MERA MIANWALI  JUNE 2024

منورعلی ملک کے جون 2024  کے فیس  بک   پرخطوط

چیلنج ہی چیلنج۔۔۔۔

کہنے کو تو ہر حکومت کہتی ہے تعلیم ہماری اولیں ترجیح ہے مگر ہر سال بجٹ میں تعلیم کا حصہ دو چار فی صد سے زیادہ نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ کئی سکولوں کی عمارتیں نہیں ہیں۔ بے شمار سکولوں کی عمارتیں ناکافی ہیں۔ بجلی پانی کی سہولیات کا نام و نشان تک نہیں۔ سٹاف کی کمی کا رونا ہر جگہ رویا جارہا ہے۔ منصوبہ بندی کے بغیر صرف سیاسی فائدے کے لیئے سکول بنائے یا اپ گریڈ کیئے جاتے ہیں۔

ٹھٹھی سکول پرائمری سے اپ گریڈ ہو کر مڈل سکول بنا۔ مگر عمارت صرف دو کمروں ایک برآمدے اور ایک آفس پر مشتمل تھی۔ آٹھ کلاسوں کے لیئے صرف دو کمرے۔۔۔۔۔۔ !!!

پرائمری سکول تین کمروں کی کرائے کی عمارت میں چل رہا تھا۔ پانچ کلاسوں کے لیئے صرف تین کمرے تھے۔ اب مڈل کا درجہ ملنے کے بعد وہ کرائے کی عمارت بھی ہاتھ سے جاتی رہی۔۔

میں نے جنوری 1965 میں ہیڈماسٹر کی حیثیت میں اس سکول کا چارج سنبھالا۔

سرکار کی پالیسی تو یہ تھی کہ صرف چھٹی کلاس کا داخلہ کیا جائے۔ اگلے سال ساتویں اور اس سے اگلے سال آٹھویں کا داخلہ کیا جائے۔ میں نے اس پالیسی سے اتفاق نہ کیا۔ میرا موقف یہ تھا کہ جب اپنے گاوں میں مڈل سکول موجود ہے تو ساتویں اور آٹھویں کلاس کے بچے داودخیل کے دھکے کیوں کھاتے رہیں۔ اس لییے میں نے چھٹی ساتویں اور آٹھویں تینوں کلاسوں میں داخلہ جاری کر دیا۔ داودخیل سکول سے ان تینوں کلاسوں کے بچے ٹھٹھی سکول منتقل ہو گئے۔

سردی کے تین چار مہینے تو حصہ پرائمری کے بچوں کو سکول کے صحن میں دھوپ میں بٹھا کر گذار لیئے۔ اپریل میں ہم نے شہر میں ایک خالی مکان کے مالک سے بات کر کے حصہ پرائمری وہاں منتقل کر دیا

۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔1 جون 2024

22 مئی 1965 کا طوفان جس نے دیکھا ہو وہی بتا سکتا ہے کہ یہ کیسا طوفان تھا۔

صبح تقریبا ساڑھے سات بجے میں ، ماسٹر غلام محمد اور سکول کے چپراسی خادم حسین کے ہمراہ داودخیل سے ٹھٹھی پہنچا۔ جونہی ہم ٹھٹھی شہر میں داخل ہوئے ایک کالا سیاہ مہیب بادل شمال مغرب سے نمودار ہو کر موسلادھار بارش برسانے لگا۔ سکول شہر سے تقریبا ایک کلومیٹر دور ریلوے لائین کے پار واقع تھا۔ اتنی تیز بارش میں سکول تک پہنچنا ممکن نہ تھا اس لیئے ہم شہر ہی میں ایک سٹوڈنٹ محمد سعید کے گھر میں رک گئے۔ چند منٹ بعد ڈھیر امید علی شاہ سے ہمارے ساتھی ماسٹر جان محمد ، ماسٹر ولی محمد اور ماسٹر سید گل عباس شاہ بھی وہیں پہنچ گئے۔

ہمارا خیال تھا ایک آدھ گھنٹے میں مطلع صاف ہو جائے گا تو آگے چلیں گے۔ مگر بارش تھی کہ رکنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ لگاتار موسلادھار بارش شام پانچ بجے تک (تقریبا 9 گھنٹے) برستی رہی۔ حد نگاہ تک ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا تھا۔ میں نے کہا اب جا کر سکول کی حالت دیکھ لیں کہ بارش سے کتنا نقصان ہوا۔ دوتین فٹ گہرے پانی میں سے گذر کر ہم سکول پہنچے تو دیکھا کہ دونوں کمروں کی دیواروں ، چھتوں اور برآمدے کی دیواروں میں شگاف پڑ گئے تھے۔

ٹھٹھی سے داودخیل واپسی کا مسئلہ بھی خاصا ٹیڑھا تھا۔ تین چار فٹ پانی میں تین چار کلومیٹر پیدل چلنا ممکن نہ تھا۔ ہم نے ریلوے لائین پر چل کر جانے کا فیصلہ کیا۔ جونہی ہم ریلوے لائین پر پہنچے ملتان سے پشاور جانے والی ٹرین وہاں آکر رکی۔ رکنے کی وجہ یہ تھی کہ تیز بارش سے جگہ جگہ ریلوے لائین اکھڑ گئی تھی۔ ریلوے کے مزدوروں کی گینگ ٹرین کے ہمراہ تھی۔ جہاں بھی ٹرین رکتی مزدور ریلوے لائین کی مرمت کر دیتے تھے۔ ہمارے قریب آ کر ٹرین رکی تو ہم بھی اس پر سوار ہوگئے۔

ٹھٹھی سے داودخیل ریلوے سٹیشن تک جاتے ہوئے ٹرین راستے میں چار پانچ بار رکی۔ یوں 4 کلومیٹر کا فاصلہ 4 گھنٹے میں طے کر کے ٹرین رات 10 بجے داودخیل پہنچی۔

داودخیل کی گلیوں میں بھی ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ خوش قسمتی سے چاچا رستم خان کا تانگہ سٹیشن پر موجود تھا جس نے ہمیں بخیر و عافیت گھر پہنچا دیا ۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔2 جون 2024

چارہ گری۔۔۔۔۔

22 مئی 1965 کے طوفان سے دوسرے دن میں نے سکول کی مڈل کلاسز کو بھی اس عمارت میں منتقل کر دیا جہاں پرائمری کلاسز چل رہی تھیں اور خود عمارت کی فوری مرمت کا بندوبست کرنے کے لیئے میانوالی کی راہ لی۔

سب سے پہلے ڈپٹی کمشنر(قاضی احمد شفیع صاحب) سے ملاقات کی ۔ انہوں نے کہا مالی سال ختم ہونے کو ہے۔ ہمارے پاس اس وقت مرمت کے کھاتے میں صرف 2750 روپے ہیں۔ ڈسڑکٹ انجینیئر سے اخراجات کا تخمینہ estimate لگوا لیں۔ اگر 2750 میں کام ہو سکتا ہے تو میں ابھی آپ کو چیک دے دیتا ہوں۔

ڈسٹرکٹ انجینیئر صاحب سے ملا تو انہوں نے ایک اوورسیئر کو بلا کر کہا ان کے سکول کی مرمت کا estimate بنا دیں۔

اوور سیئر صاحب نے فورا کاغذ پکڑا اور لکھنے لگے….۔

بنیادوں کا خرچ ۔۔۔۔۔ 7500 روپے….

میں نے کہا بھائی صاحب سرکار کے پاس اس وقت صرف 2750 روپے ہیں۔

اس نے کہا جی estimate تو اسی طرح بنے گا جیسا میں لکھ رہا ہوں۔ میں نے کہا پھر رہنے دیں۔

پھر میں نے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر چوہدری محمد صدیق صاحب کو بتایا کہ یہ معاملہ ہے۔ اب کیا کیا جائے۔

چوہدری صاحب نے مجھے اپنے آفس کے ساتھ والے کمرے میں متعین دو امریکی انجینیئروں سے متعارف کروا دیا۔

میں نے ان انجینیئرز کو بتایا کہ سکول کی عمارت کی مرمت کروانی ہے اور اس کے لیئے دستیاب فنڈز صرف 2750 روپے ہیں۔

ان انجینیرز نے پاکستانی اوورسیئر کی طرح اپنے کمرے میں بیٹھ کر estimate نہیں بنایا بلکہ گاڑی نکالی , پیمائش کا سامان اٹھایا ، اور مجھے ساتھ لے کر ٹھٹھی سکول پہنچ گئے۔ تقریبا دو گھنٹے میں estimate مکمل کر کے مجھے دے دیا۔ اس کے مطابق عمارت کی مرمت کا کام صرف 2250 روپے میں ہو سکتا تھا۔

امریکی انجینیئئر امریکی امداد سے پاکستان میں ہونے والی تعمیرات کی نگرانی کے لیئے ہر ضلع میں متعین تھے۔ اگرچہ سکول کی مرمت کا کام ان کے فرائض میں شامل نہ تھا پھر بھی از راہ تعاون انہوں نے ہمارا estimate بنا دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔3 جون 2024

پہلی ہی ملاقات میں دونوں امریکی انجینیئر میرے دوست بن گئے۔ ایک کا نام Thomas Boyd تھا ، دوسرے کا Allan Deutsch ۔ میں جب کبھی میانوالی جاتا ان سے ضرور ملتا۔ ان کا آفس ہمارے ایجوکیشن آفس کے ساتھ ہی ڈسٹرکٹ کونسل آفس کی حدود میں واقع تھا۔ ۔ ملاقات میں چائے اور گپ شپ چلتی ۔ گفتگو کا موضوع امریکی ادب اور پاکستانی کلچر ہوتا تھا۔

ایک دن میں ان سے ملنے گیا تو انہوں نے کہا اچھا ہوا آپ آ گئے۔ ہماری آپ سے الوداعی ملاقات ہوگئی ، کیونکہ ہمارے یہاں تقرر کی مدت پوری ہو چکی ہے ۔ ہم اگلے اتوار کو امریکہ واپس چلے جائیں گے۔۔۔

ہمارے پاس کچھ امریکی ناول اور افسانوں کی کتابیں پڑی ہیںں۔ میانوالی میونسپل کمیٹی والوں نے لائبریری کے لیئے مانگی ہیں مگر وہاں یہ کتابیں کون پڑھے گا ۔ آپ کو امریکی ادب سے دلچسپی ہے اس لیئے ہم چاہتے ہیں وہ کتابیں as a gift آپ لے لیں۔

پھر وہ مجھے نہر کالونی میانوالی میں اپنی رہائش گاہ پر لے گئے۔۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ان انجینیئرز کے پاس بھی ادب کا اچھا خاصا ذخیرہ تھا۔ ایک پوری الماری ناول اور افسانوں کی کتابوں سے لبالب بھری ہوئی تھی۔

میں پوری الماری تو ساتھ نہیں لے جا سکتا تھا۔ اس لیے میں نے اپنی پسند کے امریکی ناول نگاروں/ افسانہ نگاروں

Nathaniel Hawthorn , Mark Twain , O Henry, Hemingway, Ambrose Bierce , Arthur Miller

وغیرہ کی جتنی کتابیں اٹھا سکتا تھا اٹھا لیں۔

اپنا تجربہ یہ ہے کہ امریکی حکومتوں کی منافقت اور اسلام دشمن پالیسیاں اپنی جگہ مگر امریکی قوم کے لوگ خاصے فراخ دل ، دوست دار اور مہمان نواز ہیں۔ کم ازکم جن امریکیوں سے میرا گارڈن کالج اور میانوالی میں واسطہ رہا وہ تو ایسے ہی تھے۔۔۔۔واللہ اعلم ۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا———4 جون 2024

میرے امریکی انجینئر دوستوں Thomas Boyd اور Allan Deutsch کی امریکہ واپسی سے پانچ سات سال بعد میرے میانوالی کے ایک دوست نے مجھ سے کہا میں امریکہ کی کسی یونیورسٹی سے ایم ایس سی کرنا چاہتا ہوں آپ امریکہ میں کسی دوست سے اس سلسلے میں معلومات لے دیں۔

میرے پاس Boyd کا ایڈریس تھا۔ میں نے اسے خط لکھ دیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس خط کے جواب کی امید نہ تھی۔ میں نے سمجھا تھا وہ لوگ بھول بھال گئے ہوں گے۔

پندرہ بیس دن بعد ایک بھاری بھرکم پارسل ڈاک سے موصول ہوا ۔ یہ پارسل Boyd نے بھیجا تھا۔ اس میں آٹھ دس امریکی یونیورسٹیوں کے سلیبس ، فارم داخلہ اور داخلے کے بارے میں معلومات تھیں ۔

پارسل میں Boyd کا ایک بہت پیارا خط بھی تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ اپنے دوست سے کہیں جب امریکہ آئے تو ہم سے مل لے۔ ہم ہر طرح سے اس کی مدد کریں گے۔

خط کے آخر میں Boyd نے یہ بھی لکھا کہ

A person of your ability will not always remain headmaster of a middle school. You ‘ll go higher up

(آپ جیسا قابل آدمی ہمیشہ مڈل سکول کا ہیڈماسٹر ہی نہیں رہے گا۔ آپ بہت اوپر جائیں گے) ۔

بائیڈ کی یہ پیشین گوئی درست ثابت ہوئی۔۔ میں انگلش کا پروفیسر ریٹائر ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔5 جون 2024

خواب کے تعاقب میں۔۔۔۔۔۔

حالات نے تو مجھے مڈل سکول کا ہیڈماسٹر بنا دیا مگر گارڈن کالج راولپنڈی میں پروفیسر جان وائلڈر صاحب نے ایم اے انگلش کرنے کا جو خواب مجھے دکھایا تھا وہ خواب مر نہ سکا۔

پہلے چار پانچ سال تو سکول کو سدھارنے سنوارنے میں لگ گئے۔ جب کچھ ذہنی فراغت میسر آئی میں نے ایم اے انگلش کے خواب کی تکمیل کے لیئے کوشش شروع کر دی۔ اس وقت یہ کام آسان نہ تھا۔۔۔ اصل مسئلہ کتابوں کی دستیابی کا تھا۔ 60 کتابوں میں سے صرف آٹھ دس کتابیں لاہور کے ایک پبلشر سے دستیاب ہو سکیں۔

میں نے اللہ کا نام لے کر تیاری شروع کر دی۔ میرا خیال تھا کتابیں دستیاب ہونے میں تین چار برس بھی لگ جائیں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ میں کون سا بے روزگار بیٹھا ہوں ۔ سکول کی ملازمت سے رزق کا بندوبست تو ہو ہی چکا ہے ۔

اللہ مسبب الاسباب ہے،

انہی دنوں گورنمنٹ کالج میانوالی کے لائبریرین حاجی محمد اسلم خان غلبلی اپنے بھانجے محمد آصف خان کے ساتھ مجھ سے ملنے کے لیئے سکول آئے۔ آصف اس وقت ٹھٹھی سکول میں ساتویں کلاس کا سٹوڈنٹ تھا۔ میں نے حاجی صاحب کو اپنے ایم اے انگلش کرنے کے ارادے سے آگاہ کیا تو حاجی صاحب نے کہا ملک صاحب کتابیں بہت مہنگی ہیں۔ تمام کتابیں خریدنا آپ شاید افورڈ نہ کر سکیں۔ ویسے بھی یہ امپورٹڈ کتابیں بازار میں کم ہی ملتی ہیں۔۔۔ آپ کسی وقت میرے پاس کالج لائبریری آجائیں۔ ایم اے انگلش کے کورس کی جتنی کتابیں لائبریری میں مل جائیں سب اٹھا لائیں۔ امتحان کے بعد کتابیں لائبریری میں واپس جمع کر ادیں۔۔

اگلے دن میں گورنمنٹ کالج میانوالی کی لائبریری میں حاجی صاحب سے ملا۔ کورس کی اکثر کتابیں وہاں موجود تھیں۔ میں وہ سب اٹھا لایا ۔ جو کتابیں اس وقت لائبریری میں موجود نہ تھیں وہ حاجی محمد اسلم خان صاحب نے بعد میں لائبریری کے کھاتے سے منگوا کر مجھے دے دیں۔ یوں میری ایم اے انگلش کی تیاری ایک ہی سال میں ممکن ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔6 جون 2024

آزمائش میں امتحان۔۔۔۔۔

میں نے 1970 میں ایم اے انگلش کیا۔ ہمارا امتحان کا سنٹر پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کا ہال تھا۔ امتحان کے دوران میں اپنے ماموں زاد ملک اعجاز حسین اعوان کے ہاں مقیم تھا۔ بھائی جان اعجاز سپریم کورٹ میں اسسٹنٹ رجسٹرار تھے۔ سپریم کورٹ اس زمانے میں لاہور میں ہوتی تھی۔ اسلام آباد بعد میں منتقل ہوئی۔ بھائی جان اعجاز کی رہائش داتا صاحب کے نواحی علاقے بلال گنج میں تھی۔

ہمارے پیپر تین تین دن کے وقفے سے ہوتے تھے۔ میں نے دوسرا پیپر دے لیا تو بھائی جان اعجاز کے ساتھ دو دن کے لیئے اپنے چچا ملک برکت علی کے ہاں جہلم چلا گیا ۔

جہلم میں ایک دن عصر کے وقت میں بھائی اعجاز کے بڑے بھائی ملک سجاد حسین اعوان کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔ اٹھ کر واش روم جانے لگا تو اٹھتے ہی کمر میں اتنا شدید درد اٹھا کہ میں چیخ مار کر گر پڑا اور بے ہوش ہوگیا۔ شکر ہے فرش پر قالین بچھا تھا گرنے سے چوٹ نہیں لگی۔

بھائی جان سجاد فورا ڈاکٹر کو بلا لائے۔ ڈاکٹر نے انجیکشن لگایا جس سے نیند آگئی۔ آنکھ کھلی تو درد بدستور موجود تھا۔ درد نامراد اتنا شدید تھا کہ ذرا زور سے سانس لینا بھی مشکل تھا۔ مجھے نہیں لگتا تھا میں زندہ رہ سکوں گا ۔ بے بسی کے اس عالم میں اللہ تعالی سے رابطہ کیا کہ یا رب کریم میرے چار معصوم بچے بھی میرے منتظر ہیں ان کی خاطر رحم فرما۔

دوسرا دن اتوار تھا، سوموار کو پیپر بھی دینا تھا۔ سب نے کہا پیپر کو رہنے دو ، درد کا مکمل علاج کراو اور بقیہ پیپرز اگلے سال دے دینا۔ مگر میں نے کہا کچھ بھی ہو جائے میں پیپرز تو دوں گا۔ اگلے دن میں نے بھائی جان سجاد سے کہا بھائی جان اعجاز کی کار میں تو میں نہیں بیٹھ سکوں گا۔ ٹرین میں لیٹ کر جا سکوں گا۔ آپ میرے ساتھ چلیں۔

ہم جہلم سے لاہور کی ٹرین پہ روانہ ہو گئے۔ ٹرین میں نہ ڈاکٹر پاس تھا نہ دوا۔ درد بدستور موجود تھا۔ مجھے اور تو کچھ آتا نہیں تھا درود ابراہیمی زباں پہ آگیا۔۔۔۔ درود پاک زباں پہ آتے ہی درد غائب۔۔۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جونہی درود پاک پڑھنا بند کرتا درد پھر شروع ہو جاتا تھا۔ اس لیئے میں سفر کے دوران مسلسل درود پڑھتا رہا۔

یوں ہم بخیریت لاہور پہنچ گئے ۔ لاہور میں ہر قسم کے ڈاکٹر موجود تھے ، مگر میں بھائی جان اعجاز پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا تھا ، اس لیئے ان سے کہا اب میں کافی بہتر ہوں۔۔۔۔۔۔۔ آسمان والے ڈاکٹر سے رابطے کے بعد یقین ہو گیا تھا کہ اس درد سے میں مرتا تو نہیں۔باقی جو ہوگا دیکھا جائے گا۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔7 جون 2024

آزمائش میں امتحان۔۔۔

کمر کا درد بھی نہیں جا رہا تھا اور صبح پیپر بھی دینا تھا۔ پیپر دینے کا فیصلہ میرا اپنا تھا۔ میری جگہ کوئی اور ہوتا تو کمرہ امتحان کی بجائے ہسپتال میں داخلہ لے لیتا۔

میرا ایک پرانا سٹوڈنٹ ملک عبدالغفار لاہور کی ایک فیکٹری میں ملازم تھا۔ وہ ہمارے گھر کے قریب ہی رہتا تھا۔ میں نے اس کو بلا کر کہا صبح میں نے پیپر دینے جانا ہے۔ اس حالت میں اکیلا نہیں جا سکتا۔ آپ نے صبح 7 بجے مجھے تانگے پر بٹھا کر پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے مال روڈ والے گیٹ پر پہنچانا ہے۔ کار میں بیٹھنا کمر درد کی وجہ سے ممکن نہیں۔ تانگے پر بیٹھنا آسان ہو گا۔۔ یونیورسٹی جاکر آپ نے میرے پیپر کے دوران ہال کے سامنے والے لان میں بیٹھ کر انتظار کرنا ہے ، کیونکہ میرا کمر کا درد جب برداشت کی حد سے بڑھ گیا تو میں پیپر چھوڑ کر باہر آجاوں گا۔ پھر آپ نے تانگہ پکڑ کر مجھے واپس گھر پہنچانا ہو گا۔

اللہ بھلا کرے ملک عبدالغفار کا اس نے ان ہدایات پر لفظ بہ لفظ عمل کیا۔

میں کمرہ امتحان میں صرف دو گھنٹے بیٹھ سکا۔ درد ناقابل برداشت ہونے لگا تو میں پیپر نگران کے حوالے کر کے باہر آگیا اور ملک عبدالغفار نے مجھے تانگے میں بٹھا کر گھر پہنچا دیا۔

اللہ کی شان دیکھئے کہ مجھے سب سے زیادہ نمبر اسی پیپر میں ملے۔

اسی دن شام کو کمر کا درد بھی غائب ہو گیا۔ اس کے بعد زندگی میں وہ درد کبھی نہ ہوا۔۔۔ بہت اذیت ناک درد تھا۔ اللہ جانے وہ تھا کیا۔ ؟ کسی ڈاکٹر سے چیک اپ تو میں نے کرایا نہیں کہ کہیں پیپر دینے سے منع نہ کر دیں۔

دل یہ کہتا ہے کہ اس پیپر میں بہترین نمبر اور درد سے مکمل نجات آسمان والے ڈاکٹر کا خصوصی کرم تھا۔۔۔۔ الحمد للہ الکریم۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔8 جون 2024

کیسے کیسے لوگ ۔۔۔۔۔!!!

میں چوتھا پیپر دے کر نکلا تو برآمدے میں کھڑے ایک جوان نے آگے بڑھ کر پوچھا بھائی جان ، ایہہ پنجویں پیپر وچ کی ہوندا اے ؟

گوجرانوالہ کا یہ جوان بھی ہمارے ساتھ ایم اے انگلش کا امتحان دے رہا تھا۔

میں نے کہا پانچواں پیپر پروز (نثر) کا ہوتا ہے۔

اس بھائی صاحب نے کہا کنیاں کتاباں نیں ؟؟؟؟

میں نے کہا آٹھ ۔

کہنے لگا دو دناں وچ اٹھ کتاباں میرا پیو پڑھے گا؟؟؟؟

اس دن کے بعد وہ کہیں نظر نہ آیا ۔ امتحان چھوڑ کر بھاگ گیا۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔9 جون 2024

1975 میں پنجاب پبلک سروس کمیشن سے سیلیکٹ ہوکر انگلش کے لیکچرر کی حیثیت میں میرا تقرر گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں ہوا۔

سچی بات تو یہ ہے کہ میں عیسی خیل میں تقرر پر خوش نہ تھا۔ مگر ملازمت میں اپنی خوشی تو چلتی نہیں۔

انگلش کے لیکچرر کی ایک پوسٹ گورنمنٹ کالج میانوالی میں بھی خالی پڑی تھی۔ مگر عیسی خیل میں فوری طور پر انگلش کا لیکچرر بھیجنا سرکار کی مجبوری تھی کہ وہاں لڑکوں نے انگلش کا لیکچرر نہ ہونے کی وجہ سے ہڑتال کر رکھی تھی۔ مجھ سے ڈائریکٹر کالجز سرگودہا ڈویژن کے اسسٹنٹ نے کہا ملک صاحب ہماری مجبوری یہ ہے کہ لڑکوں کی ہڑتال کی وجہ سے ہم پر چیف سیکریٹری اور سیکریٹری ایجوکیشن کا سخت پریشر ہے اس لیئے ہم فوری طور پر آپ کو بھیج رہے ہیں ۔ عیسی خیل ویسے بھی آپ کے گھر داودخیل سے زیادہ دور نہیں لہذا یہ “قربانی” آپ کے لییے آسان ہوگی۔

“قربانی” تو واقعی خاصی بڑی تھی۔ میں کسی بڑے کالج میں جانا چاہتا تھا جبکہ عیسی خیل پنجاب کا سب سے چھوٹا اور سب سے دورافتادہ کالج تھا۔ یہاں صرف انٹرمیڈیٹ کی دو کلاسز تھیں۔ کالج کی اپنی بلڈنگ بھی نہ تھی۔ سکول کی بالائی منزل کالج نے ادھار لے رکھی تھی۔ پانچ سات لیکچررزاور بیس پچیس سٹوڈنٹس۔۔۔ بس یہ تھی کل اوقات اس کالج کی۔ مایوسی تو بہت ہوئی مگر امر ربی سمجھ کر صبر کر لیا۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔13 جون 2024

1975 میں ہماری آمد سے پہلے گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں صرف 4 لیکچررز تھے۔ تاریخ کے چوہدری محمد رمضان، سیاسیات کے محمد سلیم احسن، اسلامیات کے علامہ طاہر القادری اور اردو کے سید افتخار حسین شیراز بخاری۔۔۔۔

شیراز بخاری صاحب کسی کیس میں معطل suspend تھے ۔ وہ مہینے میں صرف ایک دن تنخواہ وصول کرنے کے لییے آتے تھے۔ طاہر القادری صاحب کا تقرر 6 ماہ کے لیئے عارضی بنیاد پر تھا۔ وہ بھی مہینے میں ایک آدھ دن ہی آتے تھے۔۔۔۔۔ عملی طور پر کالج صرف دو لیکچررز چوہدری محمد رمضان صاحب اور سلیم احسن صاحب چلا رہے تھے۔

1975 کے آخری دنوں میں اس کالج کی قسمت پھری اور ہم آٹھ دس لیکچررز ایک آدھ دن کے وقفے سے یہاں متعین ہو گئے۔ عربی کے اشرف علی کلیار ، اسلامیات کے منیر حسین بھٹی، معاشیات کے ملک محمد یوسف چھینہ، نفسیات کے حسین احمد ملک، ریاضی کے عبدالستار جوئیہ، فزکس کے اکبر علی رندھاوا اور کیمسٹری کے محمد اکبر خان ، انگلش کا میں تھا۔۔۔۔۔۔ سلیم احسن، اشرف علی کلیار ، میں اور محمد اکبر خان ضلع میانوالی سے تھے۔ محمد یوسف چھینہ بھکر سے ، اکبر علی رندھاوا شور کوٹ سے اور بقیہ تمام حضرات ضلع سرگودہا سے تھے۔

عیسی خیل کی دورافتادگی اور پسماندگی دیکھ کر پہلے تو سب لوگ خاصے مایوس ہوئے مگر جلد ہی عیسی خیل کی سادہ زندگی سے مانوس ہو گئے۔

اس وقت لیکچرر (گریڈ 17) کی ماہانہ تنخواہ 500 روپے اور سالانہ ترقی ( اضافہ) 50 روپے تھی ۔ 500 روپے بھی اس زمانے میں خاصی معقول رقم تھی ۔ بھٹو صاحب نے گریڈ 17 کے تمام آفیسرز کو پانچ اضافی ترقیاں (increments) یکمشت دے دیں۔ یوں ہم سب کی تنخواہ 750 روپے ہوگئی۔ ہم لوگ مذاق میں کہا کرتے تھے کہ اتنی بڑی رقم کا کریں گے کیا؟ ۔۔۔۔۔ بات غلط نہ تھی۔ چیزیں اتنی سستی تھیں کہ عیسی خیل جیسی جگہ پر 750 روپے پورے خرچ کرنا مسئلہ بن جاتا تھا ۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔14 جون 2024

رہائش کے لیئے ہم نے محلہ بمبرانوالہ میں ایک مکان کرائے پر لے لیا۔ ابتدا میں اس مکان کے مکین ریاضی کے لیکچرر ملک عبدالستار جوئیہ، معاشیات کے ملک محمد یوسف چھینہ اور کیمسٹری کے محمد اکبر خان تھے۔ ان کے ساتھ میں بھی شامل ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد یوسف چھینہ صاحب اندرون شہر ایک اور مکان میں منتقل ہو گئے۔

ہمارا کھانا اور ناشتہ کالج کے ملازم سید طالب حسین شاہ بناتے تھے۔ طالب حسین شاہ ساتویں کلاس میں میرے کلاس فیلو رہ چکے تھے۔ میں نے ساتھیوں سے کہا کہ طالب شاہ سے ملازموں والا رویہ نہ رکھیں کیونکہ میرے لیئے وہ بہر حال بہت اہم ہیں ۔ اللہ بھلا کرے ساتھیوں کا انہوں نے میری بات مان لی اور طالب شاہ کو مناسب اہمیت ملنے لگی۔

محلہ بمبرانوالہ بہت اچھا محلہ ہے۔ بہت خوش اخلاق اور محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ ان میں سے کئی لوگوں سے تعلق اب تک برقرار ہے۔ ہیڈماسٹر مرحوم منور حسین شاہ ، ماہر تعلیم و موسیقی عبدالقیوم خان ، عتیل عیسی خیلوی اور لالا عیسی خیلوی بھی اسی محلے میں رہتے تھے۔ بمبرا قبیلے کے بزرگ ہیبت خان اور ان کے بھائیوں سے بھی باہمی احترام کا تعلق اب تک برقرار ہے۔ اسی قبیلے کے کرنل شیر بہادرنیازی بھی میرے بہت محترم دوست ہیں۔

کالج میں میرے صرف دو پیرئیڈ ہوتے تھے۔ اس کے بعد سارا دن فارغ۔۔۔۔ میں دن کا زیادہ تر وقت عتیل عیسی خیلوی صاحب کے ساتھ گذارتا تھا۔ چائے اور ادب ہماری مشترکہ پسند تھے۔ عتیل کی ذاتی لائبریری میں جدید اردو ادب کا خاصا بڑا ذخیرہ موجود تھا۔ وہ سب میں نے فراغت کے اس دور میں پڑھ ڈالا۔

شام کے بعد عتیل کے ساتھ لالا کی محفل میں حاضری بھی ہمارا ایک مستقل معمول رہی۔

قارئین، تقریبا ایک ماہ سے میں اپنی داستان حیات پوسٹس کی شکل میں لکھ رہا ہوں ۔ اس لیئے مجھے سیدھا آگے جانا ہے۔ لالا کے بارے میں مفصل معلومات اپنی کتاب درد کا سفیر میں لکھ چکا ہوں۔ ان پوسٹس میں بہت سی اور باتیں بھی لکھنی ہیں، اس لیئے جہاں ضروری ہوا لالا کے سر پر ہاتھ پھیر کر آگے نکل جاوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔15 جون 2024

کالج میں حاضری کے تین چار دن بعد ایک دن ہم کالج سے فارغ ہو کر عیسی خیل بازار گئے۔ کچھ چیزیں خریدنی تھیں۔ میرے ساتھ پروفیسر حسین احمد ملک، پروفیسر چوہدری محمد رمضان اور پروفیسر ملک محمد یوسف چھینہ بھی تھے۔ بازار میں دائیں جانب ایک چھوٹی سی دکان کے ماتھے پہ الصدف جنرل سٹور لکھا دیکھ کر میں نے دوستوں سے کہا آئیں ان صاحب سے بھی مل لیں۔

الصدف جنرل سٹور اس زمانے میں لالا عیسی خیلوی کا اکلوتا ذریعہ معاش تھا۔ لالا سے میرا سرسری سا تعارف تھا۔ صرف ایک ملاقات کچھ عرصہ پہلے ہوئی تھی۔

لالا نے ہماری خوب آو بھگت کی ، ہمیں چائے بھی پلائی ۔ مجھ سے پوچھا کیسے آنا ہوا ۔میں نے بتایا کہ گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں انگلش کے لیکچرر کے منصب پر میرا تقرر ہوا ہے۔

لالا نے کہا وت تاں مزا آگیا۔ رہائش کے لیئے میرا غریب خانہ حاضر ہے۔

میں نے کہا غریب خانے کا بندوبست ہم نے کر لیا ہے۔ میں نے اور میرے کچھ ساتھیوں نے محلہ بمبرانوالہ میں ایک مکان کرائے پر لے لیا ہے۔

لالا نے کہا جس مکان کا آپ نے بتایا ہے وہ ہمارے گھر سے پچھلی گلی میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملاقاتیں آسان ہوں گی۔ ویسے ہر شام میری بیٹھک پر کچھ دوست جمع ہوتے ہیں۔ اگر مصروفیات اجازت دیں تو آپ بھی آجایا کریں۔

میں نے کہا وہاں ہوتا کیا ہے؟

لالا نے کہا گپ شپ کے علاوہ تھوڑی بہت موسیقی بھی ہوتی ہے۔

میں نے کہا ٹھیک ہے۔ میں حاضری کی کوشش کروں گا۔

قارئین ، حسب وعدہ لالا کے سر پہ ہاتھ پھیر لیا ۔ اب آگے چلیں گے۔ عیسی خیل کالج میں اپنے قیام کے حوالے سے بہت سی دلچسپ باتیں اور واقعات آپ کو بتانے ہیں۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔16 جون 2024

عزیز ساتھیو ،

السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ

عید الاضحٰی مبارک۔

اللہ کی بارگاہ میں اپنی قربانی کی قبولیت یقینی بنانے کے لییے قربانی کا گوشت ان لوگوں کو ضرور دیں جو قربانی نہیں کر سکے۔ ان میں سے جو لوگ مانگنے کے لیئے آپ کے گھر نہیں آ سکتے ان کے گھروں میں گوشت پہنچائیں۔

17 جون 2024

میرے پرنسپل۔۔۔۔۔

جب ہمارا تقرر گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں ہوا اس وقت پروفیسر ایس ایم اے فیروز نامی بزرگ اس کالج کے پرنسپل تھے۔ بہت خاموش طبع اور پراسرار شخصیت تھے۔ لیکچررز سے بھی ذرا فاصلے پر رہتے تھے۔ کھل کر گپ شپ نہیں لگاتے تھے۔ دراصل ان کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ عیسی خیل میں رہنا پسند نہیں کرتے تھے ۔ یہاں سے ٹرانسفر کی مسلسل کوشش کرتے رہے۔ ہماری آمد کے دو تین ماہ بعد یہاں سے فیصل آباد کے کسی کالج میں ٹرانسفر ہوگئے۔

ایس ایم اے فیروز صاحب کے بعد پروفیسر رمضان شاہ صاحب عیسی خیل کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ شاہ صاحب فزکس کے بہت قابل پروفیسر تھے۔ اس وقت ان کی سروس کے آخری چار پانچ ماہ باقی تھے۔

پرنسپل کی حیثیت میں شاہ صاحب کا رویہ ایک مہربان باپ جیسا تھا۔ انہیں کبھی کسی کو ڈانٹتے نہ دیکھا۔ سب سے یکساں مشفقانہ سلوک کرتے تھے۔

رہائش کے لیئے شاہ صاحب نے ہم لیکچررز کی رہائش گاہ پسند کی۔ اس وقت اس مکان میں میں ، ملک عبدالستار جوئیہ اور محمد اکبر خان مقیم تھے۔ تین کمروں کا مکان تھا۔ شاہ صاحب نے میرے ساتھ رہنا پسند کیا۔ یوں وہ میرے روم میٹ بن گئے۔

شاہ صاحب بیڑی بہت پیتے تھے۔ بیڑی اور سگریٹ میں فرق یہ ہے کہ بیڑی کا تمباکو کاغذ کی بجائے ایک چوڑے خشک پتے میں لپٹا ہوتا ہے ۔ یہ خاص قسم کا پتہ بیڑی پتہ کہلاتا ہے۔ بیڑی بہت مزیدار چیز ہوتی ہے۔ سٹاف میں سموکر صرف یہی گنہگار تھا اسی لییے شاہ صاحب نے میرے ساتھ رہنا پسند کیا۔ رفتہ رفتہ انہوں نے مجھے بھی بیڑی کا عادی بنا دیا۔ جب بھی بیڑی سلگاتے ایک بیڑی مجھے بھی پکڑا دیتے تھے۔ وہ اپنا بیڑی کا سٹاک کراچی میں اپنے رشتہ داروں سے منگوایا کرتے تھے۔ ایک دن میں نے کہا شاہ جی بیڑی پینا آپ کے لیئے تو آسان پے کہ آپ کے رشتہ دار کراچی سے بھیج دیتے ہیں۔ میرا وہاں کون بیٹھا ہے جو مجھے بیڑیاں سپلائی کرتا رہے۔ آپ کے جانے کے بعد میں یہ شوق کیسے پورا کروں گا۔

ہنس کر کہنے لگے جب تک میں ادھر ہوں چلائیں ، میرے جانے کے بعد پھر سگریٹ شروع کر دینا۔

شاہ صاحب سر شام کھانا کھا کر سو جاتے تھے اور میں عتیل کے ساتھ عیسی خیلوی کی محفل میں حاضر ہو جاتا تھا۔ ایک آدھ بار شاہ جی کی آنکھ کھلی تو میں کمرے سے غائب تھا۔ انہوں نے میرے ساتھیوں سے کہا یارو پتہ کرو ملک صاحب رات کو جاتے کہاں ہیں۔ مجھے تو پوچھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ آپ ہی ان سے پوچھ لیں کہ خیریت تو ہے۔ نوجوان آدمی ہے کہیں کسی چکر میں نہ پھنس گیا ہو۔

دوستوں نے انہیں بتایا کہ چکر شکر کوئی نہیں، ملک صاحب اسی محلے میں ایک گلوکار عطاءاللہ کے ہاں جاتے ہیں۔

ایک دن کالج سے واپس آتے ہوئے میں نے شاہ صاحب سے پوچھا سر، آپ کے بچے کتنے ہیں ؟

شاہ صاحب نے کہا بھئی بے شمار ہیں اللہ کے فضل سے۔

بعد میں مجھے پروفیسر چوہدری رمضان صاحب نے بتایا کہ شاہ صاحب کی اولاد نہیں ہے۔ وہ اپنے سٹوڈنٹس کو ہی اپنے بچے کہتے ہیں۔

بات بالکل درست ہے۔ احترام اور فرمانبرداری کے لحاظ سے سٹوڈنٹس اور اپنے بچوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

چند ماہ بعد شاہ صاحب ریٹائر ہو کر کراچی چلے گئے اور کچھ عرصہ بعد اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ رب کریم ان کی اگلی منزلیں آسان فرمائے بہت خوبصورت یادیں چھوڑ گئے۔۔۔ رہے نام اللہ کا ۔۔۔20 جون 2024

میرے پرنسپل۔۔۔۔۔

پروفیسر رمضان شاہ صاحب کے بعد ڈاکٹر عبدالمجید قریشی صاحب عیسی خیل کالج کے پرنسپل متعین ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے تہران یونیورسٹی (ایران) سے فارسی ادب میں پی ایچ ڈی کیا تھا۔ بہت نفیس مزاج، خوش اخلاق ، خوش گفتار ، مجلس باز شخصیت تھے۔ سب کے ساتھ ان کا رویہ دوستانہ رہا۔ کبھی ہمیں یہ محسوس نہ ہونے دیا کہ وہ ہمارے باس ہیں، تاہم ان کی شخصیت ایسی باوقار تھی کہ ہم سب لوگ ان کا احترام کرتے تھے۔

کالج ٹائیم کےبعد ان کی رہائش گاہ پر دوستوں کی محفل جمتی تھی۔ ادب سیاست اور مقامی ثقافت پر بہت دلچسپ گفتگو ہوتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب ایک سے زائد بار دوستوں کو چائے بھی پلاتے تھے۔ چائے کے ساتھ کھانے کو بھی کچھ نہ کچھ ہوتا تھا۔

ڈاکٹر صاحب کی تجویز پر ہم نے دریائے کرم کے کنارے درہ تنگ کے مقام پر ایک یادگار پکنک بھی منائی تھی۔ ہمارے ساتھی اردو کے لیکچرر افغانی صاحب نے کھانے کے لیئے چکن بنایا تھا۔ ویسا لذیذ چکن پھر کبھی نصیب نہ ہوا۔ کمال کا ذائقہ تھا اس سالن کا۔ افغانی صاحب خالص لاہوری تھے۔ پیپلز پارٹی سے وابستگی کے جرم میں ایم اے او کالج لاہور سے عیسی خیل کالج ٹرانسفر ہو کر آئے تھے۔

ڈاکٹر عبدالمجید قریشی صاحب چند ماہ ہی عیسی خیل کالج میں رہے۔ پھر ان کا ٹرانسفر گورنمنٹ کالج شاہپور ہو گیا۔ وہیں ایک دن دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

ڈاکٹر صاحب کا ٹرانسفر دسمبر کی چھٹیوں میں ہوا۔ اس دن موقع پر صرف میں موجود تھا۔ باقی سب ساتھی اپنے اپنے گھروں میں چھٹیاں گذار رہے تھے۔۔ڈاکٹر صاحب پرنسپل کا چارج میرے سپرد کر کے چلے گئے۔ میں نے کہا سر ہم سب میں سینیئر تو چوہدری رمضان صاحب ہیں۔ انچارج پرنسپل ان کو ہونا چاہیئے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا فی الحال تو چارج آپ سنبھال لیں، چھٹیوں کے بعد چوہدری رمضان صاحب کو دے دیں۔ یوں ڈاکٹر صاحب مجھے انچارج پرنسپل بنا کر رخصت ہو گئے۔ بے شمار حسین یادیں ان کی امانت ہیں۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔21 جون 2024

میں نے دسمبر 1976 میں گورنمنٹ کالج عیسی خیل کے پرنسپل کا منصب سنبھالا۔ یہ تقرر عارضی تھا لیکن تقریبا ایک سال مجھے اس منصب پہ کام کرنا پڑا۔ خدا خدا کرکے ایک سال بعد عیسی خیل کالج کو مستقل پرنسپل نصیب ہوا اور میں اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو گیا۔

میری پرنسپل شپ کے دوران دو خاصے تہلکہ خیز واقعات ہوئے۔ اللہ کریم کی مہربانی نہ ہوتی تو مجھے خاصا بھاری نقصان اٹھانا پڑتا۔

پہلا واقعہ یوں تھا کہ اس سال سرکار نے کالج کا فرنیچر ، سائنس کا سامان اور کالج لائبریری کی کتابیں خریدنے کے لیئے ایک لاکھ روپے کی منظوری دی۔ ( اس زمانے میں ایک لاکھ روپے میں بہت کچھ خریدا جا سکتا تھا) ۔

خریدی ہوئی چیزوں کی قیمت کی ادائیگی ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر سے بل پاس کروانے کے بعد نیشنل بینک رقم نکلوا کر کی جانی تھی۔

میں نے چیزیں خرید لیں مگر بل پاس کروانا مسئلہ بن گیا۔ اکاؤنٹس آفس سے بل پر اعتراض لگنے لگے۔ تین چار بار یہ اعتراضات دور کر کے بل بھیجے مگر بل پاس نہ ہو سکے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ میں نے رشوت والا شارٹ کٹ استعمال نہ کیا ورنہ بل ایک منٹ میں پاس ہو جاتے۔

30 جون مالی سال کا آخری دن ہوتا ہے۔ اس دن تک جو سرکاری ادائیگیاں نہ ہو سکیں ان کی رقم سرکاری خزانے میں واپس چلی جاتی ہے اور اس کی ذمہ داری پرنسپل پر عائد ہوتی ہے۔

30 جون کو میں اکاؤنٹس آفس کے تمام اعتراضات دور کر کے بل پاس کروانے گیا تو ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر نے دو چار نئے بالکل فضول اعتراضات عائد کر دیئے۔۔۔۔ میرے اندر کا میانوالین جاگ اٹھا۔۔۔۔۔ منت خوشامد کرنے کی بجائے میں نے فائل اکاؤنٹس آفیسر کی میز پر رکھ دی اور کہا یہ بل آپ رکھ لیں۔ میں اپنے گھر داودخیل جا رہا ہوں ۔ چیزوں کی قیمت میں اپنی جیب سے ادا کر دوں گا۔ البتہ اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب کو یہ ضرور لکھ دوں گا کہ ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفیسر نے جان بوجھ کر بل زائدالمیعاد کرا دیئے۔

یہ کہہ کر میں وہاں سے واپس آگیا ، مگر دھمکی کام کر گئی۔ اسی شام تقریبا 5 بجے اکاؤنٹس آفس کا ایک آدمی میرے بل لے کر داودخیل پہنچا ۔اس نے بل میرے سپرد کرتے ہوئے کہا سر، آپ کے بل پاس ہو گئے ہیں۔ نیشنل بینک سرکاری ادائیگیوں کے لیئے آج رات 12 بجے تک کھلا رہے گا۔ آپ عیسی خیل جا کر بل کی رقم وصول کر لیں ۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔22 جون 2024

جولائی 1977 میں میں نے نیاز محمد اور دوست محمد نامی دو افراد لیب اٹینڈنٹ کی خالی اسامیوں پر بھرتی کیئے۔ امیدوار پانچ سات تھے ان میں سے ایک دو آدمی عیسی خیل کی با اثر شخصیات کی سفارشیں بھی لائے ، مگر میں نے ذاتی طور پر تحقیقات کر کے صحیح معنوں میں مستحق آدمی ملازم رکھ لیئے۔

کسی مہربان نے سیکرٹری ایجوکیشن کو درخواست دے دی کہ پرنسپل نے مارشل لاء کی پابندی کے باوجود بندے ملازم رکھ لیئے۔

قصہ یہ تھا کہ 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کر کے حکومت سنبھالی تو اسی دن تمام سرکاری ملازمتوں میں بھرتی پر پابندی عائد کر دی۔ ایک ہفتہ بعد پابندی ختم کرنے کا حکم جاری ہوا۔ اس سے دس دن بعد دوبارہ پابندی عائد کر دی گئی۔

میرے خلاف درخواست پر سیکرٹری ایجوکیشن نے ڈائریکٹر کالجز سرگودہا پروفیسر رفیع اللہ خان کو انکوائری آفیسر مقرر کر کے انکوائری کا حکم دیا۔

اس سلسلے میں رفیع اللہ خان صاحب ایک دن کالج میں تشریف لائے۔ خان صاحب میری انگریزی کے شیدائی تھے، اس لیئے مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ مگر اس دن بہت غصے میں تھے۔ مجھ سے کہنے لگے

” پتر اے توں کی کیتا اے ؟ رب دے بندے ، مارشل لاء دے ban دے دوران توں دو بندے ملازم رکھ لئے نیں۔ ہن تیری نوکری تے جاوے ای جاوے”۔

میں نے کہا سر، ایسی کوئی بات نہیں۔ جس دن میں نے ملازم بھرتی کیئے اس دن مارشل لاء کی پابندی عائد نہیں تھی۔

میں نے فائل کھول کر ملازمتوں پر پابندی کے بارے میں تینوں لیٹرز خان صاحب کو دکھائے اور کہا یہ دیکھیں جس دن میں نے بندے ملازم رکھے اس دن پابندی عائد نہ تھی۔

خان صاحب خوشی سے جھوم اٹھے، کہنے لگے

“اوئے میں تے پہلے ای کہندا سی میرا پتر بڑا پڑھا لکھا بندہ اے۔ او اس طراں دی غلطی نئیں کر سکدا۔۔ اینہاں دی ۔۔۔۔۔۔۔۔( درخواست دہندہ کو لمبی سی گالی)۔۔۔”

یہ کہہ کر خان صاحب نے شکایت کی درخواست پھاڑ کر پھینک دی اور انکوائری رپورٹ میں لکھ دیا کہ جس دن پرنسپل نے بندے ملازم رکھے اس دن ملازمتوں میں بھرتی پر پابندی عائد نہ تھی۔

چائے وغیرہ پینے کے دوران خان صاحب بڑے خوشگوار موڈ میں ہنستے ہنساتے رہے۔ جو دو چار پروفیسر صاحبان وہاں موجود تھے ان سے کہنے لگے

” اوئے منڈیو، صاب نوں راضی رکھیا کرو ۔ بڑی سوہنڑیں انگریزی لکھدا جے میرا پتر۔ تہاڈیاں اے سی آراں ( سالانہ رپورٹس) وچ رنگ بھر دیوے گا”۔

کچھ دیر گپ شپ لگانے کے بعد خان صاحب رخصت ہوگئے۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔23 جون 2024

ٹیچر کی حیثیت میں عیسی خیل کالج میں میری کارکردگی بہت محدود رہی۔ پانچ سال میں میں نے ایک بھی ایسا سٹوڈنٹ نہ دیکھا جو انگلش میں دلچسپی رکھتا ہو۔ کبھی کسی سٹوڈنٹ نے مجھ سے ایک لفظ تک نہ پوچھا۔ ان کی تمام تر دلچسپی امتحان پاس کرنے تک محدود تھی۔ اس لیئے میں نے بھی صرف اتنا ہی پڑھایا کہ وہ امتحان میں پاس ہو جائیں۔ اس سے زیادہ انگلش ہضم کرنے کی اہلیت ان میں نہ تھی۔ اسی لیئے میں کہا کرتا تھا کہ مجھے نظر نہیں آتا اگلے سو سال میں بھی عیسی خیل کا کوئی جوان ایم اے انگلش کر لے گا ۔

قصور بچوں کا نہیں وہاں کے ماحول ، والدین اور اساتذہ کا تھا۔ بچوں کو کالج کی تعلیم کے بعد کا کوئی ویژن ہی نہیں دیا گیا۔ میرے پاس یہ بچے صرف دو سال (انٹرمیڈیٹ) کے لیئے آتے تھے ۔ دوسال میں کورس بھی بمشکل مکمل ہوتا تھا۔ اس لیئے میری تمام تر توجہ کورس تک محدود رہی۔

اس کے برعکس گورنمنٹ کالج میانوالی میں میرے کئی سٹوڈنٹ ڈاکٹر، انجینیئر، پروفیسر، وکیل اور جج بن گئے۔ وہاں انگلش ڈیپارٹمنٹ کے موجودہ ہیڈ بھی میرے سابق سٹوڈنٹ ہیں۔ مگر عیسی خیل کالج کے اپنے سٹوڈنٹس کے بارے میں مجھے کچھ علم نہیں کہ وہ آگے چل کر کیا کیا بنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔24 جون 2024

گورنمنٹ کالج عیسی خیل میں تقرر سے پہلے بھی عیسی خیل میرے لیئے اجنبی شہر نہ تھا۔ تقریبا 25 سال پہلے جب ہمارے باباجی ملک محمد اکبر علی گورنمنٹ ہائی سکول عیسی خیل کے ہیڈماسٹر تھے میں ساتویں کلاس میں اس سکول کا سٹوڈنٹ رہا۔ میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی بھی اس وقت اسی سکول میں انگلش ٹیچر تھے۔ اس زمانے میں سکول کی عمارت وہ تھی جو بعد میں گرلز ہائی سکول کو دے دی گئی۔

ساتویں کلاس میں ماسٹر نور محمد صاحب، ماسٹر عبدالرحیم صاحب ، ماسٹرغلام حسین شاہ صاحب، انگلش ٹیچر فیض محمد خان نیازی صاحب، ترگ کے ماسٹر غلام دستگیر شاہ صاحب اور عربی ماسٹر مولانا شیر محمد خان صاحب ہماری کلاس کو پڑھاتے تھے۔

نجیب اللہ ہاشمی، ملک عطا محمد ہرایا، عبدالرزاق خان المعروف کالا خان (لالا عیسی خیلوی کے بہنوئی) ، امداد حسین شاہ بخاری ( پیر عادل شاہ کے وارث) اور کلور سے ملک محمد اکرم میرے کلاس فیلو اور قریب ترین دوست تھے۔

نجیب اللہ ہاشمی پرنسپل ریٹائر ہوئے، ملک عطا ہرایا شیخوپورہ پولیس سے ڈی ایس پی ریٹائر ہوئے ، عبدالرزاق خان واپڈا سے لائین سپرنٹنڈنٹ ریٹائر ہوئے۔ امداد حسین شاہ پیر عادل شاہ بخاری کے سجادہ نشین کے منصب پہ فائز ہوئے۔ ملک محمد اکرم فوج میں بھرتی ہوگئے۔۔۔۔۔ بہت اچھا گروپ تھا ہمارا۔ پڑھائی میں بھی تیز، شرارتوں میں بھی سب سے آگے۔ شاباش بھی بہت ملی ، مار پٹائی بھی بہت ہوئی۔

یہ سب کچھ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میرا تو عیسی خیل دوسرا گھر تھا۔ بابا جی اور بھائی جان ملک انور علی کے حوالے سے شہر کے اکثر لوگ مجھے جانتے تھے۔ یہاں سے میانوالی ٹرانسفر کروانے کی ایک وجہ تو اپنے بچوں کی تعلیم تھی کہ عیسی خیل کالج اس وقت انٹر کالج تھا۔ یہاں ایف سے آگے تعلیم کا کوئی ادارہ نہ تھا۔ میرے ٹرانسفر کی دوسری وجہ یہ تھی کہ عیسی خیل میں بہت سی ضروریات زندگی دستیاب نہ تھیں، اس لیئے یہاں سے میانوالی منتقل ہونا پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔25 جون 2024

اکتوبر / نومبر 1977 میں جوہر آباد کالج کے پروفیسر سید مختار حسین طاہر گورنمنٹ کالج عیسی خیل کے پرنسپل مقرر ہو ئے تو میں نے چارج ان کے سپرد کر دیا۔

شاہ صاحب ریاضی کے پروفیسر تھے۔ بہت عابد و زاہد انسان تھے۔ اگرچہ کلین شیو تھے لیکن تہجد گذار اور متقی انسان تھے۔ دفتری امور کے بھی ماہر تھے۔ لباس اور بول چال میں سادہ لیکن مزاج افسرانہ تھا۔ بہت بااصول افسر تھے۔ ان سے ہم نے بہت کچھ سیکھا۔

تقریبا ایک سال بعد وہ عیسی خیل کالج سے انبالہ مسلم کالج سرگودھا ٹرانسفر ہو گئے۔ ان کی جگہ بھکر سے پروفیسر ملک محمد نواز چھینہ صاحب عیسی خیل کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ چھینہ صاحب بھی ریاضی کے پروفیسر تھے۔ بہت اچھے ایڈمنسٹریٹر بھی تھے۔ کالج بلڈنگ کی تعمیر اور واٹر سپلائی سسٹم کی تنصیب انہی کی محنت کا نتیجہ ہے۔

پروفیسر محمد نواز چھینہ صاحب عیسی خیل کالج میں تقریبا دو سال رہے۔ دسمبر 1980 میں ان کا ٹرانسفر گورنمنٹ کالج بھکر میں ہو گیا اور میرا گورنمنٹ کالج میانوالی میں۔

میرا ٹرانسفر سابق پرنسپل سید مختار حسین طاہر صاحب کی مہربانی سے ہوا جو اس وقت ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز سرگودہا ڈویژن کے منصب پر فائز تھے۔ ایک دن میں ڈائریکٹوریٹ آفس میں گیا تو شاہ صاحب نے کہا ملک صاحب کبھی ہمارے لائق کوئی خدمت ہو تو بتانا۔

میں نے کہا سر بچے اب بڑے ہو گئے ہیں۔ ان کی تعلیم کی فکر ہے۔ عیسی خیل کالج تو انٹر کالج ہے۔ ایف اے سے آگے تعلیم کا عیسی خیل میں کوئی ادارہ نہیں ہے۔ اگر میرا ٹرانسفر گورنمنٹ کالج میانوالی میں ہو جائے تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

شاہ صاحب نے کہا فکر نہ کریں۔ اللہ خیر کرے گا۔۔۔۔۔۔ دو تین دن بعد میرا ٹرانسفر ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔26 جون 2024

شہر کے ہنگاموں سے دور۔۔۔پر سکون زندگی

دسمبر 1980 میں جب میں گورنمنٹ کالج عیسی خیل سے ٹرانسفر ہو کر گورنمنٹ کالج میانوالی آیا اس وقت میانوالی کے بھرے شہر میں مجھے صرف دس بارہ لوگ جانتے تھے۔ ان دس بارہ لوگوں میں بھی پانچ سات سے میرا تعارف کالج میں آنے کے بعد ہوا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس وقت میں اس شہر میں ایک اجنبی تھا۔

میانوالی میں اس اجنبیت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ میں نے تعلیم داودخیل کے بعد گارڈن کالج راولپنڈی سے حاصل کی تھی۔ میانوالی شہر میں آنا جانا سال چھ ماہ میں ایک آدھ بار ہی ہوتا تھا۔ سکول کی سروس کے دوران کبھی کبھار آمدورفت ایجوکیشن آفس تک محدود رہی۔ ایجوکیشن آفس بھی اس زمانے میں شہر سے باہر ضلع کونسل کے آفس کمپلیکس میں واقع تھا۔ یوں میانوالی شہر کی گلیوں اور لوگوں سے میں بالکل ناواقف تھا۔ پہلے پہل تو ایسا لگا جیسے میں غلط جگہ پہ آگیا ہوں جہاں مجھے کوئی جانتا ہی نہیں۔

کس کو خبر تھی کہ میری زندگی کے 40 سال اسی شہر میں بسر ہوں گے۔ سب لوگ میرے واقف اور ہر گلی میری جانی پہچانی گلی بن جائے گی۔

کالج میں پڑھانا شروع کیا تو میری واقفیت کا دائرہ بڑی تیزی سے پھیلنے لگا۔ فرسٹ ایئر ، سیکنڈ ایئر اور تھرڈ ایئر کے تقریبا 300 سٹوڈنٹس سے تو میرا تعارف چند دنوں میں براہ راست ہو گیا۔ یوں گلی محلوں اور بازاروں میں بھی میری پہچان بن گئی۔

اللہ کے فضل سے اس شہر میں اتنی محبت اور عزت ملی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی میرے دل نے یہ شہر چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ میں یہیں کا ہو کر رہ گیا۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔27 جون 2024

گورنمنٹ کالج میانوالی میں ٹرانسفر سے پہلے اس کالج کے پچاس ساٹھ پروفیسر صاحبان میں سے صرف چند لوگ ہی مجھے جانتے تھے۔ پروفیسر محمد سلیم احسن صاحب اور ڈی پی ای محمد افضل خان نیازی صاحب عیسی خیل کالج میں میرے کولیگ رہ چکے تھے۔ شعبہ اردو کے سربراہ پروفیسر اقبال کاظمی صاحب میرے بڑے بھائی ملک محمد انورعلی کے دوست تھے۔ پروفیسر اجمل نیازی صاحب شاعر ادیب ہونے کے حوالے سے مجھ سے آشنا تھے اور شعبہ بیالوجی کے سربراہ پروفیسر محمد فاروق صاحب بچپن میں میرے کلاس فیلو رہ چکے تھے۔ بقیہ پروفیسر صاحبان سے میرا تعارف یہاں آنے کے بعد ہوا۔

شعبہ انگریزی میں اس وقت تین لیکچررز ۔۔۔۔ سلطان محمود اعوان صاحب، محمد حنیف شاہ کاظمی صاحب اور سرور خان نیازی صاحب تھے۔ چوتھا میں ہوگیا ۔ میرے آنے پر شعبہ انگریزی کے لوگ بہت خوش ہوئے کہ کام کا بوجھ کچھ تو ہلکا ہوا۔

پہلے سال مجھے فرسٹ ایئر آرٹس گروپ ، سیکنڈ ایئر میڈیکل گروپ اور تھرڈ ایئر کی ایک کلاس دی گئی۔

سیکنڈ ایئر میڈیکل گروپ کے سٹوڈنٹس نے بتایا کہ انگلش کا بہت سا کورس ابھی باقی ہے۔ تین ماہ بعد امتحان ہونا تھا۔۔۔ میں نے روزانہ ایک پیریئڈ زائد لے کر کورس مکمل کرا دیا۔ اللہ کے فضل سے ریزلٹ بہت شاندار رہا۔ سابق ایم پی اے ڈاکٹر صلاح الدین خان بھی میری اس کلاس کے سٹوڈنٹ تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔28 جون 2024

جب میں گورنمنٹ کالج میانوالی آیا اس وقت فیصل آباد کے پروفیسر چوہدری نیاز احمد صاحب یہاں پرنسپل تھے۔ چوہدری صاحب گورنمنٹ کالج لاہور سے ٹرانسفر ہو کر یہاں آئے تھے۔۔ وہاں یہ باٹنی ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر تھے۔۔

چوہدری نیاز احمد صاحب بہت نرم مزاج اور خوش اخلاق انسان تھے۔ سٹاف کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ مشفقانہ رہا اس لییے سب لوگ ان کا دل سے احترام کرتے تھے۔

چوہدری نیاز صاحب سچے عاشق رسول تھے۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا نام سنتے ہی ان کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں۔ سرکار دوعالم سے محبت کی بنا پر انہیں پروانہ شمع رسالت غازی علم الدین شہید سے والہانہ عقیدت تھی۔ میانوالی جیل میں جاکر سزائے موت کی اس کوٹھڑی کی زیارت کی جہاں علم الدین شہید نے اپنی زندگی کے آخری ایام بسر کیئے۔ جیل سے ملحق قبرستان میں وہ جگہ بھی دیکھی جہاں علم الدین شہید کو امانت کے طور پر دفن کیا گیا تھا۔ شہر کے بزرگوں سے ملاقاتیں کرکے شہید کے بارے میں معلومات حاصل کیں ۔ کچھ بزرگوں نے بتایا کہ میانوالی کے نوجوانوں نے جیل پر حملہ کر کے علم الدین کو رہا کرانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ مگر شہید علم الدین نے یہ کہہ کر سختی سے منع کر دیا کہ میں تو اپنی جان بچانے کی بجائے یہ جان اپنے رسول کریم پر نثار کرنا چاہتا ہوں ۔ اس لیئے مجھے رہائی کی بجائے سزائے موت چاہیئے۔

پرنسپل چوہدری نیاز احمد صاحب نے کالج میں علم الدین شہید کی یادگار بنانے کے لیئے علم الدین شہید فنڈ بھی قائم کیا۔ جس میں بہت سے لوگوں نے رقم جمع کرائی۔ کچھ رقم سرکار نے دے دی اور یہ سب رقم ملا کر کالج میں رحمتہ للعالمین آڈیٹوریم تعمیر ہوا۔

چوہدری نیاز صاحب کلین شیو افسر ٹائپ شخصیت تھے لیکن عشق رسالت مآب کے حوالے سے اس کالج کی تاریخ پر نقش دوام چھوڑ گئے۔۔۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔29 جون 2024

چوہدری نیاز احمد صاحب کے بعد راولپنڈی سے ڈاکٹر رشید احمد صاحب گورنمنٹ کالج میانوالی کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب عالمی سطح کے ریاضی دان (Mathematician) تھے۔ ریاضی دانوں کی بین الاقوامی تنظیم کے ممبر بھی تھے۔

ڈاکٹر رشید احمد صاحب بہت با اصول پرنسپل تھے۔ انہوں نے کالج میں Absentee slip کا سسٹم رائج کیا جس کے تحت ہر ٹیچر روزانہ ایک فارم پر اپنی ہر کلاس کے غیر حاضر سٹوڈنٹس کے رول نمبر درج کر کے پرنسپل آفس میں جمع کراتا تھا۔ اس سے ٹیچر کی اپنی حاضری کا بھی پرنسپل صاحب کو علم ہو جاتا تھا۔

اس طرح کی اور بھی کئی اصلاحات نافذ کر کے پرنسپل صاحب نے کالج میں باقاعدہ تدریسی کام یقینی بنا دیا۔

سرکاری خط و کتابت چونکہ میں کرتا تھا اس لیئے مجھے ڈاکٹر صاحب کے قریب رہنے کا بہت موقع ملا اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ مجھ پر بہت مہربان تھے۔ بقیہ سٹاف کے ساتھ بھی ان کا رویہ دوستانہ رہا۔

چند ماہ بعد ڈائریکٹر کالجز ملتان کے منصب پر فائز ہو کر یہاں سے ٹرانسفر ہو گئے۔ ایک دفعہ ایک دوست کو میں نے ڈاکٹر صاحب کے نام سفارشی خط دیا تو ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف ان صاحب کا کام کردیا بلکہ ڈاک سے میرے خط کا بہت پیارا جواب بھی بھجوایا، جس میں اپنے میانوالی قیام کی کچھ خوشگوار یادیں شیئر کیں۔

ڈاکٹر صاحب کے بیٹے جنوبی افریقہ کے دارالحکومت کیپ ٹاؤن میں رہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب بھی ریٹائرمنٹ کے بعد وہاں چلے گئے۔ وہاں ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے۔ 2011 میں کینسر کا مرض جان لیوا ثابت ہوا۔ وفات کے بعد تدفین بھی کیپ ٹاؤن میں ہوئی۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔30 جون 2024

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top