Image may contain: 5 people, people standing and beard

شعر میرا ———

Image may contain: 1 person, text
آرائش ، قدرت اللہ خان نیازی
داؤدخیل

1 مارچ2017

 میرا میانوالی / میرا داؤدخیل ——-

حکومت کوئی بھی ھو مزدوروں کو اپنے حقوق بزوربازو ھی ملتے ھیں- وہ بھی اس صورت میں جب مزدور متحد اور ان کی قیادت مخلص ھو-
مزدوروں کی قیادت کے سلسلے میں داؤدخیل کی بعض شخصیات نے تابناک روایات قائم کیں– شریف خیل قبیلہ کے بابا صالح محمد خان نیازی پورے پاکتان کی لیبر فیڈریشن کے صدر تھے- جب تک زندہ رھے بلامقابلہ اس منصب پر فائز رھے- کراچی میں رھتے تھے- پاکستان بھر میں بابا نیازی کے نام سے مشہورو معروف تھے-
ایسا مقبول مزدور رھنما نہ کبھی دیکھا نہ سنا- بابا نیازی کے ایک اشارے پر پورے پاکستان میں ٹرانسپورٹ کا پہیہ رک جاتا تھا- بسیں، ٹرک وغیرہ جہاں بھی ھوتے بابا کا حکم جاری ھوتے ھی وھیں رک جاتے- تمام کارخانے بند ھو جاتے، مزدور کفن پہن کردمادم مست قلندر کہتے ھوئے سڑکوں پر نکل آتے-

بابا نیازی دبلے پتلے نفیس مزاج انسان ٠ مگر شعلہ بیان مقرر تھے- بچپن میں داؤدخیل میں ایک دو جلسوں سے ان کا خطاب سننے کا اتفاق ھؤا- ان کی آواز کی شیر جیسی گھن گرج آج بھی کانوں میں گونج رھی ھے-

مزدوروں کے حقوق کے لیے بابا نیازی نے بے مثال قربانیاں دیں- کئی دفعہ جیل گئے، تشدد برداشت کیا، مگر چٹان کی طرح اپنے مؤقف پہ قائم رھے- چند سال ھوئے اس دنیا سے رخصٹ ھوگئے- آج بھی پورےپاکستان میں مزدور ھر سال ان کی برسی بڑے اھتمام سے مناتے ھیں-

مزدوروں کی قیادت کے حوالے سے داؤدخیل کی چند اور اھم شخصیات کا ذکر انشاءاللہ کل ھوگا- —— منورعلی ملک-2 مارچ2017

 میرا میانوالی میرا داؤدخیل ——-

داؤدخیل میں فیکٹریز کے کارکنوں کواپنے حقوق کے لیے منظم جدوجہد کا راستہ میانوالی کے معروف ایڈووکیٹ امان اللہ خان نیازی شیرمان خیل نے دکھایا- امان اللہ خان نیازی عمران خان اور انعام اللہ خان نیازی کے حقیقی چچا تھے- تحریک پاکستان کے زمانے میں مسلم لیگ سے وابستہ ھوئے، اور عمر بھر مسلم لیگی ھی رھے- ھر اچھے برے وقت میں مسلم لیگ کا ساتھ دیا-

امان اللہ خان نیازی نے داؤدخیل کی لیبر یونین کے لیے وھی کام کیا جو علامہ اقبال نے پاکستان کے لیے سرانجام دیا- انہوں نے لیبر یونین کا تصور واضح کرنے کے بعد یونین کا آئین بھی خود بنا کرر دیا- یونین کو رجسٹرڈ بھی کروا دیا- سکندرآباد ھاؤسنگ کالونی کے سامنے ریلوے لائین کے پار چاچادلاسہ خان کے ڈیرے پر لیبر یونین کا دفتر قائم کیا- اپنے خرچ پر ٹرین یا بس کے ذریعے تقریبا روزانہ داؤدخیل / سکندرآباد آیا کرتے تھے- مزدوروں کے مفادات سے متعلق کیسوں کی پیروی بھی عدالتوں میں خود کرتے رھے – اس کام کے لیے انہوں نے کبھی کوئی معاوضہ نہ لیا- ان کی پر خلوص محنت کے نتیجے میں داؤدخیل فیکٹریز کے ملازموں کوبےحساب مالی فوائد بھی حاصل ھوئے، عزت بھی ملی- اس لیے آج بھی داؤدخیل میں لوگ بہت عقیدت و احترام سے انہیں یاد کرتے ھیں– منورعلی ملک —-

Picture : Pak-Amercan Fertilizer Factory, Iskanderabad

Downloaded from 786mianwali.com

3 مارچ2017

 فیس بک سے دوستی ————–

فیس بک کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ھے کہ یہ مدتوں سے بچھڑے ھوئے اپنوں سے ملادیتی ھے- اگر وہ اس دنیا میں موجود نہیں، تو ان کی یاد دلادیتی ھے-

یہ پکچر جوآپ اس پوسٹ میں دیکھ رھے ھیں ، میرےمرحوم بھائی ملک یوسف علی کی ھے- یوسف بھائی میرے بڑے چچا ملک برکت علی کے اکلوتے صاحبزادے تھے- مجھ سے عمر میں ایک آدھ سال بڑے تھے- چچا جان تحصیلدار ریٹائر ھوئے- بعض خاندانی اختلافات کی وجہ سے داؤدخیل بہت کم آتے تھے- پچیس تیس سال میں صرف ایک دفعہ داؤدخیل آئے تھے- ریٹائرمنٹ کے بعد جہلم میں مقیم ھو گئے- وھاں جا کر ھم لوگ کبھی کبھار ان سے مل لیتے تھے- زندگی بھر داؤدخیل سے باھر رھے ، مگر یہ وصیت کر گئے کہ مرنے کے بعد مجھے داؤدخیل میں اپنے بابا جی کے قدموں میں دفن کیا جائے- اس وصیت پر عمل ھؤا-

یوسف بھائی کا بچپن کچھ جہلم میں ، کچھ اپنے ننھیال کے شہر ایبٹ آباد میں بسر ھؤا- ان سے صرف دوچار ھی ملاقاتیں ھوئیں- مگر خون کا رشتہ تھا ، محبت دونوں طرف سے برقرار رھی- یوسف بھائی ائیر فورس میں بھرتی ھوگئے- شادی بھی ایبٹ آباد میں کر لی- موبائیل فون کا زمانہ نہ تھا- اس لیے رابطے کی بھی کوئی صورت پیدا نہ ھو سکی-

2004 میں ان کی وفات سے چندماہ پہلے میرے ایک اور کزن نے فون پر ان سے بات کرائی- یوسف بھائی زندگی میں ایک ھفتہ بھی داؤدخیل میں نہ رھے، مگر داؤدخیل کی زبان ھم سے بھی اچھی بول لیتے تھے- ریٹائرمنٹ کے بعد پنڈی میں مقیم رھے- تدفین ایبٹ آباد میں ھوئی-

کچھ دن پہلے مجھے فیس بک سے ایک میسیج موصول ھؤا – لکھا تھا “ انکل جی، میں آپ کے بھائی ملک یوسف علی کا بیٹا ملک ضرارعلی قذافی ھوں- میں کینیڈا میں رھتا ھوں- آپ کی پوسٹس پڑھتا رھتا ھوں- انکل، کبھی میرے ابو کے بارے میں بھی لکھ دیں“-

میری آنکھوں میں آنسو آگئے، میں نے تو قذافی بیٹے کو دیکھا بھی نہیں- مگرخون تو پھرخون ھے- قذافی نے مجھے فیس بک پہ دیکھا تو فورا مجھ سے رابطہ کر کے اپنا تعارف کرادیا- للہ ان کو سلامت رکھے- میرے لیے اپنے ابو کی یہ پیاری سی پکچر بھی قذافی نے میری فرمائش پر بھجوادی- یوسف بھائی کے ساتھ پکچر میں جو بچی نظر آرھی ھے یہ ان کی نواسی ھے-

Image may contain: 2 people, people sitting and child

بہت شکریہ، قذافی بیٹا کہ آپ نے اپنے خاندان سے رابطہ بحال کردیا- ھمارا گھر آپ کا اپنا گھر ھے- کینیڈا سے واپس آکر ھم سب سے ضرور ملیں- ھمارے لیے اب ملک برکت علی بھی آپ ھیں، ملک یوسف علی بھی–

فیس بک ، آپ کا بھی شکریہ کہ آپ نے ھمیں رابطے کا آسان وسیلہ فراھم کردیا،—- منورعلی ملک-4 مارچ2017

 عزیزدوستو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ-
چند دنوں سے کچھ گھریلو کاموں میں مصروف ھوں ، اس لیے پوسٹس کی بجائے صرف پکچرز کیی صورت میں ھی حاضری دے سکتا ھوں- انشاءاللہ فارغ ھوتے ھی پوسٹس دوبارہ شروع کر دوں گا- پھرآپ کو بہت سی اور گلیوں کے چکر لگواؤں گا —————- منورعلی ملک-7 مارچ2017

 کچہ کا ایک منظر

Image may contain: cloud, outdoor and nature

 

 10 مارچ2017

 فیس بک پر شان رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم میں گستاخی کا سخت نوٹس لیتے ھوئے اسلام آباد ھائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے بالکل بجا فرمایا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رھا تواس قوم میں غازی علم الدین شہید اور ممتاز قادری پیدا ھوتے رھیں گے- پھر گستاخان رسالت مآب کے لیے یہ زمین تنگ ھو جائے گی-

آزادی اظہار کے نام پر ایسی گھٹیا حرکتیں ھم ھرگز برداشت نہیں کریں گے- حکومت کو اس سلسلے میں فوری سخت ترین کارروائی کرنی چاھیے- ایسی تمام ویب سائیٹس کو فوری طور پر بلاک کر دیا جائے- اور گستاخی کے مرتکب افراد اور اداروں کو منظرعام پر لا کر ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے-

آزادی اظہار کے متوالوں کو صاف بتا دیا جائے کہ اگر دنیا میں امن چاھتے ھو تو یہ مذموم حرکتیں ھمیشہ کے لیے ترک کردو——- ورنہ تم اچھی طرح جانتے ھو کہ کیا ھوگا-10 مارچ2017

 میرا میانوالی / میراداؤدخیل ——–

آئندہ چند پوسٹس میں اپنے چند ان ماھرین تعلیم دوستوں کا ذکر کروں گا، جو خود تو اب اس دنیا میں موجود نہیں ، مگر ان کے روشن کیے ھوئے چراغ مختلف شعبوں میں جگمگا رھے ھیں- یہ چراغ ملک بھر میں بلکہ ان میں سے کچھ بیرون ملک بھی میانوالی کی پہچان ھیں- ان چراغوں سے مستفید ھونے والے لاکھوں لوگ ان چراغوں کوتو جانتے ھیں ، مگر انہیں روشن کرنے والوں کو بہت کم لوگ جانتے ھیں- حالانکہ اصل احسان تو ان لوگوں کا ھے جنھوں نے ان چراغوں کو علم کے نور سے منور کیا-

اس ضمن میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ھوں کہ میں صرف ان لوگوں کا ذکر کر سکتا ھوں ، جنھیں میں براہ راست جانتا ھوں- اس وقت جو نام میرے ذھن میں آرھے ھیں، وہ یہ ھیں-

سید عطامحمد شاہ ھیڈماسٹر نورنگہ

امیرعبداللہ خان نیازی، پرنسپل گورنمنٹ جامع ھائی سکول میانوالی

کرم اللہ پراچہ ھیڈماسٹر گورنمنٹ ھائی سکول کالاباغ

ٹیچر کی حیثیت میں اپنے 50 سالہ تجربے کی بنا پر مجھے یقین ھے کہ میرے میانوالی کے لوگ اپنے ٹیچرز سے عقیدت اور محبت میں اپنی مثال آپ ھیں- اس لیے اپنے ان محترم ٹیچرز کے ذکر سے وہ خوش ھوں گے-

اس سلسلے کی میری پہلی پوسٹ انشاءاللہ سید عطا محمد شاہ ھیڈماسٹر نورنگہ کے بارے میں ھوگی- یہاں یہ گذارش بھی ضروری سمجھتا ھوں کہ جن دوستوں کے پاس ان مہربانوں کی پکچرز یا ان کے بارے میں اھم معلومات ھوں، مجھے فیس بک میسیج کی شکل میں ارسال کردیں تو میرا کام زیادہ بہتر ھو جائے گا——— منورعلی ملک-14 مارچ2017

 میرامیانوالی / میراداؤدخیل——-

رونے کو جی چاھتا ھے مقدرکی اس ستم ظریفی پر کہ اس چہرے کی کوئی پکچر نہیں مل رھی جس نے سینکڑوں چہروں کا مقدر سنوار کر انہیں عزت اور شہرت کی بلندیوں سے ھمکنار کیا- ان کے قریبی عزیزوں کے ہاں سے بھی ان کی کوئی پکچر دستیاب نہیں ھوئی-

Image may contain: 1 person, closeup

(صبار مہدی شاہ کا ممنون ھوں کہ انہوں نے شاہ جی کی پکچر بھیج کر میری شکایت کا ازالہ کردیا)-

ذکر ھے نورنگہ سکول کے ھیڈماسٹر مرحوم سید عطا محمد شاہ بخاری کا- شاہ جی صرف ھیڈماسٹر ھی نہیں ، بے مثال ٹیچر بھی تھے- میانوالی کے گورنمنٹ سنٹرل ماڈل ھائی سکول اور جامع ھائی سکول جیسے اعلی تعلیمی اداروں میں بھی سب سے نمایاں سٹوڈنٹ ، مڈل سکول نورنگہ سے آئے ھوئے بچے ھوتے تھے-

پروفیسرگلزاربخاری، پروفیسر علی اعظم بخاری، پروفیسر فیروز حسین بخاری، پروفیسر خاورنقوی، ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ستار سید، ریلوے کے اعلی افسر حسنین بخاری اور میجسٹریٹ سیدطاھر عباس بخاری جیسے معروف اھل قلم کو قلم پکڑنا سید عطا محمد شاہ ھی نے سکھایا- یہ تو وہ چند نام ھیں جنھیں میں ذاتی طور پہ جانتا ھوں ، اتنے ھی مشہورومعروف بہت سے نام اور بھی ھیں جن کی عزت و شہرت شاہ جی کے فیضان نظر کی عطا ھے-

سادگی، درویشی، انکساراور ایثار کی ایسی کوئی اور مثال کم ازکم میری نظر سے نہیں گذری- یقین کیجیے میں نے شاہ جی جیسا قابل اور بے لوث ٹیچر آج تک نہیں دیکھا-

شاہ جی کے پوتے سید صبار مہدی نقوی نے یہ خوش آئند خبر سنائی ھے کہ شاہ جی کی زندگی اور ان کی خدمات کے بارے میں ایک جامع کتاب مرتب ھو رھی ھے- یہ خبر سن کر کچھ اطمینان ھؤا کہ کسی حد تک تو شاہ جی کی بے مثل و بے لوث خدمات کا تذکرہ منظرعام پر آجائے گا- یہ کتاب انشاءاللہ ٹیچرز کے لیے مشعل راہ ھوگی-

ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد شاہ جی نے پکی شاہ مردان میں اپنا پرائیویٹ تعلیمی ادارہ قائم کیا تھا- یوں آخری سانس تک وہ علم کا نور بانٹتے رھے- —— منورعلی ملک-15 مارچ2017

 میرالالا عیسی خیلوی کے صاحبزادے سانول نیازی کی شادی کی تقریب

Image may contain: 5 people, people standing and beard
11 مارچ 2017 , گیریژن کلب، لاھور
ڈرھال برادران ( شفیع اللہ ملک، رفیع اللہ ملک ، مطیع اللہ ملک) اور لالا کے ھمراہ
یہ تینوں بھائی میرے بہت پیارے سٹوڈنٹ اور لالا کے نہایت قریبی دوست ھیں-15 مارچچ2017

 میرا

میرا میانوالی / میرا داؤدخیل —-

مسئلہ پھر وھی ھے- تاحال تو اس شخصیت کی بھی کوئی پکچر مجھے نہیں مل سکی جن کا ذکر میں آج کرنے لگا ھوں- ھم عجیب لوگ ھیں کہ اپنے پسندیدہ اداکاروں ، لیڈروں گلوکاروں اور دوستوں کی پکچرز تو اپنے ڈرائنگ رومزاور فیس بک کی زینت بناتے رھتے ھیں، مگر اپنے والدین اور محسن ٹیچرز کی پکچرز محفوظ رکھنا ضروری نہیں سمجھتے-

Image may contain: house and outdoor

آج ذکر ھو رھا ھے جامع ھائی سکول میانوالی کے مرحوم پرنسپل امیر عبداللہ خان نیازی کا- میانوالی کے پانچ سرکاری ھائی سکولوں میں معیار کے لحاظ سے سنٹرل ماڈل ھائی سکول اور جامع ھائی سکول سرفہرست ھیں- ان دو میں سے ھمیشہ سنٹرل ماڈل سکول نمبر ون سمجھا جاتا رھا، مگر جب امیر عبداللہ خان نیازی جامع ھائی سکول کے پرنسپل مقرر ھوئے تو جامع ھائی سکول میانوالی کے والدین اور بچوں کی پہلی ترجیح بن گیا- تعلیمی معیار میں جامع ھائی سکول اپنے رقیب سنٹرل ماڈل ھائی سکول سے بہت آگے نکل گیا- امیرعبداللہ خان نے اپنی محنت، حسن انتظام اور اصول پسندی سے اس سکول کو ایک مثالی تعلیمی ادارہ بنا دیا-
مرحوم امیرعبداللہ خان ایک visionaryy تھے- ان کے ذھن میں ایک مثالی تعلیمی ادارے کا جوو تصور موجود تھا، انہوں نے دن رات محنت کر کے جامع ھائی سکول کووھی مثالی ادارہ بنا دیا-
امیر عبداللہ خان نے ایک فوجی کی طرح منظم اور منضبط زندگی بسر کی- اپنے اصولوں پر کبھیی سمجھوتہ نہ کیا- وہ خود تو اچانک اس دنیا سے رخصت ھو گئے، مگر ان کا نام بلاشبہ میانوالی کی تعلیمی تاریخ کے ایک زریں باب کا عنوان بن گیا- — منورعلی ملک-
16 مارچ2017

کچہ کا ایک اور دلکش منظر

Image may contain: horse, sky, outdoor and nature

Image may contain: cloud, outdoor and nature

 میرامیانوالی / میرا داؤدخیل —

میانوالی کے ٹیچرز میں ایک نہایت محبوب و ًمحترم شخصیت چوھدری محمد رضی کانام بھی یہاں کی تعلیمی تاریخ کے ایک تابناک باب کا عنوان ھے- چوھدری محمد رضی انگلش کے بے مثال ٹیچر تھے- میری ان سے شناسائی اس وقت ھوئی جب میں ٹھٹھی سکول میں ھیڈماسٹر تھا، اور رضی صاحب ھمارے اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر مقرر ھوئے- بہت باوقار اور لائق انسان تھے- ان کی شخصیت میں ایک مقناطیسی کشش تھی جس کی وجہ سے لوگ ان سے ملنا، ان کے ساتھ بیٹھنا اور چلنا پھرنا پسند کرتے تھے- بہت شائستہ گفتگو کرتے تھے-

رضی صاحب نے ملازمت کا آغاز سینیئرانگلش ٹیچر کی حیثیت میں گورنمنٹ ھائی سکول میانوالی سے کیا- بہت عرصہ وھاں رھے- گورنمنٹ کالج میانوالی میں میرے اکثر ساتھی گورنمنٹ ھائی سکول میانوالی میں رضی صاحب کے سٹوڈنٹ رہ چکے تھے- سب یہی کہتے تھے کہ رضی صاحب جیسا قابل ٹیچر ھم نے نہیں دیکھا-

چوھدری محمد رضی گورنمنٹ جامع ھائی سکول میانوالی کے پرنسپل رٰیٹائر ھوئے- امیر عبداللہ خان نیازی کے لیے اس سکول کی فضا وھی ھموار کرگئے تھے-

انصاف پسندی کی اس سے بڑھ کر مثال اور کیا ھوگی کہ اپنا بیٹا بھی جامع ھائی سکول میں داخلے کے معیار پر پورا نہ اترا تو اسے اپنے سکول میں داخلہ نہ دیا-

چوھدری محمد رضی کے چھوٹے بھائی چوھدری محمد تقی گورنمنٹ ایم سی ھائی سکول میانوالی میں ٹیچر رھے- وھیں سے ریٹائر ھوئے- – ان کی ناگہاں موت رضی صاحب کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ثابت ھوئی- کہا کرتے تھے کہ میرے بھائی نے مجھے کبھی اداس نہ ھونے دیا- میرا ھر مسئلہ وھی حل کرتے تھے-

عوامی چوک میں انس میڈیکوز پہ رضی صاحب سے اکثر ملاقات ھوتی رھتی تھی – انس میڈیکوز کے مالک چوھدری شکیل ھم دونوں کے سابق سٹوڈنٹ تھے- ایک دن اپنے بھائی کا ذکر کرتے ھوئے چوھدری رضی صاحب نے عجیب سے جذباتی انداز میں کہا “ ملک صاحب، میرا بھائی اب بھی مجھ سے ملتا رھتا ھے- میں جب بھی پریشان ھوتا ھوں وہ فورا آجاتا ھے، اور میری پریشانی کا بوجھ اپنے کندھوں پہ اٹھا لیتا ھے- مجھے اب صرف یہ دکھ ھے کہ وہ واپس کیوں چلا جاتا ھے“-

رضی صاحب بھائی کو تو اپنے پاس رھنے پر آمادہ نہ کر سکے, ،بالآخر خود ھی یہ دنیا چھوڑ کر بھائی کے پاس جابسے—— منورعلی ملک-17 مارچ2017

Image may contain: 1 person

میرا میانوالی —–

سید عطامحمد شاہ ، امیر عبداللہ خان نیازی اور چوھدری محمد رضی کے ھمعصر کئی اور نامور ٹیچرز بھی تھے- نامور ٹیچرز کے اس گروپ میں بلوخیل کے حاجی نذیر احمد خان نیازی بھی ایک اھم شخصیت تھے- نیازی صاحب نے ملازمت کا آغاز سینیئرانگلش ٹیچر/ سائنس ٹیچر کی حیثیت میں گورنمنٹ نارمل سکول (ٹیچرز ٹریننگ سکول) شاھپور سے کیا- اس سے پہلے کچھ عرصہ انگلش ٹیچر کی عارضی آسامی پر گورنمنٹ ھائی سکول داؤدخیل میں بھی رھے- تاھم مستقل ملازمت کا آغاز شاھپور ھی سے کیا- ملازمت کا تقریبا نصف عرصہ شاھپور ھی میں بسر کیا – بہت قابل اور مقبول ٹیچر تھے-

1960 -70 کے دوران میانوالی میں اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر کی حیثیت میں آئے- بہت لائق اور بااصول افسر تھے- اپنے علاقے میں پرائمری / مڈل سطح پر تعلیم کے فروغ کے لیے بہت قابل قدر خدمات سرانجام دیں- ان کے کزن عطا محمد خان نیازی اورقریبی رشتہ دار عبدالقدوس خان نیازی (ھماری قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق کے والد) بھی اسی دور میں اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر رھے- اس لیے یہ کہنا غلط نہ ھوگا کہ میانوالی میں تعلیم کی ترقی کے لیے اس خاندان نے نمایاں خدمات سرانجام دیں-

حاجی نذیراحمد خان نے سنٹرل ماڈل ھائی سکول کے پرنسپل کے منصب پر بھی بہت قابل قدرروایات قائم کیں-

حاجی نذیر احمد خان میرے بڑے بھائی ملک محمدانورعلی کے کالج فیلواور نہایت قریبی دوست تھے- اس لیے میں انہیں اپنا بڑا بھائی سمجھتا ھوں- بہت شفقت فرماتے ھیں مجھ پر- دو تین سال پہلے ایک دن ھماری گلی سے گذرتے ھوئے ھمارے دروازے پر نظر پڑی تو دستک دے کر مجھے بلایا- کہنے لگے “ میں چوھدری رضی صاحب سے ملنے ادھر آیا تھا- اب واپس جا رھا تھا تو آپ کے دروازے پر تین ایم اے انگلش کی تختیاں دیکھ کر دل خوش ھو گیا“-

میں نے کہا “ سر، اللہ کے فضل سے اس گھر میں تین نہیں، چار ایم اے انگلش رھتے ھیں- میرے، امجد بیٹے اور اکرم بیٹے کے علاوہ میری بہو(مسزاکرم) بھی ایم اے انگلش ھیں“-

بہت خوش ھوئے یہ تفصیل سن کر-

کچھ دیر بیٹھ کر گئے وقتوں کو یاد کرتے رھے- پھر مجھے دعائیں دیتے ھوئے رخصت ھو گئے- اللہ سلامت رکھے ، بہت شفیق انسان ھیں- منورعلی ملک-18 مارچ2017

No automatic alt text available.

No automatic alt text available.

 میرامیانوالی ———–

بے مثل ٹیچرز کے اس گروپ کے ایک اھم رکن سرفراز خان نیازی بھی تھے- ریاضی کے باکمال ٹیچر، بہت کامیاب ایڈمنسٹریٹر، صاحب فکر دانشور اور بہت اچھے نثرنگاربھی ھیں- جن ٹیچرز کا ذکر پہلے ھوچکا ، ان میں سے پروفیسر اقبال کاظمی ، رضی صاحب ، نذیراحمد خان نیازی اور سرفرازخان دانشورکہلاتے تھے، کیونکہ یہ لوگ قومی اور تعلیمی مسائل پر غوروفکراور بحث کے لیے ھرشام نہر کے کنارے کسی ھوٹل پر محفل آرا ھوتے تھے- ان کی محفل ایک نجی محفل تھی، اس میں صرف سنجیدہ مزاج اعلی تعلیم یافتہ ، صاحب فکر لوگ ھی بیٹھ سکتے تھے- اس الیے اس محفل کے ارکان کی تعداد پانچ سات افراد ھی رھی- یہ صاحب علم لوگ تھے ، قومی معاملات کے بارے میں ان میں سے ھرایک کی اپنی اپنی رائے اور اپنا اپنا نظریہ تھا-

سرفرازخان نے ملازمت کاآغاز سینیئرانگلش ٹیچر / ریاضی ٹیچر کی حیثیت میں کیا- سنٹرل ماڈل ھائی سکول کے پرنسپل بھی رھے- ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کے طورپہ بھی قابل قدر خدمات سرانجام دیں- اب پرسکون ریٹائرڈ زندگی گذار رھے ھیں- بہت عرصے سے دوپہر کاوقت بنک والی گلی کی ایک دکا ن پر کچھ دوستوں کی محفل میں گذارتے ھیں- میری طرح بے تحاشا سموکنگ کرتے تھے ، ڈاکٹروں اور گھروالوں نے بہت سمجھایا مگر نہ مانے- پچھلے دنوں بازارجاتے ھوئے ھاشمی سٹریٹ میں ملاقات ھوئی تو انہوں نے بتایا کہ سموکنگ ترک کردی ھے- یہ سن کردکھ سا محسوس ھؤا-

اب سوچ رھا ھوں کہ ان سے مل کر میں بھی سموکنگ سے جان چھڑانے کا نسخہ آزمالوں- منورعلی ملک

19 مارچ2017

 میرا میانوالی ——-

کالاباغ کے کرم اللہ پراچہ بھی بہت اچھے ٹیچر اور ایڈمنسٹریٹر تھے- سنٹرل ٹریننگ کالج لاھور میں میرے کلاس فیلو بھی رھے- گورنمنٹ ھائی سکول کالاباغ کے ھیڈماسٹر تھے- ملازمت کے دوران ھی دنیا سے رخصت ھوگئے-

پراچہ صاحب میرے نہایت قریبی دوست ، بلکہ بھائی تھے- کہا کرتے تھے کہ نصراللہ اور ثناءاللہ کے بعد آپ میرے تیسرے بھائی ھیں- ان کے بڑے بھائی نصراللہ پراچہ نواب فیملی کے اکاؤنٹنٹ تھے- چھوٹے بھائی ثناءاللہ بزنس کرتے تھے- ان کے والد محترم کا وسیع و عریض کاروبار تھا– بہت بڑی بڑی کمپنیوں کی مصنوعات کے ڈسٹری بیوٹر تھے- پراچہ صاحب کے والد محترم بھیی مجھ پر بہت شفقت فرماتے تھے- کالاباغ کی تاریخ ، ثقافت اور معیشت کے بارے میں بھائی کرم اللہ بہت قیمتی معلومات میرے ساتھ شیئر کیا کرتے تھے-

میں جب کبھی سکول میں ان سے ملنے کے لیے جاتا، چائے وغیرہ سے فارغ ھوکر مجھے اپنی کلاس میں لے جاتے- میری لمبی چوڑی تعریفیں کرنے کے بعد مجھے کہتے ، اب آپ ان بچوں کو انگلش کی فلاں چیز پڑھائیں- ان کے ساتھ میں بھی کچھ سیکھ لوں گا- یہ کہہ کر کلاس کی آخری صف میں جابیٹھتے- اس طرح پراچہ صاحب نے کالاباغ میں بہت سے لوگوں کو میراسٹوڈنٹ بنادیا-

پراچہ صاحب سے بہت سی یادیں وابستہ ھیں، اس لیے انشاءاللہ کل بھی انہی کا ذکر ھوگا –

—— منورعلی ملک-20 مارچ2017

میرا میانوالی ——

مرحوم کرم اللہ پراچہ میرے دوست بھی تھے، رھنما بھی- بہت کچھ سیکھا ان سے میں نے- مجھ پر اتنے مہربان تھے کہ کیا بتاؤں- جب میں ٹھٹھی سکول میں ھیڈماسٹر تھا تو ایک دن کوٹ چاندنہ کے پیرصاحب کے بھائی میرے سکول میں تشریف لائے- اپنا تعارف کرانے کے بعد کہا کہ کالاباغ سکول میں ایک بچے کو داخل کروانا ھے ، مگر ھیڈماسٹر کرم اللہ پراچہ صاحب نے داخلہ دینے سے انکار کر دیا ھے- ھم نے بہت سفارشیں کرائی ھیں، لیکن ھیڈماسٹر صاحب اپنے مؤقف پر قائم ھیں- ھم نے سنا ھے وہ آپ کی بات مانتے ھیں، پلیز آپ ان سے کہہ کر بچے کو داخلہ دلوادیں۔Image may contain: 1 person, outdoor

میں نے انگلش میں صرف یہ لکھ کر دے دیا کہ بھائی جان ان کے بچے کو اپنے سکول میں داخلہ دے دیں-

دوسرے دن کوٹ چاندنہ سے پیرزادہ صاحب پھر تشریف لائے، بہت خوش تھے- کہنے لگے ملک صاحب آپ کا رقعہ دیکھتے ھی ھیڈماسٹر صاحب مسکرا دیئے اور بچے کی درخواست پر Admitted لکھ کر اسے فی الفور داخلہ دے دیا- پیرزادہ صاحب نے اس خوشی میں مجھے کھانے کی دعوت بھی دی، مگر میں نے ھنس کر کہا کہ جی نہیں ، اس خوشی میں مجھے کھانا بھی میرے بھائی پراچہ صاحب ھی کھلائیں گے-

چند سال پہلے ایک دن میں کالاباغ بازار میں سے گذررھا تھا تو پراچہ صاحب کا ایک صاحبزادہ (حمید تھا یا مطیع ، اب یاد نہیں آرھا) مجھ سے گلے مل کر زاروقطار روتے ھوئے کہنے لگا “ انکل، آپ کو دیکھ کر ابو یاد آ گئے- بہت پیار تھا انہیں آپ سے“-

بچے کی اس بات کا جواب چندآنسو ھی تھے، جو میری آنکھوں سے ٹپک کر زمین میں جذب ھو گئے- —- منورعلی ملک

 میرااپنا ایک اور پرانا شعر، اپنے قلم سے

No automatic alt text available.

21 مارچ2017

 میرامیانوالی/ میرا داؤدخیل ——-

ضلع میانوالی کے مشہورومقبول ٹیچرز کا ذکر ھو رھا تھا- میں نے آغاز ھی میں واضح کر دیا تھا کہ صرف ان محترم ٹیچرز کا ذکر کروں گا جنہیں میں ذاتی طور پہ جانتا ھوں- ان میں ایک اھم شخصیت اسلامیہ ھائی/ ھائرسیکنڈری سکول داؤدخیل کے پرنسپل عبدالغفورخان نیازی بھی ھیں-

داؤدخیل سکول میں پہلی سے دسویں کلاس تک عبدالغفورخان میرے کلاس فیلو رھے- ھر امتحان میں کلاس میں اول یہی آتے تھے- میٹرک کے بعد میں نے گارڈن کالج راولپنڈی میں داخلہ لے لیا، غفور خان گورنمنٹ کالج میانوالی کے سٹوڈنٹ بن گئے- یہاں سے بی اے کرنے کے بعد سنٹرل ٹریننگ کالج لاھور سے بی ایڈ کر کے محکمہ تعلیم سے وابستہ ھوگئے-

عبدالغفور خان سینیئرانگلش ٹیچر کی حیثیت میں بہت عرصہ گورنمنٹ ھائی سکول تلہ گنگ میں رھے- تلہ گنگ میرے سسرال کا شہر ھے، اس لیے وھاں بھی غفور خان سے ملاقاتیں ھوتی رھیں- وھاں بھی عبدالغفور خان بہت مشہورومعروف ٹیچر شمار ھوتے تھے— پھر یہ سنٹرل ماڈل ھائی سکول میانوالی میں آگئے٠ یہاں سے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کی حیثیت میں ریٹائر ھوئے- چوھدری محمد رضی اور لالو نورخان قتالی خیل کی طرح عبدالغفور خان بھی انگلش کے بہت باکمال ٹیچر ھیں- آج کل داؤدخیل میں اپناتعلیمی ادارہ چلارھے ھیں- بہت بااصول انسان اور کامیاب ایڈمنسٹریٹر ھیں-

معززومحترم ٹیچرز کا ذکر مکمل ھؤا- پوسٹس کی شکل میں جوکچھ سمیٹ سکا لکھ دیا- کچھ باتیں یاد نہ آسکیں، ان کے لیے معذرت٠ کل سے انشاءاللہ کسی اور موضوع پر بات ھوگی- —– منورعلی ملک-22 مارچ2017

 میرامیانوالی / میرا داؤدخیل ——

Image may contain: sky, mountain, nature and outdoor

زمین کی سطح کے لحاظ سے ضلع میانوالی کو قدرت نے تین واضح حصوں میں تقسیم کر رکھا ھے- ضلع کا شمال مشرقی کنارا پہاڑی علاقہ ھے- پہاڑ کے دامن سے لے کر دریائے سندھ کے کنارے تک کا علاقہ تھل کہلاتا ھے- اور دریا کے کنارے کا علاقہ کچہ کے نام سے معروف ھے- کچہ کا کچھ ذکر پہلے ھو چکا، آج تھل پر ایک نظر ڈالتے ھیں-

سرائیکی وسیب میں تو لفظ تھل ویران صحرا کے لیے استعمال ھوتا ھے- سسی کاقصہ اسی تھل کی داستان ھے- ضلع بھکر کا تھل صحرا ھؤا کرتا تھا، لیکن اب وہ بھی نہری علاقہ بن چکا ھے – لالا سونا خان بے وس کا گاؤں دلیوالہ اس تھل کا مرکز تھا، مگر اب وہ بھی اچھا خاصا شہر بن گیا ھے- نہر تھل پراجیکٹ اسی علاقے کو آباد کرنے کے لیے بنائی گئی- نہر نے اس علاقے کا حلیہ ھی بدل کے رکھ دیا-

ضلع میانوالی کا موجودہ تھل وھی ھے جو اس پوسٹ میں شامل پکچر میں نظر آرھا ھے- نہر اور ٹیوب ویلز نے اس ویرانے کو گلزار بنا دیا ھے- ضلع کے تمام بڑے شہر اس تھل میں واقع ھیں- داؤدخیل اور میانوالی بھی تھل کے شہر ھیں- تھل اور کچہ کا اپنا اپنا کلچر ھے- زبان اور رسم و رواج میں بھی معمولی سا فرق ھے-

مگردریا کی سالانہ زور آزمائی اور چشمہ بیراج کی تعمیر کے باعث کچہ کی زیادہ تر آبادی تھل کے علاقوں میں منتقل ھو چکی ھے، اس لیے تھل کی رونق کچھ اور بڑھ گئی ھے- اللہ آباد رکھے آج کا تھل آباد تھل ھے- ——- منورعلی ملک-23 مارچ2017

 میرا گھر، میری جنت —

Image may contain: sky and outdoor

 پاکستان زندہ باد
سوھنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد-23 مارچچ2017

 میرا میانوالی ——-

ضلع میانوالی کا پہاڑی علاقہ عیسی خیل کے قریب مٹھہ خٹک نامی گاؤں سے شروع ھوکر کالاباغ کے جنوب مشرق میں ککڑانوالہ تک پھیلا ھؤا ھے- ککڑانوالہ سے دریا ئے سندھ پہاڑ کو کاٹ دیتا ھے- مگر دریا کے جنوبی کنارے پر ماڑی شہر سے یہ سلسلہ پھر چل نکلتا ھے-

Image may contain: outdoor and nature

دریائے سندھ کے دائیں جانب پہاڑی علاقے میں مٹھہ خٹک، مکڑوال، ملاخیل، گلاخیل، زیڑی، ٹولہ منگ علی، کوٹکی، چاپری ، ٹولہ بانگی خیل ، تبی سر، کالاباغ ، ککڑانوالہ اورکئی اور چھوٹی چھوٹی آبادیاں ھیں- کالاباغ اور ککڑانوالہ کے سوا باقی تمام آبادیوں کی زبان پشتو ھے- تبی سر سے چند کلومیٹر شمال میں خیبرپختونخوا کی سرحد ھے- کالاباغ سے ایک سڑک ادھر سے ھو کر کوھاٹ جاتی ھے- ضلع میانوالی کے اس علاقے کا ایک اپنا کلچر ھے- بہت بہادر، مہمان نواز اور دوست نواز لوگ ھیں-

ماڑی شہر سے آگے پہاڑی علاقے کی آبادی میں بنی افغاناں، اینواں، خیرآباد، سونکاں، سوانس ، غنڈی، بوری خیل اور چھدرو کا کچھ علاقہ پہاڑ کے مغربی پہلومیں اور چکڑالہ ، تھمے والی کے علاقے کی بہت سی بستیاں پہاڑ کے مشرقی پہلو میں واقع ھیں- اس تمام علاقے میں میانوالی کی عام زبان بولی جاتی ھے- پہاڑ کے پار چکڑالہ وغیرہ کے علاقے میں ضلع اٹک اور چکوال کی پوٹھوھاری زبان بولتے ھیں-

تھل کی طرح یہ پہاڑی علاقہ بھی ماشاءاللہ خاصا ترقی یافتہ ھے- ٹرانسپورٹ کی سہولتیں شہروں اور دیہات کے فرق کو بہت تیزرفتاری سے مٹاتی جا رھی ھیں — ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ ماچس اور نسوار جیسی چیزیں لینے کے لیے بھی لوگوں کو کالاباغ یا میانوالی جانا پڑتا تھا- اب وہ بات نہیں رھی- چند گھروں پر مشتمل چھوٹے چھوٹے دیہات میں بھی دوچار دکانیں موجود ھیں, جہاں روزمرہ ضرورت کی تمام چیزیں مل جاتی ھیں– منورعلی ملک-24 مارچ2017

 اپنا شعر، اپنا قلم —No automatic alt text available.

24 مارچ2017

 میرا میانوالی / میرا داؤدخیل —-

میں تو دیکھ کر حیران رہ گیا-

دوتین سال پہلے کی بات ھے، میں کچھ دنوں کے لیے اپنے گھر داؤدخیل آیا تو وھاں کے معروف ماھرین تعلیم، غلام عباس اعوان، فیض محمد فانی صاحب اور سید نوید رضاشاہ نے مجھے “الباسط ھوٹل“ پہ دوپہر کے کھانے کی دعوت دی – اس وقت تک میں نے الباسط ھوٹل نہیں دیکھا تھا،
ھم نوید رضا شاہ کی گاڑی میں گھر سے نکلے- میرے بھائی ملک فرحت عباس اور رضوان بیٹاا بھی میرے ھمراہ تھے-

نہر کے پل دس ھزار کے قریب سڑک کے دائیں جانب ایک عالیشان عمارت، اس کے سامنے پارکنگ شیڈ ، عمارت کے بائیں جانب رنگارنگ گلاب کے پھولوں سے آراستہ خوبصورت لان ، بہت سلیقے سے آراستہ میزیں اور کرسیاں — یہ ھے داؤدخیل کا الباسط ھوٹل-

خاصے وسیع ائیر کنڈ یشنڈ ھال میں داخل ھوئے تو ھوٹل کا حسن انتظام دیکھ کر دل خوش ھوگیا- سب کچھ بالکل جدید فیشن کے مطابق، سمارٹ وردی میں ملبوس مہذب، شائستہ نوجوان ویٹرز، ھروقت اشارے کے منتظر- مینوکارڈ پرقسم قسم کے کھانوں کی پیشکش، ساتھ ایک چھوٹا سا خوبصورت کارڈ مہمانوں کی رائے معلوم کرنے کے لیے۔— نہایت عمدہ کھانا—– مجھے تو یقین نہیں آرھا تھا کہ یہ سب اھتمام میرے داؤدخیل میں بھی میسر ھے- یہاں توشہر کے محلہ داؤخیل میں چاچے مموں کی چائے کی دکان ھی شہر کا اکلوتا ھوٹل ھؤا کرتی تھی- جہاں چند بے فکرے نوجوان دن بھر چارپائیوں پر پڑے مکھیاں مارتے رھتے تھے- ایک دو ٹوٹٰی پھوٹی میزیں بھی ان چارپائیوں کے سامنے رکھی ھوتی تھیں-

ریلوے سٹیشن پرچاچاعلی خان بہرام خیل، چاچا بہادر خان اوردوتین اور چاچوں کے چائے والے ھوٹل بھی تھے- وھاں بھی چارپائیوں پر دوچار پکے گاھک ھی دن بھر جمے رھتے تھے- ایک آدھ ھوٹل پر حقے کی سہولت بھی موجود تھی- مگر اب اسی داؤدخیل میں الباسط جیسا ماڈرن ھوٹل ، معجزہ سا لگتا ھے،

فی الحال کچھ اور کام کرناھے- الباسط ھوٹل کے بارے میں مزید معلومات انشاءاللہ کل بتاؤں گا-

Image may contain: one or more people, people standing, sky, house and outdoor

( پکچر، شاھدانورخان نیازی داؤد خیل )-25 مارچ2017

 میرامیانوالی/ میرا داؤدخیل —–

Image may contain: people sitting, plant, flower, sky, table, outdoor and nature

الباسط ھوٹل شہر سے باھر کھلی فضا میں واقع ھے- یہ ھوٹل داؤدخیل کے قریبی گاؤں خیرآباد کے ملک طارق اقبال نے تعمیر کرایا- ملک طارق اقبال کے شاعرانہ ذوق کی داد دینی چاھیے، سنا ھے کہ انہوں نے اس ھوٹل کی تعمیر اور آرائش پر تین کروڑ روپیہ خرچ کیا جو وہ بیرون ملک سے کما کر لائے تھے- کوئی اور ھوتا تو اتنی بڑی رقم کسی اور کاروبار میں لگاتا، مگر ملک طارق نے ایک ویرانے میں یہ خوبصورت ھوٹل تعمیر کردیا-
اگرچہ الباسط ھوٹل شہر سے خاصا دور ھے، پھر بھی مالک کے لیے خسارے کا سودا نہیں- سکندرآباد کی فیکٹریز کے انجینیئر اور افسر لوگ یہاں فیملیز کے ھمراہ روزانہ آتے ھیں- ھوٹل کے خوبصورت لان میں فیملی ڈنر کا ایک اپنا مزا ھے- پچھلے سال میں نے بھی یہاں مظہر اور اکرم بیٹے کو فملی لنچ دیا تھا- ان میں سے ایک صاحب لاھور میں رھتے ھیں ، دوسرے اسلام آباد میں- دونوں یہاں آکر بہت خوش بھی ھوئے، حیران بھی, کیونکہ یہاں کا ماحول، آرائش، فرنیچر، کراکری (برتن وغیرہ)، سروس، کھانا ، سب کچھ لاھور اور اسلام آباد کے معیار کاھے،،-

اس ھوٹل میں شادی ھال کی تمام سہولیات بھی موجود ھیں- گردونواح کے صاحب حیثیت لوگوں کے ولیمے یہیں منعقد ھوتے ھیں-

ھوٹل کی بالائی منزل پر چودہ ائیر کنڈیشنڈ رھائشی کمرے بھی ھیں- اردو میں ایک ًمحاورہ جنگل میں منگل استعمال ھوتا ھے- یہاں کوئی جنگل تو نہیں ھے ، مگر منگل (رونق) دیکھنے کے لائق ھے- —– منورعلی ملک —

×××× انعام خان اور ظفراللہ خان نے اپنے کمنٹس میں بتایا ھے کہ الباسط ھوٹل ملک طارق اقبال نے اپنے والد کی کمائی سے بنایا- ان کے والد ملک باغ علی بہت نیک دل اور ایمان دار انسان تھے- اللہ انہیں جزائے خیر دے- ھوٹل کی تعمیر بہرحال ملک طارق اقبال ھی نے کرائی- طارق اس وقت داؤدخیل رورل یونین کونسل کے وائس چیئرمین ھیں– درست معلومات فراھم کرنے پر انعام خان اور ظفراللہ خان کا بہت شکریہ- 26 مارچ2017

 میرامیانوالی/ میرا داؤدخیل ——————-

میرے قلم پر بہت سا حق میرے سٹوڈنٹس کا بھی ھے- اس لیے آج کی پوسٹ ان سب کے نام –

No automatic alt text available.اللہ سلامت رکھے میرے یہ بچے ھزاروں کی تعداد میں ھیں- ان میں ڈاکٹرز بھی ھیں ، انجینیئرز بھی، وکیل بھی, پروفیسر بھی، کلرک اور افسر بھی – تاجر اور سیاستدان بھی- بہت سے ایسے بھی ھیں جو غریبی یا کسی اور وجہ سے کچھ بھی نہ بن سکے- میرے لیے میرے یہ سب بچے برابر ھیں، کیونکہ سب مجھ سے محبت اور میرا احترام کرتے ھیں- کچھ ایسے بھی ھیں جو اپنی دوسری مصروفیات کی وجہ سے کلاس میں کم ھی نظر آتے تھے، اس لیے وہ مجھ سے کچھ حاصل تو نہ کر سکے، پھر بھی جہاں مل جائیں، میری خدمت کرنے میں فخر محسوس کرتے ھیں-
بنک ھو یا پوسٹ آفس۔ تھانہ ھو یا کچہری، مجھے کہیں بھی لائین میں نہیں لگنا پڑتا، ھرجگہ میراا کوئی نہ کوئی بیٹا میری خدمت کے لیے موجودھے- تیس چالیس سال پرانے سٹوڈنٹس بھی یوں ملتے ھیں جیسے وہ آج بھی میری کلاس میں ھوں-

اکثر سوچتا ھوں کہ ان بچوں کو پڑھا کر میں نے ان پر کوئی احسان تو نہیں کیا- اس کام کی تو مجھے تنخواہ ملتی تھی- پھر بھی یہ بچے مجھے اتنی عزت دیتے ھیں- مجھے تو ان کے نام بھی یاد نہیں- یہ بچے جانتے ھیں کہ میں نے کلاس میں کبھی کسی بچے سے اس کانام نہیں پوچھا- حاضری میں کبھی لگاتا ھی نہیں تھا، کلاس میں یا کلاس سے باھر بچوں سے کبھی گپیں بھی نہیں لگاتا تھا، اپنے کام سے کام رکھتا تھا- اس لیے کئی بچے دوتین سال میری کلاس میں رھے، مگر مجھے ان میں سے کسی کانام معلوم نہیں- کہیں مل جائیں تو خود ھی تعارف کرا تے ھیں کہ سر میں آپ کا سٹوڈنٹ ھوں ، فلاں سال میں آپ کی کلاس میں تھا-

بچوں کی اس قدر محبت میں میرا کوئی کمال نہیں- اچھا میں نہیں، میرے یہ بچے ھیں- اللہ ان سب کو سلامت رکھے ، مجھے ان پر فخر ھے- ان میں بعض ایسے بھی ھیں کہ والدین کی بات نہیں مانتے تھے تو ان کے والدین مجھ سے کہتے تھے- اور یہ میری بات مان لیتے تھے- دل تو چاھتاھے کہ اہنے ھر بچے پر ایک الگ پوسٹ لکھوں، مگر ھزاروں پوسٹس لکھنے کی ھمت کہاں سے لائوں- اس لیے ایک ھی پوسٹ میں سب کو یاد کر لیا- مقصد ان کے لیے دعا کرنا تھا، اور انہیں یہ بتانا تھا کہ میں آپ کو بھولا نہیں ——- منورعلی ملک- 27 مارچ2017

میرا میانوالی میراداؤدخیل ——– 2
عزیز دوستو، السلام علیکم ورحمتہ اللہ –
آج صبح کی پوسٹ میں آپ کی دلچسپی دیکھ کر جی خوش ھو گیا-
الحمدللہ، مجھے اس موضوع پر پورا عبور حاصل ھے- میں جانتا ھوں کہ زبان میں ھر چند کلومیٹرر کے بعد کچھ فرق ضرور آجاتا ھے- بلکہ آپ یہ سن کر حیران ھوں گے کہ داؤدخیل شہر کے شمالی (اتلا شہر) اور جنوبی حصے (تلواں شہر ) کی زبان میں بھی معمولی سا فرق ھے- جنوبی حصے کے لوگ “ او آیا ھئی“ کہتے ھیں اور شمالی حصے کے لوگ “ او آیا ھا “ کہتے ھیں

زبانوں کا تجزیہ کرتے ھوئے میں ھرزبان سے ایک دو مثالیں ھی دے سکتا ھوں- آپ سے یہ کہنا ضروری سمجھتا ھوں کہ کمنٹس میں کسی زبان کا مذاق نہ اڑائیں- یہ سب زبانیں میانوالی/ پاکستان کی ھیں، اس لیے ان کا مذاق اڑانا میانوالی اور پاکستان کا مذاق اڑانا ھے، جس کی اجازت میں نہیں دے سکتا-

انشاءاللہ پوسٹس کا یہ سلسلہ بہت دلچسپ ھوگا ——- منورعلی ملک-28 مارچ2017

 میرامیانوالی / میراداؤدخیل ————-

No automatic alt text available.

کسی بھی زبان پر بحث کرتے وقت یاد رکھنا چاھیے کہ دریاؤں کی طرح زبانیں بھی صدیوں سے رواں دواں ھیں- مختلف علاقوں کے لوگوں کے آپس میں میل ملاپ سے ھر زبان میں نئے الفاظ شامل ھوتے رھتے ھیں- جیسے ھماری زبان میں انگریزی کے سینکڑوں الفاظ آگئے ھیں، اور ابھی یہ سلسلہ جاری ھے- سوشل میڈیا نے اس عمل کوبہت تیز کر دیا ھے- اسی طرح ھماری زبانوں کے کئی الفاظ انگلش میں شامل ھوئے- ان کے بارے میں انشاءاللہ بعد میں بتاؤں گا- فی الحال ذکر ھو رھا ھے ضلع میانوالی کی زبان کا-

یہاں کی سرائیکی زبان میں عربی ، فارسی اور انگریزی کے علاوہ ھندی، ھندکو(ھزارہ وغیرہ کے علاقے کی زبان) اور اردو کے بے شمار الفاظ بھی شامل ھیں- پشتون علاقے کے لوگ صوبہ پنجاب کی ھرزبان کو ھندکو کہتے تھے،

کل عیسی خیل کے علاقے کی زبان کا مختصر ذکر ھؤا- آج آگے چلتے ھیں –

کمر مشانی سے لے کر کوٹ چاندنہ اور پھرداؤدخیل سے جنوب مشرق میں سوانس غنڈی وغیرہ، اور جنوب مغرب میں تری خیل ، بلکہ روکھڑی تک میں ایک ھی زبان بولی جاتی ھے- کچھ مقامی الفاظ ھر گاؤں اور شہر میں ھوتے ھیں، لیکن مجموعی طور پراس تمام علاقے کی زبان ایک ھے- جس کی پہچان یہ ھے کہ کریندا، کردا اور لکھیندا ، لکھدا کی بجائے اس علاقے کے لوگ کرینا اور لکھینا بولتے ھیں- واللہ اعلم یہ فرق کیوں ھے، مگر ھے ضرور-

کالا باغ، ماڑی انڈس اور کندیاں کی زبان دوسرے علاقوں کی زبان سے کچھ مختلف ھے- تفصیل بعد میں بتاؤں گا- بہت سی دلچسپ باتیں ھیں، کوشش یہ ھے کہ کوئی علاقہ نظرانداز نہ ھو- —— منورعلی ملک- 29 مارچ2017

 میرا میانوالی / میراداؤدخیل ————-

No automatic alt text available.

میانوالی شہر اور اس کے نواحی دیہات شہبازخیل، وتہ خیل، سہراب والا، بٹیاں ، جھامبرہ ، گلمیری وغیرہ کی زبان ایک ھے- معمولی سے فرق کے ساتھ موسی خیل اور چھدرو کے علاقے میں بھی یہی زبان بولی جاتی ھے-

واں بھچراں، شادیہ وغیرہ کی زبان میں خوشاب ، سرگودھا کی زبان کا اثر واضح نظر آتا ھے- مثلا اس علاقے کے لوگ “ کریندا، لکھیندا کی بجائے کریں دا ، لکھیں دا kareenda , likheenda اور مینوں کی نجائے مین men بولتے ھیں – اسی طرح کئی اور الفاظ بھی خوشاب سرگودھا کیی زبان کے وھاں بولے جاتے ھیں-

تحصیل میانوالی کا جو علاقہ پہاڑ کے پار واقع ھے وہ مسان سے لے کر نمل تک پھیلا ھؤا ھے- یہ تمام علاقہ اعوان بیلٹ کہلاتا ھے، کیونکہ یہاں آبادی کی غالب اکثریت اعوان ھے- اس علاقے کی زبان اور کلچر ضلع اٹک اور چکوال سے زیادہ مشابہہ ھے- اس کا تفصیلی ذکر انشاءاللہ کل ھوگا-

ضلع میانوالی کا مفصل نقشہ فراھم کرنے کے لیے ڈاکٹرمحمدظہیرالدین اور بیٹے ذکاء ملک کا ممنون ھوں- پوسٹ میں ذکاء کا بھیجا ھؤا نقشہ شامل ھے- اس میں کچھ اھم معلومات بھی دی گئی ھیں-

——- منورعلی ملک-30  مارچ2017

 میرامیانوالی / میرا داؤدخیل —————

No automatic alt text available.

مسان سے نمل تک کا علاقہ اعوان بیلٹ (پٹی) کہلاتا ھے- یہ بیلٹ دراصل اعوان کاری (اعوان وسیب ) کا ایک حصہ ھے- اعوان کاری کا اصل مرکز ضلع اٹک کی تحصیل پنڈی گھیب تھا- وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ آبادی میں اضافہ ھؤا تو اعوان کاری اٹک، تلہ گنگ ، چکوال، ضلع میانوالی کے اس علاقے، اور ضلع خوشاب کی وادی سون سکیسرتک پھیل گئی- ویسے تو ضلع جہلم اورسیالکوٹ میں بھی بہت سے اعوان بستے ھیں، بلکہ اب تو پورے پاکساتن میں ھر جگہ موجود ھیں، لیکن ان کی اکثریت اعوان کاری ھی میں آباد ھے-
اعوان کاری کی اپنی زبان اور کلچر ھے- یہ زبان پوٹھوھارکے خطے کی زبان ھے جو جہلم سےے راولپنڈی تک پھیلا ھؤا ھے- جہلم اور پنڈی کی پوٹھوھاری زبان میں کشمیری زبان کے الفاظ بھی بکثرت استعمال ھوتے ھیں- ضلع میانوالی کی اعوان بیلٹ میں میانوالی کی سرائیکی زبان کا اثربھی نظرآتا ھے، مگر مجموعی طور پر اعوان بیلٹ کی زبان میانوالی کی زبان سے خاصی مختلف ھے- یہ زبان چکڑالہ، تھمے والی، رکھی کلری ڈھوک برتھال، ڈھوک علی خان ، نمل اور اس علاقے کے کئی دوسرے چھوٹے بڑے دیہات میں بولی جاتی ھے- اس کے نمایاں خدوخال یہ ھیں-
ھم ، اساں —– اسی
ھمارا ، ساڈا —– سڈا (sidda)
آپ کا ، تہاڈا —— سڈا (sudda)
اسے، اس نوں —- اساں (usaan)
مجھے ، میکو، میکوں، یا مینوں —– ماں

ایسی بہت سی اور مثالیں بھی ھیں، مگر فی الحال یہی کافی ھیں ——— منورعلی ملک-31مارچ2017

شعر میرا ———
آرائش ، لیاقت حیات خان نیازی

Image may contain: sky, cloud and nature

31 مارچ2017

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top