موصوف نے ان لوگوں سے روتے ھوئے کہا
“ یہ کیا تماشا ھے؟ میں آدھا ملک دے کر آرھاھوں- یہاں سے ایک بندوق لے کر گیا تھا ، وہ بھی ھندؤوں کو دے کر آرھا ھوں – میرااستقبال تو پھولوں کی بجائے جوتوں کے ھاروں سے ھونا چاھیے تھا-“ موصوف کا یہ دردناک خطاب سن کر سب لوگوں کی آنکیھں بھیگ گئیں-
میانوالی سے بس میں بیٹھ کر اپنے گاؤں پکی شاہ مردان پہنچے تو وھاں بھی استقبال کے لیے لوگ جمع تھے ‘ موصوف نے انہیں بھی استقبال سے روک دیا اور چادر کے پلو سے منہ چھپائے ھوئے گھر پہنچے- گھر والوں سے کہا “کاش سرکار آج بھی مجھے بندوق دے کر پاک وطن کی سرحد کی حفاظت کے لیے بھیجنا چاھتی تو میں ایک منٹ بھی گھر میں بیٹھنا پسند نہ کرتا“-
پاک سرزمین کے یہ مرد مجاھد 3 اگست 2016 کو راولپنڈی میں اپنے صاحبزادےمیجرمیاں محمد قریشی کے ھاں اس دنیا سے رخصت ھوگئے- ان کے جوش جہاد کا صلہ رب کریم نے یوں دیا کہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ھوئے تو ان کے پانچ بچے پاک آرمی میں افسر تھے — منورعلی ملک-22 جنوری 2017
میرامیانوالی / میراداؤدخیل ——————–
دادا جی کی وفات کے بعد ھماری چوک کو میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی اور میرے چچاا ملک محمد صفدرعلی نے آباد رکھا- چاچا ھدایت اللہ خان نمبردار، ماسٹر نواب خان، ان کے دونوں بھائی، ماسٹردرازخان، چاچا سہراب خان، چاچا مقرب خان بہرام خیل، ان کے صاحبزادے بہادرخان فوجی، عبدالمجید خان فوجی، غلام حسین خان خانے خیل، ان کے بھائی غلام مصطفی خان، عبدالعزیزخان خانے خیل ، ماسٹرمحمدحسین آزاد اور بھائی فتح خان سالار ان کے مستقل ھم نشین تھے- یہ سب لوگ اس دنیا سے رخصت ھوگئے، اس لیے ان کا ذکر کرنا ضروری تھا-
مولانا عبدالستار خان نیازی میرے والد محترم کے سٹوڈنٹ رہ چکے تھے- وہ بھی کبھی کبھار یہاںں تشریف لاتے تھے- اردوکے سب سے بڑے ناول نگار عبداللہ حسین بھی بھائی جان کے دوست تھے- وہ داؤدخیل کی میپل لیف سیمنٹ فیکٹری میں انجینیئر تھے٠ ان کا ناول “اداس نسلیں“ پچھلی صدی کا اردو کا سب سے بڑا ناول سمجھا جاتا ھے- عبداللہ حسین یہاں سے برطانیہ چلے گئے- چندسال پہلے واپس آکر لاھور میں آباد ھوئے ، پچھلے سال یہ دنیا چھوڑ کر عدم آباد میں جابسے- ھم داؤدخیل کے لوگوں کے لیے فخر کی بات یہ ھے کہ اردو کا سب سے بڑا ناول اداس نسلیں عبداللہ حسین نے اس زمانے میں لکھا جب وہ داؤدخیل کی میپل لیف سیمنٹ فیکٹری میں متعین تھے- عبداللہ حسین کئی دفعہ ھماری چوک پر بھی آئے—— کچھ باتیں انشاءاللہ کل شیئر کروں گا- منورعلی ملک -24 جنوری 2017 —
داؤدخیل ———————–میرامیانوالی / میراداؤدخیل —
ھماری چوک ایک قسم کا کمیونٹی سنٹر تھی- لوگ آپس میں مل بیٹھتے- اپنے مسائل کے بارے میں مشاورت کرتے، قومی سیاست اور شہر کی نئی تازی خبروں پر بحث کرتے- محلے کے لوگوں کی شادی بیاہ کی تقریبات بھی یہیں منعقد ھوتی تھیں-
زندگی بہت سادہ تھی، لوگوں کے پاس مل بیھنے کا وقت بہت ھوتا تھا- اکثر لوگ کاشتکار تھے- بارانی زمینیں تھیں، سال بھر میں صرف گندم کی ایک فصل ھوتی تھی- گندم کاشت کر کے لوگ دوچار مہینے کے لیے فارغ ھو جاتے تھے- اللہ پر توکل کرنے والے لوگ تھے- فصل پکنے تک کھیتوں کا رخ نہیں کرتے تھے- اس لیے دن بھر چوک پہ بیٹھے رھنا ان کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا- یہاں بیٹھ کر وہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ بھی بانٹ سکتے تھے، بنسی مذاق کر کے دل بھی بہلا سکتے تھے-
داؤدخیل میں دوچار چوکیں اور بھی تھیں- محلہ علاؤل خیل میں سید گل عباس شاہ کی چوک تھی- ریلوے سٹیشن کے قریب شیرخان کی چوک تھی، حق داد خان نمبردار کی چوک محلہ داؤخیل میں تھی ، چاچا نور محمد موچی کی دکان پہ تازی کتوں والے بزرگ خرگوش کے شکار کے منصوبے بنایا کرتے تھے- ان میں چاچا حاجی غلام رسول بھی تھے، نماز روزے کے سخت پابند تھے، ایک دفعہ کچے کے علاقے میں شکار کے دوران عصر کی نماز کا وقت ھو گیا، تو اپنے کتے کی زنجیر کا ایک سرا اپنی ٹانگ سے باندھ کر نماز ادا کر لی-
چاچا گھیبہ سنار کے ھاں بٹیر بازی کے شوقین بزرگ بیٹھتے تھے- بٹیر بازی میں داؤدخیل پورےضلع میانوالی میں مشہور تھا- اس محفل میں بٹیروں کی عادات اور ان کی ضروریات پر معلومات سے لبریز گفتگو ھوتی تھی— اس سہانے سادہ دور کاذکر انشاءاللہ ابھی جاری رھے گا —منورعلی ملک —25 جنوری 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل —————–
دسمبر 1987 میں بھائی جان محمدانورعلی ملک ایک حادثے میں جاں بحق ھوگئے- مرحوم دادا جانن کے حقیقی جانشین تھے- پورے شہر بلکہ علاقے کی مقبول و محترم شخصیت تھے- دادا جی کی طرح وہ بھی طویل عرصہ داؤدخیل سکول کے ھیڈماسٹر رھے- ان کے جانے کے بعد چچا ملک محمد صفدرعلی نے چوک کو آباد کیئے رکھا-
میرے ماموں زاد بھائی ملک اعجازحسین اختر سپریم کورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار تھے- 1992 میں وہہ ملازمت سے ریٹائرھو کر آئے تو چوک کی رونق پھر کافی حد تک بحال ھو گئی- کچھ پرانے چوک نشینوں کے علاوہ بھائی جان اعجاز کے قریبی دوست ارسلاخان نمبر دار اور فتح محمد ارائیں بھی اس محفل کے مستقل رکن بن گئے-ارسلا خان نمبردار بہت زندہ دل انسان تھے- ھر وقت ھنستے ھنساتے رھتے تھے- چوک کا ماحول خاصا خوشگوار رھا- پھر بھائی جان بیمار پڑگئے تو یہ رونقیں بھی جاتی رھیں- گردوں کی مہلک بیماری نے 1996 میں ھمارے خاندان کا یہ تابناک چراغ بھی بجھا دیا-
چوک کی محفل کے دوسرے لوگ بھی ایک ایک کرکے اس دینا سے رخصت ھوگئے- چچا جانن ملک محمد صفدرعلی خاندان کی روایت کو زندہ رکھنے کے لیے چوک کی سرپرستی کرتے رھے- سیدذاکرحسین شاہ بخاری، ماسٹر محمدحسین آزاد، ھمارے کزن محمد عظیم ھاشمی, ملک فرحت عباس اور ملک ریاست علی نے محفل کو آباد رکھا- 2005 میں چچا جان بھی یہ دنیا چھوڑ گئے اور چوک ویران ھوگئی-
اس سلسلے کی کل کی پوسٹ بہت اھم ھوگی- انشاءاللہ کل ملیں گے- ——- منورعلی ملک–26 جنوری 2017 –
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ———————
میں نے زندگی کے پہلے 35 سال داؤدخیل میں گذارے- ملازمت بھی داؤدخیل اور ٹھٹھی کےے سکولوں میں کی- جب پروفیسر بنا تو گھر چھوڑنا پڑا- پہلے عیسی خیل کالج میں رھا، ملازمت کے آخری بیس سال گورنمنٹ کلج میانوالی میں بسرھوئے- ملازمت اور اپنے بچوں کی تعلیم کی خاطر داؤدخیل سے باھر رھنا پڑا- بیٹی اور دو بیٹوں کی شادیاں بھی میانوالی میں ھوگئیں- دونوں بیٹوں نے میانوالی میں گھر بھی بنالیے- اللہ بھلا کرے میانوالی کے لوگوں کا انہوں نے اتنا احترام اور پیار دیا کہ میں یہیں کا ھو کر رہ گیا- لیکن ——– داؤدخیل تاں وت داؤدخیل ھے ناں !!!
بچپن اور زیادہ تر جوانی داؤدخیل میں گذری- اب جبکہ تمام ذمہ داریاں بفضلہ تعالی پوری ھو چکیںں – اب داؤدخیل میں اپنے کچھ رکے ھوئے کام مکمل کرنے ھیں- چوک کی ویرا نی بھی مجھ سے نہیں دیکھی جاتی، کیونکہ چوک تو ھمارے خاندان کی شان اور پہچان رھی ھے- پرانے لوگ تو اس دنیا سے اٹھ گئے- دو چار اب بھی بحمداللہ زندہ وسلامت ھیں- جب کبھی داؤدخیل جاتا ھوں وہ بڑی حسرت سے مجھے دیکھتے ھیں ، جو بھی ملتا ھے کہتا ھے “ ھنڑں تاں ول آ “ –
مجھے یقین ھے کہ میں وھاں بیٹھ جاؤں تو چوک انشاءاللہ پھر آباد ھو سکتی ھے- بچے کھچےے بزرگوں کے علاوہ مرحوم بزرگوں کے بیٹے اور پوتے بھی فیس بک کے توسط سے مجھ سے متعارف ھو چکے ھیں- وہ بھی میری واپسی چاھتے ھیں- خوب رونق بن جائے گی- وہ مجھ سے کچھ سیکھیں گے، کچھ (فیس بک کا کام) میں ان سے سیکھوں گا-
اس لیے اب یہ ارادہ ھے کہ مارچ اپریل میں داؤدخیل منتقل ھو جاؤں- اللہ ھمت اور توفیق عطاا فرمائے- پہلے اپنے گھر میں کچھ تعمیرومرمت کا کام کرواؤں گا اس کے بعد چوک کی تعمیر نو کا ارادہ ھے٠ —— کچھ باتیں انشاءاللہ کل ھوں گی
پکچر —— بلال مسجد ، داؤدخیل)منورعلی ملک ——–27 جنوری 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ————————
میری کل کی پوسٹ پر اپنے داؤدخیل کے لوگوں کا رسپا نس دیکھ کر دل خوش ھو گیا- یہ تو صرفف وہ نوجوان لوگ ھیں ، جو فیس بک ا ستعمال کرتے ھیں- ان میں سے اکثر نے مجھے دیکھا بھی نہیں، مگر میرے خا ند ان کو جانتے ھیں- میری تحریریں اس لیے فخر سے پڑھتے ھیں کہ لکھنے والا ان کا اپنا داؤدخیلوی ھے- ان سب سے ملنا میرے لیے یقینا بہت خوشی کاباعث ھوگا-
ان نوجوانوں کے علاوہ بھی بے شمار لوگ میری واپسی پر بہت خوش ھوں گے- میرے ھم عمروںں میں ھمارے محلے کے شیرمحمد خان خانے خیل ، حفیظ جنرل سٹور والے عبداللہ خان، عبداللہ خان ولد نورباز خان، خالق داد خان بہرام خیل، محمد صدیق خان بہرام خیل ، طالب حسین شاہ بخاری، میرے پرانے سٹوڈنٹس میں سے حاجی عبیداللہ خان شکور خیل، ملک غلام عباس اعوان، ماسٹر فیض محمد فانی ماسٹرخالد خان، ماسٹر ظفراللہ خان، ھمارے کزن بھائی فرحت عباس، سعادت علی، عبدالعزیز، غلام رسول , تاج محمد ، سید محمد اور یارمحمد ھاشمی- ڈاکٹر منظور حسین بھی خیر سے زندہ و سلامت ھیں- لالا وزیراحمد، امیرحسن ، اور بھی بہت سے لوگ مجھے جاننے والے موجود ھیں—- جولوگ ھم سے بچھڑ گئے، ان کی کمی بہر حال محسوس ھوتی رھے گی- وہ خود تو اس دنیا میں موجود نہیں ، لیکن یادوں کے وسیلے سے ھم انہیں بھی اپنی محفلوں میں شامل رکھیں گے-
ھم اپنے بچپن کے داؤدخیل کی یادیں بھی آپسس میں شیئر کریں گے- یہ چھوٹا سا گاؤں تھا- پورے گاوں میں بمشکل آٹھ دس دکانیں تھیں- ھمارے گھر کے دائیں طرف چاچا اولیا کی دکان تھی- ھمارے گھر کے سامنے والی مین سڑک پر صرف ماسٹر عبدالحکیم صاحب کی دکان، محلہ امیرے خیل میں اسی سڑک پر ماما حمیداللہ خان کی دکان، اور مسجد خدر خیل کے پاس شاہ نواز خان ولد بلند خان کی دکان- بس اور کوئی دکان اس سڑک پر موجود نہ تھی- مسجد خدر خیل اور محلہ خدر خیل کا نام ونشان بھی نہ تھا- خدر خیل قبیلہ بہت عرصہ بعد، محلہ داؤخیل سے یہاں منتقل ھؤا– کچھ دلچسپ باتیں ابھی باقی ھیں ——– منورعلی ملک ——–
(داؤدخیل کا ایک منظر)منورعلی ملک ——–28 جنوری 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ——-
داؤدخیل کے موجودہ محلہ خدر خیل کی جگہ ایک بہت بڑا میدان ھوتا تھا، جہاں مارچ اپریل میں کبڈی کے بہت بڑے بڑے میچ ھوتے تھے- سارا شہر یہ میچ ا تنے ھی شوق سے د یکھتا تھا، جتنے شوق سے آج لوگ کرکٹ د یکھتے ھیں- داؤدخیل کے نامور کھلاڑی مظفرخان ولد شیر خان لمے خیل المعروف مظفری شیرے آلا ، عبداللہ خان ولد نور بازخان عرب زئی المعروف بجلی ، مظفر خان کے کزن جہانگیر خان ولد علاؤل خان المعروف جھنگا لاؤل آلا، محمد امیرخان بہرام خیل مظفر ارائیں، المعروف مظفری ملیار، اسی طرح قومی ھیرو سمجھے جاتے تھے جس طرح آج کرکٹ کے مصباح الحق, شاھد آفریدی ، یونس خان، شعیب ملک اور حفیظ وغیرہ ھیں- کبڈی کے ا ن چیمپیئن کھلاڑیوں میں سرفہرست مظفرخان اور عبداللہ خان تھے- جب یہ دونوں گورنمنٹ ھائی سکول داؤدخیل کی نویں دسویں کلاس میں تھے تو داؤدخیل سکول کی ٹیم کبڈی کے سالانہ مقا بلوں میں پورے ڈویژن میں اول آئی تھی- اس وقت ھمارا ڈویژن 6 اضلاع، میانوالی، اٹک، راولپنڈی، جہلم ، گجرات اور سرگودھا پر مشتمل تھا- چکوال ، بھکر اور خوشاب بعد میں ضلع بنے- آج کے لحاظ سے یہ 9 ضلعوں کا ڈوٰیژن تھا، اور 9 ضلعوں میں داؤدخیل کی کبڈی ٹیم نمبر ون تھی- اس ٹیم کے کپتان مظفرخان (مظفری شیرے آلا) تھے-
مظفرخان پہلے مکڑوال میں ملازم رھے پھر ٹیکسلا یا شاید واہ فیکٹری چلے گئے- نشے کے زھر نے داؤدخیل کا یہ روشن چراغ بجھا دیا- عبداللہ خان اللہ کے فضل سے زندہ ھیں، اگرچہ شوگر کے مرض کی وجہ سے ان کی نظر انتہائی کمزور ھو گئی ھے-
پچھلے سال ایک دن میں حبیب الیکترک سٹور پہ کھڑا تھا تو ایک ملنگ قسم کے بزرگ گلے میں مالا پہنے ، تسبیح ھاتھ میں لیئے مجھ سے گلے ملتے ھوئے کہنے لگے “ کیہہ حال اے ملک صاحب “
یہ بزرگ کبڈی کے مشہور کھلاڑی جہانگیر خان ولد علاؤل خان لمے خیل تھے- اللہ اکبر، انسان کیا سے کیا ھو جاتا ھے- جہنگیر خان کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میری انکھیں بھی بھیگ گئیں- ایک زمانہ تھا کہ یہی جوان گلی سے گذرتا تھا تو لوگ اسے دیکھنے کے لیے رک جاتے تھے– منورعلی ملک -29 جنوری 2017
میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ——————
میری کل کی پوسٹ پر کمنٹ میں ایک عزیز نے کہا :
“سر جی ، ناراض نہ ھوں تو یہ عرض کروں کہ آپ اس داؤدخیل سے اتنا پیار کیوں کرتے ھیں جہاں
ھیروئن کے عادی سب سے زیادہ ھیں
یہاں کے لوگ جنرل کے عہدے تک پہنچے مگر داؤدخیل کا ایک سپاھی بھی بھرتی نہ کروا سکے-
یہاں کی فیکٹریز میں داؤدخیل کے صرف مزدور یا چوکیدار ھیں- کلرک سے لے کر ایم ڈی تکک سب باھر کے لوگ ھیں-
یہاں لوگوں نے قبرستان کی زمین پر بھی قبضہ کر رکھا ھے-
یہاں بچوں کو تعلیم کی بجائے سمگلنگ کے طریقے سکھائے جاتے ھیں-
میں یہ سب کچھ جانتا ھوں، مگر چالیس سال پہلے میں جو داؤدخیل چھوڑ آیا تھا وھاں
ھیروئن کا نام بھی کسی نے نہیں سنا تھا
جس جنرل کا نام لیا گیا ھے اس کے والد خلاص خان نیازی پولیس افسر تھے- انہوں نے داؤدخیل کے کئی لوگ کوئٹہ پولیس میں بھرتی کیئے-
میرے والد محکمہ تعلیم میں افسر تھے- انہوں نے داؤدخیل کے بہت سے لوگ ٹیچر بھرتی کیے-
داؤد خیل میں چار قبرستان ھیں- جب میں وھاں تھا، اس وقت چاروں میں بہت سی جگہ خالی پڑی تھی-
بچوں کو بہترین تعلیم دی جاتی تھی- اسی داؤدخیل نے ھیڈماسٹر ملک محمد انورعلی, ڈاکٹرنعمت اللہ خان، انجینیئر حمیداللہ خان- ڈاکٹر عبدالغفار خان، میجر ظفراسمعیل خان میجر میاں محمد قریشی, پروفیسر عبدالرحیم نقشبندی، پروفیسر بشر خان ، اور ماھر تعلیم عبدالغفور خان جیسے لوگ پیدا کیے-
مجھے وھی اپنے زمانے کا داؤدخٰیل چاھیے- کیا میرے داؤدخیل کے لوگ مجھے وھی داؤدخیل واپس دے سکتے ھیں ؟؟؟؟ کوشش تو کی جا سکتی ھے – منورعلی ملک -30 جنوری 2017
میرا میانوالی / میراداؤدخیل —–
داؤدخیل سے سینیئر صحافی ضیاء نیازی اور نامور ماھرتعلیم غلام عباس اعوان نے میری پوسٹ پر کمنٹ دیتے ھوئے بتایا ھے کہ الحمدللہ داؤدخیل اب اصلاح اور ترقی کی راہ پر تیزی سے رواں دواں ھے- تعلیم ، مشاھدے اور تجربے سے لوگوں میں شعور بیدار ھو رھا ھے- ھیروئن کے عادی افراد کی تعداد بہت کم رہ گئی ھے – اب لوگ اس زھر سے نفرت کرنے لگے ھیں-
سیدھی سی بات ھے کہ دوچارنوجوانوں کو ھیروئن کی وجہ سے اپنے سامنے سسک سسک کر مرتے ھوئے دیکھنے کے بعد کون ھے جو اس زھر کو ھاتھ لگانا پسند کرے گا- داؤدخیل میں لوگوں نے چند ایسے دردناک سانحے اپنی آنکھوں کے سامنے رونما ھوتے دیکھے توھیروئن سے شدید نفرت کرنے لگے- اب جو دوچار پرانے “جہاز“ (ھیروئن کے عادی) ابھی زندہ ھیں ، ان کے علاوہ کوئی آدمی ھیروئن کوھاتھ بھی نہیں لگاتا-
ماھر تعلیم ملک غلام عباس اعوان نے بتایا کہ 2012 میں گورنمنٹ ھائر سیکنڈری سکول داؤدخیل میں ایف ایس سی کلاسز کا آغاز ھؤا- اس وقت ایف اے ایف ایس سی میں 200 سٹوڈنٹ زیرتعلیم ھیں- ان میں سے 100و ایف ایس سی میں ھیں- 40 نوجوان یہاں سے ایف ایس سی کرنے کے بعد مختلف یونیورسٹیز میں اب BS کر رھے ھیں-
صلاح الدین خان ، انعام خان ، رمضان نوید اور سمیع خان نے بھی یہی خوشخبری سنائی ھے کہ داؤدخیل اب بہت بدل چکا ھے- فارسی کا ایک شعر ھے کہ توبہ کرکے انسان خدا کے عذاب سے تو بچ جاتا ھے، لیکن لوگ پھر بھی معاف نہیں کرتے- یہی معاملہ داؤدخیل کے ساتھ بھی ھو رھاھے—– اپنے شہر کو برا کہنے والے لوگ بھی ھرشہر میں ھوتے ھیں- صرف داؤدخیل میں نہیں–
لگتا ھے کہ میرا وہ سچا اور صاف ستھرا داؤدخیل بہت جلد واپس آجائے گا، انشاءاللہ ——
ضیاء نیازی کا ممنون ھوں کہ میرے کہنے پر انہوں نے داؤدخیل کی تعمیروترقی کے بارے میں ایک جامع رپورٹ لکھ کر بھیج دی- میں یہ رپورٹ اپنی فیس بک پہ لگانا چاھتا تھا، مگر کسی ٹکنیکل وجہ سے اپ لوڈ نہیں ھوسکی -منورعلی ملک —–(پکچرز —– دائیں سے بائیں —– غلام عباس اعوان، ضیاء نیازی )
منورعلی ملک ——–31 جنوری 2017
فیس بک سے دوستی —————-
آج دو اور پرانے فیس بک فرینڈز کا تعارف دیکھیے- یہ ھیں پپلاں کے عمر ذیشان اور پنڈدادن خان کے گاؤں کاؤرا کے اظہر کاؤرا-
ذیشان کی مناسب سائز کی پکچر نہیں مل سکی- پوسٹ میں جو پکچر آپ دیکھ رھے ھیں ، یہ اظہرر کاؤرا کی ھے-
ذیشان ایم اے انگلش ھیں، حال ھی میں بی اٰیڈ بھی کر لیا ھے- اردو، انگلش دونوں میں قومیی موضوعات پر بہت اچھے مضمون لکھتے ھیں -بہت ذھین اور باصلاحیت نوجوان ھیں– پنی تحریروں کے بارے میں اکثر مجھ سے مشورہ لیتے رھتے ھیں-
اظہر کاؤرا صاحب یوٹیلیٹی سٹور ز کارپوریشن میں انچارج ھیں- لالا عیسی خیلوی کے حوالے سے مجھ سے متعارف ھوئے- کہتے ھیں میرے پاس لالا کے 1800 گیت ھیں، جن میں سے 120 مجھے زبانی یاد ھیں- اس کا مطلب یہ ھؤا کہ گاتے بھی رھتے ھیں-
دونوں دوستوں نے بہت مختصر تعارف بھیجا، لیکن دیرینہ فیس بک فرینڈشپ کی وجہ سے انہیں نظرانداز کرنا ناانصافی ھوتا، اس لیے جو کچھ مل سکا لکھ دیا- ان کے لیے بہت سی دعائیں—– منورعلی ملک ——–31 جنوری 2017