MERA MIANWALI  JULY 2024

منورعلی ملک کے جولائی 2024  کے فیس  بک   پرخطوط 

ڈاکٹر رشید احمد صاحب کے بعد ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی صاحب گورنمنٹ کالج میانوالی کے پرنسپل متعین ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب اس سے پہلے اسی کالج میں وائس پرنسپل تھے۔

ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی میانوالی کے معروف قبیلہ خنکی خیل کے بزرگ تھے۔ تاریخ کے پروفیسر تھے۔ سلطان علاءالدین خلجی پر ریسرچ کر کے پی ایچ ڈی کیا اور ڈاکٹر بن گئے۔ ان کی سروس کا زیادہ تر عرصہ گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں گذرا ۔ سروس کے آخری آٹھ دس سال میانوالی میں بسر کیئے۔

ڈاکٹر صاحب کھلے ڈلے دبنگ انسان تھے۔ بڑا جان دار قہقہہ لگاتے تھے۔ سٹوڈنٹس کے ڈسپلن کے معاملے میں بہت سخت تھے۔ کالج کے اوقات میں کسی سٹوڈنٹ کو کلاس سے باہر نہیں رہنے دیتے تھے۔ تقریبا 300 کنال کے کالج کیمپس کے ہر کونے پر ان کی نظر رہتی تھی۔ کالج کے اوقات میں مسلسل راونڈ کر کے بھگوڑے سٹوڈنٹس کو ہاسٹل ، کینٹین اور لائبریری سے ہانک کر کلاسوں میں لے جاتے تھے۔

اگر کسی سٹوڈنٹ کی قمیض کے گریبان کے بٹن کھلے دیکھتے تو اسے گریبان سے پکڑ کر کہتے تم یہاں کسی فلم میں اداکاری کے لیئے نہیں، پڑھنے کے لیئے آتے ہو۔ آئندہ اس فلمی ہیروز والے سٹائل میں نظر آئے تو کالج سے نکال دوں گا۔

ڈاکٹر صاحب کی اس سخت گیری کی وجہ سے سٹوڈنٹس کی ان سے جان جاتی تھی۔ ان کے دور میں کسی قسم کی ہنگامہ آرائی کالج میں دیکھنے میں نہ آئی۔

ایک دفعہ ایک سٹوڈنٹ پر گرج برس رہے تھے تو ایک پروفیسر صاحب نے کہا سر، اس کے باپ کو بلا لیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کون سا باپ ؟ کالج میں تو ان کے باپ ہم ہیں ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی ہم نے کرنی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کا دور خاصا طویل تھا۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔1 جولائی 2024

ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی بہت حساس انسان تھے۔بھلوال سے تاریخ کے ایک لیکچرر ٹرانسفر ہوکر گورنمنٹ کالج میانوالی آئے۔ یہاں حاضری دے کر چلے گئے۔ پندرہ دن بعد پھر آئے اور اسی دن واپس چلے گئے۔ دو چار مرتبہ انہوں نے ایسا ہی کیا تو ایک دن ڈاکٹر صاحب نے ان سے سختی سے باز پرس کی۔ وہ صاحب بگڑ گئے ۔ کہنے لگے ڈاکٹر صاحب میں آپ کا ذاتی ملازم نہیں ، گورنمنٹ کا ملازم ہوں۔ آپ میرے خلاف جو کارروائی چاہیں کر لیں، میں اپنی مرضی سے ہی کالج آوں گا۔

ڈاکٹر صاحب نے مجھے بلایا۔ بہت غصے میں تھے۔ کہنے لگے ملک صاحب، رانا شوکت نے مجھ سے سخت بدتمیزی کی ہے۔ اس کے خلاف ایکشن کے لیئے سیکریٹری ایجوکیشن کو لیٹر لکھنا ہے کہ یہ بندہ کالج سے غیر حاضر رہتا ہے اور جواب طلبی کرنے پر بدتمیزی بھی کرتا ہے۔

میں نے لیٹر لکھ کر ڈاکٹر صاحب کو دکھایا۔ لیٹر پڑھ کر ڈاکٹر صاحب کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ کہنے لگے نہیں یار، مارا جائے گا بچارا ۔ اس کی نوکری چلی جائے گی۔ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہوں گے۔ ان کی روزی کا وسیلہ چھن جائے گا۔۔۔ میں یہ ظلم نہیں کر سکتا۔ میں نے اسے معاف کر دیا۔ بچارے کی کوئی مجبوریاں ہوں گی جن کی وجہ سے باقاعدہ کالج نہیں آسکتا۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب نے وہ لیٹر پھاڑ کر پھینک دیا۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔2جولائی 2024

پرنسپل کی حیثیت میں ڈاکٹر سرور نیازی صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے سٹوڈنٹس کی کلاسز میں حاضری یقینی بنادی۔ کالج کے اوقات میں پورے کیمپس کا مسلسل راونڈ کر کے باہر پھرنے والے اکا دکا سٹوڈنٹس کو کلاسوں میں لے جاتے تھے۔ ہاسٹل ، کینٹین اور لائبریری کے علاوہ سائیکل سٹینڈ پر اور کالج گیٹ کے باہر سے بھی سٹوڈنٹس کو ہانک کر کلاسوں میں لے جاتے تھے۔

اگر کوئی ٹیچر چھٹی پر جاتا تو وہ اپنی کلاس کسی دوسرے ٹیچر کے سپرد کر کے جاتا تھا۔ جس ٹیچر کے سپرد کلاس کی جاتی وہ باقاعدہ لکھ کر دیتا تھا کہ فلاں صاحب کی عدم موجودگی میں ان کی کلاس میں سنبھالوں گا۔

اگر کوئی ٹیچر کسی وجہ سے وقت پر کالج نہ پہنچ سکتا تو اس کے آنے تک اس کی کلاس ڈاکٹر صاحب خود سنبھال لیتے تھے۔

ایک دفعہ مجھے کالج پہنچنے میں کچھ دیر ہوگئی۔ فرسٹ ایئر کی کلاس تھی۔ سردی کے باعث ان دنوں ہم کلاسز کالج گراونڈ میں دھوپ میں بٹھاتے تھے۔ میں پہنچا تو ڈاکٹر صاحب میری کلاس میں کھڑے تھے۔۔۔ کہنے لگے ملک صاحب، آپ کی اس کلاس میں کتنے بچے ہیں؟

میں نے کہا سر، سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے کبھی کلاس کی حاضری ہی نہیں لگائی ، بلکہ حاضری رجسٹر بھی نہیں بنایا ، البتہ مجھے یقین ہے کہ اس کلاس کی جو تعداد آپ کے کاغذات میں درج ہے اس سے کچھ زیادہ ہی بچے اس کلاس میں بیٹھے ہوں گے۔

ہنس کر کہنے لگے مجھے یہ بھی پتہ ہے ، ویسے ہی مذاق میں آپ سے پوچھ لیا۔

اللہ کریم ان کی اگلی منزلیں آسان فرمائے مجھ پر بہت مہربان تھے۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔3 جولائی 2024

ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی صاحب کےبعد پروفیسر ملک محمد انور میکن صاحب گورنمنٹ کالج میانوالی کے پرنسپل بنے۔ ملک صاحب اس سے پہلے وائس پرنسپل اور کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے۔ کیمسٹری کے بہت کامیاب ٹیچر تھے۔

میکن صاحب بہت سادہ بلکہ ملنگ مزاج شخصیت تھے۔ ان کا طرز عمل جمہوری تھا۔ ہر کام ساتھیوں اور سٹوڈنٹس کے مشورے سے کرتے تھے۔ سٹوڈنٹس کے ڈسپلن کے معاملے میں بہت فراخ دل تھے۔ اس لیئے ان کے دور میں سٹوڈنٹس خاصے آزاد رہے۔

میکن صاحب روزانہ کندیاں سے ماڑی انڈس ٹرین پر میانوالی آتے جاتے تھے۔ مین بازار میں ملک ثناءاللہ کی فروٹ کی دکان ان کا مستقل اڈہ تھی۔ وہاں سے سائیکل پر کالج آتے جاتے تھے۔ 3 بجے کالج سے واپسی پر ٹرین کی آمد تک وہاں سٹوڈنٹس کے ایک دو گروپس کو ٹیوشن بھی پڑھاتے تھے۔ جب تک میانوالی کالج میں رہے ان کا روزانہ کا معمول یہی رہا۔

پرنسپل کی حیثیت میں میکن صاحب بہت خوش نصیب تھے کہ ان کے دور میں کالج نے تعمیر و ترقی کی بہت سی منزلیں طے کیں۔ ایم اے انگلش اور سیاسیات کی کلاسز کے اجراء کے علاوہ ایم اے بلاک اور رحمتہ للعالمین آڈیٹوریم کی تعمیر بھی انہی کے دور میں ہوئی۔

میکن صاحب تقریبا دس سال پرنسپل کے منصب پر فائز رہے۔ مجھ سے ایک دن پہلے 30 جنوری 2001 کو ریٹائر ہوئے۔صحت کے بعض مسائل کی وجہ سے آج سے چند سال قبل اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔4 جولائی 2024

گورنمنٹ کالج میانوالی میں میں 31 جنوری 2001 کو ریٹائرمنٹ تک 20 سال رہا۔ رب کریم کے فضل و کرم سے بےحساب محبت، شہرت اور عزت ملی۔

میں کیسا ٹیچر تھا یہ تو میرے سٹوڈنٹس بتا سکتے ہیں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ انگلش پڑھانے میں میرا انداز دوسرے ٹیچرز سے مختلف تھا۔ عام رواج یہ تھا کہ کلاس میں صرف نصاب کی کتابیں (textbooks) پڑھائی جاتی تھیں۔ یعنی صرف Paper A کی تیاری کرائی جاتی تھی۔ وہ بھی اس طرح کہ سٹوڈنٹس امدادی کتابوں سے نوٹس کو رٹا لگا کر یا ٹیچر کے لکھوائے ہوئے نوٹس رٹ کر امتحان پاس کر لیتے تھے۔ اس طرح امتحان تو پاس ہو جاتا تھا مگر سٹوڈنٹس انگلش بولنا یا لکھنا نہیں سیکھ سکتے تھے۔

Paper ب-گرامر کمپوزیشن اور ٹرانسلیشن کا ہوتا تھا۔ اس کے لیئے بھی سٹوڈنٹس صرف Essays اور letters وغیرہ کو رٹا لگا لیتے تھے۔ ٹیچر مطمئن کہ ریزلٹ اچھا آگیا ، سٹوڈنٹس خوش کہ امتحان میں پاس ہو گئے۔

میری ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ سٹوڈنٹس کچھ نہ کچھ بولنا لکھنا بھی سیکھ لیں۔ اس لیئے میں نصاب کی کتابیں پڑھانے کے علاوہ سٹوڈنٹس کو انگلش سکھانے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ لہذا میں Paper B پر زیادہ توجہ دیتا تھا۔ یوں میرے سٹوڈنٹس کچھ نہ کچھ انگلش بولنا لکھنا بھی سیکھ لیتے تھے۔ اسی وجہ سے دوسرے گروپس کے سٹوڈنٹس بھی چوری چھپے میرے گروپ میں آبیٹھتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔5 جولائی 2024

سٹوڈنٹس کا اعتماد ٹیچر کا بہت قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔ اسی اعتماد کی بنا پر سٹوڈنٹس ٹیچر سے محبت بھی کرتے ہیں اور اس کا احترام بھی کرتے ہیں۔ یہ اعتماد تب حاصل ہوتا ہے جب ٹیچر کو اپنے مضمون میں وسیع دسترس حاصل ہو اور وہ اپنا علم سٹوڈنٹس کے ساتھ شیئر کرنا جانتا ہو۔میرا مضمون انگلش تھا اور بحمداللہ مجھے اس پر مکمل عبور حاصل تھا۔ اس لیئے میں جو کچھ بھی پڑھاتا مکمل اعتماد سے پڑھاتا تھا۔

اپنے استاد مکرم پروفیسر شمشاد محمد خان لودھی کا واقعہ شاید چند سال قبل بھی بیان کیا تھا۔ یہاں وہ واقعہ زیادہ بر محل ہے۔

پروفیسر شمشاد لودھی صاحب ریاضی Mathematics کے پروفیسر تھے۔ ان کی لکھی ہوئی کتابیں پورے پنجاب میں میٹرک کے ریاضی کے کورس میں شامل تھیں۔

ایک دفعہ کہنے لگے میری ایک بچی نویں کلاس Class Nine میں پڑھتی ہے۔ کل وہ سکول کا ہوم ورک کر رہی تھی تو میں نے کہا بیٹا ریاضی کا یہ سوال جو آپ نے حل کیا ہے ٹھیک تو ہے مگر اس کی بجائے یوں کر دیں تو زیادہ آسان ہو گا۔

بچی نے کہا جی نہیں۔ ہماری میڈم نے ہمیں اسی طرح بتایا ہے۔

میں نے کہا بیٹا جس کتاب سے میڈم آپ کو پڑھا رہی ہیں وہ تو میری لکھی ہوئی ہے۔ اس لیئے میں نے جو طریقہ بتایا ہے وہ زیادہ بہتر ہے۔

بچی نے کہا چھوڑیں ابو، آپ جو کچھ بھی ہیں آپ ہماری میڈم سے زیادہ لائق نہیں ہو سکتے۔

یہ واقعہ بتا کر پروفیسر لودھی صاحب نے کہا میں سلام پیش کرتا ہوں ان میڈم کو جن پر سٹوڈنٹس اتنا اعتماد کرتے ہیں کہ کسی کو ان کے برابر نہیں سمجھتے۔۔۔۔۔۔۔

الحمدللہ مجھے بھی سٹوڈنٹس کا ایسا ہی اعتماد حاصل رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔6 جولائی 2024

ایک دن میں فرسٹ ایئر کی کلاس سے نکلنے لگا تو ایک بچے نے مجھے ایک کاغذ دیا۔ یہ کاغذ میرے نام اس بچے کا خط تھا۔ اس نے لکھا تھا

سر، مجھے انگلش بالکل نہیں آتی۔ اگر آپ گھر پہ مجھے روزانہ تھوڑا سا ٹائیم دے دیں تو بہت مہربانی ہوگی۔ میں شام کے بعد ہی حاضر ہو سکوں گا کیونکہ کالج سے واپس آکر میں دن بھر گلیوں میں پھر کر رس اور ڈبل روٹی بیچتا ہوں۔۔۔میرے ابو معذور ہیں اس لیئے گھر کا خرچ میں ہی کماتا ہوں۔

میں نے بچے کو ٹایئم دے دیا۔۔وہ روزانہ شام کو میرے ہاں آکر مجھ سے رہنمائی لیتا رہا۔ اس نے محنت کی اور بی اے کے بعد ایم اے اور بی ایڈ کرکے میانوالی کے ایک بڑے تعلیمی ادارے میں ٹیچر کے منصب پر کام کرنے لگا۔

بچے کا احساس اور محنت قابل داد ہے۔ اگر وہ حالات کے آگے ہتھیار ڈال دیتا تو ساری عمر بیکری کا سامان ہی بیچتا رہتا۔ مگر اس نے تعلیم کو اپنا مستقبل بنا کر مسلسل محنت سے با عزت ذریعہ معاش حاصل کرلیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔7 جولائی 2024

۔ آج یکم محرم ہے۔۔ اس حوالے سے فیس بک پر لکھنے میں بہت احتیاط کرنی چاہیئے۔ کوئی ایسی بات نہ لکھی جائے جس سے فیس بک کے پر امن ماحول میں نفرت اور تفرقہ کا زہر در آئے۔

ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کیا جائے۔ افسوس کی بات ہے کہ سارا سال تو شیعہ اور سنی بھائیوں کی طرح مل جل کر رہتے ہیں مگر محرم آتے ہی دونوں طرف سے ایک دوسرے پر لفظوں کی گولہ باری شروع ہو جاتی ہے۔

زمینی صورت حال تو یہ ہے کہ ایک ہی گھر میں ایک بھائی شیعہ ہے دوسرا سنی لیکن وہ عقائد کی بنا پر آپس میں کبھی لڑتے نہیں۔

ہمارے اپنے گھر میں دادا جان ملک مبارک علی سنی تھے ، نانا جان ملک قادر بخش صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ اپنے دور کے مشہور و معروف ذاکر بھی تھے۔ دونوں آپس میں چچا زاد تھے۔ ان کے درمیان عقیدے کی بنا پر کبھی رنجش پیدا نہ ہوئی۔ دادا جان فقہ حنفیہ کی پیروی کرتے رہے نانا جان فقہ جعفریہ کی۔۔ لیکن ان کا آپس میں پیار بھی مثالی تھا۔

ایسا ہی ماحول ہر سطح پر اب بھی ہونا چاہیئے۔

ازراہ کرم اس پوسٹ پر کمنٹس میں کوئی ایسی بات نہ لکھیں جس سے کسی فرقے کی دل آزاری ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔8 جولائی 2024

بی اے کی بچیوں کا ایک گروپ میرے پاس انگلش کی ٹیوشن پڑھنے آتا تھا۔ ایک نئی بچی اس گروپ میں شامل ہوئی اور پہلے ہی دن اس نے 300 روپیہ ٹیوشن فیس دے دی جو میں نے رکھ لی۔

اگلے مہینے کی پہلی تاریخ کو اس بچی نے کہا سر ، میں اس ماہ کی فیس 15 تاریخ کو دوں گی کیونکہ اس ماہ مجھے تنخواہ 15 تاریخ کو ملے گی۔

میں نے کہا بیٹا، آپ کہیں جاب کرتے ہیں ؟

بچی نے کہا جی سر، میں ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی ہوں۔

میں نے کہا کتنی تنخواہ ملتی ہے۔ ؟

بچی نے کہا سر، تین سو روپے۔

بچی کا جواب سن کر میرا سر چکرا گیا ۔۔۔۔۔۔ یا اللہ، یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں ؟ ۔۔۔۔۔۔ ایک بچی صرف میری ٹیوشن فیس کے لیئے پورا مہینہ پانچ گھنٹے روزانہ سکول میں کام کرتی ہے۔

میں نے اس بچی کو پچھلے مہینے کی فیس کے 300 روپے بھی واپس دیتے ہوئے کہا بیٹا مجھے آپ کے حالات کا علم نہیں تھا۔ میں آپ سے کوئی فیس نہیں لوں گا۔ آپ بے فکر ہو کر میرے پاس پڑھتے رہیں۔

اساتذہ کرام سے گذارش ہے کہ ٹیوشن پڑھنے کے لیئے آنے والے بچوں کا معاشی پس منظر ضرور دیکھ لیا کریں۔ یتیم اور مزدور پیشہ بچوں سے فیس نہ لیا کریں۔ اس معمولی سی قربانی کا رب کریم آپ کو بہت بڑا صلہ دے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔9 جولائی 2024

بچوں کی والہانہ محبت اور عقیدت کی بے شمار مثالیں اپنی سروس کے دوران دیکھنے میں آئیں۔ کچھ واقعات ایسے بھی ہیں کہ یاد آتے ہی آنکھیں بھیگنے لگتی ہیں ۔

بلو خیل سے ایک بچی انٹرمیڈیٹ کی سٹوڈنٹس کے ایک گروپ میں میرے پاس انگلش کی ٹیوشن پڑھنے آتی تھی۔ ایک دن اس نے مجھے ایک بند لفافہ دیا۔ بچیاں چلی گئیں تو میں نے وہ لفافہ کھول کر دیکھا ۔ اس میں اس بچی کا میرے نام خط تھا۔ اس نے لکھا تھا۔۔۔۔۔

بابا جانی، میں فلاں صاحب کے پاس بھی ایک مضمون کی ٹیوشن پڑھنے جاتی ہوں۔ کل جب میں نے انہیں بتایا کہ میں انگلش کی ٹیوشن پڑھنے سر منور کے پاس جاتی ہوں تو انہوں نے کہا اوہو۔۔۔ مت جایا کرو اس کے پاس ۔ وہ تو عطاءاللہ عیسی خیلوی کا دوست ہے۔ عطاءاللہ کی طرح وہ بھی شرابی کبابی ہو گا۔

بابا جانی ، مجھ سے یہ بات برداشت نہ ہو سکی۔ میں نے کہا سر ، میں اپنے بابا جانی کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتی۔ یہ لیجیئے اپنی فیس، آئندہ نہیں آوں گی آپ کے پاس۔

یہ کہہ کر میں نے فیس کی رقم میز پر رکھ دی اور وہاں سے واپس آگئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ صاحب سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں میرے کلاس فیلو رہ چکے تھے۔ کلاس فیلو کی حیثیت میں تو وہ مجھے جانتے تھے مگر ٹیچرکی حیثیت میں میرے کردار کے بارے میں ان کا اندازہ درست نہ تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔—-10 جولائی 2024

تقریبا دو ماہ سے فیس بک پر اپنی داستان حیات لکھ رہا ہوں۔ یہ داستان ان شآءاللہ کتاب کی شکل میں شائع ہوگی۔ ابھی بہت سی باتیں لکھنی ہیں، لیکن آئندہ چند دنوں میں اس راہ سے ہٹ کر محرم کے حوالے سے پوسٹس لکھوں گا۔ اپنے بچپن کے دور میں عزاداری کے رسم و رواج اور متعلقہ شخصیات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔ ویسے تو ہر سال ان دنوں کے حوالے سے لکھتا ہوں ، تاہم سال کے دوران جو سینکڑوں نئے ساتھی ہمارے کارواں میں شامل ہوتے ہیں ان کے لیئے یہ معلومات دلچسپی سے خالی نہ ہوں گی۔ ان چند پوسٹس میں کچھ نئی باتیں بھی ہوں گی۔

اس دور اور آج کے دور میں بنیادی فرق یہ ہے کہ وہ دور صبر و تحمل اور رواداری کا دور تھا۔ اختلافات زبان پر اور سڑکوں پر نہیں آتے تھے۔ شیعہ سنی بھائیوں کی طرح مل جل کر رہتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔11 جولائی 2024

ہمارے داودخیل میں محرم کی عزاداری کا اہتمام تین جگہوں پر ہوتا تھا۔ کوئی باقاعدہ امام بارگاہ نہ تھی۔ مجالس عزا سادات کے تین گھروں میں ہوتی تھیں ۔

محلہ علاول خیل میں سید گل عباس شاہ بخاری کے ہاں، محلہ داوخیل میں شاہ غلام محمد کی چونک پر اور محلہ شریف خیل میں سید غلام عباس شاہ کی چونک پر عشرہ محرم کے دس دن روزانہ مجلس عزا منعقد ہوتی تھی۔

داودخیل کے سادات غریب تھے۔ اس لییے محرم میں جلوس یا ذوالجناح کا اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ عزاداری مجلس عزا ، تعزیہ( زیارت شبیہ روضہ امام حسین ) اور ماتم داری تک محدود رہتی تھی۔

پہلے 6 دن مجلس عزا ظہر کے وقت اور سات سے دس محرم تک رات کو منعقد ہوتی تھی۔ الوداعی مجلس دس محرم کو ظہر کے وقت ہوتی تھی۔

ان مجالس میں ذاکر مقامی ہوتے تھے۔ سید گل عباس شاہ کی چونک پر اسی خاندان کے سید جعفر شاہ ، شاہ غلام محمد کے ہاں غلام سرور خان داوخیل اور غلام عباس شاہ کی چونک پر غلام مرتضی خان المعروف مرتہ ملنگ مجلس عزا سے خطاب کرتے تھے۔ غلام عباس شاہ کچھ خوشحال تھے اس لییے وہ باہر سے بھی ایک آدھ ذاکر بلا لیتے تھے

مجالس میں شیعہ سنی سب لوگ شریک ہوتے تھے۔ بلکہ آبادی کے تناسب سے سنی تعداد میں زیادہ ہوتے تھے۔

ذاکر صاحبان اپنے بیان میں کوئی فرقہ وارانہ اختلافی بات نہیں کرتے تھے۔ خطاب صرف فضائل اور مصائب اہل بیت تک محدود ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔12 جولائی 2024

مجلس عزا کے خطاب کا آغاز عربی میں مختصر خطبہ سے ہوتا تھا۔اس کے بعد اہلبیت کے فضائل کا بیان اور اس کے مطابق قصیدہ مترنم نظم کی صورت میں پڑھا جاتا تھا۔

اہلبیت کے مصائب کا بیان ملتانی سرائیکی زبان میں ایک خاص لے میں کیا جاتا تھا۔ بین (وینڑں) کی یہ لے درد کے تاثر کو کچھ اور گہرا کر دیتی تھی۔ موقع محل کے مطابق سرائیکی ڈوھڑے بھی بیان میں شامل کیئے جاتے تھے ۔دردناک واقعات کا درد ناک انداز میں بیان لوگوں کو بہت رلاتا تھا۔

مصائب کے بیان کے بعد اجتماعی دعا اور آخر میں ماتم داری ہوتی تھی۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔13 جولائی 2024

7 محرم شہزادہ قاسم بن امام حسن بن علی المرتضی سے منسوب ہے۔

شہزادہ قاسم کی عمر اس وقت 13/14 سال تھی۔ جنگ میں شامل ہونے کے لیئے آپ نے اپنے چچا جناب امام حسین سے اجازت طلب کرتے ہوئے کہا چچا حضور میں بھی شہیدوں میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ امام نے فرمایا تمہیں موت کیسی لگتی ہے۔ ؟ قاسم نے کہا جی مجھے موت شہد سے بھی زیادہ میٹھی لگتی ہے۔ یہ سن کر امام عالی مقام کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ فرمایا بیٹا مجھے تم پر فخر ہے۔ جاو اللہ کے حوالے۔

شہزادہ قاسم بہت دلیری سے لڑے۔ فوج نے جب یہ دیکھا کہ قاسم سے اکیلا تو کوئی نہیں لڑ سکتا تو پھر فوج نے انہیں چاروں طرف سے گھیر کر شہید کر دیا۔ ظلم کی انتہا یہ کی کہ قاسم کی لاش کو گھوڑوں کے پاوں تلے روند دیا۔ امام عالی مقام قاسم کی لاش کے ٹکڑے چن کر ایک چادر میں باندھ کر لائے۔ ۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔14 جولائی 2024

7 محرم کو دریائے فرات پر پہرہ لگا کر قافلہ ء امام حسین کو پانی سے محروم کر دیا گیا۔

پیاس سے چھ ماہ کے معصوم بچے شہزادہ علی اصغر کی حالت غیر ہونے لگی تو امام عالی مقام بچے کو پانی پلانے کے لیئے دریا پر لے گئے۔ امام کا خیال تھا کہ کم ازکم بچے کو تو پانی پینے کی اجازت مل جائے گی۔۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ ان کا واسطہ ان لوگوں سے پڑا ہے جو انسان کی نسل ہی نہیں۔

دریا کے کنارے پہنچ کر امام نے پہرہ داروں سے کہا بچہ پیاسا ہے ۔ اسے پانی پلانا ہے۔

امام کی بات کے جواب میں ایک تیر آکر معصوم شہزادے کے حلق میں پیوست ہو گیا۔

اپنی ایک نظم میں یہ منظر بیان کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا۔۔۔

شہید بچے کی آخری ہچکیاں رکیں تو

حسین نے پھول سا وہ لاشہ زمیں پہ رکھا

لہو میں تر ہاتھ اپنے چہرے پہ پھیر کر آسماں کو دیکھا

کہا ترا شکر میرے مولا

کہ میں تری بارگاہ میں پیش کر رہا ہوں

یہ ننھا منا حسین تحفہ

مرا یہ تحفہ وصول کر لے

مرا یہ ننھا شہید بچہ قبول کر لے

حسین سا اور کون ہو گا؟

نہ کوئی تھا اور نہ ہے، نہ ہوگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔15 جولائی 2024

غازی عباس علمدار علم لے کر میدان جنگ میں جانے لگے تو امام عالی مقام کی معصوم صاحبزادی بی بی سکینہ نے ایک مشکیزہ ان کو دیتے ہوئے کہا پانی لے کر آنا ہے۔

عباس کی نظر میں امام کے بچوں کی خدمت جنگ سے زیادہ اہم کام تھا۔ اس لیئے ان کا خیال تھا کہ پہلے پانی لا کر اس کے بعد باقاعدہ جنگ میں شامل ہو جاوں گا۔

دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے دریا پر پہنچے۔ مشکیزے میں پانی بھرا۔ واپس لوٹنے لگے تو دشمن فوج نے گھیرا ڈال کر حملہ کر دیا۔ مشکیزہ تیروں سے چھلنی ہو گیا۔ دونوں بازو بھی کٹ گئے۔ عباس نے علم اپنے سینے پہ بچھا دیا اور مشکیزہ دانتوں سے تھام لیا۔

جناب حسین غازی کی تلاش میں دریا کے قریب پہنچے تو غازی آخری سانس لے رہے تھے۔ امام کو دیکھ کر اٹھنے کی کوشش کی مگر اٹھ نہ سکے۔ کہا حضور ، آپ نے میری خاطر دشمن کے نرغے میں آنے کی زحمت کیوں گوارا فرمائی۔

مجھے خدا کے حوالے کریں، چلے جائیں

علم کے ساتھ یہ مشکیزہ آپ لے جائیں

کہ یہ سکینہ ء معصوم کی امانت ہے

مری وفا کی یہ سب سے بڑی ضمانت ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔6  جولائی 2024

اپنی کتاب سے۔۔۔۔۔

 17جولائی 2024

محرم کے حوالے سے تحریریں شروع کرنے سے پہلے میں اپنی داستان حیات پوسٹس کی شکل میں قسط وار لکھ رہا تھا۔

ٹیچر کی حیثیت میں میری خدمات کا سلسلہ گورنمنٹ ہائی سکول داودخیل سے شروع ہوا۔ چند ماہ مکڑوال سکول میں عارضی بنیاد پر کام کرنے کے بعد ٹھٹھی سکول میں بطور سینیئر انگلش ٹیچر( ہیڈماسٹر) تقرر ہوا ۔ ایم اے انگلش کرنے کے بعد 1975 میں گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں انگلش کے لیکچرر کی حیثیت سےکالج کی سروس کا آغاز ہوا۔ 5 سال بعد عیسی خیل سے ٹرانسفر ہو کر گورنمنٹ کالج میانوالی آگیا۔ 20 سال بعد 31 جنوری 2001 کو وہیں میری سروس کا سفر تمام ہوا۔

محرم سے پہلے گورنمنٹ کالج میانوالی میں اپنے تجربات و مشاہدات کا ذکر کر رہا تھا۔ کل سے ان شآءاللہ یہ قصہ آگے چلے گا۔ امید ہے کہ ٹیچرز اور سٹوڈنٹس کے علاوہ عوام الناس کو بھی اس داستان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔18 جولائی 2024

گورنمنٹ کالج میانوالی میں ٹیچر کی حیثیت میں مقبولیت کی بنا پر اپنے کام سے مطمئن ہو کر میں اپنی ادبی صلاحیتوں کی طرف متوجہ ہوا۔

میری سب سے پہلے شائع ہونے والی تحریر The Interview کے عنوان سے انگلش میں ایک مزاحیہ کہانی تھی۔۔مارچ 1983 میں بیٹھے بٹھائے اچانک کچھ لکھنے کو دل چاہا اور میں نے وہ کہانی لکھ کر انگریزی کے مشہور و معروف اخبار پاکستان ٹائیمز کے سینیئر کالم نگار محمد ادریس کو بھیج دی۔ ادریس صاحب بہت خوبصورت انگلش لکھتے تھے۔ ان سے میری جان پہچان نہ تھی۔ بس ان کی تحریریں شوق سے پڑھا کرتا تھا۔

ادریس صاحب کو کہانی اس لیئے بھیجی تاکہ مجھے یہ پتہ چل سکے کہ انگلش لکھنے میں میں کتنے پانی میں ہوں ۔ کہانی کے ساتھ بھیجے گئے خط میں میں نے لکھا مجھے صرف یہ بتا دیں کہ یہ تحریر کیسی ہے۔ فی الحال کہانی شائع کرانا تو میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔

ادریس صاحب نے میرے خط کا جواب دینے کی بجائے وہ کہانی ایک لفظ بھی تبدیل کیئے بغیر پاکستان ٹائیمز میں شائع کرا دی۔

مجھے تو اس بات کا علم ہی نہ تھا۔ کالج میں جغرافیہ کے پروفیسر عطاءاللہ خان نیازی نے مجھے بتایا کہ آپ کی کہانی آج پاکستان ٹائیمز میں شائع ہوئی ہے ۔

میں نے فورا لائبریری جا کر اخبار دیکھا تو کہانی اخبار کے تیسرے صفحہ پر موجود تھی۔ یہ ایک بڑا breakthrough تھا کہ میری پہلی ہی تحریر کسی رد و بدل کے بغیر شائع ہو گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔19 جولائی 2024

20 جولائی۔۔۔۔۔۔آج فیس بُک پر میری آمد کی 9ویں سالگرہ پے۔

میں نے اکرم بیٹے کے اصرار پر 20 جولائی 2015 کو اس وادی میں قدم رکھا۔ اس سے پہلے اکرم بیٹے کے اصرار کے باوجود میں فیس بک پر آنے سے گریزاں رہا۔ میں سمجھتا تھا فیس بُک بچوں کا شغل ہے۔ ہم جیسے بزرگوں کا اس میں شریک ہونا رنگ میں بھنگ والی بات ہو گا۔ میں یہ بھول گیا تھا کہ ٹیچر کی حیثیت میں میرا تو ہمیشہ واسطہ ہی نوجوان نسل سے رہا ہے۔۔ نوجوان لوگ میرے قریب رہ کر بہت کچھ سیکھنا چاہتے ہیں۔

میرے ہزاروں سٹوڈنٹس کے علاوہ عطاءاللہ عیسی خیلوی کی آواز میں میرے گیتوں کے لاکھوں فین بھی مجھ سے ملنا ، بات کرنا چاہتے ہیں۔

اکرم بیٹا یہ جانتے تھے۔ اس لیئے میرے نام کا فیس بُک اکاؤنٹ بنا کر انہوں نے میرے چاہنے والوں کو رابطے کا وسیلہ فراہم کر دیا۔ وہ اس اکاؤنٹ پر میرا کوئی نہ کوئی شعر پوسٹ کرتے رہے۔ بس پھر تو میلہ لگ گیا۔ فرینڈز کی تعداد چند ہی دن میں 2000 تک جا پہنچی۔ میرے نام کی پوسٹس پر بے شمار لائیکس، ایموجیز اور کمنٹس دیکھ کر اکرم نے یہ سارا حساب کتاب میرے سامنے رکھ دیا ۔ اور کہا ابو دیکھیں کتنے بے شمار لوگ آپ سے پیار کرتے ہیں۔ ان کی اس محبت کو نظر انداز کرنا ظلم ہوگا۔ آج سے یہ لیپ ٹاپ آپ کا ہوا ۔ اب آپ جانیں اور آپ کے فین۔ میں درمیان میں سے ہٹتا ہوں کہ میں نے اور بھی بہت سے کام کرنے ہوتے ہیں۔

جب میں نے براہ راست فیس بک پہ پوسٹس لکھنی شروع کر دیں تو ایسا لگا جیسے میں کلاس میں کھڑا لیکچر دے رہا ہوں۔ یہ کلاس پوری دنیا پر محیط ہے۔ آسٹریلیا، امریکہ ، کینیڈا ، برطانیہ ، فرانس، چین ، جاپان اور عرب ممالک سے بہت سے لوگ اس کلاس میں شامل ہیں ۔ وہ میری بات بڑی توجہ سے سنتے اور اس پر کمنٹس کی شکل میں اپنا رد عمل دیتے ہیں۔

اب تو فیس بُک میری فیملی بن گئی ہے۔ 5000 فرینڈز اور 12152 فالوورز پر مشتمل یہ فیملی مجھ سے محبت اور احترام میں میری اپنی فیملی سے کم نہیں۔ اللہ کریم سب کو سلامت رکھے، خوب رونق لگی رہتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔20  جولائی 2024

پاکستان ٹائیمز میں اپنی پہلی مزاحیہ کہانی شائع ہونے کے بعد پاکستان ٹائیمز کے ایڈیٹوریل بورڈ میں میری اچھی خاصی شناسائی بن گئی۔ میری تحریریں ہر ہفتے شائع ہونے لگیں۔ کبھی کسی تحریر میں کوئی رد و بدل نہ کیا گیا۔

میری ہر تحریر ایک مزاحیہ کہانی کی شکل میں ہوتی تھی۔ ہر کہانی کسی نہ کسی برائی کو نشانہ بناتی تھی۔ سیاست، نظام تعلیم، تجارت میں کرپشن، بے حسی اور نااہلی میری ان مزاحیہ کہانیوں کا ہدف ہوتی تھی۔ ہر کہانی کسی ایک مسئلے کی نشان دہی کرتی تھی۔

کالم لکھنے کا یہ نیا انداز میری اپنی ایجاد تھا۔ بہت پسند کیا گیا۔ انگریزی اخبار پڑھے لکھے وی آئی پی لوگ پڑھتے تھے ۔ اس لیئے اس طبقے میں میرا اچھا خاصا غائبانہ تعارف ہو گیا۔ اخبار کے کالم نگاروں کا اپنے قارئین سے فیس بک کی طرح براہ راست رابطہ نہیں ہوتا۔ اب تو خیر کالم نگار اپنے نام کے ساتھ موبائل فون نمبر دے دیتے ہیں۔ جب میں پاکستان ٹائیمز میں لکھتا تھا اس وقت موبائل فون کی سہولت موجود نہ تھی۔ اس لیئے اپنے قارئین سے میرا تعارف غائبانہ ہی رہا۔ قارئین اپنی رائے اخبار کے ایڈیٹر کو بھیجتے تھے ۔ اور وہاں سے مجھے پتہ چلتا کہ میری تحریروں کے بارے میں کس نے کیا کہا ہے۔

ہفتہ وار کالم نگاری کا یہ سلسلہ 1983 سے 1996 میں پاکستان ٹائیمز کی بندش تک 13 سال چلتا رہا۔

ہفتہ وار کالم کے علاوہ میں نے اخبار کی فرمائش پر کئی کتابوں پر تبصرے بھی لکھے۔ قلعہ کافر کوٹ اور خانقاہ سراجیہ کی لائبریری کے بارے میں میرے دو مفصل مضمون بھی پاکستان ٹائیمز میں شائع ہوئے۔ اب تو اس خوبصورت دور کی صرف یادیں ہی باقی ہیں۔

گذر گیا وہ زمانہ چلے گئے وہ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔21 جولائی 2024   

میرے چار پانچ کالم شائع ہو چکے تو ایک دن پاکستان ٹائیمز کے میگزین ایڈیٹر سید اقبال جعفری صاحب کا خط موصول ہوا۔ لکھا تھا میں آپ سے ملنے کے لیئے میانوالی آنا چاہتا ہوں۔

پروفیسر محمد سلیم احسن اور میں نے جعفری صاحب کا استقبال کیا۔ جعفری صاحب کہنے لگے میں میانوالی صرف اس شخص کو دیکھنے کے لیئے آیا ہوں جو میانوالی میں بیٹھ کر آکسفورڈ کی انگلش لکھ رہا ہے۔

جعفری صاحب کا یہ جملہ میرے لیئے ایک اعزاز تھا۔ وہ دوسرے دن واپس چلے گئے۔ بہت اچھی محفل رہی۔ مجھ سے وعدہ لیا کہ جب بھی لاہور آوں تو پاکستان ٹائیمز کے آفس میں ضرور آنا ہے۔

اس طرح میری پاکستان ٹائیمز کے آفس میں آمدورفت شروع ہوئی۔ میں جب بھی لاہور جاتا کچھ وقت نکال کر میو ہسپتال کے پیچھے رتن چند روڈ پر پاکستان ٹائیمز کے آفس میں حاضری دیتا۔ کھانا ، چائے اور گپ شپ چلتی رہتی۔ جناب محمد سلیم الرحمن سے بھی میری پہلی ملاقات پاکستان ٹائیمز کے آفس ہی میں ہوئی۔ محمد سلیم الرحمن ادب کا بہت بڑا نام ہے، شاعر ادیب اور نقاد کی حیثیت میں محترم و معتبر ادبی شخصیت ہیں۔ وہ بھی میری اردو ، انگریزی نثر کے مداح ہیں۔ ان سے بہت عرصہ خط و کتابت بھی رہی۔

پاکستان ٹائیمز کے آفس میں اور بھی کئی معروف ادبی شخصیات سے ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔

پاکستان ٹائیمز میں ہونے والی تنقید سرکار کو ناگوار گذری تو 1996 میں پاکستان ٹائیمز بند کر دیا گیا۔

پچھلے دنوں ادھر سے گذرا تو آفس کے گیٹ پر بھاری بھرکم زنگ آلود تالا دیکھ کر دل بھر آیا۔ آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ایک ہنستی بستی دنیا ایک دردناک ویران منظر بن چکی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔۔22 جولائی 2024

پاکستان ٹائیمز میں لکھنے والوں کو معاوضہ بھی ملتا تھا۔ مارچ 1983 میں میری پہلی تحریر کا معاوضہ 150 روپے ملا۔ اس وقت 150 روپے بھی معمولی رقم نہ تھی۔ بعد میں انہوں نے میرا معاوضہ بڑھا کر 250 روپے فی کالم کر دیا۔

ایک دن میں پاکستان ٹائیمز کے آفس پہنچا تو اقبال جعفری صاحب نے کہا ہمارے چیف ایڈیٹر مقبول شریف صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔۔

میں جعفری صاحب کے ہمراہ چیف صاحب کے کمرے میں پہنچا۔ جعفری صاحب نے میرا تعارف کرایا تو چیف ایڈیٹر صاحب کہنے لگے ملک صاحب ، ہمارے پاس مضمون اور کالم لکھنے والے تو بہت ہیں لیکن مزاحیہ کالم صرف آپ ہی لکھتے ہیں۔ ہمارے قارئین آپ کی تحریریں بہت پسند کرتے ہیں۔ اگر آپ ہمیں روزانہ ایک کالم دیں تو ہم آپ کو 300 روپے فی کالم دیں گے۔

(300 روپیہ روزانہ کے حساب سے مہینے کا 9000 بنتا تھا۔ اس وقت کالج میں میری تنخواہ 7000 روپے ماہانہ تھی)

خاصی معقول پیشکش تھی ۔ لکھنا تو میرے لیئے کوئی مسئلہ نہ تھا ، مگر میانوالی سے روزانہ کالم لاہور پہنچانا ناممکن تھا کیونکہ اس وقت میانوالی میں فیکس کی سہولت بھی دستیاب نہ تھی۔ میں کالم ڈاک سے بھیجا کرتا تھا جو دوتین دن بعد پاکستان ٹائیمز کے دفتر میں موصول ہوتا تھا۔ اس صورت میں ہفتے میں ایک ہی کالم شائع ہو سکتا تھا۔

میں نے چیف ایڈیٹر صاحب کو یہ بات بتا کر روزانہ کالم بھیجنے سے معذرت کر لی۔ چیف صاحب نے کہا یہ تو واقعی ممکن نہیں۔ بہر حال آج سے آپ کے کالم کا معاوضہ 300 روپے ہی ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔23 جولائی 2024

کشمیری بازار راولپنڈی میں بم دھماکہ پاکستان میں دہشت گردی کی پہلی واردات تھا۔ اس دھماکے میں بہت سے لوگ جاں بحق ہوئے۔ جائے وقوعہ سے خود کش حملہ آور کا سر ملا ، جس سے پتہ چلا کہ مجرم افغان تھا۔

اس المناک سانحے کے حوالے سے میں نے ایک کالم لکھا۔ اس کالم میں میں نے کہا کہ اگر افغان مہاجرین کو ان کے کیمپوں تک محدود کر دیا جائے تو اس قسم کی وارداتوں کا سد باب کیا جا سکتا ہے۔

یہ کالم شائع ہونے سے پہلے پاکستان ٹائیمز کے ایگزیکٹو ایڈیٹر درانی صاحب کی نظر سے گذرا تو بہت برہم ہوئے ۔ جعفری صاحب سے کہا دیکھیں جنرل ضیاء الحق افغان مہاجرین کے معاملے میں بہت حساس ہیں۔ وہ انہیں پاکستان کے معزز مہمان کہتے ہیں۔ ان پر پابندی لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر یہ کالم شائع ہو گیا تو ہمارے لیئے مصیبت بن جائے گی۔ اس لیئے یہ کالم شائع نہیں ہو سکتا۔ بلکہ آئندہ اس کالم نگار کی کوئی بھی تحریر پاکستان ٹائیمز میں شائع نہ کی جائے۔

جعفری صاحب نے یہ تمام داستان ایک خط میں لکھ کر مجھے بھیج دی۔ ساتھ یہ بھی لکھا کہ میں اپنے قارئین کو آپ کی دلچسپ تحریروں سے محروم نہیں کرنا چاہتا۔ اس لیئے آپ کسی اور نام سے لکھتے رہیں اور ہاتھ ذرا ہلکا رکھیں۔

سو میں Munawar Ali Malik کی بجائے MA Malik کے نام سے لکھنے لگا۔ اور ہاتھ بھی ذرا ہلکا رکھا۔ اس لیئے پاکستان ٹائیمز سے میرا تعلق برقرار رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔24 جولائی 2024

انگریزی زبان پر میری گرفت کو رب کریم نے میرے لیئے ذریعہ معاش کے علاوہ وسیلہ عزت و شہرت بھی بنا دیا۔ 13 سال انگلش میں کالم نگاری کے علاوہ میں نے ایم اے انگلش کے کورس سے متعلقہ درجن بھر کتابیں بھی لکھ دیں۔

کتاب محل پبلشرز اردو بازار لاہور کی شائع کی ہوئی ان کتابوں سے ملک بھر میں ایم اے انگلش کے سٹوڈنٹس مستفید ہو رہے ہیں۔ یوں اس سطح پر میرا نام ملک بھر میں متعارف ہے۔

یہ کتابیں چھپوانے کے لیئے مجھے کسی بھاگ دوڑ کی ضرورت ہی نہ پڑی بلکہ یہ کتابیں لکھنے کے لیئے خود پبلشر سید سردار جاوید صاحب نے مجھ سے فرمائش کی تھی۔

انگریزی زبان میں اپنی وسیع دسترس کی وجہ سے میں اپنے کالج کے ہر پرنسپل کا لاڈلا رہا۔ تمام دفتری خط و کتابت میں ہی کیا کرتا تھا۔ دفتری زبان عام زبان سے خاصی مختلف ہوتی ہے۔ اللہ کے فضل سے مجھے اس میں بھی مہارت میسر تھی۔ ہمارے پرنسپل ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی صاحب تو میری لکھی ہوئی ہر چٹھی کی ایک کاپی اپنی ذاتی فائل میں رکھ لیتے تھے۔ کہا کرتے تھے میں ریٹائرمنٹ کے بعد خوبصورت انگریزی سے لطف اندوز ہونے کے لیئے یہ فائل پڑھا کروں گا۔

یہ سب کچھ عرض کرنے کا مقصد اپنی تعریف کرنا نہیں۔ جیسا کہ میں نے اس پوسٹ کے آغاز میں کہہ دیا ہے یہ سراسر میرے رب کا کرم ہے۔ وہ جس کو جو چاہے دے دے۔ مجھے اس نے انگریزی زبان میں مہارت عطا کر کے اسے میرے لیئے ذریعہ معاش اور وسیلہ عزت و شہرت بنا دیا۔ میں نے میانوالی میں بیٹھ کر وہ کچھ کر لیا جو لاہور اور کراچی میں بیٹھے لوگ بھی شاذونادر ہی کرتے ہیں۔۔۔۔۔ الحمد للہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔25 جولائی 2024

ٹیچر کی خوبیاں خامیاں سٹوڈنٹس سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ سٹوڈنٹس بعض ایسی خوبیاں خامیاں بھی جانتے ہیں جن کا خود ٹیچر کو احساس بھی نہیں ہوتا۔

میرے ایک سابق سٹوڈنٹ حفیظ ایک دن مجھ سے ملنے آئے۔ اب وہ خود بھی اسلام آباد کے ایک ادارے میں ٹیچر تھے۔ میری تعریف کرنے لگے تو میں نے کہا حفیظ یار میں تو دوسرے ٹیچرز کی طرح ایک ٹیچر ہی ہوں۔ مجھ میں ایسی کون سی بات ہے جس سے متاثر ہو کر آپ میری اتنی تعریف کر رہے ہیں۔

حفیظ نے کہا سر آپ کی خاص بات یہ ہے کہ آپ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ انگلش مشکل ہے۔ آپ انگلش کو اتنا lightly لیتے تھے اور اس قدر روانی اور اعتماد سے پڑھاتے تھے جیسے یہ آپ کی اور ہماری مادری زبان ہے۔ انگلش کے بارے میں آپ کے اس روئیے نے ہمارے دل سے انگلش کا خوف اور نفرت مٹا دی۔ انگلش ہمیں آسان اور دلچسپ لگنے لگی ۔ اس لیئے ہم شوق سے انگلش پڑھنے لگے۔

افسوس کہ میرا یہ ذہین بیٹا اب اس دنیا میں موجود نہیں۔حفیظ چند روز بیمار رہ کر اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔26 جولائی 2024

ہمارے ٹی کلب ۔۔۔۔۔۔۔

چائے ہم پروفیسر لوگوں کا پسندیدہ مشروب ہے۔ گورنمنٹ کالج میانوالی میں ہمارے دو ٹی کلب تھے۔ کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کا کلب ممبرز کے لحاظ سے بڑا ٹی کلب تھا۔ کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر صاحبان کے علاوہ ڈاکٹر غلام سرور خان نیازی صاحب، تاریخ کے پروفیسر اقبال قاسمی صاحب اور احمد حسن خان نیازی ، جغرافیہ کے پروفیسر عطاءاللہ خان نیازی، اردو کے پروفیسر احمد خان نیازی اور فارسی کے پروفیسر حافظ محمد عبدالخالق بھی اس کلب کے ممبر تھے۔ لیبارٹری اٹینڈنٹ مولوی احمد خان چائے بنایا کرتے تھے۔

بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر محمد فاروق کی سربراہی میں قائم ٹی کلب کے ممبران میں بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر صاحبان کے علاوہ انگلش ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر سلطان محمود اعوان صاحب، پروفیسر سرور نیازی صاحب اور میں شامل تھے۔ سیاسیات کے پروفیسر محمد سلیم احسن، اردو کے پروفیسر محمد فیروز شاہ صاحب اور جغرافیہ کے ملک محمد اسلم صاحب بھی اس کلب کے ممبر تھے۔ اس ڈیپارٹمنٹ میں چائے بنانے کی خدمت لیبارٹری اٹینڈنٹ چاچا یارن خان سرانجام دیتے تھے۔

فزکس ڈیپارٹمنٹ کا کوئی ٹی کلب نہ تھا۔ وہ لوگ چائے پیتے ہی نہیں تھے۔ عجیب لوگ تھے۔

کنٹرولر امتحانات پروفیسر اقبال کاظمی صاحب شوگر کے مرض کی وجہ سے چینی کے بغیر چائے پیتے تھے۔ اس لیئے وہ اپنے آفس ہی میں اپنے لییے پھیکی چائے بنواتے تھے۔

کچھ پروفیسر صاحبان کالج کینٹین سے چائے پیتے تھے۔ لائبریرین حاجی محمد اسلم خان غلبلی اپنے آفس میں کینٹین سے چائے منگوایا کرتے تھے۔

جب کالج میں ایم اے انگلش کی کلاسز کا اجراء ہوا تو ہم نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کا الگ ٹی کلب بھی بنا لیا۔ یہاں ڈیپارٹمنٹ کے ملازم چاچا حبیب اللہ خان چائے بناتے تھے۔ مگر اپنا کلب ہونے کے باوجود ہم انگلش ڈیپارٹمنٹ کے لوگ بیالوجی ڈیپارٹمنٹ ٹی کلب کے ممبر بھی رہے۔ کیونکہ ہم بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے کلب کی کراری گپ شپ سے محروم نہیں ہونا چاہتے تھے۔

بڑی رونقیں ہوا کرتی تھیں۔ اب پتہ نہیں وہاں کیا سسٹم چل رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔27 جولائی 2024

کالج بلیٹن۔۔۔۔۔۔۔

کالج بلیٹن (کالج کا خبر نامہ) ہر پندرہویں دن شائع ہوتا تھا۔ چار سے چھ صفحات پر مشتمل اس خبر نامے میں کالج کے سلیبس اور ٹایئم ٹیبل کے علاوہ کالج کی اہم خبریں بھی ہوتی تھیں۔ پروفیسر محمد سلیم احسن کالج بلیٹن کے ایڈیٹر تھے۔ طلبہ کے لییے ضروری معلومات اور ہدایات پر مشتمل اداریہ پروفیسر سلیم احسن ہی لکھتے تھے۔ تقریبات کی رپورٹس میں لکھتا تھا۔ اداریہ، رپورٹس اور خبروں کے علاوہ سٹوڈنٹس کے بھیجے ہوئے لطیفے ، اقوال زریں اور اساتذہ کرام کی شاعری بھی کالج بلیٹن میں شائع ہوتی تھی۔ کالج کے امتحانات کی ڈیٹ شیٹ بھی بلیٹن میں شائع ہوتی تھی۔ تعلیمی سال کے آغاز پر پروفیسر سلیم احسن سٹوڈنٹس کے لیئے ضابطہ اخلاق بھی اداریئے میں لکھا کرتے تھے۔

کالج بلیٹن ہم میانوالی پرنٹنگ پریس سے چھپواتے تھے۔ یہ مفید خبرنامہ سٹوڈنٹس میں مفت تقسیم ہوتا تھا۔ اس سے بچوں کے والدین کو بھی کالج کی سرگرمیوں سے آگاہی حاصل ہوتی تھی۔ بلیٹن کی چند کاپیاں محکمہ تعلیم کے حکام کو بھی بھیجی جاتی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔28 جولائی 2024

یادیں ۔۔۔۔۔

گورنمنٹ کالج میانوالی۔۔۔ 25 سال پہلے-28 جولائی 2024

1983-84 میں گورنمنٹ کالج برائے خواتین میں انگلش کی صرف ایک لیکچرر رہ گئیں تو پرنسپل صاحبہ نے ڈائریکٹر کالجز سے اس مسئلے کے حل کے لیئے درخواست کی۔ ڈائریکٹر صاحب نے ہمارے کالج کے پرنسپل ڈاکٹر رشید احمد صاحب سے کہا کہ جب تک نئی لیکچررز نہیں آتیں اپنے کالج کے کسی لیکچرر کو گورنمنٹ کالج برائے خواتین میں انگلش کی کلاسز پڑھانے پر مامور کر دیں۔ ڈاکٹر رشید صاحب نے یہ ذمہ داری میرے سپرد کر دی۔

خاصی مشکل صورت حال تھی۔ میں اپنے کالج میں فرسٹ ایئر اور سیکنڈ ایئر کی کلاسز کو پڑھانے کے بعد خواتین کالج جاتا۔ وہاں سیکنڈ ایئر اور فورتھ ایئر کو دو پیرئیڈ پڑھا کر اپنے کالج واپس آکر اپنی فورتھ ایئر کلاس کو پڑھاتا۔۔۔۔ بہر حال دل میں قوم اور علاقے کی خدمت کا جذبہ تھا اس لیئے اللہ کریم نے یہ سب کچھ کرنا آسان بنا دیا۔

بچوں کی نسبت بچیاں تعلیم کے معاملے میں زیادہ سنجیدہ ہوتی ہیں۔ وہ ٹیچر کی ہدایات پر ایمان داری سے عمل کرتی ہیں۔ جس بات سے منع کر دیا جائے وہ دوبارہ کبھی نہیں کرتیں۔ اس لیئے خواتین کالج میں پڑھانے کا تجربہ خاصا خوشگوار رہا۔ تقریبا 6 ماہ بعد اس کالج میں انگلش کی دو نئی لیکچررز آگئیں اور میں اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو گیا۔ بچیوں نے مجھے بہت سے خوبصورت گفٹ اور دعائیں دے کر رخصت کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا۔۔۔۔29 جولائی 2024

ہمارے دور میں گورنمنٹ کالج میانوالی کا ماحول بہت پر سکون تھا۔ نظریاتی اختلاف کے باوجود پروفیسر صاحبان کے درمیان باہمی احترام کا رشتہ برقرار رہا۔ نظریاتی حوالے سے پروفیسر صاحبان کی دو تنظیمیں تھیں۔ دائیں بازو کی تنظیم ، تنظیم اساتذہ اور بائیں بازو کی تنظیم انجمن اساتذہ۔ تنظیم اساتذہ کے سربراہ پروفیسر سلطان محمود اعوان صاحب اور انجمن اساتذہ کے سربراہ پروفیسر محمد انور میکن صاحب تھے۔ عوام کی زبان میں تنظیم اساتذہ جماعت اسلامی گروپ اور انجمن اساتذہ پی پی گروپ کہلاتی تھی۔

نظریاتی اختلافات کو کبھی ذاتی اختلافات نہ بننے دیا گیا۔ کبھی ایک دوسرے پر تنقید نہ کی گئی۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ سٹوڈنٹس کو ان اختلافات کی ہوا بھی نہ لگنے دی گئی۔۔ خرابی تب ہوتی ہے جب سٹوڈنٹس بھی ٹیچرز کی کشمکش میں شامل ہو جائیں۔ سٹوڈنٹس کی ٹیچرز کے اختلافات میں شمولیت ٹیچرز کے احترام کے لیئے زہر قاتل ہوتی ہے۔

ایک آدھ سال پہلے یہ سن کر بہت دکھ ہوا کہ اب اس کالج کے سٹوڈنٹس بھی اساتذہ کی جنگ میں شریک ہو گئے ہیں۔ اساتذہ کی یہ جنگ نظریاتی نہیں ذاتی تھی۔ اب خدا جانے وہاں کیا حال ہے؟ ہم تو پرامن کالج چھوڑ کر آئے تھے۔ سٹوڈنٹس کی دلچسپی صرف تعلیم تک محدود تھی۔ وہ سب ٹیچرز کا احترام کرتے تھے۔اساتذہ کے اختلافات منظرِعام پر نہیں آتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔30 جولائی 2024

کاظمی صاحب ۔۔۔۔۔۔

شعبہ اردو کے سربراہ پروفیسر اقبال حسین کاظمی صاحب مجھ پر خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ شفقت کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی کے کلاس فیلو اور بہت قریبی دوست تھے۔ اس لیئے وہ مجھے چھوٹا بھائی سمجھتے تھے۔ ان کی خصوصی شفقت کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اپنی خداداد علمی و ادبی صلاحیتوں کی وجہ سے میں ان کے میرٹ کے معیار پر پورا اترتا تھا۔

کاظمی صاحب کالج کی تقریبات کے ناظم تھے۔ تمام تقریبات کی کمپیئرنگ وہ مجھ سے کراتے تھے۔ کالج میگزین “سہیل” کے حصہ اردو کے ایڈیٹر کے طور پر انہوں نے میرا نام لکھ دیا تو میں نے کہا سر، میں تو شعبہ انگریزی کا بندہ ہوں۔” سہیل” کے حصہ انگریزی کا ایڈیٹر بھی ہوں۔ حصہ اردو کا ایڈیٹر اپنے شعبہ اردو کے کسی پروفیسر کو مقرر کردیں۔

کاظمی صاحب نے ہنس کر کہا، بھائی صاحب ، سدھی جئی گل اے، اردو کوئی تئیں توں چنگی لکھ سگے ہا تاں میں اسے نوں ایڈیٹر بنڑا ڈیواں ہا۔

کاظمی صاحب کنٹرولر امتحانات بھی تھے۔ کالج کے امتحانات میں روزانہ تین گھنٹے نگران کے طور پر کمرہ امتحان میں بیٹھ کر مکھیاں مارنے سے میں بہت بور ہوتا تھا۔۔ ایک دن میں نے کہا سر ، یہ کام مجھ سے نہیں ہوتا۔۔۔۔ کاظمی صاحب نے مجھے نگران کی بجائے انسپکٹر کی ڈیوٹی دے دی۔ اس حیثیت میں مجھے امتحان کے سنٹر کا صرف ایک آدھ چکر لگانا پڑتا تھا۔ باقی وقت فارغ۔

ایک دن کالج سے چھٹی کے وقت کالج آفس میں آئے تو مجھے وہاں بیٹھا دیکھ کر کہنے لگے ، منور یار ایک چھوٹا سا لیٹر لکھ دو۔ میں نے کہا لیٹر کس کے نام کس موضوع پر ؟ کاظمی صاحب نے کہا یار وہ میری سروس بک اے جی آفس لاہور میں گئی ہوئی تھی۔ آج انہوں نے واپس بھیج دی ہے۔ انہیں شکریہ کا لیٹر لکھنا ہے۔

میں نے کہا چھوڑیں سر ، رسمی سی کارروائی کا شکریہ کیسا۔ ؟

کہنے لگے نہیں بھائی ، میری یہ عادت ہے کہ کوئی میرا ذرا سا کام بھی کردے تو شکریہ ضرور ادا کرتا ہوں۔

میں نے لیٹر لکھ کر دے دیا۔ بہت خوش ہوئے۔

اگلی صبح پتہ چلا کاظمی صاحب یہ دنیا چھوڑ کر عدم آباد جا بسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔31 جولائی 2024

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top